میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 11
#فریحہ_چــــودھـــری ✍
#قسط_11
صبوحی نے کچن کے دروازے سے سامنے بیٹھی ندرت کو دیکھا جو ماہی بیگم سے باتوں میں مشغول تھی..... ایک بار بھی انہیں اپنی بہن سے ملنے کا خیال نہ آیا تھا وہ آج صبح ہی فابیان اور ایک جوان لڑکی کے ساتھ نواب ولا پہنچیں تھیں..... وہ لڑکی کون تھی یہ انہیں معلوم نہیں تھا نہ ہی جاننے کی خواہش...,
انہوں نے دور سے ہی نجانے کتنی بار چھپ کر ندرت کو دیکھا تھا مگر سامنے جانے کی ہمت نہ کر سکیں لیکن آخر کب تک ماہی کی آواز پر انہیں باہر جانا ہی پڑا
"کہاں تھی تم.... پتہ بھی ہے مہمان آۓ ہیں اچھے سے کھانے کا انتظام کرو "ماہی نے ناک بھوں چڑھا کر کہا
"کھانا تیار ہے " وہ بغیر سر اٹھائے بولیں جانتی تھیں سب کی نظریں ان پر ہی ہوں گی کچھ شرمندہ اور کچھ طنزیہ
"تو لگاؤ جا کر ایک تو بہت ہی سست ہو "ماہی کے انداز پر حیات صاحب نے بہت ضبط سے انہیں دیکھا تھا جبکہ ندرت تمسخرانہ ہنسیں
"ارے اتنی بھی جلدی کیا ہے اسے بیٹی سے تو ملنے دو "بات ایسی تھی کہ صبوحی کو پلٹنا پڑا یکدم ہی نظر ندرت کے چہرے پر پڑی امریکہ کی آب و ہوا ان ہر اچھا اثر ڈالا تھا ان کا سانولا رنگ سرخی و سفیدی میں بدل چکا تھا ماتھے سے کچھ بال سفید تھے ساتھ ہی فابیان بیٹھا تھا لمبا چوڑا قد چمکتی آنکھیں سانولی مائل رنگت اور اس کے سامنے ہی ایک لڑکی موجود تھی سر پر حجاب اوڑھے آنکھوں میں حیرت لیے وہ صبوحی کو ہی دیکھ رہی تھی
"ہونہہ بیٹی ـ ـ جب شوہر نے ہی قبول نہیں کیا تو کیسی بیٹی کہاں کی بیٹی "ماہی بیگم نے جلے کٹے انداز میں کہہ کر سر جھٹکا
"ماہی خاموش رہو تم "حیات صاحب یکدم ہی صوفے سے اٹھے "جاؤ صبی تم کمرے میں جاؤ "بڑے عرصے بعد یہ نام ان کے ہونٹوں تک آیا تھا جسے جسی اور نے محسوس کیا یا نہیں مگر صبوحی بہت شدت سے کیا تھا
☆☆☆☆☆☆
وہ اسائٹمنٹ بنا رہی تھی جب دروازے پر دستک ہہوئی
"آ جائیں "اس نے بغیر سر اٹھاۓ کہا بی اماں اندر داخل ہوئیں
"بہت مصروف رہتی ہو کبھی ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کرو "بی اماں نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا
"ایسی بات نہیں ہے کافی دنوں بعد جامعہ گئی تھی نا تو اسی لیے.. آئیں بیٹھیں "وہ اس کے برابر بیڈ پر بیٹھ گئیں
"میں بہت ضروری بات کرنے آئی ہوں "
"جی کہیے "
"جہانگیر کا دوست ہے مغیث اس کا رشتہ آیا ہے تمہارے لیے جہانگیر نے ہی بھیجا ہے مجھے کہہ رہا تھا حرب سے پوچھ لیں اسے کوئی اور پسند ہے تو بغیر جھجھکے بتا دے "
"جی "حرب نے ہونق پن سے ان کا چہرہ دیکھا
"میں نے تو اتنا سمجھایا کہ اتنی بھی کیا جلدی ہے ابھی تو ملی ہے کیا سوچے گی مگر مان ہی نہیں رہا ویسے تو ضد کرتا نہیں مگر جب کرے تو کسی کی سنتا نہیں "
"نہیں بی جان مجھی کوئی بھی پسند نہیں ہے بھائی کا ہر فیصلہ مجھے دل و جان سے قبول ہے "اس نے سر جھکا کر رضامندی دی
"جیتی رہو خوش رہو "وہ اسے دعائیں دیتیں آاٹھ گئیں
☆☆☆☆☆☆
جہانگیر اردگرد سے بے گانہ فائل میں سر دیے لکھنے میں مصروف تھا جب موبائل کی بیل نے اس کی توجہ کھینچی اس نے نمبر دیکھا تو فاریہ کاتھا کچھ سوچتے ہوئے کال ریسیو کر لی
"ہیلو جہانگیر "
"بول رہا ہوں
"تم مجھ سے بات کیوں نہیں کرتے "
"نہیں ایسی بات نہیں بس تھوڑا مصروف ہوتا ہوں
"تو کیا میرے لیے تم تھوڑا وقت نہیں نکال سکتے
"نکال تو سکتا ہوں مگر مجھے یوں فون پر چھپ چھپ کر بات کرنا پسند نہیں "
"تو پھر ؟؟"
"کیا ہم مل سکتے ہیں ؟؟"
"ہاں ہاں کیوں نہیں کہاں ملنا ہے ؟؟"
"تمہارے گھر "
"واٹ ـ ـ آئی مین
"گھر پر ملنا پسند نہیں کیا "
"نہیں ایسی بات نہیں
"تو پھر ٹھیک ہے تم مجھے اپنا ایڈریس سینڈکر دو بہت جلدملاقات ہو گی اوکے "جواب سنے بغیر ہی جہانگیر نے کال کاٹ دی اس وقت اس کے ہونٹوں پر پراسرار سی مسکراہٹ تھی کچھ سوچ کر اس نے حیات صاحب کا نمبر ملایا
☆☆☆☆☆☆
" آپ یہاں کیا کر رہی ہیں ؟؟"گوہر رات کے دو بجے انامتہ کو لاونج میں بیٹھا دیکھ کر چونکا
"کچھ نہیں مجھے نیند نہیں آرہی تھی تو یہاں چلی آئی مگر یہاں تو کوئی نہیں ہے " انگریزی لب و لہجہ میں اٹک اٹک کر اردو بولتی وہ اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی
" محترمہ سب سو رہے ہیں آپ بھی سو جائیں "
"لیکن آپ تو جاگ رہے ہیں "اس نے الٹا گوہر سے سوال کر ڈالا
"ہمارا تو کام ہی ایسا ہے اکثر راتیں جاگ کر گزارنی پڑتی ہیں ـ ـ ـ آپ اب آرام کریں رات کافی ہو گئی ہے "گوہر کہہ کر جانےلگا
"سنیں "انامتہ کے کہنے ہر وہ پلٹا
"جی سنایں "
"وہ ـ ـ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے "
"پوچھیں "
"وہ صبوحی ـ ـ ـ صبوحی ممی کا کمرہ کہاں ہے ؟؟"سوال پرگوہر کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا
" صبوحی ممی "
" ہاں وہ بابا نے کہا تھاکہ میں جب ندرت پھوپھو کے ساتھ پاکستان جاؤں تو صبوحی ممی سے ملوں "انگلیاں چٹخا کر کہتی وہ گوہر کو مبہوت کر گﺉ اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی
"کیا ـ ـ کیا نام ہے آپ کے بابا کا "
"سکندر"یہ دوسرا شاک تھا جو گوہر کو چند منٹوں میں اس لڑکی نے دیا تھا
"تو وہ کہاں ہیں ؟"کچھ دیر سنبھلنے کے بعد اس نے پوچھا
"وہ امریکہ میں ہیں "بھی بتاتے ہوۓایک غیر محسوس سی اداسی اسـکے چہرے پر چھا گئی گوہر نے سر ہلا دیا
"ٹھیک ہے آپ اس وقت سو جائیں صبح آپ پھوپھو سے مل لینا "
"نہیں میں نے پھوپھو سے نہیں ملنا میں تو بابا کی وائف ـ ـ صبوحی ممی سے ملنا چاہتی ہوں "
"ہاں جی انہی کی بات کر رہا ہوں وہ میری پھوپھو ہیں چلیں اب آپ کمرے میں جائیں " گوہر نے اسے کمرے کی طرف بھیجا اور خود مغیث کے کمرے کی طرف بڑھ گیا اسے یہ خبر ہضم نہیں ہو رہی تھی وہ جلد از جلد مغیث
سے شیئر کرنا چاہتا تھا
_________
" آج مغیث کے گھر والے آرہے ہیں گڑیا تمہارا گھر پر رہنا ذیادہ ضروری ہے "ناشتے کی میز پر جہانگیر نے حرب سے کہا وہ جھینپ گئی
"جی بھیا
"آہم آہم "جازم نے شرارتی نظروں سے اسے چھیڑا وہ چاروں اس وقت ناشتہ کر رہے تھے نور واپس اسلام آباد جا چکی تھی
"بُری بات "بی اماں نے جازم کو تنبیہ کی "تنگ مت کرو بہن کو "
" کتنا مزہ آۓ گا نا بی جان آپی کی شادی پر میں نے تو سوچ لیا ہے اگر شادی اسی ماہ ہے تو میں اپنی برتھ ڈے پاڑٹی کینسل کر دوں گا میں اپنے دوستوں کو شادی پر ہی انوائیٹ کر لوں گا "اس نے اپنی پلاننگ سے آگاہ کیا
"ہاں شادی اسی ماہ ہو گی حیات صاحب اگلے ماہ امریکہ جا رہے ہیں اس لیے وہ جلد شادی پر زور دے رہے ہیں "جہانگیر کے بتانے پر بی اماں نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا
"بیٹا اتنی جلدی بھی کیا ہے تم بتا رہے تھے کہ لڑکے کی یہ دوسری شادی ہے اور اس کا ایک بیٹا بھی ہے پھر ایسے میں جلدی ـ ـ لڑکی ذات کا معاملہ ہے یونہی سوچے سمجھے بغیر تو ہامی نہیں بھری جا سکتی نا " یہ وہ معاملہ تھا جس سے حرب انجان تھی تبھی اس نے کچھ پریشان ہو کر جہانگیر کو دیکھا
"ارے میری پیاری بی جان ـ ـ ـ آپ ان سے ملیں گی نا تو آپ خود سمجھ جائیں گی وہ کیسے لوگ ہیں بے فکر ہو جائیں میں مغیث کو جانتا ہوں وہ یقیناً حرب کو خوش رکھے گا " اس کے لہجے میں یقین بول رہا تھا بی جان ہزار خدشوں کے باوجود مزید سوال نہ کر پائیں
"گڑیا مجھے تم سے بات کرنی ہے ناشتہ کر کے میرے کمرے میں آنا " وہ نرمی سے کہتا ٹیبل سے اٹھ گیا
"میرے بارے میں تو کوئی سوچتا ہی نہیں " جازم کے منہ بنا کر کہنے پر حرب چڑانے والے انداز میں ہنس دی
☆☆☆☆☆☆
مغیث گوہر کے ساتھ نیچے آیا تو سب ناشتہ کے بعد لاوٴنج میں بیٹھے تھے
"السلام علیکم "اس نے سب کو مشترکہ سلام کیا اور سامنے پڑے صوفے پر براجمان ہو گیا سب کے چہروں پر نگاہ دوڑائی تو کچھ گڑبڑ محسوس ہوئی ماہی کے تیور بگڑے سے تھے
"ماشاءاللہ کیا چاند سا بچہ ہے بھائی صاحب "یہ تعریف یقیناً مغیث کی ہوئی تھی اس نے حیران ہو کر ندرت پھوپھو کو دیکھا
"کیا کمی تھی گھر کی لڑکیوں میں جو آپ کو باہر کی لڑکی ڈھونڈنے کی سوجھی "ندرت کی بات پر ماہی نے تیزی سے سر ہلایا جیسے ان کی بات سے اتفاق کیا ہو مگر زبان سے کچھ نہیں بولیں
"ارے ندرت کیسی باتیں کرتی ہو گوہر بھی تو گھر کا بچہ ہے اور ماشاءاللہ سے فابی بھی تو جوان ہے "سمعیہ بیگم کی سیدھی بات پر انہوں نے پہلو بدلا
"میں تو صاف کہوں گی جب مقیت کے لیے اپنی بھانجی لائیں تھیں تو مغیث کے لیے ادینہ یا شہرینہ میں سے کسی کو پسند کرتیں " انہوں نے لگی لپٹی رکھے
بغیر کہا
"یہ مغیث کا اپنا فیصلہ ہے " حیات صاحب کے الفاظ پر اسے سو واٹ کا جھٹکا لگا "وہ خاندان میں شادی نہیں کرنا چاہتا "انہوں نے گویا بات ہی ختم کر دی
تبھی انامتہ اور شہرینہ لاوٴنج میں داخل ہوئیں انامتہ کی گود میں عون تھا جسے وہ بامشکل سنبھال پا رہی تھی مغیث نے حیرت سے دونوں کو دیکھا شہرینہ کا دوپٹہ لاپراواہی سے گلے میں جھول رہا تھا جبکہ انامتہ نے کھلے ٹراوزر اور لمبی شڑٹ پر بڑے سلیقے سے حجاب کیا ہواتھا مغیث کو گوہر کے الفاظ یاد آۓ "یار وہ لگتی نہیں کہ امریکہ سے آئی ہے اتنی سادہ اور باحیا "مغیث ہنس دیا
"یہ تو بہت رو رہا ہے "اس نے رونی صورت بنا کر سمعیہ بیگم کو کہا انہوں نے مسکرا کر اس سے عون کو لے لیا صبوحی بیگم سب کے لیے چاۓ لائیں تو حیات صاحب نے انہیں روک لیا
" ہم آج مغیث کی ڈیٹ فکس کرنے جا رہے ہیں میرا خیال ہے کہ تمہیں بھی چلنا چاہئے "حیات صاحب کے الفاظ پر ماہی اور ندرت کے چہروں کا رنگ بدلا
"میں ـ ـ کیسے "انہوں سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا جواب دیں اتنے عرصے بعد کسی موقع پر ان کی شمولیت ضروری سمجھی گئی
"اگر ایسا ہوا توہم نہیں جائیں گے "وقار صاحب درشتگی سے کہ کر صوفے سے اٹھے
"سوچ لو وقار
"سوچنے کی گنجائیش ہی باقی نہیں ہے" ان کا فیصلہ اٹل تھا ماہی اور ندرت بھی ان کے ساتھ ہی اٹھ گئیں مغیث نے حیرت سے اپنوں کا یہ روپ دیکھ جو ایک بے ضرر وجود کی نفرت میں ہر لحاظ بالاۓ طاق رکھ کر مقابلے پر اتر آۓ تھے
"ٹھیک ہے کوئی جائے یا نہ جائے لیکن صبوحی ضرور جائے گی " حیات کے فیصلہ کن انداز پر سب دنگ رہ گے غصے سے ان کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا وہ مغیث کی طرف پلٹے
"جاؤ مغیث تیار ہو جا کر تم بھی چل رہے ہو اپنے دوست کے گھر "آخری بات چبا چبا کر کہی گئی تھی جس کا مطلب تھا انکار کی کوئی گنجائش نہیں وہ ایک شکوہ کنا نگاہ باپ پر ڈال کر دھپ دھپ کرتا سیڑھیاں چڑھنے لگا کوئی نہیں جانتا تھا کہ حیات صاحب کے ذہن میں کیا چل رہا ہے
☆☆☆☆☆☆
"صبوحی "وہ جو کمرے میں جا رہی تھیں سمعیہ بیگم کی آواز پر پلٹیں
"جی
"یہ لو آج تم یہی پہننا "ان کے ہاتھ میں سوٹ تھا جو وہ صبوحی کی طرف بڑھا کر بولیں
"لیکن میں ـ ـ ـ "وہ ہچکچائیں
"ارے پکڑو نا اور جلدی سے تیار ہو جاؤ "وہ زبردستی انہیں تھما کر مسکرائیں
"بھابھی یہ سب کیا ہو رہا ہے آپ انہیں سمجھائیں میری وجہ سے اتنے اہم موقع پر "بات کرتے کرتے ان کا گلہ رندھ گیا
"صبوحی میں نہیں جانتی وہ یہ کیوں کر رہے ہیں یقیناً اس سب کے پیچھے کوئی بڑی وجہ ہے تم اب کچھ مت سوچو اور جلدی سے تیار ہو جاؤ "وہ جاتے جاتے پلٹیں
"اور ہاں مجھے تمہیں ایک اور بات بتانی تھی انامتہ کو تو دیکھا نا تم نے "صبوحی نے اثبات میں سرہلا دیا "وہ تم سےملنا چاہتی ہے "
"مجھ سے ؟؟مگر کیوں ؟؟"
"وہ ـ ـ ـ وہ سکندر کی بیٹی ہے "الفاظ تھے یا بم انہیں اپنے قدموں پر کھڑا رہنا مشکل ہو گیا "اسے سکندر نے پاکستان بھیجا ہے وہ بار بار تمہارا پوچھ رہی ہے کیا میں اسے تمہارے پاس بھیج دوں "وہ یک ٹک سمعیہ کا چہرہ دیکھ رہی تھیں ان کے کندھا ہلا کر ہوچھنے پر یکدم ہوش میں آئیں
"بولو کیا میں اسے تمہارے پاس بھیج دوں ؟؟" ان کے سوال پر صبوحی کا سر بے اختیار ہی نفی میں ہلا
"میں اس سے نہیں مل سکتی "سپاٹ لہجے میں کہتی وہ شکستہ قدموں سے چلتی کمرے کی طرف بڑھ گئیں سمعیہ حیران سی ان کے انداز پر غور کرتی رہ گئیں
☆☆☆☆☆☆☆☆
"انکل میں آجاؤں ؟؟"انامتہ نے دروازے پر دستک دے کر پوچھا
"آ جاؤ بیٹا " حیات صاحب سے اجازت پا کر کمرے میں چلی آئی سفید شلوار قمیض پر بلیک واسکوٹ پہنے دائیں کندھے پر شال رکھے کہیں جانے کو تیار بہت گریس فل لگ رہے تھے انامتہ کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا جو اس نے حیات صاحب کی طرف بڑھا دیا
"یہ کیا ہے ؟؟"ا ن کی آنکھوں میں الجھن ابھری
"یہ پاپا نے آپ کے لیے دیا ہے کہہ رہے تھے صرف آپ کو ہی دوں "
"یہ سکندر نے دیا ہے ؟؟"انہوں نے بے یقینی سے پوچھا
"جی "انامتہ کے اثبات میں سر ہلانے پر انہوں نے لفافہ پکڑ لیا ان کی آنکھوں میں نمی اتر آئی جسے چھپانے کو وہ رخ پھیر گے اتنے عرصے بعد اپنے لاڈلے بھائی کا خط دیکھ کر ان کا دل بھر آیا تھا انہوں نے وہ خط دراز میں رکھ دیا ارادہ تھا کہ واپسی پر تسلی سےپڑھیں گے
☆☆☆☆☆☆
حیات صاحب صبوحی گوہر اور مغیث کے ہمراہ کچھ دیر قبل ہی نکلے تھے انہیں جاتا دیکھ کر ماہی بیگم کے دل میں آگ لگ گئی ان کا بس نہ چل رہا تھا کہ ان کی خوشیوں کو آگ لگا دیں مگر کیسے ؟؟ یہ سوچ سوچ کر وہ ہلکان ہو چکی تھیں
سب کے جاتے ہی ادینہ فابیان کے ساتھ لان میں چلی آئی موسم ابر آلود تھا فابیان نے باتیں کرتے کرتے یکدم ہی موضوع بدل دیا
"صبوحی خالہ کی کوئی بیٹی بھی ہے نا " اس کے پوچھنے پر ادینہ کے چہرے پر ناگواری در آئی
"ہاں ہے ایک بیٹی مگر ہم نے کبھی اسے دیکھا نہیں "
"کیوں نہیں دیکھا ؟"
"وہ کبھی کمرے سےباہر نہیں آئی ـ ـ ـ لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟؟"ادینہ کے پوچھنے پر وہ اٹھ کھڑا ہوا
"میری مما ساری عمر اس عورت کی وجہ سے روتی رہیں کبھی چین نصیب نہیں ہوا انہیں میں انہیں بھی یونہی تڑپتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں جیسے میری مما تڑپی ہیں "اس کے لہجے میں نفرت کے ساتھ ساتھ حقارت بھی تھی
"تو تمی کیا کرو گے ؟؟"ادینہ نے دل ہی دل میں خوش خوش ہوتے بظاہر لاپرواہی سے پوچھا
" تم دیکھتی جاؤ ....مجھے بس اتنا بتاؤ وہ لڑکی ہے کس روم میں ؟؟" اس نے آنکھ دبا کر خباثت سے کہا ادینہ
ہنستے ہوئے اسے لے کر کمرے کی طرف بڑھی
☆☆☆☆☆☆☆
ادینہ نے اسے چابیاں لا کر دیں فابی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو نوائم حسب معمول کھڑکی کے بے حد قریب بیٹھی تھی ایک انجان چہرے کو کمرے میں پا کر وہ ڈر کر اٹھی فابی کی نظر اس پر پڑی تو پلٹنا بھول گئی وہ ساکت کھڑا یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا جو خوبصورتی و حسن میں اپنی مثال آپ تھی سبز آنکھیں سیاہ بال سرخ یاقوتی ہونٹ اور بے تحاشی معصومیت لیے سفید چہرہ وہ حسن کا کامل مجسمہ تھی ادینہ نے اسکی محویت نوٹ کی تو ناگواری سے اسے ٹہوکا دیا وہ ہڑبڑا کر اسکی طرف مڑا "ہاں کیا ہوا"
"تم،یہاں اسے دیکھنے آۓ تھے ؟؟" ادینہ نے غصے سے پوچھا
"نہیں تو "
"جو کرنا ہے جلدی کرو
ادینہ کہہ کر باہر نکل گئی فابی نے آگے بڑھ کر ڈری سہمی نوائم کا بازو تھام لیا
*#جاری_ہے*

No comments: