میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 37
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_37_سیکنڈ_لاسٹ
"آپ یہاں " جہانگیر کو دروازے میں ایستادہ پاکر غوزہ کو جھٹکا لگا تھا وہ تو سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ کبھی جہانگیر اس تک خود چل کر آۓ گا وہ راستہ دیتی ایک طرف ہوئی
"پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں صرف چند باتیں کرنے آیا ہوں "آگے بڑھتے ہوۓ وہ کہہ رہا تھا غوزہ بھی اس کی تقلید میں چل پڑی
"میں تمہیں لینے آیا ہوں "اس نے گویا بم پھوڑا تھا ٹی وہ لاؤنج کے دروازے پر پہنچ کر وہ رکا غوزہ کی نظر تو اس کے قدموں سے لپٹی تھی اور دل ۔۔۔۔۔ دل تو گویا دھڑکنا ہی بھول گیا تھا
"کوئی زبردستی نہیں ہے ۔۔۔ نہ ہی جلدی ۔۔۔۔ تم اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔۔۔ اگر میرا ساتھ قبول نہ بھی ہو تو بلاتردد بتا دینا ۔۔۔۔ میں انا کا پجاری نہیں ہوں ۔۔۔ میں تمہارے فیصلے کا احترام کروں گا " بات ختم کر کے وہ مسکرایا تھا دلکش نکھری شفاف مسکراہٹ غوزہ کو دل ڈوبتا محسوس ہوا یہ کس کٹھن الجھن میں ڈال گیا تھا وہ اسے ۔۔۔۔ بمشکل تو دل سنبھلا تھا اور وہ پھر سے سامنے آن کھڑا ہوا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
"حرب حرب کیا ہوا ۔۔۔۔ رو کیوں رہی ہو " مغیث نے حرب کو جھنجھوڑا جو ہچکیوں سے روۓ چلے جارہی تھی
"ہٹیں پیچھے" حرب نے سرعت سے ہاتھ جھٹکے ساتھ ہی رخ پھیر گئ
"یار بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے " وہ حقیقتاً پریشان ہوا تھا حرب فیضان کا رونا یقیناً کوئی معمولی تو نہ تھا
"بات مت کریں ۔۔۔ جائیں اسی چڑیل کے پاس جس سے رات دن گفتگو کرتے ہیں "وہ اسے پیچھے دھکیلتی چلا اٹھی تھی
"اوہ ۔۔۔ تو تمہیں خبر ہو گئ " مغیث نے بے اختیار سانس بھرا
"ہاں گوہر بھائی نے سب بتا دیا مجھے"اس نے مزید کہا ساتھ ہی تیز نظروں سے اسے گھورا
"عون کسی صورت اس چڑیل کے پاس نہیں جاۓ گا سمجھے آپ " اس نے انگلی اٹھا کر وارن کیا گوہر کی زبانی اسے معلوم ہو چکا تھا کہ نور جہاں عون کی کسٹڈی کے لیے کیس کی دھمکی دے رہی ہے
"سمجھ گیا " وہ لب دانتوں تلے دبا کر مسکرایا تھا ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھام لیا
"بھئ عون صرف اس ہستی کے پاس رہے گا جو مغیث حیات کے دل میں بستی ہو اب چاہے وہ کوئی چڑیل ہی کیوں نہ ہو " آخر میں مغیث نے جان بوجھ کر چھیڑا تھا وہ جو بڑے انہماک سے اسے دیکھ رہی تھی فوراً سے چہرے کے زاویے بگڑے اسے جنگلی بلی کی طرح خود پر جھپٹتے دیکھ کر مغیث نے بھاگنے کا سوچا مگر اگلے ہی لمحے حرب فیضان کی زندگی سے بھرپور ہنسی اسے اندر تک سرشار کر گئ تھی
☆☆☆☆☆☆☆
"تمہیں سن نہیں رہا میں کیا بکواس کر رہا ہوں "جازم وہیں بیٹھے بیٹھے چلایا اب وہ کافی حد تک بہتر ہو چکا تھا مگر رخما کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا اوہ جو بڑے انہماک سے ٹی وہ دیکھ رہی تھی اس کے یوں چلانے پر چونکنے کی ایکٹنگ کرنے لگی
"مجھ سے کچھ کہا کیا"
"نہیں تمہارے ابا سے " وہ بری طرح چڑا تھا
"مجھے تو اباجی کہیں نظر نہیں آرہے " وہ بھی مزید چڑانے لگی
"ٹانگیں دباؤ میری " اس نے پھر سے حکم دیا
" سوری میرے ہاتھوں میں درد ہے "
"تمہاری ایسی کی تیسی " اسے صوفے سے اٹھتے دیکھ کر رخما نے لاپرواہی سے کندھے جھٹکے
"جہانگیر بھائی نے کہا ہے کہ میں خدمتیں کر کے آپ کو سر پر چڑھا رہی ہوں لہذا آج سے آپ اپنا کام خود کریں گے "اس نے صاف اسے جتایا تھا وہ حیران ہوا
" یہ بھیا نے تم سے کہا "
" ہاں نا ۔۔۔انہوں نے تو یہ بھی کہا کہ اگر آپ مجھ سے سختی سے بات کریں تو میں انہیں لازمی بتاؤں ۔۔۔ پھر وہ جانیں اور آپ "
"ایسانہیں ہو سکتا تم جھوٹ بول رہی ہو "
" اچھا تو چلیں پوچھ لیتے ہیں " وہ اسے پیچھے آنےکااشارہ کرتی باہر کی طرف بڑھی
"ارے ارے رکو کدھر جارہی ہو " وہ بھی فوراً اس کے پیچھے لپکا
☆☆☆☆☆☆☆
"یہ بات ماننے میں مجھے کوئی تامل نہیں کہ آپ بہت عظیم ہیں یہ آپکی اعلی ظرفی ہی تھی کہ میری سب خطائیں نظرانداز کر کے مجھ تک چلے آۓ لیکن میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتی ۔۔۔۔۔۔ میں آپ کی زندگی میں آ بھی جاؤں تو آپ کے اردگرد کے لوگ شاید مجھے قبول نہ کریں اور سب سے بڑی بات میں بھائی کو بھائی سے بدگمان نہیں کرناچاہتی اسی لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں آپ کی دنیا سے دور چلی جاؤں ۔۔۔۔۔ یہ زندگی اک بوجھ ہے اپنے باپ کے گناہوں کا بوجھ ۔۔۔۔ جسے میں آذاد کر دینا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ مجھے چلے جانا چاہئے تھا بہت پہلے ۔۔۔۔۔ لیکن دیر ہو گئ ۔۔۔۔ غوزہ تو اسی دن مر گئ تھی جس دن اس نے اپنے محبوب کی جان لینے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔ یہ تو بس ایک لاش تھی غرور کے زعم میں جیتی زندہ لاش ۔۔۔۔ اس زندہ لاش کو بھی آج جلا رہی ہوں میں آپ کی دنیا سے دور جا رہی ہوں ۔۔۔۔ جب تک آپ مجھ تک پہنچے گے میں یہ دنیا چھوڑ کر جا چکی ہوں گی
آپکی غوزہ مہر
۔۔۔۔ کاغذ جہانگیر کے ہاتھ سے چھوٹ کر دورجا گرا وہ آنکھوں کو بھیگنے سے روک نہ پایا تھا ایسا اس نے کب چاہا تھاوہ تو مخلص ہو کر اس کی طرف بڑھا تھا
"یہ تم نے کیا کر دیا " وہ سر دونوں ہاتھوں میں گرا گیا
☆☆☆☆☆☆☆
"بہت اچھا فیصلہ ہے بھائی جان ۔۔۔ مجھے تو مناسب لگ رہا"وقار صاحب نے فورا ان کے فیصلے کو سراہا تھا نوائم اور جہانگیر کی رخصتی کے ساتھ ہی گوہر اور انامتہ کا نکاح طے پایا تھا سب کے باہمی رضامندی سے البتہ مغیث کے تیور بگڑے ہوۓ تھے
"برخوردار آپ کو کیا ہوا "سکندر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ بے بس و مجبور انسان کی طرح پوراکا پورا ان کے کندھے پر آ رہامگر بس یہیں تک اکتفا نہ ہوا تھاوہ اب اونچی اونچی آوازمیں بین کرنے لگا تھا سب کے چہرے فق ہوۓ
" ہوا کیا ہے کچھ بتاؤ بھی " سکندر کو تشویش ہوئی اسے تھپکتے ہوۓ پوچھنے لگے مگر ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کر حیات صاحب نے آگے بڑھ کر اسے الگ کیا
"کیا مسلئہ ہے سیدھی طرح بتاؤ "
"ایسے نہیں "وہ بازو چھڑاتا پھر سے سکندر کے ساتھ چپک گیا
"آرام سے محبت سے پوچھیں " سکندر نے بھائی کو مشورہ دینے کے ساتھ اسے پچکارنا شروع کیا اور پھر آدھے گھنٹے کی منتوں کے بعد جو بات اس کے منہ سے برآمد ہوئی وہ سن کر سب سے زیادہ تپ حیات صاحب کو چڑھی
"میرا ایک بھی ولیمہ نہیں ہوا چاچو " وہ آنکھیں میچ کر کہتا پھر سے ڈرامے کرنے کے چکروں میں تھا مگر حیات صاحب کے دھموکے نے ایسا نہ ہونے دیا
"سچ کہہ رہا ہوں ۔۔۔ میرا بھی تو سوچیں " سب کے چہروں پر دبی دبی مسکان تھی سکندر سے ہنسی روکنا محال ہوا
"ویسے کوئی حرج بھی نہیں " سکندر نے اس کی حمایت کی
"تم بھی اس کے ساتھ احمق بن جاؤ " حیات صاحب کسی طور ماننے کو تیار نہ تھے مگر مغیث کا پلڑا بھاری ہوتا دیکھ کر انہیں ماننا پڑا اور یوں یہ طے پایا کہ مغیث اور حرب کا ولیمہ بھی گوہر اور انامتہ کے ساتھ ہی کیا جاۓ البتہ نوائم کی رخصتی ایک دن پہلے کر دی جاۓ گی
*#جاری_ہے*

No comments: