Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 15


میـرے_ہـم_نفس_میـرے_ہمنوا

فریحہ_چـودھـری ✍


 #میرے_ہم_نفس_میـرے_ہـمنوا
#فریحہ_چــودھـــری ✍
#قسط_15
وہ منہ ہاتھ دھو کر کمرے میں آئی تو عون اٹھ چکا تھا وہ سات آٹھ ماہ کا ایک خوبصورت بچہ تھا اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے اسے ہی دیکھ رہا تھا حرب کو بے اختیار اس پر پیار آیا حلانکہ رات مغیث کے ساتھ بحث کے بعد وہ سوچ چکی تھی کہ عون میں کوئی دلچسپی نہیں لے گی لیکن اس کی معصوم صورت دیکھ کر اسے اپنے فیصلے پر شرمندگی سی محسوس ہوئی سوتیلے پن کی اذیت و محرومی سے وہ بھی گزر چکی تھی اس نے جھک کر اسے بانہوں میں اٹھا لیا
"کتنا پالا بے بی ہے ـ ـ ہے نا "اس نے پیار سے کہہ کر اس کا ماتھا چوما وہ کھلکھلا کر ہنس دیا تبھی دروازے پر دستک دے کر ریجا اندر آئی
"واہ بھئی تم یہاں ہو میں تمہیں مغیث کے کمرے میں ڈھونڈ رہی ہوں "وہ معنی خیزی سے کہتی عون کی طرف متوجہ ہو گئی حرب مسکرا بھی نہ سکی
"چلو آ جاؤ نیچے سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں "اس نے عون کو اس کے ہاتھوں سے لے لیا تبھی نظر حرب کے لباس پر پڑی
"ارے تم نے چینج نہیں کیا جلدی سسے جاؤ میں تمہارا انتظار کر لیتی ہوں تمہارے گھر والے بھی آنے والے ہوں گے"ریجا بے تکلفی سے کہتی بیڈ پر بیٹھ گئی ناچار اسے اٹھنا پڑا اپنے اوپر بیتی داستان تو اسے سنا نہیں سکتی تھی خاموشی سے مغیث کے کمرے کی طرف چچل دی وہ کمرے میں نہیں تھا اس نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا

تیار ہو کر وہ جب نیچے آئی تو سب لاوٴنج میں بیٹھے تھے مغیث جہانگیر کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا حرب پر ایک نظر ڈال کر نگاہوں کا زاویہ بدل گیا غیر متوقع طور پر ماہی اور ندرت بھی وہیں تھیں شاید دلہن اور اس کے گھر والوں کو دیکھنے کا شوق انہیں کھینچ لایا تھا اس نے ہلکی آواز میں سب کو سلام کیا حیات صاحب نے پر شفقت انداز میں اس کے سر پر ہاتھ رکھا بی جان نے بھی محبت سے گلے لگایا مگر جو گرم جوشی اور اپنائیت اسے جہانگیر کے انداز میں محسوس ہوئی وہ اس اندر تک سرشار کر گئی اپنے مضبوط اور جوان بھائی کو سامنے پا کر ہر ڈر اور اندیشہ کہیں دور جا سویا
اعتماد سے چلتی وہ مغیث کے سامنے والے صوفے پر جازم کے ساتھ بیٹھ گئی
"کیسے ہو ؟؟"اس نے محبت سے جازم کو دیکھا
"بہت پیارا "حسب توقع وہ چہکا
" یہ تو میں جانتی ہوں "وہ مسکرائی
"ویسے آپی ایک بات تو بتائیں " وہ اس کے کان کے پاس آ کر بولا
ہاں پوچھو
"آپ کے سسرال میں لڑکیوں کی بہت کمی ہے کیا وجہ ہے ؟؟؟"اس کے آرام س پوچھنے پر حرب کا قہقہ چھوٹ گیا سب نے چونک کر اسے دیکھا اس نے جلدی سے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی کا گلہ گھونٹنا چاہا پر وہ نظروں میں آچکی تھی
"بھئی ہمارے وقت کی دلہنیں توبہت شرماتی تھیں مگر آج کل کی دلہنیں تو ـ ـ ــ "بات ادھوری چھوڑ کر ندرت نے ناگواری سے سر جھٹکا حرب شرمندہ سی ہو گئی جبکہ جہانگیر کے ماتھے پر بل پڑ گے جنہیں حیات صاحب نے بخوبی دیکھ لیا
"کیا ہے بھئی ندرت کہیں بھی شروع ہو جاتی ہو چلو بھئی ناشتہ لگاؤ مہمان کب سے بیٹھے ہوئے ہیں "ندرت کو ٹوک کر وہ سمعیہ کی طرف متوجہ ہوئے
"جی ابھی لگواتی ہوں " صورت حال سمجھ کر وہ ریجا کو اشارہ کرتیں خود بھی اٹھ گئیں ندرت کی نظروں سے خائف ہو کر حرب بھی اٹھ کر کچن کی طرف چل دی وہ سیڑھیوں کے پاس ہی تھی جب کسی نے بازو سے جکڑ کر بے دردی سے اپنی طرف کھینچا ساتھ ہی منہ پر ہاتھ رکھ کر چیخ روکنے کی کوشش کی گئی حرب اس افتاد پر گبھرا گئی ادھر ادھر دیکھا کوئی بھی نہ تھا مغیث نے اسے دیوار کے ساتھ لگا دیا اور خود اسکے سامنے آگیا ایک ہاتھ دیوار پر ٹکا کر وہ اسکی طرف جھکا
"میری بات کان کھول کر سن لو اگر تم نے جہانگیر یا کسی بھی دوسرے فرد سے اپنی مظلومیت کا رونا رویا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا "سخت لہجے میں سرگوشی کی گئی حرب نے اپنے چہرے سے اس کا ہاتھ ہٹایا
"کیوں کیوں نہ بتاؤں بقول آپ کے میرے بھائی نے ہی میری زندگی برباد کی ہے تو اب پوچھ گچھ کا حق تو بنتا ہے "حرب کی آواز قدرے بلند تھی مغیث نے تیز نظروں سے اسے گھورا
"آواز نیچی رکھو اور جو میں نے کہا ہے اسے اچھی طرح اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں بٹھالو "اس نے حرب کے سر پر انگلی رکھ کر کہا
"اور اگر میں آپ کی بات نہ مانوں تو ؟؟"حرب نے دونوں بازو سینے پر باندھتے ہوئے پوچھا مغیث کو مزید تپ چڑھ گئی
"دیکھو "اس نے انگلی اٹھا کر کہنا چاہا مگر حرب نے درمیان میں ہی بات کاٹ دی
"دیکھ تو میں آپ کو رہی ہوں اب آپ دیکھیں میں کیا کرتی ہوں "حرب کا انداز دھمکی آمیز تھا اس سے پہلے مغیث کچھ کہتا ریجا عون کے ساتھ وہاں پہنچ گئی مغیث نظروں ہی نظروں میں اسے تنبیہہ کرتا واپس مڑ گیا حرب کھل کر مسکرا دی "اب آۓ گا مزہ "اس نے ہاتھ جھاڑ کر ریجا کی گود سے عون کو اٹھا لیا

"فابی ادھر آؤ یہاں بیٹھو مجھے تم سے بات کرنی ہے "ندرت بیگم نے فابی کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا
"جی مما کیا بات کرنی ہے ؟؟"وہ پاؤں سیدھا کرتا ان کی طرف متوجہ ہو گیا
"بیٹا ادینہ تمہیں کیسی لگتی ہے ؟؟"انہوں نے براہ راست سوال کیا
"اچھی ہے آپ کیوں پوچھ رہی ہیں ؟؟"وہ حیران سا ہوا اس غیر متوقع سے سوال پر
"اچھی ہے خوبصورت ہے پڑھی لکھی ہے تمہارے ساتھ اچھی بھی لگے گی "
"میرے ساتھ "اس نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کر کے پوچھا ندرت بیگم نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا انہیں پورا یقین تھا کہ فابی کبھی انکی خواہش رد نہیں کرے گا
" مما آپ کا مطلب میں اس سے شادی ـ ـ ـ مما آپ نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا مما ٹھیک ہے وہ میری دوست ہے مگر شادی ـ ـ نو نیور "اس نے صاف الفاظ میں انکار کیا ندرت بیگم تو حق دق رہ گئیں ایسا تو ان کے گمان میں بھی نہ تھا
"کیا مطلب تمہیں کوئی اور پسند ہے کیا ؟؟"کچھ لمحوں بعد انہوں نے سنبھل کر پوچھا اس نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا
"کون ـ ـ کون ہے وہ ؟؟"وہ کچھ دیر ان کا چہرہ دیکھتا رہا
"نوائم مجھے نوائم پسند ہے "اس کے بے دھڑک بے لچک انداز پر وہ چکرا کر رہ گئیں
"میں اگر شادی کروں گا تو صرف نوائم سے اور آپ کو میری بات ماننا ہو گی "وہ نہ پوچھ رہا تھا نہ بتا رہا تھا بلکہ فیصلہ سنا رہا تھا فابی کا یہ روپ نہ صرف ان کے لیے نیا تھا بلکہ حیران کن بھی تھا ان کے سامنے ان کا لاپرواہ فرمانبردار ان کے اشاروں پر ناچنے والا فابیان نہ تھا یہ تو کوئی اور ہی فابیان تھا اس کی آنکھوں میں انہیں بغاوت نظر آئی تھی مگر وہ بھی مجبور تھیں جو وہ مانگ رہا تھا وہ دلانا ان کے بس میں نہ تھا اگر وہ کسی اور لڑکی کا نام لیتا تو وہ غور بھی کرتیں مگر نوائم صبوحی کی بیٹی ایک ناجائز اولاد ان کے لیے کسی طور قبول نہ تھا

بی اماں اور جازم آج شام کی فلائیٹ سے امریکہ چلے گۓ تھے حرب جہانگیر کے ساتھ انہیں ائیر پورٹ چھوڑنے آئی تھی واپسی ہر جہانگیر ہی اسے نواب ولا چھوڑنے آیا تھا اس کے جانے کے بعد وہ کمرے میں چلی آئی اپنی ہر ضرورت کی چیز سمیٹ کر عون کے کمرے میں سیٹ کرنے لگی مغیث کے کمرے میں آنے سے پہلے وہ کام نمٹا لینا چاہتی تھی اس کے ہاتھ میں چند سوٹ تھے جب مغیث دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا اسے کمرے میں دیکھ کر ماتھے پر بل ڈالے دوپہر والی بدتمیزی یاد آتے ہی وہ اس کی طرف بڑھا اسے اپنی آتا دیکھ کر حرب تیزی سے عون کے کمرے کی طرف بڑھی مگر دیر ہو چکی تھی مغیث نے پھرتی سے اس کی کلائی تھام کر رخ اپنی طرف کیا
"صبح تو بہت شیرنی بنی ہوئی تھی اب کیوں ڈر رہی ہو "انداز مزاق اڑانے والا تھا حرب کو غصہ آگیا
"میں کوئی لاوارث نہیں ہوں جو آپ جیسے کمزور مردوں سے ڈروں "اس نے براہ راست وار کیا مغیث کا ہاتھ اٹھتے اٹھتے رہ گیا
"جسٹ شٹ اپ تم ہو کیا ہوں ؟؟"مغیث نے اس کا چہرہ مٹھی میں جکڑا
"چھوڑو مجھے "حرب نے اس کے ہاتھ ہٹانے چاہے مگر مقابل کی گرفت مضبوط تھی
"ایک منٹ میں قدموں میں گرا سکتا ہوں تم جیسی لڑکیوں کی اوقات ہی کیا ہوتی ہے "اس نے جھٹکے سے اس کا چہرہ چھوڑا وہ دو قدم پیچھے ہوئی مغیث کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں حرب نے کھسکنے کا سوچا اس کا ارادہ جان کر وہ اس کے سامنے آگیا
"اگر آج کے بعد میرے ساتھ زبان درازی کی تو جان سے مار دوں گا سمجھی "حرب نے اس خوبصورت انسان کے سخت روپ کو بڑی دلگرفتگی سے دیکھا جس کے دل میں اس کے لیے رتی برابر جگہ نہ تھی وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی اب مغیث نے دیر تک اسے کوسنا تھا
__________
وہ آج دو دنوں بعد ہوش میں آئی تھی آج بھی سواۓ پانی کے اسے کچھ نہ دیا گیا وہ نڈھال سی دیوار کے ساتھ بیٹھ گئی جب دو ٹائیگر اندر آۓ ایک نے اسے بازو سے تھام کرکھڑا کیا اور باہر لے جانے لگا وہ بے بس سی اس کے ساتھ گھسٹتی چلی گئی آج اسے جس کمرے میں لے جایا گیا وہ تاریک اور چھوٹا تھا ایک کرسی پر کوئی شخص بیٹھا تھا جو یقیناً باس تھا اور سامنے ایک شخص زمین پر زخمی پڑا تھا اسے لا کر اس شخص کے پاس زمین پر بٹھا دیا گیا جونہی نظر شخص چہرے ہر پڑی اس کی چیخ نکل گئی وہ کوئی اور نہیں زمان شاہ تھا
"پاپا ـ ـ ـ پاپا "وہ تیزی سے ان کی طرف بڑھی ان کا چہرہ ہاتھوں میں تھاما تو ایک سسکی ہونٹوں سے نکل گئی زمان شاہ کے چہرے پر جگہ جگہ نیل تھے
"کیوں ـ ـ ـ کیوں مارا میرے پاپا کو تم نے "اس نے روتے ہوۓ اس جابر انسان سے پوچھا جو بڑے کروفر سے ٹانگ پر ٹانگ رکھے ایک ہاتھ میں سگریٹ تھامے رخ موڑے بیٹھا تھا مگر آج چہرے پر ماسک نہ تھا
"ہم نے کیا کیا ہے ؟؟؟کیوں لاۓ ہو ہمیں یہاں ؟؟" وہ بلند آواز میں روتے ہوئے پوچنے لگی
"تمہیں ہی شوق تھا نہ مجھ سے ملنے کا ...فاریہ زمان... تو سوچا کیوں نا تمہاری خواہش پوری کر دی جاۓ ""وہ تمسخرانہ مسکرا کر کہتا اس کی جانب مڑا چہرے پر نظر پڑتے ہی فاریہ کی آنکھیں پھیل گئیں
"ج ـ جہانگیر "اسے یاد آیا جہانگیر نے اس سے ملنے کا وعدہ کیا تھا مگر اس طرح رات کے اندھیرے میں گھر سے اٹھا کر دو دن اس کے دل میں خوف و ہراس پیدا کر کے یہ کونسا انداز تھا ملنے کا... کتنے ہی لمحے لگے تھے اسے یقین کرنے میں
"تو تمہیں کیا لگا تھا میں تم میں انٹرسٹڈ ہوں ؟؟ تم پر مرنے لگا ہوں ؟؟ہونہہ " جہانگیر نے نفرت سے اس کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھا
"کیا کیا چاہتے ہو تم ؟؟"
"مہرو ـ ـ مہرو چاہئے مجھے "وہ کرسی دھکیل کر کھڑا ہوا "اگر تمہیں اپنی اور اس کی "اس نے انگلی سے زمان شاہ کی طرف اشارہ کیا "زندگی عزیز ہے تو مجھے شہاب شاہ کی موت کی گارنٹی چاہئے اسے ماروں گا تو میں..... مگر اسے یہاں تک... لاو گی تم "اس نے انگلی فاریہ کے ماتھے پر مارتے ہوئے کہا وہ گنگ سی اس سنگدل کا چہرہ دیکھتی رہی
☆☆☆☆☆☆
حرب دیر تک جاگ کر مغیث کے رویے پر غور کرتی رہی ابھی کچھ دیر قبل ہی اس کی آنکھ لگی تھی کہ عون کے رونے پر اسے اٹھنا پڑا اس نے فیڈر دیکھا تو خالی تھا وہ آنکھیں ملتے اٹھ بیٹھی دوپٹہ اچھی طرح لپیٹ کر اس نے عون کو اٹھایا اور نیچے چلی آئی صبح کے چھ بج رہے تھے گوہر لاوٴنج میں بیٹھا جوس پی رہا تھا وہ اسے سلام،کرتی کچن میں آگئی جہاں صبوحی ناشتہ بنا رہی تھیں اس نے حیرت سے انہیں کام کرتا دیکھا اتنی ساری ملازماؤں کے ہوتے ہوئے بھی وہ خود کام کر رہی تھیں
"السلام علیکم پھوپھو "اس نے مسکرا کر انہیں سلام کیا
"وعلیکم السلام جیتی رہو کچھ چاہئے تھا ؟
"جی عون رو رہا تھا شاید اسے بھوک لگی ہے ـ"اس کے بتانے پر انہوں نے سر ہلایا
"تم بیٹھو میں فیڈر بنا دیتی ہوں "وہ کرسی کھینچ کر وہیں بیٹھ گئی جب اپنے پیچھے اسے ادینہ کی آواز سنائی دی
"فریش جوس دیں مجھے"اس نے پلٹ کر دیکھا بلیک کھلے ٹراوزر پر کھلی شرٹ پہنے بغیر دوپٹہ کے تنے ہوئے تاثرات لیے وہ دروازے میں ایستادہ تھی "یہ گھر میں ایسے رہتی ہے "حرب نے حیران ہو کر سوچا
"میں پہلے فیڈر بنا لوں پھر ـ ـ "صبوحی نے رسان سے کہا ادینہ نے ماتھے پر بل ڈال کرپہلے حرب اور پھر صبوحی کو دیکھا
" آپ کو سمجھ نہیں آرہا کیا کہا میں نے .... کل کی آئی لڑکی کو آپ مجھ پر فوقیت دے رہی ہیں "وہ غصے سے چلائی حرب بوکھلا کر اٹھی
"اتنی سی بات پر شاوٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے "حرب نے نرمی سے کہا مگر وہ اس کے مزاج سے واقف ہی کہاں تھی
"تم اپنا منہ بند رکھو ....تمہارے منہ نہیں لگنا چاہتی میں "ادینہ کے لہجے میں حقارت تھی حرب کی زبان گنگ ہو گئی وہ صبوحی کے ہاتھ سے فیڈر لے کر تیزی سے باہر نکل گئی ادینہ کے رویے نے اسے الجھا دیا تھا اور صبوحی کے ساتھ اس کا انداز اسے کچھ سمجھ نہیں آئی
ناشتے کی میز پر اس نے نگاہ دوڑائی تو سب موجود تھے سواۓ صبوحی کے .....وہ ادھر ادھر دیکھتی آگے بڑھ آئی سب کو سلام کر کے اپنے بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈی ادینہ مغیث کے ساتھ بیٹھنے لگی تھی وہ فوراً آگے بڑھی اور ادینہ کا ہاتھ کرسی سے ہٹا کر وہیں براجمان ہو گئی سب کے سامنے اپنی توہین پر ادینہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا وہ تن فن کرتی پلٹ گئی مغیث نے ایک سلگتی نگاہ اس کے وجود پر ڈالی "ڈھیٹ "مغیث نے دانت کچکچا کر ہلکی آواز میں کہا حرب اسے مزید تپانے کے لیے بلاوجہ ہی مسکرا دی ساتھ ہی جوس کا گلاس اٹھا کر ہونٹوں سے لگا لیا
شادی کو کافی دن گزر چکے تھے اس عرصے میں مغیث آفس جوائن کر چکا تھا عون اس سے کافی حد تک مانوس ہو چکا تھا گھر کے باقی افراد سے بھی وہ گھل مل گئی تھی سواۓ ندرت اور ماہی کے ....ان کا رویہ دیکھ کر وہ سامنے آنے سے کترا جاتی.... ادینہ تو اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اور آج کل ویسے بھی وہ مغیث کے آگے پیچھے پھرتی تھی فابی کے انکار کے بعد اس کی نظر الفات کا رخ پھر سے مغیث کی طرف ہو گیا تھا حرب صبح ہی صبح اٹھ کر صبوحی کے ساتھ کچن میں آجاتی اور پھر ان کے منع کرنے کے باوجود ہر کام میں ان کی مدد ضرور کرتی انامتہ اور ریجا کی پر خلوص فطرت کی وجہ سے ان سے جلد ہی اس کی دوستی ہو گئی تھی دوسری طرف فابی کے انکار نے ندرت کو پریشان کر دیا تھا مگر فابی ندرت کا منانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا اب بھی وہ ان کے گھٹنے سے لگا بیٹھا تھا
"پلیز مما جان مان جائیں نا پرامس اس کے بعد آپ کو کبھی تنگ نہیں کروں گا "اس نے منت بھرے لہجے میں کہا
"تم جانتے ہو تمہاری اس ضد نے میری راتوں کی نیندیں اڑا دی ہیں ایک اکلوتا بیٹا ہے میرا وہ بھی چھین لیا اس صبوحی نے مجھ سے ساری عمر میری خوشیوں سے جلتی رہی ہے یہ عورت پہلے میرا شوہر اور اب اس کی بیٹی نے میرا بیٹا پھانس لیا کبھی معاف نہیں کروں گی صبوحی تمہیں اللہ پوچھے" وہ جھولی اٹھا کر صبوحی کو بددعائیں دینے لگیں
"مما میں یہ سب آپ کے لیے ہی کر رہا ہوں "فابی نے پینترا بددلا
"کیا مطلب ؟؟"وہ چونک گئیں
"میں جانتا ہوں صبوحی خالہ کی وجہ سے آپ نے ساری زندگی کس طرح گزاری ہے اب بس یہی صحیح موقع ہے ان سے بدلہ لینے کا " اس نے نئی راہ دکھائی بات کا پسِ منظر سمجھ کر ندرت کے ہونٹوں پر شاطرانہ مسکراہٹ آگئی
☆☆☆☆☆☆
شہاب صاحب نے جونہی آنکھیں کھولیں ایک کراہ ان کے ہونٹوں سے نکل گئی ان کے ہاتھ کرسی سے بندھے ہوئے تھے اور سامنے ہی ایک خوبرو دراز قدوقامت والا نوجوان کھڑا تھا وہ چونک گۓ ساری حسیات بیدار ہو گئیں
"ف ـ ـ فیضی "لب تھر تھراۓ مقابل کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آ گئی وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا شہاب کے سامنے آگیا
"بڑی اچھی یادداشت ہے آپ کی تو "وہ ہنوز مسکرا رہا تھا دائیں گال پر پڑتا ڈمپل مزید گہرا ہو گیا شہاب صاحب بغور اس کے نقش دیکھ رہے تھے جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوں
"کو ـ ـ کون ہو تم ؟؟"انہوں نے تھوک نگل کر پوچھا نظر چہرے پر جمی تھی جہانگیر انکی کرسی کی پشت پر ہاتھ ٹکا کر قریب جھکا
"میں وہ ہوں جس کے بارے میں شاید تم نے کبھی نہیں سوچا ہی نہیں
*#جاری_ہے*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.