Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 18


میـرے_ہـم_نفس_میـرے_ہمنوا

فریحہ_چـودھـری ✍


 #میرے_ہــم_نفس_میرے_ہـمنوا
#فریحہ_چــودھـــری ✍
#قسط_18
مغیث لاوٴنج میں موجود تھا اس کی گود میں عون تھا ادینہ نے اسے دیکھا تو وہیں چلی آئی
"کیسے ہو ؟؟ نظر ہی نہیں آتے گھر پر کبھی ہمارے لیے بھی وقت نکال لیا کرو "ادینہ مسکرا کر کہتی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی مغیث کے ماتھے پر موجود شکنوں میں لاتعداد اضافہ ہو گیا اس سے پہلے کہ وہ کچھ سخت سناتا اسے سامنے کچن سے حرب نکلتی دکھائی دی لمحہ لگا تھا اسے موڈ بحال کرنے میں چہرے پر مسکراہٹ سجا کر اس نے ادینہ کی طرف دیکھا
"ہم نے کہاں جانا ہے آپ حکم کریں وقت بھی نکل آئے گا "مغیث کے اتنے میٹھے جواب پر ادینہ بےہوش ہوتے ہوتے بچی عون اپنے ننھے ہاتھوں سے مغیث کے پاس پڑا موبائل اٹھا چکا تھا
"آج تو بہت اچھا موڈ ہے "ادینہ نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے کہا
"اتنے خوبصورت چہرے دیکھنے کو ملیں گے توموڈ تو خود بخود خوشگوار ہو جائے گا "اس کی تعریف نے جہاں ادینہ کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیا تھا وہیں پیچھے کھڑی حرب کو سلگا دیا تھا وہ پیر پٹختی کچن میں چلی گئی مغیث کے ہونٹوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ ٹھہر گئی
کچھ ہی دیربعد وہ جگ اور گلاس ٹیبل پر رکھنے باہر آئی تو سامنے کےمنظر نے اس کا دماغ گھمادیا عون اب ادینہ کی گود میں تھاـاور برے برے منہ بنا رہا تھا وہ دونوں اس سے بے نیاز اپنی باتوں میں مگن تھے وہ تیز تیز چلتی ان تک پہنچی اور چھپٹنے کے انداز میں عون کو ادینہ کے ہاتھوں سے لیا ادینہ تو اس افتاد پر بوکھلا کر رہ گئی مغیث نے حیرت سے سر اٹھا کر اسکا لال بھبھوکا چہرہ دیکھا بلاشبہ وہ غصے میں بھی بے حد حسین لگ رہی تھی مغیث کے دل نے اعتراف کیا وہ دل کی سرگوشی سے نظر چراتا رخ پھیر گیا
"خبردار اگر میرے بیٹے کو آج کے بعد تم نے ہاتھ بھی لگایا تو ہاتھ توڑ دوں گی تمہارے "اس نے دھمکی کے انداز میں انگلی ادینہ کو دکھا کر کہا پھر مغیث کی طرف اشارہ کیا
"البتہ بے کار چیزوں سے تم اپنی جھولی بھر سکتی ہو "اس کے انداز پر دونوں ہکا بکا رہ گئے جب تک مغیث کو اس کے جملے کی سمجھ آئی وہ جا چکی تھی
☆☆☆☆☆☆
فابی غصے سے کمرے میں ادھر ادھر ٹہل رہا تھا ندرت اسے سمجھا بجھا کر تھک چکی تھیں مگر وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھا اس پر جنون سوار ہو چکا تھا ہر حال میں اسے نوائم چاہئے تھی
"سمجھتی کیاہے یہ خود کو ؟؟اس کے انکار کی اوقات ہی کیا ہے ؟؟"فابیان نے تنفر سے سر جھٹکا غصے سے وہ ہر لحاظ بھلا چکا تھا
"ٹھنڈے دماغ سے سوچو...... کیوں خود کو ہلکان کر رہے ہو... تمہارے لیے لڑکیوں کی کمی تھوڑی ہے "ماہی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا
"کچھ بھی ہو جائے ...میری زندگی میں نوائم کسی کی نہیں ہو سکتی... وہ صرف فابیان ہاشم کی ہے... بتا دیجئے گا اپنی بہن کو... ورنہ میرے پاس اپنی بات سمجھانے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں "کہہ کر وہ رکا نہیں تھا ندرت نے پرسوچ نظروں سے فابی کو کی پشت کو دیکھا ماہی مسکرا دی ا نداز ایسا تھا جیسے کہہ رہی ہو اب آۓ گا مزہ
☆☆☆☆☆☆
"بی بی جی صاحب کہہ رہے ہیں ان کا اور ادینہ بی بی کا کھانا ابھی لگا دیں وہ دونوں اکٹھے کھائیں گے "ملازمہ نے آکر حرب کو اطلاع دی
"کون سے صاحب ؟؟" حرب نے ابرو اچکا کر پوچھا ساتھ ہی عون کو ٹیبل پر بٹھایا
"مغیث صاحب نے "حرب کا چہرہ غصے کی زیادتی سے سرخ ہو گیا تاثرات چھپانے کو وہ رخ پھیر گئی
"اچھا تم یہ چاول نکالو ڈش میں " وہ نوری سے کہہ کر خود بھی برتن نکالنے لگی عون نے اچھے بچوں کی طرح پاس پڑے ڈونگے کا ڈھکن اٹھایا جس میں سالن تھا پھر اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے مغیث کے موبائل کو دیکھا اور بڑے آرام سے موبائل ڈونگے میں رکھ دیا اب وہ اپنی کارکردگی پر خوش ہو رہا تھا اس کے کھکھلانے پر حرب پلٹی سامنے کا منظر حیران کن تھا یکدم اسکے ذہن نے کام کیا اس نے نوری سے آنکھ بچا کر ڈونگا اٹھایا اس میں مزید سالن ڈال کر بھر دیا اب موبائل چھپ چکا تھا دل ہی دل میں خوش ہوتے اس نے سالن بھجوایا اور خود وہیں بیٹھ کر مغیث کے ری ایکشن کا انتظار کرنے لگی
☆☆☆☆☆☆
"مہر بی بی جی صاحب کہہ رہے ہیں آکر کھانا کھا لیجۓ "ملازمہ نے جہانگیر کا پیغام غوزہ تک پہنچایا جو گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھی تھی اس نے صبح کا کچھ نہ کھایا تھا صبح کی تلخ کلامی کے بعد جہانگیر گھر سے نکل گیا تھا ابھی کچھ دیر قبل ہی اس کی واپسی ہوئی تھی کمرے میں آنے کی بجائے اس نے ملازمہ کو کہہ کر غوزہ کو کھانے کے لیے بلایا وہ خاموشی سے اٹھ کر نیچے چلی آئی جہانگیر شاید اس کا ہی منتظر تھا اسے آتا دیکھ کر کھانا شروع کر دیا غوزہ بھی خاموشی سے کھاتی رہی کن انکھیوں سے اس نے جہانگیر کی طرف دیکھا اس کا چہرہ ہر احساس سے عاری تھا نہ خوشی نہ غمی وہ کوئی نتیجہ اخذ نہ کر پائی کچھ گرنے کی آواز پر دونوں نے پلٹ کر دیکھا سامنے جازم کھڑا تھا سخت تاثرات لیے وہ ان دونوں پر نظر جماۓ ہوئے تھا بیگ دائیں طرف زمین پر پڑا تھا غوزہ اسے یہاں دیکھ کر حیران ہوئی جبکہ جہانگیر مسکراتا ہوا اس کی طرف بڑھا
"واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز.... تم نے بتایا ہی نہیں "جہانگیر اس کے احساسات سے انجان گرمجوشی سے گلے لگانے آگے بڑھا جازم نے درشتی سے اس کے ہاتھ جھٹکے وہ ٹھٹک گیا
"کیا ہوا جازم "جہانگیر نے حیرت سے اس کے تاثرات دیکھے جس کا چہرہ خطرناک حد تک سرخ ہو رہا تھا شعلہ بار نظروں سسے جازم نے باری باری دونوں کو دیکھا اس کی آنکھوں میں کچھ تھا جسے وہ فی الحال سمجھنے سے قاصر تھا
"تو جو مجھے معلوم ہوا وہ غلط نہ تھا آپ ـ ـ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں آپ کو ایک بار بھی خیال نہ آیا کہ مجھ پر کیا گزرے گی " وہ اتنی زور سے چلایا کہ غوزہ کو اپنے کان پھٹتے محسوس ہوۓ ساتھ ہی اس نے جہانگیر کا گریبان تھام لیا تھا وہ اس کی حرکت پر گنگ رہ گیا اسے جازم سے ایسی امید ہی کہاں تھی
__________
"تو جو مجھے معلوم ہوا وہ غلط نہ تھا آپ ـ ـ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں آپ کو ایک بار بھی خیال نہ آیا کہ مجھ پر کیا گزرے گی " وہ اتنی زور سے چلایا کہ غوزہ کو اپنے کان پھٹتے محسوس ہوۓ ساتھ ہی اس نے جہانگیر کا گریبان تھام لیا تھا وہ اس کی حرکت پر گنگ رہ گیا اسے جازم سے ایسی امید ہی کہاں تھی
"یہ کیا کہہ رہے ہو جازم ؟
"مت لو میرا نام ـ ـ ـ کچھ نہیں لگتا میں تمہارا ـ ـ قاتل ہو تم ـ ـ میری محبت پر ڈاکہ ڈالا ہے تم نے "چیخ چیخ کر اس کی ذات کی دھجیاں اڑاتے اس نے جھٹکے سے جہانگیر کا گریبان چھوڑا
"جازم میری بات سنو "اتنا سب سننے کے بعد بھی وہ سخت لہجہ نہ اپنا سکا جہانگیر نے اسے بازو سے تھامنے کی کوشش کی مگر وہ ہاتھ جھٹکتا دو قدم پیچھے ہوا
"یہ ....یہ میری محبت تھی.... جس سے تم نے زبردستی شادی کر لی ـ ـ صرف میری خوشی چھیننے کے لیے "جازم غوزہ کی طرف اشارہ کر کے دھاڑا جہانگیر کو لگا کسی نے پگھلا ہوا سیسہ اس کے کانوں میں ڈال دیا ہو اس کے سفید پڑتے چہرے کو نظر انداز کرتے جازم نے انتہائی طیش میں گلدان اٹھا کر اس کی طرف اچھال دیا اسنے بروقت بڑھا کر خود کو بچایا جازم کا یہ روپ اسکے ہر لفظ ہر دلیل کو بے زبان کر گیا تھا اس کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کو کچھ بھی نہ بچا جازم کی آنکھوں میں موجود نفرت کی پرچھائیاں اور چھلکتی اجنبیت اس کے ہر جواب کا گلا گھونٹ گئی
"جا رہا ہوں میں مبارک ہو تمہیں یہ جنت ـ ـ کبھی معاف نہیں کروں گا تمہیں... کبھی نہیں "انگلی اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کر بتاتا اسے پاتال میں دھکیل گیا جہانگیر کو محسوس ہوا کہ وقت ایک بار پھر پیچھے چلا گیا ہو وہ پھر سے بھری دنیا میں اکیلا رہ گیا ہے
قـــدم تھک گۓ دور نکــــلنا چھوڑ دیــــــا ہے
پر ایســــا نہیں ہے کہ ہم نے چلنا چھوڑ دیـــا ہے
آج بھی اکـــیلے ہـــیں دنیا کی بھیــڑ مــــــیں
پر ایســــا نہیں ہے کہ ہـــم نے زمانہ چھوڑ دیا ہے
وہ اس کے پیچھے لپکا "جازم ـ ـ جازم ـ ـ جازم رکو پلیز رکو میری بات سنو "ـوہ مین گیٹ تک اس کے پیچھے آیا تھا جازم نے بے رحمی سے اس کے ہاتھ جھٹکے اور نفرت بھری نظروں سے اسے تکتا گیٹ پار کر گیا وہ خالی ذہن اسے جاتا تکتا رہا اس کے چہرہ پر آنسو کی لکیریں بننے لگیں نظریں گیٹ پر جمی تھیں
قاتل گـــناہ کر کے زمـــانے میـــں رہ گئے
ایک ہـــم تھے کہ اشــک بہانے مــیں رہ گئے
پتــــھروں کا جواب دے ســکتے تھے مگر
ہم دل کـــــے آئینے کو بــــچانے میں رہ گئے
"واہ واہ.... داد دینی پڑے گی آپ کو "غوزہ کی تمسخر اڑاتی آواز پر وہ ہولے سے پلٹا وہ اس کے عین سامنے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑی تھی
"کیا اب تک حقیقت سے انجان رکھا ہے اسے بتایا کیوں نہیں کہ وہ تمہارا بھائی نہیں ہے "وہ پھنکاری تھی
"جسٹ شٹ اپ وہ بھائی ہے میرا "جہانگیر کے چبا چبا کر کہنے پر وہ ہنسی
"تمہارا کمزور لہجہ تمہارے جھوٹ کی چغلی کھا رہا ہے ویسے بھائی کے بھائی سے پیار کا دلکش نظارہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہوں "اس نے گویا مزاق اڑایا تھا جہانگیر نے ضبط کی انتہا پر پہنچ کر اسے دیکھا اور بغیر کچھ کہے لڑکھڑاتے قدموں سے اندر کی طرف بڑھ گیا ☆☆ ☆☆☆☆
" یہ کیا ہے ؟"وہ تن فن کرتا حرب کے سامنے پہنچ گیا وہ جو عون کو سلا رہی تھی چونک کر اسے دیکھنے لگی نظر جونہی اس کے ہاتھ میں پکڑے موبائل پر گئی تو وہ خود پر کنڑول نہ رکھ سکی اور کھلکھلا کر ہنس پڑی جسنے مغیث کے غصے کو مزید ہوا دی
"منہ بند کرو اپنا
"اوکے اوکے "وہ ہاتھ اٹھا کر ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولی
"اتنا گھمنڈ کس چیز پر ہے تمہیں ہوں ؟"مغیث نے اسے بازو سے دبوچ کر اپنے سامنے کھڑا کیا
"ایسا تو کچھ نہیں ہے ـ ـ بازو چھوڑیں میرا "اس نے بازو چھڑوانا چاہا
"تمہیں کیا لگتا ہے تم ان اداوں سے مجھے اپنا اسیر کر لو گی ہوں ؟؟" مغیث نے جھٹکے سے اسے قریب کیا
"میں نے ایسی کبھی کوشش کی ورنہ آپ اب تک میرے قدموں میں گر چکے ہوتے " حرب نے بھی جواباً اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا مغیث کا میٹر گھوم گیا اس نے کھینچ کر تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا
"یہ اوقات ہے میری نظر میں تمہاری اگر تمہاری بکواس برداشت کر لیتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم میری توہین کرنے لگو مت بھولو کہ تم یہاں میرے بیٹے کی وجہ سے ہو "اس نے میرے کو کافی کھینچ کر کہا حرب کی آنکھیں آنسو سے بھر گئیں اس سے پہلے مغیث پلٹتا حرب نے اس کو آستین سے پکڑ کر روکا
"آئیم سوری میں غلط تھی یہ تو آپ کا بیٹا ہے میں خواہ مخواہ اسے اپنا سمجھنے لگی آپ کو میری وجہ سے جو تکلیف ہوئی اس کے لیے معزرت چاہتی ہوں "اس کی آنکھوں سے اشکوں کا سیل رواں ہوگیا مغیث نے حیرت سے اس کا یہ روپ دیکھا ورنہ وہ تو ہمیشہ ایک بولڈ اور نڈر لڑکی کے طور پر نظر آئی تھی مغیث کے دل کو یکدم کچھ ہوا بس ایک لمحے کا کھیل تھا اس کے آنسو نے جانے کس انداز میں اس ہر اثر کیا کہ وہ سب غصہ نفرت بھول کر اسکی آنکھوں میں ڈوبنے لگا گہری شہد رنگ آنکھیں لمبی خم دار پلکیں سرخ ہونٹ اور بے تحاشہ گوری رنگت وہ بلاشبہ ایک حسین لڑکی تھی مغیث نے آج پہلی بار اسے غور سے دیکھا تھا
"میں بہت جلد آپ کو اس تکلیف سے نجات دلا دوں گی "اس کی روتی بلکتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی وہ اسے روکنا چاہتا تھا مگر وہ بغیر موقع دئیے کمرے سے نکل گئی
☆☆☆☆☆☆☆
مــــیرے داغِ دل ســـے ہـــے روشنــــی
اســــی روشنــــی ســے ہــے زنـــــدگی
مجــــھے ڈد ہـے اے میــرے چــارہ گــر
یــہ چـــراغ تــو ہــی بـــجھــــا نـــہ دے
مجـھے اے چھوڑ دے میـــرے حال پـــر
تـــــیرا کیــــا بھـــروسہ ہــے چــارہ گــــر
یــــہ تیــــری نــــوازشِ مختصــــــــر
مـــــیــــــرا درد اور بـــــڑھا نـــــہ دے
مــــیرے ہــــم نــــفس میــــرے ہمنــــــوا
مجـــــھے دوســــت بــن کردغـــا نـــہ دے
وہ گھر سے نکل کر پیدل سڑک پر چلنے لگا وہ نہیں جانتا تھا اب اسے کیا کرنا ہے وہ اتنی رات کو کہاں جائے گا غوزہ کو جہانگیر کے ساتھ دیکھ کر وہ خود پر قابو نہیں رکھ پایا تھا وہ امریکہ میں تھا جب فاریہ نے اسے فون کر کے بتایا کہ جہانگیر نے زمان شاہ کا قتل کر دیا ہے اور غوزہ کو زبردستی اٹھا کر لے گیا ہے
"میں نے اسے بتانے کی بہت کوشش کی جازم کہ غوزہ جازم کی پسند ہے جانتے ہو جواباً اس نے کیا کہا "
"کیا کہا ؟؟"جازم کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی
"اس نے کہا کہ جازم کی پسند ہے اسی لیے تو لے کر جا رہا ہوں میرے ہوتے ہوئے وہ اپنی مرضی کے فیصلے کیسے کر سکتا ہے میں اس کی ہر خوشی کو آگ لگا دوں گا تمہارا بھائی ایک منافق شخص ہے جازم "وہ اسے اور بھی کچھ بتا رہی تھی مگر جازم کا ذہن ماوف ہو چکا تھا اس کا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا اس کے حبے بھیا ایسا نہیں کر سکتے بی جان سے بہانہ کر کے وہ اسی دن پاکستان پہنچ گیا تھا گھر داخل ہوتے ہی سامنے کے منظر نے اس کے پیروںں تلے سے زمین نکال دی تھی اور پھر بے حد جنون میں جو اس کے منہ میں آیا بولتا چلا گیا اس چیز پر سسے کوئی پچھتاوا نہیں تھا بہت سوچنے کے بعد اس نے دوست کے پاس رات گزارنے جا فیصلہ کیا اور موبائل نکال کر اس کا نمبر ملانے لگا
☆☆☆☆☆☆
وہ رات بھر دوبارہ کمرے میں نہیں آئی تھی وہ کچن لاونج لان ہر جگہ دیکھ چکا تھا مگر وہ اسے کہیں دکھائی نہ دی باہر تو وہ جا نہیں سکتی تھی گیٹ لاک تھاوہ گئی کہاں اسی پریشانی میں رات بیت گئی صبح کی سفیدی پھیلتی دیکھ کر وہ اپنے کمرے میں آیا صوفے پر ہی اسے حرب بیٹھی دکھائی دے گئی
"او مائی گاڈ "مغیث نے اپنے سر پر ہاتھ مارا سارا گھر چھان مارا تھا مگر اپنے کمرے میں جھانک کر نہ دیکھا تھا اپنی کم عقلی پر خود کو کوستا وہ حرب کی طرف بڑھا
"حرب "اس نے نرمی سے پکارا جواب ندارد ایک بار دو بار اسے ہنوز خاموش دیکھ کر وہ قریب آیا ماتھے پر ہاتھ رکھا تو لگا جیسے جلتا ہوا انگارہ چھو لیا ہو وہ بری طرح بخار میں تپ رہی تھی مغیث کا احساس ندامت مزید بڑھ گیا جلد از جلد اسے بیڈ پر لٹا کر وہ باہر کی طرف بڑھا ☆☆☆☆☆☆☆☆
جہانگیر ساری رات سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہا سوئی تو غوزہ بھی نہ تھی مگر وہ بے حد مطمئن تھی ان دونوں میں کوئی بات نہ ہوئی اس نے مطمئن انداز میں ناشتہ کیا پھر دوبارہ کمرے میں آ گئی جہاں جہانگیر موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا موبائل بند کر کے اس نے اپنی کنپٹیوں کو سہلایا وہ بے حد پریشان لگ رہا تھا جازم کا کہیں کوئی پتا نہیں تھا وہ اس کے ہر دوست سے اس کا پوچھ چکا تھا مگر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اتنا سب ہونے کے باوجود بھی اس کے دل میں جازم کے خلاف کچھ نہ تھا بلکہ اسے یقین تھا کہ یہ سب جازم نے جذباتیت میں کیا ہے اور بہت جلد اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا مگر آنے والے وقت سے وہ انجان تھا اور اسکا انجان رہنا ہی بہتر تھا
غیروں سے کیا شکوہ اپنے دھوکہ دیتے ہیں
اکثر یہ جانے پہچانے چہرے دھوکہ دیتے ہیں
☆☆☆☆☆☆☆
"یار جو بھی ہے بھائی ہے تمہارا ـ ـ کتنا پیار کرتا ہے وہ تم سے یہ بھی تو سوچو "سعود نے جازم کی پوری بات سن کر اسے سمجھایا
"بھائی ایسے ہوتے ہیں دوسروں کی محبتوں پر زبردستی قبضہ کرنے والے "اس کی آواز بلند تھی یہ شاید اسے خود بھی محسوس نہیں ہوا
"ان کی محبتوں کو بھی تو شمار کرو نا "سعود نے سمجھانے کی ایک اور کوشش کی
" ہونہہ کوئی اتنی بھی محبت نہ تھی انکی سب بھائی ہی اپنے بھائیوں سے ایسے ہی محبت کرتے ہیں ہاں مگر وو ایسے نہیں کرتے جو اس نے کیا "اس کا لہجہ نفرت سے بھرا ہوا تھا سعود خاموش ہو گیا جبھی دروازے پر دستک ہوئی وہ گہری سانس بھرتا اٹھ کھڑا ہوا
""جہانگیر بھائی آپ "سامنے جہانگیر کھڑا تھا
"جازم یہیں ہے نا "جہانگیر کے لہجے میں آس سے ذیادہ یقین تھا سعود سے جھوٹ نہیں بولا گیا
"جی آپ آئیں"وہ اسے لیے وہیں چلا آیا جازم انہیں دیکھ کر پہلے تو حیران ہوا پھر نفرت سے منہ پھیر لیا جہانگیر تڑپ گیا
"جازم میرے بھائی ایک بار میری بات سن کو پھر جو چاہے سزا دے لینا "وہ بے اختیار ہی اس کی طرف بڑھا اس سے پہلے کہ وہ اس تک پہنچتا وہ اٹھ کر سائیڈ پر کھڑا ہو گیا اور پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے بغور جہانگیر کا چہرہ دیکھنے لگا بڑھی ہوئی شیو رتجگے کی گواہ سرخ آنکھیں شکن آلود لباس اس نے جہانگیر کو پہلی بار اس حالت میں دیکھا تھا بجائے اس کے کہ اس کا دل پگھلتا وہ مزید سخت ہو گیا
"کیوں آۓ ہو یہاں نفرت ہے مجھے تمہاری شکل سے جی چاہتا ہے کہ تیزاب چھڑک دوں تمہارے اس خوبصورت چہرے پر اور اس سے پہلے کہ میں ایسا کر جاوں چلے جاو یہاں سے "وہ بول نہیں رہا تھا زہر اگل رہا تھا تیر برسا رہا تھا اتنے سخت الفاظ نے جہانگیر کو گونگا کر دیا کیا ایک لڑکی کی محبت اتنی طاقتور تھی کہ برسوں محبت نچھاور کرتے بھائی پر غالب آ گئی سعود بھی حیران کھڑا تھا جازم کی نفرت کا یہ روپ دونوں کے لیے نیا تھا
"جاتے کیوں نہیں ہو "جہانگیر کو ساکت دیکھ کر وہ غرایا اور آگے بڑھ کر دروازے کی جانب دھکیلا
"جازم "جہانگیر کی آنکھوں میں نمی آٹھہری وہ اسے کچھ بتانا چاہتا تھا مگر جازم پر جنون سوار تھا اس کی آنکھوں سے نکلتے نفرت کے شعلے جہانگیر کو ہرا گے تھے جازم نے اسے بازو سے پکڑ کر دروازے سے باہر دھکیل دیا جہانگیر چاہتا تو اس کے ہاتھ جھٹک سکتا تھا بے شک وہ اس سے ذیادہ طاقت ور تھا مگر فیضان شاہ کے بیٹے نے ایسا سیکھا ہی کب تھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
آنکھوں میں رہے دل میں اتر کر نہیں دیکھا
پتھر سمجھتے ہیں میرے چاہنے والے مجھے
میں موم ہوں مجھے کسی نے چھو کرنہیں دیکھا
"بابا "وہ دروازے پر سر ٹکا کر بے اختیار رو دیا آنسو دہلیز پر گر رہے تھے اور وہ جو اس گریہ وزاری کی وجہ بنا تھا بڑے اطمینان سے ناشتہ کرنے میں مصروف ہو چکا تھا پر وہ بے خبر تھا بہت جلد اسے ان آنسوؤ ں کا حساب دینا تھا سود سمیت
*#جاری_ہے*
 *اگلى قسط آخرى هو گى-*  

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.