غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر58 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar
Ghazi
by
Abu Shuja Abu Waqar
غازی از ابو شجاع ابو وقار
پیشکش محمد ابراہیم
58قسط نمبر
Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar
Presented By Muhammad Ibraheim
Episode 58
لڑکی اپنا بیان ختم کر کے میری طرف ایسے دیکھ رہی تھی کہ آیا کہ مجھے اسکے بیان پر یقین آیا ہے کہ نہیں.ادھر میں خود کو ان سوالوں کے تیار کر رہا تھا. جو ہنوز تشنہ جواب تھے
میرے پاس وقت بھی بہت کم تھا اور مجھے یقیں تھا کہ اس بھارتی جاسوسہ کی حفاظت کے لیے ارد گرد لوگ ضرور موجود ہوں گے مجھے صورت حال اتنی گھمبیر ہونے اور بدلنے کا قطعاً کوئی احساس نہ تھا بھارت کی ایک مکمل تربیت یافتہ جاسوس لڑکی رسیوں میں جھکڑی میرے سامنے تھی اس نے اپنے متعلق جو انکشافات کیے تھے انکے مطابق یہ کوئی معمولی گروہ نہ تھا اگر خدانخواستہ یہ پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے تو بہت کچھ الٹ پلٹ سکتے تھے میری زندگی میں پہلا موقع تھا کہ کسی عورت جاسوسہ سے تفتیش کروں. مجھے مرد اور عورت کے درمیان جوایک فطری حد ہوتی ہے اسے بھی عبور نہیں کرنا تھا چونکہ اچانک اور غیر متوقع ایسا ہوا تھا. اس لیے اس لڑکی اور اس کے ساتھی جو اگر مل جائیں تو ان سے پوچھ گیچھ کے لیے کوئی سوال بھی ترتیب نہیں دے پایا تھا. اس لیے میں خود گھبرا رہا تھا ایک جیک پاٹ میرے سامنے تھی. جس کے حصول کے لیے مجھے نہایت مناسب پلاننگ کی ضرورت تھی. اس گروپ کا لیڈر اور دوسری جاسوسہ عورت ابھی تک میری پہنچ میں نہیں تھے. وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے میں نے ایک سوال نامہ ترتیب دیا اور مریم سے کہ ہمارے درمیان ٹیپ ریکارڈ نئی ریل لگا کر آن کر کے رکھ دے. مریم نے مجھے بتایا کہ اسکی یہ ٹیوٹر دوپہر 2 بجے کھانا کھا کر واپس جاتی ہے. میں نے وقت دیکھا تو میرے پاس دو گھنٹے اور چند منٹ باقی تھے. جس میں اس لڑکی سوال و جواب بھی کرنے تھے اور اس کے ساتھیوں تک بھی پہنچنا تھا. اگرچہ اس واقعہ کا 23 سال گزر چکے ہیں پھر بھی میں اس لڑکی سے میرے کیے گئے سوال اور ان کے جواب قارئین تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں.
س. ڈی ایم آئی ہیڈ کوارٹر کہاں واقع ہے
ج. نئ دہلی میں
س. تمہیں تربیت دینے والوں کے نام اور رینک کیا تھے.
ج صحیح نام تو وہ نہیں بتاتے بس کیپٹن کا اصل نام معلوم ہے کیپٹن ملہوترا.
س. یہاں تمہارے گروہ میں کتنے افراد ہیں. ان کے نام اور ایڈریس بتاؤ اسکا جواب دینے میں لڑکی جھجکی تو میں نے اشارہ کیا چینی دوست نے ایک ہاتھ سے اس کا کان پکڑا اور دوسرے ہاتھ استرا سیدھا کیا اور میرا دوسرا اشارہ ملنے پر اس نے اسکا کان کاٹ دینا تھا لڑکی چیخی بھگوان کے لیے میرا کان نہ کاٹنا میں بتاتی ہوں میری ساتھی عورت جسکا نام سعیدہ ہے اور اصل نام کوشلیا ہے کشمیری مسجد کے ساتھ ہی ایک کشمیری کے گھر میں رہتی ہے اور مرد ہنومان ڈھوکا کی ایک بلڈنگ میں رہتا ہے. وہاں ایک فلیٹ اسے بھارتی سفارت خانے نے لے کر دیا ہے. ہنو مان ڈھوکا میں وجے کمار بھی رہتا تھا میں نے جب اس فلیٹ کی تفصیل پوچھی تو معلوم ہوا کہ وجے کمار والا فلیٹ ہی اسے دیا گیا ہے.
س. تمہارا اصلی نام کیا ہے
ج. مالتی سکینہ
س. تمہارے مرد ساتھی کا اصل اور کور نام کیا ہے
ج. اصل نام تو چمن لالا ہے اور کور نام جمشید ہے
س. پاکستان میں تمہیں کیاکیا ٹارگٹ دیئے گئے تھے
ج. مجھے پاکستان میں ہائی کمان آفیسرز اور سول بیور سے پاکستان کے انتہائی خفیہ راز معلوم کرنے تھے
س. یہ تم کیسے کرتی.
ج ہمیں بتایا گیا تھا ان لوگوں تک میں اپنی جوانی حسن اور اعلی تعلیم اور تربیت کی وجہ سے پہنچ سکتی ہوں اور مطلوبہ معلومات حاصل کر سکتی ہوں.
س. تم ماتا ہاری کے متعلق کچھ جانتی ہو.
ج اس کے متعلق بہت کچھ پڑھا ہے اور فلمیں بھی دیکھی ہیں ہمیں ماتا ہاری کو اپنا آئڈیل مان کر کام کرنے کی تربیت دی گئی تھی.
س. ماتا ہاری کا انجام بھی جانتی ہو.
ج ہاں
س. لیکن یہاں تم اپنے ناک کان کٹ جانے کے خوف سے اپنی اصلیت اور سب کچھ بتا رہی ہو
جاہے سارے یا کچھ ہی ٹارگٹ پورے کرنے کے بعد مجھے مرنا ہوتا تو اور بات تھی مگر یہاں تو اڑنے سے پہلے ہی پکڑی گئی ہوں.
س. پاکستان میں کوئی خاص ٹارگٹ بھی تمہیں دیا گیا تھا.
ج. جی ہاں ( یہاں پر مالتی نے اس عہدے دار کا نام لیا تھا جو دونوں سیاسی پارٹیوں کا کرتا دھرتا تھا آج کل اسکی متعدد شادیاں اسکی پہچان بن چکی ہیں) مجھے بتایا گیا تھا کہ بہت آسانی سے اسے قابو میں لاسکتی ہوں. اس پر قابو پانے کا مطلب تھا کہ پاکستانی افواج اور سول بیوروکریسی میں میرے داخلے کے سارے دروازے کھل جاتے.
س. پاکستان پہنچ کر تم اپنی معلومات کیسے پاکستان فارورڈ کرتیں. کیا کوئی ٹرانسمیٹر ساتھ لاے ہو.
ج. مجھے اور کوشلیا کو اپنی معلومات اپنے گروپ لیڈر کو دینے کے آرڈر تھے وہ الیکٹرونکس کا ماہر ہے ٹرانسمیٹر بھی اس نے پاکستان جا کر بنانا تھا.
س. ٹرانسمیٹر کے علاوہ کوئی اور ذریعہ.
ج. مقررہ وقت پر بھارتی کورئیر کا گروپ بھی وقت پر ڈاک لانے اور لے جانے کا انتظام بھی تھا.
س. پاکستان میں تمہارے ہمدردوں اور ضرورت پڑنے پر تمہاری مالی اور دیگر ضروریات پوری کرنے والوں کے نام بتاؤ.
ج ایک نہیں بیسوں نام ہیں. لیکن انکا علم بس گروپ لیڈر کو ہے.
س. پاکستان میں تمہارے مشن کا ٹائم کتنا ہے.
ج میرا دو سال تھا جبکہ دوسروں کا میں نہیں جانتی.
س. پاکستان میں تمہارے کتنے گروپ اور کہاں کہاں کام کر رہے ہیں. اور انکے ساتھ تمہارا رابطہ کیسے ہونا تھا.
ج. میرا یہ سوال سن کر مالتی مسکرائی اور بولی سر ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ آپ ایک منجھے ہوئے جاسوس ہیں. آپکو تو یقیناً معلوم ہونا چاہئے کہ راز داری تو جاسوسی کا ابتدائی سبق ہے ہمیں دوسرے گروپس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا.
س. اگر تمہیں چھوڑ دیا جاے تو تم کیا کرو گی.
ج. میں نے اپنی جان کے خوف سے نہ صرف اپنے متعلق بلکہ اپنے گروپ کے متعلق بھی سب کچھ بتا دیا ہے آپ یقیناً انکو بھی جا لیں گے. ڈی ایم آئی کو جب پتہ چلے گا تو وہ مجھے یا تو مار ڈالیں گے یا پھر اذیتیں دے کر ایک لمبی عمر کے لیے قید کر دیں گے اگر آپ مجھے چھوڑ بھی دیں تو واپس بھارت جانا میرےلیے ناممکن ہے پاسپورٹ میرے پاس نہیں ہے کہ کسی اور ملک چلی جاؤں. مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان حالات میں کیا کر سکتی ہوں. اپنی دانست میں میں نے لڑکی سے تمام سوال کر لیے تھے بس ایک سوال باقی تھا میں نے مالتی سے پوچھا کہ بھارتی سفارت خانے میں کس سے انکا رابط ہے اس نے بتایا باقاعدہ ہمارا رابطہ اور ہدایات تو میجر باسو ہی کرتے ہیں مگر میں کرنل آنند اور کیپٹن مان سے بھی مل چکی ہوں کیپٹن مان تو میرے پیچھے ہی پڑھ گیا ہے مجھے لیٹ نائیٹ ڈنر اور ساتھ رکھنے کی کافی آفرز کر چکا ہے.
میں نے مریم کو دوسرے کمرے میں بلا کر کہا کہ مجھے اپنے چینی ساتھیوں کے ساتھ اس لڑکی کے باقی ساتھیوں کی خیر خیریت دریافت کرنے جانا ہے اس لیے فی الحال اسے تمہارے گھر میں بے ہوش کر کے رہنے دیا جائے اب تک میں نے مالتی سے جو بھی گفتگو کی تھی ایک آدھ لفظ کے علاوہ سب اردو میں کی تھی. مریم نے کسی قسم کے حیلو حجت سے کام نہیں لیا بلکہ اوکے کہہ دیا کہ میں ایگری ہوں آپ اسے بےہوش کر کے چھوڑ کر جا سکتے ہیں چینی دوست نے مالتی کے سر پر ریوالور کے دستے سے چوٹ مار کر اسے بے ہوش کر دیا اور احتیاطی طور پر دو تین دفعہ اور اس کے سر پر چوٹ ماری تاکہ وہ جلدی ہوش میں نہ آ سکے اور اسے اٹھا لر سٹور روم میں ڈال دیا اور میں نے مریم کو کہا کہ ہر پندرہ منٹ بعد وہ جا کر اسے چیک کرتی رہے اگر وہ ہوش میں آتی دکھائی دے تو اسے سر پر چوٹ مار کر دوبارہ بے ہوش کر دے. میں نے مریم کو کہا کہ میرے واپسی آنے تک وہ اور اس کے والدین اپنے بیڈ روم سے باہر نہ نکلیں اور نہ ہی گھنٹی بجنے پر دروازہ کھولیں مریم کے پاس میرے دیئے گئے کئ ریوالور تھے میں نے کہا کہ ایک ریوالور لوڈ کر کے تیاری حالت میں اپنے ہاتھ میں رکھے اگر کوئی دروازہ توڑنے کی کوشش کرے تو بے دریغ اس پر فائر کر دے مریم کے گھر کا کمپاؤنڈ خاصا وسیع تھا اور داخلے کے گیٹ پر بغیر اجازت اندر آنا منع ہے کا بورڈ لگا ہوا تھا اس حالت میں اگر کوئی بغیر اجازت اندر آتا ہے تو اس پر گولی چلانا اس کا حق بنتا ہے میں نے اسے کہا کہ واپسی پر میں تین بار وصل بجاؤں گا تو تبھی وہ دروازہ کھولے. یہ ہدایات دے کر میں چینی ساتھیوں کے ساتھ وین میں کشمیری مسجد کیطرف روانہ ہو گیا اور اب مجھے کوشلیا سے سامنا کرنا تھا اور وہ بھی ایک کشمیری کے گھر میں رہتی تھی.اس کشمیری گھر کے سربراہ کا نام فصیح تھا. چینی دوست گھر کے باہر کھڑی وین میں بیٹھے رہے فصیح صاحب گھر میں نہیں تھے میں نے گھر کی خواتیں سے بات کرنے سے پہلے ان کے گورکھا چوکیدار سے پوچھا کہ وہ مہمان خواتیں کہاں رہتی ہیں اس گھر کا ایک بچہ جو ہماری بات سن رہا تھا بولا کہ اس طرف مہمان خانے کے دو کمرے ہیں میں نے بچے سے کہا کہ مجھے سعیدہ بیگم سے بہت ضروری ملنا ہے تم میرے ساتھ چل کر انکا دروازہ کھلوا دو بچے نے میرے ساتھ چل کر مہمان خانے کے ایک کمرے کو کھٹکھٹایا اور بولا آنٹی دروازہ کھولیے کوئی آپ سے ملنے آیا ہے. میں نے بچے کے کان میں کہا کہ بولو آپکی ایک سیہلی ملنے آئی ہے بچے نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے یہی بول دیا کمرے کا دروازہ کھلا میں نے پسٹل جیکٹ کی جیب میں رکھا ہوا تھا کوشلیا مجھے دیکھتے ہی پیچھے ہٹی اور دروازہ بند کرنے کی کوشش کی مگر میں نے آگے بڑھ کر دروازے کو دھکا دے کر اندر داخل ہو گیا. میں نے اسے رینج میں لیتے ہوئے اسے کہا کہ کوشلیا اپنا یہ بہروپ ختم کرو اور خاموشی سے میرے ساتھ چلو. ورنہ یہی پر گولیوں سے چھلنی کر دوں گا سمجھداری کا ثبوت دو اور خاموشی سے میرے ساتھ چل پڑو مت بھولو کہ میں یہاں تک پہنچ گیا ہوں تو خالی ہاتھ واپس نہیں جاؤں گا مجھے چاہے تو تمہاری لاش ہی لے جانی پڑے. کوشلیا نے شال اس حالت میں اٹھائی کہ میرے پسٹل کی نال اسکی کمر کے ساتھ لگی ہوئی تھی اسی حالت میں اس نے برقعہ پہنا اور ساتھ چل پڑی مگر پھر اپنے منہ سے برقعہ ہٹا کہ چوکیدار کو کچھ اشارہ کر سکے مگر میں نے دوبارہ برقعہ اس منہ پر ڈلوا دیا اسے وین میں بٹھایا اور سیدھا مریم کے گھر پہنچ گئے. کوشلیا کے ہمراہ ہم مریم کے گھر پہنچ کر تین دفعہ مخصوص انداز میں وسل بجائی تو اس نے دروازہ کھول دیا مریم کے ہاتھ میں پسٹل تھا اور وہ بہت چوکس دکھائی دے رہی تھی ہم کوشلیا کو لے کر مالتی کے پاس سٹور روم میں لے گئے جہاں وہ بےہوش پڑی ہوئی تھی مالتی کو اس حالت میں دیکھ کر کوشلیا کی رہی سہی ہمت جواب دے گئی وہ جاسوسی کے سارے داؤ پیچ بھول گئ تھی اس نے کچھ بولنا چاہا تو میرے چینی دوست نے اس کے سر پر ضرب لگا کر اسے خاموش کر دیا مزید دو تین ضربیں اس کے سر پر لگائیں اور وہ مکمل بے ہوش ہو گئی اس کے ہاتھ پیر باندھ کر منہ میں کپڑا ٹھونس دیا گیا میں نے مالتی کے سر پر تین مزید ضربیں لگائیں اور اسے مزید تین گھنٹوں تک کے لیے ہوش سے بیگانہ کر دیا. اب میں نے مریم کو کہا کہ ہم انکے گروپ لیڈر کی طرف جا رہے ہیں اس لیے اب تمہیں پہلے سے زیادہ چوکس رہنا ہو گا اور اسے مزید ہدایات دے کر ہم چمن لالا کے گھر کیطرف روانہ ہو گئے ہم ابھی آدھے رستے پر ہی پہنچے تھے کہ میں نے وین کو واپس موڑ کر مریم کے گھر کیطرف روانہ ہو گیا. ذہنی طور پر میں مریم کے لیے بہت پریشان تھا. کیونکہ اس کے گھر میں دو جاسوس عورتیں بے ہوش پڑھی ہوئی تھیں. مالتی کا بروقت مریم کے گھر سے واپس نہ جانے اور کوشلیا کے اغوا کی خبر اگرچہ بھارتی سفارت خانے نہیں پہنچی ہو گی مگر پہنچنے والی ضرور ہو گی. اور سفارت خانہ یہ خبر سن کر کبھی خاموش نہ بیٹھتا بلکہ یہ خبر سنتے ہی انکا ٹارگٹ مریم کا گھر ہونا تھا اور اکیلی مریم انکا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی. اسی سوچ کے تحت میں نے وین واپس موڑ لی تھی. جب ہم مریم کے گھر پہنچے تو وہاں ہمیں کوئی غیر معمولی آثار دکھائی نہ دیئے. میں نے موقع کو غنیمت جانا اور چینی دوستوں کو کہا کہ فوری طور پر ان بے ہوش خواتین کو گاڑی کے فرش پر ڈال دیں اور انہیں گیس سلنڈر سے انکا کام تمام کرنے کا کہا. مریم ابھی اندر ہی تھی میں نے اسے بلایا اور کہا انکو کو کہو کہ چین کی طرف جانے والی روڈ پر کم از کم پچاس کلومیٹر آگے تک لے جا کر ان دونوں کو کسی کھائی میں اسی حالت میں پھینک آئیں. مریم نے سب سمجھا دیا. اس کے بعد میں نے مریم کو اندر بھیج دیا اور چینی دوستوں کو پہلے پٹرول والی کین پکڑ کر پھر ڈھکن سمیت ان کے اوپر ڈیمی پٹرول چھڑک اور پھر انہیں لائٹر جلا کر آگ لگانے کا سمجھایا تو سمجھ گئے اس کے بعد وہ وین میں بیٹھے اور تیزی سے روانہ ہو گئے. مریم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا دونوں عورتوں کو جلانے کے لیے پٹرول کا ایک کین کافی ہو گا تو میں نے پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلا تو وہ بولی کہ آپ اشاروں میں انہیں سمجھا رہے تھے میں سب سمجھ گئی کہ آپ کیا کہہ رہے ہو.
چار گھنٹے بعد چینی دوست واپس آئے اور کہا کہ سب کام اوکے کر آے ہیں ان کے چہروں پر تھکن کے آثار صاف نظر آ رہے تھے. مجھے مالتی اور کوشلیا کی موت پر افسوس ہو رہا تھا مگر میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا پاکستان دشمنی میں وہ خود اس آگ میں کودیں تھیں اور میرے پاکستان کے خلاف جاسوسی کرنے ولا مرد ہو یا عورت دونوں برابر تھے مریم نے دونوں کو کھانا کھلایا اور میں نے مریم سے کہا کہ حالات ایسے بن چکے ہیں کہ ان تینوں کی چھٹی اب ختم انہیں 24 گھنٹے ہوشیار رہنا ہو گا اس لیے ان میں سے ایک اپنے تیسرے ساتھی کے پاس جاے اور اسے پوری طرح مسلحہ کر کے ساتھ لے آے اور تم بھی اپنے والدین کے ساتھ مل کر سامان پیک کر لو اور میرے ساتھ اناپورنا ہوٹل شفٹ ہو جاؤ کیونکہ حالات کی نزاکت کے حساب سے ہم سب کو اب اکھٹے رہنا ہو گا. مریم نے چینی ساتھی کو میری ہدایات پہنچا دیں وہ اپنے تیسرے ساتھی کو لینے چلا گیا میں نے اپنے ہوٹل فون کر کے اپنے فلور پر دو کمرے مزید بک کروا لئیے. اور چینی ساتھیوں کے روم میں مزید ایک بیڈ رکھوانے کا کہہ دیا. جتنی دیر میں چینی اپنے تیسرے ساتھی کو لے کر آیا مریم اور اس کے والدین نے تیاری مکمل کر لی کیونکہ انہیں معلوم ہو گیا تھا ان کی سلامتی ہوٹل میں شفٹ ہونے میں ہی ہے. شام 6 بجے تک ہم سب ہوٹل میں شفٹ ہو گئے مریم نے کہا کہ اگر اجازت دیں تو میں ہر روز اپنے والدین کے لیے چائینیز کھانے اپنے ہوٹل سے بنوا کر لے آیا کروں تو میں نے کہا ہاں مگر تمہارے ساتھ دو چینی بطور گارڈ جایا کریں گے. تقریباً ساڑھے چھے بجے میں چمن لالا سے اپنے دو چینی ساتھیوں کے ساتھ ملنے کے لیے روانہ ہوا آج کے واقعات سوچ کر مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ یا تو چمن لالا نے گھر چھوڑ دیا ہو گا یا پھر سفارت خانے نے اس کے لیے گارڈز کا بندوبست کر دیا ہو گا. چمن لال کے گھر سے ذرا فاصلے پر میں نے ایک بلڈنگ کے پاس ایسی جگہ وین روکی جہاں اور بھی گاڑیاں کھڑی تھیں سورج غروب ہو چکا تھا اور اسٹریٹس لائٹ جل رہی تھیں. ہم اس بلڈنگ کے بلکل سامنے پہنچ گئے جہاں وجے کمار کے فلیٹ میں چمن لالہ رہتا تھا نیچے ایک رکشہ کھڑا تھا میں ایسے فلیٹوں میں جانے سے گھبراتا تھا کیونکہ جب ہم وجے کمار کو ختم کرنے آے تھے تو اوپر اور نیچے آنے جانے کے ٹائم مختلف فلیٹوں کے دروازے کھلے اور بند ہوے تھے. یقیناً ان فلیٹوں میں رہنے والے کچھ لوگوں نے ہمیں دیکھا بھی ہو گا. اب پھر ہم اسی فلیٹ میں اسی مقصد کے لیے جا رہے تھے ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ اپنے فلیٹ میں موجود ہو گا کہ نہیں. اگر وہ فلیٹ میں ہوا تو کیا وہ اکیلا ہو گا یا اس کے ساتھ گارڈز بھی ہوں گے اسی شش و پنج میں رہنے کے بعد میں نے اوپر جانے کا فیصلہ کر لیا. اکا دکا لوگ سڑک پر آ جا رہے تھے میں نے رکشہ والے کو وہاں سے ہٹانے کے لیے پوچھا کہ کیا رکشہ خالی ہے تو اس نے کہا کہ اسکی سواری اوپر سامان لینے گئی ہے چنانچہ میں سیڑھیاں چڑھنے لگا ابھی ہم پہلی اور دوسری سیڑھی کے درمیان میں ہی پہنچے تھے کہ ہمیں اوپر سے کسی کے نیچے آنے کی آواز سنائی دی لکڑی کی سیڑھیاں ہونے کی وجہ آواز صاف آ رہی تھی اتنی دیر میں ایک شخص ایک بڑا سا بکس ہاتھ میں پکڑے نیچے کیطرف اترتا دکھائی دیا سیڑھیاں تنگ بھی تھی نتیجہ کہ اب ہم میں سے ایک نے راستہ دینا تھا یا اسے واپس جانا تھا یا مجھے نیچے اترنا تھا وہ بوڑھا سفید دارھی اور مونچھوں والا کوئی مسلم دکھائی دے رہا تھا میں ابھی کسی فیصلے پر نہیں پہنچا تھا کہ اس نے بریف کیس چھوڑا اور دوبارہ اوپر کو دوڑ کر سیڑھیاں چڑھنے لگا اس عمر میں اتنی تیزی اور پھرتی دیکھ کر میرے ذہن میں بجلی سی کوندی میں تیزی کے ساتھ اس کے پیچھے لپکا میری زخمی ہونے والی ٹانگ میں درد کہ لہر سی اٹھی. لیکن اس درد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میں نے اسے دوسری منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی جا لیا اور اسکو ٹانگ سے پکڑ لیا میرا اسے ٹانگ سے پکڑنے کیوجہ سے وہ منہ کے بل سیڑھیوں پر گرا اور گرنے کیوجہ سے دو تین سیڑھیاں نیچے لڑھک آیا. گری ہوئی حالت میں اس نے سیدھا ہو کر مجھے نیچے دھکیلنا چاہا لیکن میں نے اسکی دوسری ٹانگ بھی پکڑ لی اب سیڑھیوں پر اوندھے منہ گرنے کیوجہ سے اس کے چہرے سے آدھی دارھی اتر چکی تھی اسکی ٹانگیں پکڑے ہوے ہی میں نے خود کو اٹھا لیا اور آگے ہو کر اس پر اس طرح لیٹ گیا کہ میرا چہرہ اس کے چہرے کے بلکل سامنے آ گیا. چینی دوست میرے پیچھے تھے میں چلا کر کہا گیس اور اپنے نیچے پڑے ہوئے بوڑھے یعنی چمن لال کے دونوں بازو پھیلا کر اس طرح پکڑ لیے کہ اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں میری انگلیوں میں پھنسی ہوئی تھیں. میرے چینی ساتھیوں میں سے ایک ہمیں پھلانگتا ہوا چمن لال کے چہرے کے بلکل قریب پہنچ گیا. اس نے چینی میں میرے پیچھے کھڑے ساتھی کو کچھ کہا اس کے ساتھی نے میرے چہرے اور منہ کو سختی سے بند کر دیا دوسرے ساتھی نے اپنے منہ اور ناک کو اپنے رومال سے ڈھانکا اور گیس چمن لال کے نتھنوں میں چھوڑ دی. میں نے اپنا سانس روک لیا تھا چمن لال پھڑ پھڑایا اور ٹھنڈا ہو گیا میرا منہ بند کرنے والے ساتھی نے مجھے پانچ چھے سیڑھیاں نیچے کھینچا اور میرے منہ سے رومال ہٹا دیا گیس چھوڑنے والا چینی دو تین سیڑھیاں اوپر چلا گیا تھا چینی ساتھی نے یہ سارا عمل مجھے اور خود کو گیس کے اثر سے بچانے کے لیے کیا تھا چمن لال سے ہماری مڈ بھیڑ اچانک اور اتفاقیہ ہوئی تھی. اس نے اتنا اچھا گٹ اپ کیا ہوا تھا کہ اگر وہ مجھے دیکھ کر اوپر نہ بھاگتا تو مجھے کبھی معلوم نہ ہوتا کہ یہ بوڑھا مسلمان کے روپ میں چمن لال ہے وہ مجھے دھوکا دینے میں کامیاب ہو چکا تھا مگر اپنی بدہواسی کیوجہ سے مارا گیا تھا. میرا اب اور زیادہ موت برحق پر یقین پختہ ہو گیا تھا کہ جہاں انسان کی موت لکھی ہوئی ہو گی وہ وہی مرے گا چمن لال کی موت ان سیڑھیوں پر لکھی تھی اور یہی پر مارا گیا ورنہ اگر اس کی موت نہ لکھی ہوتی تو ہمارا ایک دو منٹ کا وقفہ بھی ہو سکتا تھا. میں نے چمن لال کے چہرے پر لگی باقی داڑھی کو بھی ہٹا دیا چینی ساتھیوں نے اس کو دونوں طرف سے پکڑ کر نیچے لانے لگے میں نے اس کا بریف کیس اٹھا لیا نیچے پہنچ کر چینی ساتھی اس لاش کو لے کر اندھیری جگہ کھڑے ہو گئے میں نے رکشہ والے کو دس روپے دے کر کہا کہ اسکی سواری اچانک بیمار ہو گئی ہے اس لیے تم چلے جاؤ ہم اسے لے کر ہسپتال جا رہے ہیں. رکشہ والا چلا گیا اور میں تیزی سے اپنی وین لینے چل دیا میں وین لے کر ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے پچھلی سیٹ پر چمن لال کی لاش کو بٹھایا اور خود دونوں طرف اسے پکڑ کر بیٹھ گئے. میں نے سوٹ کیس گاڑی میں رکھا اور ایک پٹرول پمپ سے وین میں پٹرول فل بھروایا اور ساتھ ایک خالی کین بھی بھروا لیا اس دوران چینی ساتھیوں نے اسکی مکمل تلاشی لی اس کی گھڑی بھی اتار لی اور اس کی جیبوں سے نکلا ہوا سامان ایک رومال میں باندھ دیا
اب ہماری منزل وہی جگہ تھی جہاں دونوں عورتوں کی لاشوں کو جلایا گیا تھا چمن لال کی لاش کو بھی ان انشناخت لاشوں کے پاس رکھ کر کین سے پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی اور ہم اوپر سڑک پر آ گئے اور جب تک آگ جلتی رہی ہم وہیں کھڑے رہے. میں سوچ رہا تھا کہ انکی لاشوں کو جلا کر ہم نے ان کے انتم سنسکار ان کے مذہب کے مطابق کر دیئے. واپسی پر ہم کشمیری فصیح کے گھر گئے. اور فصیح صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ انکی دونوں مہمان خواتین مسلم نہیں بلکہ ہندو تھیں اور بھارتی جاسوس تھیں اور اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گی. اس لیے اب مجھے انکے کمرے کی تلاشی لینے دیں.اور اس معاملے میں انکی بہتری اسی میں ہے کہ وہ بلکل خاموشی اختیار کیے رکھیں ورنہ انہیں نقصان ہو سکتا ہے فصیح نے کمرے کی تلاشی دینے سے انکار کر دیا اور کسی طور پر ماننے کے لیے تیار نہ ہوا کہ وہ دونوں مسلمان نہیں تھیں جب میں نے اسے دھمکی دی کہ انہوں نے میری بات نہ مانی تو انہیں بہت نقصان اٹھانا پڑے گا تو وہ مان گیا اور ہمارے ساتھ انکے کمرے میں گیا. مہمان خانے کی ڈپلیکیٹ چابیاں اس نے گھر سے منگوا لیں. دونوں کمروں سے انکے ذاتی سامان کے علاوہ ایک چھوٹا پسٹل اور سیکڑوں گولیاں اور پاکستان میں ان کے ٹارگٹ بنے والے اعلی افسران کے نام ان کی تصاویر پاکستان میں ان کے بہی خواہوں کے نام پتے اور شناختی کوڈ لائٹر سائز کے کیمرے پاکٹ سائز ٹیپ ریکارڈر جو یقیناً پاکستانی افسران کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال ہونے تھے اور سب سے خطرناک دو لمبے مصنوعی ناخن تھے جو اونچی سوسائٹی کی خواتین یوز کرتی ہیں. اس وقت تو ہم نے انکا سامان ان کے ہی ایک سوٹ کیس میں ڈالا اور فصیح کو دھمکی دی کہ اگر کوئی ان کے متعلق پوچھے تو بتانا کہ وہ روٹین کے مطابق باہر گئی ہوئی ہیں اور ابھی واپس نہیں لوٹیں اور کسی کو اس سامان یا ہمارے بارے نہیں بتانا ورنہ بہت برا ہو گا. میرے ساتھیوں نے دونوں سوٹ کیس گاڑی میں رکھے. اور میں چلتے ہوئے پھر فصیح کو کہا کہ ان عورتوں کی حقیقت کے بارے میں ہم تینوں کے علاوہ چوتھے آپ ہیں جو جانتے ہیں اگر کسی پانچویں کو اسکی خبر ہوئی تو پھر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی قبریں ایڈوانس میں کھدوا لینا. میرے متعلق تم بخوبی جان گئے ہو کہ مجھے اپنے وطن کے دشمنوں کو ختم کرنے میں ذرا بھی جھجک نہیں آتی. دو تین روز بعد انکا سامان اٹھوا کر اپنے گودام میں رکھوا لینا اگر بھارتی سفارت خانے والے ان عورتوں کے متعلق پوچھنے آئیں تو وہی جواب دینا جو میں نے تمہی پہلے بتایا ہے اگر وہ سامان مانگیں تو انہیں کہنا کہ یہ سامان مہاجر مسلم خواتین کا ہے اگر وہ دو چار روز تک نہ آئیں تو یہ سامان پاکستانی سفارت خانے کے حوالے کر دیا جائے گا. اور اگر وہ دھمکی دیں تو پولیس کو بلوا لینا. فصیح ایک کاروباری شخص تھا میری باتیں سن کر وہ ڈر گیا. اس نے میرے کہنے کے مطابق حرف بہ حرف کہنے اور کرنے کا وعدہ کر لیا.
میں نے ایک ہی دن میں یہ سارا مشن مکمل کر لیا تھا اب مجھے صرف بھارتی سفارت خانے کے رد عمل کا انتظار تھا اور مجھے اپنے حفاظتی انتظامات سخت کرنے تھے. ہمیں ہوٹل پہنچتے پہنچتے خاصی دیر ہو گئی تھی. مریم بے چینی سے ہمارا انتظار کر رہی تھی. میں نے دونوں سوٹ کیس اپنے کمرے میں رکھوا لئیے. مریم نے ڈرتے ڈرتے مجھے بتایا کہ شام کو وہ چینی کے ساتھ پھر ریسٹورنٹ گئی تھی. اور ہم سب کے لیے کھانا لے کر آئ ہے. اس نے ریسٹورنٹ کے باہر بورڈ بھی لگوا دیا ہے کہ ریسٹورنٹ چند روز کے لیے بند رہے گا. اس نے ریسٹورنٹ چوکیدار کے ذریعے مزید تین نیپالی چوکیدار بھی بلوا لیے ہیں. جو کل صبح انٹرویو کے لیے ریسٹورنٹ آئیں گے کھانا کھانے کے بعد میں نے مریم کو بتایا کہ چمن لال کو بھی ٹھکانے لگا دیا ہے. میں نے اسے اپنے ٹانگ کے زخم اور گھٹنے کے درد کے بارے میں بتایا تو اس نے فوراً اپنے کمرے سے بام لا کر مجھے دی. میں سارے دن کا تھکا ہوا تھا بام لگاتے ہی درد ختم ہو گیا اور میں گہری نیند سو گیا. اگلے روز ناشتے سے فارغ ہو کر ہم نے چینی ساتھیوں کی موجودگی میں سوٹ کیس کھولے. چمن کے سوٹ کیس میں سے اس کے کپڑوں کے علاوہ ٹرانسمیٹر کوڈ اور ڈی کوڈ کرنے کی کتاب پسٹل گولیاں اسلام آباد میں بھارتی سفارت خانے میں اس سے رابطہ کرنے والوں کے نام بھارت سے ڈاک لانے لے جانے والوں سے میٹنگ کی جگہ دن اور وقت اور پاکستان میں انکے ہمدردوں کے نام پتے جن سے انکو مالی امداد ملنی تھی. پاکستان کے حساس مقامات کی تصاویر نقشے غرض یہ کہ جاسوسی کے لیے تمام ضروری اطلاعات اور سامان موجود تھا. بہت چھوٹے کیمرے اور ٹیپ ریکارڈر بھی تھے. دونوں جاسوس عورتوں کا سامان میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا. انکے سامان میں زیورات کے جیسے دو ڈبے بھی تھے جو میں کھول نہ سکا تھا اس لیے انہیں بھی سوٹ کیس میں رکھ لیا تھا. اب غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ڈبے نچلے حصے میں بنے ایک پچیدہ مکنیزم سے کھلتے تھے. ڈبے کھولے تو ان میں خواتیں کے بطور فیشن لگانے والے مصنوعی ناخنوں کے تین تین سیٹ تھے مختلف رنگوں کے نیل پالش اور تین تین ایسی شیشیاں تھیں. جو شاید نیل پالش اتارنے کے محلول سے بھری ہوئی تھیں. بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پوٹاشیم سائنائیڈ کا محلول تھا. جو ان ڈبوں میں موجود بہت ہی چھوٹی سرنجوں سے ان ناخنوں میں ڈالا جاتا تھا یہ شیشیاں سیل ہوئی تھیں. مصنوعی ناخنوں کے ہر سیٹ میں 5 کی بجائے 7 ناخن تھے. ہر سیٹ کے 5 ناخن ایک لائن میں اور دو ناخن علیحدہ الاسٹک سے مضبوط کیے گئے رنگین گتے کے ٹکڑوں سے لگے ہوئے تھے میں حیران تھا کہ ہر سیٹ میں 5 کی بجائے 7ناخن کیوں ہیں. میرا خیال تھا کہ شاید دو زیادہ ناخن اس لیے ہیں کہ اگر ایک ٹوٹ جاے تو اسکی جگہ دوسرا لگا دیا جائے گا. یہ سارے ناخن لمبے اور نوکدار تھے.
میں نے یونہی ایک فالتو ناخنوں میں سے ایک ناخن نکالا. اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا. اچانک ایک چینی دوست چلایا نو نو اور مجھے اشارے سے کہا کہ ناخن فوراً رکھ دے. مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا. کہ اس نے ایسا کیوں کہا. بہرحال میں نے ناخن رکھ دیا. چینی دوست نے اپنے رومال سے وہ ناخن اٹھایا. اور اچھی طرح اسکو دیکھنے کے بعد مریم سے کچھ کہنے لگا. اسکی بات سن کر مریم گھبرا گئی. پہلے میرے دونوں ہاتھ اور انگلیاں دیکھ کر تسلی کی پھر کہنے لگی. کہ دونوں فالتو ناخنوں میں سائنائیڈ کا محلول بھرا ہوا ہے میں نے رومال سے ناخن پکڑ کر غور سے دیکھا تو اسکی تیز نوک پر چھوٹا سا سوراخ بنا ہوا تھا اور سارا ناخن دو بہت باریک اور محسوس نہ ہونے والی تہوں سے بنا ہوا تھا. ناخن کے پچھلے حصے میں سوئی سے نکالے جانے والا ایک بہت چھوٹا کارک لگا ہوا تھا اور نوک کا سوراخ بھی اسی طرح کے کارک سے بند تھا یہ ناخن لگانے والی جب چاہتی ناخن کے نوکیلے سرے سے کارک ہٹا کر کسی کے جسم پر ہلکی سی خروچ لگا کر زہر اس کے جسم میں داخل کر کے ہلاک کر سکتی تھی. اگر یہ جاسوس عورتیں پاکستان پہنچ جاتیں تو اپنے ٹارگٹس اور خصوصاً عیاش پرست افسران کو بڑی آسانی سے ہلاک کر سکتی تھیں. میرے سامنے وہ پورا منظر گھوم گیا. جب وہ اپنے شکار کو کیسے اور کس طرح نشانہ بناتیں.آج بھی جب میں پاکستان کے شہروں کے پوش علاقوں میں لاؤڈ میک اپ ٹائٹ لباس لمبے ناخنوں کے ساتھ دعوت گناہ دینے کی ادائیں دکھاتی ملکی اور غیر ملکی عورتوں کو دیکھتا ہوں. تو سوچتا ہوں کہ ان میں کتنی بھارتی جاسوسہ سائنائیڈ بھرے ناخن لگاے اپنے شکار کی تلاش میں ہوں گی. میں نے ایک چھوٹا کیمرہ ایک چھوٹی ٹیپ ایک پسٹل اور خاصی گولیاں اپنے پاس رکھ کر باقی سارے سامان اور لسٹوں کا ایک مضبوط پیکٹ بنایا اور اپنے مشن کی کامیابی کی ساری تفصیل لکھی. اور ان الفاظ پر ختم کی
All three were finally givan a good treat.
سرخ پن سے انڈر لائن کر کے یہ پرزور درخواست کی. کہ اب مجھے فوری طور پر واپس پاکستان آنے کی اجازت دی جائے. یہ سب میں نے دو روز پاکستان جانے والی ڈاک میں بھیجنا تھا. آج ہی مہاجروں کی فلائٹ نے پاکستان بھی جانا جانا تھا. حالات کے پیش نظر میں نے مریم اور دو چینی دوستوں کو ہو ٹل چھوڑ کر تیسرے چینی ساتھی کو ساتھ لیا اور ائیر پورٹ چلا گیا وہاں مہاجروں کو الوداع کرکے بعد دوپہر واپس آ گیا. شام 5 بجے کرنل آنند مجھے ملنے آ گیا آج وہ اکیلا تھا. اسکے اترے ہوے سوگوار چہرے پر پریشانی صاف جھلک رہی تھی. کافی شاپ میں رسمی باتوں کے بعد وہ سیدھا اصل بات پر آ گیا. آصف صاحب ہم ہار گئے اور جیت آپکی ہوئی. کرنل نے سر جھکائے ہوئے کہا. اگرچہ میں اسکا مطلب اچھی طرح سمجھ گیا تھا. لیکن میں نے انجان بنتے ہوئے کہا کرنل صاحب کون سی جیت اور کون سی ہار. میں ریڈیو بھی کم سنتا ہوں اور اخبار بھی بہت کم پڑھتا ہوں. کہا ہمارے ملکوں کے درمیان کوئی کرکٹ یا ہاکی میچ ہو رہا ہے. جسکی آپ بات کر رہے ہیں. کرنل کچھ دیر اپنی بجھی بجھی آنکھوں سے مجھے دیکھتا رہا. اور بولا آپکا حق ہے آپ ہمارا مذاق اڑائیں. لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں بڑی مشکل میں پھنس چکا ہوں. میں نے سنجیدہ ہو کر پوچھا کہ آخر بتائیں نا کیا مصیبت آن پڑی جسکی وجہ سے آپ مشکل میں پھنس گئے. اور میں آپکی کیا مدد کر سکتا ہوں. کرنل نے ندامت آمیز لہجے میں کہا کہ آپ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن رہے ہیں. کرنل واقعی اس وقت مشکل میں پھنسا ہوا تھا ان کے تین فل تربیت یافتہ جاسوس کل سے غائب تھے اور کھٹمنڈو میں میرے علاوہ انہیں کوئی ایسا نظر نہیں آ رہا تھا جس نے انہیں غائب کیا. کرنل مجھ سے ان کے بارے میں پوچھنے آیا تھا لیکن پوچھتے ہوئے اسے بڑی ندامت ہو رہی تھی.
جاری ہے
No comments: