میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 16
: #میرے_ہم_نفس_میرے_ہـمنوا
#فریحہ_چودھـری ✍
#فریحہ_چودھـری ✍
#قسط_16
کو ـ ـ کون ہو تم ؟؟"انہوں نے تھوک نگل کر پوچھا نظر چہرے پر جمی تھی جہانگیر انکی کرسی کی پشت پر ہاتھ ٹکا کر قریب جھکا
"میں وہ ہوں جس کے بارے میں شاید تم نے کبھی نہیں سوچا ہی نہیں "
"میں وہ فرار قیدی ہوں جس کے لیے تم نے زندان تیار کروایا تھا..... میں وہ بدنصیب بیٹا ہوں جس کے باپ کو تم نے بے قصور مار دیا .... میں وہ بدنصیب مسافر ہوں جسے تمہاری وجہ سے دربدر ہونا پڑا ...جسے تمہاری وجہ سے جرم کی دنیا بسانی پڑی.... اپنی خواہشیوں کا گلا گھونٹنا پڑا ....محرومیاں سہنی پڑیں ... کرچی کرچی ہوۓ خوابوں کو خود اپنے ہاتھوں سے چننا پڑا .....سمجھ گۓ ہو نا یا اور بھی بتاؤں تمہیں "لہجہ سخت تھا تو الفاظ اس سے بھی ذیادہ بے رحم.. اس کی آنکھوں سے لہو ٹپک رہا تھا ...شہاب پر گھبراہٹ طاری ہو گئی..... وہ پلٹا اور کرسی کھینچ کر سامنے بیٹھ گیا کچھ لمحے شہاب کی آنکھوں میں دیکھتا رہا جب بولا تو لہجہ سپاٹ تھا
"کیوں مارا فیضان شاہ کو تم نے ؟؟"
"تم تم کیسے جانتے ہو ؟؟" انکے کانپتی آواز میں پوچھنے پر وہ ہنس دیا اور دیر تک ہنستا رہا اس کی ہنسی بھی شہاب کو خوفزدہ کر رہی تھی
دو دن سے وہ یہاں موجود تھے ہر طرح کی دھمکی اور چیخ وپکار پر بھی کسی زی روح نے کان نہیںں دھرے تھے وہ شہاب شاہ جن کی ایک آواز پر نوکروں کی لائن لگ جاتی تھی آج بے بس و لاچار تھے وہ شہاب شاہ جن کے جلال سے دنیا ڈرتی تھی آج کسی کے رحم و کرم پر پڑے پانی کے دو گھونٹ کو ترس رہے تھےیہ وقت انہیں کس موڑ پر لے آیا وہ سمجھنے سے قاصر تھے جہانگیر سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا
"وہ بدکردار تھا "سختی سے آنکھیں میچ کر انہوں نے گویا خود کو بتایا تھا لہجہ کمزور تھا جہانگیر جھٹکے سے اٹھا
"تو تم کون ہوتے تھے انہیں سزا دینے والے ...جزاوسزا کا اختیار کس نے دیا تھا تمہیں "جہانگیر نے ان کے بال جکڑے
"باپ تھا وہ میرا ..سنا تم نے ...باپ تھا "وہ ان کی ساکت آنکھوں میں دیکھ کر بتا رہا تھا
"کس قدر ظالم ہو تم ...کسی کی معصوم آہیں سنائی نہیں دیں تمہیں ...کسی کی بے گناہی تمہیں نظر نا آئی ...دولت کے لالچ میں اتنے اندھے ہو گئے تھے تم کہ اپنا خون ہی اس آگ میں دھکیل دیا ایک بار ـ ـ ایک بار نا سوچا تم نے کتنی محبت تھی انہیں... کتنا چاہتے تھے بابا تمہیں "چیخ چیخ کر کہتا وہ اپنے باپ کی بے گناہی ثابت کر رہا تھا شہاب کی ہچکی بندھ گئی جہانگیر ٹھٹھک کر رک گیا خاموش ہو گیا مگر چہرے کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہ آئی
"ہاں ہاں میں نے مارا ہے اسے... خود مارا ہے "شہاب نے روتے ہوئے اعتراف کیا جہانگیر نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ لیں
"صرف فیضان کو نہیں تہمی کو بھی مارا ہے میں نے... میں جانتا تھا کہ وہ بے قصور تھے لیکن اس وقت میری آنکھوں پر پٹی بندھی تھی لالچ کی پٹی... انتقام کی پٹی ..تم مجھے کیا سزا دو گے میری زندگی خود سزا ہے میرے لیے ....ختم کر دو اس زندگی کو ....نجات دلا دو مجھے اس کرب سے... لے لو بدلہ اپنے باپ کا " وہ وگویا پھٹ پڑے تھے برسوں کا احساس جرم جو دل میں چھپا تھا لاوے کی صورت بہنے لگا جہانگیر تھکے تھکے انداز میں ان کے سامنے ہی بیٹھ گیا اب اس کے چہرے پر سختی نہیں تھی آنسو تھے آنکھیں برس رہی تھیں وہ رو رہا تھا.. ہاں ..جہانگیر شاہ رو رہا تھا ..وہ اپنے باپ کے قاتل کے سامنے رو رہا تھا... درد بہا رہا تھا لب خاموش تھے ایک دوسرے میں پیوست.. وہ اس وقت ایک ہارے ہوئے جواری کی مانند تھا
میری اینٹیں اکھڑ رہی ہیں .....جناب
یہ درد میرے حوصلے کی دیوار گرا دے گا
"میں نے تمہیں ڈھونڈنے کی کبھی کوشش نہیں کی جانتے ہو کیوں ؟؟"اس کے سوال پر بھی جہانگیر کے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ دوبارہ بولے
"کیوں کہ میں جانتا تھا فیضان شاہ کا بیٹا مجھ تک ضرور آۓ گا ...اپنی امانت لینے ...اپنے باپ کا عہد نبھانے ...ضرور آۓ گا اور میرا یقین بے جا نہیں تھا..".وہ رکے
" میں تم سے معافی نہیں مانگوں گا جانتا ہوں میرا گناہ قابل معافی نہیں ہے لیکن میری بیٹی بہت معصوم ہے اسکے دل میں آج بھی تم بستے ہو اسے میرے کیے کی سزا مت دینا تمہیں فیضان کی قسم..... میری بیٹی کو سزا مت دینا "وہ پھر سے رونے لگے جہانگیر سن بیٹھا رہ گیا اسے جس قسم کی زنجیر میں جکڑ دیا گیا تھا وہ چاہ کر بھی کچھ نہ کہہ پایا
ڈر ہے اکیلا دیکھ کر نہ گھیر لیں مجھے
میری سادگی سے منکر تیرے خوش مزاج جملے
☆☆☆☆☆☆☆☆
ندرت نے ماہی کو پوری بات سے آگاہ کیا مگر وہ پھر بھی مطمئن نہ ہوئیں
"اور اگر عون کو نوائم سے سچ مچ محبت ہو گئی تو ؟؟؟ کیا آپ نے دیکھا نہیں نوائم پوری صبوحی پر ہے "وہ نوائم کی خوبصورتی سے خوفزدہ تھیں
"ارے کچھ نہیں ہوتا وہ میرا بیٹا ہے جو کہوں گی وہی کرے گا اور رہی بات نوائم کی تو وہ جتنی بھی حسین ہو مرد اسی کے ساتھ گھر بساتا ہے جو حسب نسب اور کردار میں اعلی ہو اگر بات صرف خوبصورتی کی ہوتی تو صبوحی آج اکیلی کیوں ہوتی ؟؟"ندرت کی بات ماہی کی سمجھ میں آ گئی تھی ان کو راضی ہوتا دیکھ کر ندرت آگے کا سوچنا لگی
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"آپی شاپنگ پر چلیں "وہ تینوں اس وقت لان میں بیٹھی تھیں جب انامتہ نے کہا حرب عون کو سیری لیک کھلا رہی تھی
"بور ہو گئی ہو ؟؟"ریجا نے مسکرا کر پوچھا انامتہ نے اثبات میں سر ہلایا
"اچھا میرے پاس تمہاری بوریت دور کرنے کا بہت اچھا آئیڈیا ہے "حرب نے کہتے ساتھ ہی نک سک سے تیار گاڑی کا دروازہ کھولتے گوہر کو آواز دی
"گوہر بھائی پلیز ایک منٹ "گوہر چلتا ان تک آیا
"آپ کہیں جا رہے ہیں ؟"
"جی میں تو جا رہا ہوں آپ بتائیں کوئی کام تھا؟؟"اس نے مسکرا کر اسی نرمی سے کہا جو اس کی شخصیت کا خاصہ تھی
"ایکچولی انامتہ کو مارکیٹ جانا تھا میں نے سوچا آپ جا رہے ہیں تو ـ ـ "ابھی حرب کی بات مکمل بھی نا ہوئی تھی کہ گوہر درمیان میں ہی بول پڑا
"جی ضرور میں لے جاتا ہوں "اس کی جلد بازی پر حرب اور ریجا کی ہنسی نکل گئی
"نہیں میں پھر کبھی چلی جاؤں گی آپی "انامتہ نے جھکی نظروں سے کہا
"کیوں آپ کومیرے ساتھ جانے پر کیا اعتراض یے ؟؟"گوہر نے اپنی مرضی کا مطلب اخذ کر لیا
"ایسی بات نہیں ہے... میں تو "انامتہ بوکھلا گئی
"چلی جاؤ انامتہ بھائی لے جائیں گے "ریجا نے مسکراہٹ دبا کر شرارت سے کہا انامتہ سر ہلاتی اٹھ گئی گوہر پہلو بدل کر رہ گیا اپنے دل کی حالت پر وہ خود بھی حیران تھا
☆☆☆☆☆☆☆
انامتہ اور گوہر کے جانے کے بعد وہ دونوں اندر آ گئیں مغیث ہاتھ میں شرٹ پکڑے سیڑھیاں اتر رہا تھا
"نوری کہاں ہے ؟؟اسے میں نے شرٹ پریس کرنے کو کہا تھا"
حسب معمول اس کے چہرے کے زاویے بگڑے ہوئے تھے ایک تلخ نگاہ حرب ہر ڈال کر اس نے ریجا سے پوچھا
"ارے بھائی اب تو آپ کی بیوی آ گئی ہے اس سے کروائیں یہ کام کیوں بے چاری نوری کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں "ریجا کے شوخی سے کہنے پر مغیث نے لب بھینچ لیے
"جاؤ حرب تم کر دو "ریجا نے بے نیاز کھڑی حرب سے کہا ساتھ ہی عون کو پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھاۓ مگر وہ مزید حرب سے چمٹ گیا حرب ایک جتاتی نظر مغیث پر ڈال کر آگے بڑھ گئی ناچار مغیث کو پیچھے پیچھے آنا پڑا اس کی سخت نگاہیں وہ اپنی پشت پر بھی محسوس کر سکتی تھی خلاف توقع کمرے میں آکر بھی مغیث خاموش رہا اس نے حیرت سے پلٹ کر دیکھا تو وہ اسے ہی گھور رہا تھا
"ویسے اس وقت کہاں جا رہے ہیں ؟؟"حرب نے گھڑی پر نگاہ ڈال کر پوچھا جو شام کے پانچ بجا رہی تھی
"جہنم میں "تڑاخ سے جواب ملا
"واو ـ ـ وہ جگہ تو آپ کو سوٹ بھی کرتی ہے "حرب نے دل جلانے والی مسکراہٹ سے کہا اور اس کی توقع کے عین مطابق وہ آگ بگولا ہو گیا
"بکواس بند رکھو اپنی اور جو کرنے آئی ہو وہ کرو "
"چلیں پھر عون کو پکڑ لیں یہ اکیلا نہیں بیٹھے گا" وہ بھی شرافت کے جامےمیں آئی مغیث نے خاموشی سے عون کو گود میں اٹھا لیا اور صوفے پر جا بیٹھا حرب بھی شرٹ پکڑ کر استری سٹینڈ کی طرف آ گئی اگلے ہی لمحے مغیث کا فون بجا وہ باہر نکل گیا
"پتہ نہیں کس کا فون ہے جو اتنا چھپ کر بات کی جا رہی ہے.. ہونہہ "حرب نے جل کر سوچا یکدم اسے نیا خیال سوجھا اس نے شرٹ کو وہیں چھوڑا اور دروازے کی طرف چلی آئی وہ پاس ہی کھڑا تھا
آواز بخوبی حرب کے کانوں تک پہنچ رہی تھی
"جب کہہ رہاہوں کہ تھوڑی دہر تک آ جاؤں گا تو سمجھ نہیں آ رہی تمہیں "مغیث کا انداز سختی لیے ہوا تھا دوسری طرف سے جانے کیا کہا گیا
"تم آخر چاہتی کیا ہو ؟؟"اب کے اس کا لہجہ دھیما تھا
حرب کا دل زور سسے دھڑکا تو اس کا خدشہ بے جا نہ تھا دوسری طرف کوئی لڑکی تھی وہ دلگرفتہ سی کمرے میں واپس آئی شرٹ بری طرح جل چکی تھی پورے کمرے میں جلنے کی بو پھیل گئی "اوہ مائی گاڈ "اس نے سر پر ہاتھ مارا جلدی سے پلگ نکال کر عون کی طرف آئی جو اب رو رہا تھا اسے اٹھا کردرمیانی دروازے کی طرف بڑھی اور اندر سے لاک کر لیا
*#جاری_ہے*

No comments: