میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 9
#فریحہ_چــودھـری ✍
#قسط_9
ملازمہ کے ہمراہ وہ لاوٴنج میں آئی تو وہاں سب موجود تھے وہ جھجھک گئی سمعیہ بیگم کی نظر اس پر پڑی وہ فوراً سے بیشتر اٹھ کھڑی ہوئیں
"تم کون ہو ؟؟"ان کے سوال پر وہ گڑبڑا گئی باقی سب بھی اس کی طرف متوجہ ہو چکے تھے
"وہ ـ ـ ـ وہ مجھے ـ ـ "
"ڈرائیور بتا رہا ہے کہ انہیں گوہر صاحب نے بھیجا ہے ان کے آنے تک یہ یہیں رہیں گی " ملازمہ نے اس کی بات پوری کر دی
" ہاں ہاں گوہر نے بتایا ہے مجھے آؤ بیٹھو بیٹا " حیات صاحب کے کہنے پر وہ ادینہ سے کچھ فاصلے پر آ کر بیٹھ گئی ادینہ نے سر سے پیر تک اس کا جائزہ لیا میلے کچیلے کپڑوں اور بڑی سی چادر میں خود کو چھپاۓ بے تحاشہ گوری رنگت اور گہری آنکھوں والی یہ لڑکی اسے خود سے کسی لحاظ سے بھی کم نہ لگی اس نے حقارت سے سر جھٹکا
سمعیہ بیگم اس سے اس کے گھر والوں کا پوچھ رہی تھیں ماں کے ذکر پر اس کی آنکھیں نم ہو گئیں
"نہ جانے کس حال میں ہوں گی اس کی گمشدگی پر کیا قیامت گزری ہو گی بابا نے نہ جانے کیا کیا کہا ہو گا "وہ اسی سوچ میں گم تھی جب حیات صاحب کی آواز اسے حال میں کھینچ لائی
"جاؤ بیٹا کمرے میں جا کر فریش ہو لو پھر بات ہو گی "
ان کے نرم انداز پر وہ شرمندہ سی ہو گئی کسی نے بھی اس سے مغیث کا نہ پوچھا تھا شاید وہ پوری بات سے لاعلم تھے اور مغیث ـ ـ ـ اگر انہیں پتا لگ جائے کہ میں نے اسے چور سمجھ کر ـ ـ ـ اتنے بڑے اور سلجھے ہوئے گھر کا بیٹا چور کیسے ہو سکتا ہے ـ ـ ـ چلو کوئی نہیں اس کی وجہ سے میں نے بھی تو سزا کاٹی ہے اس نے اپنے دل کو تسلی دی اور کمرے کی طرف بڑھ گئی ☆☆☆☆☆☆☆
جہانگیر شام تک گھر پہنچ چکا تھا بی جان کو سلام کر کے وہ اپنے کمرے میں آیا اس کا کمرہ بے حد خوبصورت اور کشادہ تھا دیواروں پر لٹکیں مہنگی اور نفیس پینٹینگز اس کے ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھا دیوار گیر کھڑکیوں پر لٹکتے ریڈ اینڈ بلیو کمبینشن کے پردے جہازی سائزبیڈ قیمتی ڈیکوریشن پیسز سے سجا کمرہ سادگی اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا یہی حال ڈریسنگ روم اور سٹڈی روم کا تھا
وہ ایک طائرانہ نظر کمرے پر ڈالتا صوفے پر بیٹھ گیا تھکن مٹانے کو اس نے ہاتھ بڑھا کرکیسٹ پلیئر آن کر دیا شفقت امانت علی کی خوبصورت آواز اسے دل میں اترتی محسوس ہورہی تھی
اب تو ہی تو مجھ میں ہے میں کہاں بھلا
اب تو ہی تو مجھ میں ہے میں کہاں بھلا
اب تو ہی تو مجھ میں ہے میں کہاں بھلا
اڑاااا ...خواب میرا تیرے پنکھوں کی پروازوں سے
صبح میری ہوئی تیری صبح کے اجالوں سے
تجھ سے یقین پاؤں دنیا کو جیت جاوں
تیری ہی تو راہوں پہ میں ہوں چلا
اب تو ہی تو مجھ میں ہے میں کہاں بھلا
وہ سر جھٹک کر واش روم میں گھس گیا فریش ہو کر جب باہر آیا تو کمرے میں موجود رقص کرتے جازم کو دیکھ کر ٹھٹھکا اتنے دھیمے والے گانے پر بھی وہ اطمینان سے چھوٹے چھوٹے ڈانس سٹیپس کرنے میں مشغول تھا جہانگیر کی طرف اس کی پشت ہونے کی وجہ سے وہ اسے دیکھ نہیں پایا تھا جہانگیر ہنستے ہوئے اپنے بال بنانے لگا پلٹتے ہوے جازم کی نظر اس پر پڑی
"جے بھیا "اس کو دیکھتے ہی وہ بھاگ کر اس کی پشت سے لپٹ گیا
"ہو گیا رقص؟؟" جہانگیر نے مسکرا کر پوچھا اور ہاتھ بڑھا کر پرفیوم کی شیشی اٹھا لی
"ہاں جی "وہ بغیر جھجھکے بولا
"اچھا اب جلدی سے بتا دو کیا چاہئے تمہیں " جہانگیر کے پوچھنے پر اس نے آنکھیں سیکڑیں
"آپ کو کیسے پتہ لگا "
"اس بات کو چھوڑو اور اصل بات کی طرف آؤ "جہانگیر نے اس کے ہاتھ کندھے سے ہٹاۓ اور پورا کا پورا اس کی طرف گھوما
"وہ بھیا ـ ـ ایکچولی بھیا وہ ـ ـ "اسے اٹکتا دیکھ کر جہانگیر نے آگر بڑھ کر اسے گلے لگایا اور تھپکی دی یہ اس کی محبت کا اندازتھا کچھ دیر بعد وہ الگ ہو کر بیٹھ گیا
"چلو اب بتاؤ ایسی کون سی بات ہے جس پر تمہیں ہچکچانا پڑ رہا پے"
"وہ بھیا میرا برتھ ڈے آرہاہے نا 18 کو "اس نے معصوم شکل بنا کر کہا
"ہاں تو ـ ـ "جہانگیر نے ابرو اچکاۓ
"میں اس بار گھر پر سلیبریٹ کرنا چاہتا ہوں آپ کے ساتھ اور مجھے آپ کو کسی سے ملوانا بھی ہے "جازم نے ایک ہی سانس میں بات پوری کر کے جہانگیر کو دیکھا وہ کچھ لمحے سنجیدگی سے اسے دیکھتا رہے پھر نرمی مسکرا دیا
"بس اتنی سی بات "
"او بھیا یو آر دا گریٹ ....رئیلی "وہ ایک ہی جست میں اس تک پہنچا
"آپ اس دنیا کہ سب سے اچھے بھائی ہیں "جازم نے خوش ہوتے ہوئے اس کے گال پر بوسہ دیا
"اچھا بس ذیادہ مکھن نہ لگاؤ میں گوہر کی طرف جارہا ہوں شام میں ملاقات ہوتی ہے اوکے "وہ پیار سے اسکے بال بگارتا باہر کی طرف بڑھ گیا ☆☆☆☆☆☆☆☆
حرب ملازمہ کے ہمراہ جب نیچے آ ئی تو سامنے ہی صوفے پر مغیث بیٹھا دکھائی دیا سر پر بینڈیج کی گئی تھی ساتھ والے صوفے پر حیات صاحب اور سمعیہ بیگم تھیں جبکہ ان کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھے ماہی بیگم اور وقار صاحب تھے وہ اعتماد سے چلتی ہوئی ان تک پہنچی مغیث کی نظر جونہی حرب پر پڑی وہ بپھر کر کھڑا ہوا
"تم ـ ـ تم کیا کر رہی ہو یہاں "
"مغیث حوصلہ رکھو "حیات صاحب نے ٹوکا
"کیا حوصلہ رکھوں بابا اس لڑکی وجہ سے سب کچھ ہوا ہے یہی اس سب کی ذمہ دار ہے " حرب کو مغیث کا انداز غصہ دلا گیا تھا مگر سب کی موجودگی میں وہ خاموش ہی رہی
"چپ کر جاؤمغیث یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے بلکہ تمہاری وجہ سے ایک شریف لڑکی کا دامن داغدار ہو چکا ہے "حیات صاحب کو بھی غصہ آیا
"مجھے پورا یقین ہے یہ لڑکی بھی نورجہاں کی ہی کسی سازش کا حصہ ہے "مغیث بغیر اثر لیے بولا حرب اس الزام پر تڑپ اٹھی مگر گوہر کے ساتھ جہانگیر کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر خاموش ہو گئی
"ایسا نہیں ہے مغیث "گوہر نے اسے سمجھانا چاہا "میں سب معلوم کروا چکا ہوں "
"ایسا ہی ہے یہ لڑکی بہت تیز ہے اسے اچھے سے جان گیا ہوں میں آپ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے مگر میں پاگل نہیں بن سکتا اور آپ نے اسے گھر کیوں رکھا ہوا ہے نکالو یہاں سے چلو نکلو یہاں سے "وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا آگے بڑھ کر حرب کا بازو پکڑا اور اسے باہر کی جانب دھکیلا اس سے پہلے کہ وہ نیچے گرتی جہانگیر نے آگے بڑھ کر حرب کو تھام لیا یہ ایک غیر اختیاری عمل تھا گوہر کے ساتھ ساتھ مغیث بھی چونک گیا جہانگیر کو وہ لڑکی اپنی اپنی سی لگی خود بخود دل کھنچا تھا وہ خود سے الجھتا اسکے جھکے سر کو دیکھنے لگا
"آپ میرے ساتھ آئیے میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں "بغیر کسی کو دیکھے وہ کہہ کر باہر نکل گیا
"رکو میں بھی چلتا ہوں "حیات صاحب کو اس طرح لڑکی کو اکیلے جوان لڑکے کے ساتھ بھیجنامناسب نہیں لگا تھا تبھی خود نانے کو تیار ہوۓحرب نے پلٹ کر مغیث کو دیکھا وہ بھی اسی ہی کی طرف متوجہ تھا اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے دھمکایا مغیث مٹھیاں بھینچ کر اس کی طرف بڑھا اسے بڑھتا دیکھ کر وہ باہر کو بھاگ گئی
__________
سارا راستہ خاموشی سے کٹا تھا جہانگیر نے سواۓ ایڈریس پوچھنے کے اس سے کوئی بات نہ کی گلی تنگ ہونے کی وجہ سے انہوں نے گاڑی کچھ دور ہی روک کر پیدل گھر تک کا فاصلہ طے کیا
جہانگیر نے آگے بڑھ کر بیل دی حرب دل ہی دل میں ایاز صاحب(باپ) کے ری ایکشن سے خوفزدہ تھی دروازہ زلیخا نے کھولا حرب کو دیکھتے ہی وہ بغیر کسی کا لحاظ کے شروع ہوگئی
"آگئی آوارہ گردی کر کے ساری رات کہاں تھی تم " اسکے الفاظ پر حرب کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا
"کوئی گھر میں بڑا ہے تو ہماری ان سے ملاقات کروا دیں پلیز "جہانگیر کا لہجہ بتا رہا تھا کہ اسے زلیخا کا انداز پسند نہیں آیا
زلیخا انہیں چھوٹے سے کمرے میں بٹھا کر چلی گئی ایک میز اور چار کرسیوں پر مشتمل مختصر سامان سیم زدہ دیواریں جگہ جگہ سے اترا ہوا پینٹ مکینوں کی خستہ حالی کا ثبوت تھا حرب ماں کو دیکھ کر کھڑی ہوئی
"اماں
"حرب تو آگئی میری بچی "اماں بے چین اس کی طرف بڑھیں مگر جہانگیر کو دیکھتے ہی ان کے قدم ٹھٹکے
جہانگیر بھی اپنی جگہ سے یکدم اٹھا اس کے چہرے پر ناقابل فہم اثرات تھے سرخ آنکھیں تنے ہوئے اعصاب سختی سے ایک دوسرے میں پیوست ہونٹ کسی انہونی کا پتہ دے رہے تھے
حمیرا (اماں ) بے یقینی سے جہانگیر کو دیکھنے لگیں شناسائی کی ہلکی سی رمق نے انہیں ہلا کر رکھ دیا تھا وہ جو سوچ رہی تھیں اس پر یقین کرنا بے حد مشکل تھا
"جوجو "نام تڑپ کر ان کے ہونٹوں تک آیا
"مت لیں یہ نام "وہ پھنکارا "اس نام پر آپ کا کوئی حق نہیں "
اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے حمیرا کو اپنا آپ بھسم ہوتا محسوس ہوا
"جوجو میرے بچے میں ماں ہوں تمہاری "ممتا کے ہاتھوں مجبور وہ ایک قدم آگے بڑھیں مگر اس کے ہاتھ اٹھا کر ٹوکنے پر وہیں رک گئیں
"بس خاموش ـ ـ میں نہیں جانتا آپ یہ ممتا کا ڈرامہ آج کیوں کر رہی ہیں "اس نے خصوصا آج پر زور دیا "میں بس اتنا جانتا ہوں میرے بابا کی ایک امانت آپ کے پاس ہے مجھے وہ لوٹا دیجئے "کتنی اجنبت تھی اسکی آنکھوں میں ... حمیرا کو نے اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھا
"واقع میرا تم پر کیا حق " خود کو مضبوط کرتیں روانی سے بہتے آنسوؤں کو سختی سے پونجھ کر مضبوط لہجے میں بولیں
"تمہاری امانت تمہارے سامنے موجود ہے.... لے جاؤ اسے
"حمیرا کا اشارہ حرب کی طرف تھا
"اماں " حرب نے بے یقینی سے ماں کو دیکھا
" ہاں حرب یہی سچ ہے تمہیں اپنے اصل کی تلاش تھی نا... یہ ہی ہے تمہاراخون ....تمہارا بھائی ـ ـ تمہارا سگا بھائی
حرب جھٹکے سے جہانگیر کی طرف پلٹی "بھائی"
مگر جہانگیر اسکی طرف متوجہ نہیں تھا کشمکش میں گھرا وہ بس یہ سوچ رہا تھا آیا بہن ملنے کی خوشی مناۓ یا ماں کی صورت دیکھ کر غم
"واہ بھئی کیا بات ہے تیری ڈھٹائی کی آدھا دن اور ایک رات گھر سے باہر گزار کر کتنے دھڑلے سے میرے گھر آ گئی "ایاز صاحب کی غراہٹ پر سب ان کی طرف مڑے
"جی تو چاہتا ہے بوٹیاں بوٹیاں کر دوں تیری "وہ سرخ چہرہ لیے حرب کی طرف بڑھے مگر جہانگیر کی مداخلت پر انہیں رکنا پڑا
"آگے مت بڑھنا " جہانگیر کے سختی سے کہنے پر وہ مزید مشتعل ہوۓ " کیوں بے کیا لگتی ہے تیری یہ جو تو اتنا مچل رہا تیرے ساتھ بھاگی تھی کیا یہ
"خاموش " وہ اتنی زور سے دھاڑا کہ ایاز صاحب اچھل کر پیچھے ہوۓ انکے گھٹیا الزام پر اسکے دماغ کی رگیں تن گئیں تھیں
"بہن ہے یہ میری.... لاوارث نہیں ہے سنا تو نے.. لاوارث نہیں ہے.. فیضان شاہ کی بیٹی.... جہانگیر شاہ کی بہن لاوارث کیسے ہو سکتی ہے " مٹھیاں بھینچ کر درشت لہجے میں چبا چبا کر کہتا وہ ایاز ہی نہیں حیات صاحب کو بھی ساکت کر گیا تھا حرب نے بے یقینی سے اپنے سامنے کھڑے اس ڈھال بنے شخص کو دیکھا جو رشتے میں اسکا سگا بھائی تھا
جہانگیر نے حرب کا ہاتھ پکڑا اور حیات صاحب کو چلنے کا کہہ کر باہر نکل گیا ایاز صاحب بھی فوراً سے بیشتر کمرے سے نکل گۓ
حمیرا کا سکتہ ٹوٹا تو نظر حیات صاحب پر پڑی وہ تو انہیں نہ پہچان سکے مگر حمیرا انہیں پہچان چکی تھی اس نے دونوں ہاتھ ان کے آگے جوڑ دیۓ حیات صاحب گڑبڑا گۓ
"یہ کیا کررہی ہیں آپ ؟
"آپ مجھے بھول گے ہیں مگر میں نہیں بھولی میری یاداشت میں ہر ہر چہرہ موجود ہے حیات بھائی ..میں فیضان کے ساتھ ساتھ صبوحی اور سکندر کی بھی گنہگار ہوں.. آج میں قسم کھا کر کہتی ہوں فیضان اس روز بے قصور تھا ......میری گناہوں اور پچھتاووں کی فہرست بہت لمبی ہے حیات بھائی ...میں جانتی ہوں میں کسی کی معافی کے قابل نہیں لیکن میری غلطیوں کی سزا میرے بچوں کو مت دینا... حرب کے سر پر دست شفقت رکھ دیجئے یہ سوچ کر کہ وہ فیضان کی بیٹی ہے اس فیضان کی جو نواب ولا سے دھتکارا گیا تھا اسی فیضان کی .....جس کی چہرے کی رونق نواب ولا نے چھین لی تھی اگر آپ کو ذرا بھی فیضان کی سچائی کا یقین ہے تو حرب کو نواب ولا کی عزت بنا کر فیضان پر لگا دھبہ دھو دیں جہانگیر ابھی بہت سی باتوں سے لاعلم ہے اسے یہ تلخ حقیقت بتا کر مزیداذیتوں کر سمندر میں مت دھکیلیے گا میں آوں گی حیات بھائی جس دن مجھ میں اپنے اولاد کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت آئی اس دن .....جس دن مجھ میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کا حوصلہ ہو گا اس دن میں ضرور آوں گی " بلک بلک کر روتیں وہ حیات صاحب کو منجمد چھوڑ کر باہر نکل گئیں انہیں زمین و آسمان چکراتے محسوس ہورہے تھے
☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ مضطرب سے اپنے کمرے میں ٹہل رہے تھے جب سے حمیرا سے مل کر آۓ تھے ان کا ذہن الجھا ہوا تھا اگرفیضان بے قصور تھا تو پھر نوائم ـ ـ ـ یہیں ان کا ذہن اٹک جاتا
اس دن جہانگیر کو دیکھ کر انہیں جو وہم ہوا تھا وہ یقین میں بدل گیا تھا جہانگیر ہو بہو اپنے باپ کی کاپی تھا دروازے پر ہونے والی دستک نے انہیں سوچوں کے بھنور سے نکالا
"جی آپ نے بلایا تھا "صبوحی حسب معمول سر جھکاۓ کھڑی تھی
"بیٹھو"ان کے حکم پر صبوحی نے تعجب سے سر اٹھایا
"جی "
"ہاں بیٹھو"وہ جھجھکتے ہوئے بیٹھ گئی حیات صاحب نے اس کا جائزہ لیا سفید چادر پرانے ہلکے رنگ کے پرنٹڈ سوٹ میں زرد چہرہ آنکھوں گرد گہرے ہلکے انہیں بے اختیار وہ پرانی صبوحی یاد آگئی بے حد شوخ و چنچل خوبصورت و ماڈرن گھر بھر کی رونق
اس صبوحی اور آج کی صبوحی میں زمین آسمان کا فرق تھا
"نوائم کیسی ہے ؟؟"سوال ایسا تھا کہ صبوحی کی
آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں مگر جب بولیں تو لہجہ ہر احساس سے عاری تھا
"ٹھیک ہے "
"ہمممم..... آج حمیرا ملی تھی مجھے "اپنی طرف سے انہوں نے گویا دھماکہ کیا مگر صبوحی کے نارمل چہرے کو دیکھ کر وہ حیران ہوئے
"اچھا"بڑے پر سکون انداز میں جواب دیا گیا
"صبوحی میں سچ جاننا چاہتا ہوں آخر سچ کیا ہے ؟؟ سچ وہ ہے جو مجھے آج معلوم ہوا یا سچ وہ ہے جو آج سے برسوں پہلے اس حویلی کے درودیوار نے سنا تھا "ان کے سوال پر کمرے میں خاموشی چھا گئی حیات صاحب کی نظریں صبوحی پر جمی تھیں جبکہ صبوحی کی اپنے ہاتھوں پر قدرے توقف کے بعد انہوں نے سر اٹھایا
"معاف کیجئے گا مگر ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں اب " کہہ کر وہ کھڑی ہوگئیں
"کون قصوروار تھا کون بے قصور یہ فیصلہ اب نہیں ہو سکتا جس نے جو سزا کاٹنی تھی کاٹ لی ان اذیت کے لمحوں کا حساب ممکن نہیں کجا کہ تلافی "بہت مشکل بات بہت آسانی سے کہی گئی تھی جاتے جاتے وہ پلٹیں
"اگر مجھ پر احسان ہی کرنا چاہتے ہیں تو مجھے ایک بار فیضان سے ملوا دیں میں ایک امانت اس تک پہنچانا چاہتی ہوں "لہجہ ملتجی تھا انہیں ساکت چھوڑ کر وہ باہر نکل گئیں اور وہ اس کشمکش میں گھرے یہ سوچتے رہ گئے آیا انہیں جہانگیر سے بات کرنی چاہئے یا حمیرا کا انتظار
☆☆☆☆☆☆☆
وہ حرب کو گھر لےآ یا تھا گھر میں انکا پہلا سامنا جازم اور بی اماں سے ہی ہوا حرب جازم کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گئی
"ارے بھیا یہ کون ہیں" جازم نے تعجب سے حرب کو دیکھا بلکہ گھورا اسے حرب کی شکل کچھ دیکھی دیکھی سی لگی تھی
"یہ ہماری بہن ہے"
"وہاٹ ....بہن" جازم اچھلا بی اماں بھی حیران سی تھیں
"حرب یہ جازم ہے ہمارا چھوٹا بھائی اور یہ ہیں میری پیاری سی بی اماں"
حرب کو سب سے تعارف کرواتا وہ بی اماں کے قدموں میں آ بیٹھا
"بی اماں یہ حرب ہے میں نے آپکو
"کچھ مت کہو مجھے پتہ ہے یہ وہی گڑیا ہے نہ جو میلے میں گم گئی تھی" وہ مسکرا کر بولیں
"جی بی جان "انکی محبت کا وہ مزید معترف ہو گیا تھا انہوں نے اٹھ کر حرب کو گلے سے لگا لیا
"اچھا مجھے بھی یاد آگیا ہے یہ وہی ہیں نا جو آپ سے کھیلتے کھیلتے کھو گئی تھی.... ہاں... ہاں.... میں سمجھ گیا" جازم نے ذہن پر ہاتھ رکھ کر بچپن میں اسکی سنائی گئی کہانی دہرائی
"ہاں وہی ہے" جہانگیر کے ساتھ ساتھ حرب بھی ہنس دی
"لیکن میں نے آپکو کہیں دیکھا ہے مگر کہاں؟؟" وہ اسکی شکل غور سے دیکھ کر یاد کرنے لگا
"جامعہ میں " حرب کے جواب پر وہ چونکا
"آ ہاں ہاں آپ اس چڑیل کے ساتھ" اسکی زبان پھسلی لیکن جہانگیر کی گھوری پر اسنے لب دانتوں تلے دبالیے
"یہ کیا معاملہ ہے" اسکے رعب سے پوچھنے پر وہ سر کھجانے لگا
"ارے کچھ نہیں بھیا آئیں آپی آپ یہاں بیٹھیں مجھ سے تو آپ کا تعارف ہو ہی گیا ہے میں ہوں آپکا جینئیس اور ہینڈسم بھائی"
اسنے ہاتھ پکڑ کر حرب کو ساتھ بٹھا لیا تھوڑی ہی دیر میں وہ سب سے گھل مل گئی تھی مگر جس وجود کو اسکی نگاہیں بار بار ڈھونڈ رہی تھیں وہ کہیں نظر نہ آیا
*#جاری_ہے*

No comments: