Ads Top

میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے چوتھی قسط


میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفےچوتھی قسط 

 آج پہلی کلاس پروفیسر لقمان زبیری کی تھی سبوخ بڑی دلجمعی سے بظاہر لیکچر سن رہا تھا مگر اسکی عقابی نظریں اپنے شکار کو تاڑ رہی تھیں 
"دانی" سبوخ نے اس کی کہنی ہلائی 
" ہوں " دانی نیم غنودگی کی کیفیت میں تھا 
"وہ سامنے لیفٹ سائیڈ پیچ اسکارف والی کو دیکھ رہے ہو" سبوخ نے کہا 
 " ہاں کیوں....ایک تو یہ خود اتنی ہلدی کی طرح پیلی ہے اوپر سے اسکارف بھی ایسا پہن رکھا ہے" دانی کو زرا بھی پسند نہیں آئی تھی 
 " ابے گھامڑ.....اسے پسند کرنے کو کون کہہ رہا ہے .....ہمارا شکار یہی ہے مامون ہوشیار رہنا کلاس کے بعد" سبوخ نے بتایا 
" اور اگر یہ مر مرا گئی تو" دانی نے خدشہ ظاہر کیا 
"ارے تو ہم کونسا ڈریگن پھینک رہے ہیں .....کچھ نہیں ہوگا" مامون نے تسلی دی 
 کلاس ختم ہوئی سبوخ نے مامون کو اشارہ کیا مامون نے جیب سےکچھ نکالا ٹہلتا ٹہلتا اپنے شکار کی طرف بڑھا اور اپنا ٹاسک پورا کرکے واپس آگیا 
" اب دیکھنا اس کی شکل" دانی کو سوچ کے ہی مزہ آرہا تھا 
 "ایکسکیوزمی مس......یہ آپ کے بیگ کے اوپر کیا ہے" سبوخ نے اسے روک کے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا اس لڑکی کا نام یمنی تھا 
 اور دانی کی سوچ کے عین مطابق یمنی صاحبہ نے ایک زوردار چیخ ماری تھی مامون نے اس کے بیگ پہ دو پلاسٹک کی چھپکلیاں چپکا دیں تھیں یمنی آنکھیں بند کئے بدستور چیخ رہی تھی سبوخ کے چہرے پہ بڑی مسرور انگیز مسکان تھی بڑے دنوں بعد آج اس نے اپنے موڈ کے مطابق مستی کی تھی دانی کے جناتی قہقہے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے 
پھر گل مہر کا دماغ خراب ہوتے بھی ذیادہ دیر نہیں لگی تھی ان کی ٹھیک شامت آئی تھی 
 "اوہ ....خانہ خراب چیخ مارنےسے پہلے یہ تو دیکھ لو کہ چھپکلی اصلی ہے کہ نقلی توبہ لڑکیوں کا نام ہی خراب کردیا اور تم تینوں شرم کرو " گل مہر گھورتے ہوئے بولی 
" کیوں جی ہم نے کیا کیا ہے?" دانی دانت نکالتے ہوئے بولا 
 "تم لوگوں کو کس نے بولا ہے ہر جگہ اپنی فوٹو لگاتے پھرو اور صرف دو اس بڑے شیطان کی کیوں نہیں لگائی" گل مہر نے چھپکلی کو ان دونوں سے مشابہت دی تھی 
 چھپکلیاں تعداد میں صرف دو تھیں یعنی مامون اور دانی اس لئے مہر نے ایسا کہا تھا سبوخ کا قد ان دونوں سے نکلتا ہوا تھا دانی کی ہنسی کو فورا بریک لگا تھا 
" مطلب ہم چھپکلی کے جیسے ہیں" دانی صدمے سے بولا 
" ظاہر ہے تبھی تو اپنے پوسٹر لگاتے پھر رہے ہو" گل مہر شانے اچکا کے بولی 
"اب آپ ذیادتی کر رہی ہیں" مامون نے کہا 
 " ذیادتی....اوہ مسٹر ابھی تو میں نے کچھ کہا ہی نہیں ہے آئندہ کے بعد اگر تم لوگوں نے کوئی ایسی حرکت دوبارہ کی تو تم لوگوں کو کاکروچ بنا کے کسی اصلی چھپکلی کو کھلا دوں گی سمجھے" گل مہر نے تڑی لگائی اور دھپ دھپ کر کے چل دی 
"توبہ یہ تو پوری تھانیدارنی ہے" مامون کانوں کو ہاتھ لگا کے بولا 
 "اوہ خاناں ....آج تو مروا ہی دیا تھا " دانی سبوخ کی طرف مڑتے ہوئے بولا جس کے لبوں پہ دھیمی دھیمی مسکان تھی 
 "اوہ ہیلو....وہ پٹھانی لطیفے نہیں سنا کے گئی جو تو مسکرا رہا ہے وہ دھمکی دے کے گئی ہے" دانی نے کہا 
"اچھا مجھے تو لگا جیسے ویرانے میں بہار آگئی ہے" سبوخ بولا 
"کیا.....او بھائی طبیعت تو نہیں خراب ہوگئی" مامون حیرانگی سے بولا 
" سب ٹھیک ہے چلو لائبریری چلتے ہیں" سبوخ کھڑا ہوتے ہوئے بولا تھا 
نیلی سمندری آنکھوں کا جادو چل گیا تھا 
_____________________________________
 "پلوشے کیا بات ہے کچھ پریشان ہو" امیرم کافی دیر سے دیکھ رہے تھے پلوشے کچھ پریشان سی ہے 
"خان بات ہی پریشانی والی ہے اب اس عمر میں یہ سب.....ابھی تو بچیوں کی شادی کرنی  تھی ہمیں پھر یہ دوبارہ سے اولاد کا چکر کتنا عجیب لگے گا" پلوشہ فکرمندی سے بولیں تھیں
 " پلوشے.....یہ تو اللّه کی دین ہے وہ چاہے جب بھی دے " امیرم انہیں تسلی دیتے ہوئے بولے تھے 
"پر بچیاں کیا سوچیں گی " 
 "ہماری بچیاں اللّه کے فضل سے بہت سمجھدار ہیں ......اور یہ کوئی انوکھی بات تو ہے نہیں تم فکر نہ کرو" امیرم نے انہیں اطمینان دلایا تھا 
 اتنے برس بعد خدا ایک بار پھر انہیں اولاد سے نوازنے جا رہا تھا پلوشہ پریشان تھیں مگر امیرم پرسکون تھے 
" آپ نے پرویز لالہ کو کیا جواب دیا" پلوشہ کو خیال آیا تو پوچھ بیٹھیں
 "جواب کیا دینا....مہر کبھی راضی نہیں ہوگی فی الحال میں نے بھائی کو ساری صورتحال بتا دی ہے" امیرم خان نے بتایا 
 مہروز خان کی ساری کارگزاریوں سے گل مہر اور وہ واقف تھے آنکھوں دیکھی مکھی بھلا کون نگلتا ہے 
 "خان حد ہوتی ہے وہ لڑکی ذات ہے آپ اس کی ہر بات مانتے ہو ہمارے ہاں بھلا کب لڑکیوں سے اس طرح پوچھتے ہیں" پلوشہ کو پسند نہیں آیا تھا 
 "حد کرتی ہو پلوشہ جانور نہیں ہے وہ ہماری بچی ہے خدا اور رسول کا بھی یہی حکم ہے اور وہ کبھی غلط نہیں کہتی ......تم ذیادہ مت سوچو" امیرم کچھ ناگواری سے بولے تھے 
 "ہاں بھئی ....صاحبزادی کی شان میں کوئی کچھ نہ بولے گستاخی ہوجائیگی" پلوشے غصے سے بڑبڑاتی رہ گئیں
_____________________________________
" مہروز...." 
"جی بابا ....." مہروز کچھ ناگواری سے بولا اس وقت وہ نک سک سے تیار باہر جانے کو تیار تھا 
" ادھر آؤ کچھ بات کرنی ہے تم سے" پرویز نے اسے بلایا
" کیا بات ہے...صبح نہیں ہوسکتی بات کیا" مہروز کچھ چڑ کے بولا تھا 
 "نہیں ابھی بات کرنی ہے .....امیرم خان کا فون آیا تھا آج" کہہ کر پرویز نے اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا 
" تو پھر" 
 " مہروز.....اپنی سرگرمیاں محدود کرلو تمہارے سارے کارناموں کی خبر ہے امیرم کو .....اس طرح وہ کبھی ہمیں رشتہ نہیں دے گا " پرویز خان بولے 
 " نہیں دینا تو نہ دیں......ایک ان کیلئے میں اپنے کام نہیں چھوڑ سکتا ویسے بھی گل مہر کوئی آسمان نہیں اتری ہوئی" مہروز ناگواری سے بولا 
 " مہروز.....تم اچھی طرح جانتے ہو یہ شادی ہونا کتنا ضروری ہے میں تمہاری حرکتوں سے خود تنگ آگیا ہوں.....اپنے آپ کو محدود کرلو میں تمہیں منع نہیں کررہا مگر کم ازکم اپنے علاقے کی حدود میں یہ سب نہیں چلے گا اب " پرویز خان نے وارننگ دی تھی 
 "بابا....ایک بات آپ بھی سن لیں شادی کروانی ہے نا آپ کو تو ہوجائیگی چاہے جیسے بھی ہو" مہروز چادر جھٹکتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا 
_____________________________________
"مہر...." گل رخ نے پکارا 
 "ہوں ....کیا بات ہے" مہر بال سلجھاتے ہوئے بولی تھی رات کو سونے سے پہلے وہ نہاتی ضرور تھی 
"مہر ....ایک بات پوچھوں " گل رخ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے بولی تھی 
 " کیا بات ہے ....رخ کچھ پریشان ہو" آئینہ میں گل رخ کا عکس دیکھتے ہوئے گل مہر نے پوچھا تھا 
" مہر ....تم یونی جاتی ہو کیا یونی کی دنیا سچ میں بہت حسین ہوتی ہے ? " گل رخ نے پوچھا 
" یہ کیسا سوال ہے بھلا...." گل مہر حیرانگی سے بولی 
"بتاؤ....مہر" 
 "اگر تمہیں لگتا ہے کہ یونی لائف اس لئے خوبصورت ہے کہ ہمیں ڈیلی ہوم ورک نہیں ملتا اسکول کی طرح یا لرننگ کو لیسن نہیں ملتا تو ایسا کچھ نہیں ....یونی لائف ایک ڈیفرنٹ اسٹیج ہے پریکٹیکل لائف میں اینٹر ہونے کیلئے ہیلپ فل" مہر نے کہا 
" اچھا....مگر" گل رخ چپ ہوگئی تھی 
"مگر کیا????" مہر نے پوچھا 
"تم ڈانٹوگی تو نہیں" گل رخ نے پوچھا 
"تم بتاؤ تو سہی" مہر کچھ چونک گئی تھی 
 " وہ جاذب ہمدانی کہتے ہیں....یونی لائف بہت خوبصورت ہے بہت اچھے ریلیشن بنتے ہیں لڑکے اور لڑکی کے درمیان ...." گل رخ بولی 
"یہ جاذب کون ہے بھئی" مہر نے پوچھا 
" ہمارے فزکس کے پریکٹیکل ٹیچر " گل رخ نے بتایا
 "حد ہے بھئی....ایسے لوگوں اور ان کی سوچ کی وجہ سے تعلیمی اداروں کا تقدس پامال ہورہا ہے....شرم آنی چاہئیے انہیں جو یہ بات کرتے ہیں اور یہ تم اتنا گہرائی میں کیوں سوچ رہی ہو " گل مہر نے پوچھا 
 " مہر....وہ مجھے دیکھ کے ہی ایسی باتیں کرتے ہیں میرا دل نہیں کرتا اب اسکول جانے کو " گل رخ نے بتایا
"شاباش....گل مہر کی بہن ہو کے تم ڈر رہی ہو" گل مہر کو غصہ ہی آگیا تھا 
"میں اس سے نہیں بدنامی سے ڈرتی ہوں مہر
 ....میں ڈرتی ہوں کہیں اس کی لچھے دار باتوں میں آ کے نا الجھ جاؤں پھر بابا کا کیا ہوگا" گل رخ تھکے تھکے لہجے میں بولی 
بیٹی ہونا بھی بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے 
 "تمہیں پتہ ہے گل رخ..... یہ جو نامحرم مرد کی محبت ہوتی ہے نا یہ مکڑی کے جالے کی طرح ہوتی ہے ایک بار اس میں جو اتر جاتا ہے ہمیشہ کیلئے اس میں پھنس جاتا ہے لاکھ کوشش کرو نکلنے کی بظاہر نرم مگر اس کی مضبوط گرفت آذاد ہی نہیں ہونے دیتی .....ہمارے پورے وجود پہ ثبت ہوکے رہ جاتے ہیں اس کے نشان ....دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی رہائی نہیں ملتی ہمارا وجود اسی جالے کی گرفت میں ہی گلتا رہتا ہے" گل مہر کمبل درست کرتے ہوئے بولی 
 گل رخ یک ٹک اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی ....گل مہر کے چہرے پہ اس وقت بہت نرم اور گداز سا تاثر تھا 
"مہر...کبھی تمہیں اس جالے نے اپنی گرفت میں لینے کی کوشش نہیں کی" گل رخ نے پوچھا 
وہ لڑکپن سے نوجوانی کی سرحد پہ قدم رکھ رہی تھی اس عمر میں یہ سب بہت فیسینیٹ کرتا ہے 
کسی کا نگاہ بھر کے دیکھنا 
کسی کا سرہانا
کسی کا یونہی مسکرا دینا 
 "میرا دھیان اگر کبھی ہوچکولے کھانے بھی لگتا تھا نا گل رخ تمہاری عمر میں تو اکا جان کی بات میرے کانوں میں گونجتی تھی
 " مہر بچے....میں نے تمہارے لئے یہ ننھی سی کرن روشن کی ہے اب اسے شمع کرنا ہے یا بجھا دینا ہے.....اس راستے پہ چل کے دوسروں کی رہنمائی کرنی ہے یا پھر پیچھے آنے والوں کیلئے بند گلی رکھنی ہے فیصلہ تمہیں کرنا ہے" 
رخ  اکا کی یہ نصیحت میں کبھی نہیں بھولتی مجھے جہالت کے اندھیرے مٹانے ہیں میرا ایک غلط قدم میرے بعد آنے والیوں کیلئے زندگی اور عذاب کردے گا جو مجھے منظور نہیں....گل مہر اتنی خود غرض نہیں" گل مہر صاف گوئی سے بولی 
" اور اگر کبھی کوئی ایسا آگیا تو...." گل رخ نے سوال کیا 
 "ان راستوں پہ کچھ نہیں ہے گل رخ اس لئے ایسے سوال نہ کرو.....اب سوتے ہیں رات بہت ہوگئی ہے" گل مہر کھڑی ہوگئی تھی 
 کسی کی سنہری کانچ جیسی آنکھیں دھیان میں آئیں تھیں .....گل مہر نے سر جھٹک کے آنکھیں موند لیں تھیں
_____________________________________
 جاری ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.