Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 10

میرے_ہم_نفس_میـرے_ہـمنوا
فریحہ_چــــودھـــری ✍


#میرے_ہـم_نفس_میرے_ہـمنوا
#فریحہ_چــودھــری ✍
#قسط_10
آج وہ بے حد خوش تھی جازم ...بی جان اور نور سے ڈھیر ساری باتوں کے بعد وہ کمرے میں آگئی گھر کی طرح کمرہ بھی بے حد خوبصورت تھا بیڈ پر بیٹھ کر وہ آج کے واقعے کے بارے میں سوچنے لگی ماں کی یاد آتے ہی اس کا دل غم سے بھر گیا یکدم اسے ایک خیال سوجھا
"کیوں نا بھیا کو کہہ کر اماں کو یہاں بلوالوں" لیکن پھر فوراً ہی سوچوں کا رخ جہانگیر کی طرف ہو گیا جازم اور بی جان کے مقابلے میں جہانگیر کا رویہ بیگانہ سا تھا راستے میں بھی وہ اس سے جازم اور بی جان کے بارے میں ہی بتاتا آیا تھا کیا اسے خوشی نہیں ہوئی تھی ؟؟ اس کے بابا کہاں تھے ؟؟ اور یہ بی جان کون تھیں ؟؟ ان سارے سوالوں کے جواب جہانگیر کے پاس ہی تھے وہ ہمت کرتے ہوئے جہانگیر کے کمرے کی طرف چل دی
جہانگیر بستر پر لیٹا سوچوں میں گم تھا
"بابا دیکھیں آج میں نے آپ کی گڑیا ڈھونڈ لی ہے لیکن مجھے اب بھی سکون نہیں مل رہا مجھے سکون تب تک نہیں ملے گا جب تک میں آپ کا بدلہ نہ لے لوں میرا وعدہ ہے بابا میں آپ کا بدلہ ضرور لوں گا "وہ دل ہی دل میں اپنے باپ سے مخاطب تھا جب دروازے پر ہونے والی دستک نے اس کا دھیان بٹایا
"یس "حرب نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا
"میں آجاوں بھائی "
""آجاو گڑیا "وہ مسکرا کر بیڈ سے اترا
"اچھا نہیں لگا کیا ؟؟"حرب کو کمرے کا جائزہ لیتے دیکھ کر جہانگیر نے پوچھا
"بہت اچھا ہے "حرب کی آنکھوں میں ستائش تھی
"آؤ بیٹھو "جہانگیر نے صوفے کی طرف اشارہ کر کے اسے بیٹھنے کا کہا
"مجھے آپ سے کچھ پوچھنا تھا "اس نے جھجکتے ہوۓ بات کا آغاز کیا
"ہاں پوچھو"
"وہ ـ ـ بابا ـ ـ ـ آئی مین میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی تو میں نے پوچھنا ـ ـ "جہانگیر لب بھینچ کر کھڑا ہو گیا حرب نے اس کے سرد تاثرات سے خائف ہو کر بات ادھوری چھوڑ دی
"وہ ـ ـ اس دنیا میں نہیں ہیں "قدرے توقف کے بعد بڑے ٹھہرے ہوۓ لہجے میں جواب موصول ہوا جہانگیر رخ موڑے کھڑا تھا تبھی وہ اس کے تاثرات تو نہ دیکھ پائی مگر اس کا اپنا دل ڈوب کر ابھرا تھا
"میں جانتا ہوں تمہارے دماغ میں اس وقت بہت سے سوالات گردش کر رہے ہیں لیکن مجھ سے ابھی کچھ مت پوچھنا ـ ـ ـ میں تمہیں وضاحت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں.... میرے ماضی میں ابھی بہت سےخلا ہیں مجھے وہ پر کرنے دو " وہ ہاتھ کمر پر باندھے نظریں پینٹنگ پر جماۓ ہوۓتھا مگر ذہن کہیں دور خلاوں میں گردش کر رہا تھا
"بی جان سے کہنے کو میرا کوئی رشتہ نہیں ہے مگر میرا ہر رشتہ ان سے ہی جڑا ہے.... تمہیں تمہارے ہر سوال کا جواب میں دوں گا کسی اور سے کسی بات کا ذکر مت کرنا خاص طور پر جازم سے وہ ابھی نا سمجھ اور لاپرواہ ہےاور میں نہیں چاہتا کوئی واقعہ اس کے ذہن پر برا اثر ڈالے "مضبوط لہجے میں کہتا وہ اس کے ذہن میں مچلتے سوالوں کو زبان پر آنے سےپہلے ہی خاموش کروا گیا تھا
"میں برسوں تمہاری تلاش میں سرگرداں رہا ہوں گڑیا زندگی میں کئی بار ایسا مقام آیا جہاں کسی رشتے کی ٹھنڈک محسوس کرنے کو جی چاہا کسی کے کندھے پر سر رکھ کر رونے کو جی چاہا کسی سے دکھ بانٹنے کو جی چاہا ... بہت تنہا رہا ہوں میں ....
یہ مت سمجھنا مجھے تمہارے آنے کی خوشی نہیں یا مجھے تم سے پیار نہیں
....حقیقت کی نظر سے دیکھا جاۓ تو ان اپنوں میں میرا کوئی اپنا نہیں... واحد تم ہی سے میرا خون کا رشتہ ہے.... بس زندگی نے اتنی اذتیں دی ہیں کہ محبت کے معاملے میں کٹھور ہو گیا ہوں اب تو مسکرانا بھی اجنبی سا لگتا ہے "بات کرتے کرتے اس کا لہجہ بھیگ گیا حرب تڑپ کر اٹھی اور اس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تسلی کےا لفاظ ڈھونڈتا جہانگیر خود بھی ضبط کھو بیٹھا کندھا میسر آیا تو اشک خودبخود بہنے لگے
یہ زندگی ہمیشہ ہی امتحان رہی
جو جرم نہ کیا تھا اس کی سزا سہی
غیروں میں اکیلا اپنوں میں بھی تنہا
رشتوں میں بٹ گئی پہچان میری پنہاں
چہرے پر مسکراہٹ آنکھوں میں نمی
یہ زندگی ہمیشہ امتحان رہی
☆☆☆☆☆☆
"اس لڑکی کا کیا بنا بھائی صاحب ؟؟" ناشتے کی میز پر ماہی چچی نے حیات صاحب سے پوچھا وہ رات سے ہی معاملہ جاننے کو بے چین تھیں
"جہانگیر اسے گھر لے گیا ہے بہن بنا کر "حیات صاحب نے اصل بات گول مول کرنامناسب سمجھا
"واٹ ـ ـ جہانگیر پاگل ہو گیا ہے کیا ؟ اس آفت کی پڑیا کو اپنے گھر لے گیا " مغیث جو حیات صاحب کے حکم پر زخموں کی پرواہ کیے بغیر ٹیبل تک آیا تھا ان کی بات سن کر اچھل پڑا
"ظرف ظرف کی بات ہے " حیات صاحب نے طنزیہ نظروں سے اسے گھورا
"مجھے آپ لوگوں سے ایک ضروری بات کرنی ہے وقت کم ہے اس لیے مجھے یہی وقت مناسب لگا "انہوں نے خصوصاً مغیث اور گوہر کو دیکھا تھا
"جی بھائی کیجیۓ "وقار صاحب نے احتراماً کہا
"اسی ماہ ندرت اپنے بیٹے کے ساتھ پاکستان آرہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اسکے قیام کے دوران گوہراور مغیث کی شادی کر دی جاۓ "سب کے ساتھ ساتھ ادینہ اور شہرینہ بھی چونک کر متوجہ ہوئیں
"یہ تو اچھی بات ہے بھائی صاحب ویسے بھی لڑکیاں گھر کی ہوں تو ذیادہ مسلہ نہیں ہوتا "ماہی بیگم کو تو دلی خواہش پوری ہوتی محسوس ہوئی
"گوہر کی تو ٹھیک ہے بابا لیکن میں شادی نہیں کرنا چاہتا "مغیث نے دو ٹوک انکار کیا حیات صاحب کرسی دھکیل کر کھڑے ہو گے
"میں نے تم سے مرضی نہیں پوچھی فیصلہ سنایا ہے سمعیہ آپ تیار رہیے گا ہم بہت جلد جہانگیر کی طرف جائیں گے حرب کا ہاتھ مانگنے "ان کے فیصلے پر ماہی چچی اور ادینہ کو سانپ سونگھ گیا جبکہ مغیث کو ساری چھت سر پر گرتی محسوس ہوئی
"میں کسی بھی دوسری لڑکی سے شادی کر لوں گا مگر اس فساد کی جڑ سے ہرگز نہیں "وہ بھنا کر کہتا ٹیبل سے اٹھ گیا سمعیہ بیگم نے بے بسی سے اسکی پشت دیکھی
☆☆☆☆☆☆☆
"جی بابا آپ نے بلایا "گوہر دستک دے کر اندر داخل ہوا
"ہاں ہاں بیٹھو بیٹا تم سے بات کرنی تھی "کمرے میں حیات صاحب کے علاوہ کوئی نہ تھا وہ ان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا
"کیا کر رہے تھے ؟
"کچھ نہیں بس آفس ورک کر رہا تھا "
"نور جہاں کا کچھ پتہ چلا
"اسکے سارے ٹھکانوں پر پتہ کروا چکے ہیں جہانگیر بہت انٹرسٹ لے رہا ہے اس کیس میں آخری اطلاع جو ملی ہے وہ یہی ہے کہ نور جہاں اسی رات انگلینڈ چلی گئی تھی " اسنے تفصیل سے انہیں آگاہ کیا
"ہوں "حیات صاحب نے ہنکارا بھرا "اپنے بارے میں کیا سوچا ہے تم نے ؟
"جی ؟؟؟ میں سمجھا نہیں
"میں شادی کی بات کر رہاہوں "
" شادی ؟؟"وہ حیران ہوا
"ہاں شادی
"میں نے کیا سوچنا ہے جو آپ لوگوں کو مناسب لگے "اس کے تابعداری سے کہنے پر حیات صاحب کے چہرے ہر خوشی چھاگئی
"بیٹا میں تمہارا باپ نہ سہی لیکن میں نے کبھی تمہیں اپنی اولاد سے کم نہیں سمجھا اس لیے میں نہیں چاہتا کہ زندگی کے اتنے بڑے فیصلے میں کسی قسم کی کوئی نا انصافی ہو "
"جی میں جانتا ہوں آپ میرے لیے بابا جیسے ہی ہیں بلکہ بابا ہی ہیں "وہ پیار سے ان کے تھام کر بولا اس کے والدین کا انتقال بچپن میں ہی ہو گیا تھا لیکن حیات صاحب اور سمعیہ بیگم کی محبت نے کبھی اسے ماں باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی خود وہ بھی اچھی عادت کا مالک تھا
"ٹھیک ہےـ... میں چاہتا ہوں مغیث کے ساتھ ہی تمہاری بھی شادی ہو جاۓ خاندان میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی موجود ہے بلکہ ہمارے گھر میں دو لڑکیاں موجود ہیں تم دیکھ لو جو پسند ہو بتا دینا " حیات صاحب نے فیصلے کا اختیار اسکے ہاتھ میں دیا
"وہ تو ٹھیک ہے مگر مغیث تواس شادی کے لیے ہرگز راضی نہیں ہے "اسکے لہجے میں بھائیوں جیسی فکر مندی تھی ۔
"اسے راضی ہونا پڑے گا ہر بات میں اس کی مرضی نہیں چل سکتی اس کی ضدی اور اکھڑ فطرت کو حرب جیسی مضبوط اعصاب کی مالک لڑکی ہی کنٹرول کر سکتی ہے اور سب سے بڑی بات وہ جہانگیر کی بہن ہے "آخری بات بے دھیانی میں ان کی زبان سے پھسلی گوہر چونک گیا
"بہن ؟
"آہاں ....میرا مطلب جہانگیر اسے بہن بنا کر لے گیا ہے اور وہ مغیث کا دوست بھی ہے اس کی عادتوں سے واقف ہے اور سب سے بڑی بات اس کی پہلی شادی کے بارے میں بھی آگاہ ہے "انہوں نے بات سنبھالی
"جی یہ تو ہے "گوہر نے سمجھنے کے انداز میں سر ہلا دیا
☆☆☆☆☆☆☆
حیات صاحب نے جہانگیر سے حرب اور مغیث کے رشتے کی بات کی تھی اس نے کچھ وقت مانگا تھا وہ اتنی جلدی ہامی بھر کر حرب کو بدگمان نہیں کرنا چاہتا تھا وہ جہانگیر سے فیضان کا پوچھنا چاہتے تھے مگر زبان نے ساتھ نہ دیا .
نواب ولا میں ندرت کے آنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں وہ 14 سال بعد پاکستان آرہی تھی ہاشم سے شادی کے 6 سال بعد ہی وہ امریکہ سیٹل ہو گئی تھی ہاشم کے دل میں صبوحی کے لیے اب بھی محبت موجود تھی جو ندرت کو راکھ کرنے کے لیے کافی تھی اس جلن کی آگ میں جلتی وہ صبوحی کے مزید خلاف ہو گئی تھی ان کا ایک ہی بیٹا تھا فابیان ہاشم
بظاہر ہر کام میں خوشی خوشی حصہ لیتی ماہی بیگم اندر سے جل بھن رہی تھی ادینہ بھی مغیث کو اس لڑکی کا ہوتے دیکھ کر حسد و جلن کا شکار تھی جو کہ اس سے کسی بھی لحاظ سے بہتر نہ تھی احساس توہین اس پر اس قدر حاوی تھا کہ وہ یہ تک بھول گئی اس نے اپنی ماں کے سامنے بڑے دھڑلے سے جہانگیر کے لیے اپنی پسند کا اظہار کیا تھا
_________
وہ ہال میں ڈیسک پر سر رکھے سوچنے میں اتنی مگن تھی کہ اپنے پیچھے موجود نفوس کی موجودگی بھی محسوس نہ کر پائی چونکی تو تب جب حرب نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا حرب کو دیکھتے ہی وہ سرعت سے اٹھ کر اس کے گلے لگ گئی
"حرب تم آ گئی کہاں تھی یار میں نے اتنا مس کیا تمہیں "اس کی آنکھوں سے باقاعدہ آنسو بہنے لگے حرب سٹپٹا گئی
"ارے کیا ہوا رو کیوں رہی ہو؟؟ کیا بات ہے ؟"حرب نے ایک ہاتھ سے اسے علیحدہ کیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے آنسو پونجھنے لگی
"تم تھی کہاں اتنے دن اور ـ ـ "بولتے بولتے اس کی نظر حرب کے ساتھ کھڑے جازم پر پڑی وہ بات چھوڑ کر اس کی طرف پلٹی
"کیا کر رہے ہو تم یہاں ؟؟بدتمیز انسان
"او میڈم میں اپنی آپی کے ساتھ آیا ہوں ـ ـ
"آپی ؟؟؟"غوزہ نے حیرت سے باری باری دونوں کو دیکھا
" میں بتاتی ہوں تمہیں سب آؤ تم "حرب اس کا بازو پکڑ کر سائیڈ پر لے جاتے ہوئے بولی
"میرے سامنے بتائیں نہ انہیں "جازم نے ان کا راستہ روکا
"اف ہٹو نہ سامنے سے "حرب جھنجھلائی
"میرا وعدہ یاد ہے نہ "اس نے دھمکی کے انداز میں انگلی دکھائی
"ہاں ہاں یاد ہے اب جاؤ بھی "
"اوکے "وہ منہ کے زاوۓ بگاڑتا سائیڈ پر ہو گیا
☆☆☆☆☆☆☆
"وقار مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے "حیات صاحب نے وقار کو دیکھتے ہوئے کہا وہ آج گھر پر ہی تھے
"جی بھائی کہیے "وقار صاحب اخبار سائیڈ پر کرتے ہوئے مکمل ان کی طرف متوجہ ہو گئے
"میں چاہتا ہوں کہ اب صبوحی کی سزا ختم کر دی جائے بہت سہہ لی اس نے ـ ـ ـ اب معاف کر دو اسے "ان کی درخواست پر وقار کے ماتھے پر تیوریاں پڑ گئیں
" آپ نے سوچ بھی کیسے لیا یہ ـ ـ میرے جیتے جی ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا "انہوں نے سختی سے منع کر دیا
"کیسے بھائی ہو تم ترس نہیں آتا اس پر ـ ـ اس معصوم بچی پر جو بغیر کسی گناہ کے سزا بھگت رہی ہے "حیات صاحب کا لہجہ نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہو گیا وقار جھٹکے سے اٹھ کر کھڑے ہوئے
"معصوم ؟؟ جانے کس کا گناہ ہے وہ میرا بس چلتا تو میں اسی دن اس کا قتل کر دیتا جس دن اس کا ناپاک وجود نواب ولا میں اپنی منحوسیت پھیلانے آیا تھا "غصے سے ان کی آواز بلند ہو گئی
"آواز نیچی رکھو وقار مت بھولو کس کے سامنے بات کر رہے ہو تم "حیات صاحب کے کے ناگواری سے ٹوکنے پر وہ کچھ شرمندہ ہوئے مگر اگلے ہی پل تیزی سے بولے
"معاف کیجئے گا بھائی صاحب لیکن جب آپ میری ذاتیات میں دخل اندازی کریں گے تو مجھ سے خود ہر کنٹرول مشکل ہو جائے گا "
"مت بھولو اس گھر کے فیصلے کا اختیار میرے پاس ہے اور کیا کہا تم نے ذاتیات ـ ـ یہ تمہارا ذاتی معاملہ نہیں ہے تم صرف نام کے بھائی ہو مگر میری بہن ہے وہ میرے بابا کی بیٹی ہے وہ پرورش کی ہے اس کی ہم نے جو چاہے فیصلہ کر سکتا ہوں میں اس کے بارے میں "وہ بھی غصے میں مخاطب ہوئے
" اچھا ـ ـ اتنے برسوں بعد آج آپ کو فیصلے کا کیوں آیا "وقار طنزیہ ہنسے
"تم بھول رہے ہو میں نے برسوں پہلے بھی یہی کہا تھا پچھتاؤ گے تم اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤ بہت پچھتاؤ گے "انہوں نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی
"میں کبھی نہیں پچھتاؤں گا بھائی صاحب ـ ـ ـ میں تب بھی نہ پچھتاتا اگر میرے ہاتھوں اک بے غیرت بہن کا خون ہو جاتا کاش اس روز تایاجان بیچ میں نہ آتے تو "
"تو ؟؟؟ تمہارے منہ میں ماہی کی زبان بول رہی ہےاپنی عقل تو ہے ہی نہیں تمہارے پاس ـ ـ ـ ساری عمر جن کے اشاروں پر چلتے رہے ہو ایک دن منہ کی کھاؤ گے تم لکھ کر رکھ لو میری بات وقار درانی صاحب "تلخی سے کہتے وہ وہاں رکے نہیں تھے جبکہ دروازے کے ساتھ لگی صبوحی کو زمین و آسمان گھومتے ہوئے محسوس ہوئے
اپنے بھائی کے منہ سے ایسے الفاظ انہیں جیتے جی مارنے کو کافی تھے وہ ایسی باتوں کی عادی تھی مگر بے حسی کی چادر اوڑھنے کے باوجود کبھی کبھی یہ الفاظ چابک کی طرح لگتے تھے روتے روتے وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگیں دروازے کے ساتھ لگی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں
"میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی سکندر کبھی نہیں "کھڑکی میں کھڑی باہر کا نظارہ کرتی نوائم نے چونک کر اپنے ماں کے الفاظ سنے
"کیا ہوا ؟؟"اس کے پوچھنے پر صبوحی کے رونے میں شدت آ گئی وہ بے اختیار آگے بڑھیں اور دو تین تھپڑ اس کی کمر پر مارے
"کیوں آئی تو اتنا کالا نصیب لے کر "وہ اسے اندھا دھند مارنے لگیں نوائم نے پریشانی سے اپنی ماں کا یہ روپ دیکھا
"مجھ سے بھی ذیادہ بد نصیب ہے تو سنا تو نے مجھ سے بھی ذیادہ "مارتے مارتے جب تھک گئیں تو وہیں اس کے پاس زمین پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئیں نوائم نے ڈری ڈری نظروں سے ماں کو دیکھا صبوحی کا دل تڑپ گیا کچھ دیر قبل کی حرکت پر پشیمان ہوتے اسے سینے سے لگا لیا کمرہ کتنی ہی دیر ماں بیٹی کی سسکیوں سے گونجتا رہا
☆☆☆☆☆☆
"آپ نے اس سے بات کی ؟؟"جازم نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے حرب سے پوچھا
"آج نہیں کی "حرب نے اپنا حجاب درست کرتے ہوئے بتایا
"کیوں "جازم کی آواز چیخ سے مشابہہ تھی
"آرام سے ـ ـ کر لوں گی ویسے بھی فنکشن میں تو ابھی اتنے دن ہیں نا "حرب نے اسے تسلی دی مگر وہ اپنی بات پر اڑا تھا
"مجھے نہیں پتا آپ کو ہر صورت اسے منا کر گھر لانا ہے مجھے بھیا سے ملوانا ہے اسے "
"تم سیریس ہو اس کے بارے میں یا ـ ـ ـ ـ "حرب نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا جیسے سچ جاننا چاہ رہی ہو
" آف کورس ـ ـ ـ سیریس ہوں تو ہی بھیا سے ملوا رہا ہوں نا "اس نے حرب کی کم عقلی پر افسوس کیا
"اچھادیکھیں گے لیکن یاد رکھنا دوست ہے میری اور بڑا نازک دل ہے اس کا "حرب نے سو بار کی دہرائی بات کہی
"افففف جانتا ہوں جانتا ہوں مگر آپ کو میرا یہ چھوٹا سا کام کرنا ہے نہ کیا نہ تو ـ ـ ـ میں آپ کی شکایت آپ کے ہونے والے شوہر سے کر دوں گا "
"شوہر ؟؟"حرب نے حیرت سے اسکی شکل دیکھی
"ہاں نا ـ ـ ـ رات کو بھیا نے بی جان سے بات کی میں بھی پاس ہی بیٹھا تھاـانہیں لگا میں سو رہا ہوں میں توآنکھیں بند کر کے ان کی باتیں سن رہا تھا ہاہاہا "اس نے خود ہی اپنی بات کا مزہ لیا
"کیا کہہ رہے تھے بھائی ؟؟"
"وہ ان کے دوست ہیں نا مغیث ہاں وہی
"واٹ "حرب تو اچھل ہی پڑی صدمے سے اس کی زبان گنگ ہو گئی
" ہاں ہاں میں نے دیکھا ہے انہیں بہت ہی ہینڈسم ہیں پر مجھ سے ذیادہ نہیں بس مجھے تو ان کا ہیئر سٹائل ہی پسند ہے کیا سٹائل ہے واہ "وہ کچھ اور بھی بتا رہا تھا مگر حرب کا دماغ تو اس کی پچھلی بات پر ہی اٹک گیا تھا "کیا ایسا ہو سکتا ہے۔۔
*#جاری_ہے*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.