Ads Top

یارم۔۔ پاڑٹ 1-- سمیرا حمید

یارم۔۔ پاڑٹ 1-- سمیرا حمید
1یارم۔۔ پاڑٹ

رائٹر ۔۔ سمیرا حمید
عشق ایک داستاں ہے۔۔۔۔
محبت کے اسرار کی۔۔۔۔
انوار کے قیام کی۔۔۔۔ 
امرحہ اور عالیان کی۔۔۔
**^**
امرحہ پریم کا اگر کوئی لاڈ کا نام ہوتا تو وہ ' سرما کی دھوپ'ہوتا
پر سرخاب پر اڑ کر آتی، راج ہنسوں سنگ جھومتی،سنہری ذروں سے مرتسم سرما کی دھوپ اس کے سیاہ بالوں سے شناسائی بر تتی لاڈ کرنے لگی۔
ماحم(مہربانیاں) دھرتی پر قیام کیلیے اس سے اپنی ابتداء پر مسرور ہوئیں۔۔
سبزے کی وسعت پر فدا ہوتی اس نازنین کو اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور اس مسکراہٹ سے مسکرا دی جو اس کے اختیار میں تو رہا کرتی تھی لیکن استعمال مہں نہیں۔۔۔۔۔
نئے وقتوں کی آمد نے اس کی سماعتوں کے سپرد وہ سرگوشیاں کیں جو وہ وقت کی گزرگاہوں سے احتراما چرا لائیں تھیں۔۔۔
اس کی۔۔۔وہ جو امرحہ ہے۔۔
لان کے کونے میں میں وہ ایسے بیٹھی ہے جیسے زندگی کی بساط پر وہ ایسا بے نام مہرا ہو جس سے مات دی جائے نہ چال چلی جائے۔۔ جو کونوں میں ہی بیٹھتی ہے۔۔کیونکہ اسے منظر عام پر آنے سے ڈر لگتا ہے۔۔
کیوں ڈر لگتا ہے؟
کیونکہ اسے ڈرایا جاتا رہا ہے اور پھر اس کی حیثیت اپنے ہی گھر میں کچھ ایسی سی ہے جیسے جھاڑو کی ہوتی ہے۔۔ضروری بھی اور ۔۔چھی۔۔۔گندی بھی۔۔
ایک طرف بیٹھی دادی زیر لب بڑبڑاتے ہوئے اپنے بالوں کا خود ہی مساج کر رہی ہیں۔انہوں نے دانیہ سے کہا تھا لیکن اس نے ایسے ظاہر کیا جیسے اس نے تو کچھ سنا ہی نہیں۔۔۔دادی نے کہا ہی نہیں۔۔۔اور وہ کامل توجہ سے رسالہ پڑھتی رہی ساتھ مالٹے کی پھانکیں بھی منہ میں ڈالتی رہی اور یہ سب کرتے وہ کچھ ایسی نظر آ رہی تھی کہ جیسے بے چاری لڑکی دانیہ کل ہی تو اپنے ایم فل سے فارغ ہوئئ ہے اور آج کچھ ذرا سی دنیا دار سی نظر آرہی ہے۔
اماں فون پر بات کر رہی ہیں اوع حماد کانوں میں ایرفون لگائے نیا نیا ریپ میوزک سے متعارف ہو رہا ہے۔۔۔۔کیونکہ اسے چلنے میں خاصی دشواری ہو رہی ہے اور اس کے دونوں ہاتھ ہوا میں میں ایسے مڑ مڑ کر لہرا رہے ہیں کہ خدانخاستہ اسےٹہلتے ٹہلتے مرگی کا دورہ پڑ رہا ہو۔۔ اور وہ کونوں میں خود کو چھپانے والی موبائل انٹرنیٹ پر مصروف ہے۔۔۔ نہیں نہیں، وہ کسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر نہیں ہے۔۔وہ کسی سے چیٹ بھی نہیں کر رہی۔۔۔ارے نہیں وہ گوگل امیجز پر ڈیزائنرز کے کپڑوں کے ڈیزائن بھی نہیں نوٹ کر رہی۔۔۔وہ تو۔۔۔وہ تو مانچسٹر یونیورسٹی کے پاکستان اسٹوڈنٹ سوسائٹی کے گروپ لیڈر کی ای میل پڑھ رہی ہے اور اس کے ہاتھ پیر ایسے کانپ رہے ہیں جیسے ابھی ابھی اسے فریزر سے نکال کر دھوپ میں رکھا گیا ہو۔۔۔یا جیسے اس کے کان میں کہا گیا ہو کہ جہاں تم بیٹھی ہو ٹھیک وہیں خزانہ دفن ہت۔۔چپکے سے نکال لو اور اب وہ یہ خزانہ چپکے سے نکال ہی لے گی۔۔۔ اس سے اپنی چیخ دبائے نہیں دب رہی۔۔۔اور یہ اس نے ہلکی سی چیخ مار ہی دی۔۔۔
سب سے پہلے تو دادی نے ہی اپنا ہاتھ روک کر اسے ناگواری سے دیکھا پھر سوائے دادا کے سب نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی اور اپنے انہماک کو قائم رہنے دیا۔
دادا جو توبتہ النصوح پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے، اس کے پاس آئے۔
'' امرحہ۔۔۔کیا ہوا؟''
پیارے دادا، صرف وہی پوچھتے تھے وہ دادا کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگی۔تھوڑی دیر بعد دادا توبتہ النصوح سینے سے لگا کر کھڑے ہوئے اور سب کو سنانے جیسے انداز میں کہنے لگے۔۔۔
''آملے لینے ہیں منڈی سے۔۔ مجھ سے کہاں اٹھائے جائیں گیں اتنے۔۔امرحہ!تم آ جاو ساتھ''
''اسے لیے جا رہے ہیں۔۔۔مل گئے پھر۔۔۔منڈی بند ہو جائے گی یا پھر آگ لگی ہوگی منڈی میں'' دادی نے اس کے متعلق اپنے خیالات کے اظہار میں دیر نہیں کی۔
''ہم دوسرے شہر کی منڈی میں چلے جائیں گیں۔۔اگر وہاں بھی آگ لگی ہوئی تو ہمارا انتظار نہ کرنا۔ہم شہر شہر،منڈی منڈی آگ لگا کر آئیں گے''
شہر شہر کیوں۔۔۔ملکوں ملک کیوں نہیں۔۔۔؟
ہاں بھئ اب تیار رہنا سب۔۔دنیا میں آگ بھڑکنے والی ہے۔
اب کی۔۔۔ کب کی بھڑک چکی۔ دادی نے ایسے کہا جیسے ایسا عظیم سچ نہ بولا تو ان پر کفر کا فتوی لگا دیا جائے گا۔
بی بی امرحہ نے ذرا گھور کر دادی کو دیکھا اور دادی نے اپنا رخ بدل لیا۔
تو کیا اب مجھے بھی بھسم کرے گی
انہوں نے خود پر آیات مبارکہ پڑھ کر پھونکیں۔بہت خوفزدہ رہتی تھیں اس کی نظروں سے دادی۔۔ سب ہی رہتے تھے-تباہی اور بربادی تھی نا وہ۔۔نیک شگونی کی دشمن، بد شگونی کی دوست کیونکہ عین اس کی پیدائش کے دن بڑے تایا چل بسے تھے۔۔پھوپھی پھوپھا کا کارایکسیڈنٹ ہو گیا۔۔چھوٹی پھپھو کے گھر شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی اور سارے سازو سامان کو نگل گئی۔۔چچا کی بیٹی کی منگنی اس دن ہونا تھی تایا کی وفات سے ملتوی ہوگئی۔۔بعد ازاں رشتہ ہی ختم ہو گیا۔۔اور ماموں کے الیکٹرونکس کے اسٹور میں پورے چار لاکھ کی چوری ہو گئی۔ماموں صدمے سے 4 دن ہسپتال رہے۔امرحہ سے بڑے علی کی چھت سے گر کر بائیں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔جس کی وجہ سے پورے 2 سال لنگڑا کر چلتا رہا۔۔ساتھ کے گھر کی ملائیکہ آپا بیوہ ہو گئیں۔ان کے شوہر کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہو گیا۔۔۔ سامنے کے گھروالوں کی بہو کے مردہ بچے کی پیدائش ہوئی۔اور۔۔۔۔اور بھی بہت کچھ۔۔۔۔فہرست کافی لمبی تھی اور دن بدن لمبی ہوتی جا رہی تھی۔مثلا اگر کوئی کہتا۔
بس اماں جی۔اپنے دھیان میں تھی پتا نہیں چلا کب حاشر اپنا ہاتھ جلا بیٹھا
دادی پوچھتیں کیا دن تھا۔
منگل کا دن تھا۔۔آج ہی کے دن۔۔۔بلک بلک کر رویا میرا بیٹا۔۔۔میں بھی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔'
'اچھا منگل۔۔۔اور تاریخ کیا بنی' تاریخ یہی دو۔'
'اچھا ۔۔۔دو اور اوپر سے منگل۔۔مدیحہ بیٹا! منگل کی دو کو ہمیں یہ وبال نصیب ہوا تھا۔۔اس دنیا پر امرحہ عذاب بن کر آئی تھی۔۔۔ہمارے خاندان میں تو ہر تاریخ دو اور ہر دن منگل۔۔کیا کریں گناہوں کے عذاب بھی تو بھگتنے ہی پڑتے ہیں نا'
*جاری هے*
------------------



No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.