Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 20


میـرے_ہـم_نفس_میـرے_ہمنوا

فریحہ_چـودھـری

#میرے_ہم_نفس_میرے_ہـمنوا
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط 20
رحیم شاہ کا تعلق شاہ پور سے تھا پورے علاقے کے کرتا دھرتا اور وسیع و عریض جائیداد کے مالک رحیم شاہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے حق کے سچے ...بات کے کھرے رحیم شاہ جاہ و جلال اور رعب و دبدبہ میں بھی شاہ خاندان میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتے تھے ...وہ نہ صرف خود خوبصورت تھے بلکہ حسن و خوبصورتی کے دلدادہ بھی تھے یہی وجہ تھی کہ ان کی وسیع و عریض رقبے پر پھیلی شاندار حویلی دیکھنے والوں کو ٹھٹھکنے پر مجبور کر دیتی تھی چھوٹی سی چھوٹی چیز میں بھی خوبصورتی و نزاکت کو مد نظر رکھنے والے رحیم شاہ کو جب ان کے والد نے ان سے آٹھ سال بڑی چچازاد سےنکاح کا فیصلہ سنایا تو وہ دم بخود رہ گۓ کسی ناپسند شے کو کمرے سے تو کیا حویلی سے دربدر کر دینے والے رحیم شاہ کو ساری عمر ایک ان چاہے بندھن میں باندھنے کی سزا سنائی گئی تھی یہ سزا تھی یا جزا مگر رحیم شاہ کو تو کم از کم سزا ہی لگی امینہ بیگم نہ صرف ا ن سے عمر میں بڑی تھیں بلکہ شکل و صورت اور قدوقامت میں بھی ان سے بہت کم تھیں... سانولی سے کچھ ذیادہ گہری رنگت ...اندر کو دھنسی آنکھیں... چھوٹا قد اور بڑھتی عمر وہ کہیں سے بھی رحیم شاہ کے مقابل کی نہ تھیں مگر چاہنے کے باوجود بھی باپ کے سامنے انکار کرنے کی ہمت رحیم شاہ نہ کر سکے وہ بہت محبت کرنے والے نہ سہی مگر ایک اچھے شوہر ثابت ہونے کی کوشش کر رہے تھے امینہ زبان کی تیز ہونے کے ساتھ ساتھ دماغ کی بھی تیز تھی بہت جلد حویلی کا سارا نظام اپنے ہاتھ میں کرنے کے بعد انہوں نے بی بی (رحیم کی ماں )کو ہر کام سے علیحدہ کر دیا شہاب دو سال کا تھا جب ان کی زندگی میں ایک نیا انقلاب آیا جس کی امید شاید کسی کو بھی نہ تھی
☆☆☆☆☆☆
گہری ہوتی شام میں رحیم شاہ حویلی واپس آرہے تھے جب اچانک کوئی لڑکی ان کی گاڑی سے ٹکرائی ڈرائیور سے بھی پہلے وہ گاڑی سے باہر نکلے کہ اسے کہیں ذیادہ چوٹ نہ آئی ہو وہ سیدھی ہو کر رحیم شاہ کو دیکھنے لگی نیلی شفاف آنکھوں میں غصہ کی جھلک رحیم شاہ کو کسی اور ہی دنیا میں لے گئی وہ اردگرد سے غافل بس اس لڑ کی پر نظریں جماۓ ہوئے تھے انہیں کوئی حوش نہ تھا کہ وہ کون ہیں اور کہاں ہیں ہوش تھا تو اتنا کہ سامنے کھڑی خوبصورت دو شیزہ بے دھڑک ان کے دل کے بند کواڑوں کو کھولتی سیدھی اندر جا گھسی ہے چونکے تو تب جب اس کی آواز کانوں کے پردے پھاڑتی محسوس ہوئی
"ابے تجھے دکھائی نہیں دیتا کیا اندھا ہے تو ـ ـ یہ اتنی بڑی گڈی تجھے چلانی نہیں آتی تو نہ بیٹھا کر اس میں "وہ شاید رحیم شاہ سے واقف نہ تھی تبھی اتنی تیز تیز زبان چلا رہی تھی رحیم شاہ گڑبڑا گۓ
"آپ ٹھیک تو ہیں نا چوٹ تو نہیں آئی "ڈرائیور کی حیران نظروں کی پرواہ کیے بغیر وہ خلاف مزاج نرمی سے بولے
"لگ بھی گئی تو کیا تو ڈاکٹر ہے ؟؟نہیں نا تو پھر جا دفع ہو ـ ـ وقت نہ ضائع کر میرا "وہ نخوت سے سر جھٹکتی پراندہ جھلاتی اک ادا سے چلتی واپس مڑ گئی رحیم شاہ دھیرے سے مسکرا دئیے
"جچتا ہے یہ بھی... تم پر ہی جچتا ہے "ڈرائیور کو اس کی بڑ بڑاہٹ تو سنائی نہیں دی مگر چہرے پر مستقل مسکراہٹ کسی انہونی کا پتہ دے رہی تھی
☆☆☆☆☆☆☆☆
"شاہ جی معاف کردو یہ تو جھلی ہے کچھ بھی بول دیتی ہے اسے پتہ نہیں لگتاــ ـ پہلی غلطی سمجھ کر معاف کر دو "بگی کی ماں نے رحیم شاہ کے پیروں کو ہاتھ لگایا جس کی نظریں بگی کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں بگی کے نام سے بھی وہ ابھی ابھی واقف ہوا تھا اس کی ماں کے پیر چھونے پر چونک گیا فوراً پیر پیچھے کر لیے
"کچھ نہیں ہوتا ماں جی "اس نے نرمی سے کہا
"چل نی تو بھی معافی مانگ ـ ـ اگر مجھے رجو (ڈرائیور )نہ بتاتا تو سوچ کیا ہوتا تیرا "ماں نے بگی کو ٹہوکا دیا وہ ہڑبڑا کر آگے بڑھی اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ جوڑتی رحیم شاہ نے ہاتھ اٹھا کر وہیں روک دیا
"بس بس ـ ـ ـ ایک بار کہہ دیا نا کوئی بات نہیں ـ ـ ہو جاتا ہے ـ ـ غلطی ہماری ہی تھی "اس کے یوں غلطی مان لینے پر بگی کی ماں حیران ہو گئی
"دیکھا مائی میں کہا تھا نا تجھے کہ غلطی میری نہیں شاہ جی کی تھی "بگی مسکرا کر چہرہ ماں کی طرف موڑ کر کر کہنے لگی رحیم شاہ کو اس کی مسکراہٹ بے حد بھلی لگی
"بکواس بند کر لے "مائی نے کھینچ کر ایک ہتھڑ بگی کی کمر پر مارا رحیم شاہ تو گویا تڑپ ہی گیا
"یہ کیا کر رہی ہو ـ ـ کیوں ماراا تم نے اسے ـ ـ ہم خود مان رہے ہیں کہ غلطی ہماری تھی ـ ـ اور اس کے لیے ہم بگی سے معذرت خواہ ہیں "بگی کھل کر مسکرا دی جبکہ اس کی ماں نے دونوں ہاتھ منہ پر رکھے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر رحیم شاہ کا چہرہ دیکھا
☆☆☆☆☆☆☆
دن بدن رحیم شاہ کی محبت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا پہلی نظر کی محبت اب جنون کی انتہا کو پہنچ چکی تھی امینہ کو رحیم شاہ کے بدلتے رنگ ڈھنگ صاف محسوس ہو رہے تھے ہر وقت مسکراتے رہنا ـ ـ کہیں بیٹھے بیٹھے کھو جانا ....یہ سب ان کا دل ہولانے لگا تھا اس کا دل مختلف خدشات کا شکار تھا اور یہ خدشے بے جا بھی نہیں تھے والد کی وفات کے بعد وہ دن بہت جلد آگیا جب گاؤں کی ایک جھلی غریب کسان کی اولاد بگی ـ ـ آبگینے رحیم شاہ بن گئی اختلاف کی ہمت کسی میں بھی نہ تھی وہ اسے حویلی لے آیا امینہ کے لیے یہ دھچکا کم نہ تھا مگر بی بی مطمئن تھیں آبگینے کی خدمت نے ان کا دل موہ لیا تھا امینہ کا رویہ اس کا ساتھ تحقیر آمیز تھا رحیم شاہ کو امینہ کا آبگینے کے ساتھ ہتک آمیز رویہ محسوس ہو گیا تبھی اس نے آبگینے کو شہر والی حویلی پہنچا دیا وہ خود بھی ذیادہ تر شہر رہنے لگے آبگینے کی محبت میں پور پور ڈوبا رحیم شاہ اب ایک نیا رحیم شاہ بن گیا تھا نرم مزاجی ٹھرٹھر کر بولنے والے رحیم شاہ میں پہلے والے رحیم شاہ کی کوئی جھلک نہ تھی امینہ سے وہ محبت کرتا تھا یا نہیں مگر اپنی اولاد سے اسے بہت محبت تھی شہاب شاہ اور زمان شاہ میں ان کی جان بستی تھی
دوسری طرف آبگینے کے ہاں دو جڑواں بچوں نے جنم لیا فیضان شاہ اور تہمینہ شاہ
وقت پر لگا کر اڑنے لگا امینہ نے شہاب اور زمان کے ذہنوں میں سوتیلے بہن بھائی کے خلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی جبکہ دوسری طرف فیضان اور تہمینہ... شاہ پور جانے کو بے تاب رہتے تھے شہاب نے رنگ روپ ماں کا لیا تھا مگر روب و دبدبہ باپ والا تھا جبکہ فیضی ہوبہو باپ کی کاپی تھا وہی رنگت وہی وجاہت وہی گہری آنکھیں تہمی کی آنکھوں کا رنگ آبگینے جیسا تھا نیلی شفاف سحر آنگیز آنکھیں ان دونوں بہن بھائیوں کی غیر معمولی خوبورتی نے شہاب اور زمان کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا وہ لوگ جب بھی حویلی آتے شہاب اور زمان ان سے دور بھاگتے سخت رویہ بگڑے ہوئے زاویے فیضی کی محبت کے جواب میں بھی سرد مہر رویہ رحیم شاہ کو سب محسوس ہوتا تھا انہوں نے ایک دو بار بیٹوں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی مگر ان کے ذہن ماں کی باتوں پر اس قدر پختہ ہو چکے تھے کہ باپ کی منت سماجت انہیں نظر ہی نہ آئی پھر وہ وقت بھی آگیا جب فیضان اور تہمی مستقل حویلی رہنے کے لیے آ گے اور یہ وقت زمان کی نسبت شہاب کے لیے زیادہ کٹھن تھا
☆☆☆☆☆☆☆☆
فیضان اور سکندر کی دوستی کالج سے شروع ہوئی فیضان کا نواب ولا میں بہت آ نا جانا تھا حیات صاحب کا بھائیوں سا محبت بھرا انداز سجاد درانی کا پر شفقت لہجہ اسے کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ وہ اس گھر کے لیے اجنبی غیر ہے اسی دوران آبگینے دل کا دورہ پڑنے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں رحیم شاہ کو خود کو سنبھالنا بے حد مشکل تھا عزیز از جان بیوی سے دوری نے انہیں کمزور کر دیا تھا یہ فیضان ہی تھا جو نرم لفظوں سے انہیں سمجھا بجھا کر زندگی کی طرف واپس لانے کی کوشش کرتا رہتا
وہ شہاب اور زمان کی نفرت سے واقف تھے تبھی انہوں نے فیضی اور تہمی کو شاہ حویلی لے جانے کا فیصلہ کیا وہ نہیں چاہتے تھے کہ فیضان کو حویلی سے دور رکھ کر اسے اس کے حق سے محروم کر دیں یہ فیصلہ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا مگر کبھی کبھار ایسا بھی تو ہوتا ہے نا کہ بہت سوچ سمجھ اور پھونک پھونک کر رکھا جانے والا قدم ہی انسان کو برزخ میں دھکیل دیتا ہے انہیں یقین تھا کہ اکٹھے رہنے سے دل کی کدورتیں ختم ہو جائیں گی مگر آنے والا وقت انہیں غلط ثابت کرنے والا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
سکندر فیضان کے شہر چھوڑنے پر بے حد اداس تھا
"یار تو انکل کو سمجھا نا "سکندر نے بے چاری سے صورت بنا کر کہا
"وہ نہیں مان رہے ویسے بھی مما کے جانے کے بعد ان کی حالت بمشکل سنبھلی یے میں انکار کر کے انہیں مزید دکھی نہیں کر سکتا "فیضی نے رسان سے اپنے جگری دوست کو سمجھایا اسے یہ دوست بہت پیارا تھا اس نے ذیادہ دوست نہیں بناۓ تھے سکندر اس کا واحد دوست تھا ٹین ایج لڑکوں کی طرح اس میں چھچھوری حرکتیں مفقود تھیں جبکہ دوسری طرف سکندر عادات میں اس سے مختلف تھا رنگین آؤ ٹنگ کا شوقین پڑھائی سے کوسوں دور مگر ایک چیز دونوں میں کامن تھی دونوں ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے تھے فیضان اگر حسن و وجاہت کا شاہکار تھا تو کم سکندر بھی نہ تھا ساری زندگی دوستی نبھانے کے وعدے کر کے کس نے اس راہ پر رنگ بدلنا تھا یہ کوئی نہ جانتا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
فیضان اور تہمی حویلی شفٹ ہوگئے تھے امینہ کو یہ سب بے حد ناگوار گزرا تھا مگر مخالفت ظاہر کرنے کی ہمت ان میں نہ تھی خاموشی سے صحیح وقت کا انتظار کرنے لگیں پوری حویلی میں اگر کوئی ان کی آمد پر دل سے خوش تھا تو وہ بی اماں اور حمیرا تھی حمیرا کی آنکھوں میں فیضی کو دیکھ کر جو چمک اتری تھی وہ شہاب کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکی جس کی نظریں ہمہ وقت حمیرا کی ہر سرگرمی پر ہوتی تھیں وہ کیسے اس کی آنکھوں میں اترتے رنگوں کو نہ پہنچانتا اس سب نے اس کے دل میں موجود فیضان کی نفرت میں اضافہ کر دیا
☆☆☆☆☆☆☆☆
حمیرا اور ہما دو بہنیں تھیں والدین کی وفات کے بعد امینہ جو ان کی خالہ تھیں انہیں شاہ حویلی لے آئیں حمیرا بے حد ماڈرن اور خوبصورت تھی اسی حسن نے اسے مغرور اور خود سر بنا دیا تھا اسے شاہ حویلی میں خود سے ذیادہ کوئی حسین نظر نہ آتا تھا اور یہ حقیقت بھی تھی پھونک پھونک کر چلتی اکڑ سے تنی گردن حسن و خوبصورتی میں بے مثال دیکھنے والوں کو ٹھٹھکنے پر مجبور کر دیتی یونہی تو نہیں شہاب شاہ نے اس پر دل ہارا تھا جبکہ دوسری طرف ہما عام سی شکل و صورت کی رکھنے والی سادھی باحیا نیک سیرت اور اچھے دل کی مالک تھی
☆☆☆☆☆☆☆
حمیرا کا دل فیضان پر بری طرح آ گیا تھاوہ ہر حال میں اس سے شادی کی خواہش مند تھی اور جب خواہشیں زور پکڑنے لگیں تو انسان اندھا ہو جاتا ہے یہاں بھی ایسا ہی ہوا اس نے بغیر کسی شرم و لحاظ کے اپنے دل کی بات امینہ کے سامنے رکھ دی وہ حق دق رہ گئیں
"یہ کیا کہہ رہی ہو تم ؟؟" امینہ سنبھل کر غصے سے بولیں
"جی خالہ میں نے آپ کو بتا دیا ہے آگے آپ جانیں آپ کا کام "وہ شان بے نیازی سے بولی
"تم جانتی ہو اسی ناگن کے بچے ہیں وہ جس نے میرا شوہر چھین لیا نفرت ہے ان دونوں سے مجھے اور تم کہہ رہی ہو ـ ـ ـ "ابھی ان کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ وہ درمیان میں بول پڑی
"یہ آپ کا مسلہ ہے خالہ ویسے بھی آپ کی نفرت بے جا تھی آبگینے آنٹی تو اتنی اچھی تھیں اگر آپ چاہتی تو آپ اپنے شوہر کو واپس موڑ سکتی تھیں تھوڑا سا دل بڑا کر لیتیں ...قبول کر لیتں ان کو مگر آپ نے تو ان کا حویلی میں رہنا حرام کر دیا "وہ بول رہی تھی اور امینہ کی آنکھیں پھیلتی جا رہی تھیں
"فیضان اور تہمی دونوں آپ لوگوں کے آگے پیچھے پھرتے ہیں مگر آپ لوگ ....اف ...کس قدر سخت دل ہیں ـ ـبہرحال اب اگر آپ کو ان سے نفرت ہے تو میں کیا کر سکتی ہوں مجھے تو بہت محبت ہے اس سے اور مجھے اپنی محبت ہر حال میں چاہئے "اس کی خود سری سر چڑھ کر بول رہی تھی اپنے مطلب کے لیے وہ امینہ کو حقیقت کی تلخیاں بھی بتا چکی تھی جبکہ کل تک وہ خود آبگینے کے خلاف تھی
*جاری_ہے*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.