Ads Top

ﻧﺎﻭﻝ سنائپر از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر 10

ﻧﺎﻭﻝ  سنائپر 

 از 

 ریاض_عاقب_کوہلر



سنائپر
قسط نمبر10
ریاض عاقب کوہلر

”اگر کسی کو قتل کرنا ہی مسئلے کا حل ہے ہے تو مجھے بے گناہ ہوتے ہوئے بھی ہر سزا قبول ہے۔“میں نے پر عزم لہجے میں کہا۔
”چاہے کسی مسلم دشمن شخص کو بھی مارنے کا موقع ملے ؟“ 
”کسی مسلم دشمن شخص کو امریکا کیوں قتل کرائے گا ؟“
”یہ ایک الگ بحث ہے ؟....البتہ تم ہر طرح سے اپنا اطمیان کر سکتے ہو ؟“اس نے اپنے سامنے رکھی ایک ضخیم فائل اٹھا کر میری جانب بڑھائی ۔”اس میں مطلوبہ شخص کے بارے مکمل معلومات درج ہیں ۔کچھ اخباری تراشے بھی ہیں ؟....تمھارے پاس دو دن ہیں فائل تفصیل سے پڑھ لو،پرسوں اپنے فیصلے سے آگاہ کرنا ؟“یہ گویا بات ختم ہونے کا اعلان تھا ۔
”ایک چھوٹی سی خلش ہے ؟“
”پوچھو ؟“اس نے استفہامیہ نظروں سے میری جانب دیکھا ۔
”سردار!....پہلے بھی تو اس رائفل سے فائر کر سکتا تھا ؟“
وہ ہنسا ۔”دو تین مرتبہ اس نے کوشش کی تو تھی ؟....پھر کیا کیوں نہیں ؟“
”مطلب ....؟“
”جی بالکل ،تم صحیح سمجھے ؟“اس نے میری بات کاٹی ۔”تمھارا ساتھی جب بھی فائر کرنے کی کوشش کرتا ہم اس کے فائر سے پہلے مطلوبہ سنائپر کو نشانہ بنوا دیتے ۔“
”اور اگر انڈین سنائپرز کو میں نشانہ بناتا پھر ؟“
”بہ ظاہر تو ایسا ممکن نہیں تھا ،کیونکہ تمھارا پٹھان دوست مشق شروع ہونے سے پہلے ان سے جھگڑ چکا تھا ؟بلکہ انھیں دھمکی بھی دے چکا تھا ۔بس ضرورت اس بات کی تھی کہ تم لوگوں تک یہ خبر بروقت پہنچ جائے کہ تمھاری جانب آنے والے انڈین سنائپرز ہیں اور یہ کام کیپٹن جینیفر نے بہ حسن خوبی کر لیا۔اور یہی وجہ تھی کہ تمھارے موبائلز کو ہم نے نظر انداز کیے رکھا ؟“
”اور اب اگر میں اس کام کے لیے راضی ہو جاتا ہوں تو پھر یہ کیس کس طرح حل ہو گا ؟“
”کوئی مسئلہ ہی نہیں ....شری کانت کی جان بچ گئی ہے ؟....گولی چلانے کی ذمہ داری سارجنٹ ریگن واچ قبول کر لے گا ؟“
”اوکے ۔“میں جانے کے ارادے سے کھڑا ہو گیا۔
”غالباََ یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں پڑے گی یہ بات تمھارے تک رہنی چاہیے ؟....زیادہ سے زیادہ تم اپنے ساتھی سردار سے مشورہ کر سکتے ہو ؟“یہ کہہ کراس نے سر کے اشارے سے مجھے جانے کا اشارہ کیا اور میں وہاں سے باہر نکل آیا ۔
٭٭٭
اس کا نام برین ویلز تھا ۔ ایک اعلی عہدے پر فائز ہونے کے علاوہ وہ سول حلقوں میں بھی کافی اثر رسوخ رکھتا تھا ۔اس کی مسلم دشمنی واقعی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی ۔مسلمانوں کے خلاف چلنے والی ہر تحریک میں وہ پیش پیش ہوتا ۔فائل میں لگے اخباری تراشوں میں اس کے بیانات پڑھ کر اس کی مسلم دشمنی مجھ پرروز ِ روشن کی طرح واضح ہو چکی تھی ۔اب امریکن حکومت یا کرنل سکاٹ ڈیوڈ اسے کیوں مروانا چاہتے تھے ؟....یہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا؟کافی غور و فکر کے بعد میں نے سردار کو بھی ساری بات تفصیل سے بتلا دی ۔اس وقت ہم باہر لان میں بیٹھے تھے ۔
”تو کل اس لیے تمھیں بلایا گیا تھا ؟“اس نے پرخیال انداز میں سر ہلایا۔
”بالکل ۔“
”اس میں بھی ا ن کی کوئی چال نہ ہو ؟....آج کل یوں بھی نام نہاد مسلمانوں کو رقم دے کر دہشت گردانہ کارروائیوں ملوث کیا جاتا ہے اور پھر اسی کو آڑ بنا کر اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے ؟“
”اس بارے میں نے کافی سوچا ہے ؟لیکن موجودہ صورت حال میں ہم سے یہ کام لے کر ہمیں پھنسایا نہیں جا سکتا ؟....کیونکہ نہ تو ہمارا امریکہ میں کسی ایسی مسلمان تنظیم سے رابطہ ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ ایک ٹریننگ کرنے والے سپاہی کے پاس ہیوی سنائپر جیسے ہتھیار کی موجودی کا کوئی جواز بنتا ہے؟ ایسا ہونے میں سراسر ان کی اپنی ناا ہلی ثابت ہو گی ؟....اور پھر میں یوں بھی اس کام کے لیے تمھارے علاوہ کسی دوسرے کو مدد گار کے طور پر ساتھ لے جانے کی کوشش کروں گا؟“
”اصل بات یہ ہے کہ وہ خود کیوں نہیں یہ کام کرتے ؟“
”اس بارے کرنل سکاٹ کا کہنا تھا کہ وہ اٹھارہ سو میٹر دور سے ہدف کو نشانہ بنوانا چاہتے ہیں اور میرے علاوہ کوئی بھی اس فاصلے سے فائر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا ؟“(قارئین کی معلومات کے لیے لکھتا چلوں کہ اب Anzio 20mm Gaint Sniper Rifle بھی ایجاد ہو گئی ہے جس کی کارگر رینج 3500میٹر ہے ۔البتہ کچھ ہتھیار شناس اسے صرف اینٹی مٹیریل رائفل کہتے ہیں ) 
”بہ ظاہر تواس کی بات بالکل ٹھیک ہے ؟“سردار نے خیال ظاہر کیا ۔
میں نے پوچھا ۔”تو پھر کیا کروں ؟....آمادگی ظاہر کر دوں ؟“
”اگر لی زونا سے مشورہ کر لیں ؟وہ یوں بھی انٹیلی جنس سے متعلق ہے اس معاملے میں بہتر رائے دے سکے گی ؟“سردار کا مشورہ کافی بہتر تھا ۔
”کیا لی زونا کو رازدار بنانا ٹھیک ہو گا ؟....کہیں وہ راز فاش نہ کر دے ؟“
”جہاں تک میرا اندازہ ہے لی زونا قابل اعتماد لڑکی ہے ؟....وہ یقینا ہمیں دھوکا نہیں دے گی ؟....بلکہ یاد کرو تو تمھیں جینیفر سے محتاط رہنے کا مشورہ اسی نے دیا تھا ؟“
”ٹھیک ہے رات کو ڈنر کے بعد تم اس کے کمرے میں چلے جانا وہاں کافی وغیرہ پی کر تھوڑی دیر گپ شپ کرنا اور پھر ہوا خوری کے بہانے اسے یہاں لے آنا ؟لیکن یاد رہے کسی بھی قسم کے نقصان کے ذمہ دار تم خود ہو گے ؟“
”نقصان ؟“اس کے لہجے میں حیرانی تھی ۔
”ہاں نقصان ؟....کیونکہ یقینا ہمارے کرم فرماو ¿ں کو لی زونا کااس راز سے واقف ہو نا پسند نہیں آئے گا؟“
”رہنے دو پھر ؟“سردار دوٹوک لہجے میں بولا۔
”بڑی فکر ہے خان صاحب !“
”نہیں یار !....کسی بے گناہ کو خواہ مخواہ اپنے مسائل کا شریک بنانا کہاں کی عقل مندی ہے ؟“ اس نے سنجیدہ لہجے میں جواب دیا ۔
”درست کہا ....یوں بھی کرنل سکاٹ نے مجھے کسی بھی آدمی کو یہ بات بتانے سے منع کر دیا تھا۔“ میں فوراََ اس کے ساتھ متفق ہو گیا تھا ۔
٭٭٭
رات کا کھانا کھا کر سردار لی زونا کے ساتھ کافی پینے چلا گیا تھا ۔انھوں نے مجھے بھی دعوت دی مگر میں نے لی زونا کے ساتھ جانا مناسب نہ سمجھا ۔میری وجہ سے لی زونا پر شک کیا جا سکتا تھا ۔میں اپنے کمرے میں آ کر برین ویلز کی فائل کا مطالعہ کرنے لگا ۔مجھے پڑھتے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دروازہ کھٹکھٹا کر جینیفر اندر داخل ہوئی ۔مشق سے واپسی کے بعد وہ پہلی بار میرے پاس آئی تھی ۔
”کیا حال ہے ذی !“وہ بے تکلفی سے میرے ساتھ بیٹھ گئی ۔
”بہتر ہے ؟“مختصراََ کہہ کر میں مطالعے کی طرف متوجہ رہا ۔
”کیا پڑھ رہے ہو ؟“میرے موڈ کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس نے میرے ہاتھ سے فائل لینے کی کوشش کی ۔
میں فائل بند کرکے تکیے نیچے رکھتا ہوا بولا۔”کسی کے ذاتی کاغذات کو دیکھنے کی کوشش کرنا میرا خیال ہے مثبت فعل نہیں ہے ؟“
”تمھارا موڈ کیوں بگڑاہوا ہے ؟“
”تم نہیں جانتیں ؟“
”نہیں ۔“اس نے نفی میں سرہلایا۔
میں نے تلخی سے کہا ۔”جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ؟“
”ذی !....بہ خدا مجھے علم نہیں ہے تم کیوں خفا ہو؟“
”اچھا ....چلو یہ بتا دو کہ شری کانت کو موبائل فون کس نے لے کر دیا تھا ؟“میں نے ایک اندازے کے تحت پوچھا ۔کیونکہ جس طرح جینیفر کو مجھے انڈین سنائپرز کی آمد سے مطلع کرنے کے لیے کسی رابطے کی ضرورت تھی ،بعینہ اسے شری کانت پارٹی کو میری جگہ کے بارے بتانے کے لیے بھی ان سے رابطے کی ضرورت ہوتی ۔اس کے علاوہ تو کوئی ایسی صورت نہیں تھی جس سے انڈین سنائپرز کو میری جانب بھیجا جاسکتا ۔
”کک....کون سا موبائل ؟“اس کی آواز میں شامل لرزش مجھے یقین دلا نے کے لیے کافی تھی کہ میرا تیر نشانے پر لگا تھا ۔
”اب کہہ دو یہ بھی جھوٹ ہے کہ شری کانت کے حوالے بھی تم نے موبائل کیا تھا ؟“
”ٹھیک ہے ؟....لیکن اسے بھی تو میں نے اسی لیے لے کر دیا تھا تاکہ میں اس کی گولی کا نشانہ بننے سے بچ جاو ¿ں ....اصل میں میں چاہتی تھی کہ تم لوگ آپس میں لڑ تے رہو گے اور میں ....؟“
”بس کرو جینی ؟....“میں نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا۔”جھوٹ بولنے کے لیے لہجے میں اعتماد کا ہونا ضروری ہوتا ہے ؟“
”میں مجبور تھی ؟“
”مجھے بس یہ افسوس ہے کہ تم نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے دوستی اور محبت کو ہتھیار بنایا۔“
”ذی !....میں تم سے سچ مچ محبت ........“
”براہ مہربانی میں مزید کچھ نہیں سننا چاہتا ۔تم تشریف لے جاسکتی ہو ؟“میں نے ایک بار پھر اس کی بات پوری نہیں ہونے دی تھی ۔
”اس میں تمھارا کوئی نقصان نہیں تھا سمجھے تم ؟....“وہ بھی ایک دم غصے میں آ گئی تھی ۔”گولی کا نشانہ انڈین سنائپرز نے بننا تھا تم نے نہیں ؟....اور جس کام کے لیے تمھیں مجبور کیا جا رہا ہے اس میں بھی تمھارا کوئی نقصان نہیں بلکہ ایک طرح سے فائدہ ہے کہ تمھیںایک مسلمان دشمن شخص کو ختم کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔“
”کیا مجھے اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا تھا ؟“
”کوشش تو کی تھی ؟....تم مانے ہی نہیں ؟“
”فارم والے قصے کو چھوڑو ؟....میرا اشارہ مشق والے واقعے کی طرف ہے ؟“
اس نے افسردہ لہجے میں کہا۔”میں نہیں بتا سکتی تھی ؟....اگر بتا دیتی تو میرا بہت زیادہ نقصان ہو جاتا ؟“
”تو پھر محبت کا دعوا کس لیے ؟“
”ٹھیک ہے نہیں کرتی دعوا ....میں تمھاری دشمن ہوں ؟مجھے تم سے] نفرت ہے ؟مجھے تم ایک آنکھ نہیں بھاتے ؟اب خوش ؟“وہ گلوگیر لہجے میں کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی ۔اس کی آنکھوں کے کٹورے پانی سے لبریز ہو گئے تھے ۔مگر اس سے پہلے کہ آنسو باہر آتے وہ رخ موڑ کر چل دی ۔
میں نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔دروازے کے سامنے وہ ایک لمحے کے لیے رکی ، اپنے ہاتھوں کی پشت سے آنکھوں کو ملا اور باہر نکل گئی ۔
میں آنکھیں بند کر کے موجودہ صورت حال پر غور کرنے لگا ۔میں انکار کرنے کی حالت میں نہیں تھا ۔اس سے جہاں ہم دونوں سزا کے حق دار ٹھہرتے وہیں ملک کی بھی بدنامی تھی ۔ہم دونوں بری طرح پھنس گئے تھے ۔کرنل سکاٹ کے لیے شری کانت کوٹھکانے لگانا کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔اور اس کی موت کا الزام لامحالہ ہم دونوں کے سر ہوتا،کہ ہمارے خلاف ناقابل ِ تردید ثبوت موجود تھے ۔برین ویلز کو وہ جس وجہ سے بھی مروا رہے تھے یہ میرا درد سر نہیں تھا ،مگر برین ویلز کی مسلم دشمنی میں شبے کی گنجایش نہیں تھی ،کیونکہ کرنل سکاٹ نے میرے حوالے جو فائل کی تھی اس میں زیادہ تر حوالے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے برین ویلز کے بیانا ت پر مشتمل تھے ۔اور ایک مسلم دشمن یہودی کو اپنی جان بچانے کے لیے کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا ۔
٭٭٭
اگلے دن میں کرنل سکاٹ کے سامنے بیٹھا اسے اپنا فیصلہ سنا رہا تھا ۔
”گڈ!.... مجھے تم سے اسی فیصلے کی توقع تھی ۔“میرا اثبات سنتے ہی کرنل سکاٹ خوش دلی سے مسکرایا۔
”مجبوری ہے ؟“میں پھیکی مسکراہٹ سے بولا۔
”اچھا میں فالتو باتوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اصل مدعا پر آتا ہوں ؟.... تمھارے پاس قریباََایک ہفتے کا وقت ہے اس دوران تم روزانہ فائرنگ رینج پر جا کر مشق کر لیا کرو ۔ اس ضمن میں ایک نئی ہیوی سنائپر تمھارے حوالے کر دی جائے گی ؟“
میں نے کہا ۔”وہ پہلے والی ٹھیک ہے نا ؟“
”نہیں ....ہم وہ استعمال نہیں کر سکتے ۔فائر کے بعد رائفل وہیں پر چھوڑنی پڑے گی اور اس رائفل پر آرمی کا نمبر کھدا ہوا ہے؟....تفتیش کا رخ فوراََ ہماری جانب مڑ جائے گا اور ہمیں جواب دینا مشکل ہو جائے گا ۔اس لیے ہم تمھیں بالکل نئی رائفل دیں گے ۔یقینا ایک ہفتے میں نئی رائفل کواپنے موافق کرنا تمھارے لیے مشکل نہیں ہو گا ؟“
”ویسے میری فائرنگ مشق پر دوسرے ممالک کے سنائپرز کو کوئی حیرانی یا شک وغیرہ نہیں ہو گا؟“
تم یہاں سے جینیفر کے ساتھ سیر سپاٹے کے بہانے نکلو گے ۔کسی کو کیا معلوم کہ تم کہاں جا رہے ہو؟“
”ویسے مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ ایک آدمی کو مروانے کے لیے تم اتنے پاپڑ بیل رہے ہو؟ حالانکہ تم لوگ پورے کے پورے شہر صفحہ ہستی سے مٹا کر بھی انسانیت کے خادم ہی رہتے ہو ؟“
”اورتم لوگ بس کڑھتے رہنا ؟“اس نے قہقہہ لگایا۔”بہ ہر حال تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بیرن ویلز کوئی عام آدمی نہیں، ایک امریکن شہری ہونے کے ساتھ بہت اثر رسوخ اور پہنچ والا شخص ہے ؟وہ جس گاڑی میں سفر کرتا ہے وہ کئی کلو گرام بارود کا دھماکا برداشت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔اس کے گرد ہر وقت درجن بھر اعلا تربیت یافتہ کمانڈوز کا گھیرا ہوتا ہے ۔بلٹ پروف جیکٹ وہ صرف سوتے وقت اتارتا ہے ۔پانی کا ایک گلاس بھی بغیر طبی معائنے کے اسے پیش نہیں ہوتا ۔ایک اسی منزلہ عمارت کی آخری منزل میں اس کی رہایش ہے ۔جس کی ساری کھڑکیوں میں بلٹ پروف شیشے لگے ہوئے ہیں ۔ اس عمارت کی نچلی منازل میں حساس سرکاری دفاتر ہیں اس لیے وہاں کسی غیر متعلقہ شخص کا گزر ممکن ہی نہیں ۔اور بالفرض کوئی اندر گھسنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو برین ویلز کی رہائش گاہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ وہاں صرف اس کے محافظوں ہی کا داخلہ ممکن ہے ۔کوئی اس کے محافظوں کا روپ دھار کے بھی اندر نہیں جاسکتا کہ داخلے کے وقت کمپیوٹر ،انگلیوں کے نشان ،آنکھ کی پتلی کا معائنہ اور آواز کو پہچان کر ہی داخلے کی اجازت دیتا ہے ۔“وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر گویا ہوا ۔”یقینا یہ سرسری معلومات ہی تمھیں یہ بتانے کے لیے کافی ہو گی کہ برین ویلز کو ختم کرنا کتنا مشکل ہے ؟....اور پھر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ختم کرنے کے ساتھ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ کوئی ہم پر شک کر سکے ۔اور یہ تبھی ممکن ے جب تم ہماری مدد کرو گے ؟“
میں نے پوچھا ۔”اور میں اسے کہاں سے نشانہ بناو ¿ں گا ؟“
”وقت آنے پر یہ بھی بتا دوں گا ؟فی الحال تم اپنی مشق پر توجہ دو ؟“
”اس دوران تمام ممالک کے سنائپرز یہیں رہیں گے ؟“
”ہاں ،کیونکہ اکیلے تمھیں روکنے میں انھیں پتا چل جائے گا کہ شر ی کانت کے زخمی ہونے میں تمھارا ہاتھ ہے ؟....جبکہ تحقیقا ت کے بہانے سب کو روکنے پر کسی کو شک نہیں ہو گا ؟“
”آخری بات ،کیا میرے ساتھ جینیفر کا ہونا لازمی ہے ؟“
”ایک تو اسے یہ سب کچھ معلوم ہے ؟....اور ہم نہیں چاہتے کہ زیادہ آدمیوں تک یہ بات پہنچے ۔دوسرا اس کی اپنی یہ خواہش ہے ۔اس کے ساتھ وہ امریکن شہری ہے اور جہاں پرکارروائی ہونی ہے اس علاقے سے اچھی طرح واقف ہے اور سب سے بڑھ کر وہ خود بھی بہت اچھی سنائپر ہے ؟“
”مجھے اجازت دیں ؟“میں کھڑا ہو گیا ۔
”ٹھیک ہے ....لیکن یاد رکھنا اس کام کو ہلکا نہ سمجھنا ؟تمھاری ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ وہ مزید چوکنا ہو جائے گا اور یہ مشکل کام ناممکن میں بدلی ہو جائے گا ۔“
”جب حامی بھر لی ہے تو دھوکا نہیں دوں گا ؟البتہ سو فیصد کامیابی کا دعوا کوئی بھی نہیں کر سکتا ۔“
اس نے متفق ہونے کے انداز میں سرہلایااور میں وہاں سے باہر نکل آیا ۔
میں بہ مشکل اپنے کمرے میں داخل ہو پایا تھا کہ جینیفرآ دھمکی ۔اس کے چہرے پر کل والی گفتگو کے آثار اب تک معدوم نہیں ہوئے تھے ۔
وہ سپاٹ لہجے میں بولی ۔”سرسکاٹ کہہ رہے ہیں، ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے ؟“
”میں تیار ہوں ۔“میرے لہجے میں بھی اجنبیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔
”چلو پھر ۔“اس نے کہا ۔اور ہم کمرے سے باہر نکل آئے ۔سردار غائب تھا ۔اور جہاں تک میرے اندازے کے مطابق اسے لی زونا کے پاس ہونا چاہیے تھا ۔اسے میں نے سختی سے تاکید کر دی تھی کہ وہ لی زونا کو یہ بات بالکل نہ بتائے ۔یوں بھی وہ کوئی چھوٹا بچہ نہیں تھا کہ اپنے فائدے نقصان کی بابت نہ جان سکتا ۔
میں جینیفر کی معیت میں چلتا ہوا اس کی کار تک پہنچا ۔اس کے پاس سرخ رنگ کی خوب صورت بی ایم ڈبلیو تھی ۔فائرنگ رینج تک ہم بغیر کوئی گفتگو کیے پہنچے تھے ۔شناخت کے مراحل سے گزر کر ہم فائرنگ اڈے پر پہنچ گئے ۔مجھے وہیں رکنے کا کہہ کر وہ وہاں پر بنی ایک دو منزلہ عمارت کی طرف بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک وہ ایک نوجوان کے ہمراہ واپس لوٹی جس نے ہیوی سنائپررینج ماسٹر کا بکس اٹھایا ہوا تھا ۔خود جینفر کے پاس ہیوی سنائپر کا چھوٹا ایمونیشن بکس تھا جس میں اس رائفل کی سو گولیاںپیک ہوتی ہیں ۔ بکس میں پیک شدہ رائفل وہیں رکھ کر وہ واپس لوٹ گیا ۔میں نے بکس کھول کر رائفل باہر نکالی ٹیلی سکوپ سائیٹ اس پر فٹ کی ۔اس دوران جینیفر نے ایمونیشن نکال کر میگزین میں بھرنا شروع کر دیا تھا۔تیار ہو کر میں نے ہدف کو دوسو میٹر کے فاصلے پر سیٹ کیا اور وائفل کی زیرونگ دیکھنے لگا ۔پانچ گولیاں فائر کرنے کے بعد میں نے لیوپولڈ ٹیلی سکوپ سائیٹ مناسب تبدیلی کی ۔اور پھر ہدف کو پانسو میٹر دور کرکے فائر کرنے لگا ۔اگلی مرتبہ میں نے ہزار میٹر سے فاصلے سے فائر کیا ۔اور پھر ہزار سے ایک دم میں نے ہدف کو اٹھارہ سو میٹر کے فاصلے پر دھکیل دیا ۔ہوا بالکل موافق تھی ۔جینیفر خاموشی سے خالی میگزینیں بھرتی رہی اور میں میگزینیں ہدف پر خالی کرتا رہا ۔بکس میں موجود تمام گولیاں ختم کرنے کے بعد ہم واپس جانے کے لیے تیار ہو گئے ۔
کار میں بیٹھتے وقت وہ سرسری لہجے میں بولی ۔”تم واقعی بہت اچھے نشانہ باز ہو ۔“
میں نے طنزیہ لہجے میں جواب دیا ۔”ہاں اور یہ صلاحیت مجھے اس مقام پر لے آئی ہے ؟“
میرا جواب ایسا نہیں تھا کہ وہ مزید کچھ بول پاتی ۔
٭٭٭
اگلے پانچ دن میں اور جینیفر مسلسل فائرنگ رینج پر جاتے رہے ۔میں روزانہ پچاس گولیاں اٹھارہ سو اور پچاس گولیاں انیس سو میٹر کے فاصلے سے ہدف پر فائر کرتا ۔اس دوران کبھی تیز ہوا چل رہی ہوتی ،کبھی درمیانی ۔کبھی تیز دھوپ ،کبھی معتدل اور کبھی سہ پہر کے بعد کا وقت ۔ہر قسم کے حالات میں فائر کرنے سے اس فاصلے پر میرا نشانہ مزید پختہ ہو گیا تھا۔اتوار کے دن مجھے ایک مرتبہ پھر کرنل سکاٹ کے سامنے پیش ہونا پڑا۔جینیفر بھی میرے ہمراہ تھی ۔وہ بھی اکیلا نہیں تھا۔فارم ہاو ¿س والی کرنل جولی روز ویلٹ اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی ۔
رسمی کلمات کی ادائی کے بجائے وہ براہ راست مقصد پر آ گیا ۔”آج شام کو تم لوگوں نے نیویارک جانا ہے ۔سنائپر رائفل پہلے ہی سے بھجوا دی گئی ہے ۔وہاں تم لوگوں نے جس جس ہوٹل میں ٹھہرنا ہے اس کے بارے جینیفر کو سب کچھ معلوم ہے ۔وہاںتم لوگوں کے چہرے بدل دیے جائیں گے اور نئی شناخت کے کاغذات تمھیں مل جائیں گے ۔“یہ کہہ کروہ کرنل جولی روز ویلٹ کی طرف متوجہ ہو ا۔خاموش بیٹھی جولی روزویلٹ نے ٹیبل سے ریموٹ کنٹرول اٹھا کر دیوار پر لگی بڑے سائز کی ایل ای ڈی آن کی اور اپنے سامنے موجود لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہو گئی ۔ایل ای ڈی کی سکرین روشن ہوئی اور پس منظر میں ایک خوب صورت عمارت نظر آنے لگی۔جولی کے لب وا ہوئے ۔
”سوموار کودن دس بجے ہدف نے یہاں ایک میٹنگ میں شمولیت کرنی ہے جس کا دورانیہ ایک گھنٹا ہو گا ۔اس کے بعد وہ اسی عمارت کے لان میں ایک پریس کانفرس سے خطاب کرے گا۔اس نے دس منٹ کی مختصر سی تقریر کرنی ہے اور اس کے بعد صحافیوں کی طرف سے سوالات و جوابات کا ایک مختصر سا سلسلہ ہوگا اس کا دورانیہ بھی دس سے پندرہ منٹ پر مشتمل ہو گا ۔صحافیوں سے گفتگو ختم کر کے وہ اس جگہ آئے گا ۔“جولی نے کرسر سے،ترتیب سے لگی کرسیوں کی نشان دہی کی ۔”اس کرسی پر میں نے اس سے تین کاغذ سائن کرانے ہیں ۔اور اس میں بہ مشکل پچاس سیکنڈ سے ایک منٹ تک کا وقت لگے گا ۔اسی دوران اسے نشانہ بنایا جا سکے گا ۔اس کے عمارت کے گرد تیرہ سو سے چودہ سو میٹر کے دائرے میں جتنی بھی بلند عمارتیں ہیں کہ جن کی چھت سے اس جگہ کو دیکھا جا سکے ؟ان پر پولیس ، سی آئی اے اور ایف بی آئی کے اہلکار تعینات ہوں گے ۔البتہ اس سے زیادہ فاصلے والی عمارتوں کو ہم نے جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا ہے ۔اور اس میں ایک اس ہوٹل کی عمارت ہے ۔“جولی نے ایک بلند ہوٹل کی تصویر پر کرسر روکا ۔”یہ فور سیزن ہوٹل ہے اس کی بلندی قریباََ دو سو میٹر ہے ۔اور یہ باون منزلہ عمارت ہے ۔اس کی چھت سے اس کرسی تک کا ہوائی فاصلہ اٹھارہ سو پچاسی میٹر بنتا ہے ۔پچاسویں منزل پر تم دونوں کے لیے کمرہ بک ہو چکا ہے ۔ وہاں سنائپر رائفل بھی پہنچ گئی ہوئی ہے ۔کمرے سے رائفل چھت پر لے جانا اور کامیاب فائر کے بعد خود کو سرکاری اہلکاروںسے محفوظ رکھنا تمھاری اپنی ذمہ داری ہوگی ۔“
میں نے طنزیہ انداز میں پوچھا ۔”مطلب اگر ہم ان کے ہاتھ چڑھ گئے تو تم ہم سے لاتعلقی ظاہر کرو گے ؟“
”نہیں ،میں نے ایک امکانی بات کی ہے ؟....ویسے ایسا موقع نہیں آئے گا ؟اس ہوٹل میں قریباََ پونے چار سو کمرے ہیں اور تمام کمروں کی چھان بین کر کے کسی اہلکار کا تم تک پہنچنا اتنا آسان نہیں ہوگا ،مگر احتیاط تو لازم ہے نا ؟“
”تم جانتی ہو کہ میرے لیے یہ بالکل انجان علاقہ ہے ؟“
اس نے اطمینان سے جواب دیا ۔”کیپٹن کی موجودی میں تمھارا یہ گلہ بے جا ہے ؟“
”کاغذ دستخط کراتے وقت تمھارااس سے فاصلہ کتنا ہوگا؟“
”وہ اس کرسی پر بیٹھا ہو گا اور میں اس کے بائیں طرف والی کرسی پر بیٹھی ہوں گی ؟“اس نے دواکٹھی پڑی کرسیوں کی نشان دہی کی ۔
میں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا۔”مناسب ہو گا کہ تم بیٹھنے کے بجائے کھڑے ہو کر ا س سے دستخط لینا اور بلٹ پروف جیکٹ ضرور پہننا۔“
”کیا مطلب؟“
”مطلب یہ کہ ٹانگ میںلگنے والی گولی سے موت واقع نہیں ہوتی ؟“
”مگرمجھے تو بتایا گیا ہے کہ تم بے مثال نشانہ باز ہو ؟“
”میڈم انیس سو میٹر کے فاصلے سے ایک آدمی کے سر کو نشانہ بنانا ہے اور موسم کا کوئی پتا نہیں کہ کیسا ہو ؟سب سے بڑا خطرہ ہوا کا ہوتا ہے ۔گولی کو آسانی سے دائیں بائیں لے جا سکتی ہے ۔“
”جب وہ روسٹرم سے چل کر اس کرسی تک آئے گا تو کیا اس وقت اسے نشانہ بنانا ممکن نہیں ؟“
”حرکتی ہدف کو اتنے فاصلے سے نشانہ بنانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔“
”ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی کہ کھڑے ہو کر اس سے دستخط لوں ؟....لیکن اگر اس نے مجھے بیٹھنے کا کہا تو یقینا میں انکار نہیں کر سکوں گی ؟“
”یہ کاغذ تمھارے بجائے کوئی اور دستخط کرانے نہیں آ سکتا ؟“
”نہیں ....اور اگر آ سکتا تب بھی میں خود ہی آتی کہ دوسری صورت میں میں شک کی زد میں آ سکتی ہوں ۔“
”تیز ہوا چلنے کی صورت میں کیا میں گولی نہ چلانے کا فیصلہ کر سکتا ہوں ؟“
جولی روزویلٹ نے سوالیہ نظروں سے کرنل سکاٹ کی طرف دیکھا ۔
”نہیں ۔“کرنل سکاٹ نے نفی میں سر ہلایا۔”یہ موقع بہت عرصے بعد ہاتھ آیا ہے ۔اور ہم تم لوگوں کو مزید یہاں روک بھی تو نہیں سکتے نا ؟“
”ٹھیک ہے ،لیکن کوشش کرنا میڈم !....ہوا اگر ہدف سے تمھاری طرف چل رہی ہو تو پھر بیٹھنے کے بجائے کھڑے ہونے کو ترجیح دینا ۔“
”کوئی اور سوال ؟“کرنل جولی روز ویلٹ نے میری بات کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
”شکریہ مادام !“میں نے کہا ،جبکہ جینیفر نے نفی میں سر ہلانے پر اکتفا کیا تھا ۔
”ٹھیک ہے ۔تمھارے پاس ایک گھنٹے کا وقت ہے ۔یہ ساری تفصیلات ایک بار پھر اس پریزنٹیشن میں دیکھ لو ۔اس کے بعد مزید ایک گھنٹے میں تمھیں یہاں سے روانہ ہونا ہوگا؟“یہ کہہ کر کرنل سکاٹ کھڑا ہو گیا ۔کرنل جولی روز ویلٹ نے بھی اس کی تقلید کی تھی ۔ہم دونوں نے بھی اٹھ کر انھیں تعظیم دی۔وہ لیپ ٹاپ کو آن چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ان کے جانے کے بعدجینیفر مجھے اس جگہ اور ارد گرد کی عمارتوں سے واقفیت دلانے لگی ۔اس کی باتیں سن کر مجھے کرنل سکاٹ کی بات بالکل صحیح لگنے لگی تھی کہ اس مشن میں جینیفر سے اچھا ساتھی مجھے نہیں مل سکتا تھا ۔تمام پہلوو ¿ں کا ایک بار پھر جائزہ لینے کے بعد ہم دونوں جانے کے لیے تیار تھے ۔
میں نے کہا ۔”میرا خیال ہے میں ایک بار اپنے ساتھی سے مل لوں ؟“
”ٹھیک ہے ؟....تم ہو آو ¿ ۔“جینیفرنے اثبات میں سر ہلادیا ۔
میں وہاں سے سیدھا اپنے کمرے میں آیا ۔سردار ٹی وی دیکھ رہا تھا ۔مجھے دیکھتے ہی شکوہ کناں ہوا ۔
”آج کل نظر ہی نہیں آتے ذیشان بھائی !“
میں نے ہنستے ہوئے کہا۔”تمھاری نظر لی زونا سے دائیں بائیں ہو تو ہم نظر آئیں نا ؟خان صاحب!“
”کہہ سکتے ہو بھائی !“اس نے منہ بنا کر کہا ۔
”اچھا میں تمھیں الوداع کہنے آیا ہوں ۔“
”کیا مطلب ؟“اس نے حیرانی سے پوچھا ۔
”میں اور جینیفر بس کچھ دیر میں نیویارک روانہ ہو جائیں گے ۔“
”مجھے بھی ساتھ لے چلتے ؟“
”ہم کوئی سیر سپاٹے کے لیے نہیں جا رہے ؟“
”اسی لیے تو کہہ رہاہوں ۔“وہ پر خلوص لہجے میں بولا۔
”بس یار !....دعا کرنا ۔“میں نے اس سے الوداعی معانقہ کیا اور واپس مڑ گیا ۔
٭٭٭
جینیفر کی خوبصورت بی ایم ڈبلیو کار میں بیٹھ کر ہم نیو جرسی سے نیویارک روانہ ہو گئے ۔پونے دو گھنٹوں میں ہم نیویارک پہنچ گئے تھے ۔نومیڈ ہوٹل میں ہمارے لیے ایک کمرہ اصل ناموں سے بک تھا ۔ وہاں ہمارا حلیہ بدلنے کے لیے میک اپ کا ایک ماہر موجود تھا ۔ ہم نے اپنا حلیہ بدلی کیا اور وہاں سے باہر آ گئے ۔
جینیفر ایک نیگرو لڑکی کے روپ میں تھی ۔اس کے چہرے ، گردن اور ہاتھوں پر مخصوص کالے رنگ کی باریک جھلی ایسے چپکا دی گئی تھی کہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ وہی سرخ و سفید جینیفر ہے ۔اس نے جینز کے ساتھ مکمل بازوو ¿ں والی قمیص پہنی تھی یوں باقی جسم لباس میں چھپ گیا تھا ۔اس نے سر پر گھنگریالے بالوں والی وگ پہن لی تھی ۔میں خود اس وقت ایک گورے کے بہروپ میںمستور تھا ۔چونکہ انگلش پر دسترس رکھنے کے باوجود میرا لہجہ امریکنوں سے یکسر مختلف تھا اس لیے جینفر نے مجھے زیادہ بات چیت سے منع کردیا تھا ۔البتہ روزمرہ کے چند فقرے میں نے امریکنوں کے انداز میں کہنا رٹ لیے تھے۔
نومڈ ہوٹل سے فور سیزن ہوٹل تک اتنا زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ ہم ٹیکسی میں بیٹھ کرفورسیزن ہوٹل کی جانب روانہ ہو گئے ۔سہ پہر کا وقت تھا ۔رش کافی زیادہ تھا ۔یوں بھی نیویارک دنیا کے چند بڑے شہروں میں سے ایک ہے ۔پندرہ بیس منٹ میں ہم فور سیزن ہوٹل کی بلند و بالا عمارت کے سامنے تھے نیچے اتر کر جینیفرنے کرایہ ادا کیا اور ہم اندر کی طرف بڑھ گئے ۔استقبالیہ پر بیٹھی لڑکی کو جینیفر خود مخاطب ہوئی تھی ۔تھوڑی دیر بعد ہم لفٹ کے ذریعے بلند ہو رہے تھے ۔
کمرہ نہایت شاندار ، صاف ستھرااور ہوادار تھا ۔دروازہ اندر سے لاک کر کے ہم نے بیڈ کے نیچے سے پیک شدہ ہیوی سنائپر نکالی ۔اس کے ساتھ ایک بیگ میں سنائپنگ سے متعلقہ سامان یعنی دوربین ،لیزر رینج فائنڈر،ونڈ میٹر وغیرہ بھی موجود تھا ۔
سامان واپس رکھ کر ہم سیڑھیوں کے ذریعے چھت پر پہنچے اندھیرا گہرا ہو گیا تھا ۔نیچے جھانکنے پر روشنیوں کا سیلاب نظر آ رہا تھا ۔لیکن کتنی زیادہ بھی روشنی کیوں نہ ہوتی؟ ہدف کاتفصیلی جائزہ لینا ممکن نہیں تھا ۔البتہ اگلے دن کے لیے ہم نے اپنے بیٹھنے کی جگہ کا چناو ¿ کر لیا تھا ۔تھوڑی دیر چھت پر گزار کر ہم نیچے اتر آئے ۔
کھانا ہم نے روم سروس کے ذریعے کمرے ہی میں منگوا لیا تھا ۔چونکہ ہوٹل میں مسلمانوں کے لیے حلال کھانا دستیاب تھا اس لیے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی ۔کھانا کھا کر ہم نے تھوڑی دیر کل کی کارروائی پر بات چیت کی اور پھر سونے کے لیے لیٹ گئے ۔مجھے اس کی عادت کا پتا تھا اس لیے میں نے اس کے ساتھ بستر پر لیٹنے سے گریز کیا تھا ۔مجھے صوفے پر لیٹتا دیکھ کر وہ بس مجھے گھور کر رہ گئی تھی ۔صبح سویرے اٹھ کر ہم سیڑھیوں کے ذریعے چھت پر پہنچے اور وہاں ہیوی سنائپر اور دوسرا سامان چھپا کر رکھ دیا ۔ پھر نیچے آ کر ناشتا کرنے لگے ۔
کافی کا سپ لیتے ہوئے وہ سرسری لہجے میں بولی ۔”مشن کی تکمیل کے بعد ہم نے فوراََ یہ ہوٹل چھوڑنا ہے نا؟“
”جی !....طے تو یہی ہوا تھا؟“
”اگر اس وقت میں حکمت عملی میں کوئی تبدیلی کر دیتی ہوں تو تم بحث میں نہ الجھنا ،بس میں جو کہوں خاموشی سے اس پر عمل کرنا ۔“
”کیا مطلب ؟“
”مطلب کو چھوڑو....تمھیں یہاں سے بہ خیریت واپس لے جانا میری ذمہ داری ہے اور براہ مہربانی چوں چراں کیے بغیر میری ہدایات پر عمل کرتے رہنا ۔“
”جو کچھ کرنا ہے ،ہم اس پر کافی تفصیل سے بحث کر چکے ہیں ؟پھر تمھاری اس بات سے میں کیا نتیجہ اخذ کروں ؟“میں نے جھلا کر کہا ۔
”یہی کہ میں تم پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گی ۔“میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ ایک عزم سے بولی ۔
اس وقت مجھے اس کی آنکھوں میں سوائے سچائی کے اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا یا شاید وہ اتنی اچھی اداکاری کر رہی تھی کہ مجھے اس کا اصل چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔میں نے خاموشی سے سر جھکا لیا ۔
نو بجے کے قریب ہم اوپر پہنچے ،ہوٹل سیکورٹی کی وردی میں ایک آدمی جینیفر نے چھت کے دروازے پر متعین کر دیا تھا تاکہ ہمیں کوئی ڈسٹرب نہ کرسکے ۔ہمارا کام پورا ہوتے ہی اس نے وہاں سے رفو چکرہو جانا تھا ۔اس کی موجودی میں ہم دونوں بے فکر ہو کر اپنا کام کرسکتے تھے ۔دن کی روشنی ہمیں مطلوبہ عمارت آسانی سے نظر آ رہی تھی ۔دوربین کی مدد سے میں نے اس عمارت کا اچھی طرح جائزہ لیا ۔ تقریب کے لیے وہاں کرسیاں اور روسٹرم وغیرہ رکھ دیا گیا تھا ۔چھاتی تک تو ہدف نے روسٹرم کے پیچھے چھپ جانا تھا اس سے اوپر بلٹ پروف شیشہ لگا تھا ۔
جینیفرکو موبائل فون پرکارروائی میں ایک چھوٹی سی تبدیلی کاپیغام موصول ہوا کہ برین ویلز نے اپنی تقریر کے بعد کاغذ دستخط کرنے تھے اور اس کے بعد صحافیوں کے سوالات کا جواب دینا تھا ۔میںنے اس عمارت کے گرد موجود اونچی عمارتوں پرسرکاری اہلکار گھومتے دیکھے ۔عمارت کو بھی پولیس کی تیز رفتار کاروں نے گھیرا ہوا تھا ۔جولی روزویلٹ نےجتنی کرسیاں پریزنٹیشن میں دکھائی تھیں اتنی ہی کرسیاں وہاں رکھی ہوئی تھیں ۔
جینیفررائفل کو بکس سے نکال کر سیٹ کرنے لگی ۔میں بھی نیچے بیٹھ کر اس کا ہاتھ بٹانے لگا ۔ رائفل کو جوڑ کر میں نے مطلوبہ کرسی پر فکس کردیا ۔جینیفرنے لیزر رینج فائینڈر سے کرسی کا فاصلہ ناپا۔اٹھارہ سو نوے میٹر فاصلہ بنا تھا ۔ایلیویشن ناپ پر مطلوبہ رینج لگا کر میں رائفل کے پیچھے لیٹ گیا ۔
جینیفرنے ونڈ میٹر،بلاسٹک کیلکولیٹر اور فائرنگ ٹیبل بیگ سے باہر نکال لیے تھے ۔یہ فائرنگ ٹیبل ہم نے مشق کے ذریعے ترتیب دیا تھا ۔ویسے تو فائرنگ ٹیبل ہر رائفل کے ساتھ بھی دستیاب ہوتا ہے مگر مختلف کمپنیوں کے بنائے ہوئے ایمونشن میں فرق ہوتا ہے۔درجہ حرارت اور ہوا میں موجود نمی وغیرہ بھی ہر علاقے میں یکساں نہیں ہوتی ۔جبکہ ان چیزوں کا فائر پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے ۔اگر بہ نظرِ انصاف دیکھا جائے تو سنائپر رائفل سے نشانہ بازی کسی سائنس سے کم نہیں ہوتی۔البتہ عام نشانے بازی میں ان سب باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
میں نے پوچھا ۔”میگزین میں گولیاں بھردی ہیں ؟“ 
”بھر دیتی ہوں ۔“اس نے میگزین اتار کر بیگ سے دوگولیاں نکالیں اور میگزین میں ڈال کر میگزین دوبارہ رائفل سے جوڑ دی ۔دونوں گولیوں پر کسی بھی قسم کی لکھائی اور نشان وغیرہ لگا ہوا نہیں تھا ۔
”دو ہی گولیاں ملی ہیں ۔“کہہ کر وہ ونڈ میٹر سے ہوا کی رفتار ماپنے لگی ۔رفتار ماپ کر اس نے فائرنگ ٹیبل کی مدد سے مطلوبہ ڈیفلیکشن مجھے بتا دی ۔
ابھی تک ٹھہرو،ہوا کا کوئی اعتبار نہیں ہے کہ رک جائے یا تیز ہو جائے ۔جس وقت ہدف روسٹرم چھوڑ کر کرسی کی جانب حرکت کرے گا اس وقت تم نے ہوا کی رفتار معلوم کر کے مطلوبہ ڈیفلیکشن بتانا ہوگی۔“
”ٹھیک ہے ۔“کہہ کر اس نے دوربین اٹھائی اور میرے ساتھ ہی الٹی لیٹ کر دائیں بائیں کا جائزہ لینے لگی ۔میں یہ کام ٹیلی سکوپ سائیٹ کی مدد سے کر رہا تھا ۔
”ویسے ایمونیشن معیاری تو ہے نا ؟“ایک اندیشہ میرے ذہن میںکلبلایا اور میں نے جینیفر کے گوش گزار کر دیا ۔
”یہ بالکل وہی ایمونیشن ہے جس سے کہ تم مشق کرتے رہے ہو ؟....بس کیس اور بلٹ پر کوئی نشان وغیرہ نہیں ہے ۔“اس کے جواب پر میں نے اطمینان سے سر ہلادیا تھا ۔قارئین کی معلومات کے لیے لکھتا چلوں کہ ہر سنائپر رائفل کا ایمونیشن مختلف کمپنیاں بناتی ہیں اور ہر کمپنی ایک مخصوص گرین بارود کیس میں بھرتی ہے ۔(گرین ،گولی میں بارود کی مقدار ناپنے کا پیمانہ ہے )
انتظار کے لمحات طویل ہونے کے باوجود بیت جایا کرتے ہیں ۔آخر وہ وقت آہی گیا ۔ برین ویلز اندرونی عمارت سے محافظوں کے نرغے میں برآمد ہوا ۔اور سیدھا روسٹرم کے پیچھے آ کر رک گیا ۔دو محافظ اس کے دائیں بائیں اور تین پیچھے کھڑے ہو گئے تھے ۔جینیفرمسلسل رنگ بدلتی ہوا کو ونڈ میٹر سے ماپ رہی تھی ۔اور پھر جونھی برین ویلز روسٹرم کو چھوڑ کر کرسی پر بیٹھی کرنل جولی روز ویلٹ کی جانب بڑھی ،جینیفرنے فوراََ مطلوبہ ڈیفلیکشن معلوم کر کے سائیٹ پر لگانے لگی ۔میں نے اعصاب کو پرسکون کر کے کرسی کا نشانہ سادھ لیا تھا ۔برین ویلز جونھی قریب پہنچا کرنل جولی روز ویلٹ کھڑی ہو گئی ۔اور پھر شاید اس نے اسے بیٹھنے کو کہا تھا کہ وہ اس کے سامنے فائل دھرتی ہوئی بیٹھ گئی تھی ۔ہوا نارمل ہی تھی لیکن پھر بھی کونل جولی روزویلٹ کے دل میں خوف کی موجودی یقینی تھی ۔اسے معلوم تھا کہ جو شخص اس کے اتنے قریب بیٹھا ہے اس نے گولی کا نشانہ بننا ہے اور نشانہ باز کی ہلکی سے غلطی سے وہ گولی برین ویلز کے بجائے اس کے سر میں پیوست ہو سکتی تھی ۔
گہرا سانس لے کر میں نے نشانہ سادھ لیا ۔جینیفرنے بھی آنکھوں سے دوربین لگاتے ہوئے مجھے دھیمے لفظوں میں تسلی دینا شروع کر دی تھی ۔
”ذی !....تم یہ کر سکتے ہو ؟تمھارے لیے یہ بالکل مشکل نہیں ہے ؟اطمینان سے ٹریگر دبانا کہ ہمارے پاس بس ایک ہی گولی فائر کرنے کا موقع ہے ۔ہلکی ہوا دائیں سے بائیں چل رہی تھی ۔جینیفر کے ڈیفلیکشن لگانے کے بعد ہوا کی رفتار میں تھوڑا اضافہ ہوا تھا لیکن اب حساب کتاب کا وقت گزر چکا تھا۔ کرنل جولی روز ویلٹ بھی برین ویلز کے دائیں جانب بیٹھی ہوئی تھی ۔ہوا کی رفتار میں اضافہ جینیفر نے بھی محسوس کر لیا تھا ۔اور یہ بات مجھے بتانے میں اس نے دیر نہیں لگائی تھی ۔
”ذی !.... ہوا میں تھوڑی تیز آ گئی ہے ؟“
مگر میں نے اس کی بات کا جوا ب دئیے بغیر اپنی شست تھوڑی سی دائیں طرف کر دی ۔یہ اندازہ ہر سنائپر کے ذاتی تجربے کی مرہون منت ہوتا ۔اس بارے نہ تو کوئی استاد سکھا سکتا ہے اور نہ کسی کتاب میں یہ اندازہ درج ہوتا ہے ۔اور یہی انداز ایک عام نشانے باز اور اچھے نشانے باز میں تمیز کی وجہ بنتا ہے ۔
ہدف کے سر جھکا کر دستخط کرنے تک میں منتظر رہا ۔جونھی اس نے فائل بند کر کے کرنل جولی روز ویلٹ کی سمت بڑھائی ۔اس وقت سیکنڈ بھر کے لیے ساکت ہو گیا تھا ۔ میں نے سانس روکتے ہوئے ایک دم ٹریگر کھینچ لیا ۔
جاری ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.