میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 8
#فریحہ_چــودھـــری ✍
#قسط_8
"چھوڑو کیا کر رہی تم ؟؟" مغیث نے اپنے بال چھڑوانے چاہے لڑکی ہونے کی وجہ سے وہ اب بھی اس کا لحاظ کر رہاتھا
"تمہیں میں بتاؤں لڑکی کیا ہوتی تم جیسے نیچ ذہنیت کے مردوں کو کیا پتہ لڑکی کا "وہ اس کے کندھوں پر چڑھ گئی
"کیا مصیبت ہے چڑیل ہو تم جان چھوڑو میری " اسے قابو کرتا وہ بے حال ہو رہا تھا
اس ہاتھاپائی میں مغیث کا توازن بگڑا وہ دونوں دھڑام سے زمین بوس ہوئے حرب کو تو کچھ نہ ہوا البتہ مغیث کی کمر کا پٹاخہ ضرور نکلا تھا زمین پر پڑا وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا
ایک لڑکی سے وہ یوں پٹے گا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا وہ اس وقت کو کوسنے لگا جب دوست کے گھر سے واپسی پر اسکی گاڑی خراب ہوئی اور اسنے گھر سے گاڑی آنے تک یہیں رکنے کا فیصلہ کیا
حرب سنبھل کر اٹھ بیٹھی اسے یوں چت لیٹا دیکھ کر اس کا سارا غصہ ہرن ہو گیا تھا
" تم ٹھیک ہو نا "بڑے دوستانہ انداز میں کندھا ہلا کر پوچھا گیا
"دفعہ ہو جاؤ "وہ دانت پیس کر بولا
"آواز سے تو ٹھیک لگ رہے ہو " مغیث نے اٹھنے کی کوشش کی حرٙب نے اس کا بازو پکڑ کر سہارا دینا چاہا جسے اسنے غصے سے جھٹک دیا
"دور رہو تم ....ٹھیک ہوں میں "اس کے اٹھتے ہی حرٙب بھی اٹھ کھڑی ہوئی
"چلو اب تم مجھے گھر چھوڑ آؤ " اس نے یوں کہا جیسے پرانی شناسائی ہو
"وہاٹ ؟؟" مغیث کا منہ کھل گیا "تمہیں جہنم میں نہ چھوڑ آؤں "اس کے تنک کر کہنے پر حرب کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں
سرخ انگارہ آنکھوں سے گھورتا مغیث چونکا کیونکہ وہ اسے نہیں اس کے پیچھے دیکھ رہی تھی وہ جونہی پلٹا کسی نے مضبوط ہاتھوں سے اسکے منہ پر رومال رکھ دیا حوش وخرد سے بیگانہ ہونے سے پہلے اس کی بند ہوتی آنکھوں نے جو چہرہ دیکھا وہ نور جہاں کا تھا
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"غوزہ بی بی آپ کو بڑے صاحب بلا رہے ہیں "ملازمہ کے پیغام پر غوزہ نے جھٹکے سے سر اٹھایا
"ابو نے مجھے بلایا ہے ؟؟" وہ بے یقین تھی
"جی " ملازمہ کے اثبات میں سر ہلانے پر وہ خوشی خوشی بیڈ سے نیچے اتری اسے اس وقت کچھ یاد نہ تھا یاد تھا تو اتنا کہ اس کے بابا نے اسے بلایا ہے وہ بھاگ کر نیچے آئی آخری سیڑھی پر ہی اس کے قدموں کو بریک لگ گیا
شہاب صاحب سرخ آنکھوں سے اسے گھور رہے تھے جبکہ دائیں طرف فاریہ زمان موجود تھی اسکی سگی چچا زاد.... مگر سب سے بڑی دشمن
غوزہ کو انہونی کا احساس ہوا وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ان کے سامنے آکھڑی ہہوئی
"جی ابو آپ نے بلایا "
"پوچھیں تایاجان اس سے کیا کرتی پھر رہی ہے یہ جامعہ میں ؟؟"فاریہ کی تیز آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی
"کیا ـ ـ کیا کر رہی ہوں میں ؟؟"نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی آواز لڑکھڑا گئی
"کیا تعلق ہے تمہارا جازم شاہ سے بولو ؟؟"
کوئی بم تھا جو اسکے قریب پھٹا تھا وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے فاریہ کو دیکھنے لگی
"کیا کہہ رہی ہو تم ؟"وہ بمشکل اتنا ہی کہہ پائی اس قدر گھٹیا الزام نے اس کی قوت گویائی چھین لی تھی
"کیا غلط کہہ رہی ہوں میں ؟؟ میرے ہونے والے دیور سے چکر چلا نے کی کوشش کر رہی ہو تم ایویں تو نہیں تمہارا دیوانہ ہوا وہ.... کیا تم جامعہ اس سے ملنے نہیں جاتی ....کہہ دو یہ بھی جھوٹ ہے "وہ نان سٹاپ بول رہی تھی اور غوزہ کی نگاہ اپنے باپ پر تھی جو لب بھینچے بیٹھے تھے
"ہونہہ میں تو پہلے ہی کہتی تھی کوئی نہ کوئی گل ضرور کھلاۓ گی اپنی ماں پر گئی ہے پوری کی پوری اس نے بھی تو دیور پھانس لیا تھا "
یہ اس کی سوتیلی ماں کی آواز تھی مگر اس وقت اسے کچھ بھی سنائی نہ دے رہا تھا اسے فکر تھی تو اپنے باپ کی فاریہ تو آگ لگا کر جا چکی تھی
وہ اس سے یہ بھی نہ پوچھ سکی کہ اس نے کب اسے جازم سے ملتے دیکھ لیا وہ یہ بھی نہ کہہ سکی کہ اگر اسکا جازم سے کوئی تعلق نہ تھا تو پھر اسے جازم کا غوزہ کی طرف متوجہ ہونا برا کیوں لگا تھا وہ کچھ بھی نہ کہہ سکی کہتی بھی تو کیا فاریہ اس کے باپ کی لاڈلی تھی اور اس سے بدتمیزی کا انجام وہ اچھے سے جانتی تھی اس نے شہاب صاحب کو صوفہ سے اٹھ کر اپنی طرف آتے دیکھا نظریں خودبخود جھک گئیں وہ بے گناہ ہوتے ہوئے بھی گناہ گار بن گئی تھی اب جو بھی ہوتا کم تھا مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب شہاب صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا
"وہ جو بھی ہے اگر تمہیں پسند ہے تو اسے کہو رشتہ لے آۓ "اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا یہ وہ کیا کہہ رہے تھے وہ بے یقینی سے انہیں دیکھنے لگی
اسکا دل چاہا کہہ دے..... کیا انہیں برسوں پہلے کا وعدہ اتنی آسانی سے بھول گیا ہے ... .... انہیں کچھ یاد نہ تھا مگر اسے تو یاد تھا وہ پل تو اسکی سانسوں میں بسے تھے
لیکن یہاں بھی اس کی زبان نے ساتھ نہ دیا وہ خاموش
☆☆☆☆☆☆☆
"ٹرن ـ ـ ٹرن "وہ گہری نیند میں تھا جب اس کا موبائل بجا اس نے جھنجھلاتے ہوئے موبائل اٹھایا اور بغیر نمبر دیکھے کان سے لگا لیا
"ہیلو
"ہیلو جہانگیر "دوسری طرف سے نسوانی آواز پر وہ چونکا
"کون ؟
"میں فاریہ بول رہی ہوں " چند لمحے لگے تھے اسے سمجھنے میں کان سے موبائل ہٹا کر اس نے ٹائم دیکھا رات کا ایک بجا تھا
"جی فرمائیں مس فاریہ "ماتھے پر بل ڈال کر تلخی سے پوچھا گیا
"لگتا ہے میں نے آپ کو ڈسٹرب کر دیا "وہ شاید سمجھ چکی تھی
" جی ہاں ڈسٹرب تو آپ نے کیا "جہانگیر نے بغیر لگی لپٹی رکھے کہا
"اوہ سوری "وہ شرمندہ ہوئی
"آپ کو اگر مجھ سے کوئی کام ہے تو صبح بات کیجئے گا اس وقت مجھے اپنی نیند پوری کرنے دیں " سختی سے کہہ کر اس نے کال کاٹ دی ابھی اس نے آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ موبائل دوبارہ بجنے لگا اب کہ اسے غصہ آیا مگر موبائل پر چمکتے گوہر کا نام دیکھ کر اس نے جلدی سے کال ریسیو کی
"کہاں ہو تم اس وقت ؟؟"گوہر نے چھوٹتے ہی پوچھا
"میں آج شام ہی مری پہنچا ہوں خیریت ہے نا ؟؟"
جہانگیر کو تشویش ہوئی گوہر کا اس وقت کال کرنا اور پھر پوچھنا حیران کن تھا
"نہیں خیریت نہیں ہے مغیث شام کا گھر سے نکلا ہوا ہے اببھی تک گھر نہیں پہنچا
"کسی دوست کے پاس ہو گا "
"نہیں ہے کسی دوست کے پاس راستے سے اس کی گاڑی ملی ہے اس کا کچھ نہیں پتہ "
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہاں جاسکتا ہے "جہانگیر سیدھا ہو بیٹھا
"یہی سمجھ نہیں آرہی بڑی امی کا رو رو کر برا حال ہو رہا پے "گوہر کا لہجہ غمگین تھا
"اوکے تم ٹینشن نہ لو آ جاے گا میں بھی کوشش کرتا ہوں پہنچنے کی "وہ مغیث کے لیے بے چین ہوا تھا مگر گوہر نے اسے اس وقت آنے سے سختی سے منع کر دیا تھا
.. کال بند کر کہ گوہر نے مغیث کا نمبر ٹرائی کیا مگر وہ بند مل رہا تھا اسنے نے جھنجھلا کر موبائل ٹیبل پر رکھا
__________
جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں فرش پر پڑی تھی کمرے میں بلب روشن تھا رات کا جانے کون سا پہر تھا وہ اندازہ نہ کر سکی ذہن تھوڑا بیدار ہوا تو اسے سارا واقعہ یاد آگیا وہ اٹھ بیٹھی اردگرددیکھا تو نظر کونے میں پڑے زخمی وجود پر ہڑی اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے وہ تیزی سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھی
"اے ـ ـ ہیلو ـ ـ سنو "اس نے مغیث کا کندھا ہلایا مغیث نے نیم وا آنکھیں کھول کر اسے دیکھا
"میں تمہارے ہاتھ کھولتی ہوں " کہہ کر وہ جلدی سے اس کے ہاتھ پاؤں کھولنے لگی وہ ایسی ہی تھی کسی کی تکلیف پر تڑپ اٹھنے والی اسے رہ رہ کر اب خود پر غصہ آ رہا تھا
ہاتھ کھلتے ہی وہ ہلکی سی سسکی سے اٹھ بیٹھا حرٙ ب نے دل ہی دل میں اس کی ہمت کی داد دی جواتنی تکلیف میں بھی اپنے حوش و حواس سلامت رکھے ہوئے تھا
"کیا ہے.... کھانا ہے اب مجھے ؟؟" اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے پر وہ چڑا
"نہیں تمہارا سر پھاڑنا ہے "وہ بھی دوبدو بولی
"مجھے نکلنے دو یہاں سے تمہیں تو میں اچھے سے پوچھوں گا "مغیث نے دانت پیس کر اسے اپنے خطرناک ارادوں سے باخبر کیا
" حال دیکھا ہے تم نے اپنا... ہیرو بن رہے ہونہہ آۓ بڑے مجھے پوچھنے والے "حرٙب نے ناک سے مکھی اڑائی
مغیث اس طنز پر بلبلا کر رہ گیا اس وقت اسے دو دو عورتوں سے نمٹنا پڑ رہا تھا وہ جانتا تھا نورجہاں نے اسے اغواہ کیوں کروایا ہے وہ اس سے اپنا بدلہ لے رہی تھی تبھی تشدد کے بعد اسے حرٙب کے ساتھ اس کمرے میں بند کر دیا گیا تھااور اسی نقطہ پر وہ اٹک جاتا تھا کہ حرٙب کو کیوں لایا گیا ہے ؟؟" نورجہاں سے زیادہ غصہ اسے حرب پر تھا وہ اسے ہی سارے واقعہ کا ذمہ دار سمجھ رہا تھا
"بیٹھے بیٹھے سو گۓ کیا ؟؟"حرٙب نے اس کے چہرے کے آگے چٹکی بجائی اس نے گردن موڑ کر اسے گھورا
"ہاہاہا مجھے لگا تم بے ہوش ہو گۓ ہو... درد سے "اس نے ہنستے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کی وہ تپ کراس کی طرف پلٹا
"دور ہو جاؤ تم میری نظروں سے ورنہ بہت پچھتاؤ گی "مغیث کا بس نہ چل رہا تھا کہ محترمہ کا حشر کر دے اس کے خطرناک تیور دیکھ کر وہ دور جا کھڑی ہوئی
"مجھے بھی نکلنے دو یہاں سے تمہارا سر نہ پھاڑا تو کہنا "حرٙب نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر اسے دھمکایا مغیث نے بغیر جواب دیئے رخ پھیر لیا
"میرے پاس ایک پلین ہے" وہ اس کے پاس آبیٹھی
"اپنا پلین اپنے پاس رکھو اور اپنی منحوس شکل لے کر
دفعہ ہو جاؤ" وہ دانت پیس کر غرٙایا
"دیکھو فلحال لڑائی ملتوی کر دو میرے پاس بہت اچھا
آئیڈ یا ہے یہاں سے نکلنے کا " وہ مزید اسکے قریب
سرکی
" بولو " انداز پھاڑ کھانے والا تھا
"کان پاس کرو "
"اب اور کتنا پاس ہونا ہے " اسنے چبھتے انداز میں طنز کیا وہ بھڑک اٹھی
"میں تمہارا سر پھاڑ دوں گی "
"پچھلے آدھے گھنٹے میں تم یہ بات آٹھ بار دہرا چکی ہو
ہے کوئی نئی بات کرو"
"میری بات سن لو تمہارا ہی فائدہ ہو گا "اس نے کہتے ساتھ ہی بائیں پاؤں کا جوتا اتارا ہائنچہ اوپر کر کہ جراب نیچے کی اور ایک بے حد چھوٹے سائز کا موبائل نکالا مغیث نے پوری آنکھیں کھول کر اس کی کاروائی ملاحظہ کی
"یہ لو ـ ـ اس میں سم بھی ہے میری عادت ہے میں کہیں باہر نکلوں تو موبائل کو جرابوں میں ضرور چھپاتی ہوں
"اس نے موبائل اس کی طرف بڑھایا مغیث نے پھرتی سے موبائل پکڑ کر گوہر کا نمبر ملایا
"بیلنس نہیں ہےاس میں تو "
"تو مس کال دو نا کال کا کس نے کہا " وہ بے نیازی سے بولی مغیث نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا
☆☆☆☆☆☆☆
وہ کلاس کی طرف آئی تو دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کاش آج جازم سے اس کا سامنا نہ ہو ابھی اس نے ایک قدم ہی اندر رکھا تھا کہ وہ اسے سامنے ہی نظر آگیاـبلیک پینٹ اور ہاف وائیٹ شرٹ پہنے وہ فاریہ کے ساتھ باتوں میں مگن تھا غوزہ کی طرف اسکی پشت تھی وہ تیزی سے اپنی نشست کی طرف بڑھی اس کی پاس سے گزرنے پر وہ پورا کا پورا اس کی طرف گھوم گیا
غوزہ اسے نظرانداز کرتی قدرے کونے میں پڑی کرسی پر جا بیٹھی اور کتاب کھول کر اپنے سامنے کر لی وہ مسکرا کر چلتا ہوا اس کے قریب آیا اور جھک کر اس کی کتاب کھینچ لی غوزہ تلملا کر اٹھی
"کیا بدتمیزی ہے یہ جاہل انسان واپس کرو میری کتاب"
"اور اگر نہ دوں تو "جازم محفوظ کن مسکراہٹ سے اسکی آنکھوں میں جھانک کر بولا گویا اس کی حالت سے محظوظ ہورہا ہو غوزہ کے اشتعال میں یکدم اضافہ ہوا وہ آگے بڑھی اور کتا ب کھینچ کر اس کے سر میں دے ماری
"تو یہ کروں گی میں " وہ فاتحانہ مسکراتے ہوئے اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی جازم اپنی جگہ حیران کھڑا تھا مگر اس وقت غوزہ کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب جازم نے مسکرا کر کسی کی پرواہ کیے بغیر فلائنگ کس اس کی طرف اچھالی اور گنگاتا ہوا اپنی نشست کی طرف بڑھ گیا
غوزہ اس کی پشت دیکھتی رہ گئی "کیا ہے یہ لڑکا "اس نے حیرانی سے سوچا یہ جانے بغیر کہ کسی کی حقارت آمیز نگاہیں اس کے چہرے پر جمی تھیں
☆☆☆☆☆☆☆☆
اطلاع ملتے ہی گوہر اپنے ماتحتوں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا بہت جلد ہی صورتحال پر قابو پالیا گیا تھا نگرانی پر صرف دو لڑکے ہی تھے انہیں گرفتا کرنے کا حکم دیتا وہ وہاں موجود واحد کمرے کی جانب بڑھا دروازہ توڑ کر جب وہ اندر داخل ہوا تو ایک لڑکی کو وہاں دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا اسے بالکل اندازہ نہ تھا کہ مغیث کے ساتھ کوئی لڑکی بھی ہو سکتی ہے حرٙب بھی چادر سنبھالتی اٹھ کھڑی ہوئی پولیس آفیسر کو سامنے پاکر اس کے چہرے پر سکون اتر آیا تھاـ
"آپ یہاں کیسے آئیں ؟؟کیا آپ کو بھی مغیث کے ساتھ ؟
"جی "وہ اثبات میں سر ہلا کر انہیں تففصیل بتانے لگی
"آپ انہیں لے جائیں انہیں ٹریٹمینٹ کی ضرورت ہے
"بات ختم کر کہ اس نے گوہر کی توجہ بے ہوش پڑے مغیث کی طرف دلادلائی
"ٹھیک ہے میں آپ کی بات پر یقین کر لیتا ہوں مگر آپ ڈرائیور کے ساتھ میرے گھر جائیں گی اس کیس میں آپ کی ضرورت پڑسکتی ہے "وہ گومگو کی کیفیت میں بولا حرب کے سر پر جمی چادر اور چہرے سے چھلکتی شرافت وہ چاہ کر بھی اس پر شک نہ کر سکا
حرٙب کے انکارکے باوجود اسے نواب ولا بھجوا دیا
مغیث کو ہاسپٹل پہچانے تک وہ حرٙب کے بارے میں تمام معلومات حاصل کر چکا تھا
*#جاری_ہے*

No comments: