میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 7
#فریحہ_چـودھـری ✍
#قسط_7
میرے ہم نفس میرے ہم نوا
مجھے دوست بن کر دغا نہ دے
میں ہوں دردِ عشق سے جان و لب
مجھے زندگی کی دعا نہ دے
مرے داغ دل سے ہے روشنی
اسی روشنی سے ہے زندگی
مجھے ڈر ہے اے میرے چارہ گر
یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے
مجھے اے چھوڑ دے میرے حال پر
تیرا کیا بھروسہ ہے چارہ گر
یہ تیری نوازشیں مختصر
میرا درد اور بڑھا نہ دے
میرے ہم مفس میرے ہمنوا
مجھے دوست بن کر دغا نہ دے
تنگ و تاریک کمرے کی خاموش فضا میں دھیمے سروں میں گونجتی یہ غزل درد دل کی عکاس تھی
وہ ٹھنڈےیخ فرش پر دیوار سے ٹیک لگائے بے حس و حرکت بیٹھیں تھیں گھپ اندھیرے میں کمرے کی دیواروں کو تکتی نہ جانے کیا ڈھونڈ رہی تھیں وہ شام سے ہی گم صم تھیں جہانگیر کو دیکھ کر جس چہرے کا گمان ہوا تھا اس نے انہیں پھر سے ہلا کر رکھ دیا تھا کیا کیا نہ یاد آیا تھا ماضی کا ہر درد ہر اذیت ہر ستم جنہیں دل میں دفن کرکے وہ زندگی کو اک نئے سرے سے گزارنے لگیں تھیں
یہ الگ بات تھی اس زندگی میں زندگی جیسا کوئی رنگ نہ تھا مگر آج پھر سے پرانے درد جاگنے لگے تھے گر زخموں سے لہو رسا تھا تو روح بھی تڑپی تھی نہ جانے وہ کب تک اس خود اذیتی کا حساب کرتیں رہتیں اگر نوائم کی آواز انہیں چونکا نہ دیتی
"امی کہاں ہیں آپ ؟؟"وہ ڈر کر اٹھی تھی
"یہیں ہوں بیٹا تم لیٹ جاؤ "وہ اندازے سے چلتیں کمرے کی واحد چارپائی تک پہنچیں نوائم تابعداری سے سر ہلاتی فورا لیٹ گئی وہ ایسی ہی تھی خاموش گم صم اور معصوم
اس کی صرف ایک خواہش تھی اس دروازے سے باہر کی دنیا دیکھنا
سولہ سال کی عمر میں بھی اس کا ذہن نا پختہ تھا سواۓ ماں کہ وہ ہر رشتہ سے انجان تھی سواۓ اپنے نام کے وہ کسی نام سے واقف نہ تھی سواۓ اس کمرے کہ اس نے کوئی جگہ نہ دیکھی تھی
کیسی زندگی تھی اس کی ؟؟
کون تھا اس کی حالت کا ذمہ دار ؟؟
کس سے پوچھتی وہ اپنا گناہ ؟؟ اپنا قصور ؟؟
بے قصور ہوتے ہوئے بھی وہ ایک بہت بڑی سزا پا گئی تھی اپنے باپ کے کیے کی سزا.... اپنی ماں کی خاموشی کی سزا اس نے اپنی ذات پر جھیلی تھی
مـــیں اداس رستـــہ ہـــوں شـــام کا
مجـــھے آہـــٹوں کـــی تلا ش ہـــے
یہ ســـتارے سب ہـــیں بجھے بجھے سے
مجـــھے جگــــنووں کـــی تلاش ہـــے
وہ جـــو اک درد تھــــا آگ کــــا
وہ تــــو راستوں ســــے گزر گیا
مجــــھے کب سے ریت کے شہر میں
نئــــی بارشوں کی تلاش ہـــــے
☆☆☆☆☆☆
"کہاں جا رہی ہو تم ؟؟" وہ جو مگن انداز میں دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی بابا کی کڑک دار آواز پر حیران ہوتی پلٹی
"یونیورسٹی جا رہی ہوں "حرٙب کے جواب پر ان کے ماتھے پر بل پڑگئے
"کیوں ؟؟"
"میں تو روز جاتی ہوں "وہ زلیخا کی تمسخر اڑاتی نظروں کو نظر انداز کیے بغیر بولی
"لیکن آج سے نہیں جاؤ گی "ان کے حکم پر اسے جھٹکا لگا
"کیوں ؟؟"
"کہہ دیا ہے بس ختم یہ چونچلے ....ہفتے بعد شادی ہے تمہاری "وہ حکم دیتے بغیر کچھ سنے اندر کی طرف بڑھ گئے
"لیکن بابا ـ ـ ـ "وہ انکے پیچھے لپکی مگر زلیخا کی مداخلت پر اسے رکنا پڑاـ
"بابا نے کہہ دیا نہ نہیں جاؤ گی تو نہیں جاؤ گی بات ختم " زلیخا نے غصے سے کہہ کر اس کا بیگ جھپٹا اور کمرے کی طرف بڑھ گئی اس نے بے بسی سے ماں کو دیکھا جو کیچن کے دروازے میں کھڑی آنسو بہا رہی تھی
"اماں "وہ تیزی سے ان کی طرف بڑھی "اماں ـ ـ میری پڑھائی ـ"اس کی آنکھیں آنسو سے بھر گئیں
"اماں میں نے بابا کی ہمیشہ ہر بات مانی ہے مگر یہ ـ ـ ـ یہ نہیں سہہ پاؤں گی میں "وہ ماں کے ہاتھوں کو تھام کر کہنے لگی جو خود بھی بے بسی کی تصویر بنی کھڑی تھیں روتے روتے وہ یکلخت چپ کر گئی
"اماں .....میرے ...میرےبابا کہاں ہیں ؟؟"سوال ایسا تھا کہ وہ لرز گئیں حرٙب نے پہلی بار اپنے باپ کے بارے میں پوچھا تھا ان سے کوئی جواب نہ بن پڑاـ
"وہ آپ سے ناراض ہوں گے مجھ سے تو نہیں نا ـ ـ میں انہیں منا لوں گی اماں مجھے میرے بابا کے پاس چھوڑ آئیں اماں خدا کا واسطہ ہے اماں بچپن سے لے کر اب تک اپنی ہر خواہش کی قبر میں نے اپنے دل میں بنائی ہے لیکن اب میری زندگی کا سوال ہے اماں میں نے جب ہوش سنبھالا تب ہی محسوس ہو گیا تھا کہ یہ میرے نہیں زلیخا کے بابا ہیں مگر میں خاموش رہی آپ کو جانوروں کی طرح پٹتے دیکھ کر بھی خاموش رہی اپنے باپ کو دیکھنے کی شدید ترین خواہش کے باوجود بھی خاموش رہی لیکن اب ـ ـ اب نہیں... مجھے میرے بابا کے پاس چھوڑ آئیں اماں ....پلیز مجھے بتا دیں میرے بابا کا "وہ بلک بلک کر رو رہی تھی جواب مانگ رہی تھی مگر ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا دیتیں بھی تو کیسے ؟؟؟ وہ نام زبان پر لانے کا حوصلہ کہاں سے لاتیں خود میں ـ ـ سسکیاں روکنے کے لیے انہوں نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا
"ہونہہ کیسے بتاۓ گی یہ تمہارے باپ کا نام اسی نے تو مارا ہے تمہارے باپ کو "آواز پیچھے سے آئی تھی اس نے پلٹ کر دیکھا
"ک ..کیا مطلب ؟؟"وہ بے یقین تھی
"ہاں سچ کہہ رہا ہوں مر گیا تمہارا باپ اس لیے نخرے مت کر اب زیادہ... کوئی نہیں ہے اب تم لوگوں کا اس دنیا میں شکر کرو میں نے رکھا ہوا ہے دو دن دنیا کی ٹھوکریں کھاتے تو عقل ٹھکانے آجاتی "وہ تنفر سے کہتے باہر نکل گئے حرٙب کی بے یقین نظریں ان کےقدموں سے الجھ کر رہ گئیں
وقــ ت کے مـــوڑ پر ایـــسا مقام آیـــا
زخـــم مـــیرے دل کا زبـــان پـــر آیا
نہ روتے تھـــے ہــ م کانٹـــوں کی چـــبھن سے بھی
آج نہ جانے کیوں پھولوں کی خوشبو سے بھی رونا آیا
"اماں ـ ـ "اس نے ماں کے ساکت چہرے کو دیکھا "میرے بابا نہیں ہیں کیا ؟
"میں ..خود ...نہیں... جانتی حوری " الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ان کے منہ سے نکلے وہ ایک بے بس نظر اس کے چہرے پر ڈال کر پلٹ گئیں وہ کتنی ہی دیر یقین و بے یقینی کی کے حصار میں میں لپٹی وہیں کھڑی رہی
☆☆☆☆☆☆☆
غوزہ آج کافی دنوں بعد جامعہ آئی تھی حوری کو نہ پاکر اس پر جھنجھلاہٹ سوار ہو گئی دل ہی دل میں اسے کوستی وہ کلاس روم میں چلی آئی سامنے کا منظر حیرت انگیز تھا اس کے قدم دروازے پر ہی جم گۓ اس کے عین سامنے وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھاۓ کرسی پر براجمان تھا فاریہ اس کے ساتھ چپکی بیٹھی تھی جبکہ کچھ لڑکیاں اس کے اردگرد موجود تھیں
" یہ یہاں بھی آگیا "
نہ جانے اسے اتنا غصہ کیوں آیا تھا اس کی نظر بھی غوزہ پر پڑ چکی تھی اسے دیکھتے ہی وہ کھل کر مسکرایا
وہ ناگواری سے سر جھٹکتی اپنی سیٹ کی طرف بڑھی وہ بھی کتابیں اٹھاتا اس کے برابر آبیٹھا اس کی اس حرکت نے اسے اچھا خاصہ تپا ڈالا مگر وہ ضبط کیے بیٹھی رہی وہ مسلسل اسے گھورنے میں مصروف تھا اسے ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کر وہ غصے سے اسکی طرف پلٹی اس نے پھرتی سے کتاب کھول کر اپنے سامنے کر لی
"کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ مسٹر ؟؟ وہ غرٙائی
"آپ مجھ سے مخاطب ہیں کیا" وہ معصومیت کے اگلے پیچھلے تمام ریکارڈ توڑتے ہوۓ بولا
"نہیں تمہارے فرشتوں سے "
اسکے یوں جل کر کہنے پر جازم نے بمشکل اپنا قہقہ روکا
"سوری وہ فضول باتوں کا حواب نہیں دیتے" تپانے کے انداز میں کندھے اچکا کر کہتا وہ دوبارہ کتاب کی جانب متوجہ ہو گیا وہ کلس کر رہ گئ اور پھر لیکچر کے دوران بھی وہ اسے گھورتا رہا وہ جب اسے دیکھتی وہ نگاہوں کا زاویہ بدل لیتا کلاس ختم ہوتے اس نے شکر ادا کیا اور بغیر اسے دیکھے تیزی سے باہر نکل گئیں۔
_________
وہ کھانے کے برتن سمیٹ رہی تھیں جب ریجا کیچن میں داخل ہوئی
"کچھ چاہئے تھا؟؟؟"انہوں نے عادتاً پوچھا وہ مسکرا دی
"نہیں پھوپھو مقیت آۓ ہیں آفس سے چاۓ کا کہہ رہے ہیں "وہ اپنےمزاج کے مطابق نرمی سے بولیں ریجا سمعیہ بیگم کی بھانجی تھی اور ان کی طرح ہی نرم مزاج کی حامل تھی
"میں بنا دیتی ہوں "صبوحی نے گلاس دھوتے ہوئے کہا
"ارے نہیں پھوپھو میں بناـلوں گی آپ ریسٹ کریں اور یہ آپ کے چہرے کو کیا ہوا اتنا سرخ کیوں ہو رہا ہے "وہ تشویش سے ان کی طرف بڑھی
"کچھ نہیں بس ویسے ہی " کہہ کر انہوں تیزی سے رخ پھیر لیا
"نہیں ...دکھائیں مجھے " ریحا نے ان کا ہاتھ تھام لیا
"ارے آپ کو تو بخار ہے
"کس کو بخار ہے بھئی "مغیث نے کچن میں جھانک کر پوچھاـوہ نک سک سے تیار کھڑا تھا موڈ بھی خاصا خوشگوار تھاـ
"پھوپھو کو "ریحا کے جواب پر وہ آگے بڑھ آیا
"ارے نہیں بس ایسے ہی ـ ـ ـ چھوڑو لاؤ میں چاۓ بناؤں
"انہوں نے ٹالنا چاہا
"ایسے ہی نہیں ـ ـ ـ ادھر دکھائیں ذرا مجھے " مغیث نے ان کے ماتھے پر ہاتھ رکھا "آپ کو تو اچھا خاصہ بخار ہے پھوپھو... چھوڑیں سب ... چلیں جلدی سے تیار ہو جائیں ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں " اسکے لہجے میں فکرمندی تھی
"ارے نہیں بیٹا بس میں آرام کروں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی
"ایسے کیسے ٹھیک ہو جائیں گی میڈیسن تو لینی چاہئے نا "وہ محبت سے بولا
"ہاں وہ ہے میرے پاس بخار کی دوائی میں لے لوں گی "وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پیار پر شرمندہ ہو رہی تھیں
"اچھا چلیں ٹھیک ہے آپ آرام کریں آئیں میں آپ کو روم تک چھوڑ آؤں "اس نے مزید اصرار مناسب نہ سمجھا تبھی رضامندی سے بولا
"آـ ـ ـ ہاں ـ ـ "وہ اٹکیں "میں چلی جاتی ہوں "وہ بازو چھڑوا کر فوراً دروازے کی طرف بڑھیں مغیث نے تعجب سے ان کا انداز دیکھا
"پتہ نہیں پھوپھو اپنی بیٹی کو کس بات کی سزا دے رہی ہیں اس معصوم کا کیا قصور ہے "ان کے جاتے ہی ریجا نے ہمدردی سے کہا "ہمیں کچھ کرنا ہو گا ورنہ وہ پاگل ہو جائے گی اس قید میں "
"ہم م م "مغیث سوچ میں ڈوب گیا
"اور یہ تم اتنا تیار ہو کر کہاں جا رہے ہو؟؟؟... خیریت آج موڈ بھی اچھا ہے "اس کے شرارتی انداز پر وہ چونکی
"ہاہاہا بس آج ذرا آوارہ گردی کا ارادہ ہے "وہ ہنس کر بولا "اچھا مما بابا کو بتا دیجئے گا میں ذرا لیٹ آؤں گا "وہ جلدی سےکہہ کر باہر نکل گیا ریحا نے دل ہی دل میں اس کی دائمی خوشیوں کی دعا مانگی
☆☆☆☆☆☆☆☆
خواب رہتــے تھــےجو کبـھی پلـــکوں پـــر
موتـــی بـن کر آنکـــھوں سے جھــــڑ گۓ
داؤ پـر ہوتے ہـــیں دل و جان یــــہاں
الفت کے یہ سب سودے مہنگے پر گۓ
دھنـــدلے راســـتے منـــزل بھـــی انجان سی
رکتــــے قـــدم پھر سے آگـــے بـــڑھ گـــۓ
نہ جیـــت ہـــوئی نہ ہـــاری بازی ہـــم نے
کـــبھی خـــود ســـے کـــبھی قســـمت سے لــڑ گۓ
وہ چلتے چلتے بہت دور نکل آئی تھی اس بات کا شاید اسے اندازہ نہ تھا
چاندنی رات میں قدرے سنسان سڑک پر سر جھکاۓ وہ چلتی چلی جا رہی تھی
مر گیا تمہارا باپ "جب جب یہ آواز اس کے کانوں میں گونجتی اس کے رونے میں مزید اضافہ ہو جاتا تھک ہار کر وہ سڑک کے کنارے پر بیٹھ گئی
اب تو ملے گی محبت ہمیں یا رخ ہو گا مہ خانے کا
تیرا ساتھ ہو گا یا سہارا ہو گا تیری یادوں کا
آواز پر اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا اس سے کچھ فاصلے پر نشے میں دھت دو پتلی جسامت کے لڑکے لہک لہک کر گاتے اسے ہی دیکھ رہے تھے
وہ جب گھر سے نکلی تھی تو شام ہونے میں کچھ وقت تھاـاور اب اندھیرا ہر سو پھیل چکا تھا اس کا دل گھبرانے لگا اس سے پہلے کہ وہ اس تک پہنچ پاتے وہ پھرتی سے اٹھی اور اندھادھند بھاگنے لگی انہوں نے اسے بھاگتا دیکھا تو وہ بھی اس کے پیچھے لپکے بھاگتے بھاگتے اس کا پاؤں مڑا وہ منہ کے بل سڑک پر گری ایک دلخراش چیخ اس کے لبوں سے نکل کر ویرانے میں پھیل گئی
وہ اس کے قریب پہنچ چکے تھے انہیں قریب آتا دیکھ کر وہ پھر سے اٹھنے لگی مگر پاؤں کی تکلیف نے اس کی یہ کوشش ناکام بنا دی بے بسی سے اسکی آ نکھیں بھر آئیں اس نے بے اختیار خدا کو پکارا
"ہاہاہا اووو بے بی کہاں بھاگ رہی تھی "ان میں سے ایک ہنستےہوئے اسکے پاس آیا وہ پیچھے کو کھسکی
"لگتا ہے بے بی کو چوٹ آئی ہے آؤ ہم مرہم لگا دیں "دوسرے نے خباثت سے آنکھ مارتے ہوئے کہا دونوں ہسنے لگے
پیچھے کھسکتے کھسکتے اس کا ہاتھ کسی چیز سے ٹکرایا وہ لوہے کی ڈنڈا نما کوئی چیز تھی وہ دل مضبوط کرتی زخمی پاؤں کی بجائے دوسرے پر وزن ڈال کر کھڑی ہوئی
"لو میرا ہاتھ تھام لو گر مت جانا " وہی لڑکا پھر سے بولا
وہ جونہی قریب آیا اس نے ڈنڈا کھینچ کر اس کے ہاتھ پر دے مارا وہ پیچھے ہو گیا ہاتھ ٹانگ کمر وہ تابڑ توڑ مارنے لگی وہ اس حملے کے لیے تیار نہیں تھے
نشے میں ہونے کی وجہ سے وہ مقابلہ نہ کر سکے بوکھلا کر بھاگ کھڑے ہوئے مگر وہ بھی حرب فیضان تھی ہاتھ آیا شکار کیسے جانے دیتی لڑکھڑاتے ہوئے ان کے پیچھے بھاگی تھوڑی ہی دور جا کر اسے ایک گاڑی دکھائی دی ایک لمبا چوڑاـشخص ہاتھ میں سگریٹ لیے اس کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا وہ دونوں اس تک پہنچے انہیں دیکھ کر وہ سیدھا ہوا
"سر پلیز یہ ہی وہ لڑکی ہے چور ـ ـ چور ہے یہ لڑکی ہمارے بٹوے چڑالیے ہیں سر اس نے "وہ دونوں اس کی طرف اشارہ کر کے چلاۓ
"الو کے پٹھے تو یوں نہیں سدھرے گا "اس نے کھینچ کر ڈنڈا اس کی کمر پر مارا وہ چیخ کر مغیث کی پیچھے ہوا جو حیرت سے اس لنگڑاتے چور کو دیکھ رہا تھا
"اور تم ـ ـ ـ سر ہو ان کے؟؟؟ مطلب کہ تم نے انہیں بھیجا تھا ؟؟"اب کہ وہ مغیث کی طرف پلٹی وہ بوکھلا گیا
"کیا مطلب ہے تمہارا ؟
"شکل سے کتنے شریف لگتے ہو شرم نہیں آتی ایسی حرکتیں کرتے ہوئے "اس نے کھینچ کر ایک ضرب مغیث کے کندھے پر ماری
"واٹ دا ہیل ـ ـ آر یو میڈ "اب کے مغیث کا میٹر بھی گھوما
"شٹ اپ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے "وہ بھی جواباً چیخی غصے سے وہ آؤٹ آف کنٹرول ہو رہی تھی یہ تک بھول گئی تھی کہ بیچ سڑک تین مردوں کے ساتھ یہ غنڈہ گردی مہنگی بھی پڑسکتی تھی
"جسٹ شٹ اپ.... پتہ نہیں کہاں سے آگئی یہ پاگل لڑکی.. جاؤ... دفعہ ہو جاؤ "مغیث نے اسے دھکا دے کر سائیڈ پر کیا اور ان دونوں کی طرف پلٹا پیچھے کوئی بھی نہ تھا یعنی وہ دونوں اپنی مصیبت اسکے گلے ڈال کر غائب ہو چکے تھے وہ حیران ہوا مگر اسے مزید سوچنے کا بھی موقع نہ ملا کمر پر پڑنے والی ضرب نے اسے آگ بگولہ کر دیا
"تمہیں تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا " وہ غیض وغضب سے اسکی طرف مڑا اور کھینچ کر ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا وہ الٹ کر گری ڈنڈا دور جا گراـ مغیث نے اسے گردن سے دبوچ کر کھڑا کیا
"سمجھتی کیا ہو خود کو ہاں ؟؟ آرام سے برداشت کر رہا ہوں تو جان کو ہی آ گئی ہو اچھی طرح جانتا ہوں تم جیسی آوارہ لڑکیوں کو "اس کے نفرت بھرے الفاظ پر وہ ششدر رہ گئی غصے کی ایک شدید لہر نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیااسنے پاوں کو ہلا جلا کر دیکھا درد غائب تھا اس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے اپنا گھٹنا اس کے پیٹ پر دے مارا اس کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی اس نے اپنی گردن چھڑوائی اور مغیث کو دھکا دے کر پیچھے کیا مغیث نے گاڑی پر ہاتھ رکھ کر خود کو گرنے سے بچایا ـ ـوہ گاڑی کے بونٹ پر چڑھ کر جنگلی بلی کی طرح اس پر جھپٹی اور اس کے بالوں کو پکڑ لیا
*#جاری_ہے*

No comments: