Ads Top

Mera nam hai muhabat by Farhat Nishat Mustafa میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے پہلی قسط

Mera nam hai muhabat by Farhat Nishat Mustafa
میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط

مصطفے 
پہلی قسط 

پہلی قسط 
گل میِنے دس از نوٹ رئیلی فئیر" گل مہر دھاڑ سے دروازہ کھول کے اندر داخل ہوتی ہوئی بولی تھی 
گل مینے کے کمرے سے نکلتی اسٹریو کی آواز نے پورے گھر میں صور اسرافیل پھونکا ہوا تھا مگر مجال تھی کسی کی جو گل مینے کو روک پاتا یہ مجال صرف ایک بندی ہی کرتی تھی اور وہ تھی گل مہر 
" یہاں سے دفع ہوجاؤ...مہر مجھے ابھی کسی کے منہ نہیں لگنا " گل مینے کوفت سے بولی تھی 
" آگئی تھانیدارنی " خان ولا کے مکینوں نے گل مہر کا نام یہی رکھ چھوڑا تھا 
" مجھے بھی کوئی شوق نہیں آگ کی بھٹی میں منہ دینے کا تمہارے گانے سننے کو اتنا ہی دل کر رہا ہے تو ہلکی آواز میں سن لو پورے گھر میں کیوں بھونچال لایا ہوا ہے" گل مہر کڑے تیوروں سے بولی تھی 
" میرا پیپر اچھا نہیں ہوا تو باقی کسی اور کو بھی میں نہیں ہونے دوں گی" گل مینے آنکھیں بند کئے بولی تھی 
کل گل مہر کا پیپر تھا اور گل مینے نے اس کا پڑھنا محال کر رکھا تھا 
" پتہ نہیں میں کیوں اکا جان کی باتوں میں آکے ادھر رہنے آگئی اس حاسدی خانے میں وہاں ہاسٹل میں ہی اچھی تھی" گل مہر کو پچھتاوا ہوا 
اکا جان کی بات وہ کبھی نہیں ٹالتی تھی اس لئے ان کے کہنے پہ وہ ایگزام دینے ہاسٹل سے گھر آگئی تھی 
"یہ میرا گھر ہے...میرا جو دل چاہے گا کروں گی" گل مینے اکڑ کے بولی تھی 
یہ سب بڑی امو کی دی ہوئی چھوٹ اور باتوں کا نتیجہ تھا 
" تم ....زرا ٹہرو...میری موجودگی میں تو تم یہ سب نہیں کرسکتیں" گل مہر بڑبڑائی 
چوکس نظروں سے کمرے کا جائزہ لیا گل مینے کی آنکھیں ہنوز بند تھیں ....گل مہر کو اس کی مطلوبہ چیز مل چکی تھی پانی کا گلاس اٹھا کے اسٹریو پہ انڈیلا پھل کاٹنے والی چھری سے بڑی مہارت سے پلگ کو کاٹا اور اطمینان سے باہر نکل کے دھاڑ سے دروازہ بند کرتے ہوئے بولی تھی 
" وش یو گڈ لک ....گل مینے" 
خاموشی ہونے پہ گل مینے نے پٹاک سے آنکھیں کھولیں تھیں 
اسٹریو خاموش پڑا تھا ....گل مینے اٹھ کے اس کی طرف بڑھی تھی 
اور غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں تھیں 
" تھانیدارنی ....اپنی کاروائی کر کے جا چکی تھی ....کوئی روک سکتا ہے تو روک لے
______________________________
تو قصہ اصل میں یہ تھا کہ دلاور خان کی دو ہی اولاد نرینہ تھیں اور رحمتوں کا تو کوئی حساب ہی نہ تھا بڑا پرویز خان اور چھوٹا امیرم خان 
پرویز خان کو پڑھائی سے ذیادہ ذمینداری اور قبیلے کے مسئلوں میں جتنی دلچسپی تھی امیرم خان اتنا ہی اس سے دور بھاگ کے کتابوں میں پناہ لیتا تھا 
تعلیم کیلئے اسلام آباد آیا تو یہیں رہ گیا تھا اور شادی کے بعد بیوی کو بھی یہیں لے آئے 
پرویز خان کو قدرت نے چار بیٹوں اور صرف ایک بیٹی سے نوازا تھا 
جبکہ امیرم خان کی چار بیٹیاں تھیں 
سب سے بڑی گل مہر تھی 
بقول لوگوں کے کہ امیرم خان اس معاملے میں بھی پرویز خان سے پیچھے رہا ہے 
پلوشے کو بیٹا نہ ہونے کا بہت رنج تھا مگر امیرم خان کو نہ تھا 
وہ اپنی چاروں بیٹیوں خصوصا گل مہر پہ جان چھڑکتے تھے اور فخر سے کہتے تھے 
" یہ میری بیٹی ....سو بیٹوں پہ بھاری ہے ....ہے بھلا پورے قبیلے میں اس جیسا دلیر" 
اور گل مہر تھی بھی ایسی 
اخروٹی گھٹاؤں کی چھاؤں تلے نیلے سمندر جیسی آنکھیں....گلابوں کی لالی کو مات دیتے سرخ گال اور میدے میں گھلی رنگت 
اگر اس کا روپ باکمال تھا تو انداز اور سیرت بے مثال 
وہ پہاڑوں کی بیٹی تھی 
فطرتا دلیر اور نڈر اوپر سے تعلیم نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا تھا
کوئی ناانصافی کرکے دیکھے تو سہی امیرم خان کی بیٹی جان ہی نکال دے گی 
پرویز خان کے بیٹوں کے ساتھ وہ گھڑ سواری اور تیر اندازی کرتے ہوئے وہ جوان ہوئی تھی 
اس کے یہ انداز امو جان جو پرویز کی بیوی تھیں 
بالکل نہیں بھاتے تھے حالانکہ گل مہر صرف چھٹیوں میں ہی وادی آتی تھی مگر امو جان کو یوں لگتا کہ ان کی راجدھانی پہ کسی نے قبضہ کرنے کی کوشش کی ہو 
ملازماؤں سے ذیادہ کام نہ کروائیں......فلاں نے اتنا کام کیا اسے اناج دیں 
امو جان کو اسکی موجودگی میں ہنٹر کو روپوش کرنا پڑتا تھا 
گل مینے جو پوری حویلی کی لاڈلی تھی گل مہر کے انداز پہ جل بھن جاتی تھی اور پڑھنے کے نام پہ وہ بھی اسلام آباد چلی آئی تھی یہاں وہ پرویز خان کے گھر میں رہتی تھی جبکہ مہر ہاسٹل میں رہتی تھی پچھلے سال امیرم خان کاروبار کے سلسلے میں کراچی شفٹ ہوچکے تھے 
سو مہر کو ہاسٹل رکنا پڑا تھا اور ایگزامز کے دنوں میں ان کے کہنے پہ وہ پرویز خان کے گھر آگئی تھی 
جو اسے کسی حماقت سے کم نہیں لگ رہا تھا 
گل مینے کی حرکتیں ناقابل برداشت تھیں 
خیر وہ بھی گل مہر تھی 
_____________________________
دل دیتا ہے رو رو دہائی 
کسی سے کوئی پیار نہ کرے 
بڑی مہنگی پڑے گی یہ جدائی 
کسی سے کوئی پیار نہ کرے 
دانی بار بار ایک ہی تان لگائے جا رہا تھا 
کسی سے کوئی پیار نہ کرے 
اور اس کی یہ درد بھری صدائیں وہاں بیٹھے سبوخ آفریدی کو قطعا نہیں بھا رہے تھے 
سبوخ نے کھینچ کے ایک دھپ اسے لگائی تھی 
" کیوں بے....کیا تکلیف ہوگئی ہے....کس نے پھر چھوڑ دیا تمہیں" 
" ہائے سبوخ خاناں ....پہلے ہی درد ہے بہت ہے اوپر سے تم بھی درد بڑھا رہے ہو .....ہائے کوئی تو روک لو" دانیال عرف دانی نے دہائی دی تھی 
" بیٹا تو ہے ہی اس قابل ....ایک میری طرف سے بھی لگا اسے خاناں کس نے کہا ہے اسے ادھر ادھر منہ مارے اور ٹیسٹ دیکھو موصوف کا ....غضب خدا کوئی ایک ماسی جو اس نے چھوڑی ہو اس ایریے کی یہ ہے ہی اس قابل" مامون کوک کا ٹن سبوخ کو پکڑاتے ہوئے بولا تھا 
" ارے مجھے بھی دو ظالموں...
آگ لگی ہے ...آگ کچھ تو پڑے ٹھنڈک" دانی کوک کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا 
کھانے میں اور فلرٹ کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا 
" بالکل بھی نہیں ....پہلے عزت سے پھوٹو کہ چکر کیا ہے?" سبوخ اسے گھورتا ہوا بولا 
کہنے کو تو دانی ہاسٹل میں رہتا تھا مگر ہر وقت وہ سبوخ کے گھر پایا جاتا تھا 
سبوخ تعلیم کے سلسلے میں کراچی میں مقیم تھا اور ان دنوں ایم بی اے کر رہا تھا 
" میں بتاتا ہوں وہ جو ساتھ والے بنگلے میں چھیمو خانم آتیں ہیں ان کہ سانولے سلونے روپ کے یہ عاشق ہوگئے موصوف ....ان محترمہ نے بھی جناب کی پذیرائی کی اور آج صبح دانی صاحب نے اسے پارک میں کسی اور سے اٹھکیلیاں کرتے دیکھ لیا پتہ چلا موصوفہ کے شوہر ہیں تب سے جناب کا یہ حال ہے ....اور بہتری کا کوئی امکان نہیں" مامون رپورٹنگ کے انداز میں بولا تھا 
" اوہ خانہ خراب یارا ....سدھر جاؤ نہیں تو تیرے تایا کو میں پیغام بھیجتا ہوں کہ جو ہیر تیرے انتظار میں بٹھا رکھی ہے اسے وداع کردیں کیونکہ یہ کمینہ شہر میں ہی سیراب ہورہا ہے" سبوخ خان نے دھمکی دی تھی 
" اوہ ...خاناں نہ کر تم واقعی پتھر دل ہو اوئے پہاڑوں کے بیٹے....یہی تو عمر ہوتی ہے یہ سب کرنے کی کیوں کبھی تجھے کسی نے متاثر نہیں کیا...یہاں کچھ نہیں ہوا تمہیں سبوخ...ابھی تمہیں محبت نہیں ہوا اس لئے یہ سب کہہ رہے ہو جب محبت ہوگی تو پتہ چلے گا" دانی اپنے سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا تھا 
"پسند آنے میں اور گود میں بٹھانے میں فرق ہوتا ہے الو....تمہاری طرح نہیں ہوں جو ہر کسی کا پلو تھام لیتے ہو....سبوخ خان آفریدی کا دل اگر ایک ہے تو ملے گا بھی ایک کو جو اس قابل ہوگی...بالکل خالص کھری سچی ملاوٹ مجھے پسند نہیں" سبوخ آفریدی نے نیم دراز ہوتے ہوئے اپنا نظریہ پیش کیا تھا 
" آج کل ایسی لڑکیاں ڈراموں میں بھی نہیں نظر آتیں نہ کہانیوں میں او بھائی سب دو نمبر کا دور ہے " دانی کھی کھی کرتے ہوئے بولا 
" اور سبوخ ویسے بھی تمہارے ہاں تو بچپن سے ہی رشتے طے کردئیے جاتے ہیں تو بتاؤ کوئی بھابھی ہے ہماری وادی میں" مامون بھی شوخ ہوا 
"قطعا نہیں.....سبوخ آفریدی کو باندھنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا ...میں اپنے فیصلے خود کرنے کا عادی ہوں اور ویسے بھی مجھے قبیلے کے رسم و رواج پسند نہیں ہیں" سبوخ اتنی قطیعت سے بولا تھا کہ دانی اور مامون اس کی شکل دیکھنے لگے تھے 
اس وقت وہ روایتی خان ہی لگ رہا تھا 
سنہرے کانچ جیسی آنکھوں میں شراروں کی سی لپک تھی 
سپید رنگت میں سرخی مزید گھل گئی تھی 
وہ اپنے فیصلوں میں اٹل تھا 
مگر یہ جانے بغیر کبھی کبھار نہ چاہتے ہوئے رسم و رواج کی زنجیروں میں پابند سلاسل ہونا پڑتا ہے
______________________________
وادی نے برف کا سفید چولا اتار پھینکا تھا اور سر سبز سرخ اور گلابی رنگوں کا لبادہ اوڑھ لیا تھا 
وادی کا حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا 
گل مینے کی شادی کا ہنگامہ شروع ہوچکا تھا 
پلوشہ بچیوں کو لے کے پہنچ چکیں تھیں امیرم خان ان کے ساتھ نہیں آئے تھے انہیں بارات والے دن آنا تھا 
امو جان کی تیوریوں کے بل دور سے بھی گنے جاتے تھے 
اور آج شام ڈھلے گل مہر کے کارنامے نے انہیں جیسے جلتے توے پہ بٹھا دیا تھا 
تھانیدارنی جی نے آتے ساتھ ہی چارج سنبھال لیا تھا 
امو کے تیسرے نمبر والے امروز خان کی خوب دھلائی ہوئی تھی گل مہر کے ہاتھوں 
" کیوں ہاتھ لگایا رے میرے بچے کو " امو جان غرائیں تھیں 
توبہ کیسا نیلوں نیل کردیا تھا ان کے بچے کو 
" بچہ....یہ بچہ ہے...گستاخی معاف امو جان یہ بچہ نہیں پورا شیطان ہے حرکتیں دیکھیں اس کی ....چشمے پہ پانی بھرتی لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی کر رہا تھا ....چہ چہ پرویز خان کا نام مٹی میں ملا رہا تھا...کچھ حیا سکھائیں اسے ورنہ دو دن میں مار مار کے اسے دنبہ بنا دوں گی" مہر قہر بھرے لہجے میں بولی تھی 
حسب معمول وہ وادی کی سیر کو نکلی تھی ان دنوں وادی کا روپ تو ویسے بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا 
رنگے برنگے پھول ,نیلے ٹھنڈے پانی کے چشمے ....پہاڑوں سے بہتے جھرنے ....سبز نرم گھاس یہ سب مہر کو دیکھ کے بڑی تراوٹ ملتی تھی 
اس کی حسین وادی اس کے لوگ کتنا اچھا لگتا تھا اسے جب سب اسے امیرم خان کی بیٹی پہچان کے عزت دیتے تھے آخر کو مائی باپ تھے اس علاقے اور قبیلے کے 
گو کہ اس طرح عورتوں کا یوں منہ اٹھائے گھومنا کسی کو پسند نہ تھا اور نہ اجازت تھی مگر گل مہر کو کون روکتا وہ جب بھی آتی بڑی سی چادر پہن کے گھونگٹ نکالے خوب گھومتی تھی بنا پرویز خان کی تیوریوں کی پروا کئے 
" منہ سنبھال کے بات کرو....گل مہر یہ مرد بچہ یہ اس کا علاقہ ہے جو دل کرے گا یہ کرے گا ...تم ہوتا کون ہے" امو جان غصے سے بولی تھی 
" اس کا علاقہ ہے تو اکیلے کا نہیں ہے سب کی زمین ہے یہ ....اور میں بتاؤں ابھی کون ہوں میں" گل مہر نے امروز کو گھورا تو وہ ماں کے پلو سے ہاتھ چھڑا کر فورا نو دو گیارہ ہوگیا تھا 
ابھی پچھلی ٹھکائی نہیں بھولا تھا 
" امو جان ....اگر یہ دوبارہ مجھے یہ اس طرح بدمعاشی دکھاتے ہوئے نظر آیا تو قسم ہے ان پہاڑوں کی کسی کھائی سے اس کی لاش نکالو گے تم لوگ" گل مہر نے دبنگ لہجے میں کہا تھا 
اسی وقت اپنے مضبوط قدموں کی دھمک پیدا کرتا مہروز خان چلا آیا تھا 
" کیا بات ہے کیوں رولا ڈال رکھا ہے.....کون مرگیا ہے" وہ پتھر پھاڑ لہجے میں بولا تھا 
" ہمیشہ مرنے مارنے کا ہی سوچنا خان ...کبھی کچھ تیسری بات بھی سوچ لیتے ہیں دنیا کے کاروبار یوں ہی نہیں چلا کرتے" گل مہر اپنی چادر درست کرتی ہوئی بولی تھی 
مہروز خان کی خمار آلود ....لہو رنگ آنکھیں دیکھ کے اسے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا 
" کیا بات ہے مور جان ....کیا تکلیف ہے اسے" وہ حقارت بھرے لہجے میں اس کا ذکر کرتے ہوئے بولا تھا 
"تھانیدارنی خانم آگئی سمجھو گیا سکون ارے امروز خان کو زرا سا مستی کرنے پہ میرے بچے کو اس نے نیلو نیل کردیا " امو جان کو مہروز سے بڑی ڈھارس تھی 
" اتنی سی مستی....خدا کا خوف کریں امو یہ چھوٹی چھوٹی مستیاں ہی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بنتی ہیں ابھی نہ روکا تو پھر آپ پچھتائیں گی...عزتیں سب کی برابر ہوتی ہیں علاقے کے سردار کا بیٹا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کچھ بھی کرے " گل مہر کو پتنگے ہی لگ گئے تھے 
" تم مہمان ہو مہمان بن کے رہو ....مہروز خان نام ہے میرا سارے کس بل نکال دوں گا " مہروز خان اسے گھورتے ہوئے بولا تھا 
"تو خان میرا نام بھی گل مہر ہے ....آپ بھی مجھے نہیں جانتے میں نا انصافی برداشت نہیں کرتی" گل مہر اس کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کے بولی تھی 
"دفعہ کر بچے اسے ...چل آرام کر خان بڑے خان ابھی آئیں گے تو بلا لیں گے جب تک آرام کر لے....زیتون, زیتون ادھر آؤ" امو جان نے بیٹے کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا جانتیں تھیں دونوں ہی پہاڑ ہیں فضول کا طوفان آتا گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا 
غلطی ان کے اپنے بچے کی تھی 
" جی جی ....خانم " وہ سترہ اٹھارہ برس کی خوبصورت پریوں جیسا حسن رکھنے والی لڑکی تھی 
مہروز خان کو دیکھ کے وہ اور گھبرا گئی تھی 
کام کی زیادتی کی وجہ سے حویلی میں ملازموں کا اضافہ کرنا پڑا تھا 
زیتون گل بھی ان میں سے تھی 
"چل ....خان کو ناشتہ پانی دے جلدی" امو جان زیتون کو حکم دے کر اندر بڑھ گئیں تھیں 
مہروز خان کے انداز اس پری پیکر کو دیکھ کر بدل ہی گئے تھے اسے نگاہوں میں تولتا ہوا وہ اندر کی جانب بڑھ گیا تھا 
زیتون خشک پتے کی مانند کانپنے لگی تھی 
گل مہر کی نگاہوں سے یہ سب چھپا نہیں رہا تھا 
"گل .... بی بی یہاں آؤ" مہر نے نسبتا بڑی عمر کی ملازمہ کو پکارا تھا 
" جی بی بی" گل بی بی نے کہا
" چھوٹا خان آیا ہے اسے ناشتہ پانی دو ....زیتون گل کو میں لے جارہی ہوں گودام کی طرف" مہر نے زیتون کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا تھا 
"پر چھوٹا بی بی خاناں ام کو جان سے مار دے گا " زیتون حلق تر کرتے ہوئے بولی 
" ارے ہٹو بھی....ایویں مارے گا...میرے ہوتے ہوئے وہ عیاشی کرے گا تو گل مہر پہ تف ہے پھر میں ایسا نہیں ہونے دوں گی چلو تم میرے ساتھ ...یا تمہارا دل بھی کر رہا ہے اس شیر کی کچھار میں گھسنے کو" گل مہر کا لہجہ دبنگ سا تھا 
زیتون نفی میں سر ہلا کے فورا اس کے ساتھ چلنے لگی 
" آیا بڑا گجر کلچر فلموں کا ہیرو....خانوں کے نام پہ تو اس نے بٹہ ہی لگا دیا تھا" 
گل مہر کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا بھلے سے شکل میں وہ یوسف ثانی تھا مگر اس کی حرکتیں اوپر سے تیر کمان بنی مونچھیں اور شانے سے لٹکتے ہولسٹر میں ریوالور 
زہر سے بھی برا اور کڑوا لگتا تھا وہ گل مہر کو 
اور یہ زہر اس کی زندگی میں گھولنے کو تیار بھی تھا 
______________________________
جاری ہے 

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.