Ads Top

میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے پانچویں قسط


میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے پانچویں قسط 

 رات اپنے پر پھیلا چکی تھی چاندنی قطرہ قطرہ پگھل کے رات کو روشن کر رہی تھی سرد ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں کہیں کہیں گلاب اور موتیے کی بھینی بھینی مہک نے ماحول پہ سحر سا طاری کردیا تھا سبوخ نے ایک گہری سانس لے کے گلوں کی مہک اندر اتاری ہوا اٹھکیلیاں کرتے ہوئے اس کے سنہرے بال ماتھے پہ بکھیر رہی تھی 
"اور ان لمحوں میں کسی مانوس اجنبی کو سوچنا کتنا اچھا لگتا ہے?" 
سبوخ کے دل کے تار آج پہلی بار کسی کو دیکھ کے بج اٹھے تھے 
پہلی بار اسے احساس ہوا تھا محبت کی نرماہٹ کا نرم روئی کا 
اور یہ محبت ہوئی بھی بھلا کس سے?
صاحبزادی گل مہر خانم سے 
جس کا ہر انداز اسے پتھر ظاہر کرتا تھا 
 سبوخ ایک ماہ سے اسے دیکھ رہا تھا بظاہر وہ چپ چاپ اپنے کام میں مگن رہتی تھی لیکن جہاں کوئی کسی سے پنگا لیتا تو مہر کے اندر کی تھانیدارنی فورا جاگ جاتی تھی 
سبوخ کو وہ نامحسوس انداز میں مسحور کرتی جارہی تھی 
کوئی کشش سی تھی جو اسے مائل کر رہی تھی 
تو بالاخر سبوخ خان آفریدی کے دل میں محبت کے نام کا پھول کھل چکا تھا 
______________________________
"یہ گل رخ ...تیار نہیں ہوئی اب تک" پلوشہ نے گل مہر سے پوچھا 
"نہیں" گل مہر نے ایک لفظی جواب دیا 
"کیوں" 
 "ایگزام ہونے والے ہیں اس کے....اور ویسے بھی آپ کی طبیعت خراب ہے تو گھر میں کسی کو تو ہونا چاہئیے نا " گل مہر ناشتے کے برتن سمیٹتے ہوئے بولی
 "دیکھا پلوشے میں نے کہا تھا نا ہمارے بچے بہت سمجھدار ہیں ......تم خواہ مخواہ میں ہی پریشان ہورہی تھی " امیرم خان بولے 
 "اس لڑکی سے تو مجھے کسی قسم کی عقلمندی کی امید نہیں ہے خان.....اب یہی دیکھ لیں رخ کے ایگزام ہونے والے ہیں اور اسے گھر میں بیٹھنے کا بول رہی ہے" پلوشہ کی بات پہ گل مہر نے سر پکڑ لیا تھا 
 " اوہ مورے....کیا کرتیں ہیں آپ پیپرز کی تیاری گھر میں کرتے ہیں اسکول کا سارا سلیبس مکمل ہوچکا ہے اب کیا کرے گی وہ جا کے" گل مہر نے چبا چبا کے کہا 
"بس یہ تو اپنی من مانی ہی کرے گی ....." پلوشے چڑ گئیں تھیں
"آج بھابھی کا فون بھی آیا تھا خان" پلوشہ نے بتایا 
" اچھا....سب خیر تو ہے نا وہاں" امیرم نے پوچھا 
" جی بس...." پلوشہ چائے کے کپ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں وہ کچھ آزردہ سی تھیں 
"کیا بات ہے ?" امیرم خان نے فورا محسوس کیا تھا 
 " خان..بھابھی بول رہیں تھیں ...اتنے سال بعد اگر بچہ پیدا کرنے ہی لگی ہو تو اب کی بار لڑکا پیدا کر لینا تاکہ تمہارا سہارا. بنے" پلوشہ دھیرے سے بولیں تھیں 
مگر گل مہر سن چکی تھی 
 "آپ کہہ دیتیں نا ان سے انہوں نے کئے ہیں نا چار بیٹے پیدا کونسا سہارا بن رہے ہیں ان کا ....الٹا پورے خاندان کا نام بدنام کر رکھا ہے .....اور یہ نصیحت وہ گل مینے کو بھی کردیتی نا وہ بھی تو دو بیٹیاں پیدا کرچکی ہے" گل مہر غصے میں آئی تو بولتی چلے گئی 
 " دیکھا.....خان اس لڑکی کی زبان یہ میرے سامنے رہی نا تو میرا بی پی شوٹ کرجائے گا" پلوشہ اپنا سر تھامتے ہوئے بولیں تھیں 
 " اس لئے گل رخ کو رکنے کا بولا ہے....پتہ مجھے نہیں برداشت ہوتی میں آپ سے پھر بھی کہتی ہیں گل مہر عقل مند نہیں.....چلیں اکا دیر ہورہی ہے" گل مہر کھڑے ہوتے ہوئے بولی 
______________________________
سبوخ آفریدی کی آج گویا دل کی کلی کھل گئی تھی 
براہ راست نہ سہی بل واسطہ ہی سہی 
وہ مخاطب تو ہوئے 
 آج پروفیسر زبیری کی کلاس میں ڈسکشن تھی سوشل میڈیا اکاؤنٹس پہ لڑکیوں کی طرف سے گل مہر بول رہی تھی جبکہ لڑکوں کی طرف سے سبوخ آفریدی بول رہا تھا 
 " ہمارے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہمارے آئی ڈی کارڈ کی طرح ہونا چاہئیے فل پرائیویسی سے.....جن کا پتہ صرف ان کو ہوتا ہے جن پہ ہم اعتبار کرتے ہیں مگر بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم سوشل میڈیا پہ دوستی اور سوشل ازم کے نام پہ ہر ایک سے اور ہر کسی سے ریلیشن کرلیتے ہیں بنا جانے پہچانے اور پھر نقصان اٹھاتے ہیں" گل مہر ہاتھوں میں پین گھماتے ہوئے بولی تھی 
 "ایسا ضروری تو نہیں ہوتا نا ہر کیس میں یہ ہوتا ہے سوشل میڈیا ایکچوئلی ریلیشنز کو گلوبل پوائنٹ پہ ڈیویلپ کرنے کا نام ہے ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کا نام ہے" سبوخ نے اس کے اعتراض کا جواب دیا 
 " معذرت کے ساتھ ...مگر یہ سب کہاں ہوتا ہے یہاں تو یہ عالم ہے کہ اگر آج کسی کو اس سوشل میڈیا نے سر پہ بٹھا رکھا ہے تو رات تک اسے اس شہرت کے آسمان سے اتار بھی دیا جاتا ہے اور پھر پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ گیا کہاں اور پھر اس سے جو اخلاقی برائیاں پیدا ہورہی ہیں اس کا کیا?" گل مہر نے سوال اٹھایا 
 "اس سلسلے میں تو پیرنٹس کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے نا کہ وہ چیک اینڈ بیلنس رکھیں" سبوخ نے جواب دیا 
 " اسے بھی دور جدید کا کمال کہیں کہ انٹرنیٹ کی تار کے زریعے دنیا بھر سے جڑے رہنے والے ہفتوں ہفتوں تک ساتھ رہنے والے ماں باپ اور بہن بھائی سے بے خبر رہتے ہیں اور ماں باپ بھی ماڈرن ازم کے نام پہ اولاد کو ڈھیلا چھوڑ دیتے ہیں .....اصل میں جب تک ہم اپنے آپ سے اپنے اصل سے کٹے رہیں گے تب تک یہ چیزیں درست نہیں ہوں گی "گل مہر نے سبوخ کو گھورتے ہوئے جواب دیا تھا 
 "اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کو چھوڑ کے ہم پتھر کے دور میں چلے جائیں " سبوخ نے طنز کیا 
 "تو ابھی کونسا ہم ترقی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں ....یہی حالات رہے تو ایک دن ہمارا حال پتھر کے دور سے بھی برا ہے کہ جب انسان کے رشتے ناطے مادی ضرورتوں پہ قربان کردئیے جائیں تو پھر انسانیت اپنی معراج سے پستی میں گرجاتی ہے ...ہماری معراج ہمارے روایات سے جڑے رہنے میں ہے ...ٹیکنالوجی کااستعمال اگر حد میں رہتے ہوئے کیا جائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں اور اگر کسی قسم کی حدبندی نہ کی گئی تو سڑکوں پہ پارکوں میں یہاں تک درسگاہوں میں بھی جس قسم کے تماشے ہورہے ہیں آزادخیالی کے نام پہ وہ صرف تباہی کی داستان ہے اور بس....." گل مہر نے بات ہی ختم کردی تھی 
اور اس کے ساتھ ہی کلاس بھی ختم ہوگئی تھی 
 "ابے سالے یہ کیا بونگیاں مار رہا تھا....اس نے کتنے آرام سے ہمارے خان کو کلین چٹ دے دی " دانی سبوخ کو پنچ مارتے ہوئے بولا 
" اور اس نے لے بھی لی" مامون گھورتے ہوئے بولا 
" تو کونسا غلط کہہ رہی تھی وہ اس کا لفظ لفظ درست تھا" سبوخ نے حمایت کی تھی 
" ہیں اتنا ٹھنڈا خان...." دانی حیران ہوتے ہوئے بولا 
 " بیٹا آج جو اس نے ٹریلر شو کیا ہے نا صاف لگ رہا ہے یہ ایگزامز میں بھی ٹاپ کرے گی ....تو بھول جا اپنی پوزیشن" مامون نے پیشن گوئی کی 
 "تو اپنی کالی زبان بند ہی رکھ .....اس کی حمایت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں اپنی پوزیشن بھول جاؤں گا جو چیز میری ہے وہ کسی اور کی نہیں ہوسکتی" سبوخ قطعیت سے بولا 
" پلیٹ میں رکھ کے نہیں ملنے والی پوزیشن اس بار بڑی ٹکر کا مقابلہ ہوگا" دانی نے کہا 
" پھر تو اور بھی مزہ آئے گا....چلو اب لائبریری چلتے ہیں" سبوخ کھڑا ہوتے ہوئے بولا تھا 
 " پہلے کینٹین چلتے ہیں اتنی گرما گرم بحث کے بعد گرما گرم چائے اور سموسے تو ہونے ہی چاہئیے نا" دانی نے کہا
 "چل بھئی پہلے کینٹین ہی چلتے ہیں....یہاں زبان ہماری سوکھ گئی تھی بحث کرکے اور بھوک اس کو لگ رہی ہے چل بھائی" سبوخ نے اسے گھورتے ہوئے کہا تھا 
______________________________
" آج تو مہر تم نے کمال کردیا" سونیا سموسوں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے بولی تھی 
" ایسا بھی کیا کردیا میں نے" مہر نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا 
"سبوخ آفریدی کو تو بالکل چپ ہی کرادیا تم نے یونی کا ٹاپر رہ چکا ہے وہ " سونیا نے بتایا 
" تو کوئی غلط بات تو نہیں کی نا" مہر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا 
 " ویسے لڑکیوں مجھے لگتا ہے کہ یہ سبوخ آفریدی جان بوجھ کے آج تم سے بحث ہارا ہے" کومل نے کہا 
" کیوں میں کیا اس کے ماموں کی بیٹی ہوں جو وہ ہار گیا" گل مہر چڑ کے بولی تھی 
 " یار تھانیدارنی.... تم نے نوٹ نہیں کیا وہ جب بھی تمہیں دیکھتا ہے تو اس کی آنکھوں میں جیسے سو واٹ کے بلب روشن ہوجاتے ہیں " کومل نے مزے سے کہا 
 " کیا.....تمہارا دماغ چل گیا ہے کومل کیوں سر پھڑوانا ہے اپنا" گل مہر کے تو تلوے پہ لگی اور سر پہ بجھی 
 " سچ میں مہر مجھے بھی ایسا لگتا ہے ورنہ سبوخ آفریدی کسی کو نہیں بخشتا ....پھر تمہارے ساتھ یہ رعایت کیوں ....تم کبھی غور تو کرو" سونیا نے کہا 
 "بہت ہوگئی بکواس....اول تو ایسا کچھ نہیں ہے اور اگر ایسا ہوا بھی تو یقین کرو دس منٹ بھی نہیں لگاؤں گی اس کا فیوز اڑانے میں" گل مہر کے تیور انتہائی خطرناک تھے 
 " کہیں ایسا تو نہیں مہر تم بچپن سے انگیجڈ ہو آخر تم لوگوں کے ہاں ایسا ہی ہوتا ہے نا " کومل نے پوچھا 
 " ایسا کوئی سلسلہ نہیں میرے اکا جان ان رواجوں پہ کان نہیں دھرتے اس لئے ایسا کچھ نہیں" گل مہر نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا 
" اس کا مطلب ہے سبوخ آفریدی کا چانس بن سکتا ہے" سونیا شرارت سے بولی 
"سونیا..." گل مہر نے ناراضگی سے کہا 
 "یار اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے اگر وہ رشتہ بھیجتا ہے تو تم دونوں کی شادی ہو بھی سکتی ہے جب کہ تمہارے اکا بھی خاصے ماڈرن ہیں" سونیا نے کہا 
 " ماڈرن ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اکا ہر کسی کا رشتہ قبول کرتے پھریں اور ویسے بھی یہ ان کی مرضی ہے جو اکا فیصلہ کریں گے وہی میری زندگی کا فیصلہ ہوگا" گل مہر سادگی سے بولی 
" مطلب تم سبوخ کے حق میں ووٹ نہیں دوگی اگر ایسا ہوا" کومل نے پوچھا 
 "جو ہے نہیں تم لوگ اس بارے میں کیوں بحث کررہی ہو ....ایک بات اچھی طرح سن لو نہ سبوخ نہ کوئی اور میرا ووٹ کسی کے حق میں نہیں ہوگا کیونکہ اس بارے میں فیصلہ کرنے کا حق میرے ماں باپ کو ہے اور بس" گل مہر کھڑی ہو کے بولی
" کدھر...." سونیا نے پوچھا 
"لائبریری" گل مہر نے کہا 
 "اوہ خان صاحب بھی ابھی لائبریری کی طرف گئے ہیں.....جاؤ بھئی ایک ملاقات اور سہی" سونیا شرارت سے بولی 
" شٹ اپ" مہر نے اسے گھورتے ہوئے کہا اور چلی گئی 
" کومل....اس لو اسٹوری کا کیا ہوگا....یہ تو پٹھے پہ ہاتھ ہی نہیں رکھ رہی" سونیا نے کہا 
" کچھ تو ہوگا ہی....بس جو بھی ہو اچھا ہی ہو" کومل نے دل سے کہا تھا
" لیٹس سی" سونیا سوچتے ہوئے بولی نظریں دور جاتی ہوئی مہر پہ تھیں
____________________________________
 جاری ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.