میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے چھٹی قسط
دل کیا کرے جب کسی سے کسی کو پیار ہوجائے
جانے کہاں کب کسی سے کسی کو پیار ہوجائے دل کیا کرے جب کسی سے کسی کو پیار ہوجائے
یہ صرف گانے کے بول ہی نہ تھے سبوخ آفریدی کے دل کی آواز بھی تھی
پکار تھی بصد شوق
تمنا تھی بصد احترام
گل مہر کیلئے
اور گل مہر اس وقت جیسے ضبط کی کڑی منزلوں سے گزر رہی تھی اپنی طبیعت کے برخلاف اس نے خاصا کنٹرول کر رکھا تھا وجہ صرف اتنی سی تھی کہ وہ کسی قسم کا تماشہ نہیں چاہتی تھی اور نہ لوگوں کو موقع دینا چاہتی تھی خود اس کی اپنی دوستیں دعوی کرچکیں تھیں کہ سبوخ آفریدی گل مہر کی محبت میں گوڈے گوڈے ڈوب چکا ہے
اور آج اس کا عملی مظاہرہ بھی کررہا تھا
موسم نہایت حسین ہوچلاتھا چلچلاتی دھوپ کب سیاہ بادلوں کے پیچھے روپوش ہوئی پتہ ہی نہ چلا گرم لو کے تھپیڑے ٹھنڈی مدبھری ہوا میں بدل چکے تھے اور بارش کی کن من جاری تھی اس موسم میں کلاسز ہونے کا سوال تو پیدا ہی نہ ہوتا تھا سو کچھ کیفے ٹیریا میں تھے اور کچھ کلاس میں ہی گروپز کی شکل میں اپنی سرگرمیوں میں مگن تھے سبوخ آفریدی اپنے گروپ کی فرمائش پہ گانے سنا رہا تھا اور اس کا مخاطب کون تھا وہاں موجود سب کو سمجھ آرہا تھا اور دکھ بھی رہا تھا مگر وہ انجان سی بنی اپنی فائل پہ جھکی ہوئی تھی اردگرد سے بے خبر سونیا نے گل مہر کو ٹہوکا دیا
" کیا تکلیف ہے کیوں تنگ کررہی ہو" گل مہر دھاڑی تھی
"دیکھو سب کتنے مزے سے انجوائے کررہے ہیں اور ایک تم سڑا سا منہ بنائے کتابوں میں سر دئیے بیٹھی ہو " سونیا منہ بنا کے بولی
" ہاں تو میں نے کب روکا ہے تمہیں جاؤ تم بھی جاؤ اور جا کے تین چار تانیں لگا لو ......حد ہوگئی یونیورسٹی کو کوک اسٹوڈیو بنا رکھا ہے" گل مہر تپ کے بولی تھی
" اوہ تو اصل پرابلم گانے سے ہے ویسے یار بے چارہ اتنا اچھا تو گا رہا ہے .....اب تم بھی رحم کرو اس پہ اور ایک دو پھڑکتی ہوئی تانیں لگا ہی دو" کومل پین جھٹکتے ہوئے بولی تھی
سبوخ آفریدی اب " چین آئے میرے دل کو دعا کیجئے " گا رہا تھا
"جذبات کے اظہار کا انتہا سے زیادہ فضول طریقہ نکالا ہے لوگوں نے ......گل مہر خانم کا دل اگر ہر راستے کے بیچ میں رکنے لگ گیا تو خاک نہ پھر جائے مجھ پہ ہوں " گل مہر اٹھ کے کھڑی ہوچکی تھی
اس سے زیادہ وہ برداشت نہیں کرسکتی تھی کلاس اب کوئی اور ہونی نہیں تھی سو اب وہ گھر جانا چاہتی تھی کم ازکم دماغ تو اور خراب نہیں ہوگا ورنہ آج کے دن یہ سبوخ آفریدی اس کے ہاتھوں قتل ضرور ہوگا
" کہاں چلی " سونیا نے پوچھا
" گھر"
" بٹ یار رک جاؤ قسم سے اتنا مزہ آرہا ہے " سونیا جھومتے ہوئے بولی
" یہاں رکی نہ تو آج قتل ہوجائے گا مجھ سے اس لئے میرا جانا ہی ٹھیک ہے" گل مہر سنجیدگی سے بولی
ایک خاموش سی نگاہ سبوخ پہ بھی ڈالی تھی اس ایک نگاہ میں نامعلوم سا شکوہ تھا
گلہ تھا
شکایت تھی
سبوخ آفریدی رک سا گیا
محبت کرنے والے یوں سرعام اظہار تو نہیں کرتے
گل مہر کا ہر انداز یہی شکوہ کررہا تھا
سبوخ بے ساختہ چپ سا ہوگیا تھا
پھر ایک دھیمی سی مسکان اس کے جامد لبوں پہ ٹھر گئی تھی
تو گویا وہ بے خبر نہیں تھی
______________________________
" مورے کہاں ہے رخ" مہر نے ہل ہل کے یاد کرتی گل رخ سے پوچھا تھا
بارش تھمتے ہی وہ گھر آچکی تھی اور اب ماں کا پوچھ رہی تھی
" وہ اندر کمرے میں ہیں.....طبیعت ٹھیک نہیں ہے ان کی بابا آئیں گے تو ڈاکٹر کے پاس جائیں گی" گل رخ نے تفصیل بتائی تھی
" اکا تو نا معلوم کب آئیں میں دیکھتی ہوں جا کے ......طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو میں لے جاؤں گی" گل مہر پرسوچ لہجے میں بولی تھی
" کہیں چلی ہی نہ جائیں مورے تمہارے ساتھ" رخ نے اسے چڑایا
"ہاں ہاں میں تو ان کی سوتیلی بیٹی ہوں.....کھا نہیں جاؤں گی میں مجھ جیسا ڈرائیور ڈھونڈ کے دیکھاؤ زرا پورے شہر میں" گل مہر فخر سے بولی تھی
" تمہاری ڈرائیونگ تو بندہ تب مانے جب تم مورے کو صحیح سلامت واپس گھر لے آؤ" گل رخ نے اسے تنگ کیا
"تو ٹھیک ہے گل رخ خانم...
...آج گل مہر خانم تمہیں یہ کر کے دکھائے گی" گل مہر نے اسے چیلنج کیا تھا
" لیٹس سی" گل رخ مسکرا کے بولی تھی
______________________________
شام کے سائے اپنے پر پھیلانے ہی لگے تھے سرد خنک ہوا چل رہی تھی اور ایسے میں گل مہر سڑک کے کونے میں کھڑی اپنی قسمت کو کوس رہی تھی
وہ پلوشہ کو ان کی ڈاکٹر کے پاس لے تو بڑے آرام سے آئی تھی مگر اب واپسی میں اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے
گاڑی چلنے سے ہی انکاری ہوگئی تھی
" کیا مورے پورے شہر کو چھوڑ کر آپ کو یہی کلینک ملا تھا ....یہاں سے تو کوئی رکشہ ٹیکسی تو دور بس بھی نظر نہیں آرہی تو ملے گی خاک" گل مہر چڑتے ہوئے بولی تھی
اتنی دیر سے وہ کھڑی تھی
" سب تمہارا قصور ہے کس نے کہا تھا کہ مجھے لے کے آؤ .......غضب خدا کا رات سر پہ کھڑی ہے اور ہم بیچ سڑک پہ کھڑے ہیں" پلوشہ کو غصہ آگیا تھا
" مورے.....یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے ....آپ ہر دفعہ مجھے ہی غلط ثابت کرتیں ہیں اب گاڑی ہے کبھی بھی خراب ہوسکتی ہے .....میں کیا کروں "
" تم کچھ نہ کرو بس چپ رہو.....اوپر سے یہ تمہارا باپ فون بھی نہیں اٹھا رہا ہے .....ایک تو بھیج بھی دیا اپنی لاڈلی کے ساتھ اوپر سے کوئی خیر خبر بھی نہیں لے رہا " پلوشہ کب سے امیرم خان کا نمبر ملا رہیں تھیں
" فارغ نہیں ہیں اکا .....کام کر رہے ہوں گے میں گاڑی لاک کر رہی ہوں آگے چلتے ہیں ہوسکتا ہے وہاں سے کچھ مل جائے" گل مہر نے کہا کب سے تو یہاں کھڑے تھے
" نہ بابا میں تو اب یہاں سے ایک انچ نہیں ہلوں گی .....جو کچھ ملے گا یہیں سے ملے گا" پلوشہ انکاری تھیں
" یا اللّه.... مورے کمال کرتی ہیں اوپر سے آپ کیلئے کوئی شاہی سواری نہیں آئے گی کوئی ہاتھ پیر چلائیں گی تو تب نا " گل مہر چڑ چکی تھی پوری طرح
اور اسی پل کسی کی بلیک پراڈو کے ٹائر چرچرائے تھے
گل مہر نے جھٹکے سے نظر اٹھائی اور پھر جھکا بھی لیں
" اف اللّه.... یہ نہیں ہوسکتا ....اس آدمی کو کیوں بھیج دیا .....آج کا تو دن ہی منحوس ہے " گل مہر جل کے پیچھے ہوئی تھی
آج ایک تو سارا دن سبوخ آفریدی نے یونی میں جان جلائی تھی اور اب یہاں بیچ سڑک میں بھی نمودار ہوگیا تھا....کیا پیچھا کررہا تھا
اور سبوخ آفریدی گل مہر کو اس کی گاڑی سے پہچانا تھا اور پھر وہی ازلی نیلی سرد سی آنکھیں جو سیاہ نقاب سے جھانکتی تھیں .....ان نگاہوں سے ہی اس کی آشنائی ہوئی تھی اب تک
"مس گل مہر .....شاید آپ کی گاڑی خراب ہوگئی ہے....مے آئی ہیلپ یو?" سبوخ نے پوچھا
" کیوں آپ کیا مکینک لگے ہوئے ہیں " گل مہر تڑخ کے بولی تھی
" مکینک نہ سہی مگر اس کا انتظام ہوسکتا ہے .....میں آپ کو پہنچا دیتا ہوں جہاں آپ کہیں" سبوخ کے چہرے پہ بھر پور مسکان سی تھی
اس طرح یونی کے باہر اس نے ملنے کا سوچا بھی نہ تھا وہ اس قسم کا لڑکا نہ تھا کہ سڑکوں اور ہوٹلوں میں اپنی محبت پروان چڑھاتا
یہ راز تو اس نے سب سے چھپا کے رکھا تھا
" کون ہے یہ گل مہر?"پلوشہ نے پوچھا
" چاچا چھکن .....کوئی نہیں ہے مورے یہ ...یونی ورسٹی میں ساتھ پڑھتا ہے " گل مہر کچھ ناگواری سے بولی تھی
آج اسے صفائی دینی پڑگئی تھی
اس کی بات پہ پلوشہ نے سبوخ آفریدی کو دیکھا تھا
خوبرو سا شہزادوں کی سی آن بان رکھنے والا وہ لڑکا پہلی نظر میں نہایت دلکش تاثر چھوڑتا تھا
" تمہیں خواہ مخواہ زحمت ہوگی بیٹا"
" زحمت تو آپ لوگوں کو ہورہی ہے....اسطرح لیڈیز کا یوں کھڑا ہونا کچھ خاص اچھا نہیں ہے آنٹی اعتبار رکھئے ....میں آپ لوگوں کو پہنچا دوں گا " سبوخ نے تسلی آمیز لہجے میں کہا
"چلو مہر .....ویسے ہی بہت دیر ہوچکی ہے" پلوشہ گل نے فیصلہ کن لہجے میں کہا
گل مہر لب بھینچ کے چپ چاپ پلوشے کے ساتھ چل دی تھی
" چلو دانی .....تم مکینک کو بلوا لو اور اس گاڑی کو دکھاؤ" سبوخ نے اسے گاڑی سے باہر آنے کا اشارہ کیا تھا
" ہاں بھئی لڑکی کے چکر میں بے چارہ بھائی جیسا دوست کہاں سے نظر آئے گا"
" دانی ذیادہ بک بک نہیں " سبوخ نے تنبیہ کی
گل مہر کی تیوریوں پہ بل پڑگئے تھے
سبوخ محتاط انداز میں ڈرائیونگ کرنے لگا تھا
" کتنی اچھی طریقے سے یہ ڈرائیونگ کررہا ہے بالکل محسوس نہیں ہورہا " پلوشہ کی تعریف نے گل مہر کو غصہ دلا دیا تھا
" تو میں آپ کو کونسا دھکے دے دے کر لائی ہوں .....اتنا ہی یہ پسند آرہا ہے تو گھر لے جائیں "
"مہر .....بڑی ہوجاؤ کیا بول رہی ہو .....میں کیسے کسی ماں کا بچہ چھین لوں ....اللّه اس کی ماں کی ٹھنڈک قائم رکھے" پلوشہ نے دعا دی
گل مہر اونہہ کر کے رہ گئی تھی
" بس یہاں روک دیں" گل مہر نے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا تھا
" پر یہاں تو مجھے کوئی گھر نظر نہیں آرہا " سبوخ حیرانگی سے بولا
" آپ سے کس نے کہا یہاں گھر ہے یہاں سے ہم خود چلے جائیں گے....مورے چلیں اب اتر بھی جائیں " گل مہر قطعیت سے بولی تھی
" تھینک یو بیٹا " پلوشہ گل مہر کو گھورتے ہوئے بولیں تھیں....یہ لڑکی کبھی نہیں سدھرے گی بھلا یہ بھی کوئی تک ہوئی آدھے راستے میں اترنے کی
" مورے .....دوائیاں بھی لینی ہیں سامنے میڈیکل اسٹور سے" اس سے پہلے مورے اس کی گو شمالی کرتیں اس نے بتایا تھا
" بد اخلاقی کا اگر کوئی گولڈ میڈل ہوتا تو وہ میری اولاد کو ملتا .....شکریے کے دو لفظ تو بندہ بول ہی سکتا ہے ....کیا سوچتا ہوگا بے چارپ بچہ" پلوشہ نے اس کی کلاس لگائی تھی
" اس بے چارے بچے کو کس نے بولا تھا آنے کو اور احسان تو نہیں کیا اس نے کوئی ......" گل مہر تیز قدموں سے چل رہی تھی
"گھر تک تو لے جا ہی سکتے تھے " پلوشہ نے کہا
" مورے.....کیا ہوگیا ہے آپ کو وہ میرے ساتھ یونی میں پڑھتا ہے ....اس سے میں نے آج سے پہلے کبھی منہ نہیں لگایا اور آج آپ کہہ رہی ہیں کہ میں اسے یونیورسٹی سے اٹھا کے گھر لے جاؤں.....اکا کو بھول رہی ہیں آپ ....معزرت کے ساتھ کچھ زیادہ ہی شہر کی ہوا نہیں لگ گئی آپ کو" گل مہر نے کہہ ہی دیا
"تم نہیں سدھر سکتیں ....کبھی نہیں ...کچھ سمجھتیں" پلوشے نے ہر بار کی طرح ہار مان لی تھی
اسٹور سے دوائیاں لینے کے بعد گل مہر روڈ کراس کر کے سامنے والی لین میں داخل ہونے لگی تھی جب اس کی نظر سامنے ہی سبوخ کی گاڑی پہ پڑی تھی ....گویا وہ ابھی تک یہاں ہی تھا گیا نہیں تھا
گل مہر کچھ سوچ کے مسکرا اٹھی تھی
" کہاں جا رہی ہو مہر" پلوشہ نے اسے جاتے دیکھ کے پوچھا تھا
" آئی مورے.....زرا شکریہ تو ادا کر آؤں" گل مہر بلی کی چال چلتی آگے بڑھ گئی تھی
گاڑی کے آس پاس فی الحال کوئی نہ تھا گل مہر نے آرام سے پنجوں کے بل بیٹھ کے اپنے بیگ میں سے مطلوبہ چیز نکالی .....دو ٹائر کامیابی سے بیکار کردئیے تھے
" آج تم نے میری مغز بہت خراب کی ہے سبوخ آفریدی ....کچھ تو انعام تو ملنا ہی چاہئیے نا" گل مہر اس کارنامے کے بعد بہت مطمئن ہوگئی تھی
سارے دن کی کثافت بوجھل پن کہیں غائب ہوگیا تھا
گل مہر بڑے مطمئن قدموں سے چل دی تھی
______________________________
" سنا ہے کل ہماری خانم کو خان جی نے لفٹ دی ہے" سونیا کو دانی سے پتہ چل چکا تھا
" کس نے کی ہے تم سے یہ بکواس" مہر نے پوچھا
" اس لسوڑے سبوخ آفریدی سے اتنی کم روی کی امید نہیں تھی مجھے"
" اوہو....سبوخ نے کچھ نہیں بتایا دانی نے بتایا تھا" سونیا نے کہا
" دانی....یہ کون ہے اور وہ تمہیں کس خوشی میں اپڈیٹ کررہا ہے" گل مہر نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا
"دانی سبوخ کا دوست ہے ....اور ایسے ہی ہیلو ہائے تو ہو ہی جاتی ہے ایک کلاس میں رہتے ہوئے .....اب ہر کوئی تمہاری طرح ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہیں بنا کے رکھ سکتا نا" سونیا نے طنز کیا
" میری طرف جہنم میں جاؤ.....تمہاری ہیلو ہائے سے میں واقف ہوں" گل مہر تڑخ کے بولی تھی
"اوہ ہو کیا ہوگیا ہے تم دونوں کو....بجائے اس سے پوچھنے کے سونیا تم اس سے لڑ رہی ہو....تو بتاؤ گل مہر کل ایسا کیا ہوا کہ تمہیں لفٹ کی ضرورت پڑگئی" کومل نے سیز فائر کروایا
"بس میری گاڑی خراب ہوگئی اور اس نے لفٹ دے دی مورے کی وجہ سے مجھے بھی بیٹھنا پڑا تھا" گل مہر نے دو جملوں میں مکمل قصہ نپٹایا
" پھر.....?????" سونیا نے اشتیاق سے پوچھا تھا
" پھر کچھ زیادہ نہیں.....میں نے اسکی گاڑی کے دو ٹائر بیکار کردئیے تھے" گل مہر نے ہاتھ جھاڑے
"بیڑہ غرق جائے گل مہر تمہارا....ایک تو اس بے چارے نے تم سے بھلائی کی اور تم نے کیا کیا اس کے ساتھ.....حد ہے ویسے " کومل نے افسوس کیا
"آئندہ لفٹ دینے سے پہلے سو دفعہ سوچے گا ....تمہارا خان " گل مہر نے مزہ لیا
کومل اور سونیا افسوس سے سر ہلا کے رہ گئیں تھیں
" گل مہر کبھی نہیں سدھر سکتی....اتنا تو طے ہے"
گل مہر کتاب پہ جھک چکی تھی دوبارہ ویسے بھی کچھ دونوں ایگزامز اسٹارٹ تھے سو سب سارے بکھیڑے چھوڑ کے صرف پڑھائی پہ دھیان دے رہے تھے
______________________________
جاری ہے
No comments: