میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 22
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_22
فیضان کو باپ کی موت کی خبر دے دی گئی وہ سکندر کے ساتھ پاکستان پہنچ چکا تھا اس کی باپ سے وابستگی کو سب جانتے تھے وہ خود بھی رویا تھا اور دوسروں کو بھی رلا رہا تھا اگر کوئی خاموش تھا تو وہ تھا شہاب ـ وہ آگے کی سوچ رہا تھا اسے اپنی فتح بہت قریب نظر آرہی تھی حویلی کے معاملات سے فیضان کو کیسے الگ کرنا ہے یہ وہ بخوبی جانتا تھا اس کے ساتھ ساتھ اسے ایاز کی راہ بھی ہموار کرنی تھی اور یہ موقع اسے بہت جلد مل گیا چالیسویں کے بعد وہ خود چل کر فیضان کے پاس گیا فیضان حیران سا ہوتا احتراماً اٹھ کھڑا ہوا
"آؤ بیٹھو کچھ بات کرنی ہے " وہ سامنے ہی بیٹھ گیا
"جی "
"آگے کا کیا سوچا تم نے "شہاب نے بات کا آغاز کیا لہجہ مٹھاس سے لبریز تھا اور چہرہ غمگین
"کیا مطلب ؟؟"وہ نا سمجھی سے اسکا چہرہ دیکھنے لگا
" میرا مطلب ہے کہ جائیداد کے معاملات دیکھو گے یا وہیں ـ ـ باہر کی نوکری ہی کرو گے ؟؟"
"میں نے ابھی کچھ سوچا نہیں اس بارے میں ـ ـ ابھی تو مجھے یقین ہی نہیں آ رہا کہ بابا مجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں "فیضی کا لہجہ ٹوٹا بکھرا سا تھا
"زندگی میں رکا تو نہیں جاتا ـ ـ ـ مرنے والوں کے ساتھ مرا بھی نہیں جاتا "وہ اپنی ناپسندیدگی چھپاتے ہوئے اسے سمجھانے کے انداز میں بولا
"جی شاہد ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ ـ ـ یہاں کےمعاملات آپ ہی دیکھ لیں مجھے تو کچھ پتا بھی نہیں ہے "اس نے نرمی سے کہا شہاب کو لگا اسے ہفت قلیم مل گئی ہو مگر اس نے خوشی کو ظاہر نہ ہونے دیا اور ساتھ ہی تہمی کے رشتے کی بات شروع کر دی
"ایاز ـ ـ اور ـ ـ تہمی "فیضان حیران رہ گیا "یہ کچھ نامناسب نہیں ہے ؟؟"
"نامناسب والی کیا بات ہے ـ ـ بابا نے خود کہا تھا مگر وقت نے انہیں مہلت نہ دی اور ایاز کو بھی تم جانتے یو اچھا لڑکا ہے " شہاب نے بڑی روانی سے جھوٹ بولا جواب اسکی توقع کے مطابق آیا تھا
"بابا نے کہا تو میں کون ہوتا ہوں اعتراض کرنے والا جو آپ مناسب سمجھیں "اس کی رضامندی نے شہاب کی اگلی راہ بھی ہموار کر دی
☆☆☆☆☆☆☆
مجیب درانی اور ان کی بیگم کی وفات پر فیضان اور سکندر نواب ولا چلے گئے شہاب کو موقع مل گیا تھا کھل کر کھیل کھیلنے کا اس نے فوراً سے بیشتر ایاز اور تہمی کا رشتہ طے کر دیا نکاح کی تاریخ زمان کے نکاح کے ساتھ دو ماہ بعد کی رکھی گئی تھی ہما کو کچھ گڑ بڑ کا احساس ہوا
"یہ آپ کیا کر رہے ہیں شہاب؟؟"
"کیا کیا ہے میں نے ؟؟"شہاب نے تیکھے لہجے میں پوچھا
"اتنی جلدی کیا ہے شادی کی ابھی تو خالو کی وفات کو بھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا "اس کی سیدھی بات نے شہاب کا پارہ ہائی کر دیا
"بکواس بند کرو تمہیں کس نے اجازت دی میرے معاملے میں بولنے کی "شہاب نے اسے چٹیا سے پکڑ لیا
"میں ـ ـ تو ـ ـ "بات اس کے گلے میں ہی اٹک گئی دروازے پر دستک ہوئی شہاب نے جھٹکے سے اس کے بال چھوڑے
"آج کے بعد بکواس کی تو زبان کاٹ دوں گا "دھیمے مگر سخت لہجے میں تنبیہہ کر کے وہ باہر کی سمت بڑھ گیا ہما آنسو پیتی خاموشی سے اس کی پشت دیکھتی رہ گئی
☆☆☆☆☆☆☆
فیضان نے اسے محبتوں کے ساۓ میں رخصت کیا اس کی دائمی خوشیوں کی دعا دیتے ہوئے اسنے ایک لمحے کو بھی نہ سوچا تھاکہ اس کی معصوم بہن کو یہ دعائیں راس نہ آنی تھیں ہر لڑکی کی طرح وہ بھی نئی زندگی کے بہت سے سہانے سپنے پلکوں پر سجا کر آئی تھی جسے ایاز نے بڑی بے رحمی سے پاؤں تلے روند دیا
پہلے ہی دن نشے میں دھت ایاز نے اس کی نسوانیت کے پرخچے اڑا دیئے اس نے صاف الفاظ میں تہمی کو باور کروا دیا کہ حمیرا کا نشہ اس کے سر چڑھ کر بول رہا ہے
"تجھے پتا مجھے کون پسند ہے ؟؟"اس نے تہمی کے کندھے پر ہاتھ مارا وہ ڈر کر دو قدم پیچھے ہوئی
"تیری بھابھی "اس نے تہمی کی طرف اشارہ کر کے بتایا
"حمیرا مجھے بھی پسند ہے اور تیرےبھائی کو بھی ـ ـ فیضان کو نہیں ـ ـ شہاب کو "اس حقیقت پر تہمی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں "ویسے ہے تو ..تو بھی بہت خوبصورت "اسنے اپنی لال آنکھوں سے اسے گھورا وہ خوفزدہ سی ہچکیوں سے رونے لگی
"رو کیوں رہی ہے؟؟ ہاں ؟؟کون مر گیا تیرا ؟؟ اب تو میری اجازت کے بغیر نہیں روے گی ..سنا تو نے... نہ ہنسے گی نہ روے گی.. سمجھی "
"جی "تہمی نے سہم کر سر ہلادیا
☆☆☆☆☆☆
فیضان ایک بار پھر چلا گیا حمیرا نے اس بار اسے روکنے کی کوشش نہ کی اسے فیضان سے جس قسم کی محبت چاہئے تھی وہ نہ مل رہی تھی فیضان کو بچوں سے شدید محبت تھی ہر روز سکائپ پر جوجو سے گھنٹوں باتیں کرتا نہ تھکتا تھا فیضان نے کبھی حمیرا سے اونچی آواز میں بات نہ کی تھی وہ محبت سے ذیادہ اس کی عزت کرتا تھا مگر حمیرا کو یہ سب نہ چاہئے تھا تبھی اس کی نظر التفات کا رخ ایاز کی جانب ہو گیا حمیرا کے ساتھ ایاز کی ملاقاتیں روز ہونے لگیں دوسری طرف تہمی پر دائرہ زندگی تنگ ہو گیا پہلے پہل بات صرف لفظی مار تک کی تھی اب ایاز ہاتھ اٹھانے سے بھی دریغ نہ کرتا تھا اب بھی ایسا ہی ہوا وہ باہر سے لوٹا تو تہمی کو چاے کا کہہ کر کمرے میں چلا گیا تہمی نے چاے بنائی مگر چینی شاید کم تھی ایاز نے سارا کپ اس پر الٹ دیا گرماگرم چاے نے اسے تڑپا کر رکھ دیا
"چاۓ بھی نہیں بنانی آتی تجھے جاہل کام چور عورت "ایاز نے اس کی تکلیف کو نظر انداز کر کے کہا "سارا دن کرتی کیا رہتی ہے تو کہیں میرے پیچھے سے باہر تو نہیں نکل جاتی "وہ اس پر الزام لگا رہا تھا مگر خود اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوششش نہ کی تھی
وہ نفرتوں کا سوال کرے
محبتوں کا جواب مانگے
کہ میرے حصے میں کانٹے لکھ کر
وہ مجھ سے تازہ گلاب مانگے
یہ چاہتوں کے کڑی مسافت
چلیں ہے تنہا شکست خوردا
کوئی تو میرا بھی درد جانے
کوئی تو اس سے حساب مانگے
☆☆☆☆☆☆☆
"کب شادی کرو گے مجھ سے ؟؟"حمیرا نے ایاز کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا
"بہت جلد میری جان "وہ اس کا ہاتھ تھام کر مسکرایا
"کب تین ماہ سے یہی سن رہی ہوں ـ ـ ـ جوجو بڑا ہو رہا ہے اب تو ملاقاتیں کرنے سے بھی ڈر لگتا ہے "
"افوہ یار بس یہ بچہ دنیا میں آ جائے پھر تم سے شادی کر لوں گا "
"تہمی کو چھوڑ دو گے ؟؟"
"نہیں ـ ـ وہ بھولی سی ہے ہمارے درمیان نہیں آۓ گی "
"مگر میں کسی دوسری عورت کو برداشت نہیں کر سکتی اور تمہیں بچے کی اتنی کیا ٹینشن ہے ایسا نہ ہو بچے کے بعد تمہارا دل میری طرف سے پھر جائے "
"ایسا ممکن ہی نہیں ـ ـ بس میں اپنا بیٹا کھونا نہیں چاہتا اور تہمی کو ڈاکٹر نے ٹینشن فری رہنے کو کہا ہے بس کچھ ماہ صبر کر لو " وہ آنکھ دبا کر ہنس دیا حمیرا نے ذہن کو فیضان کی طرف کر لیا اب اسے سوچنا تھا کہ فیضان سے کیسے جان چھڑانی ہے جسکا دل اسکی سردمہری کے باوجود بھی سخت نہ ہو پایا تھا
☆☆☆☆☆☆☆☆
ندرت اور وقار کی شادی سے کچھ ہی دن قبل فیضی اور سکندر پاکستان آۓ تھے فیضی سجاددرانی کے بے حد اصرار پر حمیرا اور بچوں کو لے کر نواب ولا گیا جہاں ان کا شایان شان استقبال کیا گیا سب بہت اچھے سے ملے مگر صبی سب سے ذیادہ چہک رہی تھی وہ فیضان کو اپنا بھائی سمجھ کر ٹریٹ کر رہی تھی مگر حمیرا کے دماغ میں شک کا کیڑا بیدار ہونا شروع ہو گیا اسے جہاں کوئی خود سے بہتر نظر آتا وہ یونہی جل جاتی تھی اب بھی ایسا ہی ہوا اور یہیں سے فیضان کی بربادی کا دور شروع ہوا
☆☆☆☆☆☆☆
"سکندر بھائی مجھے آپ سے بات کرنی ہے "اس نے لاوٴنج سے گزرتے سکندر کو مخاطب کیا
"جی بھابھی " وہ اس کے سامنے بیٹھ گیا
" یہ صبوحی ـ ـ آئی مین آپ کی منگیتر ہے نا "سکندر ٹھٹھکا
"جی ہاں ـ ـ آپ کیوں پوچھ رہی ہیں ؟؟؟"
"آپ کی کوئی جذباتی وابستگی بھی ہے یا ؟؟؟"
"آپ صاف صاف بات کریں کیا کہنا چاہ رہی ہیں ؟؟"اب کے سکندر نے لہجہ سخت کیا وہ سیدھی ہوتی تھوڑا آگے کو جھکی
"ایکچولی بھائی بات ایسی ہے کہ مجھے شرم آرہی ہے کہتے ہوئے لیکن اگر اب بھی نہ کہوں گی تو خاموشی میرے لیے عذاب بن جائے گی فیضان ـ ـ ـ "وہ رکی سکندر سانس روکے اسے سن رہا تھا "فیضی ـ ـ صبوحی کو پسند کرتا ہے اور شاید صبوحی بھی "اس کے چہرے پر جھوٹ کا شائبہ تک نہ تھا وہ اتنی صفائی سے جھوٹ بول رہی تھی کہ سکندر کو اس کا یقین کرنا ہی پڑا
"آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے بھابھی "وہ اب بھی بے یقین
سا تھا
"آپ نہ مانیں مگر میں یہ سب صرف آپ کو ہی بتا سکتی ہوں آپ صبوحی کو روکیں اسے سمجھائیں میں اپنا گھر برباد نہیں کرنا چاہتی مجھے فیضان سے بے حد محبت ہے ـ ـ مجھے اکثر فیضی نے صاف صبوحی کا نام لے کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے میں جھوٹ کیوں بولوں گی ؟؟؟"وہ بڑی مہارت سے شک کا بیج سکندر کے دل میں بو چکی تھی اسے ساکت چھوڑ کر مسکراتی ہوئی اٹھ گئی وہ سنبھل کر اٹھا اور باہر کی جانب قدم بڑھاۓ
جب اسے صبوحی کے کھلکھلانے کی آواز آئی گردن موڑ کر دیکھنے پر اسے جھٹکا لگا صبوحی کے ہاتھ میں پائپ تھا جس سے وہ فیضان کو گیلا کر رہی تھی شک پر یقین کی مہر ثبت ہو چکی تھی اشتعال کو دل میں دباتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا
☆☆☆☆☆☆
اگلے دن فیضی اور حمیرا نواب ولا سے واپس آ گۓ واپسی پر اسے سکندر کہیں نظر نہ آیا فیضان نے کال کی تو نمبر بند ملا وہ پریشان ہو گیا ایسا پہلی بار ہوا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
تہمی کو ایاز نے گھر سے نکال دیا تھا
"اگر تجھے اپنے بچے کو زندہ رکھنا ہے تو جا اپنے بھائی کے پاس اور اسے کہہ کہ حمیرا کو طلاق دےدے جا "وہ نشے میں تھا تبھی محسوس نہ ہوا کہ کیا بول رہا ہے روتی دھوتی تہمی واپس شاہ حویلی آگئی یہاں اس نے کسی سے کوئی ذکر نہ کیا ہما اس کا بے حد خیال رکھنے لگی سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی شام میں جازم ایاز اس کی گود میں آ گیا وہ بے حد خوش تھی ننھے منے جازم کے وجود سے اسے کچھ عرصے کے لیے ہی سہی سارے غموں سے چھٹکارا مل گیا
#_____________________
" سکندر ....بیٹھو مجھے بات کرنی ہے " سجاددرانی نے سکندر کو بیٹھنے کا اشارہ کیا
"جی "وہ اکتاۓ ہوۓ لہجے میں بولا سجاددرانی نے بغور اسے دیکھا
"کیا بات ہے اتنا اکھڑے اکھڑے کیوں رہتے ہو......فیضان کا فون آیا تھا وہ شکایت کر رہاتھا کہ تم اس سے بات نہیں کرتے "آخری بات پر اس کے چہرے کے عضلات مزید تن گۓ
" میں کر لوں گا بات جب دل چاہے گا آپ بتاٸیں کیا کہنا آپ کو "لہجہ اب بھی ہنوز تھا
"ہوں"انہوں نے گہری سانس بھری
"میں اور تمہاری مما چاہتی ہیں کہ تمہارا اور صبوحی کانکاح بھی وقار اور ندرت کے ساتھ ہی کر دیا جاۓکیا خیال ہے تمہارا " اس کا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا جیسے وہ بہت ضبط کر کے بیٹھا ہو
"آپ نے صبوحی سے پوچھا " قدرے توقف کے بعد جوب موصول ہوا
"مجھے یقین ہے کہ وہ انکار نہیں کرے گی "انہوں نے پریقین لہجے میں کہا وہ مزید تپ گیا
"تو کیا آپ کو مجھ پر ہی یقین نہیں تھا "
"مجھے تم پر بھی یقین ہے مگر ٠٠
"اگر مگر کو چھوڑیں اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں انکار کر دوں گا تو بالکل ٹھیک لگتا ہے میں ایک بدکردار دھوکے باز اور منافق لڑکی سے ہرگز شادی نہیں کر سکتا "وہ بھڑک کر بولا اس کا چہرہ تپش چھوڑنے لگا تھا اس کے لفظوں نے چند لمحوں کو تو سجاد صاحب کو ساکت کر دیا
"کیا بکواس کر رہے ہو"
"ٹھیک کہہ رہا ہوں .....جانتے بھی ہیں آپ کس کو پسند کرتی ہے آپ کی اعلی ذہین دماغ والی بیٹی فیضان کو ٠٠٠آج کل اسی کے ساتھ چکر چلا رہی ہے ...آٸم سوری میں کسی ایسی لڑکی کو اپنا ہمسفر نہیں بنا سکتا جس کے دل میں کوٸی اور ہو "وہ دو ٹوک انکار کر گیا تھا نہ صرف انکار بلکہ اس کے کردار کو داغدا ر بھی کر گیا تھا سجاد صاحب کے پاس لفظ ختم ہو گۓ تھے
"تمہیں غلط فہمی ہوٸی ہے سکندر ...میں نہیں مانتا ...میں نہیں مانتا "وہ نفی میں سر ہلاتے صوفے پر سے اٹھے وہ بغیر کچھ کہےلمبے لمبے ڈگ بھرتا نکلتا چلا گیا
☆☆☆☆☆☆☆
"تہمی ایاز جازم کو دیکھنے کیوں نہیں آیا ... نام بھی تم نے اکیلی نے رکھ لیا " ہما کے پوچھنے پراس کے چہرے پر سایہ سا لہرایا
"یہ میرا بیٹا ہے آپی ... میں خود ہی نام رکھوں گی "وہ بھراۓ ہوۓ لہجے میں بولی فیضان جو جازم کو پیار کر رہا تھا چونک گیا
"کیا بات ہے تہمی "وہ پریشان سا پوچھنے لگا
"کچھ نہیں بھاٸی ..... وہ بس ایسے ہی "وہ گڑبڑا گٸ اپنے بھاٸی کو دل کے پھپھولے دکھاکر دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی
"مجھے بتاٶ کیا بات ہے "وہ اٹھ کر اسکے ساتھ آ بیٹھا
"وہ بس بابا کی یاد آ رہی تھی "اس نے بروقت بہانہ تراشا تبھی جوجو کی شرارتی آواز نے اس کی توجہ کھینچ لی
"پھوپھو دیکھیں جازم کا نوز بالکل میرے اور بابا جیسا ہے نا "اس نے جازم کی ناک چھو کر کہا تہمی سب بھلا کر ہسنے لگی اسے اپنا یہ بھتیجا بہت پیارا تھا بے اختیار ہی اسے کھینچ کر گلے سےلگا لیا
☆☆☆☆☆
سکندر کا انکار سب کےلیے کسی شاک سے کم نہ تھا صبی تک بھی اس کا انکار پہنچ چکا تھا اختلافات اور لڑاٸی اپنی جگہ مگر بچپن سے لے کر اب تک اس کی خوابوں کی دنیا کا شہزادہ اگر کوٸی تھا تو صرف سکندر تھا اس کے انکار نے اسے ہلا کر رکھ دیا پھر سب سے ذیادہ حیرت اسے تب ہوٸی جب سجاد صاحب نے اسے بلا کر اسکی پسند پوچھی
"بابا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں "وہ سنبھل کر بولی
"جو پوچھا ہے وہ بتاٶ"وقار نے غصے سے کہا سجاد صاحب کو برا تو لگا مگر خاموش رہنا مجبوری تھی
"مجھے کوٸی پسند ہوتا تو پہلے ہی بتا دیتی .... ایسی کوٸی بات نہیں ہے بابا یقین کریں "اس کے لہجے کی پختگی نے سجاد صاحب کو پھر سے زندہ کر دیا جو وہ سوچ رہے تھے ایسا کچھ نہ تھا یقیناً سکندر کو غلط فہمی ہوٸی ہے مگر ان کے سمجھانے کے باوجود سکندر نے ہامی نہ بھری بے حد طیش اور غصے میں آ کر انہوں نے ندرت کی جگہ صبوحی کو ہاشم کے سنگ رخصت کرنے کا فیصلہ سنا دیا سب دم بخود رہ گۓ
"میری بیٹی کوٸی گری پڑی نہیں ہے جو تمہاری منتیں کرو ں اسی دن رخصت کر کے دکھاٶں گا جس دن کا طے کیا ہے جاٶ دفعہ ہو جاٶ.. دور ہو جاٶ میری نظروں سے "انہوں نے سکندر کو دھکا دے کر پیچھے دھکیلا وہ ایک تلخ اور سلگتی نگاہ صبوحی پر ڈال کر باہر نکل گیا
☆☆☆☆☆☆
"نہیں مانی نا تم نے میری بات "آج ایازحویلی آیا تھا اور سیدھا تہمی کے کمرے میں چلا آیا وہ جو جازم کو سلارہی تھی فوراً اٹھی
"کون سی بات "اس نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا اب وہ اپنے بھاٸی کے گھر تھی تو کیسا ڈر
"بڑی ہمت آ گٸ ہے تجھ میں ہوں"اس نے بے دردی سے تہمی کے بال جکڑے وہ چیخ پڑی
"ابھی بتاتا ہوں تجھے "اس نے کھینچ کر تھپڑ اس کے منہ پر مارا وہ پیچھے کو گری اس کی چیخ سن کر ہما کمرے میں آٸی سامنے کا منظر دیکھ کر اس نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا وہ بے دریغ اسے مارنے لگا ہما جو ساکت کھڑی تھی فوراً ہوش میں آٸی اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتی کسی نے ایاز کو گریبان سے تھام لیا
"ہمت کیسے ہوٸی تمہاری میری بہن پر ہاتھ اٹھانے کی "آواز بلاشبہ فیضان کی تھی تہمی نے چونک کر سراٹھایا سرخی چھلکاتی رنگت لیے غیض وغضب کی تصویر بنا یہ اس کا نیا روپ تھا ایاز کو ایک لمحہ لگا تھا سنبھلنے میں
"میری بیوی ہے یہ جو مرضی کروں تو کون ہوتا ہے ..."بات پوری ہونے سے پہلے ہی فیضان کا ہاتھ اٹھا اور اس کی زبان بند کروا گیا اس کے تھپڑ نے ایاز کو مزید مشتعل کر دیا
"مجھے چھوڑ اپنی بہن سے پوچھ کس کے ساتھ یاریاں لگاتی پھر رہی ہے ایک بدکردار ..
"خاموش "فیضان نے اس کا جبڑا پکڑ لیا "خاموش ایک لفظ مت بولنا .... تو کہے گا اور میں مان لوں گا ... میری بہن پر ساری دنیا بھی الزام لگاۓ تو میں نہ مانوں .... اتنا یقین ہے مجھے ... اگر تم بابا ساٸیں کی پسند نہ ہوتے تو شوٹ کر دیتا تمہیں "وہ پھنکار رہا تھا ایاز کو نیا خیال سوجھا وہ اس کے ہاتھ جھٹکتادو قدم پیچھے ہوا
"ہاہاہا ... تیرے بابا .... وہ تو اس شادی کے حق میں ہی نہ تھا ہاہاہا "وہ اونچی اونچی ہنسنے لگا اور فیضان کو اپنے اوپر چھت گرتی محسوس ہوٸی
"تیرے سوتیلے بھاٸی نے جھوٹ بولا تھا تجھ سے .... صرف بدلہ لینے کے لیے "وہ سارے راز اگل رہا تھا حمیرا کے ہاتھ پیر کانپنے لگے اس سے پہلے کہ وہ مزید گل افشانی کرتا تہمی دھڑام سے زمین بوس ہو گٸ سب کو تہمی کی طرف متوجہ دیکھ کر ایاز نے جازم کو اٹھایا اور خاموشی سے نکل گیا جت تک انہیں خبر ہوٸی دیر ہو چکی تھی
☆☆☆☆☆☆☆
سکندر کو جب یہ خبر ملی تھی وہ اشتعال کو چھونے لگا یہ بات اس کی غیرت پر تازیانہ تھی کہ وہ جس سے شادی کرنے والا تھا اس کی ہونے والی بیوی کسی غیر مرد سےتعلقات بڑھا رہی تھی اور غیر بھی وہ جو اس کا دوست تھا جگری یار تھا اس نے ایک بار بھی بات کی گہراٸی میں جانے کی کوشش نہ کی تھی سچ کو پرکھنا نہ چاہا تھا بس آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا تھا اسے صبوحی سے چڑ تھی جلن تھی مگر نفرت نہ تھی لیکن اب وہ اس سے نفرت کرنے لگا تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ اس نے صبوحی سے شادی نہیں کرنی مگر اسے معاف بھی نہیں کرنا وہ شادی سے انکار تو کر آیا تھا مگر صبوحی اور فیضان کا راستہ صاف نہیں کرنا چاہتا تھا وہ ان دونوں کو سخت سے سخت سزا دینا چاہتا تھا ایسی سزا جس سے اسکے دل میں لگی انتقام کی آگ سرد ہوجاۓ اور یہ موقع اسے بہت جلد میسر آگیا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
ایاز لاپتہ ہو چکا تھا فیضان اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اسے ڈھونڈ نہ پایا جازم کی گمشدگی نے تہمی کو ذہنی مریضہ بنا دیا فیضان بہن کی حالت پر کڑھتا رہتا وہ بیٹھے بیٹھے کھو جاتی کبھی چیخنے چلانے لگتی اس کی حالت ابتر تھی دوسری طرف سکندر فیضی سے بات کرنے کا روادار نہ تھا اس کا اجنبی انداز فیضان کو کچوکےلگا رہا تھا حمیرا بھی اکھڑی اکھڑی رہنے لگی تھی اگر کوٸی اس کا اپنا تھا تو وہ صرف جوجو تھا جو رات دیر تک اس کے گھٹنوں پر سر رکھے اپنے باپ کے درد کو محسوس کیاکرتا تھا
☆☆☆☆☆☆
وہ گہری سوچ میں گم تھی جب ندرت دروازہ کھول کر اندر آٸی غصے کی زیادتی سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا صبوحی چونک کر اس کی شکل دیکھنے لگی
"کیا ہوا"
"کتنی معصوم شکل ہےتمہاری کوٸی جان ہی نہیں سکتا کہ کیسی کینہ پرور عورت ہے تمہارے اندر ... ارے ڈاٸن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے مگر تم ... تم سے اپنی بہن کی خوشیاں برداشت نہ ہوٸیں "وہ اپنی بھڑاس نکال رہی تھی صبوحی گم صم سی اس کا چہرہ دیکھے گٸ وہ اسےکیسے بتاتی کہ اس کے اندر کیسی توڑ پھوڑ ہو رہی ہے جس شخص کے خواب بچپن سے آنکھوں میں سجے ہوں وہ ایک پل میں بکھر جاٸیں تو انسان نہ زندوں میں رہتا ہے نہ مردوں میں
☆☆☆☆☆☆
وہ شہر جا رہا تھا جب اسے سکندر کی کال موصول ہوٸی اس نے سرعت سے کال پک کی
" ہیلو سکندر یار کیسے ہو ... اتنا مس کیا میں نے تمہیں... اب بھی میں تم سے ملنے ہی آرہا تھا "کوٸی گلہ شکوہ کیے بغیر وہ شروع ہوا لہجہ خوشی سے لبریز تھا مگر مقابل کو اس سے سروکار نہ تھا
"ہاں میں بھی تم سے ملنا چاہ رہا تھا "سکندر کا لہجہ ہر احساس سے عاری تھا مگر فیضان اپنی خوشی میں محسوس ہی نہ کر سکا
"ہاں ہاں کیوں نہیں بتاٶ کہاں ملیں "
"میں ذرا بزی ہوں سب شادی کی تیاریوں میں مصروف ہیں تم یوں کرو صبوحی کو کالج چھوڑ دو اس کی آج ایوننگ کلاس ہے پھر میں تمہیں بتاتا ہوں کہاں ملنا ہے "سکندر نے بات پوری کرتے ہی کال کاٹ دی اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا اس سے بے خبر فیضان نے مسکراتے ہوۓ گاڑی نواب ولا کی طرف موڑ لی
*#جاری_ہے*

No comments: