Ads Top

میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے نویں قسط


میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے نویں قسط 

 " محبت کے دعویداروں کی پہلی ترجیح عزت ہوتی ہے اپنے محبوب کی عزت کیا میں آپ سے توقع رکھوں کہ میری عزت اور میرے وقار کی بالادستی کیلئے آج کے بعد آپ کبھی میری راہ میں نہیں آئیں گے میرے راستے پہلے ہی بہت کٹھن ہیں اپنے بڑھتے قدموں کو روک کر اسے تھوڑا آسان کردیں .......پلٹ جائیں میری طرف آنے والے ہر راستے سے" 
 سبوخ آفریدی کے کانوں میں مہر کی آواز گونج رہی تھی وہ لڑکی نہ اس کے جذبوں کی پزیرائی کرکے گئی تھی نہ تحقیر بس وہ اس کے جذبوں پہ بند باندھ گئی تھی 
اسے ایک سنسان بیابان کھنڈر بنا گئی تھی 
سبوخ کی محبت کا کھنڈر 
جہاں اس کی بے لوث خاموش محبت بین کرتی تھی 
ایک بار اس خاموش محبت کو الفاظ کا پہناوا پہنا کے دیکھ لیا تھا 
بدلے میں کیا ملا تھا?
اسے اپنی محبت کا مان رکھنا تھا 
بچپن سے لے کے آج تک جس چیز کو دل چاہا اسے ملی تھی 
جسے اس نے آنکھ اٹھا کے دیکھا ,جو نظر میں سمائی اسے حاصل ہوئی تھی 
مگر محبت چیز نہیں یہ عطا خداوندی 
رحمت آسمانی ہے 
نصیبوں کا عروج ہے 
 " گل مہر تمہاری عزت کا پاس نہ ہوتا تو قسم ہے بلندیوں کے رب کی تم تک پہنچنے کیلئے ہر پل صراط عبور کرلیتا .....مگر محبت کے مقابلے میں عزت ہمیشہ معیار رہا ہے بات عزت پہ آجائے تو ہر شے پھر بے معنی ہیں تمہیں پانا اگر اختیار میں نہیں تو کیا ہوا تمہارا مان رکھنا تو میرے اختیار میں ہے نا " سبوخ کی سنہرے سمندر سی آنکھوں میں ہجر کی سرخی کا جزیرہ پھیل رہا تھا بالکل شام کے ملگجے اندھیروں کی طرح 
 محبت کے قرینوں میں پہلا قرینہ ادب ہے عزت ہے اور اگر آپ یہی نہ سیکھ سکیں تو پھر کم از کم آپ کو محبت کا دعوی نہیں کرنا چاہئیے 
سبوخ آفریدی ان راستوں میں تھا جن کی منزل عشق ہوتی ہے 
 کتنے ماہ بیت گئے اس دن کے بعد سے جب بھی مہر سے سامنا ہوا سبوخ نے کبھی نظر بھر کے اسے دیکھا ہی نہیں وہ مہر کی محبت کے محور میں ہی مقید ہوکے رہ گیا تھا 
 وہ مستیاں شرارتیں سب اب خواب کی طرح لگتیں تھیں کبھی کبھی دانی اور مامون کے اسرار پہ وہ ان کے ساتھ شامل ہوتا تھا ......اب وہ سنجیدگی سے اپنی ڈگری مکمل کرنا چاہتا تھا 
_____________________________________
 سیکنڈ سمسٹر کے ایگزامز شروع ہونے والے تھے سو مہر ذیادہ تر لائبریری میں ہی پائی جاتی تھی ساتھ میں سونیا اور کومل کو بھی گھسیٹ لیتی تھی 
 "کیا مصیبت ہے یار....ان کتابوں سے مغز ماری کرنا ضروری ہے کیا اب تو ایک کلک پہ ہی من چاہا مواد مل جاتا ہے ضروری ہے اس جھنجھٹ میں پڑنا " سونیا اکتا کے بولی تھی 
"اٹھو ....اور دفعہ ہوجاؤ پھر یہاں سے " مہر نے اسے گھورتے ہوئے کہا 
 " ہاں کمی نہیں ہے اسٹوڈنٹس کی بھری پڑی ہے لائبریری ....اوہو سبوخ صاحب بھی یہاں پائے جاتے ہیں مہر تمہارے پیچھے بچہ کہاں پہنچ گیا " کومل نے لقمہ دیا 
" اسٹاپ اٹ ایسا کچھ نہیں ہے " مہر نے ایک نظر سبوخ پہ ڈالتے ہوئے کہا 
 نیوی بلیو شرٹ اور بلیک جینز کے ساتھ اپنے سنہری مائل بھورے بال ماتھے پہ بکھیرے وہ انہماک سے قلم چلا رہا تھا 
 " لاسٹ سمسٹر میں تو تم بازی لے گئیں تھیں مہر مگر اس بار سبوخ کی سنجیدگی بتا رہی ہے کہ وہ میدان مارنے والا ہے " سونیا کی نظریں اب تک سبوخ پہ ہی ٹکیں تھیں 
"تو مار لے میدان میں نے کونسا جا کے اسے پھانسی لگانی ہے" مہر نے سر جھٹکا 
" پھانسی تو تم لگا ہی چکی ہو اسے ال ریڈی انکار کر کے" سونیا نے طنز کیا
"کیا مطلب" کومل نے حیرانگی سے پوچھا 
"سبوخ نے اسے پرپوز کیا تھا محترمہ نے رفیوز کردیا" سونیا کو نہ جانے کب سے پتہ تھا 
" کس نے کہا تم سے یہ?" مہر بھڑک کے بولی تھی 
"ہمارے بھی اپنے سورس ہیں پتہ چل ہی جاتا ہے عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے محترمہ" 
 "لک سونیا ....یہ قصہ اب ختم ہوچکا ہے دوبارہ یہ ڈسکس مت کرنا " مہر دو ٹوک انداز میں بولی تھی 
بہت ہوگیا تھا ڈرامہ وہ کب سے اس ڈرامے کا ڈراپ سین کرچکی تھی 
کہانی ختم ہوچکی تھی شروع ہونے سے پہلے 
مگر 
کیا واقعی کہانی ختم ہوچکی تھی ?
_____________________________________
" مہر تمہیں اکا جان بلا رہے ہیں" گل رخ نے کافی بناتی مہر سے کہا 
" بس یہ کافی ریڈی ہوگئی ہے تو جاتی ہوں " مہر نے کافی کپ میں ڈالتے ہوئے کہا 
"اکا آپ نے بلایا " مہر نے انہیں کافی دیتے ہوئے کہا 
" ہماری بیٹی تو عید کا چاند ہوگئی ہے ....ملتی ہی نہیں آج کل" اکا نے سپ لیتے ہوئے کہا 
" بس اکا ایگزامز کی وجہ سے بزی تھی " 
" ہوگئے ایگزامز کمپلیٹ" 
" جی ہوگئے" 
" گل مہر" اکا نے پکارا 
" جی اکا" مہر الرٹ ہوئی ہے 
یہ اکا کا خاص انداز تھا اسے پکارنے کا جب بھی کوئی نصیحت کرنی ہوتی تھی یا تنبیہ 
" اس ویک ہم لوگ وادی جا رہے ہیں مہر....کوشش کرنا تمہاری ماں کو کوئی شکایت نہ ہو" 
 "پر کیوں اکا......آپ نے تو کہا تھا جب تک میری ڈگری مکمل نہیں ہوجاتی تب تک ہم نہیں جائیں گے " 
 " ہاں کہا تھا مگر ابھی حالات کی روشنی میں ہمیں چلنا ہی ہوگا .....تمہاری ماں بھی یہی چاہتی ہے " اکا کے دماغ میں کیا چل رہا تھا فی الحال گل مہر اس کی گرد بھی نہیں پا سکی تھی 
چپ چاپ اپنی تیاری کی تھی جانے کی گل رخ اور باقی سب بہت پرجوش تھے وادی جانے کیلئے 
 " پتہ ہے مہر....اکا کہہ رہے تھے مورے کو کہ وہ تایا کو اس بار صاف انکار کردیں گے مہروز خان کے رشتے کیلئے مگر شمروز خان کیلئے سوچے گے وہ کافی مختلف ہے سب میں " گل رخ نے کچھ شرماتے ہوئے بتایا 
 "تمہیں بڑا پتہ ہے محترمہ .....یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں " گل مہر کو ایک دم ہی بڑے زور کا غصہ چڑھا تھا مہروز کا نام سن کے 
" اس بار تم نہیں بچو گے " مہر نے سوچا 
 وادی ویسے ہی تھی جیسے چار سال پہلے چھوڑ کے گئے تھے وہ لوگ بس سناٹا پہلے سے بڑھ گیا تھا حویلی کا 
اور یہ سناٹے مہر کو اپنی روح میں اترتے ہوئے محسوس ہورہے تھے 
 مہروز اور گلباز حسب معمول غائب تھے جبکہ شمروز اور ارباز شہر میں ہوتے تھے پڑھائی کیلئے گل مینے کینیڈا جا چکی تھی اپنے شوہر کے پاس امو جان کا دم خم البتہ اب بھی وہی تھا بلکہ مہر کو وہ پہلے سے زیادہ چوکس لگیں تھیں 
انکی آنکھیں ہر وقت مہر کو ہی کھوجتی رہتیں تھیں پرویز خان بطور خاص اسے وقت دیتے تھے 
کچھ تھا جو مہر کو کھٹک رہا تھا 
_____________________________________
 رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا جب مہر کی آنکھ کھلی تھی یک دم ہی گھٹن کا شدید احساس ہوا تھا حالانکہ موسم کافی خوشگوار تھا مہر کمرے سے باہر نکل آئی تھی دبے پاؤں چلتے چلتے وہ پچھلی طرف آگئی تھی اس طرف پرویز خان کا کمرہ خاص تھا یعنی میٹنگ روم 
 " اوہو مہروز .....وہ کوئی ہرنی نہیں ہے اس وادی کی جس کو تم ایک ہی تیر سے گھائل کرلو.....وہ شیرنی ہے شیرنی امیرم کی شیرنی وہ اور امیرم ایک دوسرے کی جان ہیں اور شیرنی کا شکار جوش سے نہیں ہوش سے کرتے ہیں .....شکارن کو شکاد کرنا اتنا بھی آسان نہیں" وہ آواز بلاشبہ پرویز خان کی تھی 
 "اوہو....بابا جان آپ نے خواہ مخواہ اس لڑکی کو ہوا بنا رکھا ہے جو بھی ہے وہ بھلے سے ہے تو ایک لڑکی ہی نا بس ایک موقعے کی مار" مہروز خان کی جھنجھلائی ہوئی آواز تھی 
 " اسے عام لڑکی سمجھنے کی غلطی مت کرنا مہروز.....اب میری بات سنو کل تم امیرم کو اس کی زمینوں کی طرف لے کے جاؤ سنا ہے کل ہمارے دشمن بھی وہاں کا رخ کریں گے ....کام سارا تمہارے آدمی کریں گے اور نام کس کا آئے گا یہ تم جانتے ہو بس احتیاط لازم ہے" انکا پلان مکمل تھا 
"اسکی تو آپ فکر نہ کریں" مہروز خان نے وحشت بھرے انداز میں کہا 
باہر کھڑا وجود پسینے میں شرابور ہوچکا تھا 
یہ کیسے لوگ تھے .....ایسے ہوتے ہیں اپنے
______________________,,,_____________
 " سبوخ آفریدی..... واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز یہ ہماری آنکھیں کیا دیکھ رہیں ہیں اس سال میں دوسرا چکر....کمال کردیا یارا" شمریز خان نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا.
" واپس چلا جاؤں.....اگر نہیں برداشت ہورہا " 
 " ارے یار....تم کب سے اینگری برڈ بن گئے ہو .....سو روڈ سبوخ آفریدی سب ٹھیک ہے نا" شمریز کو حیرت سی ہوئی تھی 
اسکا لاڈلہ ہنستا کھیلتا بھائی .....شرارتیں کرتا سبوخ کیسے سنجیدہ مزاج ہوگیا تھا?
وہ تو کہتا تھا میں موسم تھوڑی نا ہوں جو بدل جاؤں 
تو اب یہ کیا ہوا تھا?
"اوئے بیٹا.....کہیں دل تو نہیں لگا بیٹھے" 
"لگا نہیں.... دے بیٹھا ہوں" سبوخ نے اعتراف کرلیا تھا 
بھائی جیسے دوست کے سامنے 
" کون ہے وہ?" 
" ہے نہیں.....تھی" سبوخ نے تصیح کی 
" مطلب...اب کہاں گئی " 
 "وہ وہی ہیں جہاں تھی بس اپنی طرف آنے والے سارے راستے اس نے بند کردئیے مجھے بے دخل کردیا" سبوخ نے درخت کی پشت سے ٹیک لگا لی تھی 
" اور تم ہوگئے اتنی آسانی سے بے دخل ......کیسے خان ہو تم" شمریز کو جھٹکا لگا تھا 
 "میں ایسا ہی ہوں شمریز.....محبت سے پہلے عزت ہوتی ہے اور مجھ پہ لازم ہے جس سے محبت کروں اسے عزت دوں" سبوخ کا اپنا ہی اصول تھا
 " تو پھر یہ اداسی کیوں?.....جب اسے چھوڑ ہی چکے ہو تو اسکا دھیان کیوں نہیں چھوڑ دیتے" شمریز خان نے سوال کیا 
 " میں نے نہیں اس نے مجھےاپنائے بنا چھوڑ دیا......اور اسے چھوڑ تو دیا ہے بس ذرا یاد کرلیتا ہوں.....کچھ تو وقت لگے گا نا " سبوخ کے وجود کے پور پور سے محبت کی امربیل لپٹ چکی تھی
 " چل گھر چلتے ہیں مورے انتظار کررہیں ہوں گی .....اچھا ہوا جو تم آگئے اسی ہفتے اسپتال کا بھی افتتاح ہے وہ بھی تم کروگے" شمریز نے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا 
اور یہ کتنا اچھا ہوا تھا یہ تو تقدیر ہی جانتی تھی اور تقدیر لکھنے والا اس جہاں کا رب 
_____________________________________
 جاری ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.