Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 21


میـرے_ہـم_نفس_میـرے_ہمنوا

فریحہ_چـودھـری

#میرے_ہم_نفس_میرے_ہـمنوا
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط 21 
امینہ نے رحیم شاہ سے بات کی تھی اور خلاف توقع انہوں نے فوراً حامی بھر لی وہ حیران رہ گئیں
"آپ ایک بار فیضان سے پوچھ تو لیں "امینہ نے اسی حیرت سے کہا رحیم شاہ اس کی طرف دیکھ کر مسکراۓ
"ایسے کیسے ہو سکتا ہے امینہ کہ میں فیضان سے کچھ کہوں اور وہ نہ مانے "ان کے لہجے میں یقین اعتماد فخر سب تھا اور کچھ بے جا بھی نہیں تھا فیضی نے ایک لمحہ بھی نہ لگایا حامی بھرنے میں اسے مان رکھنے آتے تھے باپ کا سر اونچا کرنا آتا تھا اسے محبت کرنا اور محبت کی قدر کرنا آتا تھا
اس کی حامی نے شہاب کے تن بدن میں آگ لگا دی وہ زخمی سانپ کی طرح پھنکار رہا تھا
"میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا "شہاب کی کرخت آواز گونجی ایاز خباثت سے ہنسا
"کیا کرے گا تو ـ ـ اب تک کیا کر لیا تو نے "وہ گویا اس کی حالت سے مزہ اٹھا رہا تھا
"تو بس دیکھتا جا ـ ـ میں کرتا کیا ہوں "
"ابے یار کچھ نہیں ہو گا تجھ سے " وہ شراب کی بوتل منہ سے لگاتے ہوئے بولا
شہاب اور ایاز بچپن کے ساتھی تھے ایاز میں ہر قسم کی برائی موجود تھی وہ اپنے باپ کی اکلوتی اولاد تھا پیسے کی کمی نہ تھی غلط تربیت اور پیسے کی فراوانی نے اسے لالچی ہوس کا پجاری بنا دیا تھا اب بھی وہ شہاب کو الٹے سیدھے مشورے دے رہا تھا حمیرا پر اس کی نظر شروع سے تھی وہ اپنے دوست کے دل کا حال بھی جانتا تھامگر اپنی عادت سے مجبور تھا شہاب اس سے بے خبر اپنی دل کی بھڑاس نکالنے کو ایاز کا ہی سہارا لیتا تھا مگر کوئی وار کامیاب نہ ہونا تھا اور وہ وقت بھی آ گیا جب شہاب کی شادی ہما اور فیضان کی دلہن حمیرا بن گئی اگر ہما کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی جو حمیا سے زیادہ حسین ہوتی تو شاید شہاب حمیرا کو بھلا دیتا مگر اب یہ اس کے لیےنا ممکنات میں سے تھا
☆☆☆☆☆☆☆
حمیرا کے ہاں بیٹے نے جنم لیا جبکہ ہما کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی رحیم شاہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ تھا فیضان بھی بے حد خوش تھا گول مٹول سا جوجو ہر ایک کی توجہ کا مرکز بن گیا شہاب نے غوزہ کو ایک نظر کے بعد دوبارہ دیکھنا بھی گوارا نہ کیا ہما کے لیے یہ ایک نئی اذیت تھی شادی سے لے کر اب تک وہ شہاب کی ایک نظر التفات کو ترستی رہی تھی اور اب یہ محرومی اس کی بیٹی کے مقدر میں بھی لکھی گئی تھی وقت اپنی رفتار پر چل رہا تھا رحیم شاہ کی خواہش پر مہرو اور جہانگیر کی منگنی کر دی گئی انہیں یقین تھا کہ اس بندھن سے شہاب کے دل میں موجود نفرت میں تھوڑی بہت کمی ہو گی مگر شہاب کی رگ و پے میں نفرت اور جلن کوٹ کوٹ کر بھری تھی دوسری طرف ایاز کی نظریں تہمی پر پڑ چکی تھیں وہ آۓ دن شاہ حویلی کا چکر لگانے لگا آہستہ آہستہ اس کی دوستی فیضان سے ہو گئی اور پھر وہ وقت بھی آ گیا جب فیضان اس پر اعتماد کرنے لگا
"کیا کرتے پھر رہے ہو تم آج کل ؟؟"شہاب نے غصے سے پوچھا
"کیا کیا میں نے ؟؟"وہ انجان بنا
"میرے دشمنوں سے دوستیاں پروان چڑھا رہے ہو "شہاب کی سیدھی بات پر وہ قہقہ لگا کر ہنسا
"ارے یار تمہارا دشمن تو میرا بھی دشمن "
"کیا مطلب ؟؟"شہاب ٹھٹھکا
"تم بدلہ لینا چاہتے ہو نا فیضان سے "
"ہاں لیکن تم کیا کرو گے ؟؟"
"تہمی سے شادی "اس نے آنکھ مار کر شہاب کو دیکھا شہاب حیران سا پرسوچ نظروں سے اس کا چہرہ تکنے لگا
♡♡♡♡♡♡♡
"بڑے بابا بٰڑے بابا ـ ـ میں جیت گئی"
بے دھڑک دروازہ کھول کر ہنستی کھلکھلاتی صبوحی اندر داخل ہوئی جہاں سجاد درانی فیضی اور سکندر کے ساتھ موجود تھے کوئی اور ایسی جسارت کرتا تو یقییناً اسے سجاد درانی کے عتاب کا نشانہ بننا پڑتا مگر سامنے کوئی اور نہیں صبی تھی ان کی بے حد لاڈلی جان سے پیاری صبی وہ کھل کر فخریہ مسکرا دئیے
"ہمیں پتا تھا ہمارا بیٹا ہی جیتے گا "انہوں نے محبت سے کہتے ہوئے اس کے لیے بازو وا کیے وہ بھاگ کر ان کے گلے لگ گئی
"آخر میں بیٹی کس کی ہوں " وہ بھی ناز سے اترا کر ہنسی فیضی بڑی دلچسپی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا جبکہ سکندر کے منہ کے زاویے بگڑ رہے تھے فیضی نے اسے آنکھ کے اشارے سے سمجھایا وہ سکندر کی صبی سے ناپسندیدگی جانتا تھا صبی اور سکندر کی ایک منٹ نہ بنتی تھی جہاں سکندر ہو وہاں کوئی اور اس سے ذیادہ اہمیت لے جائے ایسا ممکن نہ تھا مگر صبی کی موجودگی میں وہ پس منظر میں چلا جاتا تھا وہ تھی ہی ایسی ـ ـ بلا کی خوبصورت خود اعتماد نیک سیرت با حیا وہ کسی کا بھی آئیڈل ہو سکتی تھی اسے خود کو منوانا آتا تھا
اسے گھڑسواری کا بے حد شوق تھا سجاد درانی کبھی اس کے شوق میں رکاوٹ نہ بنے تھے وقار درانی نے پہلے پہل اعتراضات اٹھائے تھے مگر سجاد درانی کے جواب نے انہیں خاموش کروا دیا
"یہ میری بیٹی ہے وقار اور اپنی بیٹی کے فیصلے میں خود کروں گا "
اب بھی اس نے ٹرافی جیتی تھی اور یہ خوشی کی بات وہ سب سے پہلے اپنے بابا کو بتانا چاہتی تھی
"ہونہہ بڑا کوئی شاہی خزانہ ہاتھ لگا ہے جو اتنی چہک رہی ہو "سکندر کی جلن زبان پر آ ہی گئی سجاد درانی نے اسے گھرکا جبکہ صبی نے لاپرواہی سے ہاتھ جھٹکے
"تم خاموش رہو آگ والے دیو "اس کی بات پر سجاد درانی نے قہقہ لگایا جبکہ فیضان نے اس کی غصے سے دہکتی رنگت دیکھ کر مسکرانے پر ہی اکتفا کیا
"فیضی بھائی آپ سنائیں کیسے ہیں آپ ؟؟"اب وہ فیضی کی طرف متوجہ ہوئی
"میں فٹ فاٹ بالکل تمہاری طرح "اس نے مسکرا کر نرمی سے کہا جس میں مزاق کی آمیزش بھی تھی تبھی ندرت چاۓ کی ٹرالی دھکیلتی اندر داخل ہوئی
"لو بھئی چاۓ آ گئی "وہ اٹھ کر صوفے پر سجاددرانی کے ساتھ آ بیٹھی ندرت کو یہ منظر بے حد ناگوار گزرا تھا سواۓ صبی کے گھر میں یہ جرت کسی میں نہ تھی
" ندرت یہ دیکھیں آج کے کمپیٹیشن میں .. میں فرسٹ آئی ہوں "اس کو چہرے پڑھنے نہ آتے تھے تبھی خوشی خوشی تفصیل بتانے لگی وہ جوں جوں بول رہی تھی سکندر اور ندرت کے تاثرات میں اتار چڑھاؤ آنے لگے تھے سکندر کی آنکھوں میں جلن تھی جبکہ ندرت کی آنکھوں میں نفرت
☆☆☆☆☆☆
حرب کی پیدائش کے بعد فیضان اور سکندر بیرون ملک چلے گئے تبھی حمیرا کے دل میں بد گمانی نے جنم لینا شروع کیا
"میری تو کوئی ویلیو ہی نہیں فیضی کی نظر میں "حمیرا جلے پیر کی بلی کی مانند ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی
"کیوں کیا ہوا ؟؟"ہما نے حیرت سے اسے دیکھا
"میرے لاکھ روکنے کے باوجود وہ نہیں روکے حد ہوتی ہے ڈھٹائی کی بھی "وہ غصے سے بولی ہما مسکرا دی
"دل نہیں لگ رہا کیا "
"ہونہہ کیا سمجھتا ہے یہ حمیرا اب اس کی راہ تکتی رہے پرانی عورتوں کی طرح اپنے شوہر کے فراق میں آہیں بھریں اتنی گری ہوئی تو ہرگز نہیں ہوں میں"اس کے لہجے میں کچھ تھا جس نے ہما کو چونکا دیا
"کیا مطلب حمیرا ؟ فیضان تو بہت محبت کرتا ہے تم سے ایسے کیوں کہہ رہی ہو تم "ہما کا دل اپنی بہن کے لیے پریشان ہوا
"کچھ نہیں "حمیرا نے سر جھٹکا اور پاس سے گزرتی تہمی کی طرف متوجہ ہو گئی
"کہاں جا رہی ہو تم "
"جی ـ ـ میں ـ ـ کچن میں "وہ ہکلائی
"کیوں ؟؟"حمیرا نے آنکھیں نکال کر پوچھا اس کا دویہ تہمی سے ہمیشہ سختت ہوتا تھا وہ مزید سہم گئی
" م ـ ـ مجھے بھوک لگی ہے "
"یہ اتنی معصوم شکل کیوں بنا لیتی ہو تم کتنی چالاک ہو میں جانتی ہوں بالکل اپنے بھائی کی طرح میسنی "وہ غصہ اس پر اتارنے لگی تہمی کی آنکھیں لبالب پانی سے بھر گئیں وہ عمر میں چھوٹی ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد معصوم بھی تھی مگر حمیرا کو وہ ایک آنکھ نہ بھاتی تھی کوئی اس سے ذیادہ خوبصورت ہو یہ وہ برداشت نہیں کر سکتی تھی اور اب تو ایاز کی نظریں تہمی پر دیکھ کر اس کی جلن میں مزید اضافہ ہو گیا وہ اس سے بے خبر نہ تھی کہ ایاز اور شہاب اس کے لیے کیا سوچتے ہیں مگر وہ یہ بھی ہرگز برداشت نہیں کر سکتی تھی کوئی اسے نظر انداز کر کے کسی اور کو دیکھے چاہے وہ اس کی بہن کا ہی نصیب کیوں نہ ہو
"جاؤ میرے لیے چاۓ لاؤ "اس نے آنکھیں نکال کر کہا وہ سرعت سے کچن کی طرف لپکی ہما نے تاسف سے اسے دیکھا
"ایسے کیوں کرتی ہو حمیرا "
"تم خاموش رہو "وہ بد لحاظی سے کہتی کمرے کی طرف بڑھ گئی
☆☆☆☆☆☆☆☆
تہمی کے ساتھ حمیرا کا رویہ دن بدن تلخ ہوتا جا رہا تھا پہلے جوجو اور اب حرب کی بھی ذمہ داری تہمی پر آ گئی تھی رحیم شاہ کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی انہیں قلق تھا کہ وہ شہاب کے دل سے فیضان کی نفرت ختم نہ کر پاۓ انہی دنوں ایاز کا رشتہ تہمی کے لیے آ گیا اور اس رشتے کا سب سے بڑا حامی شہاب تھا اس کے دل میں اپنی سادہ دل اور معصوم بہن کے لیے محبت تو دور کی بات ہمدردی کا بھی جذبہ تک نہ تھا فیضان سے بدلہ لینے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا تھا تبھی ایاز کی منصوبہ بندی پر آنکھیں بند کر کے عملدرآمد شروع کر دیا ایاز نے شہاب کو یقین دلایا تھا کہ شادی کے بعد وہ تہمی پر دباؤ ڈال کر فیضان سے حمیرا کو طلاق دلوا دے گا اور فیضان اپنی بہن کی آنکھوں میں آنسو نہ دیکھ پاۓ گا شہاب مطمئن ہو گیا مگر ایاز کے دل میں کیا تھا یہ کوئی نہ جانتا تھا
رحیم شاہ نے اس رشتے سے صاف انکار کر دیا تھا وہ ایاز کو بخوبی جانتے تھے تو پھر کیوں اپنی معصوم پھولوں سی بیٹی کو دوزخ میں دھکیل دیتے شہاب ان کا انکار سن کر بھڑک اٹھا
"کیوں بابا سائیں کیا کمی ہے اس رشتے میں؟؟"وہ تیز آواز میں بولا اسکے لہجے نے رحیم شاہ کو حیرت میں مبتلا کر دیا
"کوئی کمی نہیں ہے شہاب؟؟"انہوں نے عجیب سے لہجے میں پوچھا وہ نظریں چرا گیا
"وہ میرا دوست ہے "ایک کمزور سے دلیل آئی
"تو دوست کا کیا مطلب ہے کہ میں اپنی بیٹی وار دوں اس بدمعاش کو اپنی بیٹی دے دوں ؟؟"
"کسی نہ کسی سے تو کرنی ہے نا شادی اور پھر آپ ہی تو کہتے ہیں کہ میں فیضان اور تہمینہ کے بارے میں اچھا سوچتا نہیں ہوں ان کا خیال نہیں رکھتا "ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ وہ غصے سے اس کی بات کاٹ کر دھاڑے
"یہ سوچا ہے تم نے ؟؟یہ خیال کیا ہے تم نے ؟ اگر تم اسکو اپنی بہن سمجھتے تو ایسا کہنے سے پہلے ہزار بار سوچتے ـ ـ میری بیٹی میں کوئی کمی نہیں ہے جو تمہارے اس بدکردار دوست کے ساتھ بیاہ دوں ـ ـ اس کا باپ زندہ ہے ابھی ـ ـ لاوارث نہیں ہے وہ "کمزوری و نقاہت کے باوجود ان کے لہجے میں دبدبہ تھا ان کے سخت لہجے پر شہاب کو چپ لگ گئی
"تمہاری نیچ سوچ سےتو لگتا ہے کہ اگر تمہارا بس چلے تو ان کو بیچ دو "نیچ سوچ پر شہاب کا غصہ عود کر آیا اور اسی طیش نے سب لحاظ و ادب بھلا دیا
"ہاں ہاں بیچ دوں گا ـ ـ ـ بلکہ مار دوں گا ان دونوں کو ـ ـ میرا دل چاہتا ہے آگ لگا دوں ان کی خوشیوں کو اور میں ایسا کر بھی جاؤ ں گا ایک وقت آۓ گا تب جیت صرف میری ہوگی مجھے جاہل لوگوں کی طرح جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی مت دیجۓگا میری ماں کے پاس آپ سے زیادہ دولت موجود ہے "
تیز آواز میں چنگھاڑتا دھمکاتا انہیں گنگ کر گیا وہ صوفے پر ڈھے گے امینہ جو سارا تماشہ بڑی مسرت سے ملاحظہ کر رہی تھیں لپک کر انکی طرف آئیں
"جوان اولاد ہے شاہ جی کیوں اسکا دل برا کر رہے ہیں"انداز قائل کرنے والا تھا رحیم شاہ نے ایک سخت نظر ان پر ڈالی اور دروازے کی طرف اشارہ کرتے رخ پھیر گۓ
ایسا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا وہ ہمیشہ فیضان کو یہی کہتے رہے
"شہاب تمہارا بڑا بھائی ہے اس کی سخت باتوں کو دل پر مت لینا بس غصے کا تیز ہے کبھی کچھ کہے تو انکار کر کے مزید ناراض مت کرنا "اور فیضان نے ہمیشہ ان کا کہا مانا تھا وہ ساری رات اس کا نمبر ملاتے رہے جو بند مل رہا تھا زندگی میں پہلی بار وہ خود کو اتنا بے بس محسوس کر رہے تھے وہ جو چاہے کر لیتے مگر شہاب کو امینہ کی شے حاصل تھی وہ یہ بھی جانتے تھے شہاب فیضان سے بات کرے گا اور وہ انکار نہ کر پاۓ گا وہ اسے باز رکھنا چاہتے تھے وہ کہنا چاہتے تھے کہ تہمی کو لے کر کہیں دور چلا جائے مگر وقت نے انہیں مہلت ہی نہ دی
اسی رات دل کا دورہ پڑنے سے وہ چل بسے
*#جاری_ہے*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.