میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 6
#فریحہ_چــــودھـــری ✍
#قسط_6
نواب سجاد درانی کا شمار ملک کے بڑے جاگیرداروں میں ہوتا تھا ان کے تین بیٹے تھے حیات درانی, مجیب درانی اور سکندر درانی شدید ترین خواہش کے باوجود اللہ نے انہیں بیٹی جیسی نعمت سے محروم رکھا تھا مگر اس وقت ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا جب ان کے چھوٹے اور لاڈلے بھائی کے ہاں صبوحی نے جنم لیا نواب ریحان کی تین اولادیں تھیں بیٹا وقار درانی اور دو بیٹیاں صبوحی ریحان اور ندرت ریحان
نواب سجاد نے ندرت کی پیدائش کے بعد صبوحی کو گود لے لیا تھا ریحان صاحب بھی اپنے بڑے بھائی کی اس دیرینہ خواہش سے باخبر تھے خوش دلی سے ان کی خواہش کا خیر مقدم کیا اور یوں دو سالہ صبوحی چھ سالہ سکندر درانی کی انگھوٹی پہنے ماریہ سجاد کی گود میں آگئی ایک ہی گھر میں ہونے کی وجہ سے بیگم فضہ ریحان کو بھی کوئی مسئلہ نہ تھا
وقت پر لگا کر اڑنے لگا سب بچپن کی حدود سے نکل کر جوانی میں داخل ہو رہے تھے اس وقت نے بہت کچھ بدل دیا تھا مگر نواب ولا کی محبتوں میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا ریحان صاحب دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے تھےان کی وفات کی بعد فضہ بیگم بھی بیمار رہنے لگیں حیات اور مجیب کی شادیاں ہو چکی تھیں
حیات صاحب کے دو بیٹے تھے مقیت اور مغیث جبکہ مجیب صاحب کا ایک ہی بیٹا تھا گوہر درانی
صبوحی لاڈلی ہونے کی وجہ سے بے حد شرارتی اور منہ پھٹ تھی سجاد صاحب کے لاڈ پیار نے اسے اچھا خاصہ بگاڑ دیا تھا سکندر پڑھائی کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم تھا صبوحی فورتھ ائیر میں تھی جب گھر میں شادی کے ہنگامے گونج اٹھے وقار کے لیے فضہ بیگم نے اپنی بھانجی ماہین کو پسند کیا تھا جبکہ ماہین کے ہی بھائی ہاشم منظور سے ہی ندرت کا رشتہ طے پایا تھا فضہ بیگم کی خواہش پر شادی کی ڈیٹ جلدی فکس کر لی گئی تھی سکندر بھی اپنے دوست فیضی کے ہمراہ پاکستان آیا تھا سب بہت خوش تھے قیامت تو تب آئی جب فضہ بیگم کے اسرار اور موقع محل کی مناسبت سے سجاد صاحب نے سکندر سے صبوحی اور اس کے نکاح کی بات کی وہ تو ہتھے سے ہی اکھڑگیا اس نے دو ٹوک انداز میں نہ صرف انکار کر دیا بلکہ یہ بھی باور کروا دیا کہ وہ کسی اور کو پسند کرتا ہے اور اسی سے شادی کرے گا سجاد صاحب کی لاکھ منتوں پر بھی جب وہ نہ مانا تو طیش میں انہوں نے ندرت کی بجاۓ صبوحی کو ہاشم کے ہمراہ رخصت کرنے کا فیصلہ سنا دیا سب دم بخود رہ گۓ لیکن انکار کی جرت کسی میں نہ تھی بچپن سے سکندر کے سپنے دیکھنے والی صبوحی کو اس کے انکار نے اندر تک ہلا کر رکھ دیا ندرت تو پہلے ہی صبوحی سے حسد کا شکار تھی ہاشم کو اس کا ہوتا دیکھ کر اندر ہی اندر سلگنے لگی ہر کوئی گم صم اور غمزدہ تھا ایک قیامت آچکی تھی اور ایک آنے والی تھی
☆☆ ☆☆☆☆☆☆
وہ تیار ہو کر نیچے آیا تو جازم اور بی اماں کو باتیں کرتا ریکھ کر وہیں چلا آیا
"السلام علیکم کیا باتیں ہو رہی ہیں ؟؟اور تم آج گھر پر کیسے ؟؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا "اس نے سارے سوال ایک ہی سانس میں کر ڈالے
"جی بھیا وہ آج سنڈے جو ہے "وہ کھسیا کر بولا
"اچھا تمہارا سنڈے بھی ہوتا ہے.... سٹرینج "جہانگیر کے طنز پر وہ ڈھٹائی سے ہنساـ
"ویسے آپ یہ اتنا تیار شیار ہو کر کدھر جا رہے ہیں " اس نے نک سک تیار خوشبوئیں بکھیرتے جہانگیر کو معنی خیز نظروں سے دیکھا "خیریت ہے نا "وہ آنکھ دبا کر بولا
"بی اماں نظر رکھیں ذرا کہیں ہاتھ سے ہی نہ نکل جائیں معصوم سے تو ہیں کسی لڑکی نے پٹا لیا تو ـ ـ ـ آہ
"جہانگیر کے دھموکہ جڑنے پر اس نے بات ادھوری چھوڑ دی مگر چہرے پر ہنوز شرارت رقم تھی "میرا مطلب ہے لڑکیاں جادو ٹونا بھی تو کر لیتی ہیں نا "اس کی گھوریوں کی پرواہ کیے بغیر اس نے وضاحت کرنا ضروری سمجھا جہانگیر ہنستا ہوا اس کے ساتھ بیٹھ گیا
"اور تمہاری کل کی فرینڈ بلکہ گرل فرینڈ اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟؟"جہانگیر نے اسے شرم دلانا چاہی
"اوہ بھیا وہ تو آپ کو دیکھتے ہی لٹو ہو گئی تھی مجھے تو تب ہی پتہ لگ گیا تھاـ بی اماں آپ کو پتہ نا وہ بار بار بھیا کا پوچھ رہی تھی "اس نے بی اماں کو بھی گھسیٹا جو مسکرا کر دونوں کو دیکھ رہی تھی
"ارے بھیا اتنی اچھی لڑکی آپ کو نہیں ملے گی آپ میری ٹینشن نہ لیں میرا دل بہت بڑا ہے میں اسے بھابھی کے روپ میں قبول کر سکتا ہوں "اس کی زبان فراٹے بھر رہی تھی
"اور ایک مزے کی بات بتاؤں اس کے ابو بھی شاہ ہیں زمان شاہ ،مطلب وہ بھی شاہ ہوئی نا ؟؟"جہانگیر چونکا اس کے مسکراتے لب سکڑگۓ چہرے کی رنگت متغیر ہونے لگی اپنے دھیان میں بولتا جازم محسوس ہی نہ کر سکا کہ اس کے بھائی کے چہرے پر کیسے ناقابل فہم تاثرات تھے وہ سختی سے لب بھینچے ہوئے تھا
"تو بھیا میں آپ کا نمبر دے دوں ؟؟ "جازم نے بچوں کی طرح اس سے لپٹ کر کہا
"ہاں دے دو "سختی سے کہہ کر اسکے ہاتھ ہٹاتا وہ اٹھ کھڑا ہوا
"اچھا بی جان میں گوہر کی طرف جا رہا ہوںشاید دیر ہو جاۓ کھانے پر میرا انتظار مت کئیجیے گا "مٹھیاں بھنچے سپاٹ چہرے کے ساتھ کہتا وہ باہر نکل گیا
"ارے بھیا کو کیا ہوا میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا اگر اتنے سڑے ہوئے طریقے سے فاریہ سے بات کریں گے تو وہ تو فوت ہی ہو جائے گی آپ کو پتہ ہے کتنی نازک مزاج اور نخریلی ہے توبہ توبہ"
اسنے دونوں کانوں کو باقاعدہ ہاتھ لگایا
" سچی بتاؤں تومیں تنگ آگیا ہوں بھیا کے ہتھے چڑھے گی نہ عقل ٹھکانے آجائے گی ویسے یہ بھیا نے حامی کیسے بھر لی نمبر دینے کی ؟؟" بولتے بولتے اسے جہانگیر اسے بالآخر کام کی بقت بھی یاد آ ہی گئی
"پتہ نہیں تم بتاؤ کچھ کھاؤ گے ؟؟"بی اماں کی بات نے اسے مزید سوچنے نہ دیا
☆☆☆☆☆☆☆☆
گاڑی کو فل سپیڈ میں دوڑاتا وہ اپنے ذہن کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہاتھا جو فقط ایک ہی نقطہ پر اٹکا ہوا تھا "فاریہ زمان ـ ـفاریہ زمان "گاڑی گوہر کے گھر سے تھوڑی ہی دور تھی اس نے سوچوں کو جھٹکتے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی اور گوہر کو کال ملا کر باہر اپنی موجودگی سے آگاہ کیا وہ مغیث اور گوہر کا یونیورسٹی فیلو تھا ان سے اچھی دوستی ہونے کے باوجود کبھی ان کے گھر جانے کا اتفاق نہیں ہواتھا تبھی ایک جھجھک سی محسوس ہو رہی تھی گوہر کو باہر آتا دیکھ کر وہ باہر نکل آیا اور پھر اس کے انکار کے باوجود گوہر اسے ڈرائنگ روم کی بجائے لاوٴنج میں ہی لے آیا جہاں سمعیہ بیگم کے علاوہ ماہی بیگم اور ادینہ بھی موجود تھی گوہر نے سب سے اس کا تعارف کروایا ادینہ کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر جو چمک اتری تھی وہ اسکی زیرک نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہ سکی وہ قصداً اسے نظرانداز کرتا سمعیہ بیگم کی طرف متوجہ ہوا انہوں نے اپنے مخصوص پر شفقت انداز میں ماتھا چوم کر دعادی ا
"آتے جاتے رہا کرو بیٹا اور یہ مغیث کو بھی سمجھاؤ دل پر ہی لے کر بیٹھ گیا ہے "سمعیہ بیگم نے نرمی سے کہا
"جی سمجھاؤں گا "اس نے مسکرا کر تابعداری کا مظاہرہ کیا
"بڑے بابا آئیے میں آپ کو اپنے پیارے دوست سے ملواؤں
" گوہر کی آواز پر وہ پلٹا تو نظر سامنے سیڑھیاں اترتے شخص سے ٹکرائی
"جہانگیر یہ مغیث کے بابا ہیں اور بابا یہ جہانگیر ہے میرا اور مغیث کا مشترکہ دوست " اس کے تعارف پر بڑے بابا مسکراۓ مگر جونہی نظر اسکے چہرے پر پڑی وہ چونک گۓ
"جہانگیر "وہ یک ٹک اس کے چہرے کو دیکھنے لگے جیسے اس کے چہرے میں کسی کو کھوج رہے ہوں
___________
جہاگیر سمیت سب نے ان کی محویت نوٹ کی
"بابا "گوہر کی آواز پر وہ بڑبڑاۓ
"آـ ـ ہاں کیسے ہو بیٹا "وہ سر جھٹک کر اس کا حال احوال پوچھنے لگے مگر نظریں ہنوز اس کے چہرے پر تھیں وہ پریشان ہوا
"میں ٹھیک ہوں انکل ـ ـ مغیث کہاں ہے نظر نہیں آرہا "انہیں جواب دے کر وہ گوہر سے پوچھنے لگا
"اوپر کمرے میں ہے بیٹا وہیں چلے جاؤ مل لو اس سے " سنجیدگی سے کہتے وہ اس کا شانہ تھپک کر باہر نکل گۓ گوہر اور جہانگیر کے جانے کے بعد ماہی بیگم نے صبوحی کو بلایا وہ کچن سے باہر نکل آئیں
"گوہر کا کوئی دوست آیا ہے اچھا سا انتظام کرو اس کے لیے.... کوئی کمی نہیں آنی چاہئے "حکم صادر کرتی وہ ادینہ کے کمرے کی طرف چل دیں
☆☆☆☆☆☆☆
"مما کتنا اچھا لڑکا تھا نہ "ماہی بیگم کو دیکھ کر ادینہ خوشی سے چلائی " اففف کیا پرسنالٹی ہے '
"ہاں اچھا تو ہے "وہ کچھ سوچتے ہوۓ بولیں
" بس مما ڈیسائیڈ ہو گیا میرا لائف پاٹنر جہانگیر ہی بنے گا "وہ اپنے طور پر سب سوچ چکی تھی ماہی نے حیرانی سے بیٹی کو دیکھا
"دماغ ٹھیک ہے تمہارا جہانگیر کی مرضی کے بغیر کیسے ہو گا یہ سب ؟؟"
"افوہ مما اگر جہانگیر لاکھوں میں ایک ہے تو میں کون سا کم ہوں ؟ وہ مجھے ریجیکٹ کر ہی نہیں سکتا "وہ اترا کر کہتی جھپاک سے باہر نکل گئی ماہی بیگم اس کی بات میں الجھ گئیں
"کاش ایسا ہو جائے " انکے لبوں سے بے ساختہ دعا نکلی
☆☆☆☆☆☆☆
"یس کم ان "مغیث نے اونچی آواز میں کہا صبوحی بیگم ٹرالی لیے اندر داخل ہوئیں وہ تینوں صوفے پر براجمان تھے عون گوہر کی گود میں تھا
"تمہارا بیٹا بہت پیارا ہے "جہانگیر جھک کر اسے پیار کرتا ہوا بولا
"میرا بیٹا پیارا ہے لیکن تم نے میری پھوپھو نہیں دیکھیں وہ اس سے بھی ذیادہ پیاری ہیں "مغیث کھڑا ہوتا شرارت سے بولا صبوحی بیگم مبہم سا مسکرا دیں وہ اب صوفے کہ قریب پہنچ چکی تھیں جہانگیر بھی احتراماً کھڑا ہوا
"السلام علیکم پھوپھو "اس کے سلام پر انہوں نے ہولے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور دیکھتی رہ گئیں مقابل کو دیکھتے ہی ان کے تاثرات بدلے تھے جواب کے لیے کھلے لب ہلنا بھول گۓ وہ منہ کھولے ساکت کھڑی تھیں خطرناک حد تک سفید پڑتی رنگت نے تینوں کو چونکا دیا
"پھوپھو کیا ہوا ؟؟"سب سے پہلے گوہر ان کی طرف بڑھا
"ش ـ ـ شاہو "ان کے لب ہولے سے پھڑپھڑاۓ
"نہیں نہیں "وہ آنکھیں بند کر کے زور زور سے نفی میں سر ہلانے لگیں
"پھوپھو یہ جہانگیر ہے میرا دوست "گوہر نے پریشانی سے انہیں بتایا وہ ایکدم چونک کر اس کا چہرہ دیکھنے لگیں
"یہ.... وہ ...کیسے ہو سکتا ہے "وہ خود سے کہنے لگیں
"کیا ہوا پھوپھو ؟؟"مغیث نے نرمی سے سوال کیا وہ "کچھ نہیں "کہتیں کمرے سے باہر نکل گئیں جہانگیر نے پریشانی سے دونوں کو دیکھا
"ان کی طبیعت ٹھیک نہیں شاید آؤ بیٹھو چاۓ پیو "مغیث نے اس کا بازو پکڑ کر بٹھایا مگر اس کا ذہن الجھ چکا تھا
☆☆☆☆☆☆
ہاشم بچپن سے صبوحی کو پسند کرتا تھا لہذا اس فیصلے پر اسے کوئی اعتراض نہ تھا وقار اور ماہین کا نکاح خوش اسلوبی سے انجام پا گیا تھا اگلے دن صبوحی اور ہاشم کی برات تھی سب کچھ قابل اطمینان تھا قیامت تو تب ٹوٹی جب حوش و خرد سے بیگانہ صبوحی کو ڈاکٹر کو دکھایا گیا اس کے الفاظ نے گویا قہر برپا کر دیا تھا فضہ بیگم پورے قد سمیت زمین بوس ہوئیں پورے خاندان میں یہ بات آگ کی طرح پھیل گئی اور بات پھیلانے میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی بھی اس کی ماں جائی ندرت تھی ہاشم تک بات پہنچی تو اس نے شادی سے صاف انکار کر دیا لہذا صبوحی کی جگہ ندرت کو ہاشم کے سنگ رخصت کر دیا گیا اس دن نواب ولا کی عزت کے ساتھ ساتھ فضہ بیگم کا جنازہ بھی اٹھا تھا صبوحی گم صم تھی
ماریہ بیگم کی منت سماجت خاندان بھر کی لعنتیں اور وقار کی بے تحاشہ مار بھی اس کی زبان نہ کھلوا پائی تھی وہ اندر ہی اندر مر رہی تھی سجاد صاحب اس کی حالت پر ڈھے گۓ عزیز از جان بیٹی کی یہ حالت انہیں سکندر کے سامنے ہاتھ جوڑنے پر مجبور کر گئی تھی اور پھر سکندر کی روانی سے دو روز قبل صبوحی کا نکاح سکندر سے کر دیا گیا اس شرط پر کہ وہ زندگی بھر اس کی شکل دوبارہ نہیں دیکھے گا ایسی شرط جس کی سزا اسے ساری عمر کے لیے بھگتنی تھی جس دن صبوحی کے ہاں بیٹی نے جنم لیا اسی دن سجاد صاحب اسے اس دنیا میں تنہا چھوڑ گۓ آخری سائبان سے بھی وہ محروم ہو گئی تھی اپنے موجودہ حالات ماہین کے طنز بھائی کی نفرت انگیز نگاہوں سے خوفزدہ ہوکر اسنے نوائم کو کبھی کمرے سے باہر کی دنیا نہیں دکھائی بیس20 سالوں سے وہ ایک بے حد چھوٹے سے کمرے میں مقید تھی باہر کی دنیا سے بالکل انجان وہ اپنے باپ کے کیے کی سزا کاٹ رہی تھی اس آس پر جس دن اس کا شہزادہ آۓ گا اور اسے
اس قید سے رہائی دلا کر لے جائے گا
گـــیلے کاغــذ کی طــــرح ہــــےزنــــــدگی
کـــوئی جـــلاتا بھـــی نہـــیں کـــوئی بہاتا بھی نہیں
اس قـــــدر اکیــــلے ہـــــیں دل کـــی راہـــوں مـــیں
کـــوئی ســـتاتا بھـــی نہیـــں کوئی مناتا بھی نہیں
☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ مضطرب سا کمرے میں ادھر ادھر ٹہل رہاتھاـسوچوں کے گرداب میں پھنسا وہ الجھی ڈوروں کو سلجھانے میں مصروف تھا مگر کوئی سرا ہاتھ نہ آرہا تھا مغیث کے بابا اور صبوحی کے ری ایکشن نے اسے اچھا خاصہ پریشان کر دیا تھا وہ جتنا سوچتا الجھتا چلا جاتا تھک ہار کر اس نے بیڈ کی پشت سے سر ٹکا دیا اور آنکھیں موند لیں
"جوجو بیٹا آپ بہت سمجھ دار ہیں میں یہ آپ کودے رہا ہوں اس کو ہمیشہ سنبھال کر رکھنا
ا س کے ذہن میں آواز گونجنے لگی اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں وہ تیزی سے وارڈ روب کی طرف بڑھا لاک کھول کر ایک پرانی ڈائری نکالی ڈائری کے کورے کاغذ پلٹتا وہ ایک جگہ رکا وہ ایک بوسیدہ تہہ شدہ کاغذ تھا جس پر ایک ہی تحریر تھی
"یہ آپ کے پاس میری امانت ہے جسے آج نہیں تو کل میں ضرور لے جاؤں گا یہ میرا وعدہ ہے
اس نے انگلیوں کی پوروں سے لفظوں کو چھوا جیسے لکھنے والے کا لمس محسوس کر رہا ہو بے اختیار ہی دو آنسو ٹوٹ کر کاغذ پر گرے
مـــیں زنـــدگی کے ســـاتھ نـــبھاتا چـــلا گـــیا
ہر فکـــر کـــو دھویـــں مـــیں اڑاتا چـــلا گـــیا
بــربادیوں کـــے ســـوگ منـــانا فـ ضول تــــھا
بربادیـــوں کا جـــــشن مناتــا چـــلا گیـــــا
جــو مل گـــیا اســـی کـــو مـــقدر سمـــجھ لیـــا
جـــو کـــھو گۓ اس کو بھـــلا تا چـــلا گیـــا
غـــم اور خـــوشی مــیں فـــرق نــہ محسوس ہو جہاں
میـــں دل کو اس مــــقام پـــر لاتـــا چـــلا گیا۔
*#جاری_ہے*

No comments: