میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 23
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_23
سکندر کے پلان کے مطابق فیضان صبوحی کو لینے نواب ولا پہنچ گیا مرد حضرات گھر سے نکلے ہوۓ تھے صبوحی نے جلدی میں ماریہ بیگم سے اجازت لی اور فیضان کے ساتھ آکر گاڑی میں بیٹھ گٸ اصل بات سے وہ بھی انجان تھی دوران سفر ہی فیضان کو اطلاع ملی کہ تہمی کی طبیعت خراب ہو گٸ ہے اس نے صبوحی کو کالج کے گیٹ پر اتارا اور زن سے گاڑی دوڑا لے گیا صبوحی کالج تک پہنچ چکی تھی اب آگے کا کام سکندر لے لیے کوٸی مشکل نہ تھا
☆☆☆☆☆☆
اسے جب ہوش آیاتو وہ بیڈ پر تھی ذہن پر زور ڈالنے سےیاد آیا کہ وہ کالج کہ عین سامنے تھی جب کسی نے اس کے منہ پر رومال رکھ کر اپنی جانب کھینچ لیا یہ خیال ہی سوہان روح تھا کہ وہ اغوا ہو چکی ہے وہ پھرتی سے بیڈ سے اتری سامنے صوفے پر سکندر کو بیٹھے دیکھ کر اسے اطمینان ہوا
"سکندر وہ کالج کے گیٹ کے سامنے ... " بات کرتے کرتے اس نے نظر گھماٸی درواہ بند تھا اور کمرہ نیم تاریک
"یہ ہم کہاں ہیں سکندر "اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا
"تم ... تم محفوظ ہو آرام سے بیٹھو "سکندر نے اطمینان سے کہتے ہوۓ سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلا
"کیا مطلب سکندر .... مجھے کالج کے گیٹ سے آپ نٕے "وہ خوفزدہ سی کہہ رہی تھی سکندر نے سرتاپیر اسے دیکھا بےشک وہ بے حد خوبصورت تھی اس کے اندر کا شیطان جاگنے لگا تھا
"اگر تم میری نظروں میں دھول جھونک سکتی ہو تومیں بھی ایسا کرنے کا حق رکھتا ہوں میڈم "
"کیا ... میں نے کیا کیا ہے " اسکی آنکھوں میں حیرانی در آئئ
"تم نے کیا نہیں کیا ... میرے ہی دوست سے چھپ کر چکر چلاتی رہی ... اتنا بڑا دھوکہ دیا تم دونوں نے مجھے .... مجھے لا علم رکھ کر اتنا بڑا کھیل کھیلتے رہے "وہ بھڑک کر صوفے سے اٹھا صبوحی حیرت سے منہ کھولے اسے سن رہی تھی
"کیا سمجتے تھے مجھے کچھ پتا نہ لگے گا تم دونوں اتنی آسانی سے مجھے بے وقوف بناٶ گے اس فیضی کو تو میں بعد میں پوچھوں گا آج تم سے نمٹ لوں اپنی سزا کے لیے تیار ہو جاٶ محترمہ "وہ خباثت سے کہتا اس کی طرف بڑھا
"کیا کہہ رہے ہیں آپ ... مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی "وہ چیخ اٹھی
"فیضان سے کیا رشتہ ہے تمہارا ہوں بولو کیا لگتا ہے تہارا جو اس سے تنہاہیوں میں ملتی رہی تم "وہ اس کے شفاف کردار کی دھجیاں بکھیر رہا تھا نفرت بھرے جملے اس کی سماعتوں کی نذر کر رہا تھا
"آپ کو مجھ سے شادی سے انکار کرنا تھا کر دیا اتنا گھٹیا الزام لگا کر ذلیل کرنے کا کوٸی حق نہیں آپ کو سمجھے "صبوحی کو بھی غصہ آ گیا
"حق حاصل کر بھی کون رہا ہے تم جیسی لڑکیوں پر حق نہیں تسلط جمایا جاتا ہے ذلت سے نوازا جاتا یے "سکندر نے دھاڑتے ہوۓ اسے بیڈ پر دھکیلا اس کا چہرہ خطرناک حد تک سرخ ہو رہا تھا وہ اشتعال کی حدوں کو چھوتا اس کی طرف پیش رفت کر چکا تھا وہ فرار کی ہر راہ مسدود پا رہی تھی منتیں کر رہی تھی کمرہ اس کی فریاد کناں چیخوں سے گونج رہا تھا اور وہ اس کی ہر فریاد کو ٹھوکروں پر رکھتا اس کی عزت کو پامال کر چکا تھا اپنے مزموم عزائم میں کامیاب ہوتے اس نے تنفر سے ایک نظر صبوحی پر ڈالی اور نکلتاچلا گیا
☆☆☆☆☆☆
شادی سے دودن قبل صبوحی کی گمشدگی نے نواب ولا میں قہر برپا کر دیا سکندر شام میں گھر لوٹا وہ بے حد خوش تھا خوشی کو دل میں دباتے اس نے لاؤنج میں بیٹھے نفوس پر نگاہ دوڑائی حیات کے علاوہ سب موجود تھے
"کیا بات ہے آپ لوگ پریشان کیوں ہیں?? اور مما آپ رو کیوں رہی ہیں " اس نے سب سے سوال کرتے آخر میں ماریہ بیگم کو دیکھا
"صبوحی ....میری بچی نہ جانے کہاں ہے ۔۔۔ دوپہر کی نکلی ابھی تک گھر نہیں لوٹی "ماریہ بیگم نے روتے ہوۓ بتایا سکندر نے چونکنے کی کمال اداکاری کی
"گئ کہاں تھی وہ "
"کالج "جواب ندرت کی طرف سے آیا سب کی نسبت اس کا چہرہ پرسکون تھا
"تو وہیں ہو گی "
"نہیں ہے حیات نے پتا کروایا ہے وہ کالج گئ ہی نہیں " فضہ بیگم نے شرمندہ لہجے میں نظریں جھکا کر کہا سکندر نے ماتھے پر بل ڈال لیے
" میں تو پہلے ہی کہتا تھا اسے اتنی ڈھیل مت دیں مگر کسی نے سنی ہی نہیں میری " اس نے سجاد صاحب کی طرف دیکھ کر طنز کیا "کون چھوڑنے گیا تھا اسے "سب کچھ اس کے پلین کے مطابق ہو رہا تھا وہ دل ہی دل میں خوش تھا مگر چہرے کو سنجیدہ ہی رکھا
"فیضان " کئ لمحے خاموشی کی نظر ہو گۓ جب ماریہ بیگم ئکے لبوں نے حرکت کی
" واٹ ۔۔۔ اسے کس نے گھر میں آنے دیا اور غیر مرد کے ساتھ اسے کیسے جانے دیا کس نے اجازت دی اسے "وہ چنگھاڑتا ہوا بولا
" میں نے ۔۔۔ مجھ سے پوچھا تھا اس نے " ماریہ بیگم کے جواب پر وہ خامو ش ہو گیا چند لمحے لاؤنج میں خاموشی چھائی رہی سکندر سجاد صاحب کے سامنے جا رکا
"کہا تھا میں نے آپ کو ۔۔۔ آپ نے یقین نہیں کیا تھا دیکھ لیا انجام بھاگ گۓ وہ دونوں ہماری عزت کو نیلام کر گۓ "
"سکندر "سجاد صاحب تڑپ کر اٹھے
"میں سچ کہہ رہا ہوں بابا آپ مانیں یا مانیں حقیقت یہی ہے " وہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا
"میں نے بلوایا ہے فیضان کو ابھی معلوم ہو جاۓ گا "سجادرانی نے لاؤنج میں چکر لگاتے ہوۓ کہا وہ سب کی طرف دیکھنے سے گریز برت رہے تھے
"اور آپ کو لگتا ہے وہ مان جاۓ گا "ابھی بات سکندر کے منہ میں ہی تھی جب ملازم نے فیضان کے آنے کی اطلاع دی سجاد صاحب نے اسے یہیں بھیجنے کا حکم دیا ساتھ ہی سکندر کو خاموش رہنے کی تنبیہہ کی وہ لب بھینچتا رخ پھیر گیا فیضان سلام کرتا آگے بڑھ آیا خلاف معمول کسی نے بھی گرم جوشی سے جواب نہیں دیا جو کہ اسے بے حد محسوس ہوا وہ حیران ہوتا سب کے چہرے تکنے لگا
"کیا بات ہے آپ لوگ اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہیں " سجاد صاحب نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا
"صبوحی کو تم لے کر گۓ تھے "
"جی ۔۔۔۔ میں ہی اسے کالج چھوڑنے گیا تھا "اس نے مدھم سا جواب دیا
"کس کی اجازت سے لے کر گۓ تھے تم "وقار غصے سے بولا
"مجھے سکندر نے کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔ " وہ ابھی بات کر ہی رہا تھا جب بے حد طیش میں سکندر پلٹا اور کھینچ کر ایک تھپڑ فیضان کے منہ پر مارا وہ اس کے لیے تیار نہ تھا لڑکھڑا گیا صوفے پر ہاتھ رکھ کر بمشکل خود کو گرنے سے بچایا
"جھوٹ ۔۔۔ جھوٹ بولتے ہو تم ۔۔۔ شرم آنی چاہیے تمہیں خود کو بچانے کے لیے تم اس حد تک بھی گر سکتے میں سوچ بھی نہ سکتا تھا "سکندر کے الفاظ نے اسے گنگ کر دیا تھپڑ سے ذیادہ اس کی باتوں نے دل دکھایا تھا اس کی آنکھوں سے چھلکتی نفرت اور اجنبیت کی چنگھاڑیاں اسے بھسم کر گئ تھیں وہ نمی چھپانے کو نظریں جھکا گیا اسکی اس حرکت نے شک پر یقین کی مہر ثبت کر دی
"دیکھا ۔۔۔ دیکھا آپ نے ۔۔۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں صبوحی اسی کے پاس ہے اور بے غیرتی دیکھیں کتنی ڈھٹائی سے ہمارے سامنے کھڑا ہے "اس پر الزام لگانے میں سکندر سب سے آگے تھا وہی دوست جو کبھی جان چھڑکتا تھا آج جان لینے کے درپے تھا سجاد صاحب شکستہ قدموں سے چلتے فیضان کے سامنے آ رکے
"تم صبوحی کو یہاں لے آؤ میرا وعدہ ہے تم دونوں کی شادی خود کرواؤں گا مگر میری عزت کا جنازہ مت نکالو یہ میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں "انہوں نے سچ مچ میں ہاتھ جوڑ دئیے فیضان حق دق رہ گیا اس نے سرعت سے آگے بڑھ کر ان کے ہات تھام لیے
"ایسا کچھ نہیں ہے آپ مجھ سے قسم لے لیں پر میرا یقین کریں ایسا کچھ نہیں ہے "وہ ان کے ہاتھوں پر سر رکھ کر بلک پڑا جہاں سجاددرانی کو اس کی بے گناہی کا یقین آیا وہیں سکندر کو اپنا پلان فیل ہوتا نظر آ رہا تھا تبھی سجاد صاحب کے جاتے ہی بے حد مشتعل ہو کر اس نے فیضان کا گریبان تھام لیا
"لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے " یہ کہہ کر اس نے پیٹنا شروع کر دیا فیضان نے اس کا ہاتھ نہ روکا تھا سب خاموش تماشائی بنے ہوۓ تھے جب مار مار کر تھک گیا تو اسے کالر سے پکڑ کر گھیسیٹنا شروع کر دیا اور دروازے سے باہر دھکیل دیا فیضان نے سراٹھا کر ایک آخری نظر اس پر ڈالی دروازہ بند کرنے سے پہلے جو آخری الفاظ سکندر نے سنے تھے وہ اسے ساکت کرنے کو کافی تھے
"سکندر...میں جا رہاہوں ۔۔۔۔ مگر ایک وقت آۓ گا جب تمہیں میری بے گناہی کا یقین آۓ گا تب یہ دوست تمہیں بہت یاد آۓ گا مگر ڈھونڈنے سے بھی کہیں نظر نہ آۓ گا "آستین سے ہونٹوں کے کناروں سےخون پونجھتا نمکین پانیوں سے بھری آنکھوں سے دیکھتا وہ الوداعی ہاتھ ہلاتا لڑکھڑاتا ہوا پلٹ گیا سکندر کتنی ہی دیر خالی الذہنی کے عالم میں وہیں کھڑا رہا
___________
صبوحی دو دنوں سے بے ہوش تھی اتنا بڑا شاک اس کا دماغ برداشت نہ کر پایا تھا سکندر نے اسے ہوش میں لانے کی پوری کوشش کی تھک ہار کر وہ اسے قریبی ہاسپٹل لے گیا نفرت اور تلخیاں اپنی جگہ مگر وہ اسے مارنا نہیں چاہتا تھا ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرواتے وقت اسے ان کی فیملی ڈاکٹر ۔۔۔۔ ڈاکٹر فرزانہ غفور نے دیکھ لیا چونکہ وہ صبوحی اور سکندر کو جانتی تھیں تبھی انہوں نے نواب ولا اطلاع دی سجاد صاحب دوڑے چلے آۓ صبوحی کی حالت سیریس تھی سکندر اس سب سے انجان اپنے کمرے میں بیٹھا آگے کا سوچنے میں مصروف تھا یہ تو بہرحال طے تھا کہ اسے صبوحی سے کوئی رشتہ کوئی تعلق نہ رکھنا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
ایک ماہ ہسپٹال میں گزارنے کے بعد صبوحی نواب ولا واپس آ گئ اجڑی اجڑی سی بکھری بکھری سی ...ماریہ بیگم اس کی حالت دیکھ کر دنگ رہ گئیں ..سکندر اسے ہسپٹال چھوڑنے کے بعد منظر عام سے غائب ہو گیا تھا وہ جانتا تھا کہ نواب ولا تک خبر پہنچ چکی ہے تبھی گھر آنے سے ہچکچا رہا تھا صبوحی کی حالت سجاد صاحب کو خون کے آنسو رلا رہی تھی خاموش ہونٹوں پر جامد چپ ۔۔۔۔۔۔ ماریہ بیگم نے اس سے محبت سے پوچھنا چاہا مگر اس کی ویران آنکھوں میں اترتی وحشت نے انہیں خاموش کروا دیا اورپھر وقار کی سختی اور سجاد صاحب کی نرمی بھی اس کی زبان نہ کھلوا پائی وہ بولنا بھول گئ تھی ہسنا چھوڑ گئ تھی آنکھیں سوکھ گئ تھیں تبھی سکندر چلا آیا خلاف توقع اس سے کوئی سوال جواب نہ کیا گیا وہ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ خوش بھی تھا مگر یہ خوشی اس وقت غارت ہو گئ جب سجاد صاحب نے اسے کمرے میں بلا کر نکا ح کا حکم صادر کیا
"یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ"وہ بے یقینی کے عالم میں بولا
"وہی جو تم سن رہے ہو ۔۔۔۔ اچھی طرح سوچ سمجھ لو مگر جواب ہاں میں ہی ہونا چاہیے ۔۔۔ اس سب کا قصوروار جو بھی ہے مگر میں اب صبوحی کے معاملے میںں کسی دوسرے پر اعتماد نہیں کر سکتا
.... اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کر لو چاہے ہنس کر کرو یا رو کر " وہ حکم,صادر کر رہے تھے بے حد کرختگی سے ۔۔۔۔ سکندر اپنے ہی بچھاۓ جال میں پھنسنے
" ایک ۔۔۔۔ ایک ایسی لڑکی جس کا دامن داغدار ہے وہ آپ میرے سر منڈھ رہے ہیں ہرگز نہیں بابا جان ہرگز نہیں..."
وہ نفی میں سرہلاتا پیچھے ہٹ رہا تھا
"آپ اسکو بلوائیں جو اس سب کا قصوروار ہے"سجادصاحب نے آگے بڑھ کر اسے گریبان سے تھام لیا
"میں نے تم سے راۓ نہیں مانگی حکم سنایا ہے اور میرے حکم سے انحراف تمہیں نواب ولا سے دربدر کر دے گا سمجھے " اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہے گۓ حکمیہ الفاظ اسے دنگ کر گۓ وہ جھٹکے سے اس کا گریبان چھوڑ کر باہر نکل گۓ وہ سوچوں کے گرداب میں پھنسا بس یہ سوچتا رہ گیا کوئی پرائی بیٹی سے اتنی محبت کیسے کر سکتا ہے کہ اپنی اولاد کو پس پشت ڈال دے
☆☆☆☆☆☆☆☆
اور پھر اسے ماننا پڑا اتنی پرآسائش زندگی کو چھوڑنا اس کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا صبوحی نے غائب دماغی سے نکاح نامے پر دستخط کر دیئے وہ انجان تھی کہ جو شخص اس کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار ہے وہی اس کا نصیب بنا دیا گیا ہے نکاح کے بعد صبوحی کو بے ہوشی کا دورہ پڑا اور اس دوران جو خبر ڈاکٹر نے سنائی وہ نواب ولا پر قہر بن کر اتری فضہ بیگم پورے قد سمیت زمین بوس ہو گئیں یہ دن اسکے لیے اذیتوں بھرا تھا جہاں ایک طرف ماں یہ دنیا چھوڑ گئ وہیں سارے خونی رشتوں نے منہ موڑ لیا وقار اسے دیکھ کر آپے سے باہر ہونے لگتا ماریہ بیگم کو چپ لگ گئ ماہی اور ندرت کے طنز میں ڈوبے الفاظ اور نفرت بھری نگاہیں ہمہ وقت اسکے وجود سے لپٹی رہتیں مگر وہ وہاں موجود ہی کب تھی جو محسوس کرتی اس کے دو ہی سائبان تھے جو مضبوط دیوار بنے اس کے آگے کھڑے تھے سجادصاحب اتنا سب کچھ ہو جانے بعد بھی اس سے منہ نہ موڑ پاۓ تھے شاید سگا باپ بھی ہوتا تو اس موقع پر ساتھ چھوڑ جاتامگر نہ جانے کیسی محبت تھی ان کی کہ ایک سخت لفظ نہ نکلا تھالبوں سے ۔۔۔۔ حیات نے بھی بڑے بھائیوں کا سا کردار ادا کیا ۔۔۔۔ سکندر سب جانتے بوجھتے انجان بنا ہوا تھا اس کا لگایا گیا الزام سچ ثابت ہو گیا تھا سب کو یقین تھا کہ یہ بچہ جو دنیا میں آیابھی نہیں فیضان کا ہی ہے ۔۔۔ اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب سکندر یہ ملک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا جانے سے پہلے وہ باپ کے پاس آیا تھا
" میں جا رہا ہوں بابا آپ نے اپنی ضد پوری کر لی اب میری باری ہے آپ کی یہ بیٹی جسے آپ نے سگی اولاد پر ترجیح دی ہے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اکیلی رہے گی یہی سزا ہے اس کی ...نہ میں اسے آذاد کروں گا نہ ہی کوئی تعلق رکھوں گا " وہ چبا چبا کر کہتا سجاد صاحب کو اندر تک ہلا گیا وہ بے اختیار ہی اس کے آگے ہاتھ جوڑ گۓ وہ صبوحی کی خوشیوں کی بھیک مانگ رہے تھے اس شخص سے جو خود اس کی تباہی کا ذمہ دار تھا
" میری بیٹی کی جھولی میں خوشیاں ڈال دو جو چاہے لے لو ۔۔۔۔ میں اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا خدا کا واسطہ ہے سکندر ۔۔۔ اپنے باپ کے جوڑے ہاتھوں کو دیکھو" وہ ششد رہ گیا ایک لمحے کو تو سکندر کی گرفت بیگ پر ڈھیلی پڑی اس کا باپ اس لڑکی کے لیے اس کی منتیں کر رہا تھا جس سے وہ نفرت کرتا تھا کیسی محبت تھی ان کی ۔۔۔ حسد و جلن میں مزید اضافہ ہو گیا ۔۔ اگر وہ جان جاتے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے تو جانے وہ کیا کرتے یہ سوچ کر ہی اسے جھرجھری سی آگئ
"ایک بار ۔۔۔۔ ایک بار بھی اسے برا نہ کہا آپ نے ۔۔۔ ایک لفظ اس کے خلاف نہ نکلا ۔۔۔ اوپر سے آپ مجھے سمجھا رہے کہ میں وہ گناہ بھی قبول کر لوں۔۔۔ میرے پاس اتنا ظرف نہیں بابا جان ۔۔۔ میں نہیں رک سکتا کیونکہ میں رکنا ہی نہیں چاہتا" اور پھر وہ واقع ہی نہیں رکا تھا وہ چلا گیا تھا سجادصاحب دروازے تک اس کے پیچھے گۓ مگر وہ ہر التجا کو پاؤں تلے روندتا نواب ولا کی دہلیز پار کر گیا اور اسی دن سجاد صاحب کو پہلا ہارٹ اٹیک ہوا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
"بھابھی۔۔۔ پلیز بھابھی میرا جازی مجھے واپس لا دیں ۔۔۔ میں مر جاؤں گی اس کے بغیر " تہمی روتے ہوۓ بولی حمیرا گڑبڑا گئ
"میں کہا ں سے لاؤں ۔۔۔ پاگل ہو گئ ہو تم," حمیرا نے اسے پرے دھکیلا
"آپ جانتی ہیں ایاز کہاں ہیں مجھے یقین ہے آپ کو معلوم ہے ۔۔۔ میں بھیا سے بات کروں گی پلیز آپ اسے کہیں جازم مجھے ۔۔۔
"اوہ ۔۔ آئی سی ۔۔۔ تو تم سب جانتی ہو ۔۔۔ اچھا ہوا تمہیں پتا لگ گیا ایک نہ ایک دن تو لگناہی تھا " وہ تنفر سے ہنس کر بولی "ہاں میں جانتی ہوں جازم کہاں ہے ایاز کہاں ہیں ویسے شوہر وہ تمہارا ہے لیکن دیکھو میرے ہاتھ میں ہے اپنی انگلی پر نچا سکتی ہوں اسے " وہ اس کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھتے ہوۓ طنز کے تیر چلا رہی تھی
" میرے ۔۔۔ بھائی سے ذیادہ اچھا تو نہیں ہے وہ " اس کے سوکھے پیڑئ زدہ ہونٹوں نے جنبش کی تھی وہ قہقہ لگاکر ہنسی
" تمہارا بھائی ۔۔۔ رشتوں میں بٹا ہوا.... دوستوں ..محبتوں ..عزتوں کے پیچھے بھاگنے والا شخص۔۔۔۔ نفرت ہے ایسے لوگوں سے مجھے " وہ زہر اگل رہی تھی مگر فیضان کو لگا بھری محفل میں کسی نے اس کے منہ پر طمانچہ مار دیا ہو یہ احساس ہی ذلت آمیز تھا کہ اس کی بیوی جس کی وہ بہت عزت کرتا تھا جس کی سردمہری اور اکتاہٹ کو بھی اس کی ادا سمجھ کر نظرانداز کر دیا کرتا تھا وہ ایک دھوکے باز عورت ہے وہ اس کی امانت میں خیانت کرتی رہی ہے حمیرا بات کرتے کرتے پلٹی تو دروازے میں ایستادہ سرخ چہرے لیے فیضان کو دیکھ کر گھبرا گئ ماتھے پر پسینہ نمودار ہو گیا فیضان دھیرے دھیرے چلتا اس تک آیا تہمی اس کی آنکھوں سے چھلکتی سرخی دیکھ کر سہم سی گئ مگر وہ اسے نہیں حمیرا کو دیکھ رہا تھا چند لمحے اس کے خوبصورت چہرے پر نظریں جماۓ رکھیں
"وہ ۔۔۔۔۔۔فیضی ۔۔۔ میں ۔۔۔۔ " حمیرا کو سمجھ نہ آئی کیا بولے اچانک فیضان کا ہاتھ اٹھا اور اس کے گال پر نشان ثبت کر گیا وہ گال پرہاتھ رکھے بے یقینی سے اسے تکنے لگی
"خاموش ہو جاؤ "وہ درشتی سے کہہ کر صوفے پر جا بیٹھا اور اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ لیا یہ اس کے ضبط کی انتہا تھی وہ ایک غیرت مند شخص تھا کسی عورت کو بری نظر سے نہ دیکھنے والے شفاف کردار کے حامل شخص کے نصیب میں کیسی عورت لکھی تھی اس کی معصوم بہن ۔۔۔ کے معاملے میں کتنی بڑی بھول ہو گئ اس سے ۔۔۔ اضطراری انداز میں وہ اٹھ کر ادھر ادھر ٹہلنے لگا کسی نتیجے پر پہنچ کر وہ حمیرا کی طرف پلٹا
" بلاؤ ایاز کو ۔۔۔ اسے کہو جازم کو لے آۓ اور تمہیں لے جاۓ بے فکر ہو کر آۓ مجھے دشمنیاں پالنا نہیں آتیں تمہیں آذاد کرنے میں لمحہ نہیں لگاؤں گا " لہجہ بے لچک اور انداز دو ٹوک تھا زندگی میں پہلی بار فیضان نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا وہ پیر پٹختی باہر نکل گئ فیضان تہمی کو سینے سے لگاۓ ضبط کھو بیٹھا
" مجھے معاف کردو تہمی ۔۔۔ مجھے معاف کر دو "
☆☆☆☆☆☆☆
"معلوم کرواؤ سکندر کہاں ہے " سجادصاحب نے حیات کا ہاتھ تھام کر کہا آوازنقاہت زدہ تھی وہ آج ہی ڈسچارج ہو کر گھر آۓ تھے دونوں اس وقت کمرے میں اکیلے تھے
" جی بابا میں پتہ کرواتا ہوں " حیات نے تابعداری کا مظاہرہ کیا
"اسے واپس آنا ہو گا ۔۔۔ ہر قیمت پر ۔۔۔ ہر حال میں ۔۔ جانتا ہوں یہ اس کے لیے مشکل ہے مگر اپنوں کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے جانے کیوں میرا دل نہیں مانتا کہ صبوحی ۔۔۔۔"بات کرتے کرتے ان کی آنکھیں بھیگ گئں لب کپکپا گۓ حیات نے ان کے ہاتھ پر بوسہ دیا
"بابا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ آرام کریں "اس نے موضوع بدلنا چاہا مگر وہ اس کی سن ہی کہاں رہے تھے
" میں نے ریحان سے وعدہ کیا تھا کہ صبوحی کو بیٹی سے بڑھ کر چاہوں گا آج کیسے کیسے چھوڑ دوں اسے اکیلا ۔۔۔۔ کیسے تنہا کردوں ۔۔۔ آج اس کے سگے چھوڑ گۓ ہیں ندرت اور وقار نے منہ پھیر لیا ہے ۔۔۔ اور سکندر چاہتا ہے کہ میں بھی اس پر لعنت ملامت کروں ۔۔۔ میں نہیں کر سکتا مجھے بھروسہ ہے اپنی صبوحی پر ۔۔۔۔ یقینا کچھ غلط ہوا ہے ۔۔۔ تم دیکھنا حیات ایسا ہی ہوا ہو گا ۔۔۔ تم ۔۔۔ اسے ڈاکٹر کو دکھاؤ اسے ٹھیک ہونا چاہیۓ وہ بتاۓ گی ۔۔۔ وہ سب بتاۓ گی "وہ شاید تھک گۓ تھے تبھی آنکھیں موند گۓ حیات صاحب نے سنجیدگی سے صبوحی کے علاج کے بارے میں سو,چنا شروع کر دیا ساتھ ہی وہ فیضان سے ملاقات کا بھی سوچ رہا تھا اسکی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کہیں کچھ گڑبڑ ضرور ہے
☆☆☆☆☆☆
فیضان اس دن سے گھر نہ آیا تھا حمیرا بے چینی سے اس کا انتظارکر رہی تھی اس انتظار کے پیچھے کیا مقصد تھا اس سے کوئی واقف نہ تھا
"تم نہیں جانتی ہما ۔۔۔ فیضان نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا ۔۔۔ مجھ پر ....حمیرا پر ۔۔۔ اچھا نہیں کیا اس نے"حمیرا غصے سے ادھر ادھر ٹہل رہی تھی ہما نے حیرت سے اس کدیکھا
" کیسے بات کر رہی ہو حمیرا ۔۔۔۔ شوہر ہے تمہارا ۔۔ اگر مار بھی لیا ۔۔۔
"کیسے ۔۔۔ کیسے مار لیا " وہ بات کاٹ کر چلائی "اس کی ہمت کیسے ہوئی ذلیل انسان ۔۔۔ چھوڑوں گی نہیں اسے میں "
"اچھا اچھا تم غصہ ٹھنڈا کرو۔۔۔ سزا ہی دینی ہے تو یوں کرو زمان کے پاس شہر چلی جاؤ دیکھنا فیضان خود لینے آۓ گا تمہیں "ہما نے مسکراتے ہوۓ حل پیش کیا زمان پسند کی شادی کے بعد شہر شفٹ ہو گیاتھا
" بات ماننے منانے کی حدور سے باہر نکل گئ ہے ۔۔۔ اب صرف فیصلہ ہو گا ۔۔۔ ایسا فیصلہ جو کبھی کسی نے نہ کیا ہو میں اسے برباد کر دوں گی پچھتاۓ گا وہ بہت پچھتاۓ گا "وہ بے خوفی سے بول رہی تھی آنکھوں سے آگ برس رہی تھی ہما نے دہل کر اسکا انداز دیکھا ایسی کون سی طاقت تھی جو حمیرا کو اس حد تک لے کر جا رہی تھی وہ وجہ جاننے سے قاصر تھی
☆☆☆☆☆☆☆
جب دلوں میں شک پیدا ہو جاۓ تو زندگی سے سکون رخصت ہو جاتا ہے حمیرا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا وہ اچھے برے کی پہچان بھول چکی تھی ضد.. خودسری ..احساس برتری نے اسے اندھا کر دیا تھا اور اب جو جلن و حسد کی آگ اسکے سینے میں دہک رہی تھی اس میں نہ صرف اسے خود دہکنا تھا بلکہ اپنے ساتھ جڑے رشتوں کو بھی جلانا تھا
*#جاری_ہے*

No comments: