Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 19


میـرے_ہـم_نفس_میـرے_ہمنوا

فریحہ_چـودھـری ✍


 #میرے_ہم_نفس_میرے_ہـمنوا
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_19
"غوزہ بی بی آپ سے کوئی فاریہ ملنے آئی ہے " ملازم کی اطلاع پر وہ حیران ہوتی نیچے آئی سامنے ہی فاریہ کھڑی دکھائی دی وہ ڈرائینگ روم کی بجائے لاوٴنج میں چلی آئی تھی غوزہ پر نظر پڑتے ہی اسکے ہونٹ طنزیہ مسکراۓ غوزہ کو عجیب سے احساسات نے گھیر لیا وہ ضبط کرتی ٹھرے ہوۓ لہجے میں بولی
"کیسے آنا ہوا ؟؟"
"بڑا اونچا ہاتھ مارا ہے تم نے تو پھر بھی کوئی خاص تبدیلی تو نہ آئی تم میں "فاریہ نے اسے سر تا پیر دیکھ کر تمسخر اڑایا غوزہ کا ضبط سے برا حال ہو گیا
"شادی کر لی پلٹ کر دیکھا بھی نہیں میں نے سوچا خود ہی بتا آوں آج تمہارے باپ کا جنازہ ہے شرکت کرنا چاہو تو شام تک پہنچ جانا "اس کے سر پر کسی نے بم پھوڑا تھاـکچھ لمحے تو وہ بولنے کے قابل نہیں رہی
" ایسا کیسے ہو سکتا ہے تم جھوٹ بول رہی ہو "وہ بے یقین تھی
"سچ اور جھوٹ کیا ہے یہ تم جہانگیر سے پوچھ لینا اسی نے قتل کیا ہے تایا جان کو"یہ دوسرا شاک تھا غوزہ وہیں صوفے پر گر سی گئی فاریہ پیر پٹختی تنفر سے سر جھٹکتی باہر نکل گئی
☆☆☆☆☆☆☆
وہ ہوش میں آئی تو خود کو بیڈ پر موجود پایا ریجا اس کے سرہانے بیٹھی تھی صوفے پر سمعیہ اور ساتھ مغیث براجمان تھا وہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگی
"لیٹی رہو "ریجا نے کندھے پر دباؤ ڈال کر اسے اٹھنے سے روکا
"ریجا "اس نے کمزور آواز میں پکارا "مجھے بھیا کے پاس جانا ہے "ریجا نے مغیث کو دیکھا وہ اٹھ کر بیڈ کے پاس چلا آیا
"حرب اپنے بھائی کی طرف جانا چاہ رہی ہے "ریجاکے بتانے پر مغیث نے حرب کو دیکھا جو چھت کو گھور رہی تھی وہ سمجھ گیا وہ رات والی بات پر خفا ہے تبھی جانے کا کہہ رہی ہے
"ابھی تو اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے جب ٹھیک ہو گی میں اسے لے جاؤں گا "اس نے رسان سے کہا حرب جھٹکے سے اٹھ بیٹھی
"مجھے ابھی جانا ہے مغیث میرا دل گھبرا رہا ہے پلیز مجھے لے جائیں مجھے ایک بار بھیا سے ملوا دیں "بے قراری سی کہتی اس نے مغیث کا ہاتھ تھام لیا وہ بلند آواز روتے ہوئے التجا کر رہی تھی اس کی حالت نے سب کو پریشان کر دیا
"اوکے میں تمہاری بات کروا دیتا ہوں "مغیث نے نرمی سےکہہ کر جہانگیر کا نمبر ملایا مگر وہ بند مل رہا تھا
"دیکھا بھیا کا نمبر بند ہے نا مجھے وہاں لے جائیں پلیز "اس کی منت سماجتوں پر بھی مغیث اسے بھیجنے پر تیار نہ ہوا تھا اسے ڈر تھا کہ اگر وہ آج گئی تو شاید واپس نہ آۓ تبھی اس نے گوہر کو جہانگیر ولا کی طرف جانے کو کہا
☆☆☆☆☆☆
وہ تھکے تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوا جیسے بہت دور کی مسافت طے کر کے آیا ہو ساری عمر محبتیں نچھاور کیں اس کے بدلے کیا ملا صرف نفرت رسوائی دھکے آج اس نے سب ہار دیا تھا وہ خالی ہو گیا تھا سارے مان سارے بھرم پل بھر میں بکھر گئے تھے اس نے صوفے پر گر کر آنکھیں بند کیں اور خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی جب اسے اپنے پیچھے آہٹ سنائی دی اس نے نوٹس نہ لیا کچھ لمحوں بعد دوبارہ آواز آئی کچھ ٹوٹنے کی آواز پر اس نے پلٹ کر دیکھا تو سامنے غوزہ کھڑی تھی اردگرد چادر لپیٹے سپاٹ چہرہ لیے آنکھوں میں عجیب تاثر تھا وہ جہانگیر کو ہی دیکھ رہی تھی
"کیوں کیا تم نے ایسا "کچھ دیر بعد اس کے ہونٹوں میں جنبش ہوئی جہانگیر مزید حیران ہوا
"کیوں مارا تم نے میرے باپ کو ـ ـ کیا بگاڑا تھا میرے باپ نے ـ ـ تمہارے باپ نے میری ماں کو چھین لیا اور ـ ـ تم نے میرے باپ کو ـ ـ بس ا ب کھیل ختم ـ ـ یہ خون کا کھیل ختم "اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے وہ بے حد آہستہ بول رہی تھی یکدم ہی اس کی آنکھوں میں وحشت اتر آئی اس نے چادر سے ہاتھ نکالا جس میں پسٹل تھا جو یقیناً جہانگیر کا ہی تھا اور اس پر تان لیا وہ اچھل کر صوفے سے اٹھا
"یہ کیا ہے مہر "
"مت کہو مجھےمہر... مت کرو مجھے کمزور... تمہارے سامنے اب غوزہ کھڑی ہے ...وہ بیٹی کھڑی ہے جس کے باپ کو مارتے ہوۓ ایک لمحے کو بھی تمہارا دل نہ کانپا... اب تمہیں میرے باپ کے قتل کا حساب دینا پڑے گا ...تمہیں مرنا پڑے گا جہانگیر شاہ ...میں ماردوں گی تمہیں ..."وہ جو خاموش نظروں سے اسے تک رہا تھا آخری بات پر ایک تلخ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آ ٹھہری غوزہ نے سختی سے آنکھیں میچ کر ٹریگر دبا دیا ٹھاہ کی آواز سے گولی نکلی اور جہانگیر کے جسم کو چیرتی ہوئی نکل گئی
☆☆☆☆☆☆☆
گوہر جو باہر گاڑی لاک کر کے اندر کی طرف بڑھ رہا تھا گولی چلنے کی آواز پر ٹھٹھک گیا اس کے قدم تیزی سے اندر کی جانب بڑھے سامنے کا منظر اس کے ہوش گم کرنے کو کافی تھا جہانگیر زمین پر پڑا تھا خون جا بجا بکھرا ہوا تھا اور سامنے ہی وہ کھڑی جہانگیر کے دم توڑتے وجود کو تک رہی تھی وہ فوراً سے بیشتر جہا نگیر کی طرف لپکا غوزہ تیزی سے باہر کی جانب بڑھی وہ جلد از جلد یہاں سے نکل جانا چاہتی تھی ملازمہ کو اور چوکیدار کو وہ پہلے ہی چھٹی دے چکی تھی اس سے پہلے کہ گوہر اسے روکتا زندگی کی آخری سانسیں لیتا جہانگیر اس کا ہاتھ تھام چکا تھا
"اسے جانے دو جہانگیر شاہ کی موت شاید ایسے ہی لکھی تھی ساری زمدگی محبت کی پیاس بجھانے کی جو خواہش تھی وہ آج میرے ساتھ ہی دم توڑ جائے گی بس میری ـ ـ بہن ـ ـ کا خیال رکھنا "زندگی کی ٹوٹتی ڈور سے جڑا وہ اپنی بہن کا ہی سوچ رہا تھا
میں کہانی کا وہ کردار ہوں
جو مرے گا تو کہانی جی اٹھے گی
"آپ مسٹر جازم بات کر رہے ہیں ؟؟"جازم کو انجان نمبر سے کال آئی
"جی بات کر رہا ہوں " وہ حیران ہوا اگلی خبر نے اس کے ہوش اڑادیئے
"آپ کے لیے ایک انتہائی افسوس ناک خبر ہے مسٹر جہانگیر اب اس دنیا میں نہیں رہے "خبر تھی یا بم جازم کو چھت سر پر گرتی محسوس ہوئی موبائل چھوٹ کر دور جا گرا
"نہ ـ ـ نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ ابھی تو میرے پاس سے گۓ ہیں "وہ بے یقین تھا اسے یقین آ ہی نہیں سکتا تھا جبکہ دوسری طرف نواب ولا حرب کی چیخوں سے گونج رہا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
جنازہ تو ایک اور بھی اٹھا تھا قہرام تو ایک اور گھر میں بھی مچا تھا شاہ پور کی حویلی کے وسط میں پڑی شہاب شاہ کی میت نے غوزہ کو ہلا کر رکھ دیا ایک ہی دن میں دو میتوں نے اس کے حواس سلب کر دئیے تھے وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے ہر ایک کو تک رہی تھی پے در پے جھٹکوں نے بہت جلد اسے ہوش کی دنیا سے بیگانہ کر دیا
☆☆☆☆☆☆☆
جازم کو لگا تھا یہ سب جھوٹ ہے اسے واپس بلانے کے لیے جہانگیرنے ڈرامہ رچایا ہے اس نے خود کو مطمئن کیا آج اس واقعہ کو دس دن گزر چکے تھے جب گوہر اس کے پاس آیا
"مجھے تمہیں کچھ دینا ہے "وہ بغیر سلام دعا کے شروع ہوا چہرہ سپاٹ تھا
"جی "جازم کو حیرت ہوئی
"یہ لو " اس نے فائلز جازم کی طرف بڑھائیں
"یہ کیا ہے ؟؟"
"شاہ پور میں ایک سکول ہے جو جہانگیر نے بنوایا تھا دو گھر اور جائیداد سب کے کاغذات ہیں یہ ـ ـ جہانگیر تو اس دنیا میں رہا نہیں اس لیے قانونی طور پر تم ہی اس سب کے وارث ہو " بات پوری کرتے ہی وہ بے تاثر چہرہ لیے اٹھ کھڑا ہوا
"چند افراد پر مشتمل ایک سیکرٹ فورس تھی ہماری ...جس کا حصہ بننا یقیناً تم پسند نہیں کرو گے " جازم کو جو ڈرامہ لگا تھا اب اس پر شرمندگی محسوس ہوئی مگر دل کو سمجھاتا وہ فائلز کی طرف متوجہ ہو گیا گوہر نے تاسف سے اسے دیکھا کتنا سخت دل تھا وہ جہانگیر جس نے ساری عمر محبتوں کی برسات کر دی تپتی جو دھوپ میں اسکا سایہ بنا تھا آج اس بھائی کی یاد میں بہانے کے
لیے ایک آنسو تک نہ تھا اس کے پاس... اسکی آنکھوں
کے گوشے بھیگنے لگے ایک ہوک سی اٹھی تھی دل میںں وہ سرعت سے پلٹا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا
جھوٹ چہرے پر سجانا نہیں آیا مجھ کو
زندگی تجھ کو بتانا نہیں آیا مجھ کو
رہ کے دنیا میں بھی سیکھی نہیں دنیاداری
کرکے احسان جتانا نہیں آیا مجھ کو
دنیا تھیڑ ہے تو ناکام اداکار ہوں میں
کوئی کردار نبھانا نہیں آیا مجھ کو
ایک ہی شخص کی خواہش میں رہا سرگرداں
دربدر خاک اڑانا نہیں آیاجھ کو
لطف تو تب تھا خود کرتا محسوس محبت
کہہ کر احساس دلانا نہیں آیا مجھ کو
تو سمجھتا ہے کہیں ترک تعلق پہ ہوں خوش
روٹھنے والے منانا نہیں آیا مجھ کو
*_#ختم_شد_*
 *سیزن 2 جلد ہی شروع کیا جائے گا-* 

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.