ﻧﺎﻭﻝ رکھیل از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر 11
کار سے اترتے ہوئے کبیردادا کو تناوش کے چہرے پر ثبت خوشی واضح نظر آرہی تھی ۔ یقینا وہ اس کے جلد لوٹ آنے پر خوش تھی ۔
”میرے لیے خریداری کی ہے ۔“اس کے قریب پہنچنے پر تناوش نے شرارتی لہجے میں پوچھا ۔
”ہاں ۔“کہتے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا ۔
”سچ ۔“خوشی سے چہکتے ہوئے اس نے عقب ہی سے اس کے ہاتھ سے شاپر جھپٹ لیا تھا ۔کمرے میں داخل ہونے تک وہ شاپر سے تہہ شدہ سوٹ نکال کر کھول چکی تھی ۔
”یہ کیا ۔“
”نظر نہیں آرہا کیا ہے ۔“صوفے پر نشست سنبھالتے ہوئے کبیردادا نے تیکھے لہجے میں پوچھا ۔تناوش کے حوالے وہ سوٹ کرتے ہوئے اسے، اجنبی لڑکی کو سوٹ دینے سے بھی زیادہ خفت ہو رہی تھی ۔
”کبھی مجھے اس طرح کا لباس پہنتے دیکھا ہے ۔“ جینز کی تنگ پتلون اور شرٹ کو دیکھتے ہوئے تناوش کا منھ بن گیا تھا ۔
”مجھے شوق نہیں ہے تمھارے لیے خریداری کرنے کا ۔آج شام کو دعوت تھی سوچا نیا سوٹ خرید لوں ۔
تناوش نے صاف گوئی سے کہا ۔”آپ کی خواہش پر تو نہیں البتہ حکم پر یہ پہن سکتی ہوں ۔“
اس نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔”رہنے دو ،میں فضول باتوں میں اپنا حکم ضائع نہیں کیا کرتا ۔“
”خفا ہو گئے ۔“تناوش نے اس کے چہرے پر ناراضی کے اثرات تلاش کرنے کی ناکام کوشش کی ۔
”میرا خیال ہے ہمارے درمیان ایسا کوئی رشتا موجو نہیں ہے جس میں ناراضی کا پہلو نکل سکے ۔“کبیر دادا نے اس کے نازک احساسات پر بہت گہری چوٹ لگائی تھی ۔
تناوش کے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔”آپ صحیح کہہ رہے ہیں ،لیکن میں نے ناراضی کااس لیے پوچھا ہے کہ جلد بازی میں یہ کہہ گئی کہ آپ کی خواہش پر یہ کپڑے نہیں پہنوں گی ۔“
”مجھ سے غلطی یہ لباس خریدنے میں ہوئی ۔باقی حقیقت یہ ہے کہ مجھے معلوم نہیں عورتیں کس قسم کالباس پہننا پسند کرتی ہیں ۔“
تناوش شوخ لہجے میں بولی ۔”باقی عورتوں کو چھوڑیں ،میری بات کریں اور میں جو پسند کرتی ہوں روزانہ وہی تو پہنا ہوتا ہے اس میں نہ جاننے کے کیا معنی۔“
کبیر دادا نے بہ ظاہر غصے بھری نگاہ اس کے شوخی بھرے معصوم چہرے پر ڈالی مگر منھ سے کچھ کہے بنا اسے گھورنے لگا۔
”کھانا کھائیں گے ۔“وہ اس کے بوٹ کھولتے ہوئے مستفسر ہوئی ۔
”کبھی دن کا کھانا گھر کھایا تو نہیں ہے ،چلو آج کھا لیتا ہوں ۔ “
”اتنے احسان نہ کیا کریں جو اتارے ہی نہ جا سکیں ۔“اس کے گھٹنوں پر ٹھوڑی ٹیکتے ہوئے وہ ممنونیت سے بولی ۔
کبیردادا نے اس کے لہجے میں طنز کی آمیزش تلاش کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا ۔وہ جان چھڑانے کے انداز میں بولا ۔”اچھا اب فضول باتیں چھوڑو اور کھانا لے آﺅ ۔“
”وزٹنگ کارڈ تو مل گیا تھا نا ۔“تناوش نے معنی خیز لہجے میں پوچھا ۔
”ہاں ۔“وہ نظریں چرا گیا تھا ۔
”میں نے ناشتا کر لیا تھا ۔“نہ جانے وہ اسے مطلع کر رہی تھی یا وعدہ یاد دلا رہی تھی ۔
وہ چڑ کر بولا ۔”بہت بڑا احسان ہے تمھارا ۔“
”آپ ہر وقت اتنے اکھڑے اکھڑے کیوں رہتے ہیں ۔“وہ اس کے ساتھ ہی جڑ کر بیٹھ گئی تھی۔
”شاید تم کھانا لا رہی تھیں ۔“اس نے تناوش کی بات کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی ۔
”اچھا شام کو کالج والی یونیفارم پہن لوں ۔“وہ برا منائے بغیر شروع رہی ۔
”ان کپڑوں میں تم اتنی بھی اچھی نہیں لگتی ہوکہ ہر وقت پہنے رکھو ۔اور تین چار جوڑے سلوا لو۔“
”اچھا لگنے کی وجہ سے نہیں سلوائے ۔“
”پھر ؟“
وہ دکھی لہجے میں بولی ۔”غریبوں کی زندگی نظریہ ضرورت کے تحت ہی گزراکرتی ہے ، عام کپڑوں کے بغیر تو گزارا ہو جاتا تھا ،کالج یونیفارم کے بغیر نہیں ۔اسی وجہ سے میں عام کپڑوں کی جگہ بھی کالج یونیفارم ہی سلوا لیتی تھی ۔اور اتنے پیسے امی جان کے پاس بھی نہیں ہوتے تھے کہ میری خواہشات پوری کرتی رہتیں ۔“
کبیر دادا کے دل میں ہلکی سی ندامت نمودار ہوئی وہ بات بناتے ہوئے بولا ۔ ”اگر کپڑے لینے ہیں توابھی عظیم کو ساتھ لے جا کرخرید لو ۔“
”شکریہ ۔“ وہ اس کے جوتے اٹھا کر ریک کی طرف بڑھ گئی ۔کبیردادا خاموش بیٹھا اسے گھورتا رہ گیا تھا ۔اس کا شکریہ کہنااسے اچھا خاصا طنزیہ لگا تھا ۔
٭٭٭
تقریب کے لیے اس نے شادی کے دن والے کپڑے پہنے تھے ۔حسن سجاوٹ یا پہناوے کا محتاج نہیں ہوا کرتا ۔تناوش ان عام اور سستے کپڑوں میں بھی بہت نمایاں لگ رہی تھی ۔ تیار ہو کر وہ کبیر دادا کو مخاطب ہوئی ۔
”بتائیے نا کسی لگ رہی ہوں ۔“
”جیسی ہو ویسی ہی لگو گی ۔“
”کیسی ہوں بھلا۔“خاموش رہنا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا ۔
”مجھے نہیں پتا اور نہ اس قسم کے فضول سوال مجھ سے کیا کرو ۔“وہ اس کے سراپے سے نگاہیں چرا گیا تھا ۔
”تو کس سے پوچھوں ؟“اس نے شرارت بھرے لہجے میں پوچھا ۔”کیا میراکسی اور سے پوچھنا آپ کو برا نہیںلگے گا ۔“
اس نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نگاہ دوڑاتے ہوئے باہر کی طرف قدم بڑھائے ۔ ”چلو دیر ہو رہی ہے ۔“ تناوش کے بہت سے سوالوں کی طرح اس سوال کا جواب بھی وہ گول کر گیا تھا ۔
وہ ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرتے اس کے پیچھے بڑھ گئی ۔وہ بچپن ہی سے ایسی ہی تھی ،بہت زیادہ باتونی ،شوخ اور نٹ کھٹ ۔دلاور شیخ کی وجہ سے اس کی ہنسی کہیں غائب ہو گئی تھی جو دلاور کی موت کے ساتھ واپس پلٹ آئی ۔کبیردادا کو چھیڑتے ہوئے اسے اور بھی لطف آتا تھا ۔ نہ جانے پہلے ہی دن سے اسے کیوں یقین ہو گیا تھا کہ کبیردادا اسے پسند کرتا ہے ۔عورتوں کی فطرت اللہ پاک نے ایسی بنائی ہے کہ وہ خود پر پڑنے والی نگاہوں کو فوراََ پہچان جاتی ہیں اس کے لیے حرص و ہوس میں ڈوبی نگاہوں اور خلوص بھری نگاہوں میں فرق کرنا کوئی مشکل نہیں تھا ۔دلاور شیخ اور خاور شیخ کی گندی نگاہیں اسے بھولی نہیں تھیں ۔اس کے برعکس کبیردادا نے ابھی تک نہ تو محبت یا چاہت کا اظہار کیا تھا اور نہ اس کی کوئی تعریف ہی کی تھی اس کے باوجود جانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ وہ اس کے لیے بہت اہم ہے ۔اس کی طرف سے بیزاری اور کوفت کا مسلسل اظہاربھی تناوش کو مصنوعی لگتا تھا ۔اس کے بار بار یہ کہنے پرکہ وہ جلد ہی اسے طلاق دے کر گھر بھیج دے گا ۔ تناوش کو یوں لگتا جیسے وہ خود یقین دلا رہا ہو کہ وہ اسے چھوڑ دے گا ۔اس کی انھی کیفیات سے جرّات پا کر تناوش اس حد تک اتر آئی تھی کہ شراب کی الماری کو بھی تالہ کر کے اس پر اپنی اہمیت جتانا شروع کر دی تھی ۔مگر اس سب کے باوجود یہ خوف اور اندیشہ اس کے دل میں پہلے دن سے موجود تھا کہ کبیردادا کی پسند پر کسی بھی وقت اس کی لاابالی فطرت اور ایک گینگ کے سربراہ ہونے کا زعم حاوی ہو سکتا تھا ۔
ڈرائینگ روم کے دروازے کے قریب پہنچتے ہوئے اچانک اسے اپنا موبائل فون یاد آیا جو وہ تپائی پر بھول کر آرہا تھا ۔
”تم جاﺅ میں ایک منٹ میں آیا ۔“بجائے تناوش کو بتانے کے وہ خود کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔وہ سرہلاتی ہوئی آگے بڑھ گئی ۔کبیردادا کا اس کو کوئی کام خود سے نہ بتانا بھی یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ اس سے پہلو تہی کی کوشش میں مصروف ہے ۔محافظ اور ڈرائیور تیار کھڑے تھے ۔ کبیردادا کے موبائل فون اٹھا کر دروازے تک پہنچنے تک تناوش کار کے قریب پہنچ چکی تھی ۔
”اسلام علیکم بیگم صاحب۔“عظٰم نے فوراََ موّدبانہ انداز میں اس کے لیے عقبی نشست کا دروازہ کھول دیا ۔
”مجھے بیگم صاحبہ نہیں ،دادی کہا کرو ۔“اس کے قریب رکتے ہوئے وہ بہ ظاہر سنجیدہ لہجے میں بولی تھی ۔
”د....دادی ۔“عظیم ہکلا گیا تھا ۔
”ہاں ۔“وہ اطمینان بھرے لہجے میں بولی ۔”کبیرکو دادا کہتے ہو تو اس لحاظ سے میں تمھاری دادی ہوئی نا ۔“
کبیردادا کے کانوں تک بھی یہ بات پہنچ گئی تھی ۔بے ساختہ امڈ پڑنے والے قہقہے کو روکنے کے لیے وہ ایک دم مڑ کرپردے کی اوٹ میں ہو گیا ۔”تناوش دادی ۔“تصور کی سکرین پر اسے اپنے آدمی کہتے سنائی دیے ۔بڑی مشکل سے ہنسی کو روک کر اس نے چہرے پردوبارہ سنجیدگی طاری کی اور باہر نکل آیا ۔وہ عقبی نشست پر بیٹھ چکی تھی ۔عظیم نے کبیردادا کے لیے دوسرا دروازہ کھولا اور اس کے نشست سنبھالتے ہی دروازہ بند کر دیا ۔
گاڑی کے آگے بڑھتے ہی وہ کھسک کر اس کے قریب ہو گئی تھی ۔کھڑکی کی طرف سمٹتے ہوئے کبیردادا نے اسے غصیلی نظروں سے گھورا مگر وہ بے نیازبنی بیٹھی رہی ۔وہ جانتا تھا کہ منھ زبانی کہنے پر اسے الٹا ہی جواب ملتا اور اپنے ملازموں کے سامنے وہ کوئی الٹی بات نہیں سننا چاہتا تھا ۔اس کے تمام آدمی اس سے یوں خوف کھاتے تھے جیسے پرائمری کے طالب علم استاد سے ڈرتے ہیں جبکہ تناوش اس کے غصے اور رعب کو کسی خاطر نہیں لاتی تھی ۔وہ شرمیلی ،معصوم اور کم گو نظر آنے والی چھوٹی سے عمر کی لڑکی اتنی شوخ اور تیز ہوگی یہ کبیردادا نے سوچا بھی نہیں تھا ۔ہر بار کبیردادا یہ سوچ کر طرح دے جاتا کہ دو تین دن بعد اس نے چلے جانا ہے ۔مگر کبھی کبھی اسے خود بھی وہ تین دن گزرتے نظر نہ آتے ۔وہ خود کویہ کہہ کر تسلی دینے لگتا کہ اخلاق حسین جیسے آدمیوں سے بچانے کے لیے اس نے وقتی طور پر اسے رکھ لیا ہے ۔
اخلاق حسین کی کوٹھی کی دیوار کے ساتھ کافی گاڑیاں ایک ترتیب کے ساتھ پارک تھیں لیکن اس کی گاڑی سیدھا گیٹ پر جا کر رکی تھی ۔محافظوں نے البتہ اپنی جیپیں باہر ہی پارک کر کے پیدل گیٹ کی طرف بڑھ گئے تھے ۔چوکیدار نے کبیردادا کو پہچانتے ہی دروازہ کھول دیا تھا ۔ڈرائیور گاڑی اندر لے گیا ۔کوٹھی کے وسیع لان میں رنگ و نور کاسیلاب آیا ہوا تھا ۔ڈرائیور نے گاڑی سیمنٹ کی پختہ روش پر روکی ،عظیم نے جلدی سے اتر کر کبیردادا کے لیے دروازہ کھول دیا۔ تناوش ،عظیم کا انتظار کرنے کے بجائے خود دروازہ کھول کر نیچے اتر گئی ۔ان کے اترتے ہی ڈرائیور گاڑی کو گیراج کی طرف لے گیا ۔ان کی گاڑی کو دیکھتے ہی اخلاق حسین خوش آمدیدکہنے کے لیے ان کی طرف آگیا تھا ۔
کبیردادا سے مصافحہ کر کے اس نے گہری نگاہ تناوش پر ڈالتے ہوئے کہا ۔”تشریف آوری کے لیے شکریہ بھابی ۔“اس کے ساتھ ہی اس نے ہاتھ سے انھیں ترتیب سے لگے ہوئے صوفوں کی طرف بڑھنے کا اشارہ کیا ۔
تناوش کا ایسی تقریب میں شرکت کا پہلا موقع تھا ۔اس سے پہلے وہ محلے کی شادیوں وغیرہ میں تو شامل ہو چکی تھی مگر ان تقاریب اور حالیہ تقریب میں زمین آسمان کا فرق نظر آرہا تھا ۔ تقاریب کو دولت ہی سے چار چاند لگائے جا سکتے ہیں اور اخلاق حسین شاہ کے پاس دولت کی کون سی کمی تھی ۔
تناوش ہلکی سی نروس ہوئی مگر پھر اپنے ساتھ قدم ملا کر چلتے ہوئے کبیردادا کو دیکھتے ہی اس کے دل سے تمام خوف اور ڈر بھاگ گئے تھے۔وہ پر اعتماد انداز میں صوفوں کے قریب پہنچی وہاں اونچی سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے مرد و زن اعلا پہناووں میں براجمان تھے ۔عورتوں نے خوب میک آپ تھوپا ہوا تھا ۔ان کے چمکتے دمکتے لباس کے مقابلے میں تناوش کا سستا اور عام سا لباس تضحیک اور استہزاءکا نمونہ ہی تھا ۔وہ چہرے پر خود اعتمادی پیدا کیے کبیردادا کے ساتھ بیٹھ گئی ۔
زیادہ تر حاضرین کی نگاہیں تناوش کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں اور اس کی وجہ کبیردادا کی اس سے شادی کا معاملہ تھا ۔کافی لوگ اس لڑکی کو دیکھنے کے خواہاں تھے جس نے کبیردادا جیسے اکھڑکو اپنے بس میں کر لیا تھا ۔کچھ عورتیں دبی زبان میں ہنستے ہوئے اس کے لباس اور سر سے لپٹے دوپٹے کا مذاق اڑانے لگیں ۔پاشا اپنے ساتھ بیٹھے کاشف راجپوت کو مخاطب ہوا۔
”کاشف دادا!....مشکل ہے کہ کبیردادا اس لڑکی طلاق دے ۔اتنی معصوم اور پاکیزہ صورت لڑکی سے جان چھڑانا آسان کام نہیں ہے ۔“
کاشف نے منھ بناتے ہوئے کہا ۔”یوں بد فال تو منھ سے نہ نکالویار!“
اسی وقت نوشاد آفریدی نے اخلاق حسین کے کان میں سرگوشی کی ۔”شاہ جی !.... اس خبیث کاباﺅلہ پن سمجھ میں آرہا ہے ۔“
اخلاق حسین نے بھی اسی کی طرح سرگوشی کی ۔”کہا تھا نا لاکھوں کروڑوں میں ایک ہے ۔یقین کرو ہنستی ہے تو انسان کو کچھ ہونے لگتا ہے ۔“
نوشاد آفریدی ندیدے پن سے ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہوا بولا ۔”اب تو اس بلبل کو حاصل کر نے کا ارادہ مزید پختہ ہو گیا ہے ۔“
”مگر اس خبیث دیو سے نبٹے بغیر تو یہ بلبل ہاتھ آنے والی نہیں ۔“اخلاق حسین کے لہجے میں کبیردادا کے لیے نفرت ہی نفرت ابل رہی تھی ۔
نوشاد بے پروائی سے بولا ۔”اس کا حل میں نے سوچ لیا ہے ۔“
”کون سا حل ؟“اخلاق حسین مستفسر ہوا ۔
نوشاد جھلاتے ہوئے بولا ۔”وہی یار ،تمھیں دس دفعہ تو بتا چکا ہوں ۔“اس کی پر ہوس نگاہیں ابھی تک تناوش کے ملیح چہرے پر گڑی تھیں ۔
کبیردادا ،شہا ب کے ساتھ بیٹھ گیا،تناوش بھی اس کے پہلو میں جم گئی تھی ۔ان صوفوں پر زیادہ تر مرد ہی بیٹھے تھے ،عورتوں کی ٹولیاں دائیں بائیں کھڑی گپیں ہانک رہی تھیں ۔یا کچھ مردوں سے تھوڑے فاصلے پر سر جوڑے بیٹھی تھیں ۔باوردی بیرے ہاتھوں میں ٹرے اٹھائے مہمانوں کو مختلف مشروبات پیش کر رہے تھے ۔ان میں عام مشروبات کے علاوہ شراب بھی فراوانی سے پیش کی جا رہی تھی ۔اخلاق حسین شاہ جیسے شخص کو کسی قانون وغیرہ کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔ بلکہ قانون خود وہاں ایس پی ضمیر حسین اور درجن بھر انسپکٹروں کی صورت میں اس حرام مشروب کوجائز اور حلال قرار دینے کی دلیل دے رہا تھا ۔
مشروب پیش کرنے والا ایک بیرا ٹرے میں درجن بھر گلاس سجائے کبیردادا کے قریب ہوا۔
شہا ب سے باتیں کرتے ہوئے کبیردادا نے وہسکی کا گلاس اٹھا لیا ۔بیرے نے ٹرے تناوش کے سامنے پکڑی ۔
کبیردادا کی نقل کرتے ہوئے اس نے بھی ایک گلاس اٹھا لیا تھا ۔کیونکہ وہاں موجود زیادہ تر خواتین و حضرات کے ہاتھوں میں گلاس نظر آرہے تھے ۔
اور پھر اس سے پہلے کہ وہ گھونٹ لے پاتی کبیردادا بہ مشکل اپنی ہنسی روکتے ہوئے اس کی طرف جھکتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولا ۔
”مجھے منع کرتی ہو اور خود شراب پینا شروع کر دی ۔“
”مم....میں نے سوچا کولڈ ڈرنک ہے ۔“وہ ہکلا گئی تھی ۔یہ کہتے ہی اس نے جلدی سے گلاس سامنے پڑی شیشے کی میز پر رکھ دیا ۔
کبیردادا نے ایک دوسرے بیرے کو انگلی کے اشارے سے اپنے پاس بلایا ۔
”یہ ہیں تمھارے کولڈ ڈرنک۔“اسے کہہ کر وہ شہاب کی طرف متوجہ ہو گیا ۔ وہ کھسیاتے ہوئے دوسرا گلاس اٹھانے لگی ۔
”کیا راز و نیاز ہو رہے ہیں بھئی ۔“شہاب نے مزاحیہ لہجے میں پوچھا ۔
کبیردادا ہنسا ۔”بے وقوف شراب پینے لگی تھی ۔“
”خود پیتے ہو اور ہماری بھابی کو منع کرتے ہو ،یہ تو زیادتی ہے جناب ۔“شہا ب قصوری کی آوازاتنی اونچی ضرور تھی کہ کبیردادا کے پہلو میں بیٹھی تناوش تک پہنچ گئی تھی ۔
”منع تو نہیں کیا ۔“کبیردادا نے فوراََ نفی میں سرہلایا۔”صرف مطلع کیاہے کہ محترمہ جو مشروب نوش کر نے والی ہو اسے وہسکی کہتے ہیں ۔“
شہاب نے زوردار قہقہہ لگایا ۔تناوش خفیف ہو کر نیچے دیکھنے لگی تھی ۔اس کے چہرے پرچھائی حیا کی لالی نے کبیردادا کے دل کو عجیب انداز میں دھڑکنے پر مجبور کر دیا تھا ۔سرخ و سفید چہرہ لال ہو کر مزید جاذب نظر ہو گیا تھا ۔اسی وقت ایک خوب صورت سے لڑکی نے قریب آکر کبیردادا سے مصافحہ کیا ۔
”کبیرصاحب ،چوری چوری شادی کر لی اور ہمیں جھوٹے منھ بھی دعوت نہیں دی ۔“ کبیردادا سے ہاتھ ملا کر اس نے تناوش کی طرف ہاتھ بڑھایا۔مسز کبیر !....میں ہوں آپ کی میزبان فرحانہ اخلاق ۔“
تناوش نے بے دلی سے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔اس کا کبیردادا کو ہاتھ ملانا تناوش کو ایک آنکھ نہیں بھایا تھا ۔
اسی وقت کبیردادا بہ ظاہر سنجیدہ لہجے میںبولا ۔”کوئی بات نہیں اگلی مرتبہ دعوت ضرور دوں گا ۔“
”ہائیں کیا اتنی خوب صورت دلھن حاصل کرنے کے بعد بھی آپ دوسری شادی کریں گے ۔“پاس سے گزرتے ہوئے بیرے سے کولڈ ڈرنگ کا گلاس اٹھاتے ہوئے اس نے شوخ لہجے میں پوچھا ۔
”مولویوں سے سنا ہے کہ ایک مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے ۔“
”اس کا مطلب ہے میں یونھی پریشان تھی ۔“فرحانہ معنی خیز لہجے میں کھل کھلائی ۔
غصے سے کھولتی تناوش سے رہا نہیں گیا تھا ۔”آپ کی پریشانی شاید اتنی آسانی سے دور نہ ہو ۔“
فرحانہ نے کہا ۔”سوری مسز کبیر،آپ کو برا لگا ،میں تو یونھی مذاق کر رہی تھی ۔“
کبیر دادا فرحانہ کو مخاطب ہوا ۔”اچھا اسے ذرا ساتھ لے جاکر دوسروں سے تعارف وغیرہ ہی کرا دو ۔یہاں بیٹھی بور ہوتی رہے گی ۔“
”کیوں نہیں ۔“وہ خوش دلی سے بولی ۔”چلیں مسز کبیر۔“
اسے دوسری عورتوں کا سامنا کرنا مشکل لگ رہا تھا ۔اس نے ” میں یہیں ٹھیک ہوں۔“ کہہ کرجان چھڑانا چاہی ۔
”ہر وقت ضد نہیں کرتے ۔“کبیردادا نے اسے سمجھانے کے انداز میں مخاطب کیا ۔مگر اس کے لہجے میں شامل حکم تناوش کو واضح طور پر محسوس ہوا تھا ۔
منھ سے کچھ کہے بنا وہ ہونٹ بھینچتے ہوئے فرحانہ کے ساتھ چل پڑی ۔
کبیردادا سے تھوڑا دور ہٹتے ہی فرحانہ طنزیہ انداز میں بولی ۔”ویسے کوئی ڈھنگ کے کپڑے ہی پہن لینا تھے ۔جھونپڑی سے نکل کر آگئی ہو تو پرانے کپڑے وغیرہ بھی وہیں چھوڑ آنا تھے ۔“
تناوش بغیر لگی لپٹی رکھے بولی ۔”کپڑوں کا مقصد تن ڈھانپنا ہوتا ہے اوریقینامیرا لباس آپ کے پہناوے سے زیادہ اس مقصد پر پورا اترتا ہے ۔“
فرحانہ نے استہزائیہ انداز میں کہا ۔”ایسے کپڑوں والی کے خیال بھی ایسے ہی ہوں گے ۔“
”بالکل ،مجھے بھی آپ کے لباس سے آپ کے عمدہ خیالات کی جھلک نظر آرہی ہے۔“تناوش نے اس کے نیم عریاں لباس کو تضحیک کا نشانہ بنایا ۔
”تمھیں شاید کبیر علی خان سے شادی کا زعم ہے ۔محترمہ یہ دو دن کی عیاشی ہے ،کبیر جیسے مرد کسی ایک عورت پر قانع نہیں رہتے ۔“فرحانہ آپ سے تم پر آگئی تھی ۔
”یہ میرا درد ِ سر ہے تجھے دبلا ہونے کی ضرورت نہیں ۔“تناوش تم سے بھی نچلے درجے پر آگئی ۔
فرحانہ نے اسے گھور کر دیکھا ،مگر تناوش اسے خاطر میں لائے بغیر ایک قریبی صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی ۔”شکریہ ،میں کچھ دیر یہاں بیٹھنا پسند کروں گی ۔“
”کبیرصاحب نے کہا ہے کہ معزز خواتین سے تمھارا تعارف کرا دوں ۔“اس نے لفظ”معزّز “پر اس طرح زور دیا گویا تناوش کی کوئی عزت نہ ہو ۔اپنے تئیں اس نے تناوش کی توہین کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اسے جانتی نہیں تھی۔
وہ بے پروائی سے بولی ۔”تو منع کس نے کیا ہے ۔کرواﺅ نا تعارف ،جس جس سے ملوانا ہے اسے یہیں بلوا لو ۔اب کبیر دادا کی بیوی دوسری عورتوں کے پیچھے تو نہیں پھر سکتی ۔“
فرحانہ قہر آلود نظروں سے اسے گھورنے لگی ۔وہ بے نیازی سے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے کبیردادا کی طرف متوجہ ہو گئی ۔وہ شہاب قصوری کے ساتھ کسی خاص بحث میں مشغول تھا۔ تناوش کے اٹھنے کے بعد پاشا اور کاشف بھی ان کے قریب آکر بیٹھ گئے تھے۔تناوش ان میں سے نہ تو کسی مرد کو جانتی تھی نہ عورت کو ۔اچانک اس کے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی ۔اس کے چہرے پر حیرت نمودار ہوئی ۔نہ جانے اس وقت کس کی کال تھی ۔ سستا سا موبائل فون نکال کر اس نے سکرین پر نگاہ دوڑاتے ہوئے کال وصول کرنے کا بٹن دبایا ۔
”اسلام علیکم ماں جی !“
”وعلیکم اسلام کیسی ہو بیٹی !“بشریٰ خاتون نے بشاشت سے پوچھا ۔
”ٹھیک ہوں ماں جی !....خیریت تو تھی؟“
”ہاں خیریت تھی صبح سے تمھاری کال کا انتظار کر رہی تھی ۔پھر رہا نہ گیا اور خود سے رابطہ کر ناپڑا۔“
خاموش کھڑی فرحانہ پر ناگواری بھری نگاہ ڈالتے ہوئے وہ کہنے لگی ۔”پڑھائی میں مصروف تھی ماں جی، اس لیے رابطہ نہ کر سکی اور اس وقت بھی ایک تقریب میں ہوں کل ان شاءاللہ بات ہو گی ۔“
”ٹھیک ہے بیٹی !....خدا حافظ ۔“بشریٰ نے رابطہ منقطع کر دیا ۔
تناوش کے بات ختم کرتے ہی وہ طنزیہ لہجے میں بولی ۔”کافی جدید اور خوب صورت سیل فون رکھا ہوا ہے ،داد دینا پڑے گی تمھاری پسند کی ۔“یہ کہہ کر وہ چل دی ۔تناوش کا جواب سننے کی زحمت اس نے نہیں کی تھی ۔
لمحہ بھر بعد وہ خواتین کے جھرمٹ میں کبیردادا کی دلھن کے لباس ،موبائل فون اور بد اخلاقی کا مذاق اڑا رہی تھی ۔وہاں موجود خواتین کی زیادہ تر تعداد اونچے طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور اگر کوئی متوسط خاندان کی تھی بھی ،تو اب اس طبقے میں رچ بس کر انھی جیسی ہو گئی تھی اور ایسی خواتین کا پسندیدہ مشغلہ غریب لڑکیوں کے طرز زندگی کا مذاق اڑانا ہی ہوتا ہے ۔
نسیم بیگم نے پوچھا ۔”آپ یہی دیکھنے اس کے پاس گئی تھیں ۔“وہ ایک جج کی بیوی تھی ،لیکن جس طرح کے زیور ات سے لدی پھدی تھی ایسے زیور سیشن کورٹ کا جج کم از کم اپنی تنخواہ سے بنا کر نہیں دے سکتا تھا ۔یوں بھی جس تقریب میں وہ جج صاحب مدعو تھا وہاں اس کی آمد ہی اس کے کردار کا تعین کرنے کے لیے کافی تھی ۔
”میں تو یہ سوچ کر گئی تھی کہ کبیر علی خان نے اپنی دلھن کو ناز نخروں سے رکھا ہو گا،مگر اس بے چاری کی حالت دیکھ کر ترس آنے لگا ہے ۔“فرحانہ نے منھ بنایا ۔
نوشاد آفرید ی کی چہیتی بیگم نغمہ بے باکی سے بولی ۔”اب بھی حسرت بھری نظروں سے کبیر صاحب کو گھور رہی ہے ،شاید اسی کے پاس جا کر بیٹھنے کا دل کر رہا ہے بے چاری کا ، لیکن بے وقوف یہ نہیں جانتی کبیر خان جیسے آدمی کے پاس ایسی لڑکیوں کے لیے صرف بستر پر لیٹتے وقت چند لمحات ہوتے ہیں ۔“
اس کی بات پر تمام کھل کھلا کر ہنس پڑی تھیں ۔
”سنا ہے کسی غنڈے کی منظور نظر تھی جسے کبیر علی خان نے اپنے اثر و رسوخ سے مروادیا اور اس کی خوب صورتی دیکھتے ہوئے چند دنوں کے لیے گھر لے آیا ۔ا ب یہ بے چاری خود کو کبیردادا کی سچ مچ کی بیوی سمجھے ہوئے ہے ۔“یہ راز آشکارا کرنے والی شیر خان کی بیوی ثمینہ تھی ۔ ایسا کہتے ہوئے اسے یہ بھول گیا تھا کہ خود اس کی شادی شیر خان سے کس طرح ہوئی تھی ۔
ایس پی ضمیر حسین کی بیوی سلطانہ بولی ۔”ہاں میں نے بھی کچھ ایسا ہی سنا ہے کہ کبیر خان نے اسے رکھیل بنا کر گھر رکھا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے کوئی بڑا جھگڑا بھی متوقع ہے ۔اس ڈائن کی وجہ سے شاہ صاحب کے دو آدمی بھی کبیرخان کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں ۔“
بہ ظاہر تمام گھریلو خواتین دکھائی دے رہی تھیں ،مگر ان کی باتوں سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اپنے شوہروں وغیرہ کی اصلیت سے اچھی طرح واقف ہیں ۔کبیردادا کو کبیر علی خان کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اس کے دادا ہونے سے ناواقف تھیں ۔
نغمہ نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہا ۔”ویسے اس میں ایسی کون سی بات ہے کہ کبیرخان جیسے پر کشش اور خوب صورت مرد نے اس کے لیے قتل تک کر ڈالا ۔“
”مردوں کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں ہوتی آگیا ہوگا دل، حالانکہ اس سے کئی گنا خوب صورت اور دلکش خواتین سے اس کا روزانہ واسطہ رہتا ہو گا۔“فرحانہ کا ڈھکا چھپا اشارہ اپنی جانب تھا ۔
”شاید کم عمری اچھی لگی ہو ۔“رخسانہ نے لقمہ دیا ۔وہ شہاب قصوری کی بیٹی تھی ۔
”اتنی بھی بچی نہیں ہے ،مجھ سے سال دو ہی چھوٹی ہو گی ۔“ثمینہ نے عورتوں کی ازلی فطرت کا اظہار کیا کہ وہ کسی دوسری عورت کو کم عمر نہیں سمجھ سکتیں ۔
اس کے بغل میں کھڑی فصیح الدین کی بیوی کرن نے پوچھا ۔”ویسے آپ نے ماسٹر کیا ہوا ہے نا۔“
”ہاں ۔“اس نے فخریہ انداز میں سرہلایا۔
”اور اس کے بعد آپ کی شادی کو بھی غالباََ پانچواں سال ہے ۔“
”ہاں ،قریباََ اسی طرح ہی ہے ۔“ثمینہ نے حیرانی بھرے لہجے میں جواب دیا ۔
کرن نے تناوش کی جانب ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔”وہ سیکنڈ ائیر کی طالبہ ہے ۔“
”تو کیا ،میری بلا سے پانچویں میں پڑھتی ہو۔یوں اس کی عمر تو کم نہیں ہو جائے گی نا۔ غریب غرباءویسے بھی دیر سے اسکول جانا شروع کرتے ہیں ۔“ثمینہ اپنی بات سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں تھی ۔
”آپ کو بڑی ہمدردی ہو رہی ہے ۔“فرحانہ خفگی بھرے لہجے میں کرن کو مخاطب ہوئی ۔
کرن نے مسکراتے ہوئے کہا ۔”بھاڑ میں جائے وہ ،میں تو بس ثمینہ آپی کو چھیڑ رہی تھی ۔“ثمینہ اور اس میں کافی گہری دوستی تھی ۔
”کیوں نا اس کے پاس جا کر تھوڑی گپ شپ کی جائے ۔“رخسانہ نے مشورہ دیا۔
باقیوں کے ہاں ناں کرنے سے پہلے اخلاق حسین شاہ کی بلند آواز گونجی ۔”خواتین و حضرات کھانا لگ چکا ہے ،آپ مزید گپ شپ کھانا کھاتے ہوئے بھی کر سکتے ہیں ۔“
تمام مسکراتے ہوئے یو شکل کی لگی ہوئی کھانے کی میزوں کی طرف بڑھ گئے تھے جہاں انواع و اقسام کے کھانے سجے تھے ۔کبیردادا ،پاشا،کاشف اور شہاب قصوری کی معیت میں کھانے کی میز کی طرف بڑھا ۔اسی وقت اس کی نظریں تناوش کی متلاشی ہوئیں ۔شہاب پارٹی سے گپ شپ کرتے ہوئے بھی وہ اپنے چہرے پر تناوش کی نظروںکی تپش محسوس کرتا رہا تھا ۔ ایک دو بار اس نے سرسری نظروں سے اسے دیکھا تھا لیکن دوسروں کی موجودی میں اسے دوسری جانب متوجہ ہونے کا اشارہ نہیں کر سکا تھا ۔وہ اب بھی اسی جگہ بیٹھی تھی ۔حاضرین میں وہ واحد مہمان تھی جس نے کھانے کی میز کا رخ نہیں کیا تھا ۔
”یہ مصیبت تماشا بنائے گی میرا ۔“وہ زیر لب بڑبڑایا ۔
”مجھے کچھ کہا ۔“پاشا مستفسر ہوا ۔
اس نے بات بنائی ۔”ہاں ،میں کہہ رہا تھا تم کھانا کھاﺅ میں اسے لاتا ہوں ۔“
”کسے ۔“حیرانی سے کہتے ہوئے پاشا نے اس کی نظروں کے تعاقب میں نگاہ دوڑائی۔تناوش کو دیکھتے ہی وہ مسکرایا ۔”دادا تو گیا کام سے ۔“
”بکواس نہ کیا کرو ۔“کبیردادا جھینپتا ہوا تناوش کی طرف بڑھ گیا ۔وہ تناوش پر توجہ نہیں دینا چاہتا تھا ،اسے نظرانداز کر دینا چاہتا تھا ،مگر پھر اسے معلوم بھی نہ ہوتا اور وہ بے دھیانی میں اسے اہمیت دے جاتا ۔
کبیردادا کو اپنے جانب آتا دیکھ کر وہ خوشی سے کھل اٹھی تھی ۔
”کیا تمھارے لیے علاحدہ بلاوہ آئے گا ۔“قریب پہنچتے ہی کبیردادا نے بے زاری بھرے لہجے میں پوچھا ۔
وہ نشست چھوڑتے ہوئے بولی ۔”بالکل ،اہم لوگوں کے لیے خصوصی بلاوا آیا کرتا ہے ۔“
وہ چڑ کربولا۔”تو پھر بیٹھ کر انتظار کرو کھڑی کیوں ہو گئی ہو ۔“
”آتو گیا ہے خصوصی بلاوا۔“اس نے شوخی بھرے لہجے میں کبیردادا کی جانب اشارہ کیا ۔
”بے وقوف ۔“افسوس بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے وہ واپس مڑ گیا ۔
وہ اس کے ساتھ قدم ملاتے ہوئے بولی ۔”اچھا لگتا ہے آپ کا یوں خیال رکھنا ۔“
”خیال نہیں رکھ رہا ،خود کو تماشا بننے سے بچانے کی تگ و دو میں ہوں ۔“
وہ متبسم ہوئی ۔”چلیں ،کسی بہانے تو آپ کی توجہ مل گئی ۔“
وہ کھانے کی میز کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ایک خالی پلیٹ اٹھا کر تناوش کے حوالے کرتے ہوئے اس نے دوسری پلیٹ اپنے لیے سیدھی کرکے اپناپسندیدہ پکوان ڈالنے لگا ۔
تناوش نے بھی اس کی تقلید میں پلیٹ میں تھوڑے سے چاول ڈالے اور بیٹھنے کے لیے کرسی وغیرہ کو دیکھنے لگی ۔وہ ابھی تک جدید طریقہ تہذیب سے ناواقف تھی ۔یورپ کی نقالی میں اب اونچے طبقے میں بھی کھڑے ہو کر اور چل پھر کر کھانے کا رواج پھیل گیا ہے ۔جیسے جانوروں کے آگے چارہ پھینکا جائے تو بیٹھا ہواجانور بھی کھڑا ہو جاتا ہے ،کیونکہ اللہ پاک نے اسے کھڑے ہو کر کھانے کا مکلف کیا ہے ۔جبکہ انسان تواشرف المخلوقات ہے اور اس کی تربیت کے لیے اللہ کریم نے انبیاءکو مبعوث فرمایا ۔مگر آج کے لبرل اور دین بیزار طبقے کو انبیاءکی نہیں یورپ کی تقلید پر خوشی ملتی ہے ۔تناوش چونکہ کھانے کے آداب سے واقف تھی اس لیے بیٹھ کر کھانے لگی ۔اس وقت کبیردادا کو چند خواتین نے گھیرا ہوا تھا وہ اسے شادی کی مبارک باد دے رہی تھیں ۔
”بے چاری کو اونچے طبقے کے آداب ہی معلوم نہیں ہیں ۔“اسے بیٹھا دیکھ کر فرحانہ پاس کھڑی رخسانہ کو مخاطب ہوئی تھی ۔
رخسانہ نے جواب دیا ۔”یہ تو کبیرصاحب کی غلطی ہے نا ۔“
”خیر غلطی تو نہیں کہہ سکتے ۔“فرحانہ نے قہقہہ لگایا ۔”اس دیہاتن کو اس نے ہمیشہ تو ساتھ نہیں رکھنا نا ۔چند دن مستفید ہو کر دفع دور کر دے گا ۔“
رخسانہ نے معنی خیز لہجے میں پوچھا ۔”ویسے آپ کو وہ اتنی بری کیوں لگتی ہے ۔“
فرحانہ دانت پیستے ہوئے بولی ۔”کیونکہ وہ ہے ہی بری ۔“اور رخسانہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑی ۔
کھانے کے بعد بھی تقریب جاری رہی ۔اخلاق حسین نے ایک مشہور غزل خواں کو بلایا ہوا تھا ۔کھانے کے اختتام پر ملازموںنے برتن سمیٹ کر تمام میزوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر سٹیج بنایا اوراس پر قالین بچھا کر گلوکار کے بیٹھنے کی جگہ بنانے لگے ۔مہمان خوش گپیوں میں مشغول تھے ۔جگہ بنتے ہی مسیقار اپنی آواز کا جادو جگانے لگا ۔تناوش کو وہاں خواہ مخواہ بوریت محسوس ہونے لگی تھی ۔کبیردادا اس سے دور دوستوں کے درمیان میں بیٹھا تھا ۔موسیقی سنتے ہوئے زیادہ تر سامعین الکوحل سے بھی فیضیاب ہو رہے تھے ۔ان میں کبیردادا پیش پیش تھا ۔اس کے ہر نئے گلاس کو تناوش شمار کر رہی تھی ۔
اس سے زیادہ دیر انتظار نہ کیا گیا اور اس نے موبائل فون نکال میسج لکھنا شروع کر دیا۔
”پلیز چلیں نا ،میں سخت بور ہو رہی ہوں ۔“یہ لکھ کر اس نے کبیردادا کے نمبر پر بھیج دیا۔مگر موسیقی کے شور میں شاید اسے میسج ٹون سنائی نہیں دی تھی تبھی تو وہ موبائل فون کی طرف متوجہ نہیں ہوا تھا ۔
لمحہ بھر انتظار کے بعد وہ اسے کال کرنے لگی ۔یقینا اس طرح وہ موبائل فون کی طرف متوجہ ہو کر اس کا میسج پڑھ لیتا ۔
اس کی ترکیب کارگر رہی تھی ۔موبائل فون کی گھنٹی بجتے ہی وہ چونک کر جیب میں ہاتھ ڈالنے لگا ۔موبائل فون اس کے ہاتھ میں آتے ہی تناوش نے کال کاٹ دی ۔سکرین پر نگاہ دوڑاتے ہی اس کی خفگی بھری نگاہیں تناوش کی جانب اٹھیں اور پھر وہ میسج پڑھنے لگا ۔اگلے ہی لمحے تناوش کو اس کی انگلیاں موبائل سکرین پر متحرک نظر آئیں ۔منٹ بھر بعد ہی میسج کا جواب پہنچ چکا تھا۔
”روکا کس نے ہے ،ڈرائیور کو ساتھ لے کر گھر چلی جاﺅ ۔“جواب اس کی توقع کے مطابق تھا ۔مگر وہ باز آنے والی نہیں تھی ۔فوراََ لکھ بھیجا ۔
”گھر میں اکیلی تو یہاں سے بھی زیادہ بور ہو جاﺅں گی ۔“
”تو نہ جاﺅ۔“اس مرتبہ اسے جواب کے حصول کے لیے کال نہیں کرنا پڑی تھی ۔
”پلیز چلو نا ، اس گائیک سے اچھا تو میں خود گا لیتی ہوں ،گھر جا کر جتنی چاہے غزلیں اور گیت سن لینا ۔“اس کے شوخی بھرے میسج نے کبیردادا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی تھی ۔وہ خود موسیقی وغیرہ کا اتنا شوقین نہیں تھا ،لیکن یوں بھری محفل سے اٹھ کر جانا اسے عجیب لگ رہا تھا خاص کر ان دنوں جب پاشا اور اس کے دوسرے احباب بڑی سختی سے اس کے پیچھے پڑے تھے کہ وہ اپنی نئی نویلی دلھن کی وجہ سے باقی ساری دلچسپیوں سے دور ہونے لگا ہے ۔مگر یہ سوچ اسے زیادہ دیر نہیں روک سکی تھی ،اس دوران تناوش کے شوخی شرارت اور منت بھرے میسج اسے مسلسل موصول ہو رہے تھے ۔آخری میسج پڑھتے ہوئے وہ ہ مشکل اپنی ہنسی روک پایا تھا ۔
”یقین مانو مجھے لونگ لائچی والے گانے پر رقص کرنا بھی آتا ہے ۔“
”سخت نیند آرہی ہے یا ر!“دائیں پہلو میں بیٹھے کاشف راجپوت کو مخاطب ہوتے ہوئے اس نے مصنوعی جمائی بھی لی تھی ۔
”صاف کہیں دادا ،کہ آپ جانا چاہتے ہیں ۔“جواب کاشف کے بہ جائے بائیں جانب بیٹھے پاشا نے دیا تھا ۔
”تمھیں کوئی تکلیف ؟“کبیردادا نے اسے جھڑکنے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔
”کیا آپ میری تکلیف دور کر سکتے ہیں ۔“وہ باز آنے والا نہیں تھا ۔
”ہاں ۔“کبیردادا اطمینان سے بولا ۔”مرنے کے بعد انسان ہر قسم کی تکلیف سے آزاد ہو جاتا ہے ۔اور تمھاری گردن دبانااتنا بھی مشکل نہیں ہو گا ۔“
وہ ترکی بہ ترکی بولا ۔”شکریہ ،آپ جا سکتے ہیں ،لیکن یاد رکھیے گا کہ مسیج کے ذریعے منصوبہ بندی کرنے والے آپ پہلے پریمی نہیں ہیں ۔“
”صحیح کہا ،مگر یوں دوران محفل اپنے استاد کے ہاتھوں مرنے والے یقینا تم پہلے فرد ہو گے ۔“
پاشا طنزیہ انداز میں بولا۔”آپ شاید گھر جا رہے تھے ۔بس یہ یادر ہے کہ جاتے وقت میزبان سے اجازت لینا ضروریات کے زمرے میں آتا ہے ۔“
کبیردادا جانتا تھا کہ پاشا کی زبان کو اتنی آسانی سے لگام نہیں دی جا سکتی تھی ۔بھری محفل میں وہ اسے تھپڑ بھی نہیں مارنا چاہتا تھا ،بس دانت پیس کر غصے کا اظہار کرتے ہوئے اٹھ گیا۔اس کی متلاشی نظروں نے اخلاق حسین کو ڈھونڈا جو اس وقت ایس پی ضمیر حسین اورنوشاد آفریدی کے درمیان بیٹھا تھا ۔قریب جا کر اس نے رسمی اجازت لی اور عظیم کو کال کر کے گاڑی لگانے کا کہنے لگا ۔
تناوش بھی اٹھ کر اس کی جانب بڑھ گئی تھی ۔اس بات سے بے نیاز کہ جانے کتنی نگاہیں اسے گھور رہی تھیں ۔کچھ نگاہوں میں تمسخر ،کچھ میں ہوس اور کچھ میں حسد جھلک رہا تھا ۔
وہ لان سے نکل کر سیمنٹ کی پختہ روش آگیا ۔وہ اس کے پہلو میں رکتے ہوئے دل آویز انداز میں مسکرائی ۔”شکریہ ۔“
”کس لیے ۔“اس نے بہ ظاہر انجان بن کر پوچھا ۔
”آپ اچھی طرح جانتے ہیں ۔“مسکراہٹ اس کے لبوں پر گہری ہو گئی تھی ۔
وہ کڑھتے ہوئے بولا ۔”مجھے نیند آرہی تھی اس لیے واپس جا رہا ہوں سمجھیں ۔“ شاید وہ اپنے واپسی کے فیصلے پر پچھتا رہا تھا ۔
”اچھی بات ہے ۔“شرارتی مسکراہٹ اس کے لبوں پر رقصاں رہی ۔”کم از کم میں ان وعدوں کی انجام دہی سے تو نجات پا گئی جو آپ کو گھر واپس جانے کی شرط پر غلطی سے کر بیٹھی تھی ۔“
”کون سے وعدے ۔“کبیردادا جانتے بوجھتے انجان بن گیا تھا ۔
وہ کھل کھلائی ۔”وہی رقص ،گیت اور اس طرح کے کچھ اور جھوٹے وعدے ۔“
کبیردادا نے ہونٹوں پر ابھرتی مسکراہٹ کو زبردستی کی کھانسی میں چھپایا ،اس باتونی لڑکی کوبحث و تکرار سے ہرانا مشکل تھا ۔اسی وقت ڈرائیور نے گاڑی ان کے ساتھ آکر روک دی۔عظٰم نے نیچے اتر کر جلدی سے کبیردادا کے لیے دروازہ کھولا ۔
نہ جانے اس کے دل میں کیا سمائی کہ تناوش کو اندر بیٹھنے کا اشارہ کر کے وہ خود دوسری جانب گھوم گیا ۔
جاری ہے

No comments: