Ads Top

میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفےآٹھویں قسط

میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے

آٹھویں قسط 
 "کیا کہہ رہی ہیں آپ ....سونیا کیا ہوا ہے مہر کو?" یہ الفاظ سبوخ آفریدی نے کس جدوجہد سے ادا کئے تھے وہی جانتا تھا 
ایک حشر سا بپا ہوا تھا سینے میں 
ایک قیامت کا لمحہ تھا 
ایک غم کا عالم تھا 
"میں نے کب کہا اسے کچھ ہوا ہے?" سونیا الٹا حیرانی سے بولی تھی 
"کیا...." سبوخ اس کی شکل دیکھ کے رہ گیا تھا 
 "تو مس سونیا اسپتال لوگ پکنک منانے تو نہیں جاتے نا....اسپتال جانے کا تو ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ اگلا بندہ بیمار ہے" سبوخ کچھ ناگواری سے بولا 
 " نو مسٹر سبوخ آفریدی...... اسکا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ بندہ کسی کی عیادت کو بھی اسپتال جا سکتا ہے اس کی دیکھ بھال کرنے" سونیا نے ایسے بتایا جیسے وہ کچھ جانتا ہی نہ ہو 
سبوخ کی جان میں جان آئی تھی کچھ 
" کس کی عیادت کیلئے " فورا پوچھا 
"اس کی امی اسپتال میں ہیں " سونیا نے بتایا 
سبوخ کو وہ شفیق سی خاتون یاد آئیں تھیں کیسے اس کیلئے انہوں نے مہر کو ڈانٹا تھا 
" اوہ سو سیڈ.....کیا ہوا انہیں" 
 "کچھ طبیعت خراب ہے انکی ایڈمٹ ہیں وہ تو مہر انکے ساتھ ہی اسپتال میں ہوتی ہے اس لئے یونی نہیں آرہی ہے وہ" سونیا کچھ سنجیدگی سے بولی تھی 
اب وہ کیا بتاتی کہ وہ اسپتال میں کیوں ہیں
"اگر کچھ مسئلہ نہ ہو تو کیا آپ اسپتال کا نام بتا سکتیں ہیں مجھے" سبوخ نے پوچھا 
" ہاں ....ہاں کیوں نہیں آخر کو ہم کلاس فیلو ہیں" سونیا کچھ شریر ہو کے بولی تھی 
یعنی اس کا اندازہ درست تھا 
کچھ تو تھا سبوخ کے دل میں مہر کیلئے 
_____________________________________
 "اوہ مورے بس کردیں پلیز.....ہفتہ ہونے والا ہے اور آپ کا رونا ہی نہیں ختم ہورہا ..." مہر تنگ آگئی تھی 
اس رونے دھونے سے 
 " تم کیا جانو میری تکلیف مہر .....ایک ماں کا درد کیا جانو اپنا بچہ کھویا ہے میں نے" پلوشہ ہچکی لیتے ہوئے بولیں تھیں 
 "وہ بچہ جو اس دنیا میں آیا ہی نہیں اس کیلئے یا پھر اس لئے کہ وہ لڑکا تھا ....مورے یہ اللّه کا فیصلہ تھا " مہر نے انکے شانے پہ ہاتھ رکھا 
 "تم لوگوں کی باری میں کبھی ایسا نہیں ہوا کیا تھا کہ اگر یہ میرا بیٹا اس دنیا میں آجاتا ...میں بھی ایک بیٹے کی ماں بن جاتی" پلوشہ کا سارا مسئلہ ہی یہ تھا 
 "مورے ہم نصیب سے نہیں لڑ سکتے ...جو ہمارے نصیب میں ہے نہیں تو ہمیں کیسے ملے گا ....مورے صبر کریں ....ہم بھی تو ہیں آپ کی اولاد کیا ہمارے لئے آپ خود کو نہیں سنبھال سکتیں ....ہمیں آپکی ضرورت ہے مورے" مہر نے انہیں گلے لگاتے ہوئے کہا 
 "اتنے سالوں بعد مہر مجھے لگا تھا کہ میں بھی خاندان میں سر اٹھا سکوں گی کچھ اپنا مان بڑھا سکوں گی" پلوشہ کی بات پہ مہر ایک سانس لے کے رہ گئی تھی 
یہ رسم و رواج انسان کی جان ہی لے لیتے ہیں 
 " مورے ...لڑکے کی ماں ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی اور مورے ہم ہیں نا آپ کا فخر اور غرور کبھی آپ کا سر نہیں جھکنے دیا اور اگر کبھی ایسا موقع آیا تو گل مہر وعدہ کرتی ہے کہ وہ بیٹوں سے بڑھ کر آپ کا مان رکھے گی....یہ وعدہ ہے " گل مہر نے کہا 
 " یہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے پلوشہ ...اللّه کی رضا میں راضی ہوجاؤ" امیرم خان اندر آتے ہوئے بولے تھے 
اور گل مہر کے الفاظ اس کا بہت جلد امتحان لینے والے تھے 
_____________________________________
" کیا میں اندر آسکتا ہوں..." سبوخ نے پوچھا تھا
پلوشہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگیں تھیں 
مہر کچھ دیر پہلے ہی گھر گئی تھی باپ کے ساتھ ابھی انکے ساتھ گل رخ تھی 
"بیٹا تم....وہی ہو نا جس نے اس دن ہمیں لفٹ دی تھی " پلوشہ نے تصدیق چاہی تھی 
" جی آنٹی ...کیسی طبیعت ہے اب آپکی " سبوخ انہیں بکے دیتے ہوئے بولا تھا 
"ٹھیک ہوں....تمہیں کس نے بتایا کیا مہر نے " پلوشہ نے سوال کیا 
 " نہیں آنٹی ..(آپکی بیٹی تو آنکھ اٹھا کے دیکھتی ہی نہیں کجا کہ بتائے گی مجھے)" سبوخ نے سوچتے ہوئے کہا 
 اسے پلوشہ بی بی بہت اچھی لگتیں تھیں بالکل نرم مہربان سی اس لئے وہ انکی طبیعت کا سن کے رہ نہیں پایا تھا 
" کتنے اچھے ہیں نا سبوخ لالہ" گل رخ نے اسکے جانے کے بعد پلوشہ سے کہا تھا 
"ہاں واقعی ....بہت اچھا بچہ ہے" پلوشہ نے نرمی سے کہا 
_____________________________________
 مہر آج دو ہفتے بعد یونی آئی تھی سو کافی بزی تھی سونیا اور کومل سے اس نے پریویس لیکچرز لے لئے تھے اور ساتھ میں ہی سونیا نے اسے تازہ ترین خبریں بھی بتا دیں تھیں 
 " تم مانو یا نا مانو مہر سبوخ آفریدی دل و جان سے تم پہ فدا ہوگیا ہے ....اب تو یقین کرلو " سونیا اس سے اقرار کروانا چاہتی تھی 
 " بکواس مت کرو سونیا میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میری زندگی میں اس سب کیلئے کوئی جگہ نہیں " مہر کا موڈ خراب ہوچکا تھا 
پہلے ہی اسے اس بات پہ غصہ تھا کہ سبوخ پلوشے کو اسپتال کس خوشی میں دیکھنے آیا تھا 
مہر نے کتاب پٹخی اور لائبریری سے باہر چل دی تھی 
" اسے کیا ہوا ہے" سونیا حیرانگی سے بولی تھی 
"تھانیدارنی کا مزاج آج گرم ہے کچھ تو ہوگا ہی" کومل نے کہا 
"ایکسکیوزمی مس مہر....." سبوخ نے اسے روکتے ہوئے کہا تھا 
"کیا بات ہے مسٹر سبوخ" مہر کا لہجہ بالکل سرد تھا 
"آنٹی کیسی ہیں" 
" فائن" ایک لفظی جواب حاضر تھا 
"مہر کچھ بات کرنی ہے آپ سے " سبوخ نے تمہید باندھی تھی 
وہ آج آر یا پار کا فیصلہ کر کے آیا تھا 
" کیا بات ہے سبوخ آفریدی جو آپ کو مجھ سے لازمی کرنی ہے" گل مہر نے پوچھا تھا 
" مہر یہاں بیٹھ جائیں ...اطمینان رکھیں" 
مہر کو کچھ کچھ اندازہ ہو چلا تھا سبوخ کیا کہنے والا ہے 
لڑکیوں کی حس اس معاملے میں کافی تیز ہوتی ہے 
" ٹھیک ہے....بیٹھ جائیں" مہر اسے بیٹھنے کا اشارہ کرکے خود بھی بیٹھ گئی تھی 
آج صاف صاف بات ہوہی جائے 
" مہر....میں اپنے پیرنٹس کو آپکے گھر بھیجنا چاہتا ہوں " سبوخ نے کہا 
" کیوں" 
"میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں" سبوخ نے اپنے دل کی بات کی تھی 
" کیوں" مہر نے اسی لہجے میں کہا 
" کیونکہ مجھے آپ سے محبت ہے مہر....آئی ایم ان لو" سبوخ کا لہجہ محبت سے چور تھا 
گل مہر نے اپنی مٹھیاں بھینچ کے خود کو کنٹرول کیا تھا 
"آپکی بات ختم ہوگئی مسٹر" اب کی بار مہر کا لہجہ بالکل سپاٹ تھا 
 " یس مہر....میں اب آپکا جواب سننا چاہتا ہوں" سبوخ نے اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا 
 "آپ کو کسی قسم کی زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ....میری طرف سے انکار ہے سو بار " مہر کھڑی ہوتی ہوئی بولی تھی 
"کیوں مہر...." سبوخ نے پوچھا 
 " میری زندگی میں اس سب کی کوئی گنجائش نہیں ہے سبوخ آفریدی آپ نے آج یہ بات کردی ہے دوبارہ یہ بات مجھ سے مت کیجئے گا میرا راستہ اور منزل بالکل جدا ہے" مہر کا لہجہ ہنوز سپاٹ تھا 
وہ اسے کسی قسم کی امید نہیں دلانا چاہتی تھی 
" مہر ساتھ چلنے سے راستہ اور منزل ایک ہوہی جاتی ہے اور سفر بھی آسان ہوجاتا ہے " 
 " نہیں سبوخ ایسا نہیں ہوسکتا ....میری شادی کا حق صرف میرے اکا کو ہے مجھے پڑھنا ہے اپنے خاندان کی لڑکیوں کیلئے پڑھائی کیلئے دروازے کھولنے ہیں جو ان پہ صدیوں سے بند ہیں آپ چاہتے ہیں کہ میں اپکا پرپوزل قبول کرلوں تاکہ لوگوں کو موقع مل جائے کہ میں نے اپنے ساتھ پڑھنے والے ہی سے شادی کرلی نو وے" مہر نے انکار میں سر ہلایا 
"تو اس میں برائی ہی کیا ہے" سبوخ نے پوچھا 
 " برائی نہیں گناہ ہے یہ سبوخ آفریدی ....ہم لڑکیوں کیلئے میں اپنے پیچھے آنے والی لڑکیوں کیلئے راستے نہیں بند کرسکتی .....مجھے آپکے ساتھ کی چاہ نہیں" مہر کا لہجہ بالکل بے لچک تھا 
وہ سبوخ کے دل کی دنیا ویران کر کے جاچکی تھی 
_____________________________________
مہروز خان چکر پہ چکر لگا رہا تھا کمرے میں فشار خون حد سے ہی بلند ہوچکا تھا 
 " بابا جان یہ ہمارا علاقہ ہے صدیوں سے ہمارا راج ہے یہاں اور یہ آفریدی قبیلے والے یہاں اسپتال اور اسکول بنا کے ہمارا راج ختم کرنا چاہتے ہیں بہت مہنگا پڑے گا انہیں.... انکی نسلیں برباد کردوں گا میں" 
 "آرام سے ٹھنڈے دماغ سے سوچو مہروز ....اوپر سے امیرم خان کا بھی فون آگیا ہے وہ آنے کا کہہ رہا ہے سنبھالو اپنے آپ کو" پرویز خان نے تنبیہ کی 
" یہ چاچا اتنے سالوں بعد کیوں" مہروز کے ماتھے پہ شکن پڑگئیں تھیں 
 "اسکی گھر والی کی وجہ سے کچھ ہوا پانی بدلنا چاہ رہا ہے....میں پھر کہتا ہوں مہروز کوئی حماقت نہیں ہونی چاہئیے" پرویز خان نے ہدایت کی 
"وہ تھانیدارنی بھی ہوگی ساتھ" مہروز نے پوچھا اشارہ مہر کی طرف تھا 
"ہاں ...پوری فیملی" پرویز خان نے کہا 
 "اس بار وہ میرے ہاتھوں سے نہیں بچے گی اگر کوئی بکواس کی اس نے" مہروز نے قہر بھرے لہجے میں کہا 
"ہلکے ہوجاؤ مہروز خان کبھی شیر کا شکار کیا ہے تم نے" پرویز نے پوچھا 
" نہیں تو " مہروز نے انکار کیا 
 " تو اس بار میں تمہیں سکھاتا ہوں کہ شیرنی کا شکار کیسے ہوتا ہے" پرویز خان نے پراسرار لہجے میں کہا 
 جاری ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.