میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 14
#فریحہ_چـودھـری ✍
#قسط_14
اب کے وہ اس کی طرف متوجہ ہوا جو خوفزدہ نظروں سے میز پر پڑے تیز دھار چاقو کو دیکھ رہی تھی
"کیا نام ہے تمہارا ؟؟"اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر دل مضبوط کرتی بولی
"تمہاری موت "اس کا ہی جملہ دہرایا گیا
"رئیلی ـ ـ تم میری موت ہو "باس سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا یکدم ہی اس کی آنکھوں میں وحشت اتر آئی "تم ـ ـ تم میری موت ہو "درشتی سے کہہ کر باس نے اس کے بال جکڑے ایک سسکی اس کے ہونٹوں سے نکل کر کمرے میں گم ہو گئی
"حالانکہ تم سب کی موت میری زندگی ہے "وہ غرایا اس کے اشارے پر اس کا ایک ٹائیگر آگے بڑھا اور میز پر سے چاقو اٹھا لیا یہ دیکھ کر وہ چیخنے لگی مگر وہ اس کی بجاۓ ایک آدمی کی طرف بڑھا اسے گلے سے دبوچ کر ایک کٹ اس کے بازو پر لگایا وہ تڑپنے لگا اور پھر یکے بعد دیگرے کئی کٹ اس کے بازوں پر لگائے گئے باس اس کی چیخوں سے محفوظ ہو رہا تھا جبکہ فاریہ اپنے بال اس سے چھڑوانے کی جدوجہد میں مصروف تھی
"کیوں ـ ـ کیوں کر رہے ہو تم ایسا "اس نے لڑکھڑاتی آواز میں پوچھا
"ہاہا بتائیں گے ضرور بتائیں گے اتنی بھی جلدی کیا ہے "وہ اسے غور سے دیکھتے ہوئے ہنسا
"ظلم ہے یہ لوگوں پر... کیا ملتا ہے تمہیں یہ کر کے ....ترس نہیں آتا تمہہں ...دل نہیں کانپتا تمہارا ....کس مٹی کے بنے ہو تم ؟؟"وہ چیخنے لگی اسے معلوم تھا مر تو جانا ہے پھر کس چیز کا خوف "درندے ہو تم انسان نہیں ہو "وہ سسکی مگر مقابل پر کوئی اثر نہ ہو اس نے اپنے دوسرے ٹائیگر کو اشارہ کیا اس کے ہاتھ میں کوئی رومال تھا جو اس کے منہ پر رکھا گیا ہوش وخرد سے بیگانہ ہونے سے پہلے جوآخری چہرہ اس نے دیکھا وہ اس کے باپ کا تھا ☆☆☆☆☆☆
آج مغیث اور حرب کا نکاح تھاـوقار اور ماہی کی ناراضگی جوں کی توں تھی وہ اپنی ضد سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے انامتہ پہلی بار کوئی پاکستانی شادی اٹینڈ کر رہی تھی وہ بہت ایکسائٹڈ تھی سمعیہ بیگم کی ہدایت پر اس نے پنک فراک زیب تن کی تھی جس ہر نگینوں کا نفیس کام ہوا تھا گجرے ہاتھ میں لیے وہ نیچے آئی جہاں مغیث اور گوہر کے ساتھ حیات صاحب بھی موجود تھے گوہر کی نظریں اس پر جم سی گئیں مغیث نے اسے ٹہوکا دیا
"ارے واہ میری بیٹی تو بہت پیاری لگ رہی ہے "سمعیہ بیگم نے محبت سے ساتھ لگا کر کہا
"بس ہم ہی جائیں گے "اس نے سب پر نظر ڈال کر حیرانی سے کہا
"ہاں بیٹا فیملی میں سے ہم ہی ہیں مغیث اور گوہر کے کچھ دوست ہوں گے اور کسی کو انوائیٹ نہیں کیا "حیات صاحب کے جواب پر اس کا چہرہ اتر گیا
"میں تو سوچ رہی تھی کہ خوب ہلہ گلہ ہو گا مگر ـ ـ
"ہلہ گلہ ہم تمہاری شادی پر کر لیں گے " مغیث نے مسکرا کر درمیان میں ہی اس کی بات کاٹ دی وہ جھینپ گئی
"اور صبوحی ممی وہ بھی نہیں جائیں گی ؟؟"اس نے پھر سے سوال داغا
"ایک تو یہ سوال بہت کرتی ہے " گوہر بڑبڑایا
"نہیں بیٹا وہ گھر پر دلہن کا استقبال کریں گی "سمعیہ بیگم نے بات ٹالی کیونکہ ان کی لاکھ منتوں کے بعد بھی صبوحی جانے کے لیے نہیں مانی تھیں
"لیکن نوائم کو تو جانا چاہئے نا میں اسے لے کر آتی ہے "وہ جانے کو پلٹی
"ارے بیٹا ابھی دیر ہو رہی ہے دلہن والے انتظار کر رہے ہوں گے چلو جلدی کرو یہ گجرے پہنو "انہوں نے اس کا دھیان بٹایا مقیت اور ریجا کے آتے ہی 7 افراد پر مشتمل یہ چھوٹا سا قافلہ جہانگیر کی طرف روانہ ہو گیا
☆☆☆☆☆
جہانگیر صبح 4 بجے گھر پہنچا تھا ناشتے کی میز پر اس کی ملاقات جازم سے ہوئی جس نے ناراضگی کے طور پر رخ پھیر لیا جہا نگیر نے محبت سے گلے لگا کر اس کے کان میں سرگوشی کی "آئیم سوری " جازم اس سے لپٹ گیا "بھیا "
"اچھا ہٹوـمجھے بہت سے کام ہیں ابھی... باقی باتیں بعد میں "وہ اس کا کندھا تھپتھپاتا باہر کو چل دیا
________
اسلوبی سے سر انجام پاگیا تھا جہانگیر نے مغیث کو گلے لگا کر مبارکباد دی
"میری بہن کا خیال رکھنا اس سے اگر کوئی غلطی ہو جاۓ تو درگزر کر دینا یہ سوچ کر کہ وہ مجھے بہت عزیز ہے میں اس کے چہرے پر غم نہیں دیکھ پاؤں گاـ"اس کے آرزدگی سے کہنے پر وہ الجھ گیا کوئی منہ بولی بہن کے لیے اس طرح کے جزبات کیسے رکھ سکتا ہے
حرب بلیڈ ریڈ بھاری فراک میں بے حد خوبصورت لگ رہی تھی بی اماں نے اس کی نظر اتاری اور دائمی خوشیوں کی دعا دی مگر خوشیاں تو نصیبوں سے ملا کرتی ہیں اگر دعاؤں سے ملتیں تو کوئی بیٹی غمگین نہ ہوتی
__________
نواب ولا میں اسکا استقبال سادگی سے کیا گیا تھا ریجا اسے مغیث کے کمرے میں چھوڑگئی اس نے گھوم پھر کر پورا کمرہ دیکھا ایک تصویر کے سامنے جا کر وہ رک گئی تصویر میں مغیث کے ساتھ کوئی پیاری سی لڑکی تھی جو بے تحاشہ ہنس رہی تھی جبکہ مغیث کی والہانہ نظریں اس کے چہرے پر جمی تھیں
"شاید یہ مغیث کی پہلی بیوی ہے "اس کے زہن میں خیال آیا جہانگیر بھیا نے تو کہا تھا کہ وہ دھوکہ دے کر گئی ہے اگر ایسا ہے تو یہ تصویر اب تک یہاں کیوں ہے "اسے خواہ مخواہ ہی جلن محسوس ہو رہی تھی اپنے دل کی کیفیت پر وہ خود بھی حیران رہ گئی تبھی دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی کوئی اندر آیا وہ پلٹی تو سامنے مغیث کھڑا تھا
"تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟"اس کے چبھتے سوال پر وہ ٹھٹکی اس سوال کا کیا مقصد تھا یہ جاننے سے وہ قاصر تھی
"سمجھ نہیں آئی کیا پوچھ رہا ہوں "وہ اونچی آواز میں بولا
"تو آپ کو نظر نہیں آرہا کیا کر رہی ہوں "اس نے بھی دوبدو جواب دیا سوال جیسا تھا جواب بھی تو ویسا ہی ہونا تھا مغیث کے ماتھے پر بل پڑ گۓ
"حد درجہ بد تمیز لڑکی ہو تم "
"جیسی بھی ہوں اب آپکی بیوی ہوں " وہ اطمنیان سے کہتی صوفے پر بیٹھ گئی اسکا لاپرواہ انداز مغیث کو طیش دلا گیا وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اس تک پہنچا اور بازو سے دبوچ کر اسے اپنے مقابل کھڑا کیا
"میں آرہا ہوں مرے کمرے سے نکلو
"کیامطلب ہے؟ کیوں جاوں میں یہاں سے ؟؟نکاح کیا ہے آپ نے ایسے کیسے نکال سکتے ہیں مجھے "حرب کو بھی اسکے کڑوے لہجے پر غصہ آگیا
"نکاح میں نے اپنے بیٹے کے لیے کیا ہے اس لیے تمہیں عون کے کمرے میں رہنا ہو گا مجھ سے کسی قسم کی کوئی امید مت رکھنا "
اسکے سفاکی سے کہنے پر حرب کا دل بھر آیا چھن سے کچھ ٹوٹا تھا کہیں دل کے پاس بہت قریب
"اپنے بیٹے کی اتنی فکر تھی تو کوئی آیا رکھ لیتے میری زندگی کیوں برباد کی" اسکا لہجہ بھیگا ہوا تھا مگر مغیث پر اسکے آنسووں کا بھی کوئی اثر نہ
"میں نے نہیں کی تمہارے بھائی نے یہ زندگی تمہارے لیے خودپسند کی ہے ورنہ تم جیسی لڑکیوں کی اوقات میں اچھے سے جانتا ہوں "وہ پھنکارا حرب گنگ سی اس کا چہرہ دیکھے گئی ۔
"چلو نکلو اب مجھے آرام کرنے دو " مغیث نے اسے بازو سے جکڑ کر عون کے کمرے کی طرف دھکیلا جس کا ایک دروازہ اس کے کمرے میں کھلتا تھا اور خود واش روم میں گھس گیا وہ بمشکل خود کو سنبھالتی آنسو پیتی عون کے کمرے کی طرف بڑھی
☆☆☆☆
جہانگیر بیٹا مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے "بی جان صبح ہی صبح اس کے کمرے میں آئیں
" جی بی جان کہیے "وہ مودب سا ان کے سامنے بیٹھ گیا
"بیٹا شایان کی شادی ہے اسی مہینے "انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے بیٹے کا نام لیا جو امریکہ میں مقیم تھے "تم اتنے دنوں سے گھر پر نہیں تھے تو بتانے کا موقع نہیں ملا انہوں نے بصد اصرار مجھے آنے کا کہا ہے "
"ضرور بی جان آپ ضرور جائیں "جہانگیر ان کے ہاتھ تھام کر مسکراتے ہوۓ بولا
"میں چاہتی ہوں کہ تم اور جازم میرے ساتھ چلو "وہ اصل بات کی طوف آئیں
"بی جان میں ضرور چلتا لیکن آپ کو معلوم ہے کام کا کتنا لوڈ ہے آپ جازم کو ساتھ لے جائیں میں وعدہ کرتا ہوں آپ کو لینے ضرور آؤں گا "اس کے بے لچک انداز میں کہنے پر وہ خاموش ہو گئیں جانتی تھیں اب کچھ بھی کہنا بے کار ہے
"ہوں ٹھیک ہے لیکن اپنا وعدہ یاد رکھنا تیار ہو جاؤ حرب کے گھر چلنا ہے میں جازم کو دیکھتی ہوں "وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھ گئیں جہانگیر نے گہری سانس بھر کر ان کی پشت کو دیکھا
_________
وہ منہ ہاتھ دھو کر کمرے میں آئی تو عون اٹھ چکا تھا وہ سات آٹھ ماہ کا ایک خوبصورت بچہ تھا اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے اسے ہی دیکھ رہا تھا حرب کو بے اختیار اس پر پیار آیا حلانکہ رات مغیث کے ساتھ بحث کے بعد وہ سوچ چکی تھی کہ عون میں کوئی دلچسپی نہیں لے گی لیکن اس کی معصوم صورت دیکھ کر اسے اپنے فیصلے پر شرمندگی سی محسوس ہوئی سوتیلے پن کی اذیت و محرومی سے وہ بھی گزر چکی تھی اس نے جھک کر اسے بانہوں میں اٹھا لیا
"کتنا پالا بے بی ہے ـ ـ ہے نا "اس نے پیار سے کہہ کر اس کا ماتھا چوما وہ کھلکھلا کر ہنس دیا تبھی دروازے پر دستک دے کر ریجا اندر آئی
"واہ بھئی تم یہاں ہو میں تمہیں مغیث کے کمرے میں ڈھونڈ رہی ہوں "وہ معنی خیزی سے کہتی عون کی طرف متوجہ ہو گئی حرب مسکرا بھی نہ سکی
"چلو آ جاؤ نیچے سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں "اس نے عون کو اس کے ہاتھوں سے لے لیا تبھی نظر حرب کے لباس پر پڑی
"ارے تم نے چینج نہیں کیا جلدی سسے جاؤ میں تمہارا انتظار کر لیتی ہوں تمہارے گھر والے بھی آنے والے ہوں گے"ریجا بے تکلفی سے کہتی بیڈ پر بیٹھ گئی ناچار اسے اٹھنا پڑا اپنے اوپر بیتی داستان تو اسے سنا نہیں سکتی تھی خاموشی سے مغیث کے کمرے کی طرف چچل دی وہ کمرے میں نہیں تھا اس نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا
تیار ہو کر وہ جب نیچے آئی تو سب لاوٴنج میں بیٹھے تھے مغیث جہانگیر کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا حرب پر ایک نظر ڈال کر نگاہوں کا زاویہ بدل گیا غیر متوقع طور پر ماہی اور ندرت بھی وہیں تھیں شاید دلہن اور اس کے گھر والوں کو دیکھنے کا شوق انہیں کھینچ لایا تھا اس نے ہلکی آواز میں سب کو سلام کیا حیات صاحب نے پر شفقت انداز میں اس کے سر پر ہاتھ رکھا بی جان نے بھی محبت سے گلے لگایا مگر جو گرم جوشی اور اپنائیت اسے جہانگیر کے انداز میں محسوس ہوئی وہ اس اندر تک سرشار کر گئی اپنے مضبوط اور جوان بھائی کو سامنے پا کر ہر ڈر اور اندیشہ کہیں دور جا سویا
اعتماد سے چلتی وہ مغیث کے سامنے والے صوفے پر جازم کے ساتھ بیٹھ گئی
"کیسے ہو ؟؟"اس نے محبت سے جازم کو دیکھا
"بہت پیارا "حسب توقع وہ چہکا
" یہ تو میں جانتی ہوں "وہ مسکرائی
"ویسے آپی ایک بات تو بتائیں " وہ اس کے کان کے پاس آ کر بولا
ہاں پوچھو
"آپ کے سسرال میں لڑکیوں کی بہت کمی ہے کیا وجہ ہے ؟؟؟"اس کے آرام س پوچھنے پر حرب کا قہقہ چھوٹ گیا سب نے چونک کر اسے دیکھا اس نے جلدی سے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی کا گلہ گھونٹنا چاہا پر وہ نظروں میں آچکی تھی
"بھئی ہمارے وقت کی دلہنیں توبہت شرماتی تھیں مگر آج کل کی دلہنیں تو ـ ـ ــ "بات ادھوری چھوڑ کر ندرت نے ناگواری سے سر جھٹکا حرب شرمندہ سی ہو گئی جبکہ جہانگیر کے ماتھے پر بل پڑ گے جنہیں حیات صاحب نے بخوبی دیکھ لیا
"کیا ہے بھئی ندرت کہیں بھی شروع ہو جاتی ہو چلو بھئی ناشتہ لگاؤ مہمان کب سے بیٹھے ہوئے ہیں "ندرت کو ٹوک کر وہ سمعیہ کی طرف متوجہ ہوئے
"جی ابھی لگواتی ہوں " صورت حال سمجھ کر وہ ریجا کو اشارہ کرتیں خود بھی اٹھ گئیں ندرت کی نظروں سے خائف ہو کر حرب بھی اٹھ کر کچن کی طرف چل دی وہ سیڑھیوں کے پاس ہی تھی جب کسی نے بازو سے جکڑ کر بے دردی سے اپنی طرف کھینچا ساتھ ہی منہ پر ہاتھ رکھ کر چیخ روکنے کی کوشش کی گئی حرب اس افتاد پر گبھرا گئی ادھر ادھر دیکھا کوئی بھی نہ تھا مغیث نے اسے دیوار کے ساتھ لگا دیا اور خود اسکے سامنے آگیا ایک ہاتھ دیوار پر ٹکا کر وہ اسکی طرف جھکا
"میری بات کان کھول کر سن لو اگر تم نے جہانگیر یا کسی بھی دوسرے فرد سے اپنی مظلومیت کا رونا رویا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا "سخت لہجے میں سرگوشی کی گئی حرب نے اپنے چہرے سے اس کا ہاتھ ہٹایا
"کیوں کیوں نہ بتاؤں بقول آپ کے میرے بھائی نے ہی میری زندگی برباد کی ہے تو اب پوچھ گچھ کا حق تو بنتا ہے "حرب کی آواز قدرے بلند تھی مغیث نے تیز نظروں سے اسے گھورا
"آواز نیچی رکھو اور جو میں نے کہا ہے اسے اچھی طرح اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں بٹھالو "اس نے حرب کے سر پر انگلی رکھ کر کہا
"اور اگر میں آپ کی بات نہ مانوں تو ؟؟"حرب نے دونوں بازو سینے پر باندھتے ہوئے پوچھا مغیث کو مزید تپ چڑھ گئی
"دیکھو "اس نے انگلی اٹھا کر کہنا چاہا مگر حرب نے درمیان میں ہی بات کاٹ دی
"دیکھ تو میں آپ کو رہی ہوں اب آپ دیکھیں میں کیا کرتی ہوں "حرب کا انداز دھمکی آمیز تھا اس سے پہلے مغیث کچھ کہتا ریجا عون کے ساتھ وہاں پہنچ گئی مغیث نظروں ہی نظروں میں اسے تنبیہہ کرتا واپس مڑ گیا حرب کھل کر مسکرا دی "اب آۓ گا مزہ "اس نے ہاتھ جھاڑ کر ریجا کی گود سے عون کو اٹھا لیا
"فابی ادھر آؤ یہاں بیٹھو مجھے تم سے بات کرنی ہے "ندرت بیگم نے فابی کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا
"جی مما کیا بات کرنی ہے ؟؟"وہ پاؤں سیدھا کرتا ان کی طرف متوجہ ہو گیا
"بیٹا ادینہ تمہیں کیسی لگتی ہے ؟؟"انہوں نے براہ راست سوال کیا
"اچھی ہے آپ کیوں پوچھ رہی ہیں ؟؟"وہ حیران سا ہوا اس غیر متوقع سے سوال پر
"اچھی ہے خوبصورت ہے پڑھی لکھی ہے تمہارے ساتھ اچھی بھی لگے گی "
"میرے ساتھ "اس نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کر کے پوچھا ندرت بیگم نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا انہیں پورا یقین تھا کہ فابی کبھی انکی خواہش رد نہیں کرے گا
" مما آپ کا مطلب میں اس سے شادی ـ ـ ـ مما آپ نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا مما ٹھیک ہے وہ میری دوست ہے مگر شادی ـ ـ نو نیور "اس نے صاف الفاظ میں انکار کیا ندرت بیگم تو حق دق رہ گئیں ایسا تو ان کے گمان میں بھی نہ تھا
"کیا مطلب تمہیں کوئی اور پسند ہے کیا ؟؟"کچھ لمحوں بعد انہوں نے سنبھل کر پوچھا اس نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا
"کون ـ ـ کون ہے وہ ؟؟"وہ کچھ دیر ان کا چہرہ دیکھتا رہا
"نوائم مجھے نوائم پسند ہے "اس کے بے دھڑک بے لچک انداز پر وہ چکرا کر رہ گئیں
"میں اگر شادی کروں گا تو صرف نوائم سے اور آپ کو میری بات ماننا ہو گی "وہ نہ پوچھ رہا تھا نہ بتا رہا تھا بلکہ فیصلہ سنا رہا تھا فابی کا یہ روپ نہ صرف ان کے لیے نیا تھا بلکہ حیران کن بھی تھا ان کے سامنے ان کا لاپرواہ فرمانبردار ان کے اشاروں پر ناچنے والا فابیان نہ تھا یہ تو کوئی اور ہی فابیان تھا اس کی آنکھوں میں انہیں بغاوت نظر آئی تھی مگر وہ بھی مجبور تھیں جو وہ مانگ رہا تھا وہ دلانا ان کے بس میں نہ تھا اگر وہ کسی اور لڑکی کا نام لیتا تو وہ غور بھی کرتیں مگر نوائم صبوحی کی بیٹی ایک ناجائز اولاد ان کے لیے کسی طور قبول نہ تھا
________
بی اماں اور جازم آج شام کی فلائیٹ سے امریکہ چلے گۓ تھے حرب جہانگیر کے ساتھ انہیں ائیر پورٹ چھوڑنے آئی تھی واپسی ہر جہانگیر ہی اسے نواب ولا چھوڑنے آیا تھا اس کے جانے کے بعد وہ کمرے میں چلی آئی اپنی ہر ضرورت کی چیز سمیٹ کر عون کے کمرے میں سیٹ کرنے لگی مغیث کے کمرے میں آنے سے پہلے وہ کام نمٹا لینا چاہتی تھی اس کے ہاتھ میں چند سوٹ تھے جب مغیث دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا اسے کمرے میں دیکھ کر ماتھے پر بل ڈالے دوپہر والی بدتمیزی یاد آتے ہی وہ اس کی طرف بڑھا اسے اپنی آتا دیکھ کر حرب تیزی سے عون کے کمرے کی طرف بڑھی مگر دیر ہو چکی تھی مغیث نے پھرتی سے اس کی کلائی تھام کر رخ اپنی طرف کیا
"صبح تو بہت شیرنی بنی ہوئی تھی اب کیوں ڈر رہی ہو "انداز مزاق اڑانے والا تھا حرب کو غصہ آگیا
"میں کوئی لاوارث نہیں ہوں جو آپ جیسے کمزور مردوں سے ڈروں "اس نے براہ راست وار کیا مغیث کا ہاتھ اٹھتے اٹھتے رہ گیا
"جسٹ شٹ اپ تم ہو کیا ہوں ؟؟"مغیث نے اس کا چہرہ مٹھی میں جکڑا
"چھوڑو مجھے "حرب نے اس کے ہاتھ ہٹانے چاہے مگر مقابل کی گرفت مضبوط تھی
"ایک منٹ میں قدموں میں گرا سکتا ہوں تم جیسی لڑکیوں کی اوقات ہی کیا ہوتی ہے "اس نے جھٹکے سے اس کا چہرہ چھوڑا وہ دو قدم پیچھے ہوئی مغیث کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں حرب نے کھسکنے کا سوچا اس کا ارادہ جان کر وہ اس کے سامنے آگیا
"اگر آج کے بعد میرے ساتھ زبان درازی کی تو جان سے مار دوں گا سمجھی "حرب نے اس خوبصورت انسان کے سخت روپ کو بڑی دلگرفتگی سے دیکھا جس کے دل میں اس کے لیے رتی برابر جگہ نہ تھی وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی اب مغیث نے دیر تک اسے کوسنا تھا
*#جاری_ہے*

No comments: