Aur Neil Behta Raha By Inyat Ullah Altamish Episode No. 70 ||اور نیل بہتا رہا از عنایت اللہ التمش قسط نمبر 70
Aur Neel Behta Raha
By
Annyat Ullah Altamish
اور نیل بہتا رہا
از
عنایت اللہ التمش
#اورنیل_بہتارہا/عنایت اللہ التمش
#قسط_نمبر_70
جن کے دلوں میں اللہ کا نام تھا اللہ نے ان کی قسمت ان کے ہاتھوں میں دے دی تھی، وہ ایمان کی پختگی کے جادو جگا رہے تھے ،اللہ نے وعدہ فرمایا تھا کہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک چھوٹی سی جماعت ایک بڑی جماعت پر غالب آئی ہے، ایسا ہر وقت ہوسکتا ہے شرط یہ ہے کہ چھوٹی جماعت والوں کے دلوں میں اللہ کا نام ہو اور ان کا ایمان پختہ ہو۔
مجاہدین اسلام کا لشکر ابھی تک اسکندریہ سے باہر اس انتظار میں تیار تھا کہ رومی باہر نکل کر حملہ کریں گے، جیسا وہ ہر قلعے کے محاصرے کے وقت کرتے رہے ہیں لیکن رومی چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کے لئے باہر نکلتے اور واپس چلے جاتے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص بھی کوئی زیادہ جلدی میں نہ تھے وہ محاصرے کو طول دے سکتے تھے اس مہلت سے یہ فائدہ مل رہا تھا کہ سابقہ معرکوں کے شدید زخمی لڑنے کے قابل ہو رہے تھے ،رسد کی کمی لشکروں کے ارادے اور عزم تہس نہس کر دیا کرتی تھی، لیکن مجاہدین کو کسی ایسے مسئلے کا سامنا نہیں تھا انہوں نے اسکندریہ کے قرب و جوار کے جو قصبے اور شہر فتح کیے تھے وہاں سے رسد کے ذخائر اکٹھے ہوگئے تھے، مصری بدوّ رسد کم ہونے ہی نہیں دے رہے تھے، عقب سے حملے کا خطرہ بھی نہیں رہا تھا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کی کوشش یہ تھی کہ شہر کے اندر رسد نہ جاسکے انہوں نے رسد کے ممکنہ راستے بند کردیئے تھے لیکن سمندر کا راستہ بند نہیں کیا جاسکتا تھا ،اور اصل مشکل یہ تھی کہ شہر کا محاصرہ ہو ہی نہیں سکتا تھا ،اس کے باوجود عمرو بن عاص کہتے تھے کہ اسکندریہ کے اندر قحط والی کیفیت نہ بھی پیدا ہوئی تو رومی جرنیل اتنی طویل محاصرے سے اپنی ذلت ضرور محسوس کریں گے، رومیوں کے تمام چھوٹے بڑے جرنیل اسکندریہ میں جمع ہو گئے تھے اور ان کا اسقف اعظم قیرس بھی ان کے ساتھ تھا۔ بہرحال عمرو بن عاص مطمئن تھے کہ محاصرہ طول پکڑتا ہے تو یہی بہتر ہوگا۔
مجاہدین چوکس اور چوکنے تو رہتے ہی تھے لیکن وہ تقریباً فراغت کے دن گزار رہے تھے۔ خیمہ گاہ سے تھوڑی دور تک گھوم پھر بھی آتے تھے، قریبی دیہات کے لوگ اور لڑکے بالے خیمہ گاہ کے قریب آکر انہیں دیکھتے بھی رہتے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
کرسٹی اپنے باپ کے ساتھ قید ہو کر آئی تھی تو دونوں ڈرے ہوئے تھے ان کی حیثیت جنگی قیدیوں والی تھی جنہیں غلام سمجھا جاتا تھا، بلکہ غلام بنا لیا جاتا تھا، کرسٹی کے باپ کے دل پر یہی ایک خطرہ سوار تھا لیکن اسے کھلی قید میں رکھا گیا تھا اسے بتا دیا گیا تھا کہ وہ بھاگنے کی کوشش نہ کرے ورنہ اسے زنجیریں ڈال کر رکھا جائے گا ،اس باپ کے لیے دوسرا خطرہ یہ تھا کہ کرسٹی جو غیر معمولی طور پر حسین لڑکی تھی سالاروں کے لئے کھلونا بن جائے گی، کرسٹی کو عورتوں کے حوالے کردیا گیا تھا ۔
اسے ہر لمحہ توقع رہتی تھی کہ سالار اسے لونڈی سمجھ کر داشتہ بنا لیں گے اور اس کی ہر رات کسی نہ کسی سالار کے خیمے میں گزرے گی، لیکن کریون سے اسکندریہ اتنی راتیں گزر گئیں تھیں کسی نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں تھا ،سالاروں کو تو جیسے اس کی موجودگی کا احساس ھی نہیں تھا۔
کرسٹی کو جن عورتوں کے حوالے کیا گیا تھا وہ مجاہدین کی بیویاں، مائیں، اور بہنیں وغیرہ تھیں ان میں تین چار وہ رومی لڑکیاں بھی تھیں جو مجاہدین کے کردار اور حسن اخلاق سے متاثر ہوئیں اور ان کی محبت میں گرفتار ہو کر اسلام قبول کر لیا اور ان کے ساتھ شادیاں کر لی تھیں ۔کرسٹی ان لڑکیوں میں گھل مل گئی تھی۔
وہ سب سے زیادہ متاثر شارینا سے ہوئی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ اسے بتایا گیا تھا کہ شارینا شاہ ہرقل کے شاہی خاندان کی لڑکی تھی اور ایک مجاہد سے اتنی متاثر ہوئی کہ شاہانہ زندگی کو ٹھوکر مار کر اس مجاہد کے ساتھ آگئی اور دل و جان سے اسلام قبول کر کے اس مجاہد کی بیوی بن گئی، اس کے خاوند کا نام حدید بن خزرج تھا ،جو جاسوسی اور شب خون مارنے کی خصوصی مہارت رکھتا تھا ، کرسٹی نے ضرور سوچا ہوگا کہ شاہی خاندان کی اتنی خوبصورت لڑکی نے آخر ان صحرا نورد عربوں میں کوئی خاص بات ہی دیکھی ہوگی کہ ان کے ساتھ ماری ماری پھر رہی ہے، کرسٹی دوسری نومسلم لڑکیوں سے بھی خاصی متاثر تھی۔
یہ سب لڑکیاں خصوصا شارینا کر سٹی میں زیادہ دلچسپی لیتی تھی، اور انہوں نے اسے اپنے ساتھ پوری طرح بے تکلف کرلیا تھا۔ کرسٹی اپنے متعلق انہیں جو کچھ بتاتی رہی تھی وہ سب جھوٹ تھا وہ اپنے آپ کو اور اپنے باپ کو مظلوم سمجھتی تھی اور کہتی تھی کہ انھیں بے گناہ پکڑ لیا گیا ہے ،وہ ڈرے ڈرے سے لہجے میں انہیں بتاتی رہتی تھی جن میں دو خدشے اسے زیادہ پریشان رکھتے تھے، ایک یہ کہ اس کے بوڑھے باپ کے ساتھ بہت برا سلوک ہوگا، اور وہ خود سالاروں کی تفریح طبع کا بڑا ہی خوبصورت ذریعہ بن جائے گی۔
لیکن میں حیران ہوں۔۔۔ کرسٹی نے کہا۔۔۔ان سالاروں میں سے کوئی میری طرف دیکھتا ہی نہیں جیسے انہیں معلوم ہی نہیں کہ ایک اتنی حسین اور نوجوان لڑکی ان کے درمیان موجود ہے ،کبھی خیال آتا ہے کہ شائد ان بدوؤں کے ہاں حسن کا معیار کچھ اور ہے جس پر میں پوری نہیں اتر سکتی ۔
شارینا اور وہ لڑکیاں جو وہاں بیٹھی سن رہی تھیں کھلکھلا کر ہنس پڑیں،انہوں نے کرسٹی کو بتایا کہ یہ سب بدو نہیں ہے، اور جہاں تک اس نوجوانی کا تعلق ہے ان کا معیار رومیوں اور مصریوں سے مختلف نہیں، انہوں نے کہا کہ ان کی عورتوں کو دیکھ لو ان میں کیسی کیسی خوبصورت خواتین موجود ہیں۔
یہ معیار کی نہیں کردار کی بات ہے۔۔۔ شارینا نے کہا۔۔۔یوں کرو کسی بھی سالار کے خیمے میں جا کر بالکل برہنہ ہو جانا اور دعوت گناہ دینا ،وہ تمہیں اپنے ہاتھوں کپڑے پہنا کر خیمے سے نکال دے گا، تم یہ تاثر لے کر آؤ گی کہ تم کسی بھی مرد کے لیے قابل قبول ہو ہی نہیں، اور اس حسین جسم میں ذرا سی بھی کشش نہیں ہے ۔
آزمانے کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔ کرسٹی نے کہا۔۔۔۔یہ تو میں پہلے ہی محسوس کر رہی ہوں کہ یہ لوگ بد ذوق اور بے حس ہیں یا میں بدصورت اور دھتکاری ہوئی لڑکی ہوں۔
نہ یہ بدذوق ہے نہ تم بدصورت ہو ۔۔۔ایک اور نومسلم لڑکی اینی نے کہا۔۔۔ تمہاری تربیت ایسی ہوئی ہے کہ تم کچھ اور سوچنے کے قابل نہیں رہی، راز کی ایک بات سن لو ، دیکھ رہی ہو کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی تھوڑی ہے لیکن انہوں نے تمہارے سامنے کریون کا قلعہ فتح کیا اور اب اسکندریہ پر حملے کر رہے ہیں، اور انہوں نے سارا مصر فتح کر لیا ہے کبھی تم نے سوچا کہ کیوں؟،،،،،،،،،، صرف اس لئے کے ان کی توجہ تم جیسی لڑکیوں پر نہیں ،ان کی نظریں اپنے اللہ پر لگی ہوئی ہیں، تم صرف اس ایک شخص کے لئے قابل قبول اور حسین ہو گی جو تمہارے ساتھ اللہ کے نام پر شادی کرے گا۔
کرسٹی بڑی زندہ دل، شگفتہ مزاج، اور بے تکلفی سے باتیں کرنے والی لڑکی تھی، اس نے ایسی کوئی بات نہ کی کہ وہ ان مسلمانوں سے اتنی متاثر ہوئی ہے کہ مسلمان ہو جانا چاہتی ہے، اس نے ہنستے مسکراتے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ اس کی تربیت کسی اور ہی طرح سے ہوئی ہے ۔
اس وقت تک وہ ان لڑکیوں کو اپنے متعلق غلط بات نہیں بتا رہی تھی اب اس نے سچ اگلنا شروع کر دیا ۔اس نے کہا کہ وہ زہر میں بجھا ہوا ایک بڑا ھی حسین تیر ہے، جو بڑی آسانی سے اپنے شکار کے دل میں اتر جاتا ہے، اور اسے کسی کام کا نہیں چھوڑتا ،اور اس کا کوئی مذہب
اور کوئی وطن نہیں رہتا۔
اس نے بڑے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ یہ شخص جسے وہ اپنا باپ بتارہی ہے اس کا باپ نہیں، اسے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کا باپ کون اور ماں کون تھی، اس کی عمر سات آٹھ سال تھی ۔اسے یاد تھا کہ اس کی پرورش کرنے والوں نے اسے بڑے پیار سے پالا پوسا اور جوان کیا تھا، اس کے دل سے سگے ماں باپ کی محبت اور ذہن سے ان کی یادیں بھی صاف ہو گئی تھیں، اسی عمر سے اسے یہ تربیت دی جانے لگی تھی کہ آدمیوں کو انگلیوں پر کس طرح نچایا جاتا ہے، مردوں پر اپنا طلسم طاری کرنا ،پتھر کو موم کرنا، اپنے حسن کو برقرار رکھنا، اور دشمن دیس کو اپنا گھر سمجھنا ،اور ایسے ہی کچھ اور سبق تھے جو اسے زبانی ہی نہیں پڑھائے گئے بلکہ اسے عملاً سکھایا گیا تھا ۔ یہ تربیت اسے بڑی ہیں حسین و جمیل اور بے حد چالاک عورتوں نے دیں تھیں، اسے بتایا گیا تھا کہ اپنے شکار کے جذبات کو بھڑکا کر اس کی عقل و ہوش اپنے قبضے میں کر لینا اور خود جذبات سے عاری اور بے حس ہو جانا۔
اسے خبردار کیا گیا تھا کہ دل میں کسی دشمن کی ہمدردی پیدا ہوجائے تو اسے اپنے کام میں استعمال نہیں کیا جاسکتا، مختصر یہ کہ اسے بڑی ہی خوبصورت ناگن بنا دیا گیا تھا اور یہ تعلیم و تربیت اس کی فطرت بن گئی تھی۔
کرسٹی نے ان لڑکیوں کو سنایا کہ اس نے مصری بدوّ اسطافت کو کس طرح قبضہ میں لے لیا تھا، اور وہ ایک سالار کو قتل کرنے پر آ گیا تھا اور خود مارا گیا۔
اسطافت مسلمان نہیں تھا۔۔۔ شارینا نے کہا۔۔۔ وہ عرب بھی نہیں تھا، اگر وہ مسلمان ہوتا تو تمہارے جھانسے میں کبھی بھی نہ آتا۔
میری تربیت صرف عورتوں نے نہیں کی۔۔۔ کرسٹی نے کہا۔۔۔میں مرد استادوں کے ہاتھوں میں سے بھی گزری ہوں وہ سب میرے مذہب کے آدمی تھے، ہر ایک آدمی نے مجھے تربیت دینے سے پہلے میرے اس حسین جسم سے لطف اٹھایا ،پھر اگلی بات کی، لیکن مسلمانوں کے یہاں تو بالکل ہی الٹ معاملہ دیکھا ہے، یہ شخص جسے میں اپنا باپ کہتی ہوں اس نے بھی مجھے نہیں بخشا۔
تم اسلام قبول کر لو ۔۔۔شارینا نے کہا۔۔۔پھر جو آدمی تمہیں اچھا لگے وہ مجھے بتاؤ اور تمہاری شادی اس کے ساتھ کروا دونگی۔
میں نے شادی کی تو سوچی ہی نہیں۔۔۔ کرسٹی نے کہا۔۔۔مذہب کو تو میں نے کبھی اہمیت دی ہی نہیں ،مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ مسلمان عیسائیت کے دشمن ہیں اور اسلام کو ختم کرنا ہے ،،،،،،،،،،اب میرے خیالات اتنے بدل گئے ہیں کہ میں ان مسلمانوں کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہوں، میرے دل میں ان مسلمان سالاروں کی عزت پیدا ہو گئی ہے۔
تم ان کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔۔۔ایک اور نومسلم لڑکی نے کہا۔
بہت کچھ کر سکتی ہوں۔۔۔ کرسٹی نے کہا۔۔۔ میرے پاس یہی ہنر ہے جو بتاچکی ہوں ،میں چاہتی ہوں کہ مسلمان مجھ سے فائدہ اٹھائیں میں ان کے لئے جاسوسی کر سکتی ہوں۔ رومی جرنیلوں کو قتل کروا سکتی ہوں، یہ نہ ہو سکا تو انھیں ایک دوسرے کا دشمن بنا سکتی ہوں، کسی طرح مجھے اسکندریہ میں داخل کر دیں۔
کرسٹی !،،،،،،،شارینا نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔۔۔ اسلام میں عورت کو اس طرح استعمال کرنا بہت بڑا گناہ ہے، یہ لوگ اپنی بیٹی کی ہی نہیں بلکہ بیٹی کسی دشمن کی بھی ہو تو یہ اپنے آپ کو اس کی عزت و آبرو کا محافظ سمجھتے ہیں، تم اپنے مستقبل کی سوچوں تمہارے سامنے بڑی لمبی عمر پڑی ہے، یہ باعزت انداز سے گزرنی چاہیئے۔ یہ بات کچھ سنجیدگی اور کچھ مذاق میں آ گئی ہو گئی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
مدینہ میں امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہر لمحہ مصر سے خبر آنے کے منتظر رہتے تھے، پیغام آتے جاتے رہتے تھے لیکن پہلی مرتبہ یوں ہوا کہ چار مہینوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا عمرو بن عاص کی طرف سے کوئی پیغام مدینہ نہ گیا، اس تاخیر اور خاموشی سے امیر المومنین کو تشویش ہونے لگی، یہ تشویش ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئی اور امیرالمومنین نے مجلس مشاورات بلائی، تمام مستند مؤرخوں اور بعد کے تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے مشیروں سے کچھ اس طرح خطاب کیا۔
کیا تم میری طرح پریشان نہیں ہو۔۔۔۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا۔۔۔ چار چاند طلوع و غروب ہو گئے ہیں اور عمرو بن عاص کی کوئی خبر نہیں آئی ،یہ وہی لشکر ہے جس نے مصر کے بڑے ہی مضبوط شہر اور ناقابل تسخیر قلعہ فتح کیے ہیں ،پھر کیا بات ہے کہ وہ اسکندریہ کی دیواروں کے باہر جاکر بیٹھ گئے ہیں اور کوئی حرکت نہیں کر رہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں وہ جگہ اچھی لگی اور اسی کو وہ ایک خوبصورت منزل سمجھ کر وہیں کے ہوکر رہ گئے ہیں۔
یا امیرالمومنین!،،،،،، ایک مشیر نے کہا۔۔۔ عمرو بن عاص ایسے غیر ذمہ دار سپہ سالار تو نہیں کچھ دن اور انتظار کر لیا جائے۔
یہ بھی تو ہوسکتا ہے۔۔۔ ایک اور نے کہا۔۔۔ اسکندریہ بہت ہی مضبوط اور قلعہ بند شہر ہے اور یہ مصر کا آخری قلعہ ہے، عمرو بن عاص کے لشکر کی تعداد اور کم ہو گئی ہے اس لئے اس شہر کی فتح کے لئے تین چار مہینے کافی نہیں ہوسکتے۔
خدا کی قسم میں ان سب پہلوؤں پر غور کر چکا ہوں۔۔۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا۔۔۔ اسکندریہ اجنادین سے زیادہ مضبوط نہیں ہو سکتا، اس وقت ہرقل بھی زندہ تھا اور روم کی فوج بھی زندہ و بیدار اور بے حد طاقتور تھی، رومی سمجھتے تھے کہ اجنادین دراصل بیت المقدس کا دفاعی قلعہ ہے یہ گیا تو بیت المقدس بھی ہاتھ سے نکل جائے گا، رومی بیت المقدس میں اپنے آپ کو یوں سمجھتے تھے جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر کا دفاع کر رہے ہو، لیکن اسی عمرو بن عاص نے رومیوں سے اجنادین بھی لے لیا اور بیت المقدس بھی چھین لیا تھا ،آج عمرو بن عاص اسی رومی فوج کے سامنے کیوں بے بس ہو گیا ہے؟،،،،،،،،، اب تو رومی فوج بہت زیادہ دہشت زدہ اور کمزور ہو گئی ہے، اس کے علاوہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ بزنطیہ میں ہرقل کے بعد اس کا بیٹا قسطنطین بھی مر چکا ہے، اور وہاں تخت و تاج کی وراثت پر شاہی محل میں جھگڑا چل رہا ہے ،عمرو بن عاص اس صورتحال سے کیوں فائدہ نہیں اٹھا رہا ؟
کیا آپ کو اس پر کوئی شبہ ہے امیرالمومنین!،،،،، ایک صحابی نے پوچھا۔
ہاں میرے بھائی!،،،،،، امیرالمومنین نے جواب دیا ۔۔۔مجھے شبہ ہے کہ عمرو اور اس کے لشکر میں کوئی ایسی ذہنی خرابی پیدا ہو گئی ہے جس نے ان کے دلوں سے شہادت کی تڑپ اور جہاد کی لگن چھین لی ہے، ہوسکتا ہے مصر کی خوبصورتی اور دولت نے انہیں دنیاوی آسائشوں اور عیش پرستی میں الجھادیا ہو ،اگر یہ نہیں تو کوئی ایسی وجہ ضرور ہے کہ مصر کی فتح میں اتنی زیادہ دیر لگ رہی ہے،،،،،کیا میں عمرو بن عاص کو پیغام بھیج کر پوچھ نہ لوں کہ اس کی اتنی طویل خاموشی کی وجہ کیا ہے، اور اس کا لشکر کس حال میں ہے؟
سب نے متفقہ طور پر رائے دی کہ ابھی پیغام دے کر قاصد کو روانہ کر دیا جائے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسی وقت پیغام لکھا جو آج تک تاریخ کے دامن میں لفظ با لفظ موجود ہے ،تاریخ نویس ابن الحکم ، مقریزی اور بلاذری کے حوالے سے یہ پیغام ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
میں حیران ہوں کہ تم دو سالوں سے لڑ رہے ہوں اور مصر کی فتح ابھی تک مکمل نہیں ہوئی، میں جانتا ہوں تم مصر کا آخری قلعہ فتح کرنے پہنچے ہوئے ہو، لیکن اتنے عرصے میں تمہاری طرف سے کوئی اطلاع اور کوئی خبر نہیں آئی ،مجھے شک ہے کہ تمہارے دل میں وہ پہلا سا جذبہ نہیں رہا، اور اپنے اس دشمن کے ملک کا تم پر یہ اثر ہوا ہے کہ تمہارے دل میں بھی دنیا کی محبت پیدا ہوگئی ہے، اگر ایسا ہے تو اللہ تعالی تمہاری کوئی مدد نہیں کرے گا، میں نے چار بڑے ہی بہادر سالار تمہاری مدد کے لیے بھیجے تھے اور لکھا تھا کہ ان میں سے ہر سالار ایک ہزار مجاہدین کے برابر ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی دنیاوی جاہ و جلال میں الجھ گئے ہیں، اور تم بھی الجھے ہوئے ہو ،میرا یہ پیغام پورے لشکر کو سناؤ اور انہیں کہو کہ اپنے جذبے اور حوصلے کو مجروح نہ ہونے دیں، میرے بھیجے ہوئے چاروں سالاروں کو فوج کے آگے رکھو اور اللہ کے نام پر اسکندریہ پر چڑھ دوڑو۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس پیغام میں جن چار سالاروں کا ذکر کیا ہے ان کی شجاعت کے کارناموں کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ یہ تھے زبیر بن العّوام ،عبادہ بن صامت، مقداد بن اسود، اور مسلمہ بن مخلد رضی اللہ تعالی عنہم، یہ سب صحابہ کرام تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں جب کمک دے کر مصر بھیجا تھا تو ساتھ پیغام میں انھوں نے لکھا تھا کہ ان چاروں میں ہر ایک سالار ایک ہزار مجاہدین کے برابر ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ان چاروں کی شجاعت اور میدان جنگ میں قیادت کی مہارت کی تعریف کی تھی، لیکن تاریخ لکھنے والے ایک غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے اس غلط فہمی کی تفصیل بھی پہلے بیان ہو چکی ہے، زبیر بن العّوام کی بہادری تو معجزہ نما تھی۔
ہم آج کے دور میں امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا پیغام بنام سپہ سالار عمرو بن عاص پڑھتے ہیں تو ہمارے تصور میں عمرو بن عاص کا یہ رد عمل آتا ہے کہ انہوں نے کہا ہوگا کہ مدینہ میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں یہاں آکر دیکھیں گے ہم لوگ کیسی مشکلات میں گرفتار ہیں، اور ہم سے ناممکن کو ممکن بنانے کی توقع رکھی جارہی ہے۔ لیکن عمرو بن عاص نے کسی ایسے ناروا ردعمل کا اظہار نہ کیا، وہ خود محسوس کر رہے تھے کہ اسکندریہ پر زیادہ وقت صرف ہو رہا ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں ہو رہا ،وہ امیر المومنین کی بے تابی کو اور ان کے شکوک و شبہات کو اچھی طرح سمجھتے تھے، انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ پیغام پڑھا اور پہلا کام یہ کیا کہ امیر المومنین کے نام ایک پیغام لکھوا کر اسی قاصد کو دے کر رخصت کردیا۔ اس پیغام کے الفاظ تاریخ کے صفحات پر نہیں ملتے سوائے اس کے کہ عمرو بن عاص نے امیر المومنین کو مطمئن کیا کہ لشکر کا جذبہ مجروح ہونے کی بجائے پہلے سے زیادہ پختہ اور غضب ناک ہوگیا ہے ،اور ہر مجاہد اسکندریہ کی فتح کے لیے بے تاب ہے۔
تاریخ کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا پیغام عمرو بن عاص کے پاس دن کے پچھلے پہر پہنچا تھا ،عمرو بن عاص نے اسی وقت تمام لشکر کو اکٹھا کیا اور امیرالمومنین کا پیغام بلند آواز میں پڑھ کر سنایا۔ پھر لشکر سے کہا کہ سب وضو کرکے فوراً واپس آئیں۔ مجاہدین گئے وضو کیا اور واپس آ گئے ۔
عمرو بن عاص نے دو رکعت نفل باجماعت پڑھائے اور اس کے بعد فتح کی دعا مانگی گئی، تاریخ میں آیا ہے کہ دعا کے دوران عمرو بن عاص کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے، دعا کے بعد انہوں نے لشکر سے کہا کہ اسکندریہ پر یلغار کی جائے، مجاہدین نے نعروں سے سپہ سالار کے اس عہد اور عزم و پر لبیک کہی۔
ابن عبدالحکم اپنے والد عبداللہ بن عبدالحکم سے روایت کرتے ہیں کہ دعا کے بعد لشکر منتشر ہو گیا اور عمرو بن عاص سالاروں کو اپنے خیمے میں لے گئے، بغیر کسی تمہید اور تعارف کے اسکندریہ پر یلغار کا پلان تیار ہونے لگا، یہ واقعی ایک ناممکن مہم تھی جسے ممکن بنانا تھا، عمرو بن عاص اور ان کے سالار جذبات کے زور پر نہیں سوچا کرتے تھے بلکہ حقائق اور دشواریوں کو سامنے رکھ کر پلان بناتے اور جذبے اور جوش و خروش سے اس پر عمل کرتے تھے، انہوں نے ہر پہلو پر غور کیا تو سوائے دشواری اور ناکامی کے کچھ نظر نہ آیا۔ عمرو بن عاص یوں زمین پر پیٹ کے بل لیٹ گئے جیسے تھک ہار گئے ہوں معلوم نہیں انکے اس طرح لیٹ جانے سے سالاروں پر کیا اثر ہوا ہوگا۔
ہوا یوں کے عمرو بن عاص فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور پرجوش لہجے میں بولے میں نے غور کر لیا ہے اور اس فیصلے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے انجام کو وہی سنوارے گا جس نے آغاز کو سنوارا ہے ،،،،،،،،،ظاہر ہے ان کا اشارہ اللہ تبارک وتعالی کی طرف تھا۔
ایک سالار عبادہ بن صامت بھی وہی تھے عمرو بن عاص نے انھیں کہا کہ اسکندریہ پر یلغار کے وقت علم ان کے ہاتھ میں ہوگا ،ایک روایت یہ بھی ہے کہ عمرو بن عاص نے علم مسلمہ بن مخلد کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن مسلمہ بن مخلد نے کہا کہ اتنے بڑے اعجاز کے حقدار عبادہ بن صامت ہیں، چنانچہ عمرو بن عاص نے علم عبادہ بن صامت کے حوالے کیا۔
یہ واضح رہے کہ میدان جنگ میں علم برادر کو اپنی جان پر کھیل کر علم بلند رکھنا پڑتا تھا۔ دشمن علم کو گرانے کے لئے حملے پر حملے کرتا تھا علم کو بلند اور لہراتا رکھنے کے لئے کئی مجاہدین شہید ہو جایا کرتے تھے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
اسکندریہ پر حملے کا پلان بن گیا جس کے لیے مجاہدین پہلے ہی تیار تھے، لیکن حملہ کچھ دنوں بعد کرنا تھا۔
تین مؤرخوں نے لکھا ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ حملہ جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد کیا جائے ،کیونکہ اس وقت اللہ کی خاص رحمت نازل ہوتی ہے اور یہ وقت دعاؤں کی قبولیت کا ہوتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ بھی لکھا تھا کہ حملے سے پہلے اللہ کے حضور گڑگڑا کر فتح کے لیے دعا کی جائے، حملے میں تاخیر کی غالباً یہی وجہ تھی جمعۃ المبارک کو ابھی چار پانچ دن باقی تھے۔
ان چار پانچ دنوں میں ایک اور واقعہ ہوگیا، مجاہدین حملے کے لیے تیار بھی تھے اور بے تاب بھی لیکن ابھی ان کے لئے فراغت تھی، ایک روز تین آدمی جو غالبا مصری تھے چھوٹے چھوٹے قالین اٹھائے خیمہ گاہ کے قریب آ کھڑے ہوئے انہوں نے دو تین قالین کھول کر زمین پر بچھا دیے یہ مصلے کے سائز کے قالین تھے، قریبی خیموں سے چند مجاہدین باہر نکلے تو ان آدمیوں کے پاس جاکر قالین دیکھنے لگے، ایک مجاہد نے کہا کہ وہ یہاں کیوں آگئے ہیں یہاں ان قالینوں کا کوئی خریدار نہیں۔
ہم یہ قالین بیچنے نہیں آئے۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔۔۔ ہم دو تین قالین آپ کے سپہ سالار کو تحفے کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں، ان پر وہ نماز پڑھا کریں گے۔
پہلی بات یہ ہے دوستوں ۔۔۔۔مجاہد نے کہا۔۔۔ ہمارے سپہ سالار تمہیں ملیں گے ہی نہیں اور اگر مل گئے تو یہ تحفہ قبول نہیں کریں گے، ہمارے یہاں تحفہ لینے کا رواج ہی نہیں۔
ہمیں ان تک پہنچا تو دو۔۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔۔۔ ہم مسلمانوں کے کردار سے اور جو سلوک آپ لوگوں نے ہمارے ساتھ روا رکھا ہے اس سے اتنے متاثر ہوئے ہیں کہ ہم اظہار تشکر کے لیے اپنے بنائے ہوئے یہ قالین انہیں بطور تحفہ پیش کرنے آئے ہیں۔
مجاہدین نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ سپہ سالار اتفاق سے کہیں مل جائیں تو ان سے ملاقات ہو سکتی ہے لیکن وہ تحفہ قبول نہیں کریں گے، ایک مجاہد نے کہا کہ ہم زمین پر نماز پڑھا کرتے ہیں ہمارے سالار بھی ہمارے ساتھ زمین پر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور زمین پر ہی سجدے کیا کرتے ہیں۔
یہ تو ہم نے دیکھا ہے۔۔۔ قالین والے ایک آدمی نے کہا ۔۔۔آپ لوگ جس زمین پر سجدہ کرتے ہیں وہ زمین اللہ کی طرف سے آپ کے نام لکھ دی جاتی ہے ،اور وہ زمین آپ کے قدم چومتی ہے ۔
مجاہدین وہاں سے ہٹنے لگے ابھی دو تین مجاہدین وہی تھے ایک طرف سے مجاہدین کی تین چار خواتین آ رہی تھیں ان میں شارینا بھی تھی اور کرسٹی بھی، قالین اتنی خوبصورت تھی کہ لڑکیاں زمین پر بچھے ہوئے قالینوں کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگیں، خریدنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا نہ انہیں ایسے خوبصورت اور قیمتی قالینوں کی ضرورت تھی، قالینوں والے تین آدمی بھی زمین پر بیٹھ گئے، کرسٹی نے قالینوں سے نظریں ہٹا کر ان تینوں آدمیوں کی طرف دیکھا ،ان تینوں میں میں ایک ہی تھا جو مجاہدین کے ساتھ باتیں کرتا رہا تھا وہی بولتا تھا اور باقی دو چپ چاپ بیٹھے یا کھڑے رہے، ان جواں سال آدمی نے کرسٹی کو دیکھا تو اس کے ماتھے پر شکن آ گئے، اور اس نے آنکھیں ذرا سی سکیڑیں جیسے کرسٹی کو غور سے دیکھ رہا ہو،
یہی تاثر کرسٹی کے چہرے پر بھی آگیا وہ بھی جیسے اس شخص کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی، جلدی ہی دونوں کے چہرے کا یہ تاثر حیرت میں بدل گیا جیسے انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا ہو ،عورتیں ان تینوں سے قالینوں کے متعلق کچھ پوچھ رہی تھیں، کرسٹی بیٹھی بیٹھی پاؤں پر سر کی اور نہایت آہستہ آہستہ اس شخص کے قریب چلی گئی۔
ان دونوں کے درمیان سرگوشیوں میں کوئی مختصر سی بات ہوئی اور کرسٹی اٹھ کھڑی ہوئی اور خواتین کے پاس آ گئی ،ان تینوں آدمیوں نے قالین لپیٹنے شروع کر دیے اور مجاہدین کی یہ خواتین اور کرسٹی وہاں سے چل دیں ،کرسٹی نے شارینا کو اشارے سے الگ کیا اور اسے سرگوشیوں میں کچھ کہا شارینا یوں سر ہلاتی رہی جیسے کرسٹی کی بات سمجھ گئی ہو اور اسے یہ بات اچھی لگی ہو ،یہ خواتین اپنے خیموں کی طرف چلیں گئیں، اور قالینوں والے قالین اٹھا کر مایوسی کے عالم میں وہاں سے رخصت ہوگئے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
گھنٹے ڈیڑھ بعد کرسٹی قالینوں والے اس آدمی کے پاس کھڑی تھی جو سب سے زیادہ بولتا اور اس کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ عقل و دانش والا آدمی ہے اور جہاندیدہ بھی ہے، وہ دونوں ایسی جگہ کھڑے تھے جہاں انہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا، کرسٹی چھپ چھپا کر وہاں تک پہنچی تھی یہ وہی علاقہ تھا جو پہلے بیان ہوچکا ہے، وہاں ہری بھری ٹیکریاں تھیں اور درختوں کے جھنڈ اتنے گھنے تھے کہ وہاں قریب سے بھی کوئی کسی کو دیکھ نہیں سکتا تھا، اسی جگہ بارہ مجاہدین کو رومیوں نے اس طرح گھات لگا کر شہید کردیا تھا کہ نہ ان رومیوں کے آنے کا پتہ چلا نہ یہاں سے جانے کا۔
کرسٹی اکیلی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی مجاہدین کی کوئی اور خاتون ہوتی تو کوئی اور بات تھی، کرسٹی کی حیثیت ایک قیدی کی سی تھی یہ الگ بات ہے کہ ان پر قیدیوں جیسی پابندی نہیں تھی پھر بھی عورتوں کو بتا دیا گیا تھا کہ اسے اپنی نگرانی میں رکھیں۔ کرسٹی کے لئے اس خطرناک علاقے تک جانا صرف اس لیے ممکن ہوا تھا کہ اس نے شارینا کو ایک خاص بات بتا کر اعتماد میں لیا تھا اور شارینا نے یہ بات اپنے خاوند حدید کو بتا دی تھی ،کرسٹی کو معلوم نہیں تھا کہ حدید چھپ چھپ کر اس کے پیچھے گیا تھا اور جب وہ اس آدمی کے پاس پہنچی تو حدید کچھ دور اوٹ میں زمین پر پیٹ کے بل لیٹا انہیں دیکھ رہا تھا، کرسٹی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
کرسٹی نے قالین دیکھتے دیکھتے جب اس آدمی کو دیکھا تو اسے پہچان لیا تھا ،وہاں سے ہٹ کر کرسٹی نے شارینا کو الگ کرکے یہ بتایا تھا کہ وہ اس شخص کو جانتی ہے ، کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہی ہے اس کے کہنے کے مطابق یہ شخص ان پیشہ ور قاتلوں میں سے تھا جو دشمن کی بڑی شخصیتوں کو قتل کرنے کی خصوصی مہارت رکھتے تھے۔
کرسٹی نے شارینا کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ اس گاؤں میں یہ مشن پورا کرنے کے لئے بھیجی گئی تھی کہ مسلمانوں کے سپہ سالار کو قتل کرنا ہے، اس سے پہلے اسے کسی اور مقام پر بھیجا گیا تھا اور یہ شخص اس کے ساتھ تھا لیکن وہاں مسلمانوں کے سپہ سالار تک پہنچنے کا موقع نہ مل سکا اور مجاہدین کا لشکر وہاں سے آگے کوچ کرگیا ،اس کے بعد کرسٹی اس شخص سے الگ کر دی گئی تھی اور اسے معلوم نہیں تھا کہ اس آدمی کو کہاں بھیج دیا گیا ہے۔
کرسٹی کو اس گاؤں میں منتقل کردیا گیا تھا جہاں مصری بدو اسطافت ایک سالار کو قتل کرنے لگا تھا مگر خود مارا گیا۔
یہ سارا راز شارینا کو دے کر کرسٹی نے کہا تھا کہ وہ اس شخص سے ملے گی اور معلوم کرنے کی کوشش کرے گی کہ وہ یہاں تک کیا عزم لے کر آیا ہے، یا اسے کس کام کے لیے بھیجاگیاہے۔
شارینا نے حدید کو بتایا اور حدید نے یہ انتظام کیا تھا کہ کرسٹی اس آدمی سے ملے۔
کرسٹی نے قالین دیکھتے دیکھتے اس آدمی سے سرگوشی میں جو بات کی تھی وہ اسی ملاقات کا وقت اور جگہ کا تعین کیا تھا، اس کے مطابق وہ وہاں پہنچ گیا تھا، کرسٹی نے اس آدمی کا نام اختمون بتایا تھا ،اس قسم کے نام فرعونوں کے خاندان کے افراد کے ہوا کرتے تھے ،یہ شخص مصری تھا اور اس کا مذہب عیسائیت تھا۔
تم ان دشمنوں کے پاس کیسے پہنچ گئی ہو؟،،،،، اختمون نے کرسٹی سے پوچھا ۔
پکڑی گئی تھی ۔۔۔کرسٹی نے جواب دیا ۔۔۔۔سیموسن بھی میرے ساتھ ہے، ہم ان کے قیدی ہیں لیکن ہمیں کچھ آزادی حاصل ہے اس لیے تم تک پہنچ گئی ہو ،سیموسن وہی آدمی تھا جسے کرسٹی اپنا باپ ظاہر کرتی تھی۔ لیکن وہ اس کا باپ نہیں تھا ۔
اختمون نے اس سے پوچھا کہ وہ پکڑے کس طرح گئے تھے؟
کرسٹی نے اسے پوری تفصیل سے بتایا کہ اسے اس گاؤں میں مسلمانوں کے سپہ سالار کو قتل کرنے یا کروانے کے لئے بھیجا گیا تھا، ایک مصری بدو مسلمانوں کے لشکر کے لیے رسد اکٹھی کرتا پھرتا تھا اس کے جال میں ایسا آیا کہ وہ کسی نہ کسی سالار کو قتل کرنے کے لیے تیار ہو گیا، لیکن عین اس وقت جب وہ سالار اس کے تیر کے نشان میں تھا وہ پکڑا گیا ،اور اس کے بعد کرسٹی بھی اور سیموسن بھی پکڑے گئے ۔
یہاں کیسی گزر رہی ہے ؟،،،،،اختمون نے پوچھا۔
یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔۔۔ کرسٹی نے جھوٹ بولا۔۔۔ مجھ جیسی لڑکی کسی کے ہاتھ چڑھ جائے تو کیا بغیر پوچھے یہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ اس کی کیسی گزر رہی ہے، میری ہر رات کسی نہ کسی سالار کے خیمے میں گزرتی ہے ،کچھ راتیں سپہ سالار کے خیمے میں گزاری ہے لیکن وہ بڑا محتاط آدمی ہے کچھ دیر بعد خیمے سے نکال دیتا اور اپنے پاس نہیں رکھتا تھا، میرے ارادوں میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں آئی میں ان کے سپہ سالار کے قتل کے لئے بے تاب اور بے قرار ہوں لیکن موقع نہیں ملتا، میں نے ان سب پر اپنا اعتماد جما رکھا ہے پھر بھی کسی سالار کے خیمے میں مجھے بلایا جاتا ہے تو پہلے میری جامہ تلاشی ہوتی ہے کہ میرے ے پاس کوئی ہتھیار تو نہیں یہ کام صرف تم کر سکتے ہو۔
لیکن اصل مسئلہ کون حل کرے گا ۔۔۔اختمون نے پوچھا ۔۔۔مجھے سپہ سالار کے خیمے تک کون پہنچائے گا ،میں نے دیکھ لیا ہے کہ باہر اسے قتل کرنا ناممکن ہے میں نے اسے دور سے دیکھا ہے وہ جہاں بھی جاتا ہے محافظ گھوڑ سواروں کے حصار میں ہوتا ہے، آخر یہ طریقہ آزمایا کہ قالینوں کا تحفہ پیش کیا جائے شاید اس طرح اس کے خیمے میں داخلے کا موقع نکل آئے لیکن یہ موقع بھی ممکن نظر نہیں آتا ،ان لوگوں نے بتایا ہے کہ سپہ سالار کوئی تحفہ قبول نہیں کرتا اور اس کے خیمے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں۔
اگر تمہیں اس کے خیمے تک پہنچا دو تو اسے کس طرح قتل کرو گے؟،،،،،،،، کرسٹی نے پوچھا۔۔۔۔ اور اسے خبردار کیا قتل تو کر لو گے لیکن وہیں پکڑے جاؤ گے اور مارے جاؤ گے۔
زیادہ امکان تو یہی ہے۔۔۔۔ اختمون نے کہا۔۔۔ لیکن میں بچ نکلنے کی صورت بھی پیدا کرسکتا ہوں، ہم دو آدمی قالین لے کر اس کے خیمے میں جائیں گے اور قالین زمین پر بچھا دیں گے ،وہ دیکھنے کو جھکے گا یا نہ بھی جھکے تو پیچھے سے خنجروں کے وار کرکے نکل جائیں گے اور جب تک باہر والوں کو پتہ چلتا ہے کہ ان کا سپہ سالار خیمے میں قتل ہو گیا ہے ہم اس خیمے سے دور نکل چکے ہونگے، اور آگے علاقہ ایسا ہے جہاں ہم یوں غائب ہو جائیں گے جیسے زمین نے ہمیں نگل لیا ہو ،اگر پکڑے گئے تو ہم دونوں آدمی مرنے کے لئے تیار ہیں، ہمیں اتنا زیادہ معاوضہ دیا گیا ہے جسے تم ایک خزانہ کہہ سکتی ہو، یہ ہماری آئندہ دو تین نسلوں کے لئے کافی ہوگا۔ یہ نہ بھی ہوا تو تم جانتی ہو کہ ہم مذہب کے جنونی ہے اسلام کا راستہ اپنی جان قربان کرکے روکنا ہے،،،،،،،، کہو ہماری کچھ مدد کر سکتی ہو؟
کرسکتی ہوں۔۔۔۔ کرسٹی نے کہا ۔۔۔کل صبح جب سورج افق سے اوپر اٹھ رہا ہو گا تم یہیں آ جانا میں تمہیں بتاؤں گی کہ راستہ صاف ہوا ہے یا نہیں،،،،،،،، یہ سوچ لو کہ میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں گی۔
ہمیں خیمے کے اندر تمہاری ضرورت بھی نہیں ہوگی۔۔۔ اختمون نے کہا ۔۔۔مجھے پوری امید ہے کہ اس راز کو اپنی ذات میں ہی دفن کر دو گی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
جب سورج افق سے اوپر اٹھ رہا تھا کرسٹی اور اختمون اسی جگہ کھڑے تھے جہاں ان کی گزشتہ روز ملاقات ہوئی تھی، اس صبح کی ملاقات بہت ہی مختصر تھی، کرسٹی نے اختمون کو بتایا کہ آج وہ زیادہ دیر روک نہیں سکے گی اور صرف یہ بتانے آئی ہے کہ آج جب مسلمانوں کا لشکر ظہر کی نماز پڑھ چکے گا تو اختموں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ اسی جگہ پہنچ جائے جہاں وہ قالین لے کر آئے تھے، کرسٹی نے کہا کہ ان کے پاس قالین ہونے چاہیے وہاں انہیں ایک آدمی ملے گا جو انہیں اپنے ساتھ سپہ سالار کے خیمے تک پہنچا دے گا۔
یہ انتظام تم نے کیسے کیا ہے؟،،،،، اختمون نے پوچھا ۔
مجھ جیسی لڑکی کیا نہیں کرسکتی۔۔۔ کرسٹی نے کہا ۔۔۔میں نے رات سپہ سالار کے خیمے میں گزاری ہے اور اسے بتایا کہ وہ مصر کی قالین کم از کم دیکھ ہی لیں وہ مان تو نہیں رہا تھا لیکن میں نے منوا لیا اور اس نے اپنے ایک محافظ کو کہہ دیا کہ قالین والے آئیں تو انھیں اس کے خیمے میں پہنچا دیا جائے۔
اسی روز ظہر کی نماز حسب معمول پورے لشکر نے باجماعت عمرو بن عاص کی امامت میں پڑھی اور نماز سے فارغ ہوکر عمرو بن عاص اپنے خیمے میں چلے گئے، انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ تین آدمیوں نے قالین زمین پر رکھے کھڑے تھے ،عمرو بن عاص نے ان کی طرف توجہ نہ دیں صرف انہیں دیکھا۔
خیمے میں پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد ایک محافظ خیمے میں داخل ہوا اور بتایا کہ قالینوں والے تینوں آدمی آگئے ہیں، عمرو بن عاص نے کہا کہ انہیں اندر بھیج دیا جائے، محافظ باہر نکلا اور دو آدمی مصلے کے سائز جتنے دوچار قالین اٹھائے خیمے میں داخل ہوئے، عمرو بن عاص نے کہا کہ کھول کر دکھائیں۔
یہ آدمی قالین کھول کر زمین پر بچھانے لگے، ان کا تیسرا ساتھی خیمے کے باہر پہرے پر کھڑے محافظ کے پاس رکا رہا اور اس کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا، وہ اس محافظ کی توجہ خیمے سے ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا، خیمے کے اندر دونوں نے قالین کھول دیے اور سپہ سالار عمرو بن عاص کھڑے ہوکر قالینوں کے اردگرد آہستہ آہستہ ٹہلنے لگے۔
ذرا جھک کر یا بیٹھ کر ان قالینوں کو قریب سے دیکھیں۔۔۔ اختمون نے کہا ۔۔۔ہم یہ قالین بیچنے نہیں آئے، آپکی خدمت میں تحفہ پیش کرنے آئے ہیں، ہمارے پاس کوئی خزانہ نہیں جو آپ کو پیش کریں یہی ہمارا ہنر ہے اور یہی لے آئے ہیں، ان رومیوں نے ہم پر فرعونوں کی طرح حکومت کی ہے، آپ تو ہمارے لئے رحمت کے فرشتے بن کر آئے ہیں۔
عمرو بن عاص ایک قالین پر جھک گئے جیسے اسے بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں ۔
اختمون آہستہ آہستہ ان کے عقب میں آ گیا ،اس کا دایاں ہاتھ کپڑوں کے اندر چلا گیا یہ ہاتھ باہر آیا تو اس ہاتھ میں خنجر تھا ،عمرو بن عاص کی اس کی طرف پیٹھ تھی۔
خنجر اوپر اٹھا اور بیشتر اس کے کہ یہ عمرو بن عاص کی پیٹھ میں اترتا عمرو بن عاص حیران کن تیزی سے جھکے جھکے پیچھے کو مڑے سیدھے ہوئے اور جھپٹ کر اختمون کے اوپر اٹھے ہوئے بازو کی کلائی پکڑ لی اور اس قدر زور سے مروڑی کے اس کے ہاتھ سے خنجر نیچے گر پڑا اور اختمون اتنا طاقتور جوان ہونے کے باوجود اس طرح بل کھا گیا کہ اس کی پیٹھ عمرو بن عاص کی طرف ہو گئی۔
اختمون نے اپنے ساتھی سے کہا کہ نکالو خنجر دیکھتے کیا ہو ،اس کا ساتھی اپنے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالنے لگا تو خیمے کے باہر کھڑا محافظ بڑی تیزی سے خیمے میں داخل ہوا اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی وہ اس قدر پھرتیلا تھا کہ خیمے کے دروازے میں نظر آیا اور دوسرے لمحے اس کی تلوار کی نوک اختمون کے ساتھی کے سینے میں چبھ رہی تھی، محافظ نے اسے خنجر پھینک دینے کو کہا، تو اس نے بڑے اطمینان سے خنجر پھینک دیا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے شاید کوئی آواز پہلے ہی مقرر کر رکھی تھی جو انہوں نے منہ سے نکالی تو محافظ جو اسی آواز کی انتظار میں تھا کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح خیمے میں آیا اور اس شخص کو اپنے قابو میں لے کر اسے نہتا کر دیا ،اختمون عمرو بن عاص کے قابو میں تھا۔
ان کا تیسرا ساتھی جو باہر کھڑا تھا اسے ابھی معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ خیمے کے اندر کیا ہو رہا ہے یہ دیکھنے کے لئے وہ خیمے کی طرف چلا تو دو محافظ مجاہدین نے پیچھے سے آ کر اسے دبوچ لیا ،مجاہدین کے لشکر کے سپہ سالار کو قتل کرنے کی کوشش بری طرح ناکام ہوگئی، کرسٹی نے ان تینوں کو پھنسانے کے لیے بڑا ہی خوبصورت پھندہ تیار کیا تھا، اور اللہ تعالی نے اسے کامیابی عطا فرمائی، شارینا اور اس کے خاوند حدید نے اس کے ساتھ ایسا تعاون کیا تھا جس کے بغیر وہ کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔
عمرو بن عاص نے تمام سالاروں کو بلوایا ۔اختمون اور اس کے ساتھیوں کو باہر لے گئے۔
ننگی تلواروں سے مسلح چار محافظ ان تینوں کے دائیں بائیں اور پیچھے کھڑے ہو گئے۔
اے خوش قسمت سپہ سالار!،،،،، اختمون نے عمرو بن عاص سے کہا ۔۔۔ہم تمہیں قتل کرنے آئے تھے اور یہ قالین تو محض ایک بہانہ تھا تیری خوش قسمتی اور ہماری بدقسمتی کہ ہم کامیاب نہ ہو سکے ،میں نے سنا ہے کہ مسلمانوں کا کردار اور اخلاق بہت ہی بلند اور قابل تعریف ہے، میں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان بخشی کی درخواست نہیں کروں گا صرف یہ درخواست کرتا ہوں کہ ہمیں فوراً قتل کروا دیں ہمیں اذیتیں دے دےکر اور ترسا تڑپا کر نہ مارنا۔
سالاروں کو پہلے ہی معلوم تھا کہ آج کیا ہونے والا ہے وہ سپہ سالار کے بلاوے کے ہی منتظر تھے اطلاع ملتے ہی دوڑے آئے ۔
عمرو بن عاص نے انہیں بتایا کہ یہ درخواست کرتے ہیں کہ انہیں فوراً قتل کر دیا جائے اور ایذا رسانی سے بچایاجائے۔
سالار یہ سن کر خاموش رہے انہیں یہ معلوم تھا کہ ان تینوں کو سزائے موت ہی دی جائے گی، لیکن عمرو بن عاص نے فیصلہ سنایا تو سب ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔
میں تمہیں معاف کرتا ہوں۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔۔تم مجھے قتل کرنے آئے نہیں بلکہ بھیجے گئے تھے، میں تمہیں یہاں بھیجنے والے کو قتل کر آؤں گا۔ تم آزاد ہو واپس جاؤ اور اپنے جرنیلوں اور بزنطیہ میں بیٹھے ہوئے اپنے بادشاہوں کو بتانا کہ مرد میدان میں آ کر لڑا کرتے ہیں، یوں اپنے دشمن کو فریب کاری سے قتل کروانے کی کوشش عموماً شکست کا باعث بنا کرتی ہے۔ انہیں کہنا کہ اسکندریہ کی دیواروں اور قلعوں بندیوں کی پناہ سے باہر آؤ اور لڑ کر ہمیں یہاں سے پسپا کرو، تمہارے پاس اتنی زیادہ فوج ہے جس کے مقابلے میں میرا یہ لشکر کچھ بھی نہیں،آؤ اور اس چھوٹے سے لشکر کو کچل ڈالو۔
یقین نہیں آتا سپہ سالار!،،،،، اختمون نے کہا۔۔۔ تو ہمارے ساتھ کھیل رہا ہے ،ہمارا مذاق اڑا رہا ہے، ہم اسے جذباتی اذیت سمجھتے ہیں، مسلمانوں کے کردار کی تو ہم نے کوئی اور ہی کہانیاں سنی تھیں، ہم قتل ہونے کے لیے تیار ہیں ،تیرے قتل کا عہد ہم نے یہ قبول کرکے کیا تھا کہ ہم زندہ واپس نہیں جا سکیں گے۔
اور میں عہد کر چکا ہوں کہ تم زندہ واپس جاؤ گے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ تم نے ہمارے کردار کی جو کہانیاں سنی ہے ان میں یہ کہانی سب سے زیادہ دلچسپ اور انوکھی ہوگی جو تم باقی عمر لوگوں کو سناتے پھرو گے ۔
اختمون اور اس کے ساتھی حیرت میں ڈوبتے چلے جارہے تھے انہیں بڑی مشکل سے یقین آیا کہ سپہ سالار نے انہیں معاف کردیا ہے۔
مجھے صرف ایک بات بتا دے ائے سپہ سالار!،،،،،، اختمون نے پوچھا۔۔۔ تجھے کس طرح پتہ چل گیا تھا کہ میں خنجر نکال رہا ہوں، کہیں ایسا تو نہیں کہ تجھے پہلے ہی علم تھا کہ ہم تجھے قتل کرنے آ رہے ہیں؟
کیا تم اس پر حیران نہیں ہوئے کہ ہم اتنے تھوڑے ہیں اور کتنی بڑی فوج سے مصر چھین لیا ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ میرا تمہارے قاتلانہ حملے سے بچ نکلا تو معمولی سی بات ہے، ہمیں اپنے اللہ پر بھروسہ ہے اور جسے وہ زندہ رکھنا چاہتا ہے اس کا کوئی سبب پیدا کر ہی دیتا ہے ،ہم کسی کو چوری چھپے قتل نہیں کیا کرتے۔
تو پھر یہ بھی سن لے آئے خوش بخت سپہ سالار!،،،،،، اختمون نے کہا۔۔۔ اسکندریہ بھی تیرا ہے، ہمیں اسقف آعظم قیرس نے تیرے قتل کے لیے بھیجا تھا، میرا خیال ہے کہ ہرقل کی ایک بیوہ مرتینا نے اسے پیغام بھیجا تھا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار کو قتل کروا دوں تو اس کے لشکر کے حوصلے پست ہوجائیں گے، دوسری بات یہ کہ قیرس اور مصر کی فوج کے سب سے بڑے جرنیل تھیوڈور میں اختلاف پائے جاتے ہیں ،دونوں کی نیتوں میں خاصا فرق پیدا ہو گیا ہے اور وہ کسی ایک بات پر متفق نہیں ہوتے ،اسکندریہ کے شہری اپنی فوج سے بیزار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
کیا بزنطیہ سے کمک نہیں آرہی ؟،،،،،عمرو بن عاص نے پوچھا۔
نہیں!،،،،،، اختمون نے جواب دیا۔۔۔۔ بزنطیہ میں کچھ اور ہی چپقلش اور سازشیں چل رہی ہیں جو اسکندریہ پر بھی اثرانداز ہورہی ہے، اسکندریہ میں تو تیرے ساتھ صلح کے معاہدے کی بات ہوتی ہے اگر تو نے اتنے ہی چھوٹے سے لشکر سے بابلیون اور کریون کے قلعے فتح کیے ہیں تو اسی لشکر سے تو اسکندریہ بھی فتح کر لے گا۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے حکم دیا کے انکے قالین انہیں دے دیے جائیں اور انہیں واپس چلے جانے کی اجازت ہے۔
اختمون اصرار کرنے لگا کے وہ قالین واپس نہیں لے جائیں گے۔
لیکن عمرو بن عاص نے کہا کہ اسلام میں جان بخشی کی قیمت وصول کرنا گناہ ہے، اور ہر وہ چیز اسلام میں حرام ہے جو مال غنیمت کے زمرے میں نہیں آتی، اگر قیرس ، یا تمہارا سب سے بڑا جرنیل، یا تمہارا بادشاہ ملنے آئے اور اپنے ساتھ کوئی تحفہ لائے تو وہ میں قبول کر سکتا ہوں ،تمہارا کوئی تحفہ مجھ پر حرام ہے ۔
محافظ دستے کے مجاہدین نے قالین خیمے سے نکالے اور ان کے حوالے کر دیئے تینوں سر جھکائے ہوئے رخصت ہوگئے۔
ان کے جانے کے بعد عمرو بن عاص نے کرسٹی کو بلوایا وہ آئی تو اسے بے ساختہ اور بے دریغ خراج تحسین پیش کیا، پھر پوچھا کہ وہ کیا انعام چاہتی ہے، اگر وہ آزاد ہونا چاہتی ہے تو اس کی یہ خواہش بھی پوری کی جاسکتی ہے۔
نہیں قابل احترام سپہ سالار!،،،،، کرسٹی نے کہا ۔۔۔میں اب آزاد نہیں ہونا چاہتی ،مجھے اسلام میں داخل کرلیا جائے، اور اگر مجھے کوئی مسلمان قبول کرلے تو میں اس کے ساتھ شادی کر کے خوشی محسوس کرو گی، لیکن میں یہ بتا دینا چاہتی ہوں کہ میں ایک آبروباختہ لڑکی ہوں ،میرے خیال میں نے آپ کو قتل ہوجانے سے اس لئے بچایا ہے کہ میں اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتی تھی۔
اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ھے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہماری عورتیں تمہیں اسلام سے ایسا روشناس کروائیں گی کہ تم اپنے آپ کو پاکباز عورت سمجھنے لگوں گی، تمہاری شادی بھی کرا دی جائے گی۔
#جاری_ہے
No comments: