میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 12
#فریحہ_چــودھـــری ✍
#قسط_12
جہانگیر کے گھر پر ان کا پر تباک اسقبال کیا گیا تھا بی جان کو بھی یہ فیملی پسند آئی تھی مغیث البتہ کچھ سنجیدہ سا تھا مگر جازم کی موجودگی نے اسے ذیادہ دیر خاموش رہنے نہ دیا صبوحی کی نظریں جہانگیر کے چہرے پر ہی تھی اس کے چہرے میں انہیں کوئی اور چہرہ نظر آرہا تھا ان کی محویت نوٹ کر کے حیات صاحب نے جہانگیر سے فیضان کا پوچھا
"بیٹا آپ کے والد صاحب کہاں ہیں ؟؟"انکے سوال پر چند لمحے خاموشی چھا گئی
"وہ اس دنیا میں نہیں ہیں انکل " اسکی دھیمی آواز میں دئیے گئے جواب پر حیات صاحب کو دھچکا لگا تھا مگر خود کو کمپوز کرنا بھی ضروری تھا کچھ ہی دیر بعد انہوں نے اپنے دل کی خواہش جہانگیر کے سامنے رکھی نہایت عاجزی سے ٹھیک ایک ہفتے بعد نکاح کا مطالبہ کر دیا مغیث تو باپ کی جلدی پر حق دق رہ گیا جہانگیر بھی شش و پنج میں تھا وہ حرب کی شادی دھوم دھام سے کرنا چاہتا تھا مگر حیات صاحب کے سامنے اس کی سب دلیلیں رائیگاں گئیں انہوں نے اسے منا کر ہی دم لیا اور یوں بروز جمعہ نہایت سادگی سے مغیث اور حرب کا نکاح طے پایا
____________
"آج آپ نے حیات بھائی کو دیکھا بھابھی ؟؟ کیا لہجہ تھا ان کا "ماہی بیگم نے ادھر سے ادھر ٹہلتے ہوئے کہا
"تم بیٹھ جاؤ کیوں دل جلا رہی ہو اپنا "ندرت نے انہیں سمجھانا چاہا
"کیسے بیٹھ جاؤں بھابھی آج تک ایسا نہ ہوا بھائی صاحب نے ہر ایک کی بات کو ہمیشہ اہمیت دی ہے اس گھر کے امن کو ہمیشہ سب سے آگے رکھا ہے پھر آج ـ ـ آج ہی کیوں انہوں نے یہ فیصلہ کیا آپ نے دیکھا نہیں انہوں نے سب پر صبوحی کو فوقیت دی "وہ اب بھی اسی بات میں الجھی ہوئیں تھیں اس سے پہلے کہ ندرت کچھ کہتی فابیان آنسو بہاتی نوائم کا ہاتھ کھینچتا لاوٴنج میں آدھمکا پیچھے ہی ادینہ تھی
"یہ کون ہے فابی ؟
"ممایہ آپ کی گنہگار کی بیٹی ہے صبوحی خالہ کی بیٹی " اس نے فاتحانہ انداز میں کہہ کر نوائم کو ان کے قدموں میں دھکیلا ندرت اور ماہی نے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر نوائم کو جو آنکھوں میں ڈر اور خوف لیے انہی کو دیکھ رہی تھی
"اوہ تو یہ ہے وہ گند کی پوٹلی جسے صبوحی میڈم چھپا چھپا کر رکھتی ہیں "ماہی تمسخرانہ ہنسیں
"امی کہاں ہیں ؟؟"نوائم نے سہمے سہمے انداز میں پوچھا اتنے سارے چہرے اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے
"ماں کا بڑا خیال ہے کبھی ماں سے اپنے باپ کا پوچھا ہے؟؟"ندرت بیگم نے اس کے بال مٹھی میں جکڑے
"یہ کیا کر رہی ہیں آپ ؟؟"سیڑھیوں میں کھڑی انامتہ جو سارا تماشہ دیکھ چکی تھی فوراً نیچے آئی
"آؤ آؤ تم بھی ملو یہ ہے تمہاری بہن بلکہ سوتیلی بہن
"ماہی بہگم نے تمسخر سے کہا انامتہ کے چہرے پر روشنی پھیل گئی
"یہ میری بہن ہے ؟؟"وہ خوشی سے بول کر نوائم کی طرف بڑھی اور اس کے گلے لگ گئی اس کا ری ایکشن سب نفوس کو حیرت میں مبتلا کر گیا انہیں تو لگا تھا وہ لڑے گی بھڑاس نکالے کی مگر وہ تو یوں خوش تھی جیسے وہ اپنی سگی بچھڑی بہن سے مل رہی ہو وہ اب اسے غور سے دیکھ رہی تھی "میری بہن کتنی پیاری ہے نا پھوپھو ؟؟ ہاؤ کیوٹ "اس نے نوائم کے گال پر بوسہ دیا
"بالکل بابا جیسی ہے "وہ اپنے ہی دھیان میں بول رہی تھی
"اے لڑکی کیا بول رہی ہے دماغ خراب ہے کیا یہ سکندر کی بیٹی نہیں ہے "ماہی بیگم نے اس کی لاعلمی پر ماتم کیا
"نہیں یہ میرے بابا کی ہی بیٹی ہے یہ دیکھیں بابا کہ چہرے پر بھی بالکل یہیں پر تل ہے "اس نے نوائم کی آنکھ کے پاس تل پر انگلی رکھ کر کہا ندرت نے اب غور سے نوائم کا چہرہ دیکھا اور جو شبیہہ ان کی آنکھ دیکھ رہی تھی وہ انہیں ساکت کرنے کو کافی تھی ☆☆☆☆☆☆☆
مغیث غصے سے کمرے میں ادھر ادھر ٹہل رہا تھا اس کا چہرہ غیض وغضب کی سرخی سے دہک رہا تھاـگوہر نے پریشانی سے اس کے تیز تیز اٹھتے قدموں کو دیکھا
"یار جو ہونا تھا ہو گیا اب غصہ کیوں کر رہا ہے "گوہر نے اسے سمجھایا مگر وہ بھڑک کر پلٹا
"غصہ بھی نہ کروں میری کسی بات کی کوئی ویلیو ہی نہیں ہے کسی بات میں مجھ سے پوچھنا ضروری نہیں سمجھا بابا نے
"اچھا تمہیں غصہ صرف اتنا ہے کہ کسی بھی بات میں مشورہ کیوں نہیں لیا گیا شادی پر تو کوئی اعتراض نہیں ہے نا "گوہر نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا وہ مزید تپ گیا
"اچھا دیکھو میری بات سنو جو ہونا تھا ہو گیا اب اس سب کا کوئی فائدہ نہیں جہانگیر کو پتا چلے تو وہ کتنا ہرٹ ہو گا اور رہی بات بابا کی تو یقیناً انہوں نے کچھ سوچ کر ہی کیا ہے وہ تمہارے لیے کچھ غلط نہیں سوچیں گے
"یہی تو سمجھ میں نہیں آرہا بابا ایسا کیوں کر رہے ہیں سب کی مخالفت کے باوجود پھوپھو کو لے کر جانا اور آناً فاناً شادی کی تاریخ رکھنا کیا ہے ایسا جس سے ہم انجان ہیں ؟؟"
" تم یہ سب چھوڑو بس اتنا سوچو کہ تمہیں بابا کا سر نہیں جھکانا تم اس شادی سے ناخوش ہو تو یہ تم اپنے تک رکھو کسی اور کو اس معاملے کی بھنک مت پڑنے دینا "اس کی بات مغیث کے دل کو لگی تھی اس کے سر ہلانے پر گوہر نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا
☆☆☆☆☆
نوائم کو کمرے میں نا پا کر صبوحی بری طرح پریشان ہو گئیں انہوں نے پورا گھر چھان مارا مگر نوائم کہیں نہ ملی کسی سے پوچھنے کی ان میں ہمت نہ تھی تھکے تھکےقدموں سے چلتیں جب وہ انامتہ کے کمرے کے پاس سے گزرنے لگیں تو ان کے قدم ٹھٹھکے کھلے دروازے سے اندر کا منظر واضح تھا نوائم بیڈ پر بیٹھی تھی جبکہ انامتہ ڈھیر سارے کپڑے لیے اس کے سامنے موجود تھی وہ کپڑے باری باری نوائم کے ساتھ لگا کر دیکھتی اور پھر خود ہی ہنس پڑتی نوائم اجنبی نظروں سے ہر چیز کو دیکھ رہی تھی ماں کو دروازے میں ایستادہ دیکھ کر وہ تیزی سے اٹھی انامتہ نے بھی اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا
"اماں "نوائم دوڑ کر ماں کے پاس آئی
" کیوں باہر آئی تم ؟؟"انہوں نے کھینچ کر ایک تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا
"یہ کیا کر رہی ہیں آپ ؟؟"انامتہ بے اختیار آگے بڑھی
"خاموش رہو تم "ان کے سختی سے کہنے ہر وہ وہیں رک گئی "آنٹی یہ خود نہیں آئی اسے فابی زبردستی لایا ہے "انامتہ کے سچ بتانے ہر وہ ششدر رہ
نوائم کو دوبارہ کمرے میں چھوڑ کر وہ غصے سے سرخ چہرہ لیے ندرت کے پاس پہنچ گئیں
_______
نوائم کو دوبارہ کمرے میں چھوڑ کر وہ غصے سے سرخ چہرہ لیے ندرت کے پاس پہنچ گئیں
جو ماہی بیگم اور سمعیہ کے ساتھ لاوٴنج میں بیٹھی تھیں شہرینہ ادینہ اور فابی بھی موجود تھے سمعیہ انہیں منانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں وہ غصے سے سرخ چہرہ لیے ندرت کے سامنے جا کر رکیں ان کا یہ انداز سب کے لیے نیا تھا
"میری بات کان کھول کر سن لو تم ماں بیٹا آج تمہارے بیٹے نے جو حرکت کی ہے اگر وہ دوبارہ ہوئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا سمجھیں ؟؟"انگلی اٹھا کر کہتی وہ سب کو ساکت کر گئیں
"یہ کس لہجے میں بات کر رہی ہو تم "ماہی تیز لہجے میں بولیں
"خاموش رہو تم ـ ـ تم سے بات نہیں کی میں نے "سخت لہجہ سخت انداز آج ان کے سامنے ایک ماں کھڑی تھی ماہی گنگ سی ان کا یہ روپ دیکھنے لگی آج کی صبوحی مین برسوں پہلے کی صبوحی کی جھلک نظر آئی تھی بغیر کسی کو کچھ کہنے کا موقع دیے وہ جس طرح آئیں تھیں اسی طرح پلٹ گی
☆☆☆☆☆☆
آج جازم کی برتھ ڈے تھی چونکہ حرب کی شادی سادگی سے ہونا طے پائی تھی اس لیے اس نے برتھ ڈے فنکشن گھر پر ارینح کرنے کاسوچا
حرب کے اصرار کے باوجود غوزہ نہ مانی وہ اب بھی بیٹھی اسے منا ہی رہی تھی جب جازم وہاں پہنچ گیا
"میں نہیں آسکتی پلیز یار تم ضد مت کرو میں تمہاری شادی پر آجاؤں گی "اس نے اضطراری انداز میں انگلی میں موجود انگھوٹھی کو اتارتے ہوئے کہا وہ یہ عمل پیچھلے آدھے گھنٹے سے دہرارہی تھی جب بھی وہ پریشان ہوتی یونہی انگوٹھی اتارتی پہنتی تھی مگر اب یہ حرکت اسے مہنگی پڑ چکی تھی جازم نے ایک ہاتھ سے انگوٹھی اچک لی
"کیا بدتمیزی ہے یہ ؟؟"وہ غصے سے سرخ چہرہ لیے اٹھی
"یہ کیا آپ کا تکیہ کلام ہے ؟؟"وہ محفوظ ہوتا بولا
"جازم "حرب نے اسے گھرکا مگر اس نے لاپرواہی سے کندھے اچکا دیے
"واپس کرو یہ "
"ایک شرط پر "
"کیا "
" آج شام میرا فیورٹ بلیک کلر پہن کر پارٹی میں شامل ہونا پڑے گا تب تک یہ رنگ میرے پاس ہی رہے گی "اس نے رنگ جیب میں ڈالتے ہوئے اپنی شرط بتائی غوزہ غصے سے اسکی طرف بڑھی مگر وہ ہستے ہوئے تیزی سے نکل گیا حرب نے التجائیہ نظروں سے اسےدیکھا
"پلیز آجاؤ نا "اور پھر اسے آنا پڑا نہ چاہتے ہوئے بھی اسے بلیک کلر پہننا پڑا اسے ہر وہ کام کرنا پڑا جسے وہ کرنا نہیں چاہتی تھی لیکن یہ سب اس کے لیے اس قدر معنی نہیں رکھتا تھا جس قدر وہ رنگ...... ایک معمولی سی بات کے لیے وہ اتنی اہم شے نہیں گنوا سکتی تھی
☆☆☆☆☆☆☆
جب وہ ڈرائیور کے ساتھ حرب کے گھر پینچی تو وہاں پارٹی اپنے عروج پر تھی جانے کس کس جگہ کے لوگوں کو انوائیٹ کیا گیا تھا اس نے نظر گھما کر دیکھا تو سامنے ہی اسے حرب دکھائی دے گئی جو کسی ادھیڑ عمر عورت کے ساتھ باتوں مشغول تھی اس سے پہلے کہ وہ اس کی طرف جاتی جازم اس کے راستے میں حمائل ہو گیا اس کے ہاتھ میں گٹار بھی موجود تھا بلیو جینز اور آسمانی رنگ کی شرٹ میں وہ وہاں موجود لڑکیوں کے دلوں کی دھڑکن بنا ہوا تھا مگر غوزہ کو اس لمحے زہر لگ رہا تھا
"بیوٹی فل "اس نے غوزہ کو سر تاپا دیکھ کر کہا وہ سٹپٹا گئی
"ہٹو سامنے سے "سب کو متوجہ ہوتا دیکھ کر اسے گھبراہٹ ہوئی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا اس سے پہلے کہ وہ سائیڈ سے نکلتی اس نے سب کو اونچی آواز میں متوجہ کیا Hey listen everyone
اس کی بات پر ہر طرف شور مچ گیا گلا کھنکھار کر وہ ہلکا سا اس کی طرف جھکا "اجازت ہے "غوزہ تو بت بنی کھڑی تھی اس کی خاموشی کو اقرار سمجھ کر جازم نے گٹار پر دھن بکھیری
تیرے لـــیے خود کو بدل دے
تیرے لــــیے کچھ بھی کردے
وعدہ ہے یہ تجھ سے میرا اب صدا کے لیے
تیرے لیے سانسیں لے رہے
تیرے لیے ہر دن جی رہے
تو ہے میرا میں ہوں تیرا اب صدا کے لیے
خود پہ کوئی حق رہا نہ ہمارا
تیرے لیے ہم ہیں جیے
پھر اب نہ ہو گا یہ عشق دوبارہ
تیرے لیے ہم ہیں جیے
تو ہے میرا میں ہوں تیرا سہارا
تیرے لیے ہم ہیں جیے
مر کہ بھی دے دوں گا یہ کفارہ
تیرے لیے ہم ہیں جیے
وہ بڑے خوبصورت انداز میں گا رہا تھا غوزہ نے سختی سے مٹھیاں بھینچ لیں سرعام جازم کی یہ حرکت اسے طیش دلا گئی تھی
"یہ میری مما کی ہے اس لیے مجھے بہت عزیز ہےاب سے یہ تمہاری ہوئی "کہیں آس پاس ہی اسے آواز گونجتی محسوس ہوئی وہ چونک گئی اس نے ادھر ادھر دیکھا مگر وہ کہیں نہیں تھا اسے جازم کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اسے ہر طرف بس ایک ہی آواز آرہی تھی
"مہرو رک جاؤ مہرو گر جاؤ گی مت بھاگو "اس کے دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگیں وہ بغیر کسی کی پرواہ کیے پلٹی اور بھاگتے ہوئے باہر نکل گئی اب وہ اندھا دھند سڑک پر بھاگ رہی تھی دوپٹہ لاپرواہی سے گلے میں جھول رہا تھا لیکن ہر احساس سے عاری بھاگے چلی جا رہی تھی اگر کچھ باقی تھا تو بچھڑی محبت کا روتا تڑپتا احساس کسی کی جدائی نارسائی کا دکھ
یکدم ٹھوکر لگنے سے وہ گری "جوجو" سسکی کی صوررت میں نام اسکے ہونٹوں سے پھسلا
"جوجو کہاں ہو تم دیکھو تو سہی کتنی تنہا ہو گئی ہے تمہاری مہرو خدا کا واسطہ ہے اب تو آجاؤ اور کتنا انتظار کرواؤ گے پلیز اب لوٹ اؤ نا "وہ وہیں زمین پر بیٹھ کر زور زور سے رونے لگی چونکی تو تب جب ایک مانوس سی آواز اسے اپنے پیچھے سنائی دی مڑ کر دیکھا تو وہ اس کا ڈرائیور تھا جو پریشانی سے اسے دیکھ رہا تھا
"بی بی جی کیا ہوا آپ بھاگ کر یہاں کیوں چلی آئیں "اس کےپوچھنے پر غوزہ کو یکدم ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا ساتھ ہی اپنی کچھ دیر قبل کی بے اختیاری پر غصہ آیا وہ بغیر کچھ کہے گاڑی میں جا بیٹھی
☆☆☆☆☆☆☆
"مجھے آپ سے بات کرنی ہے " سمعیہ بیگم نے دودھ کا گلاس انہیں تھما کر کہا
"کہیے "وہ چشمہ اتار کر فائل پر رکھ کر مکمل ان لی طرف متوجہ ہوئے
"جو کچھ گھر میں ہو رہا ہے مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا نواب ولا میں کبھی ایسا نہیں ہوا حیات "
"کیا کہنا چاہتی ہیں آپ "
"جمعہ کو نکاح ہے وقار اور ندرت کی غیر موجودگی میں ـ ـ ـ لوگ سو طرح کے سوال کریں گے کیا جواب دیں گے ہم "انہوں نے اپنے دل کی بات کہی حیات صاحب نے گہری سانس بھر کر انہیں دیکھا
"دیکھھو سمعیہ میں جو کچھ کروں گا اس گھر کی بہتری کے لیے ہی کروں گا آج جہانگیر کے گھر نہ جانے کا فیصلہ وقار نے خود کیا تھا اور رہی بات لوگوں کی تو سادگی سے نکاح کرنے کا فیصلہ میں نے اسی بات کو مدنظر رکھ کر کیا ہے "حیات صاحب کے جواب پر بھی وہ مطمئن نہیں ہو پائیں تھیں
"حیات سچ سچ بتائیں اصل بات کیا ہے کیا چھپا رہے ہیں آپ ؟؟"ان کے یوں جانچتے لہجے میں پوچھنے پر حیات صاحب خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھنے لگے
"حرب فیضان کی بیٹی ہے " دھیمی آواز میں کہے گۓ انکے الفاظ سمعیہ کو ساکت کر گۓ انہوں ن بے اختیار ہی اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا
"فف ــ ـ ـ فیضان
"جہانگیر کی سگی بہن ہے وہ ـ ـ اگر اس دن حمیرا مجھے سب نہ بتاتی تو تب بھی فیضان کی بیٹی کو میں نواب ولا کی عزت ضرور بناتا کیونکہ میرا دل کہتا ہے فیضان دغاباز نہیں ہو سکتا "
"صبوحی جانتی ہے یہ ؟"سمعیہ کے پوچھنے پر انہوں نے نفی میں سر ہلا دیا
"نہیں وہ نہیں جانتی ابھی اسے انجان ہی رہنےدو شادی کے بعد میں جہانگیر سے خود بات کروں گا
"اور سکندر ـ ـ ـ اگر سکندر لوٹ آیا اسے معلوم ہوا تو ـ ـ وہ جانے کیا کرے ؟؟"سمعیہ کے خدشے پر وہ زخمی سا مسکراۓ
" کیا کرے گا سمعیہ ؟؟کچھ نہیں کرے گا دعا کرو وہ سب حقیقت کے نہ بنے جو میں سوچ رہا ہوں اگر وہ سب حقیقت کے روپ میں سامنے آیا تو سکندر خود سے کبھی نظریں ملانے کے قابل نہیں رہے گا اس کا خط آیا ہے مجھے وہ بہت جلد واپس آۓ گا وہ صبوحی کی سزا ختم کر دینا چاہتا ہے لیکن دعا کرو کہ وہ سب ـ تب میں اسے کیسے بتاؤں گا کہ فیضان اس دنیا میں نہیں رہا کیسے سہے گا اس وقت وہ یہ جان لیوا حقیقت "ان کی آنکھوں میں نمی آٹھہری سمعیہ اس انکشاف پر حق دق رہ گئیں
*#جاری_ہے*

No comments: