Ads Top

میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے دوسری قسط


میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے دوسری قسط 

 گل مہر اور زیتون گودام میں داخل ہوچکے تھے ....مہر نے بائیں کونے کا رخ کیا یہ گودام کھانے پینے کی اشیائے ضروریہ کیلئے استعمال ہوتا تھا چاول اناج کی بوریاں ...تیل گھی کے کنستر اور دیگر مرچ مسالے 
"بیٹھ جاؤ زیتون " مہر اسے بولنے کے ساتھ خود بھی کونے میں پڑی چارپائی پہ ٹک گئی تھی 
 اس طرف ایک بڑی سی کھڑکی تھی جہاں سے وادی میں ڈھلتی شام کا منظر دکھتا تھا مہر نے ہاتھ بڑھا کے کھڑکی کے پٹ وا کردئیے تھے بچپن میں بھی جب پلوشے گل غصے میں آکر اس کی ٹھکائی کرنے کی کوشش کرتیں تو مہر کا گوشہ عافیت یہی ہوتا تھا 
زیتون چپ چاپ اس کے برابر میں بیٹھ چکی تھی 
 "یہ لو کھالو" مہر نے اس کی جانب کچھ بادام بڑھاتے ہوئے کہا جو اس نے ایک جار سے نکالے تھے اور خود کھڑکی کی طرف منہ کرکے وادی کا نظارا کرنے لگی 
 نارنجی سورج کی اب بس دھندلی دھندلی زرد شعاعیں ہی تھیں جن کا عکس چشموں اور جھرنوں کے پانی میں منعکس ہورہا تھا کہیں بچے اور بڑے اپنے اپنے ریوڑوں کو ہانک کے لے جا رہے تھے شام ہوچکی تھی سو کہیں کہیں سریلی مدھر بھری آوازوں والے پرندے بھی اب لوٹ جانے کی اڑان بھر رہے تھے دور کہیں چڑیا مارے خوف کے اپنے گھونسلے میں منہ چھپائے بیٹھی تھی 
 "آپ بہت اچھی ہو خانم ....بالکل سبینا کی طرح" زیتون کافی دیر سے اسے غور سے دیکھ رہی تھی کتنی اپنی اور مہربان سی تھی نا 
 "میں اچھی ہوں کیوں کہ تم بھی بہت اچھی ہو اور یہ سبینا کون ہے ?" مہر نے اس کی طرف چہرہ موڑتے ہوئے کہا تھا 
 " سبینا....ہے نہیں خانم سبینا تھا...امارا بہن امارا ماں کی طرح تھا وہ " زیتون کی آنکھوں میں نمی سی چھلک گئی تھی 
"کیا مطلب تھا?..اب کہاں ہے وہ?" مہر کچھ حیرانی سے بولی 
" مرگیا وہ " زیتون سسک اٹھی تھی 
" کیسے مرگئی کوئی وجہ تو ہوگی نا?" مہر نے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا تھا 
" چھوڑو خانم  ...غریب کا کیا جینا اور کیا مرنا..آپ بہت اچھی ہو ام اب جائے گا نہیں تو امو خانم ہماری کھال گرادے گا" زیتون اس کا سوال گول کرتے ہوئے بولی تھی اوپر سے امو جان کا ڈر 
 "چپ چاپ بیٹھ جاؤ زیتون گل.....اور مجھے بتاؤ کیسے مری تھی سبینا" گل مہر اس کے گھبرائے اور پردہ پوشی والے انداز پہ چونک گئی تھی 
اندر کی تھانیدارنی کو اب رپورٹ لئے بغیر قرار کیسے ملتا 
" خانم ..ام کو معاف کردیو....ام جائے گا" زیتون کو اب اپنی جذباتیت کا احساس ہوا تھا
" زیتون ...."گل مہر سخت لہجے میں بولی تھی 
 "وہ یہیں کام کرتا تھا پھر ایک دن وہ ریوڑ لے کے گیا تو واپس نہیں آیا ایک کھائی سے اس کا لاش ملا چار دن بعد" زیتون نے سر جھکاتے ہوئے بتایا تھا 
 " جانور چرانے لوگ چوٹیوں پہ نہیں چڑھا کرتے پھر وہ کھائی میں کیسے پہنچ گئی زیتون کبھی سوچا نہیں تم لوگوں نے" گل مہر نے نکتہ اٹھایا تھا 
" ام کو نہیں معلوم ....ام کو جانے دو" زیتون روہانسی ہوگئی تھی 
 " نہیں زیتون گل ایسے نہیں....سبینا کو قتل کیا گیا نا ...کسی نے اسکی جان لی دولت کیلئے تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ...یقینا اس کا حسن اس کیلئے عذاب بنا ہوگا ...اور تمہارے انداز بتا رہے ہیں تم مجرم سے واقف ہو تو بتاؤ ?" گل مہر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی تھی 
"نہیں ام کو نئیں معلوم " زیتون نے انکار کیا 
" تمہیں معلوم ہے مجھ سے اڑنے کی نہ کرو میں  مہر ہوں اڑتی چڑیا کے پرگن سکتی ہوں ...جلدی بتاؤ نہیں تو میں بہت الٹی کھوپڑی کی لڑکی ہوں" مہر نے آخر میں دھمکی لگائی تھی 
 "کیا فائدہ خانم ...امارا بہن واپس تو نہیں آئے گا....کوئی چور کو کچھ بھی نہیں کہہ سکتا نا" زیتون نے جیسے کوئی کلیو دیا تھا 
 گل مہر کے دماغ میں جیسے کلک ہوا تھا کچھ وہ جو بھی تھا یقینا کوئی اونچی پشت اور شملے والا تھا جس کے نام نے زیتون کی زبان پہ تالے لگا دئیے تھے 
مگر مقابل بھی گل مہر تھی جسے تالے کھولنے خوب آتے تھے 
" وہ اس حویلی سے ہی تھا نا...زیتون نام بتاؤ مجھے اس کا" گل مہر نے پوچھا تھا 
" چھوٹا خاناں" زیتون کی آواز جیسے کسی کھائی سے آئی تھی 
گل مہر تو کیا پوری وادی ایک پل کو ساکت رہ گئی تھی 
 کہاں عادت تھی یہاں کی ہواؤں کو مجرموں کا نام سننے کی ...ان ہواؤں میں فضاؤں میں تو نو خیز کلیوں اور گھائل خوفزدہ ہرنیوں کی مانند پریوں جیسا حسن اور سیاہ قسمت رکھنے والی لڑکیوں کی سسکیاں اور آہیں گونجا کرتی تھیں 
"تمہارے گرنے کی بھی کوئی حد ہے ...مہروز خان" گل مہر نے نفرت سے زمین پہ تھوک دیا تھا 
" چپ چاپ گھر چلی جاؤ زیتون گل .....تمہارے گھر میں اور کون ہے ?" مہر نے پوچھا تھا 
" امارا بھائی اور بھابھی" زیتون حیران حیران سی بولی تھی 
" تمہاری منگنی یا شادی?" 
 "امارا بات خالہ کے لڑکے سے ہے وہ وہاں وزیرستان میں ہوتا ہے" زیتون کچھ شرما کے بولی تھی 
" خانہ خراب وزیرستان....شادی کیوں نہیں ہوئی اب تک" گل مہر کچھ بدمزہ ہوکے بولی تھی 
"وہ ابھی پیسہ جمع نہیں ہوا مراد کا پاس ورنہ..." زیتون نے بات ادھوری چھوڑی 
اور مہر کو ایک بار پھر اس رسم پہ تپ چڑھ گئی تھی 
 " ہوں....اب جیسا میں نے کہا ہے گھر جاؤ اور دوبارہ اپنی شکل حویلی میں مت دکھانا ورنہ تمہاری لاش بھی کسی کھائی سے نکل رہی ہوگی " مہر اسے گھور کے بولی تھی 
زیتون چلی گئی تھی 
 "مہروز خاناں شیرنی کی موجودگی میں گیدڑ شکار نہیں کرسکتے .....تم صرف اب بھبکیاں مارو کیونکہ ہو ہی اس قابل " گل مہر مٹھیاں بھینچتے ہوئے بولی تھی 
گل مہر کا دماغ بہت سی سوچوں کا مرکز بنا ہوا تھا 
_____________________________________
 " تم یہاں کیا کر رہی ہو وہ لڑکی کہاں ہے اسے کہا تھا نا" مہروز خان جو آنے والے کسی رنگین لمحے میں گم نرم بستر پہ نیم دراز تھا 
گل بی بی کو دیکھ کے ناگواری سے بولا 
 "وہ خاناں....اس چھوٹا خانم اپنے ساتھ لے گیا گودام میں وہ لڑکی اس کے ہی کام کرتا ہے" گل بی بی جھجکتے ہوئے بولی تھی 
 " دفعہ ہوجاؤ....اور یہ چھوٹی خانم یہ کسی دن مرے گی مجھ سے" مہروز خان کا پارہ آسمانوں کو چھونے لگا تھا 
 گل مہر کی مردانہ خصلتیں....اس کی بہادری اور منہ زوری اسے مردوں کی ہی صفات لگتی تھیں بھلا عورتیں ایسی ہوتیں ہیں 
مہروز خان نے عورت کو جوتی اور ٹشو سے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی 
 " تمہارے پر کاٹنے پڑیں گے گل مہر ....شہر جا کے بہت اونچا اڑنا آگیا ہے" مہروز خان نے تکبر سے کہا تھا 
_____________________________________
 گل مینے کو اندر عورتوں نے گھیرا ہوا تھا ہنسی مذاق کے ساتھ کھانے پینے کا دور بھی چل رہا تھا
 " لو آگئی تھانیدارنی ....کہاں تھی اتنی دیر سے میں تو اب سوچ رہی تھی کہ بابا سے کہوں جا کے دیکھیں کسی کھائی میں تو نہیں جا گریں گل مہر خانم" گل مینے کی بات پہ قہقہہ پڑا تھا زبردست سا 
 " میں اگر تھانیدارنی ہوں گل مینے خانم تو یقینا کسی کی گردن پہ ہاتھ ڈالنے کی ہی تیاری کر رہی ہوں گی ....گل مہر کی نظر اتنی کمزور نہیں کہ کسی کھائی میں جاگرے ہاں میری تیز نظر کسی اور کو پورے قد سے خود ہی کھائی میں اترنے پہ مجبور کرسکتی ہے" گل مہر اطمینان سے بیٹھتے ہوئے بولی تھی 
" کس کی شامت آنے والی ہے گل مہر خانم ...." سفینہ نے اشتیاق سے پوچھا 
 " یہ پوچھ کے تم مجرم کو فرار ہونے کا موقع دے رہی ہو سفینہ خانم" گل مہر ہاتھ پہ مہندی کی کون سے پھول بناتے ہوئے بولی تھی 
" اس کا مطلب ہے مجرم کہیں آس پاس ہے" سفینہ نے اندازا لگایا
"ہوں" گل مہر نے جوابا صرف ایک ہوں پہ اکتفا کیا تھا 
 "دیکھو گل مہر اگر اب تم نے میرے بھائیوں کا نام بھی لیا تو اچھا نہیں ہوگا...پہلے ہی امروز خان کا بھرکس نکال دیا ہے تم نے" گل مینے کو بھی یہ قصہ پتہ چل چکا تھا 
 "اوہ مینے شٹ اپ یہ رعب اگر اپنے بھائیوں پہ جھاڑا ہوتا نا تو میری ضرورت ہی نہ ہوتی یہ سب کرنے کی پہلے پوری بات جان لیا کرو ورنہ شادی کے بعد اسی عادت کی بدولت نقصان اٹھاؤگی ...بے چارے تیمور لالہ کا تو ہوگیا کام بارود کی ڈھیری لے جارہے ہیں "_گل مہر اور ادھار رکھے ہو ہی نہیں سکتا تھا 
اور یہ تو کھائی والی بات کا بدلہ تھا 
گل مہر کی بات پہ ایک زوردار قہقہہ لگا تھا گل مینے کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا 
"تمہیں بہت ہمدردی ہو تیمور سے " 
 " کیوں نہ ہو قربانی کے بکرے سے سب کو ہمدردی ہوتی ہے مجھے ہورہی ہے تو کونسی انوکھی بات ہے" مہر مسکراتے ہوئے بولی تھی 
 "لگتا ہے تم میری شادی دیکھ کے جل رہی ہو ....کہیں تمہارے دل میں یہ خیال تو نہیں آرہا کہ تم سے پہلے میری شادی ہوگئی " گل مینے نے طنز کیا 
 " اوہ مینے ہٹو بھی ....ابھی میرے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے جس دن کچھ نہ ہوا نا تو شادی کر کے بیٹھ جاؤں گی مجھے کوئی جلدی نہیں" گل مہر اس کی بات ہوا میں اڑا کے بولی تھی 
 " شادی کی دلہن ہو اتنا پٹر پٹر اور جل جل کے نہ بولو ...کیا خاک روپ چڑھے گا تم پہ بے چارہ تیمور خاناں کےسارے ارمان پانی بن کے بہہ جائیں گے سیرت تو پہلے ہی گئی گزری ہے اب تو صورت کا بھی کوئی حال نہیں " 
مہر اٹھ کھڑی ہو کے بولی تھی اس سے زیادہ یہاں بیٹھتی تو گل مینے کا آج ہارٹ اٹیک ہوجاتا یقینا
_____________________________________
 " کیا!!!....کیا ہوگیا ہے گل مہر تم یہاں کیا یہ سب کرنے آئی ہو" امیرم خان جھلا گئے تھے لاڈلی کی بات سن کے 
 "اکا...اس میں برائی کیا ہے اور آپ کو اچھی طرح معلوم ہے مجھ سے غلط بات نہیں برداشت ہوتی ....آپ میرے اچھے والے اکا نہیں ہیں " گل مہر لاڈ سے ان کے گلے لگ کے بولی تھی 
 " پر مہر اتنے عرصے بعد لوٹا ہوں میں یہاں ....اس طرح اچانک کروں گا یہ کام دیکھو پرویز لالہ کو برا بھی لگ سکتا ہے اسی لئے میں ان بکھیڑوں سے دور رہتا ہوں" امیرم خان مہر کو سمجھاتے ہوئے بول رہے تھے 
 " ایویں برا لگ رہا ہے سردار کا بیٹا جب سردار ہوتا ہے تو سردار کا بھائی بھی سردار ہوتا ہے ....آپ کوئی ڈاکا نہیں ڈال رہے اور ویسے بھی میں سب پلان بنا چکی ہوں گل مینے کی بارات والے دن ہی ہوگا یہ سب ....آپ رقم لے آئے ہیں نا?" گل مہر نے پوچھا تھا 
 کل گل مینے کی بارات تھی اور امیرم خان آج ہی وادی آئی تھی گل مہر کی فرمائش لے کر جو اس نے انہیں فون کر کے کہی تھی 
 حویلی میں ایک ہی ٹیلیفون سیٹ تھا جس پہ امو کا پہرہ تھا پر گل مہر نے انگریزی میں امیرم خان سے ساری بات کرلی تھی بقول امو جان کے گٹ پٹ 
 " تمہاری ماں ٹھیک کہتی ہے مہر....تمہیں میں نے بہت ڈھیل دے رکھی ہے " امیرم خان ہار مانتے ہوئے بولے 
 " تو کیا میں نے کبھی آپ کی دی ہوئی ڈھیل کا غلط استعمال کیا ہے اکا جان ....اور یہ عورتوں کی باتوں میں آکے ہم باپ بیٹی کا معاملہ خراب ہوجائے گا ....پلیز اکا مان جائیں نا" گل مہر نے لجاجت سے کہا تھا 
" ٹھیک ہے مہر.....پر یہ بہت رسکی ہے" امیرم خان نے تنبیہ کی تھی 
 " کوئی نہیں اکا آپ ہونگے تو کوئی خطرہ نہیں ہوگا بس یہ آپ نے سنبھال لینا ہے " گل مہر نے ناک پہ سے مکھی اڑائی تھی 
 اس کے بابا اس کے ساتھ ہیں تو پھر تھوڑی بہت پریشانی اسے جو تھی وہ بھی ختم ہوگئی تھی ایسے ہی تو باپ بیٹیوں کا مان نہیں ہوا کرتے 
_____________________________________
 مہروز خان کسی بھپرے ہوئے سانڈ کی مانند پورے کمرے میں ڈکرا رہا تھا اس کا غصہ آسمانوں کو چھو رہا تھا 
تھانیدارنی نے اس کے منہ کا نوالہ اتنی صفائی سے چھینا تھا کہ وہ کچھ کر ہی نہ پایا تھا 
 مہمانوں کی آمد پہ اس نے اپنی سرگرمیاں محدود کر رکھیں تھیں ورنہ زیتون گل پہ اس کی نظر کب سے تھی بس موقع چاہئیے تھے اور جب موقع ملا تو گل مہر اسے اڑا کے لے گئی 
 گل مینے کی شادی والے دن وادی کے دو تین معزیزین اور امیرم خان نے زیتون کا نکاح پڑھوا کے اسے رخصت کردیا تھا وزیرستان 
اب اکھاڑ لے مہروز خان جو اکھاڑ سکتا ہے 
باقی کا معاملہ امیرم خان نے پرویز خان کے سامنے سنبھال لیا تھا 
" یہ لڑکی اب مرے گی بابا جان بس بہت ہوگیا " مہروز خان دھاڑ رہا تھا 
 " اوہ خان کنٹرول کر اپنے آپ کو ورنہ امیرم خان کے سامنے رہی سہی عزت بھی جائیگی....کیا لگتا ہے تمہیں مہر نے باپ سے تمہارے کارناموں کا ذکر نہیں کیا ہوگا اس وقت کوئی بھی قدم سارے کئے کرائے پہ پانی پھیر دے گا" غصہ تو پرویز خان کو بھی بہت تھا اس گز بھر کی لڑکی پہ مگر وہ ساری صورتحال سمجھ رہے تھے 
جس ہوشیاری سے گل مہر نے باپ کو بیچ میں ڈالا تھا اس نے حیران کر ڈالا تھا پرویز خان کو 
" مجھے پروا نہیں بابا" مہروز نے ایک ٹھوکر رسید کی تھی میز کو 
 "پروا کرو...تم ہونے والے سردار ہو اور امیرم سے میں مہر کا رشتہ بھی مانگ رہا ہوں تمہارے لئے...دفعہ کرو ایک لڑکی کیلئے اب تم کیا اپنی عزت اچھالو گے" پرویز اسے ٹھنڈا کر رہے تھے 
 " ایک بار یہ گل مہر میرے ہاتھ لگ جائے وہ حشر کروں گا کہ یاد کرے گی....شیر کے منہ سے نوالہ چھینا ہے انجام تو بھگتنا ہی ہوگا" مہروز خان سلگ کے بولا تھا 
 " دھیرج خان....ٹھنڈا کر کے کھاؤ تھوڑا صبر کرو پھر وہی ہوگا جو تم چاہتے ہو" بیٹے کے سیاہ کرتوتوں کی خبر باپ کو نہ ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا 
_____________________________________
 " اکا آپ نے یونیورسٹی کا پتہ کیا ....شادی کے چکروں میں آپ سے پوچھنا ہی بھول گئی" گل مہر کو یاد آیا تھا 
وہ سب واپسی کیلئے روانہ ہوچکے تھے 
 " شادی کے ہنگاموں میں یا اپنے ایڈوینچر کے چکروں میں....گل مہر باز آجا ...بس خان صاحب اس کی اب شادی کرو دن بدن یہ لڑکی سرکش ہورہی ہے کس نے بولا تھا پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑائے" پلوشہ گل کو بھی گل مہر کا کارنامہ معلوم ہوچکا تھا 
وہاں حویلی میں تو وہ ان کے ہاتھ ہی نہ لگتی تھی 
 "کیا مورے...میں اپنی آنکھوں کے سامنے اس گیدڑ کو شکار کرتا دیکھتی خاک نہ پھر جاتی گل مہر پہ ...تف ہوتا کہ میں امیرم خان کی بیٹی ہوں" گل مہر قہر بھرے لہجے میں بولی تھی 
" اور اکا نہ ہوتے تو کہاں کرپاتی تھی....تھینک یو اکا" 
"ایک تم اور تمہارا باپ ....کیا کروں" پلوشہ بے بسی سے بولیں 
 " تم یونیورسٹی نہیں جاؤ گی مہر....گریجویشن کی ڈگری تم ڈگری کالج سے لوگی سترہ برس کی ہو تم ابھی یونی کا بعد میں سوچیں گے" امیرم خان نے اپنا فیصلہ سنایا تھا 
" اکا دس از ناٹ فئیر.... کیا فرق پڑتا ہے دو سال بعد جاؤں یونی یا پھر ابھی" مہر چڑ گئی تھی 
 " مہر تمہارا کیا بھروسہ وہاں جا کے کسی کا سر پھاڑ دو...جب تھوڑا اور میچیور ہوگی تو یونی جانا فی الحال نہیں" امیرم خان قطعیت سے بولے 
" شیور ....اکا* 
" شیور.... مہر بچے" 
 " اچھا...پیارے اکا پھر مجھے شوٹنگ کلب کی ممبر شپ دلا دیں کیونکہ ایڈمیشن میں وقت ہے " گل مہر نے ان کی بات مانتے ہوئے نئی فرمائش کی تھی 
 " خبردار...خان صاحب جو اسے گولی چلانا سکھایا کل کو یہ بولے گی مجھے جہاز اڑانا ہے تو آپ کیا اس کی ہر بات مانو گے" پلوشہ کو بہت زور سے غصہ چڑھا تھا 
 " اوہ مورے...کچھ نہیں ہوتا اور یہ جہاز اڑانے کا خیال بھی اچھا ہے مگر پہلے میں ڈرائیونگ سیکھوں گی ...پھر اکا مجھے دلا رہے ہیں نا ٹریننگ" مہر نے تصدیق چاہی تھی 
"کیوں نہیں میرے بچے کی جیسی مرضی" امیرم خان کی بات پہ پلوشہ گل نے سر تھام لیا تھا 
"یہ لڑکی ....اس کا کچھ نہیں ہوسکتا " 
_____________________________________
"سبوخ ....ارے سبوخ لسن ٹو می " عزہ شیرانی ان تینوں کی طرف آتے ہوئے بولی تھی 
 " ارے یہ مکھن کی ڈلی اور برگد کی جھڑی ہوئی شاخ پھر آگئی ....مغز خراب کرنے" دانی بدمزہ ہوکے بولا تھا 
"چلو بچو آج تمہیں تفریح کراتے ہیں" سبوخ آفریدی آج بہت موڈ میں تھا 
"کیسی ہو عزہ ?" اس نے اخلاق نبھایا 
 " اوہ...سبوخ میں بتا نہیں سکتی تمہیں دیکھ کے مجھے کیا فیل ہوتا ہے...تمہاری پرسنیلٹی اف مائے گاڈ" عزہ نے اسٹائل سے کہا
 "مجھے بھی بہت کچھ فیل ہوتا ہے عزہ ڈئیر ....کیا میں کہہ دوں" سبوخ کی بات پہ عزہ دل تھام کے ہی رہ گئی تھی 
 "مجھے کہنے دو عزہ شیرانی یہ تمہاری شکل دیکھ کے مجھے پھول یاد آتا ہے" سبوخ کی آنکھوں میں اس وقت شریر سی چمک تھی 
"کونسا پھول.." دانی نے فورا چونچ ہلائی 
" گلاب کا....چنبیلی کا...یا پھر کوئی اور " مامون کہاں پیچھے رہتا 
" نہیں گوبھی کا پھول" سبوخ سنجیدگی سے بولا اور عزہ کا منہ پھول گیا تھا 
 " اور یہ تمہاری زلفیں ان کو دیکھ کے کسی گھنی چھاؤں کا گمان ہوتا ہے" سبوخ ہونٹ دبا کے بولا تھا 
" کونسی چھاؤں....?" دانی ہنسی ضبط کر کے بولا تھا 
" پرانے برگد کی چھاؤں" سبوخ دونوں ہاتھ باندھ کے سنجیدگی سے بولا تھا 
مامون اور دانی کی ہنسی چھوٹ گئی تھی عزہ شیرانی پاؤں پٹخ کے جا چکی تھی 
 " خس کم جہاں پاک....دوبارہ نہیں آئے گی " سبوخ ہاتھ جھاڑتے ہوئے اپنی نشست دوبارہ سنبھال چکا تھا 
مامون اور دانی بھی ہنستے ہوئے بیٹھ گئے تھے 
_____________________________________
جاری ہے 

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.