Ads Top

میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے تیسری قسط


میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے 
تیسری قسط 

 اپنے پھوڑے کی طرح دکھتے سر کو سنبھال کے وہ بمشکل اٹھ بیٹھی تھی اسے کچھ نہیں یاد آرہا تھا کہ وہ یہاں کیسے پہنچی تھی 
"تم......!!!" کمرے میں داخل ہوتے شخص کو دیکھ کے اس کا دماغ ہی گھوم گیا تھا 
 "میں بھی کہوں اس وادی میں چھوٹے خان کے علاوہ کون اتنا غیرت سے عاری ہوگیا ہے جو دوسروں کی عزتوں پہ ہاتھ ڈالتا پھرے" وہ چٹخ کے بولی تھی 
 " جتنا چیخنا ہے چیخ لو افسوس کہ کچھ ہی لمحوں میں تم اس لائق ہی نہیں رہوگی"مہروز خان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی 
 " ٹھیک کہتی تھی گل مہر ....چھوٹا خان انسان نہیں شیطان ہے .....میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی مہروز خان" گل شفا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بولی تھی 
 " زندہ بچو گی تو کچھ کروگی نہ اور وہ تمہاری گل مہر ایک دن اس کا بھی یہی انجام ہوگا " مہروز سرد مہری سے بولا تھا 
گل شفا کی آنکھیں سفید پڑ گئیں تھیں 
شکاری پھر شکار کرچکا تھا 
 رات کے اندھیرے میں وادی کے پرہول سناٹے میں کسی کلی کے چٹخنے کی آواز دور تک پھیلی تھی 
صبا نے مایوسی سے ان آوازوں کو سنا اور سر جھٹک کے رخ بدل لیا 
_____________________________
 "یہ لڑکا اور کچھ نہیں صرف میری جان جلانے کیلئے یہ حرکتیں کر رہا ہے نہیں سنبھالنا یہ سب تو منع کردے وہ شمریز خان ڈاکٹری کے نام پہ ادھر بیٹھا اور یہ پہلے ایم بی اے کیلئے بیٹھا تھا ....اب یہ نئی سوجھی ہے سیاسیات میں ماسٹرز کی ....ایک بار بتادو سبوخ آفریدی کیا چاہتے ہو" شہباز آفریدی غصے سے پھنکار رہے تھے 
 "بابا جان میں کوئی ڈرامے نہیں کر رہا ....آپ مجھے سیاست میں دھکیلنا چاہتے ہیں تو کم ازکم مجھے کچھ معلوم تو ہو اور صرف دو سال کی ہی تو بات ہے جب تک شمریز بھی فارغ ہوجائے گا اور ابھی آپ کونسا اکیلے ہیں بہزاد لالہ ہیں نا آپ کے ساتھ" سبوخ نرم لہجے میں بولا تھا 
 "تم سچ کہہ رہے ہو یہ نا ہو دو سال بعد پھر کوئی نیا سوشہ چھوڑ رہے ہو" شہباز آفریدی نے یقین دہانی چاہئیے 
ایک تو وہ سب میں چھوٹا تھا اوپر سے اس کا پل پل بدلتا مزاج 
"یہ ایک ہونے والے سیاستدان کا وعدہ ہے بابا جان" سبوخ شرارت سے بولا 
"سبوخ....!!!" شہباز آفریدی نے تنبیہ کی 
 " سوری بابا جان دو سال بعد پرامس آئی ول بیک" سبوخ نے ہنستے ہوئے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھوں پہ رکھ دیا تھا 
اور کون جانتا تھا کہ سبوخ آفریدی واقعی میں یہ عہد نبھانے والا تھا 
دل و جان سے 
______________________________
 "امداد خان اتنے عرصے بعد وادی سے آئے ہو خیر تو ہے نا سب ?" گل مہر امداد خان کو دیکھ کے رک گئی تھی 
"جی سب خیر ہے وہ بس گھر والی بیمار تھی تھوڑی" امداد خان مودب سے بولا 
" اچھا....گل شفا نے کوئی پیغام کوئی خط نہیں دیا میرے لئے" گل مہر نے بے چینی سے پوچھا 
اتنا عرصہ ہوگیا تھا گل شفا نے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا 
" آپ کو نہیں پتا خانم ....وہ تو مرگئی" امداد خان نے انکشاف کیا 
" کیا....مرگئی...کیسے مرگئی ????....کیا ہوا تھا" گل مہر کی تو مغز ہی گھوم گئی تھی 
 "پتہ نہیں جی اس کی کچلی ہوئی لاش ملی تھی شاید پہاڑوں پہ سے گری ہو" امداد خان سر جھکا کے بولا تھا 
 "انہی پہاڑوں کے بیچ وہ پل کے جوان ہوئی تھی ایسے کیسے مرگئی وہ " گل مہر چیخ کے بولی تھی 
" ہمیں کیا معلوم وہ کیسے مری بس مرگئی" امداد خان نگاہیں چرا کے بولا 
 "تو پتہ کرو نا امداد خان ورنہ ایک دن کوئی تمہارا اپنا بھی یونہی کسی کھائی سے ملے گا" گل مہر سمجھ چکی تھی یہ کس کا کارنامہ تھا 
 "مہروز خان تمہارا خانہ خراب ہو.....اللّه ہی تمہیں پوچھے کیوں تمہارا دل نہیں کانپتا" گل مہر کی نیلی آنکھوں میں کرب کی سرخی پھیل چکی تھی 
______________________________
"گل مہر کہاں ہے کھانے پہ کیوں نہیں آئی" امیرم خان فکرمندی سے بولے 
"وہ اکا....آپا کی طبیعت تھوڑی خراب ہے" گل رخ جھجکتے ہوئے بولی تھی 
 "طبیعت نہیں دماغ خراب ہے اس لڑکی کا اور کچھ نہیں وادی جانے کی ضد لگائے بیٹھی ہے " پلوشہ غصے سے بولیں تھیں 
" وادی ....مگر کیوں?" امیرم خان حیرت سے بولے تھے 
گل مینے کی شادی کے بعد وہ لوگ پھر وادی نہیں گئے تھے 
اب تو گل مینے کی شادی کو بھی تو دو سال ہونے والے تھے 
"اچھا میں دیکھتا ہوں اسے بلاؤ اسے گل رخ" قہوہ کا کپ لیتے ہوئے اسے بلانے کا کہا 
"آپ نے بلایا اکا جان" گل مہر سنجیدگی سے بولی تھی 
اس وقت لاؤنج میں وہی دونوں تھے 
" وادی کیوں جانا ہے مہر?" امیرم خان بھی سنجیدگی سے بولے تھے 
 " مجھ سے اب برداشت نہیں ہوتا اکا جان وہ کمینہ دن بدن اپنی ہوس پوری کرنے کیلئے گھر کے گھر اجاڑتا پھر رہا ہے میں اس کے سینے میں گولی اتاروں گی تو میرے کلیجے میں ٹھنڈ پڑے گی اکا....اس کی وجہ سے گل شفا بھی مرگئی " گل مہر وحشت زدہ ہوکے بولی تھی 
" مہر کام ڈاؤن....میں بات کروں گا لالہ سے " امیرم خان اسے ٹھنڈا کرتے ہوئے بولے تھے 
 "آپ کو کیا لگتا ہے کہ تایا کو اپنے لاڈلے کے کارناموں کی خبر نہیں ہوگی ....انہی کی شہہ پہ وہ ناچ رہا ہے "گل مہر کسی صورت قابو میں نہیں آرہی تھی 
 " مہر میں نے کہا نا کہ میں بات کروں گا.....یاد ہے نا میں نے کہا تھا کہ جب تک تمہاری تعلیم پوری نہیں ہوتی تب تک ہم وادی نہیں جائیں گے" امیرم خان نے اسے یاد دلایا 
" اور تب تک اسے ایسے ہی چھوڑ دیں" گل مہر نے تنفر سے کہا 
 " نہیں کچھ کرتے ہیں....اور یونیورسٹی میں ایڈمیشن شروع ہوگئے ہیں تم تیاری کرلو" امیرم خان نے اطلاع دی تھی 
"ٹھیک ہے ایم اے سیاسیات کیلئے فارم لادیں مجھے" گل مہر نروٹھے پن سے بولی تھی 
" ایم اے انگلش کرنے والی تھیں نا تم پھر اب یہ ....???" امیرم خان کچھ حیرانگی سے بولے تھے 
"بس اکا جان اب موڈ نہیں ہورہا ہے میرا ....میں جاؤں اب " گل مہر نے اجازت مانگی تھی 
"ہوں....جاؤ مگر پہلے کھانا کھا لینا یاد سے" امیرم خان نے کہا تھا 
گل مہر سر ہلاتے ہوئے چپ چاپ اٹھ گئی تھی 
 " دو سال اور رک جاؤ...مہروز خان مروگے تو تم گل مہر کے ہی ہاتھوں " گل مہر نے جلتے دماغ سے سوچا تھا 
 گو کہ وہ گریجویشن کر چکی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ میچور بھی ہوچکی تھی مگر آج بھی اس کا گرم خون جب جوش مارتا تو پھر سب کی شامت آجاتی تھی 
______________________________
" انتہا ہوگئی انتظار کی 
آئی نا کچھ خبر میرے یار کی" 
سبوخ آفریدی اس وقت آئی ٹی کے سامنے بائیک پہ کہنی کے بل نیم دراز ہوا ہوا تھا 
بلیک جینز پہ مسٹرڈ کلر کی شرٹ پہنے آنکھوں پہ سیاہ گلاسز لگائے وہ یہ گنگنا رہا تھا 
وجہ تسمیہ دانیال اور مامون صاحب تھے جو ایک گھنٹے سے آئی ٹی میں گھسے ہوئے تھے 
اور سبوخ ان کی یاد میں گنگنا رہا تھا 
 وہ ابھی کل ہی شہر لوٹا تھا دو ماہ ہوچکے تھے ایم اے کی کلاسز کو شروع ہوئے دانی اور مامون نے بھی دوستی نبھاتے ہوئے اس کے ساتھ ایڈمیشن لے لیا تھا 
 سبوخ نے صرف وادی اور ذمہ داریوں سے بچنے کیلئے ایڈمیشن لیا تھا ورنہ ایسا کوئی خاص شوق نہ تھا اسے
 " شرم تو آتی نہیں ہے تمہیں....خانہ خراب ایک ہی جھوٹ کو سو لڑکیوں سے کہتے ہوئے ارے فرشتے بھی تم پہ لعنت بھیجتے ہوں گے کہ ایک تو گدھا جھوٹ بولتا ہے وہ بھی سب ایک جیسا " گل مہر خشمگیں نظروں سے اس لڑکے کو گھورتی ہوئی بولی تھی 
یہ عرفان کیانی تھا میرین سائنس ڈیپارٹمنٹ سے فلرٹ کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا 
آج بھی وہ اردو ڈیپارٹمنٹ کی خدیجہ یوسف کو جھوٹے سچے سپنے دکھا رہا تھا 
اب یہ خدیجہ کی خوش قسمتی کہیں 
یا عرفان کیانی کی بدقسمتی کہیں
گل مہر کے تیز کان سب سن چکے تھے 
"قسم سے باجی خدیجہ کے ساتھ میں واقعی فئیر ہوں" عرفان منمنایا 
سبوخ دلچسپی سے یہ تماشہ دیکھ رہا تھا 
مکمل پردے میں وہ جی دار سی لڑکی عرفان کیانی کی اچھی خاصی دھلائی کرچکی تھی 
 " ارے باجی ہوگے تم خود....تم جیسوں کو تو اٹھا کے نیٹی جیٹی کے پل سے نیچے پھینک دینا چاہئیے....آئندہ کے بعد اپنے ڈیپارٹمنٹ کے علاوہ کہیں اور نظر آئے تو گولی مار دوں گی....اب نکلو یہاں سے" گل مہر نے تڑی لگائی 
 " اور تم ....بھی کچھ عقل کے ناخن لو ہر کسی کے کان کے نیچے تو وہ گھسا رہتا تھا ....تمہیں بھی پوری یونی کو چھوڑ کے یہی ٹھگ دکھا تھا " اب خدیجہ کی شامت تھی 
 " بس کیا کروں.....یہ لڑکے یونہی مغز خراب کردیتے ہیں وہ باتیں ہی ایسی کرتا تھا....اچھا میں چلتی ہوں کلاس ہے میری" خدیجہ چلی گئی تھی 
گل مہر بھی سر جھٹک کے چل پڑی تھی 
"کیا پیارے ....کیا دیکھا جا رہا ہے " دانی کہنی مارتے ہوئے بولا تھا 
"جھانسی کی رانی کا سیکوئل دیکھ رہا تھا.....پتہ نہیں ہے کون?" سبوخ نے پوچھا 
"جھانسی کی رانی ....یہ کون ہے بھئی" دانی حیران ہوا 
 " اوئے کہیں یہ گل مہر خان کی تو بات نہیں کر رہا .....و اللّه کیا توپ چیز ہے " مامون کانوں کو ہاتھ لگا کے بولا تھا 
"وہی نقاب پوش نیلی آنکھوں والی" دانی نے پوچھا 
"ہاں" مامون نے سر ہلایا 
" جانتے ہو اسے تم لوگ" سبوخ نے پوچھا 
 " ظاہر ہے ہمارے ہی ڈیپارٹمنٹ کی ہے تو جانیں گے ہی کیوں رے جناب کیوں پوچھ رہے ہیں" مامون نے پوچھا تھا 
 "ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی ہے ....پھر تو دانیال صاحب اپنے سر کی حفاظت شروع کردو ابھی ابھی محترمہ نے خاصی درگت بنائی ہے عرفان کیانی کی.....اچھا ہے دو سال خوب مزے میں گزریں گے" سبوخ آفریدی مزے سے بولا تھا 
 "ارے وہ عرفان تو ہے ہی ایسا....مجھے کوئی خطرہ نہیں پھر تم ہو نا میرے یار مجھے نہیں بچاؤگے" دانی نے مسکا لگایا 
" بالکل نہیں.....غلط بات کی سزا تو ملنی چاہئیے" سبوخ نے انکار کیا 
"کیسا یار ہے تو" دانی نے بلیک میلنگ کی 
 " میں ایسا ہی ہوں.....چلو اب کلاس لیں اور مامون جو میں نے کہا تھا نا وہ لائے ہو نا" سبوخ نے پوچھا 
" ہاں ہاں بالکل " مامون نے کہنے کے ساتھ جیب تھپتھپائی
"چلو آج کے دن کو یادگار بناتے ہیں" سبوخ آگے بڑھتے ہوئے بولا 
اور آج کا دن کتنا یادگار ہونے والا تھا سبوخ آفریدی نہیں جانتا تھا 
آج اس کی زندگی کا نیا باب کھلنے والا تھا 
______________________________
 جاری ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.