
میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 4
میرے_ہم_نفس_میـرے_ہـمنوا
فریحہ_چــــودھـــری ✍
#میرے_ہـم_نفس_میرے_ہمنوا
#فریحہ_چــــودھـــری ✍
#قسط_4
مــــلّت کے ســاتھ رابطـــہ استــوار رکــھ
پیوستـــہ رہ شـــجر سے امـــیدِ بہـــار رکھ
پاکستان اس لحاظ سے دنیا کا منفرد ملک ہے کہ اس کا قیام دنیا کی عام روش سے ہٹ کر ایک نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا... دو قومی نظریہ کی بنیاد پرــ مسلم قومیت کے نظریے پرــ
جہاں اس مطالبے کو دنیا سے منوانے کے لیے انتھک جدوجہد کرنے کی ضرورت تھی وہاں اس سے ذیادہ ضرورت اس بات کی تھی کہ جب مسلمانوں کو ایک آزاد مملکت ملے تو اس کی تعمیر اس انداز میں کی جائے کہ اس کی ایک ایک اینٹ میں مسلم قومیت کا نظریہ رچہ بسا ہو .....
لیکن افسوس ایمان کی حرارت والوں نے پہلا مرحلہ تو بڑے جوش وخروش کے ساتھ طے کر لیا لکن جب اس کی تعمیروترقی کا مرحلہ آیا تو یہ فراموش کر بیٹھے کہ ہم کہاں سے چلے تھے ...؟ کیوں چلے تھے.. ؟ اور اس ملک کے قیام کا اصل مقصد کیا تھا ؟ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم قومیت کا نظریہ محض ایک ہوائی نعرہ ثابت ہوا جسے صرف بے انصافیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ورنہ عمل کی دنیا میں اس کے تقاضوں کو قدم قدم پر کچلا گیا زبان سے ہی کہا جاتا کہ یہ ملک مسلمانوں کی بقا کے لیے ہے لیکن عملی طور پر اسلام کی ایک ایک قدر کو مٹا دیا گیا رفتہ رفتہ وطنیت کا تصور غالب آتا گیا اور آخر اس نے ملک کا سب سے زیادہ حصہ کاٹ کھایا
اگرچـــہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر تو نگری سے نہیں
اگر جواں ہو میری قوم کے جسمورغیور
قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں
سبب کچھ اور ہے تو بس خود کو سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر جہاں میں میرا جوہر آشکار ہوتا
قلندری سے ہواہے تو نگری سے نہیں
کیسی پیشن گوئیاں تھیں جو اس مردِ حُر نے سالوں پہلے اپنے الفاظوں میں اقوامِ عالم کے سامنے کھول دی تھیں ان کی ہر غزل ہر نظم اور ہر شعر اپنے اندرگہرے سمندر چھپاۓ ہوئے ہیں سالوں پہلے وہ جانتے تھے کہ مسلمان اپنی کاہلی ، بزدلی اور نا عاقبت اندیشی کے سبب ذلت ورسوائی کا شکار ہونے والے ہیں ساری دنیا میں دہشت پھیلانے والے انگریز مسلم ممالک کے سالاروں کو اپنے جال میں پھنسا کر معصوم ایشیائی مسلمانوں پر کیسے قہر توڑنے والے ہیں
دنیا میں 196 ممالک میں سے 58 مسلم ممالک ہیں چھ ارب کے قریب انسانوں میں سے ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں دنیا کے معدنی ذخائر میں سے 75 فیصد کے مالک مسلمان ہیں سب سے اچھامحل وقوع مسلمانوں کا ہے محنتی کسان ہیں جان کی بازی لگانے والے فوجی ہیں اعلیٰ دفاع باصلاحیت افراد موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر بہترین مذہب ہے سب کچھ ہے ہمارے پاس نہیں ہے تو نڈر اور بہادر قیادت
افغانستان, عراق ,شام ,لیبیا اور دیگر اسلامی ممالک میں کیا ہوا ؟؟
چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو یوں بے دردی سے مارا گیا کہ انسانیت بلبلا اُٹھے صدیوں پہلے جو فرعون نے کیا تھا وہ آج امریکہ کر رہا ہے چن چن کے مسلمانوں کر موت کے گھاٹ اتار رہا ہے
عیسائی اور یہودی نہایت بے رحمی سے مارنا چاہتے ہیں تو صرف مسلمانوں آخر کیوں؟؟
بھاری رقوم خرچ کر کے اگر خریدا جا رہا ہے تو صرف عربی کے غلاموں کو آخر کیوں ؟؟؟
دنیا کے ہر ملک ہر خطے میں اگر قتل عام کر کے نسل کشی کی جا رہی ہے تو صرف مسلمانوں کی آخر کیوں ؟؟ کیا ہے کسی کے پاس اس کیوں کا جواب ؟ یہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے مسلم حکمران کیا دے سکتے ہیں اس کیوں کا جواب ؟؟
ساری دنیا میں مسلمان مر رہے ہیں مگر دنیا کے سکوت میں کوئی فرق نہیں پڑ رہا اگر کسی مسلم کے ہاتھوں کسی غیر مسلم کی موت ہو جاتی ہے تو ہمارے ہاں بھونچال آجاتا ہے ہمارے نام نہاد مسلم حکمران خود پکڑ پکڑ کر بے گناہ شہریوں کو ان کے حوالے کرتے ہیں ہم ایسے دور میں پیدا ہوۓ ہیں جہاں ہمارے حکمران خود ہم ہمارے لیے ہی ہی عذاب ہیں کوئی نہیں جو حقوق کی بات کرۓ کوئی نہیں جو کسی بے گناہ کے خون کا حساب لے کوئی نہیں جو ان ظالموں کا گریبان پکڑ کر انسانیت کی تذلیک کا حساب لے سکے
دامن دین سے چھوٹا تو جمعیت بھی گئی
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
ہم اخلا قی پسماندگی میں گر چکے ہیں ایک اسلامی ملک میں غیر اسلامی روایات کو پروان چڑھا کر اللہ کے قہر کو آواز دے رہے ہیں ہم بھول رہے ہیں کہ حاکم اعلیٰ صرف اللہ ہے وہ چاہے تو سمندر کا سینہ کھول کر ایک پل میں سب کو غرقاب کر دے جس بد عملی کی ہمیں سزا ملی ہے اس میں دوسرے فسق و کے علاوہ ہماری یہ بدعملی بھی شامل ہے کہ ہم نے اپنے دشمن کے مقابلے کےلیے کما حقہ تیاری نہیں کی ستر سال کے عرصے میں ہمارے بچے بچے کو سپاہی بن جانا چاہئے تھا یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چائیے کہ اگر ہم سائنسی ترقی کے بام عروج پر پہنچ جائیں یہاں اسلحہ بم اور میزائل ہی نہیں ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بھی بنا لیں ہم اپنی فضائی اور بحری قوت کو آج سے دس گنا ذیادہ کر لیں لیکن اسلام کے دوسرے احکام کو خیرباد کہہ کر یہاں سے اعمال و اخلاق کا نام و نشان تک مٹا دیں تو پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں ذلت و شکست کا منہ ہی دیکھنا پڑے گا
ســتاروں ســے آگے جہــاں اور بھــی ہیــں
ابھــی عشــق کے امتحــان اور بــھی ہیــں
تــو شاہیــں ہــے پــرواز ہـــے کــام تـــیرا
تـــرے سامـــنے آسمــاں اور بھــی ہــــیں
"
ہال میں ایک سکوت سا طاری تھا اسکے ہلتے لب جونہی خاموش ہوۓ ہال تالیوں سے گونج اُٹھا وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی حرب کے ساتھ آبیٹھی اس سے بے خبر کہ فاریہ کے ساتھ بیٹھے وجود کی نظریں اس ہی پر جمی تھیں
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آخر یہ لڑکا چاہتا کیا ہے ؟؟" حیات صاحب پریشانی سے لاوٴنج میں چکر لگاتے ہوئے بولے وہ سمعیہ بیگم کی کال پر گھر پہنچے تھے اور سارا معاملہ جان کر ازحد پریشان ہو گۓ تھے انہوں نے مغیث سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے سختی سے ملازم کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ وہ ابھی کسی سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا
"وہ کہہ رہا تھا کہ اس کی ماں مر گئی "چھوٹی چچی نے پہلی بار لب کشائی کی
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟"وہ الجھ گۓ اسی لمحے گوہر تیز تیز قدم اٹھاتا لاوٴنج میں داخل ہوا وہ کوئی ضروری فائل لینے آیا تھا لیکن بڑے بابا کو اس وقت گھر پر دیکھ کر وہیں رک گیا
"کیا بات ہے بڑے بابا ؟ سب خیریت ہے نا ؟ "اس نے سب کے چہروں پر نظر ڈالتے ہوئے سوال کیا
"اس لڑکے کے ہوتے خیریت ہو سکتی ہے ہر روز نیا شوشہ آج عون کو لے آیا گھر "انہوں نے تلخ لہجے میں جواب دیا
"عون کو ؟ مگر وہ نور جہاں ؟"
"کہہ رہا تھا وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی " سمعیہ بیگم نے گود میں لیٹے عون کو دیکھتے ہوئے بتایا وہ کافی صحت مند اور خوبصورت بچہ تھا
"یقیناً اپنی ماں پر ہے " انہوں نے اسکے نقوش دیکھ کر دل ہی دل میں سوچا ملازم کی آواز پر ان کا ارتکاز ٹوٹا
"نواب صاحب باہر پولیس آئی ہے مغیث صاحب کو گرفتار کرنے ساتھ میں دو عورتیں بھی ہیں "
"کیا مغیث کو گرفتار کرنے "سمعیہ بیگم تڑپ کر اٹھی
"انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ ہم آتے ہیں " نواب صاحب پرسوچ انداز میں بولے
"گوہر مغیث کو بلاؤ اس لڑکے کی وجہ سے آج یہ دن بھی دیکھنا پڑ رہا ہے " غصے سے کہتے وہ باہر کی جانب بڑھے جب دو روتی دھوتی عورتیں وہیں آدھمکیں ان کے ساتھ انسپیکٹر بھی تھا
ایک کو تو وہ بخوبی پہچانتے تھے وہ بلاشبہ نور جہاں تھی چہرے پر جابجا نیل کے نشان بال بکھرے ہوئے ہونٹ پھٹ چکا تھا جس میں سے خون رس رہا تھا اسکی اتنی ابتر حالت کے باوجود وہ اسے پہچان چکے تھے
"کہاں ہے آپ کا بیٹا بلاؤ اسے دیکھو کیا حال کر دیا میری بیٹی کا بلاؤ اس خبیث کو "وہ شاید اس کی ماں تھی سرخ ساڑھی کھلے بال میک اپ سے مزین چہرہ حیات صاحب نے ناگواری سے اسے دیکھا
"انسپیکٹر صاحب کیا ہے یہ سب ؟؟؟" انہوں نے جواب دینے کی بجائے انسپیکٹر سے پوچھا
"ان عورتوں کا کہنا ہے کہ مغیث حیات درانی نے ان کی بیٹی نور جہاں پر بے تحاشا تشدد کیا ہے اور ان کا بیٹا اغواہ کر کے لے گیا ہے ہم اسی سلسلے میں آۓ ہیں "
"تم جانتے ہو کس کے گھر میں کھڑے ہو "حیات صاحب گرج کر بولے
"جی جناب میں تبھی ان محترماؤں کو لے کر یہاں آیا ہوں تاکہ آپ لوگوں کا گھریلو معاملہ یہیں ختم ہو جائے ان کا کہنا ہے کہ یہ مغیث درانی کی زوجہ ہیں "
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتے سیڑھیاں اترتا مغیث غصے سے نورجہاں کو دیکھ کر چلایا
"تم ـ ـ کیوں آئی ہو یہاں ؟؟دفعہ ہو جاؤ یہاں سے ـ ـ میرے گھر میں تمہارے جیسی غلاظت کی کوئی جگہ نہیں " سب دم بخود رہ گۓ کیا یہ وہی مغیث تھا جو نورجہاں کا دیوانہ ہوا کرتا تھا گوہر نے اسے بازو سے پکڑ کر آگے بڑھنے سے روکا
"تم شاید بھول رہے ہو بیوی ہوں میں تمہاری نام دیا ہے تم نے مجھے اپنا تمہارے بیٹے کی ماں ہوں میں اگر میں غلاظت ہوں تو تم بھی گندگی کا ڈھیر ہو "نورجہاں بھی بغیر لحاظ کے چیخی اس وقت وہ انتقام کی آگ میں اندھی ہو چکی تھی مغیث نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑوایا اور کھینچ کر ایک تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا
"بھول تھی میری جو بدنامِ زمانہ کو عزت کی چادر دینے کی کوشش کی تم جیسیوں کی فطرت نہیں بدل سکتی کوئی رشتہ نہیں تم سے میرا دفعہ ہو نکلو یہاں سے "
مغیث نے اسے دھکا دے کر باہر کی جانب دھکیلا اسکی ماں یکدم ہوش میں آئی
"اے لڑکے زبان سنبھال کے بات کر ـ ـ انسپیکٹر کھڑے کیا ہو گرفتار کرو اسے یہ مجرم ہے "انسپیکٹر نےبے بسی سے حیات صاحب کی طرف دیکھا حو لب بھینچے کھڑے تھے اسے چپ رہنے کا اشارہ کرتے وہ نورجہاں کی طرف پلٹے
"دیکھیں آپ لوگ جو بھی چاہتے ہیں ہمیں آرام سے بیٹھ کر بتائیں "انہوں نے حتی المقدور لہجے کو نرم رکھنے کی کوشش کی تھی مغیث نے گردن گھما کر انہیں دیکھا
"اتنی سستی نہیں ہے میری بیٹی کہ اتنی آسانی سے چھوڑ دوں گی معافی مانگے یہ سب کے سامنے نورجہاں سے "اس نے مغیث کی طرف اشارہ کیا "اور اسے اپنی بہو تسلیم کریں آپ لوگ بس اور ہم کچھ نہیں چاہتے "اس کی ماں نے بڑی اداکاری سے داؤ کھیلا جس پر مغیث مزید طیش میں آگیا
"جسٹ شٹ اپ لعنت بھیجتا ہوں میں تم پر اور تمہاری بیٹی پر کوئی رشتہ نہیں ہے میرا اسے میں اسے ابھی اسی وقت طلاق دیتا ہوں نکلو دفعہ ہو جاؤ یہاں سے "وہ چیختا چنگھاڑتا اسے دھکے دینے لگا گوہر نے بمشکل اسے پکڑ کر قابو کیا نورجہاں پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی
"دیکھ لوں گی تمہیں عدالت میں گھسیٹوں گی اچھا نہیں کیا تم نے "اس کی ماں اسے دھمکیاں دیتیں نورجہاں کا بازو کھینچتے نواب ولا کی دہلیز پار کر گئی مغیث سرخ چہرہ لیے پھر سے کمرہ نشین ہو گیا
☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ دونوں جونہی باہر نکلیں سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر ان کے قدم ٹھٹھکے وہ بہت سی لڑکیوں کے جھرمٹ میں دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا
"یہ یہاں کیا کر رہا ہے " غوزہ کے لہجے میں ناگواری تھی حرب بغیر اسکے لہجے پر دھیان دیے پر جوش انداز میں بولی
"ارے یہ تو وہی ہے تمہیں پتا اس دن اس نے فرسٹ پرائز جیتا تھا "
"اب اس سے سلام دعا کرنے نہ کھڑی ہو جانا آرام سے
چلو گھر "غوزہ نے سختی سے کہتے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ کھینچنے لگی جب بے دھیانی میں پلٹتے جازم کی نگاہ ان پر پڑگئی ایک دلکش مسکراہٹ اسکے لبوں پر آ ٹھہری
"اوہو "اس نے سیٹی کے انداز میں ہونٹ سیکڑ کر انہیں اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا غوزہ بغیر دھیان دئیے اسے نظر انداز کرتی سیڑھیوں کی طرف بڑھی وہ تیزی سے قدم اٹھاتا ان کے راستے میں حمائل ہو گیا ناچار انہیں رکنا پڑا
"ہیلو مس " اس نے اپنا ہاتھ غصے سے لال پیلی ہوتی غوزہ کی طرف بڑھایا وہ ایک تنفر بھری نگاہ اس پر ڈال کر رُخ پھیر گئی حرب نے سرعت سے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا
"ہاۓ ہاؤ آر یو ؟ یور وائس از سو بیوٹی فل ایم رئیلی امپریسڈ "حرب خوش دلی سے مسکرا کر بولی غوزہ نے گھور کر اسے دیکھا مگر اسے پرواہ کہاں تھی
"اوہ تھینکس "وہ سر کو ہلکا سا خم دے کر مسکرایا
"لیکن کچھ لوگوں کا خیال تو آپ سے بالکل مختلف ہے جیسے کہ آممممم میں بہت فضول گاتا ہوں ــــ اچھے بھلے گانے کا ستیاناس کر دیتا ہوں "وہ غوزہ کے سرخ چہرہ پر نگاہیں جما کر مزے سے بولا اس نے بمشکل لب بھینچ کر خود کو کچھ سخت سست کہنے سے روکا وہ سب کی موجودگی میں کوئی تماشہ نہیں چاہتی تھی تبھی خاموشی سے سائیڈ سے نکلنے لگی اس کا ارادہ جان کر وہ مزید پھیل کر کھڑا ہو گیا
"ہے مس چلی کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں آپکو مجھ سے کیا دشمنی ہے " اب وہ براہ راست اس سے مخاطب تھا جو غصے سے اسے گھور رہی تھی
"راستہ چھوڑو ہمارا مجھے کوئی شوق نہیں تمہارے منہ لگنے کا "اس کے درشتی سے چبا چبا کر کہنے پر وہ کھکھلا کر ہنس دیا
"انٹرسٹنگ ..... ویسے نام کیا ہے تمہارا؟" اس کی حالت سے حظ اٹھاتے وہ اسے مزید تپانے لگا غوزہ نے بڑی ہمت سے اسے دھکا دے کر سائیڈ پر کیا اور بغیر ارد گرد دیکھے نکلتی چلی گئی حرب بھی اس کے پیچھے ہی لپکی جازم ہنستےہوئے اسے جاتا دیکھنے لگا
"کون تھی یہ ؟"
"میری کلاس فیلو ہے غوزہ "فاریہ کے بتانے پر اس نے گردن ترچھی کر کے اسے دیکھاـ
"کافی ذہین ہے مگر لگتی پینڈو سی ہے " جازم چونکا
"ارے تم جیلس ہو رہی ہو ہاہاہا "وہ ہنسنے لگا "میں تو بس یونہی پوچھ رہا تھا تمہں کیا لگا ؟"
"مجھے لگا کہ شاید ـ ـ "فاریہ نے مشکوک نظروں سے اسے گھورا
"ارے نہیں ایسا ویسا کچھ نہیں ہے چلو آؤ تم سب کو لنچ کرواتا ہوں "وہ بات کا رخ بدل چکا تھامگر فاریہ کا ذہن اب بھی وہیں اٹکا تھا
☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ گھر پہنچی تو شام کے چھبج رہے تھے دروازہ زلیخا نے ہی کھولا
"اتنی دیر کیوں کر دی آج ؟"وہ تیوری چڑھا کر پوچھنے لگی
"ہاں جامعہ میں فنکشن تھا تو دیر ہو گئی پھر ٹیوشن پڑھانے چلی گئی "وہ چادر اتار کر بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی
"ایک گلاس پانی پلا دو آج تو بہت تھکن ہو گئی "
"نوکرانی نہیں ہوں تمہاری خود پی لو اٹھ کر... سارا دن کونسا ہل چلاتی رہی ہو "وہ بدتمیزی سے کہتی بیڈ پر لیٹ گئی ناچار اسے خود ہی اٹھنا پڑا
"کہاں سے دوں اتنے پیسے اسے قرض دوگنا ہو گیا ہے تو اتنا بھی نہیں کر سکتی میرے لیے کیسی عورت ہے تو احسان فراموش ساری عمر تیرے ہی تو نخرے اٹھائے ہیں "یہ اسکے باپ کی آواز تھی اس کے قدم دہلیز پر ہی جم گۓ
"یہ سب میرے لیے نہیں کیا تو نے ... جوۓ میں ہارا ہے ... تیرے شوق کی خاطر کیوں برباد کر دوں میں اپنی بیٹی ....تیری بھی تو جوان بیٹی ہے اسے بیچ دے اس سیٹھ کو "
اماں بھی جواباً تیز آواز میں بولیں حرب اس بات کا پسِ منظر بخوبی سمجھ چکی تھی
"بکواس بند کر "ابا دھاڑے ساتھ ہی تھپڑ کی آواز بھی گونجی وہ تڑپ کر ان کے کمرے کی طرف لپکی
"یہ کیا کر ہے ہیں آپ لوگ ؟؟"
"بس بہت ہو گیا ...بہت سمجھا لیا پیار سے... اب میں بھی دیکھتا ہوں کیسے نہیں مانتے تم لوگ... ایک ہفتہ.... ایک ہفتہ ہے صرف ...تیاری کر لے اپنی رخصتی کی "آخری بات براہ راست حرب کو کہی گئی تھی
"نہیں ہونے دوں گی میں ایسا... اپنے ہاتھوں سے ماردوں گی اِسے.... مگر ایک جواری کو اپنی بیٹی نہیں دوں گی "اماں رونے لگی تھیں وہ بغیر کچھ کہے سنے کمرے سے نکل گۓ
"اماں اماں چپ کر جائیں اماں طبیعت خراب ہو جائے گی "وہ ماں کے ہاتھ پکڑ کر انہیں چپ کروانے لگی
"نہیں ہونے دوں گی میں ایسا... تو بھاگ جا حرب چلی جا یہاں سے "وہ اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر بولیں ان کے لہجے میں اک آس تھی
"میں بھاگ جاؤں اماں مگر کہاں ؟"وہ نا سمجھی سے پوچھنے لگی
"کوئی کوئی تو ہو گا نا تیرے کالج میں کوئی ایسا ہو گا نا دیکھ مجھ سے نہ چھپا " اور مطلب جان کر وہ ساکت رہ گئی تھی
"نہ ـ ـ نہیں اماں ایس کوئی نہیں ہے "وہ بمشکل اتنا ہی بول پائی
"دیکھ حرب یہ بہت ظالم ہے یہ تجھے اس بڈھے کو بیچ دے گا تو چلی جا حرب دیکھ میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں "انہوں نے روتے ہوئے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے تھے
"اماں کہاں جاؤں میں کوئی بھی نہیں ہے اور اگر میں گھر سے چلی بھی گئی تو ابا آپ کو مار دیں گے میں نہیں جا سکتی "وہ ان کے ہاتھ چومنے لگی اپنی ماں کی گریہ وزاری اور اپنی بے بسی پر اسکا دل پھٹنے لگا تھا
" کیسی بد نصیب ماں ہوں میں کچھ بھی نہیں کر سکتی تیرے لیے... کاش... کاش میں نے وہ سب نہ کیا ہوتا ...
اے میرے مولا میرے گناہوں کی سزا میری بیٹی کو نہ دینا "وہ بلک بلک کر روتے اس کے گلے لگ گئیں ضبط کے باوجود حرب کی ہچکی بندھ گئی وہ رونا نہیں چاہتی تھی مگر رو پڑی تھی اسے اس حال میں دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی زندہ دل حرب فیضان ہے جو دوسروں کو خوش رہنے کے سبق پڑھایا کرتی ہے
دل میـــں تمـــناؤں کو دبـــانا سیکــھ گۓ
غــم آنکـــھوں میـں چھـــپانا سیـــکھ گۓ
میرے چہرے سے کہیں کوئی بات نہ ظاہر ہو جائے
دبا کر ہونـــٹوں کو ہـــم مســکرانا سیــکھ گــۓ
*#جاری_ہے*
No comments: