میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 17
#فریحہ_چوہدری ✍
#قسط_17
وہ کال بند کر کے جب کمرے میں آیا تو خالی کمرہ اسکا منہ چڑا رہا تھا جلنے کی بو پوری کمرے میں پھیل چکی تھی وہ حیران سا ہوا بے اختیار ہی نظر استری اسٹینڈ کی طرف گئی اپنی قیمتی شرٹ کی یہ حالت دیکھ کر اس کا دماغ گھوم گیا وہ تیز تیز چلتا دروزے تک آیا لیکن یہ کیا دروازہ لاک تھا اس نے دو تین بار کھولنے کی کوشش کی مگر بے سود اس کے اشتعال میں مزید اضافہ ہوا اب اس کا رخ دوسری طرف تھا جہاں سے عون کے ہسنے کی آوازیں آرہی تھیں
"دروازہ کھولو "دھاڑ کر کہا گیا جواب ندارد
"سنائی نہیں دے رہا "آواز پہلے سے بھی تیز تھی مگر دوسری جانب ہنوز خاموشی تھی مغیث نے دروازے کو ہاتھ سے بجایا
"اگر تم نے دروازہ نہ کھولا تو میرے پاس اور بھی بہت سے طریقے ہیں دروازہ کھلوانے کے "یہ دھمکی کار گر ثابت ہو ئی حرب اٹھ کر دروازے کے پاس آگئی
" جی فرمائیں"
"دروازہ کھولو" مغیث نے سختی سے کہا
" نہ کھولوں تو "وہ ہنسی
"تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا "
"وہ تو اب بھی نہیں ہے "
"بکواس بند کرو اپنی "
"جب بند کی تھی تب بھی سکون نہیں مل رہا تھا "
"تم دروازہ کھول رہی ہو یا نہیں "
"ایک شرط پر "
"میں تمہاری بات مانوں اتنا برا وقت نہیں آیا "
" تو پھر کمرے میں ہی رہیں "
"تمہیں کیا لگتا ہے تم نہیں کھولو گی تو میں کمرے میں ہی پڑا رہوں گا "
" ہاں بالکل "
"میں ابھی تمہاری یہ غلط فہمی دور کر دیتا ہوں "
"خبردار جو باہر سے کسی کو بلایا تو ابھی جا کر بابا سے آپ کی شکایت کر دوں گی انہیں اپنے ساتھ ہونے والی ہر ظلم کی داستان من و عن سناؤں گی "
میں تمہار ا منہ توڑ دوں گا "
"جو مرضی کر لیں مگر آپ 9 بجے سے پہلے کمرے سے باہر نہیں جا سکتے "
"کیا بکواس ہے یہ "
"میں ہرگز نہیں چاہتی میرا شوہر کسی غیر لڑکی سے ملے "
"تم تم میری جاسوسی کرتی ہو "
"یہی سمجھ لیں "
"میں جس مرضی کے ساتھ جاؤں تمہیں کوئی حق نہیں روکنے کا "
"مجھے پورا حق ہے سمجھے آپ "اس نے حق جتایا دوسری طرف خاموشی چھا گئی کچھ دیر جواب کا انتظار کرنے کے بعد وہ پلٹی تو اچھل گئی وہ اس کے سامنے ہی کھڑا تھا حرب کے چہرے کا رنگ بدلا
"آپ کیسے یہاں ؟؟" اس کے پوچھنے پر مغیث نے چابی اسکے آنکھوں کے سامنے لہرائی
"اب کرو بکواس کیا کہہ رہی تھی تم "وہ دو قدم اس کی طرف بڑھا
"کچھ... کچھ بھی نہیں.... میں تو ابھی آئی ہوں یہاں.... عون سے پوچھ لیں "گبھراہٹ میں جو منہ میں آیا بغیر سوچے سمجھے بول گئی مغیث نے عون کو دیکھا جو بیڈ پر لیٹاـحرب کے دوپٹے سے کھیل رہا تھا مغیث کو بڑھتے دیکھ کر وہ دیوار سے جا لگی
"تمہیں سمجھ نہیں آتا ایک ہی بار میں ؟؟"مغیث نے اسے شانوں سے جکڑا
"نہیں آپ کو تو بولنا ہی نہیں آتا تو سمجھ کیسے آۓ گا ؟؟"جواب حاضر تھا مغیث نے سر تا پیر اسے دیکھا
"تم ہو کیا ؟؟؟اتنا اکڑتی کس چیز پر ہو ؟؟"
"آپ کو کچھ بھی بتانے کی پابند نہیں ہوں.... سمجھے آپ " اس کی آنکھوں میں موجود حقارت نے حرب کو سلگا دیا تھا تبھی تلخی سے جواب دے کر اس کے ہاتھ جھٹکے اور کمرے سے نکل گئی مغیث نے پرسوچ نظروں سے اس کی پشت کو دیکھا
☆☆☆☆☆☆☆
وہ بھاگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی شہاب نے اسے فون کر کے ایک ایڈریس پر آنے کو کہا تھاـاور وہ اتنی خوش تھی کہ بغیر کچھ پوچھے فوراً جانے کو تیار ہو گئی کچھ ہی دیر میں وہ مطلوبہ فلیٹ کے سامنے تھی ددروازہ کسی انجان نے کھولا اسے دیکھ کر وہ شاید سکتہ میں چلا گیا تھا غوزہ نے گلا کھنکھار کر اسکو متوجہ کیا وہ یکدم ہوش میں آیا
"مجھے بابا نے بلایا ہے کیا وہ یہیں ہیں ؟؟"جہانگیر سر ہلاتا راستے سے ہٹ گیا سامنے صوفے ہر ہی شہاب صاحب براجمان تھا ان کے ساتھ تین لوگ اور بھی تھے جنہیں وہ پہچاننے سے قاصر تھی
"بابا "وہ اپنے باپ کی طرف بڑھی وہ بھی اٹھ گۓ
"آپ ٹھیک ہیں نا بابا ؟؟کہاں تھے آپ ؟؟ اتنا پریشان ہو گئے تھے ہم "غوزہ نے ان کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا شہاب اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دئیے
"آج تمہارا نکاح ہے میں نے اسی لیے تمہیں بلایا ہے "انہوں نے گویا دھماکہ کیا وہ ساکت سی ان کا چہرہ دیکھنے لگی
"پریشان مت ہو میں تمہیں غلط ہاتھوں میں نہیں سونپوں گا میں تمہاری خواہش جانتا ہوں تمہارا نکاح جہانگیر سے ہی ہو گا "ان کی آواز سرگوشی سے ذیادہ بلند نہ تھی غوزہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں ددیکھنے لگی برف ہوئے حواسوں کے ساتھ سے کب اس نے نکاح نامے پر دستخط کیے اور وہ کب غوزہ مہر شہاب شاہ سے غوزہ مہر جہانگیر بن گئی جان ہی نہ سکی اسے تو بس اتنا یاد تھا کہ اب وہ ایک قاتل اور ایک بدکردار کے بیٹے کی منکوحہ ہے
کاش کہ ہم ان کی محبت پر راج کرتے
جو کل تھی وہ محبت آج کرتے
ہمیں غم نہیں ان کی بےوفائی کا
ارمان تھا ہمیں اپنی محبت پر ناز کرتے
☆☆☆☆☆☆☆☆
ندرت ماہی اور وقار کے ساتھ حیات صاحب کے پاس آئیں وہ جو کسی فائل میں مصروف تھے چونک کر انہیں دیکھنے لگے
"بیٹھیے "انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور منتظر نگاہوں سے ان کا کا چہرہ دیکھنے لگے
"صبوحی کو بلائیں جو بات ہو گی اس کے سامنے ہو گی " وقار نے بات شروع کی لہجہ اکھڑا اکھڑا تھا ان کی حیرت دوچند ہو گئی
"نوری صبوحی کو بھیجو " کچھ ہی دیر میں کچن سے صبوحی نکلتی دکھائی دی حیات صاحب کے اشارے پر وہ صوفے پر ٹک گئیں
"آپ کا کہنا تھا کہ آپ اس کےسرپرست ہیں ؟؟"وقار نے طنزیہ پوچھا
"میں آج بھی یہی کہوں گا "ان کالہجہ بے لچک تھا صبوحی کا سر مزید جھک گیا
"اس کی بیٹی کے متعلق بھی کچھ سوچا ہے یا نہیں "ندرت نے لب کشائی کی صبوحی کا دل مختلف خدشات میں گھرنے لگا
"کیا کہنا چاہتی ہیں ؟؟"حیات صاحب الجھ گۓ
"مطلب صاف ہے حیات بھائی ـ ـ کون کرے گا اس سے شادی ـ ـ اس کی حقیقت سے سب واقف ہیں یہ کڑوا گھونٹ ہمیں ہی پینا پڑے گا آخر کو وہ سکندر کی بھی تو بیٹی لگتی ہے "ان کی تمہید کا مطلب تو صبوحی کو سمجھ نہ آیا البتہ آخری بات پر انہیں دھچکا لگا تھا
"اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ نوائم کی شادی فابیان سے کر دی جائے آخر اپنوں کے عیبوں پر خود ہی پردہ ڈالنا پڑتا ہے "ماہی نے تلخی سے کہہ کر بات مکمل کر دی حیات صاحب کو حیرت کا دھچکا لگا انہوں نے بے اختیار ہی صبوحی کی جانب دیکھا جن کا چہرہ سفید پڑ چکا تھا وہ ساکت نظروں سے ندرت کو تک رہی تھی عیب والی بات نے ان کے جسم میں چنگاریاں سی بھر دی تھیں وہ خود کو مضبوط کرتیں صوفے سے اٹھ گئیں
"نوائم میری بیٹی ہے اس کا فیصلہ میں کروں گی آپ لوگوں کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں "ان کا لہجہ دو ٹوک تھا وقار کا پارہ ہائی ہو گیا
"کیوں حاصل نہیں ـ ـ ـ اتنا عرصہ اسے گھر میں رکھا ـ ـ اس کے اخراجات برداشت کیے "وقار بول رہے تھے اور صبوحی گنگ تھیں وہ پوچھنا چاہتی تھیں کونسا خرچہ برداشت کیا ؟کونسی محبت اس کی جھولی میں ڈالی تھی کونسا ایسا احسان کیا تھا جس کا وہ خراج وصول کرتے
"اس کو نواب ولا میں رہنے کا شرف حاصل رہا کیا یہ کم نہ تھا ورنہ اس جیسی ناجائز اولادوں کو لوگ کوڑے دانوں میں پھینک دیتے ہیں یہ ہمارا ہی ظرف تھا کہ اس گند کو ـ ـ ـ "
"بس خاموش "صبوجی ہاتھ اٹھا کر چلائیں وقار کی زبان کو بریک لگا حیات صاحب بھی حیران تھے جبکہ سیڑھیاں اترتا مغیث ٹھٹھک کر انہیں دیکھنے لگا ان کا یہ روپ سب کے لیے نیا تھا
"آپ کا کیا ظرف تھا یہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا نواب وقار درانی صاحب ـ ـ نوائم کے وجود کو نواب ولا کا مکین بننا آپ کے ظرف کی نہیں بابا کی میرے بابا کی محبت کا ثبوت ہے آپ سے تو مجھے کل بھی کسی اچھے کی امید نہیں تھی لیکن اپنی بیٹی کو میں کسی کی نفرت یا ضد کی بھینت چڑھنے نہیں دوں گی وہ کسی کی امانت ہے اور جب تک میری سانسیں ہیں میں اس امانت کی حفاظت کروں گی " وہ بولتی چلی جا رہی تھی وقار کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا انہوں نے کچھ بولنا چاہا مگر حیات صاحب کے ہاتھ اٹھا کر روکنے پر خاموش ہو گئے
"بے فکر رہو صبوحی جو تم چاہو گی ویسا ہی ہو گا "ان کی تسلی پر صبوحی نے تشکر آمیز نظروں سے انہیں دیکھا ایک سلگتی نگاہ ندرت پر ڈال کر وہاں سے ہٹ گئیں دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے فابیان کے چہرے پر غصہ و انتقام کی جھلک واضح تھی اس کا زہن اب کچھ اور سوچ رہاتھا
☆☆☆☆☆☆☆
جہانگیر اسے لے کر اپنے گھر آیا تھا وہ بے حد خاموشی سے اس کے ساتھ آگئی ایک بار بھی نظر اٹھا کر اس نے جہانگیر کو نہ دیکھا تھا جہانگیر کو اس کی خاموشی محسوس ہوئی تھی مگر فی الحال اسے اس کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کر کے وہ کمرے سے باہر آگیا غوزہ نے اسے جاتا دیکھا تو گہری سانس بھر کر صوفے کی پشت سے سر ٹکا دیا اس کے دل و دماغ میں ایک جنگ چھڑی ہوئی تھی دل اگر جہانگیر کے حق میں تھا تو دماغ دل کے فیصلے سے انکاری تھا
وہ حیران تھی اس کے بابا تو فیضان اور اس کی فیملی سے نفرت کرتے تھے پھر کیسے جہانگیر سے شادی پر اتنی جلدی رضامند ہو گۓ ؟؟کیا انہیں ذرا بھی مجھ سے محبت نہیں تھی ؟؟یہ سوچ آتے ہی اس کی آنکھیں لبالب پانی سے بھر گئیں یکدم ہی اس کا زہن جہانگیر کی طرف چلا گیا کیا وہ آج بھی اس کا جوجو تھا ؟؟کیا آج بھی اس کے دل میں مہر کے لیے محبت تھی ؟؟ بہت سے سوالات تھے جن کے جواب اسے جہانگیر سے لینے تھے وہ اس کی تلاش میں کمرے سے نکلی سیڑھیاں اتری تو سامنے ہی وہ وہ صوفے پر نظر آگیا آنکھیں بند کیے صوفے کی پشت سے سر ٹکاۓ وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا سوچ کتنی تکلیف دہ تھی اس کا اندازہ اس کے چہرے کی پر چھا ئیو ں سے بخوبی ہو رہا تھا مگر اسے چہرے پڑھنے ہی کہاں آتے تھے وہ تو یک ٹک اسے دیکھے جا رہی تھی کتنا شاندار کتنا مکمل تھا.... اپنی پوری زندگی میں اس نے اتنا خوبصورت... اتنا وجیہہ مرد نہ دیکھا تھا کیا یہ شخص اس کا تھا ؟؟وہ بے یقین ہونے لگی
"کون کرے گا تم جیسی کالی سے شادی کبھی آئینہ میں دیکھا ہے خود کو ؟؟"فہد کی آواز کانوں میں گونجی وہ احساس کمتری میں مبتلا ہونے لگی اور یہ احساس کچھ غلط بھی نہ تھا اگر جہانگیر اور غوزہ کو ساتھ کھڑا کیا جاتا تو وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھی یہ اس کی نظروں کی تپش تھی کہ جہانگیر نے آنکھیں کھول دیں اسے یوں خود پر نظریں جمائے دیکھ کر وہ حیران ہوا غوزہ کی آنکھیں اب اس کی آنکھوں پر تھیں یہ آنکھیں تو اسے کبھی بھولی ہی نہ تھیں مگر اب اسے ان آنکھوں میں دیکھنے سے خوف محسوس ہو رہا تھا بدصورت ہونے کا احساس حاوی ہونے لگا وہ پلٹ کر جانے لگی جب جہانگیر کی گھمبیر آواز سنائی دی
"مہرو "ااس کی آواز بھی بلاشبہ خوبصورت تھی وہ رک گئی مگر پلٹ کر نہ دیکھا دیکھ بھی کیسے سکتی تھی وہ شخص خود میں اتنی کشش رکھتا تھا کہ مقابل کو خود سے محبت پر مجبور کر دے
"آؤ بیٹھو کچھ باتیں کلیئر کر لیں "اس نے جہانگیر کو کہتے سنا وہ ٹس سےمس نہ ہوئی اسے یوں جما دیکھ کر جہانگیر اٹھ کر اس کے پیچھے آن کھڑا ہوا
"جانتا ہوں جن حالات میں ہماری شادی ہوئی تم تو کیا میں بھی زہنی طور پر تیار نہیں تھا تمہارا تو مجھے معلوم نہیں مگر مجھے ابھی کچھ وقت درکار ہے اس رشتے کو نبھانے کےلیے ایک نئی زندگی کا آغازـکرنے کے لیے مجھے کچھ وقت چاہئے اور کیوں چاہئے یہ میں تمہیں وقت آنے پر بتاؤں گا "وہ خاموش ہوا توـغوزہ نے پلٹ کر اسے دیکھا وہ عین اس کے پیچھے کھڑا تھا چند لمحے اسے دیکھتی رہی اسے یوں دیکھتے پا کر وہ مسکرادیا صاف شفاف بے ریا مسکراہٹ
"تم نے مجھ سے شادی کیوں کی "سوال بے حد غیر متوقع تھا جہانگیر کی مسکراہٹ پل بھر میں سمٹی اسے خاموش دیکھ کر غوزہ کا حوصلہ بڑھا
"جو پوچھا ہے وہ بتاؤ "اب کے اس نے چیخ کر کہا لہجہ گستاخانہ تھا جہانگیر کا چہرہ سرخ ہو گیا
"یہ کس لہجے میں بات کر رہی ہو میں اس لہجے میں بات سننے کا عادی ہرگز نہیں ہوں "اس نے ٹھنڈے لہجے میں تنبیہ کی تھی وہ مزید مشتعل ہوئی
"تو تمہیں اس انداز میں بات سننے کی عادت ڈال لینی چاہئے کیوں کہ میں قاتل کے بیٹے سے کوئی نرمی برتنے کے موڈ میں بالکل نہیں ہوں "اس کے سخت الفاظ پر جہانگیر دنگ رہ گیا ایسی بات کی اسے ہرگز امید نہیں تھی
"کیا بکواس ہے یہ ؟؟" اس نے بمشکل خود پر قابو پاتے ہوئے پوچھا غوزہ استہزائیہ ہنسی
"تو اب مطلب بھی میں بتاوں ؟؟؟تمہارا باپ نہ صرف بدکردار تھا بلکہ میری ماں کا قاتل بھی ہے جب کسی بھی طرح میری ماں تک رسائی نا پا سکا تو اس نے میری ماں کا قتل کر دیا یہ ہے تمہارے باپ کی اصلیت ـ ـ ـ "
"چٹاخ "جہانگیر کا ہاتھ اٹھا تھاـاور اٹھتا ہی چلا گیایکے بعد دیگرے کئی تھپڑوں نے اسے ادھ موا کر دیا وہ زمین پر جا گری اسکے لفظوں پر جہانگیر کی کنپٹیاں سلگ اتھیں تھیں وہ مٹھیاں بھینچے بمشکل خود کو روک رہا تھا کچھ بعید نہ تھا کہ وہ اس کا قتل کر دیتا غوزہ چہرے پر ہاتھ رکھے اسے بے یقینی سے دیکھنے لگی جو اب ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی اپنے سر پر انڈیل کر خود کو ٹھنڈا کرنے کی کوششش کر رہا تھا انتہائی طیش میں اس نے جگ دیوار پر دے مارا اور بغیر اسے دیکھے لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا غوزہ چہرے ہر ہاتھ رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو دی
ہر راہی کو من چاہا مقام نہیں ملتا
جس کو جی بھر کے پیار کر سکے وہ انسسان نہیںں ملتا
آسمان کے تاروں کی طرح ہمارے ارمان بکھرتے رہتے ہیں
جو دل میں ہمیں دے جگہ وہ مہربان نہیں ملتاـ
*#جاری_ہے*

No comments: