میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 5
#فریحہ_چــــودھـــری ✍
#قسط_5
"ہاۓ بی جان "وہ مسکرا کر کہتی ان کے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی
"آؤ آؤ کب سے انتظار کر رہی ہوں تم دونوں کا چاۓ ٹھنڈی ہو رہی ہے " انہوں نے میز کی طرف اشارہ کر کے کہا جہاں چاۓ کے ساتھ مختلف لوازمات بھی تھے مگر وہ تو لفظ دونوں پر ہی اٹک کر رہ گئی
"ارے جہانگیر کی بات کر رہی ہوں بلوایا ہے اسے میں نے بس آتا ہی ہو گا "وہ شاید اس کی الجھن سمجھ گئی تھیں تبھی مسکرا کر وضاحت کی
"اوہ "اس دشمنِ جان کے ذکر پر وہ کھل اٹھی تھی دل خوشگوار انداز میں دھڑکنے لگا نظر سامنے سے آتے جہانگیر پر پڑی گھریلو سے حلیے میں بھی وہ غضب ڈھا رہا تھا اس دن کی تلخ کلامی کے بعد وہ دل ہی دل میں اس سے ناراض تھی اسے امید تھی کہ وہ اسے مناۓ گا مگر ـ ـ ـ ـ
"السلام علیکم "اونچی آواز میں سلام کہتے ہوۓ اس نے جھک کر بی جان کے سر پر بوسہ دیا
"کب سے انتظار کر رہی ہوں کبھی تو دو گھڑی بیٹھ جایا کرو میرے پاس " انہوں نے خفگی سے شکایت کی وہ مسکراتا ہوا ان کے مقابل بیٹھ گیا اس کے مسکرانے سے اس کے ڈمپل بھی مسکرانے لگے تھے وہ جب سے آئی تھی آج پہلی بار اسے مسکراتا دیکھا تھا جانے یہ اتنا کم کیوں مسکراتا ہے "وہ دل ہی دل میں سوچتی اس کے خیالوں میں مکمل طور پر گم تھی چونکی تو تب جب بی جان نے اسکا بازو ہلایا
"ارے کہاں کھو گئی چاۓبناؤ " وہ اپنی جگہ چور سی ہو گئی
" جی بی جان "
"یہ جازم کہاں ہے آیا نہیں کیا ؟؟" اس کی سنجیدہ سی آواز ابھری
"آجاۓ گا تم بتاؤ کیا مصروفیت ہے آج کل ؟؟" انہوں نے بڑی مہارت سے اسکا دھیان بٹایا
"کل کچھ خاص نہیں کل سنڈے ہے نا ایک دوست کی طرف جانا ہے "
"کون سے دوست کی طرف "بی جان نے چشمہ درست کرتے ہوۓ پوچھا
"گوہر کی طرف جانا ہے مغیث سے بھی مل لوں گا کافی عرصہ ہو گیا اس سے ملے " وہ کرسی سے پشت ٹکا کر بولا
"اچھی بات ہے انہیں بھی بلاو نا کسی دن گھر پہلے تو بی جان بی جان کہتے تھے اب تو کبھی خیال بھی نہیں آیا " ان کے سادگی سے کہنے پر وہ دھیرے سے مسکرایا
نور نے کپ اسکی طرف بڑھاتے ہوۓ دیکھا ایک لمحے کو دونوں کی نظریں ملیں تھیں وہ فوراً ہی نظروں کا رخ پھیر گیا
"میں آپ کی شکایت من و عن انکے خوش گزار کر دوں گا "وہ شرارت سے بولا بی جان ہنس دیں
"خوش رہو جیتے رہو " ہارن کی آواز پر انہوں نے جہانگیر کو دیکھا
"لگتا ہے جازم آگیا اب ڈانٹنے مت لگ جانا آتے ہی آرام سے پیار سے سمجھانا "
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"لیجیے جناب آپ کا گھر آگیا " وہ گاڑی اس کے گھر کے سامنے روکتے ہوۓ بولی
"تھینکس میری جان "وہ مسکرا کر بولا
"کس لیے "
"ڈراپ کرنے کے لیے "
"دوبارہ مت کہنا "اس نے گھور کر کہا وہ ہنس دیا
"ہاہا اوکے "
"اندر نہیں بلاو گے ؟ " اس کے پوچھنے پر وہ سوچ میں پڑ گیا گھڑی پر ٹائم دیکھا چھ بج رہے تھے
" کیا ہوا اتنا کس لیے سوچ رہے ہو ؟"وہ اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر بولی "اینی پروبلم ؟؟"
"ارے نہیں میں تو سوچ رہا تھا بھیا گھر پر ہوں گے اگر انہوں نے تمہیں دیکھ لیا تو میری شامت آجاۓ گی ہو سکتا ہے تمہارا بھی لحاظ نہ کریں "
"اتنا ڈرتے ہو تم اپنے بھائی سے "اس نے ماتھے پر بل ڈال کر حیرت سے پوچھا
"ارے نہیں ڈرتا نہیں ہوں ویسے بھی وہ آٹھ بجے آتے ہیں ابھی نہیں آۓ ہوں گے چلو میں تمہیں بی جان سے ملواتا ہوں بہت اچھی ہیں میری بی جان "وہ دروازہ کھولتے ہوۓ بولا بی جان کے لیے اسکے لہجے میں محبت ہی محبت تھی
"اچھا اور تم نے یونیورسٹی جوائن کرنے کی بھی بات کرنی ہے نا "فاریہ نے یاددہانی کرائی
"ارے ہاں بھﺉ کر لوں گا تم آؤ تو سہی "وہ دونوں باہر نکل آۓ جازم نے اس کے حلیے پر نظر دوڑائی وہ اس وقت بلیک جینز اور پرپل سلیولیس ٹاپ پہنے ہوۓ تھی
"اب کیا ہے "اسے یوں دہلیز پر کھڑا دیکھ کر وہ چڑی
"تمہارے پاس کوئی دوپٹہ نہیں ہے ؟" جازم کے سوال پر اسے جھٹکا لگا
"واٹ..... دوپٹہ "
"ہاں آئی مین.... وہ جو لڑکیاں لیتی ہیں... کپڑے کا ....اتنا بڑا "اس نے وضاحت کے ساتھ ہاتھ پھیلا کر دوپٹہ کا نقشہ بھی کھینچ دکھایا
"مجھے پتہ ہے لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو "فاریہ اکتائی
"بی جان تمہیں اس حال میں دیکھ کر ـ ـ " وہ سر کھجانے لگا "چلو خیر کوئی بات نہیں آؤ تم " اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اندر کی طرف بڑھا وسیع و عریض لان عبور کر کے وہ جونہی لاوٴنج کے دروازے پر پہنچا اس کے قدموں کو بریک لگ گیا جازم نے فوراً اس کا ہاتھ چھوڑا اور دروازے کی اوٹ میں ہو گیا فاریہ نے تعجب سے اسے دیکھا
"کیا ہوا؟"
"سامنے بھیا ہیں آہستہ بولو "وہ آنکھیں نکال کر بولا
"ارے تم اتنا ڈرتے ہو امیزنگ "وہ ہنسنے لگی آواز اتنی ضرور تھی کہ سامنے بیٹھے شخص کو گردن موڑ کر دیکھنےپر مجبور کر گئی
اسی لمحے فاریہ نے بھی اسے دیکھا نظروں کے تصادم پر مقابل کی آنکھوں میں حیرت اتری وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی ہوش میں تو تب آئی جب بی جان اُٹھ کر اسکے قریب پہنچ گئیں
"بیٹا آپ کون ہیں اور یہاں کیوں کھڑی ہیں ؟؟"ان کے لہجے میں نرمی کے ساتھ ساتھ تشویش بھی تھی وہ نا چاہتے ہوئے بھی جھجھک گئی جازم نے دیوار کے پیچھے سے سر نکال کر بی جان کو دیکھا
"بی جان یہ میری گرل فرینڈ ہے آپ سے ملنے آئی ہے مگر وہ بھیا کو دیکھ کر ڈر گئی ہے " وہ سرگوشی کے انداز میں بول رہا تھا آخری بات پر فاریہ نے اسے گھورا
"ارے کچھ نہیں کہتا بیٹا آؤ آؤ اندر آؤ "بی جان مسکرا کر پیار سے کہتیں اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گئیں جازم بھی ہمت کر کہ ان کے پیچھے ہی چلا آیا
"ارے بھئی جہانگیر یہ جازم کی دوست ہے تمہیں دیکھ کر جھجھک گئی تھی بچی "بی جان کی تفصیل پر اس نے ابرو اچکا کر اس حیادار بچی کے حلیے پر تنقیدی نگاہ ڈالی اس کے ماتھے پڑ بل پڑ گۓ جو کسی اور کو تو محسوس ہوئے تھے یا نہیں لیکن جازم کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکے اس نے فوراً سب سے نظر بچا کر کان پکڑ کر دکھاۓ جو اشارہ تھا خفیہ معذرت کا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا
وہ جتنی دیر بیٹھا رہا فاریہ کی والہانہ نظروں کا مرکز بنا رہا غصے کو دباتا وہ فوراً اٹھ کھڑاہوا اور پھر بی جان کے لاکھ روکنے پر بھی نہ رکا تھا
* * * * * * * * * *
رونـــے کـــی ســزا ہـے نہ رلانــــے کـــی ســـزا ہـــے
یـہ دردِ محبـــت کو نبـــھانے کـــی ســـزا ہـــــــے
ہنســـتے ہیـــں تــو آنـکھ ســے نکل آتـــے ہیں آنســــو
یہ اک شخــــص کو بـــے انتـــہا چاہنــــے کـــی سزا ہـــے
وہ کمرے میں داخل ہوا تو کمرے میں گھپ اندھیرا تھا گوہر نےآگے بڑھ کر لائٹس آن کیں کمرہ روشنیوں میں نہا گیا کمرے کی حالت ابتر تھی اس کی نظروں نے فوراً اس وجود کو تلاشنا چاہا جس کی حالت شاید نہیں یقیناً کمرے سے بھی ابتر ہونا تھی وہ اسے کارپٹ پر ہی بیٹھا دکھائی دے گیا سر گھٹنوں میں دیئے وہ شاید رو رہا تھا وہ کچھ اندازہ نہ لگا پایا وہ چلتا ہوا اس تک آیا
"مغیث "اس نے پکارا جواب ندارد وہ اس کے پاس ہی دو زانو بیٹھ گیا "مغیث "گوہر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے بلایا
"ہوں "مغیث نے چونک کر سر اٹھایا جیسے کسی گہرے خیال سے جاگا ہو بکھرے بال زردیاں چھلکاتی رنگت سرخ آنکھیں گوہر کو اس لمحے نور جہاں سے سخت نفرت محسوس ہوئی
"یہ کیا حال بنایا ہوا ہے تم نے " گوہر نے اس کے بال سمیٹ کر نرمی سے پوچھا
"میں اس قابل ہی ہوں گوہر ایک لڑکی کی خاطر میں نے اپنی ماں باپ کے ساتھ بد تمیزی کی ان سے ضد باندھی بابا جان بالکل ٹھیک کہتے تھے بالکل ٹھیک کہتے تھے بابا جان "مہربان شانہ پاتے ہی اسکا ضبط ٹوٹ گیا گوہر نے اسے گلے لگا لیا
"میں یہ نہیں کہوں گا کہ جو ہوا اسے بھول جاؤ میں جانتا ہوں وہ سب بھلانا تمہارے لیے بہت مشکل ہے لیکن وہ سب یاد رکھنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں جو یادیں تکلیف دیتی ہوں انہیں دفن کر دینا چاہئے آگے بڑھو تمہارے سامنے پوری زندگی پڑی ہے زندگی کو نئے سرے سے جیو اپنے لیے مما بابا کے لیے اور سب سے بڑھ کر عون کے لیے " گوہر نے اسے رسان سے سمجھایا
"عون ـ ـ عون کہاں ہے ؟"
"وہ مما کے پاس ہے "اس کے بتانے پر اس نے سر ہلا دیا
"میرا خیال ہے تمہیں بابا کے ساتھ آفس جانا چاہئے " مغیث نے اسے اچنبھے سے دیکھا پھر گہری سانس بھرتا سیدھا ہو بیٹھا
"بابا تو ناراض ہیں مجھ سے "اسے پھر اپنا خسارہ یاد آیا
"تو انہیںں منانا کون سا مشکل کام ہے آفس جوائن کر لو دیکھنا کتنا خوش ہوں گے اور تمہیں پتا کل جہا نگیر بھی آرہا ہے تم سے ملنے "گوہر نے اسے خوش کرنا چاہا
"تو کیا تم نے اسے ـ ـ ـ "
"ہاں میں نے اسے سب بتا دیا تو کیا تم چھپانا چاہتے تھے؟؟"
"ارےنہیں اس سے کیا چھپانا لیکن دیکھنا ملتے ہی اپنا لیکچر شروع کر دے گا " وہ ہنسکر بولا اس کا دھیان بٹ چکا تھا وہ اب گوہر سے گزرے دنوں کی باتیں کر رہا تھا گوہر نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا ۔
*#جاری_ہے*

No comments: