میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 36
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_36
"میرا بھائی ہاسپٹل میں ہے اورتم کہہ رہے ہو میں یہاں خاموشی سے بیٹھوں ۔۔۔۔آرام کروں " جہانگیر کا چہرہ غصے کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا
"یاردیکھو تم یہاں آؤ گےتو کسی کی بھی نظروں میں آسکتے ہو جازم کو صرف دو گولیاں لگی ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے ۔۔۔۔ ابھی میں تمہاری ڈاکٹر سے بھی تسلی کروا دیتا ہوں " گوہر نے اس اڑیل گھوڑے کو سمجھانا چاہا
"ٹھیک ہے تم اسے گھر لے کر پہنچو میں دیکھتا ہوں یہ سب کیا کس نے ہے "وہ درشتی سے کہہ کر کال کاٹ گیا تھا اور چنڈ منٹ بعد ہی وہ معاملہ کی تہہ تک پہنچ چکا تھا
"شمشاد شاہ ۔۔۔۔ اب تمہاری موت میرے ہی ہاتھوں لکھی ہے "
☆☆☆☆☆☆☆
"آپ کون اور کس سے ملنا ہے آپ کو " وہ ملازمہ کے ہمراہ چلتی ہوئی لاؤنج تک پہنچی تھی جہاں اس کا سامنا انامتہ سےہوا
"یہ جناب گوہر کا ہی گھر ہے نا ۔۔۔۔ مجھے مسز جہانگیر سے ملنا ہے ۔۔۔۔ انہوں نے بتایا تھا وہ یہیں ہے " وہ انگلیاں چٹخاتی اسے حیرانی سے دوچار کر گئ
"آپ بیٹھیں میں بلاتی ہوں " انامتہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتی نوائم کو بلانے چل دی ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی جب اسے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دی پلٹ کر دیکھنے پر جو چہرہ آنکھوں کے سامنے آیا وہ اسے گہرے شاک میں مبتلا کر گیا حرب بھی بے اختیار چونکی
"تم یہاں "حیرت کے جھٹکے سے سنبھل کر وہ فوراً اس کے مقابل آئی
"کیا لینے آئی ہو یہاں "اس کا انداز نفرت آمیز تھا غوزہ کو یقین ہی نہ آیا یہ اس کی دوست حوری ہے
"میں یہاں " وہ کہنے ہی والی تھی کہ حرب نے درشتی سے بات کاٹ دی
"بس بس ۔۔۔۔ اب لمبی کہانی مت سنانے لگ جانا "اس نے نخوت سے ناک سیکڑی
"چھوڑ دو اب ہمارا پیچھا ۔۔۔۔ پہلے جازم کو پھنسا لیا پھر جہانگیر سے بیاہ رچا لیا ۔۔۔۔ لیکن اب میں تمہیں اپنے بھائی کی زندگی میں برداشت نہیں کروں گی سمجھی " حرب نے اس کے وجود کے پرخچے اڑا دیے وہ برف ہوتے حواسوں کے ساتھ اسے دیکھے گئی جب انامتہ کی آواز پر حرب نے رخ پھیرا
"لیں بھئ۔۔۔ یہ ہیں مسز جہانگیر ۔۔۔۔ مجھے تو بہت شوق ہو رہا ہے جیجو سے ملنے کا ۔۔۔۔ لگتا ہے بہت اعلی پرسنلٹی ہیں تبھی تو لوگ نوائم کو ابھی سے ان کے حوالے سے جاننے لگے ہیں "حسب عادت انامتہ نے اپنی مرضی کا مطلب اخذ کر لیا
"کیا کہنا ہے تم نے اسے "حرب نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا
"میں صرف دیکھنا چاہتی تھی جہانگیر کی پسند کیسی ہو گی "غوزہ کی آنکھیں بے اختیار بھر آئیں تھیں نوائم کو اپنی جانب متوجہ پاکر وہ زخم خوردہ اندازمیں مسکرائی
بھلے ہی کسی غیر کی جاگیر تھا وہ
پر میرے خوابوں کی تصویر تھا وہ
مجھے ملتا بھی تو کیسے ملتا
کسی اور کے حصے کی تقدیر تھا وہ
"تم نہیں جانتی تم کتنی خاص ہو ۔۔۔ کیونکہ تم جہانگیر کی پسند ہو "یہ لفظ اس نے کس دل سے کہے تھے یہ وہ جانتی تھی یا اس کا رب ۔۔۔۔ آنکھوں میں آتی نمی کو بار بار پیچھے دھکیلتی وہ سرعت سے باہر کی جانب بڑھی حرب کا سکتہ یکلخت ٹوٹا اپنے رویے کی بدصورتی کا احساس ہوتے ہی وہ اس کے پیچھے لپکی مگر غوزہ نے پلٹ کر نہ دیکھا تھا
کاش کہ ہم ان کے دل پر راج کرتے
جو کل تھی وہ محبت آج کرتے
ہمیں غم نہیں انکی بے وفائی کا
ارمان تھا ہمیں بھی اپنی محبت پر ناز کرتے
☆☆☆☆☆☆☆
"آپ جانتے بھی ہیں بھیا ۔۔۔۔ آپ کے اس جھوٹ نے ہم سب کی جان نکال لی تھی ۔۔۔ ایسی بھی کیا ناراضگی۔۔۔۔ سزا دینی تھی نا مجھے ۔۔۔۔ برا بھلا کہتے ۔مار لیتے۔۔ مگر یوں تو نہ کرتے "وہ اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر بلک بلک کر روۓ جا رہا تھا جہانگیر نے اس کے ہاتھ ہٹا کر خود سے لگا لیا چاۓ لاتی رخما کے قدم کمرے کی دہلیز پر ہی ٹھٹھک کر رکے دونوں بھائیوں کی محبت کا نظارہ اسے اشک بار کر گیا اسے یاد تھا اپنی پوری زندگی میں اس نے شمشاد اور مراد کو محبت سے بات کرتے نہ دیکھا تھا کجاکہ بلک بلک کر رونا ۔۔۔ اس نے اندر جانے کی بجاۓ قدم واپسی کے لیے موڑ لیے ۔۔۔۔ اب جہانگیر کی واپسی کے بعد اسکے ساتھ کیا ہوگا ۔۔۔ وہ قطعی نہ جانتی تھی ۔۔۔ وہ حیران تھی کہ شمشاد بھائی سب جاننے کے باوجود چپ کیسے رہ سکتے ہیں اور اس کا خدشہ درست نکلا جازم کے ساتھ ہوۓ اس واقعہ نے اسے مزید ڈرا دیا تھا یقیناً جازم اس سب کا بدلہ بھی اسی سے ہی لیتا ۔۔۔ اور اب تو جہانگیر بھائی بھی واپس آ گئے جانے وہ کس نیچر کے ہوں گے یا اللہ رحم کرنا "وہ آنسو پونجھتی دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی اور شاید اس کی دعاؤں کی قبولیت کا وقت آ گیا تھا
" دھڑکنیں آنکھ کا ________آنسو تو نہیں ہیں لیکن..
ہم نے گن گن کے گنوائی ہیں کسی شخص کے نام....
☆☆☆☆☆☆☆
"بچ نکلا سالا" شمشاد نے غصے سے کھولتے کنپٹیاں مسلیں
"اگلی بار مر جاے گا ٹینشن کیا ہے" فاریہ نے نیل پالش لگاتے سکون سے جواب دیا
"آپ رُخما سے رابطہ کریں اسے کسی طرح نکال لایں وہاں سے"
"کیسے نکال لاوں نکاح ہو چکا ہے دونوں کا اب یہ اتنا آسان نہیں ہے "اسنے گویا فاریہ کی عقل پر ماتم کیا تھا
"میں تو کہتا ہوں دونوں کا ہی کام تمام کر دیں" مراد کے مشورے پر پالش فاریہ کے ہاتھ سے چھوٹ گئی
"کیا کہہ رہے ہیں آپ" اسے لگا سننے میں غلطی ہوئی ہے
"ٹھیک کہہ رہا ہے یہ کل کو وہ لوگ اسکے ذریعے کچھ بھی کر سکتے ہیں "شمشاد نے تائید کی تھی
"مثلاً کیا کر سکتے ہیں"
"پر اپرٹی میں سے حصہ لے سکتے ہیں کیس کر سکتے ہیں وہ مر جاے گی تو قصہ ہی ختم ہو جاۓ گا" مراد نے سفاکی کی حد کردی تھی
"بہن ہے وہ ہماری ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں آپ" وہ چلا اٹھی تھی اسے یقین نہ ہورہا تھا وہ یہ سب اپنی سگی بہن کے لیے کہہ رہے ہیں
"اب وہ ہمارے دشمنوں کے پاس ہے لحاظہ وہ بھی دشمنوں میں شمار ہوتی ہے" شمشاد نےگویا بات ہی ختم کر دی فاریہ مارے صدمے کے کچھ بول ہی نہ پائی
☆☆☆☆☆☆☆
جہانگیر شاہ ۔۔۔ کہانی کا اہم اور مرکزی کردار ۔رشتوں ناتوں میں الجھا محبتوں میں بٹا وجود اس درخت کے مشابہ جو دوسروں کو سایہ دیتا خود کھوکلا ہو چکا ہو وہ ایک ایسے کنویں کی مانند تھا جو اپنے آس پاس کو سیراب کرتے کرتے خود پیاسا ہی رہ جاۓ۔
ﮨﻤﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ،
ﮨﻤﯿﮟ ﺗﺴﺨﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﺗﮏ
ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ ﻣﺮﺣﻠﮯ ﺑﺎﻗﯽ،
ﮨﻤﯿﮟ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﺗﮏ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺠﺮ ﮐﮯ ﻗﺼّﮯ،
ﺳﻤﯿﭩﻮﮔﮯ ﺗﻮ ﻟﮑﮭﻮﮔﮯ
ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺑﺎﺭ ﺳﻮﭼﻮ ﮔﮯ،
ﮨﻤﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﺗﮏ
ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺩﻝ ﮨﮯ ﭘﯿﻤﺎﻧﮧ،
ﺳﻮ ﭘﯿﻤﺎﻧﮧ ﺗﻮ ﭼﮭﻠﮑﮯ ﮔﺎ
ﭼﻠﻮ ﺩﻭ ﮔﮭﻮﻧﭧ ﺗﻢ ﺑﮭﺮ ﻟﻮ،
ﮨﻤﯿﮟ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﺗﮏ
ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺭﻧﮓ ﭼﮭﻮﮌﻭ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ،
ﺍﮎ ﺭﻧﮓ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒّﺖ ﺳﮯ ﭼﺸﻢ ﺑﮭﺮ ﻟﻮ،
ﮨﻤﯿﮟ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﺗﮏ
ﮨﻨﺮ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ،
ﻣﺼﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﭙﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺫﺭﺍ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﭙﺎ ﺭﮐﮭﻮ،
ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﺗﮏ
ﻭﮦ ﮨﻢ ﮐﻮ ﺭﻭﺯ ﻟﻮﭨﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺍﺩﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ
ﺧﺪﺍ ﺭﮐﮭﮯ! ﻟﭩﯿﺮﮮ ﮐﻮ،
ﮨﻤﯿﮟ ﻓﻘﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﺗﮏ.. !
جہانگیر شاہ
تعلق کہاں سے اور کس خاندان سے تھا وہ تو آپ بخوبی جان چکے ہیں ۔۔۔ اسکی اصل کہانی تب شروع ہوئی جب فیضان شاہ نے غوزہ کو اس کی شریک حیات کے طور پر چنا وہ یہ سب کیوں کر رہے تھے اس کا معصوم ذہن سمجھنے سےقاصر تھا غوزہ اس کی بہت اچھی دوست تھی شاہ ولا میں فیضان شاہ کے بعد جس کی کمپنی اسے اچھی لگتی تھی وہ غوزہ ہی تھی۔۔۔ وہ خاصی بے وقوف سی تھی بات بات پر ڈرنے اور رونے والی ۔۔۔ فیضان شاہ کے کہنے پر وہ اس کا بے حد خیال رکھنے لگا سب بہت اچھا تھا پھر ایسی آندھی چلی جو سب بہا کر لے گئ اس میں سب سے ذیادہ نقصان اسی کا ہوا تھا اس کی مما ۔حمیرا ایاز۔۔۔ کالی رات میں کسی کے ساتھ بھاگ گئیں تھیں ۔۔۔۔ یہ سب ملازمہ کے الفاظ تھے جن سے اسے کوئی دلچسپی نہ تھی کیونکہ حمیرا کے ساتھ اس کا لگاؤ بچپن سے بس واجبی سا تھا لیکن وہ اس کی گڑیا کو بھی ساتھ لے گئ یہ بات ذیادہ تکلیف دہ تھی۔۔۔۔ شہاب حد سے ذیادہ ظالم ثابت ہوا تھا ۔۔۔ اس کے بابا کے ساتھ ساتھ تہمی.... اسکی بے ضرر پھوپھو کو بھی اپنی نفرت کی بھینت چڑھا گیا تھا اس حویلی میں اس کی کوئی جگہ نہ تھی وہ جازم کو وہاں کیسے چھوڑ دیتا آخر وہ اس کی عزیز از جان پھوپھو کا بیٹا تھا جانے سے پہلے اس نے ایک کام کیا تھا سب سے نظر بچا کر بابا کی ڈائری اٹھا لی جو انہیں اکثر لکھتے دیکھا تھا کالی سیاہ رات میں حویلی چھوڑنا اس کے لیے تکلیف دہ تھا مگر بعد کے وقت نے ثابت کر دیا کہ یہی اس کے حق میں بہتر تھا
☆☆☆☆☆☆☆
زندگی نے اسے اتنے نشیب و فراز دکھاۓ تھے کہ وہ وقت سے پہلے میچور ہو گیا بی جان نے اسے بیٹا کہا تھا اور اس نے بیٹا بن کر دکھایا تھا وہ برائیوں کے راستوں سے دور رہنے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا زندگی بظاہر پرسکون تھی مگر ایک کسک تھی جو پھانس بن کر چبھتی تھی باپ کا چہرہ اکثر نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا اور پھر وہ تکلیف کی حدوں کو چھو جاتا تھا یہ کوئی ایسا واقعہ نہ تھا جو آسانی سے فراموش کیا جاتا اب وہ جوانی کی حدود میں داخل ہو چکا تھا اپنی مردانہ وجاہت اور لڑکیوں کا اپنی جانب کھینچے چلے آنا اسے بخوبی معلوم تھا مگر اس کے فرینڈ سرکل میں کسی لڑکی کی کوئی گنجائش نہ تھی وہ اس معاملے میں بے حد کھٹور تھا انہی دنوں اس کی دوستی مغیث اور گوہر سے ہوئی گوہر بہت سلجھا ہوا جب کہ مغیث اس کے الٹ تھا جذباتی اور لا ابالی قسم کا لاپرواہ لڑکا ۔۔۔ بہرحال ان کی دوستی میں ذیادہ کمال گوہر اور مغیث کا تھا ان کی اسی مخلصانہ فطرت کے باعث وہ اکثر ان کے گھر جانے لگا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
مغیث کو پڑھائی سے کوئی دلچسپی نہ تھی گوہر اور جہانگیر نے پولیس فورس جوائن کر لی جبکہ مغیث نے ان کے برعکس بزنس سنبھالنے کو ترجیح دی وقت ایک بار پھر معمول کی رفتار سے چلنے لگا ایسے ہی ایک دن گوہر کے اصرار پر اس نے اپنا سارا ماضی اس کے سامنے کھول دیا چند لمحے تو وہ بھی ساکت رہ گیا پھر اسی کے مخلصانہ مشوروں اور مدد سے وہ شہاب اور زمان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا
اس نے سب سے پہلے شہاب اور زمان کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں جو جو لوگ ان کے ساتھ کاروبار میں شریک تھے پہلے ان پر ہاتھ ڈالا گیا گھروں سے لوگ غائب کرواۓ گئے مقصد علاقے میں خوف و حراس پیدا کرناتھا یقیناً شہاب بھی اثرانداز ہوتا و ہ ایسی گفتگو خفیہ کیا کرتے تھے ایسے ہی ایک دن وہ گوہر سے ملنے نواب ولا گیا وہ بغیر اطلاع دیے گیا تھا تبھی گوہر کی غیرموجودگی کے بارے میں لاعلم تھا وقت کی بربادی پر خود کو کوستا وہ باہر کی جانب بڑھا راہداری سے گزرتے بے حد اچانک کوئی اس سے بری طرح ٹکرایا تھا اس نے فوراً مقابل کو سنبھال کر گرنے سے بچایا نوائم نے خوفزدہ ہو کر اسے دیکھا وہ جو دنیا مافیا سے بے خبر اسکے معصوم بے داغ حسن میں کھویا تھا فوراً ہوش میں آیا ایک جھٹکے سےاسے چھوڑتا پیچھے ہوا
"آئم سوری ۔۔۔ آئم سوری " اس نے ماتھے سے پسینہ پونجھا اور بغیر دوسری نظر ڈالے باہر کی جانب بڑھ گیا اپنی اس حالت ہر وہ خود بھی حیران تھا بار بار اس کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا وہ لاکھ جھٹکتا مگر دل نے تو گویا اس سے دشمنی کر لی تھی وہ لاشعوری طور پر نواب ولا جانے سے کترانے لگا ۔۔۔۔ اسی احساس سے بچنے کے لیے اس نے خود کو مصروف کر لیا انہی دنوں اس کی ملاقات فاریہ سے ہوئی جازم کے ساتھ آئی لڑکی اسے مشکوک لگی تھی اور بعد میں اسکے شک پر یقین کی مہر ثبت ہو گئی اس نے جان بوجھ کر فاریہ کی حوصلہ افزائی کی اور پھر فاریہ کے ہی ذریعے وہ شہاب تک پہنچنے میں کامیاب ہوا
اسے لگا تھا وہ آج اپنے باپ کا بدلہ لے سکے گا مگروہ ایسا بھی نہ کر سکا نہ جانے کیوں وہ شہاب کے سامنے کمزور پڑ گیا اس نے شہاب کو آذادی دے دی ۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے شہاب کے سینے میں خنجر گھونپنے کی خواہش وہیں دم توڑ گئ پھر شہاب نے اسے برسوں پرانا بندھن یاد دلایا وہ لاکھ چاہنے کے باوجود خود کو اس نکاح سے باز نہ رکھ پایا تھا گوہر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر سب بے سود رہا اور غوزہ شہاب... غوزہ جہانگیر بن کر اس کے ساتھ آ گئ ۔۔۔پہلے ہی قدم پر غوزہ کے سرد تاثرات نے اسے جھٹکا دیا تھا مگر وہ اسے شزمندگی سے تعبیر کرتا پلٹ گیا اگلے دن جازم کی انٹری نے گویا قیامت اٹھا دی تھی اپنے لیے اہسے الفاظ سن کر اسے گہرا شاک لگا تھا جازم کے طنز اورزہر میں ڈوبے الفاظ اسے پاتال میں دھکیل گئے تھے اگر وہ ذرا بھی جازم کی غوزہ میں انوالومنٹ سے باخبر ہوتا تو خود پیچھے ہٹ جاتا بے شک جہانگیر اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینے کو تیار تھا پر اس کی بد اعتمادی و بے یقینی نے جہانگیر کو عرش سے فرش پر دھکیل دیا وہ بارہا اس کے پیچھے لپکا مگر اس کے ذہن پر پڑی شک کی گرد صاف نہ کر سکا وہ تھکا ہارا واپس لوٹ آیا تھا
اس شام غوزہ کے رکیک الزامات سن کر وہ پتھرایا تھا پھر تلخی سے مسکرا دیا شاید جہانگیر شاہ کے مقدر میں یہی سب تھا وہ مایوسی اور درد کی اس انتہا پر تھا کہ اس نے غوزہ کے ہاتھ سے پسٹل لینے کی کوئی کوشش نہ کی گولی کندھے کو چھوکر گزری اور وہ جو اپنے لیے موت مانگ رہا تھا پھر سے زندگی ملنے پر حیرت زدہ رہ گیا اس نے گوہر کو ہر قسم کی کاروائی کے لیے روک دیا تھا مراد اور شمشاد جیسے نہ جانے کتنے لوگ اس کے خون کے پیاسے ہو چکے تھے تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوۓ گوہر نے اسے ملک چھوڑ جانے کا مشورہ دیا وہ ایسا کرنے کو ہرگز تیار نہ تھا مگر بی جان کے اصرار پر وہ انہیں ٹال نہ سکا اور یوں جہانگیر شاہ زندہ ہونے کے باوجود لوگوں کی نظر میں مر گیا
☆☆☆☆☆☆☆
وہ اپنے سے وابستہ کسی رشتے سے غافل نہ ہواتھا اسی کے کہنے ہر گوہر نے غوزہ کو رہائش دی وطن لوٹنے کے بعد اس نے پہلا کام جو کیا وہ شاہ حویلی کو اپنے نام کرنا تھا شہاب شاہ کی دوسری بیوی وہ حویلی کسی بھی قیمت فروخت کرنے پر تیار تھیں اور اس طرح اس کے باپ دادا کی حویلی پھر سے اپنے وارثوں کے ہاتھوں میں آ گئ تمام کاروائی مکمل کرنے کے بعد وہ جونہی آفس سے نکلا ایک نوعمر لڑکی کو اپنی گاڑی پر ہاتھ پھیرتے دیکھ کر رک گیا نوائم کو اپنے روبرو پاکر وہ بے اختیار ٹھٹھکا تھا وہ دل کڑا کر کے اپنی محبت سے دستبردار ہو بھی جاتا مگر قسمت کو شاید یہ ناانصافی پسند نہ آئی تھی تبھی برسوں پہلے کی محبت کو بن مانگے اس کی جھولی میں ڈال دیا وہ بے یقین تھا کیا جہانگیر شاہ اتنا خوش قسمت ہے اسے یقین ہی نہ آتا تھا وہ یقین کرتا بھی کیسے جس محبت سے اس نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں جس چہرے کو دل کے نہاں خانوں میں چھپا رکھا تھا وہ حقیقت بن کر سامنے آگیا
یہ اس کی محبت کی پاکیزگی ہی تھی کہ خدا نے اسے بن مانگے نواز دیا تھا اسے بے اختیار ہی خود پر رشک آنے لگا ۔۔۔ اسے زندگی سے محبت ہونے لگی تھی وہ رخصتی کے بعد نوائم کو شاہ حویلی لے جانا چاہتا تھا وہ اب اپنی زندگی کو کسی محرومی کے ساۓ تلے نہیں آنے دینا چاہتا تھا وہ اب کھل کر جینا چاہتا تھا ہاں بے شک نوائم کا ساتھ اسے لیے خوش قسمتی کی علامت تھا
❤بتاؤ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ، ﻣﺤﺒﺖ ﺑﺲ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﺻﺤﯿﻔﮧ ﮨﮯ، ﻣﺤﺒﺖ ﺁﺳﻤﺎﻧﯽ ﮨﮯ
❤ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﺧﺪﺍﺭﺍ ﺗﻢ، ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﻮﭦ ﻣﺖ ﺳﻤﺠﮭﻮ
ﻣﺤﺒﺖ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﮨﮯ__ ﻣﻌﺠﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﺮﺟﻤﺎﻧﯽ ﮨﮯ
❤ﻣﺤﺒﺖ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ، ﻣﺤﺒﺖ ﺭﻧﮓ ﺗﺘﻠﯽ ﮐﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﭘﺮﺑﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﮭﯿﻞ ﮐﺎ ﺷﻔﺎﻑ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﮯ
❤ﻣﺤﺒﺖ ﺍﮎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮨﮯ، ﻭﻓﺎ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﺎﺭﮦ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﮎ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﮨﮯ، ﻓﻠﮏ ﮐﯽ ﺑﯿﮑﺮﺍﻧﯽ ﮨﮯ
❤ﺯﻣﯿﮟ ﻭﺍﻟﻮ، ﺑﺘﺎﺅ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ!
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﺯﻣﯿﮟ ﭘﺮ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯽ ﮨﮯ
❤ﻣﺤﺒﺖ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮨﮯ، ﺭﻧﮓ ﮨﮯ، ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮨﮯ , ﻧﻐﻤﮧ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﮌﺗﺎ ﭘﻨﭽﮭﯽ ﮨﮯ، ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮩﺘﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﮯ
❤ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﺁﻧﭽﻞ، ﻣﺤﺒﺖ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺷﻔﻘﺖ
ﻣﺤﺒﺖ ﺭﺏ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻘﺶ ﺛﺎﻧﯽ ﮨﮯ
❤ﻣﺤﺒﺖ ﺣﻖ ﮐﺎ ﮐﻠﻤﮧ ﮨﮯ، ﻣﺤﺒﺖ ﭼﺎﺷﻨﯽ ﻣﻦ ﮐﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﺭﻭﺡ ﮐﺎ ﻣﺮﮨﻢ، ﺩﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﯽ ﮨﮯ
❤ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﺍﺯﻝ ﺳﮯ ﮨﮯ، ﻣﺤﺒﺖ ﺗﺎ ﺍﺑﺪ ﮨﻮﮔﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﻻ ﺯﻣﺎﻧﯽ ﮨﮯ، ﻣﺤﺒﺖ ﻻ ﻣﮑﺎﻧﯽ ﮨﮯ
❤ﻓﻨﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﮰ ﮔﯽ ﺩﻧﯿﺎ، ﻓﻨﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮨﻢ ﺗﻢ,
ﻣﺤﺒﺖ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﺟﺎﮰ ﮔﯽ، ﯾﮧ ﺗﻮ ﺟﺎﻭﺩﺍﻧﯽ ﮨﮯ
❤ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﺣﺎﻃﮧ ﺍﻭﺭ ﮐﻦ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺳﮯ ﮨﻮﮔﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ، ﻣﺤﺒﺖ ﺯﻧﺪﮔﺎﻧﯽ ہے.❤❤
*#جاری_ہے*

No comments: