ﻧﺎﻭﻝ سنائپر از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر 11
ﻧﺎﻭﻝ سنائپر
سنائپر
قسط نمبر11
ریاض عاقب کوہلر
ہلکے سے دھماکے کے ساتھ گولی مزل سے نکلی ۔میرے کندھے کوجانے پہچانے جھٹکے کا دباو ¿ محسوس ہوا اور اس کے ساتھ جینیفر بچوں کی طرح قلقاری مارتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئی تھی ۔
”آئی لو یو ذی !“وہ وارفتگی سے بولی ۔”تم نے کر دکھایا۔“
ٹیلی سکوپ سائیٹ میں مجھے وہاں بھگڈر مچتی ہوئی نظر آرہی تھی۔
”اٹھو ۔“میرے چہرے کو اپنے ہونٹوں کا نشانہ بنا کر وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی ۔
میں فوراََ کھڑا ہو گیا ۔رائفل اور دوسرا سامان اٹھا کر ہم فوراََ نیچے کی طرف بھاگے ۔چھت کے قریب پہلا کمرہ خالی تھا ۔اسے ماسٹر کی سے کھول کر ہم اندر داخل ہوئے ۔رائفل اور دوسرے سامان کو بیڈ کے نیچے دھکیل کر ہم سرعت سے باہر نکلے ۔سیکورٹی گارڈ کی وردی میں ملبوس ہمارا ساتھی فائر ہوتے ہی غائب ہو گیا تھا ۔
لفٹ کا انتظار کرنے کے بجائے ہم سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اترنے لگے ۔منصوبے کے مطابق ہمیں تین چار منزل نیچے اتر کر لفٹ پکڑنی تھی ۔اڑتالیسویں منزل پر ہمیں لفٹ خالی ملی ۔پہلی منزل کے بجائے جینفر نے پانچویں منزل کا بٹن دبادیا ۔
میں نے پوچھا۔”ہم نے تو نیچے نہیں اترنا تھا ؟“
”ذی !....بالکل خاموش رہو ۔“جینیفر نے آہستہ سے مجھے جھڑکا ۔
تیز رفتار لفٹ نے ہمیں جلد ہی پانچویں منزل پر پہنچا دیا تھا ۔مجھے ساتھ لے کر وہ ایک مخصوص کمرے میں گھس گئی ۔
اندر گھستے ہی اس نے فوراََوگ اتاری ،چہرے پر چڑھا ماسک اتارا اور اصل شکل میں آ گئی ۔ ہاتھ پر چڑھے باریک کالے دستانے اتار کر اس نے میری پرواہ کیے بغیر اپنی جینز کی پتلون بھی اتار دی تھی۔ نیچے اس نے باریک انڈرویئر پہنا ہوا تھا ۔میں نے فوراََ اپنا رخ دوسری جانب موڑ لیا تھا۔
چند لمحے بعد اس کی آواز آئی ۔”اب تم میری جانب دیکھ سکتے ہو؟“
وہ کالی رنگ کی چست پتلون اور سفید رنگ کی شرٹ پہن چکی تھی ۔اس کے اوپر ایک کالے ہی رنگ کا کوٹ پہن کر وہ میری طرف متوجہ ہو گئی ۔
اس نے میرا ماسک اتارا۔اور وہاں پر موجود بیگ سے ایک دوسرا ماسک نکال کر مجھے پہنانے لگی ۔میرے سکن کلر کے دستانے اتار کر اس نے مجھے دوسرے دستانے پہنا دیے۔اور ایک دوسرا لباس نکال کر اس نے مجھے لباس بدلنے کا کہا ۔اسی وقت درازے پر ہلکی سی دستک ہوئی ۔
مجھے سائیڈ پر ہونے کا اشارہ کر کے اس نے آگے بڑھ کر دروازے میں لگے مخصوص سوراخ سے باہر جھانکا اور پھر مطمئن ہو کر دروازہ کھول دیا ۔
اندر داخل ہونے والی شخصیت دیکھ کر مجھے حیرت کا جھٹکا لگا تھا ۔کیونکہ وہ بھی جینیفر ہی تھی ۔ بالکل اسی حلیے میں جس میں اصل جینیفر کھڑی تھی ۔
”ذی!....اس کی باتوں پر عمل کرنا ۔“میرے قریب ہو کر اس نے ایک بار پھر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور سرعت سے باہر نکل گئی ۔
”شاید تم لباس بدلی کر رہے تھے ؟“اس کا لہجہ جینیفر سے بہت مماثل تھا ۔
میں نے اثبات میں سر ہلا نے پر اکتفا کیا تھا۔یوں بھی میں کافی الجھ گیا تھا کہ وہ سارا ڈراما میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ۔
”تم یہیں بدلی کر لو۔میں ڈریسنگ روم میں چلی جاتی ہوں ۔“بیڈ پر رکھا بیگ اٹھا کر وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی ۔میں نے بھی جلدی جلدی لباس بدلی کر لیا ۔
جب وہ ڈریسنگ روم سے نکل تو اس کی شکل بالکل بدلی ہوئی تھی ۔جینیفر کے بال سنہری تھے ۔ جبکہ اس لڑکی کے بال کالے اور بالکل لڑکوں کے انداز میں ترشے ہوئے تھے ۔
میرا لباس اور باقی کا سامان اس نے کالے رنگ کے بیگ میں منتقل کیا اور بیگ کندھے سے لٹکاتے ہوئے بولی ۔
”یہیں رہنا ۔کہیں جانے کی کوشش نہیں کرنی ؟“
”تم کہاں جا رہی ہو ؟“
”میں یہ سامان ٹھکانے لگا دوں ؟“
میں نے پوچھا ۔”واپس آ و ¿ گی ؟“
”نہیں ....“اس نے نفی میں سر ہلایااور باہر نکل گئی ۔
میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔کبھی سوچتا کہ مجھے جینیفر پر اعتبار کرنا چاہیے کہ وہ مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔اور کبھی یہ خیال آتا کہ میں کسی بڑی سازش کا شکار بن گیا ہوں ۔
کافی دیر تک میں شش و پنج میں مبتلا رہا اور آخر میں خود کو جینیفر کے رحم و کرم پر چھوڑںے کا فیصلہ کر لیا ۔
جینیفرکو گئے ہوئے دو گھنٹے ہونے والے تھے ۔اچانک دروازے پر زور دار دستک ہوئی ۔میں نے مخصوص سوراخ سے جھانک کر دیکھا ۔کالے رنگ کے سوٹ میں ملبوس دو آدمی نظر آئے ۔میں نے دروازہ کھول دیا کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔اور جینیفر نے بھی اس بارے کوئی ہدایت نہیں دی تھی ۔
دروازہ کھلتے ہی وہ دونوں اندر داخل ہوئے ۔اور آتے ساتھ مجھ سے نام پوچھا ۔
”سٹیفن۔“میرے ذہن میں جو پہلا نام آیا میں نے اگل دیا ۔
اس کا اگلا سوال شناختی کارڈ کے متعلق تھا جس کا جواب میرے پاس نہیں تھا ۔مجھے خاموش پا کر ایک نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پستول نکال کر مجھے حکم دیا ۔
”ہاتھ اوپر ۔“ہاتھ اوپر کرتے ہوئے میرے دماغ میں سوچ ابھری کہ بس ابھی پھنس گیا ہوں۔
اسی وقت جینیفر اسی طرح کے لباس میں ملبوس دو آدمیوں کے ساتھ نمودار ہوئی جنھوں نے تین آدمیوں کو ہتھکڑی لگا کر پکڑا ہوا تھا ۔
”کیپٹن !....اس کے پاس شناختی کارڈ موجود نہیں ہے ۔“
”گرفتار کر لو۔“جینیفر کی آنکھوں میں مجھے شناسائی کی ہلکی سی جھلک بھی نظر نہیں آئی تھی ۔
میرا شک یقین میں بدل گیا تھا کہ میں ایک بہت بڑی سازش کا شکار ہو چکا تھا۔
”مم....مگر میں ........“میں نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنا چاہا۔
”ہیڈکواٹر جا کر بات کرنا ۔“میری بات سنے بغیر اس نے سختی سے میرے بازو پشت کی جانب موڑتے ہوئے ہتھکڑی لگا دی ۔جینیفرپیچھے مڑ کر باہر نکل گئی تھی ۔ہم چاروں کو دھکیلتے ہوئے وہ باہر لائے اور کالے شیشوں والی ایک ویگن میں بٹھا کر انھوں نے ہمارے سروں پر کالے رنگ کے نقاب چڑھائے اوراس کا دروازہ باہر سے تالا کر دیا ۔
میں جینیفرپر اعتبار کر کے بری طرح پھنس گیا تھا ۔ویگن سٹارٹ ہو کر آگے بڑھ گئی ۔مجھے معلوم تھا کہ وہاں جاتے ہی جب میک آپ اترتا اور میرا اصل چہرہ سامنے آتا تو مجھے الیکٹرک چیئر پر بیٹھنے سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔اور اس کے ساتھ جو پاکستان اور مسلمانوں کی بدنامی ہونی تھی وہ ایک علاحد ہ پریشانی تھی ۔میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ ساری بات بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے بتا دوں گا ۔
”اگر میں نے فوراََ ہوٹل سے نکلنے کی کوشش کی ہوتی تو یقینا بچ جاتا؟“ایک حسرت بھری سوچ میرے ذہن میں ابھری ۔اور میں سر جھٹک کر رہ گیا ۔جو ہونا تھا وہ ہوچکا تھا میں کئی بار جینیفر کے ہاتھوں دھوکا کھانے کے باوجود ایک مرتبہ پھر اس پر اعتبار کر بیٹھا تھا۔کہتے ہیں مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا لیکن میں نے تیسری مرتبہ اس سے دھوکا کھا یاتھا۔اور اس کے بعدمزید یوں بھی گنجائش نہیں رہی تھی کہ اب میرے بچنے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں رہا تھا ۔میں حقیقت بتا کر بھی اپنی جان نہیں بچا سکتا تھا۔بلکہ یہ بھی ممکن تھا کہ کرنل سکاٹ پارٹی مجھے حقیقت بتانے کے قابل ہی نہ چھوڑتے اور اس سے پہلے ہی میرا اگلے جہاں کا ٹکٹ کٹا دیتے ۔
ویگن ایک جھٹکے سے رکی اور میں اذیت بھری سوچوں سے حال کی جانب پلٹا ۔
”سٹیفن !....باہر آو ¿؟“میں گرفتار ہوتے وقت جو نقلی نام بتایا تھا اسی سے مجھے پکارا گیا ۔
میں جھکے جھکے اٹھا۔دروازے کے قریب کھڑے کسی آدمی نے مجھے بازوو ¿ں سے پکڑ کر نیچے اترنے میں مدد دی اور میرے نیچے اترتے ہی اس نے میرے ہاتھوں سے ہتھکڑی کھول دی ۔لیکن اس نے میرے چہرے سے کالے رنگ کا کپڑا نہیں ہٹایا تھا ۔ازخود میں نے بھی کپڑا اتارنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔میرے کانوں میں ویگن کے آگے بڑھنے کی آواز آئی ۔اسی وقت کسی نے میرے سر سے نقاب کھینچا۔ میری آنکھوں کے سامنے جو پہلا منظر ابھرا وہ سنہری بالوں والی خوب صورت اور دلکش جینیفر کا تھا وہ مسکرا رہی تھی ۔ہاتھ میں پکڑا نقاب اس نے دور پھینک دیا تھا ۔
کالی ویگن دور جا رہی تھی ۔ہم اس وقت ایک ویران سے کوچے میں موجود تھے ۔
”ی ....یہ ....کیا ہے ؟“میں ہکلایا۔
وہ شوخی سے بولی ۔”کہا تھا نا؟....اپنی جینی پر اعتبار کرو ۔“یہ کہہ کر اس نے میرے چہرے سے ماسک نوچ کر پرے پھینکا اور وارفتگی سے لپٹ گئی ۔
”جینی !....کیا مذاق ہے ؟....کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا ؟“
اس نے قہقہہ لگایا۔”یہ بھلا کیا بات ہوئی کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا ۔جناب یہ پاکستان نہیں نیو یارک ہے ؟“
”پھر بھی ۔“میں نے نرمی سے خود کو اس کی گرفت سے چھڑاتے ہوئے پوچھا۔”بتاو ¿ نا ؟ کیا معاملہ ہے ؟“
”چلو ہوٹل چل کر بتاو ¿ں گی ؟“وہ میری حرکت کا برا مناتے بغیر بولی ۔میں اثبات میں سرہلاتے ہوئے اس کی معیت میں چل پڑا۔تھوڑی دیر بعد ہم مصروف شاہراہ پر نکل آئے تھے ۔چونکہ وہاں سے نومیڈ ہوٹل نزدیک ہی تھا اس لیے ہم نے ٹیکسی میں بیٹھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی ۔
کمرے میں جا کر وہ پرتکلف کھانے کا آرڈر دے کر وہ واش روم کا رخ کرتے ہوئے وہ شوخ لہجے میں بولی ۔
”ذی !....نہانا ہے تو آجاو ¿؟“
”شکریہ میں بعد میں نہالوں گا ۔“میں نے منہ بنا کر کہا ۔اور وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔
اس کے انداز سے مجھے لگ رہا تھا کہ وہ بہت خوش ہے ۔شایدیہ برین ویلزکو کامیابی سے ٹھکانے لگانے کی خوشی تھی ۔
اس کے واش روم سے باہر نکلتے ہی میں اندرجانے لگا ۔
وہ میرے قریب رک کر بولی ۔
”اندر نیا سوٹ لٹکا ہوا ہے ۔نہا کر پہن لینا۔“
اور میں سر ہلا کر اندر گھس گیا ۔میرے نہا کر باہر آنے تک کھانا آ چکا تھا ۔میری وجہ سے اسے بھی حلال کھانا پڑ رہا تھا ۔
”اب پوچھو تمھارے ذہن میں کون سے سوالات آ رہے ہیں ؟“وہ چھری کانٹا سنبھالتے ہوئے مستفسر ہوئی ۔
”ہم نے منصوبے کے مطابق کیوں کارروائی نہیں کی ؟“
”کیونکہ میں تمھیں کھونا نہیں چاہتی تھی ۔“
”کیا مطلب ؟“میں نے حیرانی سے پوچھا۔
”مطلب یہ ہے میری جان !....کہ جب تم نیچے پہنچ کر ہوٹل سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ؟ اس وقت تک درجنوں سرکاری اہلکاروں نے وہاں پر پہنچ کرہوٹل سے کسی کے بھی باہر جانے کو ناممکن بنا دیا تھا ۔اور جو لوگ بھی باہر جانے کی کوشش میں تھے وہ تمام اس وقت تفتیش کا سامنا کر رہے ہیں ۔“
میں نے تلخی سے پوچھا ۔”کیا منصوبہ بناتے وقت یہ پہلو تم لوگوں کی نظر سے اوجھل تھا ؟“
”نہیں ۔کرنل سکاٹ اور کرنل جولی روز ویلٹ اس بات سے اچھی طرح واقف تھے ۔اس لیے انھوں نے حکم دے دیا تھا کہ اگر تم کامیابی سے فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو تمھیں قتل کر دیا جائے ؟ میںنے بہ ظاہر تو حامی بھر لی لیکن اس کے ساتھ تمھیں بچانے کا تہیہ بھی کر لیا تھا ۔میں نے خود سی آئی اے کے اہلکار کی صورت میں ہوٹل کی تلاشی لینی تھی اور اسی صورت میں میں خود کو شک کے نرغے میں آنے سے بچا سکتی تھی ۔یہ بات کرنل سکاٹ وغیرہ نے پہلے سے طے کر دی تھی کہ لزا کو میرا ہم شکل بنا کر ہوٹل میں داخل کیا جائے گا اور ہوٹل میں داخل ہو کروہ اپنے اصل روپ میں آجاتی اور میں اس کی جگہ لے لیتی ۔ ہم دونوں نے چونکہ لفٹ سے نکلتے ہی علاحدہ علاحدہ ہو جانا تھا اس لیے آگے تمھاری اپنی صواب دید تھی ۔مگر میں جانتی تھی کہ تمھارا بچ نکلنا مشکل ہو جائے گا اس لیے میں نے منصوبے میں تھوڑی سی تبدیلی کر لی ۔اور دیکھ لو تمھیں مکھن سے بال کی طرح نکال کر لے آئی ؟“
”مطلب کرنل سکاٹ اور جولی نے مجھے دھوکے میں رکھا ؟“
وہ صاف گوئی سے بولی ۔”سب سے پہلے ہر آدمی کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں ؟“
”تم کل رات یا آج صبح کو بھی یہ سب کچھ بتا سکتی تھیں ؟“
”اگر فائر سے پہلے بتاتی تو شاید تم صحیح طریقے سے فائر نہ کر پاتے اور اس کے بعد وقت ہی نہیں تھا بتانے کا....البتہ اس کے متعلق صبح ناشتے پر میں نے اشارہ کر دیاتھا ؟“
”تم نے میرے لیے اتنی تگ و دو کیوں کی ؟“
میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ افسردہ لہجے میں بولی ۔”کیا تم نہیں جانتے ؟“
”ویسے سچ کہوں تو میں تم پر اعتبار کر کے بہت پچھتا رہا تھا۔“
”جانتی ہوں ....تم نے کبھی مجھے اعتبار کے قابل سمجھا ہی نہیں ؟“
”میری جگہ پرتم خود کو رکھ کر سوچو؟“
”میں کئی بار صفائی دے چکی ہوں کہ میرا تمھاری جانب مائل ہونا کسی مقصد کے مرہون منت نہیں تھا۔بلکہ تمھاری نشانہ بازی کی صلاحیت سامنے آنے کے بعد بھی کسی کے دماغ میں یہ منصوبہ نہیں آیا تھا ۔البتہ جس وقت برین ویلز کا یہ صحافیوں کے ساتھ سوال و جواب کا پروگرام کرنل جولی روز ویلٹ کے علم میں آیا اس وقت کسی ایسے سنائپر کی ضرورت محسوس ہوئی ۔اور اس نے کرنل سکاٹ تک یہ بات پہنچائی۔ کرنل سکاٹ چونکہ مجھے بہ طور ایک اچھے سنائپر کے پہچانتا ہے اس لیے اس نے مجھ سے مشورہ لیا ۔ مگر میں نے پندرہ سو میٹر سے زیاد ہ فاصلے پر نشانہ لگانے سے معذوری ظاہر کی ۔تب اس نے میجر جیمس میتھونی سے بات کی ۔اور میجر جیمس میتھونی کے واسطے سے تمھارا نام اس کے کانوں تک پہنچا ۔کرنل سکاٹ نے تمھیں راضی کرنے کی ذمہ داری فوراََ مجھے مجھے سونپ دی ۔اور میری پسندیدگی فرض کی لپیٹ میں آ گئی ۔میں تمھیں اصل بات بتانے کی حالت میں نہیں تھی ۔اسی طرح میرے سینئرز بھی ابھی تک میرے ان جذبات سے واقف نہیںہیں جو میرے دل میں تمھارے لیے پنہاں ہیں ۔البتہ میری آج کی کارروائی کے بعد انھیں اصل بات کی تہہ تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی ۔شاید تھوڑی بہت باز پرس بھی ہو ۔مگر مشن خوش اسلوبی سے پورا ہونے کی خوشی میں بات زبانی کلامی سرزنش سے آگے نہیں بڑھے گی ؟“
”پندرہ سو میٹر سے برین ویلز کو نشانہ بنانے میں کیا قباحت تھی ؟“
”پندرہ سو میٹر کے دائرے میں آنے والی عمارتوں پر اگر سرکاری اہلکار تعینات نہ کیے جاتے توسیکورٹی آفیسر شک کی زد میں آ جاتا۔اب یہ ہوٹل تو قریباََ دو کلومیٹر دور تھا ۔یہاں سرکاری عملہ تعینات نہ کرنے کا مضبوط جواز تو موجود ہے نا؟“
کھانا کھانے کے بعد ہم نے چاے بھی وہیں منگوا کر پینے لگے ۔اس دوران جینیفرنے ٹی وی آن کر دیا ۔برین ویلز کے قتل کی خبر اب تک بریکنگ نیوز کے طور پر چل رہی تھی ۔اور اس کے قتل کے پیچھے اصل محرک ڈھونڈنے کے لیے مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں ۔مستقبل قریب میں ہونے والے صدارتی انتخابات کو بھی اس قتل کے ساتھ جوڑا جا رہا تھا ۔تحقیقات کرنے والوں کی رسائی اس وقت تک ہیوی سنائپر تک نہیں ہو پائی تھی البتہ ہمارے فائر کرنے کی جگہ تلاشنے میں انھیں کوئی دشواری پیش نہیں آئی تھی ۔برین ویلز کے آدھے اڑے ہوئے چہرے کی تصویر بھی سکرین کے ایک کونے میں نظر آ رہی تھی ۔وہ چونکہ دستخط کرتے وقت کئی کیمروں کی زد میں تھا اس لیے اسے گولی لگنے کی فلم بہت صاف بنی تھی ۔اس کا کرنل جولی روز ویلٹ کی طرف فائل کا بڑھانا اور پھر مسکراتے ہوئے کچھ کہنااور اسی لمحے اس کے چہرے کے ٹکڑوں کا ہوا میں اڑنا اور اس کا اچھل کر پیچھے گر کر تڑپنے لگ جانا۔یہ دو تین سیکنڈز کے اندر برپا ہوا تھا ۔
”ویسے کیا تمھیں بھی اصل وجہ معلوم نہیں ہے ؟“میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا ۔
”برین ویلز کا واضح جھکاو ¿ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف تھا اورشاید اس کی زندگی مسٹر جارج ڈبلیو بش کے دوبارہ صدر بننے میں رکاوٹ بنتی ؟“اس نے گول مول انداز میں اصل بات اگل د ی ۔ بیس جنوری دوہزار پانچ کو جارج ڈبلیو بش کی مدت صدارت پوری ہو رہی تھی ۔میں نے اسے مزید کریدنے سے احتراز برتا کہ اس طرح کی زیادہ معلومات کبھی کبھی جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں ۔
چاے کا کپ خالی کر کے اس نے معنی خیز لہجے میں کہا ۔”اگر چاہو تو ہم رات یہیں گزار سکتے ہیں ؟“
میں نے روکھے لہجے میں جواب دیا ۔”شکریہ جی !....“
”ویسے باقی سنائپرز بھی آج کیمپ میں تو نہیں ہوں گے ؟“
”کیا مطلب ؟“میں نے حیرانی سے پوچھا۔
”مطلب یہ کہ کل ہمارے کیمپ سے نکلتے باقی تمام کو بھی ایک دو دن باہر گزرنے کی اجازت مل گئی تھی ۔اس ضمن میں تما م کو ایک ایک ہزار ڈالر بہ طور جیب خرچ کے بھی دیا جاناتھا تاکہ وہ نیویارک یا کسی دوسرے قریبی شہر کی سیر کر سکیں ۔“
”اور یہ مہربانی کس لیے ؟“
”تاکہ کرنل سکاٹ کے پاس تمھارے کیمپ سے باہرجانے کا مضبوط جوازموجود ہو ؟.... تمھارے پکڑے جانے کی صورت میں وہ کہہ سکتا تھا کہ کیمپ سے صرف تم نہیں تمام سنائپرز باہر ہیں۔“
”ویسے بہت مکار قوم ہے تمھاری ؟....بہت دور تک سوچتے ہو ؟“میں نے طنزیہ انداز میں کہا۔
وہ پھیکی مسکراہٹ سے بولی ۔”اب تمھیں اصل بات بتا دی تو تم طنز کرنے لگے ۔اور پلیز کرنل سکاٹ یا میڈم جولی کے سامنے ایسا کچھ نہ کہہ دینا ؟....وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کی حقیقت تم پر ظاہر ہو ؟“
”میرا خیال ہے ہمیں چلنا چاہیے ؟“
”اب تو ایسی کوئی بات نہیں کہ تمھیں مجھ سے بھاگنے کی ضرورت پڑے ؟“
میں نے معنی خیز لہجے میں پوچھا۔”پہلے ایسی کون سی بات تھی ؟“
”نن ....نہیں ....میرا مطلب ہے اب تو تم آزاد ہو نا ؟تم نے اپنا مشن پورا کر لیا ہے ؟“وہ گڑبڑا گئی تھی ۔
”کیپٹن جینیفر !....میں جانتا ہوں کہ تم نے پہلے پہل جو مجھے اس قسم کی آفر کی تھی اس کے پسِ پردہ مجھے بلیک میل کرنے کا ارادہ کار فرما تھا۔اور اسی وجہ سے تم مجھے اس فارم ہاو ¿س پر لے گئی تھیں.... کیا میں غلط کہہ رہا ہوں ؟“
”تم صحیح کہہ رہے ہو ؟اور ہمیں چلنا چاہیے ؟“وہ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔میں بھی ہونٹوں پر تبسم سجائے اس کے پیچھے ہو لیا ۔اس کی خاموشی ظاہر کر رہی تھی کہ میرا اندازہ بالکل درست تھا۔
٭٭٭
واپسی کے سفر میں جینیفر بہت خوش تھی ۔ اسے اس کارنامے پر ترقی ملنے کی بھی امید تھی۔
”ویسے شادی وغیرہ کے متعلق کچھ نہیں سوچا ؟“میں نے مزاحیہ انداز میں پوچھا ۔
”فی الحال تو بالکل نہیں ۔“وہ صاف گوئی سے بولی ۔”ابھی تو زندگی انجوائے کرنے کے دن ہیں ۔ابھی سے یہ بیڑیاں پہن لوں ؟“
”تمھارے لیے زندگی انجوائے کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ بندہ جنسی بے راہروی کا شکار ہو جائے ۔حالانکہ شادی بھی اسی انجوامنٹ کا نام ہے ۔بس فرق یہ ہے کہ اس صورت میں صرف ایک مرد میسر ہوتا ہے اور اور وہ شغل باعث گناہ بھی نہیں ہوتا؟“
”ذی !....کیا میں تمھیں اتنی گھٹیا اور بے راہرو لگتی ہوں ؟....“وہ سنجیدہ ہو گئی تھی ۔”تمھیں آفر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں سہل الحصول ہوں ۔اگر ایسا ہوتا تو سنائپر کورس پر آنے والے کم از کم خوب صورت مردوں کے ساتھ میں تعلق رکھ چکی ہوتی ؟....مگر میں تمھیں چیلنج کرتی ہوں کہ کوئی ایک مرد ایسا لے آو ¿ جو یہ دعوا کر سکے کہ اس نے جینیفر کو حاصل کر لیا ہے ؟“
”پھر انجواے منٹ اور شادی نہ کرنے سے کیا مراد ؟“
”شادی کے بعد عورت واقعی بندھ جاتی ہے ؟آزادی کی زندگی بسر نہیں کر سکتی ۔“
”ایسا صرف ہمارے ہاں ہوتا ہے ؟“
”ذی !....ایک سچ بولوں ؟“اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا ۔
”سچ ہی تو سننا چاہتا ہوں ؟“
”میں شروع دن سے جانتی ہوں کہ تم میرے ساتھ جسمانی تعلق نہیں رکھو گے ؟....اس لیے جتنی بار بھی میں نے تمھیں دعوت دی ہے وہ صرف ڈرامے اور دکھاوے کے طور پر تھی ؟“
”اور اس دن جو فارم ہاوس پر لے جا کر اپنی پوری کوشش کی تھی وہ کیا تھا ؟“میں نے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔
”اگر تم راضی ہو جاتے توتمھیں کمرے میں لے جاتی اندھیرا کر کے واش روم میں جاتی اور وہاں ایک اور لڑکی تیار بیٹھی تھی تمھیں سنبھالنے کے لیے ؟“
میں پھیکی مسکراہٹ سے بولا۔”ہونہہ!....صحیح کہا۔“
اس نے پوچھا ۔”خفا ہو گئے ہو ؟“
”نہیں ....بس عورت ذات کی مکاری کے بارے سوچ رہا ہوں ؟“
”عورت کو مکار ی پر مجبور کرنے والی ذات بھی تو مرد کی ہے نا؟....“اس نے تلخ لہجے میں کہا۔ ”ایک غلط کام پرکسی مرد کو راضی کرنے کے لیے دوسرا مرد ،عورت کو استعمال کرتا ہے۔کیونکہ وہ اپنی صنف کی فطرت جانتا ہے ؟.... وہ جانتا ہے کہ کسی معصوم عورت کو پامال کرنے کے لیے ایک مرد کتنا گر سکتاہے ؟....اگر مرد کی فطرت میں عورت کے حصول کی اتنی تمنا نہ ہوتی تو کسی کو عورت کے استعمال کی ضرورت ہی نہ پڑتی ....؟اور نہ عورت کو اپنی ذات پر جبر کر کے کسی ناپسندیدہ شخص کو اپنی چاہت کا یقین دلانا پڑتا ؟“
”سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے ؟“
”ساری عورتیں بھی ایک سی نہیں ہوتیں اور معاف کرنا ایک دو مردوں کا عمل پوری برادری کی نمائندگی نہیں کر سکتا ۔یہ جاسوسی کی دنیا کا قانون ہے کہ مرد کوبلیک میل کرنے کے لیے سب سے آسان ، اہم اور تیز بہ ہدف طریقہ عورت کا استعمال ہے ۔اور ایسا مرد کی ہوس پرست طبیعت کی وجہ سے ہے؟مرد چاہے مشرق کا ہو یا مغرب کا اس کی فطرت ایک سی ہوتی ہے ۔“
”ہر آدمی اپنی ذات کا ذمہ دار ہوتا ہے ؟“اس کی سچی اور کھری باتوں کا اس کے علاوہ مجھے کوئی جواب نہیں سوجھا تھا ۔
”مان لیا ؟....مگر تم نے عورت ذات کو مکار کہا تو جواباََتمھیں آئینہ دکھانا پڑا ۔ورنہ تم سے مجھے کوئی گلہ نہیں ۔“
”چلو اس بہانے مجھے اپنی حیثیت کا تو پتا چل گیا کہ تم میری جانب کیوں مائل ہوئی تھیں ؟“
اس بار اس نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔میں نے لمحہ بھر کی خاموشی کے بعد دوبارہ زبان کھولی ۔
”اور جہاں تک گلے کا تعلق ہے تو وہ مجھے تم سے ہونا چاہیے ؟اگر حقیقت کھنگالی جائے توپہلے دن تم جانے کیوں میرے پاس آئیں تھیں ؟یقینا اس وجہ سے کہ ہمارا ملک تمھارے ہاں کچھ زیادہ ہی بدنام ہے ؟....اور پھر مجھ سے ملتے وقت تم میری یاداشت سے متاثرہوئیں اور میری جانب دوستی کاہاتھ بڑھایا۔یہ دوستی شاید برقرار رہتی اگر میں روس اور چائنہ کا ذکر کر کے تمھارے پیارے اور عظیم ملک امریکہ کی شان میں گستاخی کا مرتکب نہ ہوتا؟....اس کے بعد تمھارے دل میں دبی نفرت ابھر کر سامنے آئی اور اس نفرت کے اظہار کے لیے تم انڈین سنائپرز کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگیں،مجھے تحقیر اور حقارت کا نشانہ بنانے لگیں اور پھر بد قسمتی سے میری نشانہ بازی کی صلاحیت سامنے آئی اور تمھیں حکم ملاکہ اس مرغے کو پھانسنا ہے پس تمھیں مجھ سے محبت کا ڈرما کھیلنا پڑا ۔سب سے پہلے تم نے مجھے اپنے جسم کی رشوت پیش کی، ناکام ہونے پر دولت کی آفر کی اور جب اس طرح بھی دال نہ گلی تو میرے اعتبار پر ڈاکا ڈالا۔دوستی اور محبت کی آڑ میں میری پیٹھ میں چھرا گھونپا ۔اب کہو گلہ میر ابنتا ہے یا تمھارا؟تم مجھے جسمانی تعلقات کی آفر کرتیں ،دولت کی رشوت دیتیں یا کچھ بھی کرتیں مگر محبت اور دوستی کا ڈراما تمھیں نہیں کھیلنا چاہیے تھا ۔اور سچ کہوں تو آج جو تم مجھے ہوٹل سے بچا کر لے آئی ہو تو ایسا کرنل سکاٹ اور کرنل جولی روز ویلٹ وغیرہ کی منشا کے مطابق ہوا ہے ۔اسی وجہ سے تم کہہ رہی تھیں کہ میں کرنل سکاٹ وغیرہ سے اس بات کا ذکر نہ کروں کہ انھوں نے میرے لیے کوئی اور آرڈر دیا تھا۔“
کچھ پینا پسند کرو گے ؟“پٹرول پمپ کے ساتھ بنی ایک ٹک شاپ کو دیکھ کر اس نے گاڑی روکتے ہوئے پوچھا ۔میری بات کا جواب دینا اس نے ضروری نہیں سمجھا تھا ۔
”ہاں ایک ٹھنڈی بوتل یقینا مجھے غصے پر قابو پانے میں مدد دے گی ۔“اور وہ سرہلاتی ہوئی دکان میں گھس گئی ۔
٭٭٭
سردار مجھے اپنے کمرے ہی میں ملا تھا۔
”ذیشان بھائی !“وہ مجھے دیکھ کر کھل اٹھا تھا ۔بستر سے اٹھ کر وہ میرے گلے لگ گیا ۔
”تمھاری کامیابی کی خبر میں نے ٹی وی پر دیکھ لی تھی ۔“
”تم کہیں نہیں گئے ؟“
”دل ہی نہیں چاہ رہا تھا ۔تم میرے لیے خطرے کا سامنا کر رہے تھے ۔میں کیسے سیر سپاٹے کرتا؟“
”گویا لی زونا بے چاری کو اکیلا چھوڑ یا ؟“
وہ پھیکی مسکراہٹ سے بولا۔”وہ بھی یہیں ہے ؟“
”تو یوں کہو نا ؟کہ یہیں پر رنگ رلیاں منا رہے تھے ؟“
”نہیں جناب !....وہ تمھاری جینیفر کی طرح آوارہ مزاج نہیں ہے ؟....وہ اور میں گپیں ہانکتے ہیں ایک دوسرے کو اپنی گزری زندگی کی کہانیاں سناتے ہیں اور بس ؟“
”یونھی جینیفر غریب پر الزام تو نہ لگاو ¿ نا یار!“
”اچھا چھوڑو اس موضوع کو تم مجھے تفصیلات بتاو ¿ نا ؟“
” لیکن اس کے لیے تمھیں اچھی سی چاے پلانی پڑے گی ؟“
”ٹھیک ہے ۔“وہ بستر کو چھوڑ کر الیکٹرک کیتلی کی طرف بڑھ گیا ۔اور میں اسے تفصیل سے ساری کہانی سنانے لگا ۔
چاے پینے تک میں ساری تفصیل اس کے گوش گزار کر چکا تھا ۔اس کے بعد ہم سو گئے تھے ۔
اگلی صبح اٹھ بجے کے قریب ہی کرنل سکاٹ کا بلاوا آ گیا تھا ۔وہاں کرنل جولی روز ویلٹ بھی اس کے ہمرا موجود تھی ۔
”ویلڈن بوائے !“میرے اندر داخل ہوتے ہی کرنل جولی روز ویلٹ مسکراتے ہوئے کھڑی ہو ئی اور آگے بڑھ کر اس نے مجھے گلے سے لگاتے ہوئے میرے دونوں گال چوم لیے تھے۔کرنل سکاٹ نے بھی مجھے چھاتی سے لگا کر میری پیٹھ تھپکی ۔
”بیٹھو ۔“وارفتگی سے خوش آمدید کہہ کر کرنل سکاٹ نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
”شکریہ سر ۔“میں نے کرسی سنبھال لی ۔
”بہت عمدہ اور بے مثال کاکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تم دونوں نے ۔خاص کر تمھارے کام کی تعریف تو سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہو گی ؟“
”شری کانت کیسا ہے سر ؟“میں نے گویابین السطور اس کا وعدہ یاد دلایا۔
”وہ پہلے سے بہت بہتر ہے ۔اور اسے یہ بھی پتا چل گیا ہے کہ وہ ریگن واچ کی غلطی کی وجہ سے زخمی ہوا ہے ۔آج سرکاری طور پر بھی انڈین آرمی کو معذرت کا لیٹر بھیج دیا گیا ہے ۔شری کانت کو بھی اتنی رقم مل جائے گی کہ وہ ساری زندگی ریگن واچ کو دعائیں دیتا رہے گا ۔“
”مجھے بھی یہی امید تھی ۔“میں نے متشکرانہ انداز میں کہا۔
کرنل سکاٹ نے کہا۔”کل تمھارے کورس کی اختتامی تقریب بھی ہے ۔اول پوزیشن حاصل کرنے پر بھی پیشگی مبارک ہو ؟....“
میں نے پوچھا۔”یہ پوزیشن مجھے حالیہ کارکردگی پر دی جا رہی ہے یا حقیقت میں میری یہی پوزیشن بن رہی ہے ؟“
”تم نے مجموعی طور پر اٹھانوے فیصدنمبر حاصل کیے ہیں اور سیکنڈ والے کے اسی فیصد نمبر ہیں؟“
”پھر ٹھیک ہے ؟“میں نے اطمینان بھرے انداز میں سر ہلایا۔
”کچھ اور درکار ہو تو کہو؟“کرنل جولی روز ویلٹ نے خوش دلی سے آفر کی ۔
”شکریہ میڈم !“
”میں نے اپنی زندگی کو داو ¿ پر لگا کر تمھارے نشانے پر اعتماد کیا اور شکریہ کہ تم میرے اعتماد پر پورے اترے ۔جینیفر نے تمھارے نشانے کی جتنی بھی تعریف کی تھی کچھ کم ہی تھی ۔اب مجھے تمھارے کسی بھی کام آ کر خوشی ہو گی ؟“
”اگر کوئی ایسی ضرورت پڑی تو میں یقینا اظہار کرنے میں تامّل نہیں کروں گا ؟“
”ٹھیک ہے ۔اس کے بعد شاید تم سے ملاقات نہ ہو ؟“ان دونوں نے اٹھ کر مجھے الوداع کیا اور میں واپس کمرے میں آ گیا ۔جینیفر دوپہر کے کھانے اور پر رات کے کھانے پر بھی دکھائی نہیں دی تھی ۔ میں نے بھی کسی سے معلوم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی ۔اگلے دن تقسیم انعامات کی تقریب میں البتہ وہ نظر آ گئی تھی ۔بجھی بجھی اور مجھ سے دور دور ۔سردار نے اس کی وجہ بھی دریافت کی مگر میرے پاس اسے مطمئن کرنے کے لیے کوئی مناسب جواب موجودنہیں تھا ۔
میجر جیمس نے کورس میں تمام سنائپرز کے کی کارکردگی پر اجمالاََ روشنی ڈالی ۔اور پھر تیسری پوزیشن والے سنائپر کا نام لیا ۔وہ اسرائیلی دوشیزہ اینڈریا برٹن تھی ۔اسے سٹیج پر بلا کرمیجر جیمس نے ایک شیلڈ اور دس ہزار ڈالرکا چیک تھما دیا ۔دوسری پوزیشن کے لیے جینیفر ہنڈسلے کا نام پکارا گیا۔اسے بھی ایک شیلڈ اور بیس ہزار ڈالر کا چیک تھمایا دیا گیا ۔اول پوزیشن کے بارے مجھے پہلے سے پتا چل گیا تھا ۔مگر میں نے سردار اور لی زونا وغیرہ کو یہ بات نہیں بتائی تھی ۔اس لیے جونھی جیمس میتھونی نے اول پوزیشن لینے کے ضمن میں میرا نام لیا سردار اور لی زونا خوشی سے اچھل پڑے تھے ۔میجر جیمس نے مجھے گلے سے لگا کر چند شاندار جملے میری تعریف میں کہے اور پھر حسنِ کارکردگی کا ایک سرٹیفیکیٹ ،پچاس ہزار ڈالر کا چیک اور اول پوزیشن کی ٹرافی میرے حوالے کر دی ۔سوائے راج پال کے تمام نے میرے لیے دل کھول کر تالیاں بجائی تھیں ۔پچاس ہزار ڈالر بہت بڑی رقم تھی ۔اتنی ہی رقم کرنل سکاٹ نے مجھے برین ویلز کے قتل کے سلسلے میں آفر کی تھی ۔مجھے لگ رہا تھا کہ اتنی خطیر رقم مجھے برین ویلز کو ٹھکانے لگانے کے صلے ہی میں ملی تھی۔
اختتامی کلمات کہہ کر میجر جیمس نے ہماری اگلے دن کی فلائیٹس کا اعلان کیا اور تقریب اختتام پذیر ہوئی ۔انعامی تقریب سے واپسی پر میں نے چیک میجر جیمس کے حوالے کر کے نقد رقم منگوا لی تھی۔
رات کو پر تکلف ڈنر اور اس کے بعد موسیقی کی محفل کا انعقادہوا ۔پینے پلانے کا بھی خوب اہتمام کیا گیا تھا ۔انگلش کی بے ہنگم موسیقی اوربے ہودہ شاعری سے مجھے کوئی لگاو ¿ نہیں تھا۔گو میری اس بات سے اختلاف کرنے والے کثیر لوگ ہوں گے ۔مگر یہ وہ لوگ ہیں جو انگلش کی اچھی شاعری کے دلدادہ ہیں ۔آج کل کے پاپ میوزک کی وکالت یقینا وہ بھی نہیں کریں گے ؟اور بے ہودہ شاعری سے میری مراد بھی پاپ میوزک کی لچر شاعری ہی سے ہے ۔
مجھے کمرے میں آئے ہوئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ سردار لی زونا کے ہمراہ وہاں آن پہنچا ۔
”ذیشان بھائی !....آج تو ہم دونوں رات بھر گپ شپ کریں گے ؟“
”تو لی زونا کے کمرے میں بیٹھ جاتے ؟....جینیفر تو یوں بھی موسیقی سے بہرہ مند ہو رہی ہو گی؟“
”وہ تو ڈنر کے بعد ہی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی ۔“لی زونا نے متبسم ہو کر کہا ۔
”چلو ٹھیک ہے ،مگراس شرط پر کہ لی زونا بہن اپنے ہاتھوں سے بہترین سے کافی بنا کر پلائے؟“
”ابھی لیں بھائی !“وہ اٹھ کر الیکٹرک کیتلی کی طرف بڑھ گئی ۔
لی زونا کافی واقعی بہت اچھی بناتی تھی ۔کافی پی کر میں نے ان کے ساتھ تھوڑی گپ شپ کی اور پھر باہر نکل آیا ۔وہ دونوں ایک دوسرے کا کافی پسند کرنے لگے تھے ۔ سردار کی شادی کے متعلق جاننے کے بعد بھی لی زونا کی پسندیدگی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا ۔میں نے سوچا کہ آخری رات انھیں تنہائی کی چند گھڑیاں اکٹھے بتانے دوں پھر تو جانے وہ کبھی مل بھی پاتے یا نہیں ۔
باہر میوزک کا اونچا شور سنائی دے رہا تھا ۔تھوڑی دیر لان میں ٹہلنے کے بعد میرے قدم غیر ارادی طور پر جینیفر کے کمرے کی طرف اٹھ گئے ۔نیویارک سے واپسی کے بعد اس نے مجھ سے ملنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔میں نے سوچا چلو اس کو تھوڑا مطعون ہی کر دوں کہ محبت کی دعوے دار مجھے الوداع کہنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کر رہی تھی ۔
دروازہ ہلکے سے کھٹکھٹا کر میں اندر داخل ہوا ۔وہ نیچے قالین پر بیٹھی تھی ۔بیڈ کی سائیڈ سے ٹیک لگاکر اس نے اپنی ٹانگیں قالین پر پھیلائی ہوئی تھیں ۔ایک بڑی سی بوتل اس کے سامنے دھری تھی جبکہ ادھ بھرا گلاس اس کے ہاتھ میں تھا ۔
مجھے دیکھ کر بھی اس کے چہرے پر کوئی تاثر اجاگر نہیں ہوا تھا ۔میں بھی اس کے قریب جا کر بیٹھ گیا ۔
”آج تو عیاشی ہو رہی ہے ؟“میں نے مزاحیہ لہجے گفتگو کی ابتدا کی ۔
اس نے ایک ہلکا سا گھونٹ بھر کر پوچھا ۔”کیسے آنا ہوا ؟“
”کل واپسی ہے سوچا الوداعی ملاقات کر لوں ؟“
”ہو گئی ملاقات ۔اب تم جا سکتے ہو ؟“اس کے لہجے میں بھرپور اجنبیت در آئی تھی ۔
”جینی !....کیا ہو گیا ہے تمھیں ؟....کہا ں تو اتنی چاہت کے دعوے اور کہاں اتنی بے زاری کہ دو گھڑی کی گفتگو بھی گوارا نہیں ؟“
”ہاں نہیں ہے گوارا تو ؟....اور تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میرا نام کیپٹن جینیفر ہنڈسلے ہے ۔جینی نہیں ؟“
میں نے ہنس کر کہا ۔”اتنا لمبا نام تو خیر میں نہیں لے سکتا ؟“
”کیوں نہیں لے سکتے ہاں ....؟تم چیز کیا ہو ؟....ایک تھرڈ کلاس پاکی فوجی ،ایک سپاہی ؟تم میرا پورا نام کیوں نہیں لے سکتے ؟....سنائپر کورس میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ تم تمیز ہی کھو دو سینئر جونئیرکی ؟“اس کے لہجے سے صاف محسوس کیا جا سکتا تھا کہ وہ اس وقت نشے میں تھی ۔اس کی بد تمیزانہ گفتگو مجھے عجیب لگ رہی تھی۔
”جینی !....کیا ہو گیا ؟“میں نے نرم لہجے میں دریافت کیا ۔
”میں کہہ رہی ہوں پورا نام لو میرا ۔تمھاری سمجھ میں نہیں آ رہا ؟“اس نے الٹے ہاتھ سے میرا گریبان تھام کر بد تمیزی سے پوچھا ۔میں ہکا بکا رہ گیا تھا ۔
جاری ہے

No comments: