ﻧﺎﻭﻝ رکھیل از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر 10
رات کو جلدی سونے کی وجہ سے صبح اس کی آنکھ جلدی کھل گی تھی ۔وہ صوفے پر بیٹھی پڑھائی میں مصروف تھی ۔گاہے گاہے اس کی نظریں کبیردادا کی طرف بھی اٹھ جاتیں ۔اسے کسمسا کر اٹھتے دیکھ کر وہ تیرکی طرح اس کی طرف بڑھی ۔لیموں نچوڑے پانی کا گلاس اس نے میز پر تیار رکھا ہوا تھا ۔
”یہ لیں ۔“ گلاس پکڑاتے ہوئے وہ اس کے قریب ہی بیٹھ گئی ۔
کبیردادا نے خاموشی سے گلاس کو منھ لگا لیا ۔
”ناشتا لے آﺅں یا اپنے وقت پر ناشتا کریں گے ۔“
خالی گلاس اس کی جانب بڑھاتے ہوئے وہ مستفسر ہوا ۔”جاگ تو گیا ہوں ،کیا کروں گا ۔“
وہ معصومیت سے بولی ۔”مجھ سے باتیں ۔“
”اتنا فالتو دماغ میرے پاس ہے نہیں جو تمھاری بے مزہ اور بے مطلب باتیں سنتا رہوں ۔“کبیردادا نے منھ بنایا۔
”اچھا میں نہیں کرتی باتیں ،آپ کی سنوں گی ۔“یہ کہتے ہوئے وہ اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی ۔
”یہ کیا بے ہودگی ہے ۔“یہ کہتے ہوئے کبیردادا نے اسے کندھوں سے پکڑ کر بیڈ پر پھینک دیا ۔تناوش نے اس کی کمر کے گرد بازو لپیٹنے کی کوشش کی مگر کبیردادا نے اس کی کوشش ناکام بنا دی تھی ۔
”اچھا دور دور بیٹھ کر باتیں کرلیں گے ۔“وہ برا منائے بغیر اس نے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے کبیردادا کا بازو پکڑ لیا ۔
”بتایا تھا نا مجھے ایسی باتوں سے چڑ ہے ،کوفت ہوتی ہے تمھاری حرکتیں دیکھ کر ۔“اس کی گرفت سے بازو چھڑا کر وہ غسل خانے کی طرف بڑھ گیا ۔اور تناوش ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی ۔اس کے پہننے کے کپڑے وہ پہلے سے الماری سے باہر لٹکا چکی تھی ۔
اس کے ناشتا تیار کرنے تک وہ سوٹ پہن کر نکل آیا تھا ۔ٹائی حسب عادت اس نے مفلر کی طرح گلے میں ڈالی ہوئی تھی ۔ناشتا کرنے کے بعد ہی وہ ٹائی باندھا کرتا تھا ۔آج سویرے تیار ہونے کی وجہ سے اس نے بیٹھنے سے پہلے موبائل فون پر عظیم کو کال کر کے آدھے گھنٹے تک اپنی آمد کا بتا دیا تھا ۔
بیٹھتے ساتھ اس نے میز پر سجے ناشتے کو دیکھ کر حیرانی بھرے لہجے میں پوچھا ۔”یہ پراٹھا اور انڈہ فرائی کس لیے ؟“
”یہ میرا ناشتا ہے ۔“اسے مطلع کرتے ہوئے وہ انڈہ چھیلنے لگی ۔
”صبح سویرے اٹھ جاتی ہو تو اسی وقت کر لیا کرو ۔“
”امی جان کہتی ہیں ،بیویوں کو شوہر سے پہلے ناشتاوغیرہ نہیں کرنا چاہیے ۔ ان کے ساتھ یا بعد میں کرنا چاہیے ۔“
وہ طنزیہ لہجے میں بولا ۔”ہنسی آتی ہے یہ فرسودہ باتیں سن کر ۔“
”تو ہنس لیں ۔“صاف انڈہ پلیٹ میں رکھ کر اس نے دوسرا انڈہ اٹھا لیا ۔
”امی جان نے یہ کبھی نہیں بتایا کہ شوہروں کو روکنا ٹوکنا نہیں چاہیے ۔“
تناوش کے ہونٹوں پر شرارتی ہنسی نمودار ہوئی ۔”بتایا تو ہے ،مگر ہر بات پر عمل تو نہیں کیا جاسکتا نا ۔“
”جس دن تمھیں ایک تھپڑ بھی لگ گیا یہ شوخی شرارت بھول جائے گی ۔“
”خیال رکھنا ،نازک سی ہوں کہیں آپ کے تھپڑسے جان ہی نہ نکل جائے ۔“ جوس کا گلاس بھرتے ہوئے وہ شوخی سے بولی ۔
”اچھا ہے جلدی جان چھوٹے گی ۔“
”کتنا شوق ہے جان چھڑانے کا ۔“وہ اس کے بازو سے لگ گئی ۔
”ناشتا کر لو ٹھنڈا ہو جائے گا ۔“اس کے چاہت جتانے پر کبیردادا نے حسب عادت ناک بھوں چڑھائی ۔
وہ اٹھلاتے ہوئے بولی ۔”اگر پہلا نوالہ آپ کھلائیں تو کر لیتی ہوں ،ورنہ ناشتا نہیں کروں گی ۔“
”بھاڑ میں جاﺅ ۔“
”جب آپ غصہ کرتے ہیں تو جی کرتا ہے ........“وہ فقرہ پورا کیے بغیر ہنس پڑی ۔
”کیا ؟“کبیردادا نے اس کی طرف غصیلی نظروں سے گھورا۔
”چھوڑیں اگر بتا دیا تو آپ کچھ اور پیارے لگنے لگیں گے۔“شرارتی لہجے میں کہتے ہوئے اس نے وضاحت کی ۔”میرا مطلب ہے مزید غصہ کر کے ۔“
کبیردادا نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا ۔”جانتی ہو تم میری ضد اور انا کی وجہ سے یہاں نظر آرہی ہو ،کچھ لوگوں کا اصرارتھا کہ ایک چھوکری کو میں اتنی اہمیت نہ دوں اور میں اپنی بات پر اڑ گیا ۔اصرار کرنے والے کافی بڑے لوگ ہیں ۔ان میں سے ایک کل تمھیں تحفہ دے کر بھی گیا ہے ۔اگر وہ تمام لوگ مجھے مجبور کرنے کی کوشش نہ کرتے تو یقین مانو تم کل کی گھر جا چکی ہوتیں ۔“
”اچھا ،میں یونھی انھیں اپنا دشمن سمجھے بیٹھی ہوں ۔“تناوش نے پر خیال انداز میں سر ہلایا۔”جن کی وجہ سے میں یہاں ہوں وہ دشمن تو نہ ہوئے نا ۔“
”تمھاری تو کوئی کل ہی سیدھی نہیں ہے ۔“ٹشو سے ہاتھ صاف کر کے وہ ٹائی باندھنے لگا ۔
وہ سرعت سے بولی ۔”ایک منٹ ،ٹائی میں خود باندھوں گی ۔“
”کل تو کہہ رہی تھیں تمھیں ٹائی باندھنے کا طریقہ نہیں آتا ۔“
”گزشتا رات آپ کے آنے سے پہلے یہی سیکھتی رہی ۔اب آگیا ہے ۔“اعتماد سے کہہ کر وہ اس کے ٹائی اندھنے لگی ۔پہلی مرتبہ اس نے الٹی گرہ لگا دی ۔دوبارہ کھول کر اس نے سیدھا کرنے کی کوشش کی مگر پھر الٹا کر دیا ۔
اس نے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔”گھنٹا ایک لگ جائے گا ۔“
”صبر کریں نا ۔“اس نے روہانسے لہجے میں اسے ڈانٹا۔
”یہ ایسے باندھتے ہیں ۔“وہ تنگ آکر اسے سمجھانے لگا ۔
”اب نہیں بھولے گا ۔“کبیردادا کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اس نے گرہ لگاکر بچوں کے سے انداز میں خوشی کا اظہار کیا تھا ۔
”اب ناشتا کر لو ۔“وہ جانے کے ارادے سے کھڑا ہو گیا ۔
وہ مسکرائی ۔”بتا دیا نا ایسے نہیں کروں گی ۔“اس کے ساتھ کھڑے ہو کر وہ منھ ہی منھ میں کچھ بڑبڑانے لگی ۔کبیردادا اس کی عادت سے واقف تھا خاموش سے کھڑا اسے گھورتا رہا ۔اس کے چہرے اور چھاتی پر پھونک مارتے ہوئے وہ بولی ۔”جلدی آنے کی کوشش کرنا ۔“
افسوس بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے کبیردادا چل پڑا ۔اس کے بار بار ڈانٹنے اور شرمندہ کرنے کا تناوش پر کوئی اثر ہی نہیں ہورہا تھا ۔
وہ حسب عادت اس کے پیچھے ہی بڑھ گئی تھی ۔
گاڑیاں تیار کھڑی تھیں ۔عظیم نے اس کے لیے دروازہ کھولا ۔وہ اس کے قریب رکتے ہوئے بولا ۔”تم آج یہیں رہ جاﺅ ، اس کے داخلے کا کوئی مسئلہ تھا ۔ کالج کے پرنسپل سے جا کر مل لینا ۔“
”کس کے داخلے کا مسئلہ ہے دادا۔“عظیم کی سمجھ میں نہیں آیا تھا ۔
کبیردادا نے گہراسانس لے کے پھر پیچھے مڑ کر دیکھا ،تناوش دروازے پر کھڑی اسی کی جانب متوجہ تھی ۔”وہ مصیبت جو دروازے پر کھڑی ہے ۔“ کبیردادا کے لہجے سے شوہرانہ بے بسی کا اظہار ہو رہا تھا ۔
عظیم کے ہونٹوں پر تبسم ظاہر ہوا مگر پھر وہ ہونٹ بھینچ کر خود کو سنجیدہ ظاہر کرنے لگا ۔ ”ٹھیک ہے دادا ،یہ ہو جائے گا ۔البتہ ایک اور مسئلہ ہے ۔“
”وہ کیا ۔“گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ شیشہ کھول کر عظیم کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا ۔
”تنویر پلازہ اور عباسیہ مارکیٹ کے دکانداروں کو مقامی تھانیدار تنگ کر رہا ہے ۔“
”نیا تھانیدار ہے ؟۔“
”وہی پرانے والا ہے راﺅاجمل رحیم، اس کا حصہ بھی باقاعدگی سے دیا جا رہا ہے ۔“
کبیردادا نے پوچھا ۔”ذرا اس کا بائیو ڈیٹا دہراﺅ۔“اور عظیم اس کے بارے تفصیل بتانے لگا ۔
”ہونہہ!“عظیم کی بات ختم ہوتے ہی اس نے اثبات میں سرہلایا۔”ٹھیک ہے میں اسے دیکھ لیتا ہوں ۔“یہ کہتے ہی اس کی نظریں تناوش کی جانب اٹھ گئیں ۔وہ دروازے سے ٹیک لگا ئے کسی تصویر کی طرح کھڑی تھی ۔اس کا معصومیت بھرا انداز دیکھ کر ایک لمحے کے لیے کبیرداداکا جی چاہا کہ جا کر اسے اپنے ہاتھ سے ناشتا کرادے ۔نہ جانے اسے کیوں یقین تھا کہ وہ ناشتا نہیں کرے گی ،مگر پھر وہ سر جھٹک کر رہ گیا ۔
اسے خاموش پا کر ڈرائیور نے پوچھا ۔”چلیں دادا !“
”آں ،ہاں ....چلو ۔“چونکتے ہوئے اس نے تناوش سے نظر ہٹائی ۔گاڑی کے آگے بڑھتے ہی وہ ایک مرتبہ پھر مڑ کے دیکھنے لگا ۔گیٹ سے نکلتے ہی اس سے رہا نہیں گیا تھا موبائل فون نکال کر وہ اس کا نمبر ملانے لگا ۔تیسری چوتھی گھنٹی پر اس نے کال وصول کی یقینا موبائل کمرے میں تھا وہ باہر سے بھاگ کر گئی تھی ۔
”جی ۔“اس کی خوشی سے بھرپور آواز نے کبیردادا کے کانوں میں رس گھولا ۔
اس نے بہانہ گھڑا ۔”کل جو سوٹ پہنا تھا اس کی جیب میں ایک وزٹنگ کارڈ پڑا تھا۔“
”اس میں تو صرف پرس پڑا تھا جو میں نے اِن کپڑوں میں منتقل کر دیا تھا ۔“
”تم ان کپڑوں میں دوبارہ بھی دیکھ لو۔“
”ٹھیک ہے ۔“اس کی آواز میں شامل مایوسی ظاہر کر رہی تھی کہ وہ کال اس کی توقع کے بر عکس نکلی تھی ۔
”اور ہاں ....ناشتا کرلینا ۔“کبیردادا نے یوں ظاہر کیا جیسے رابطہ منقطع کرتے ہوئے اس کے ذہن میں کوئی بات آ گئی ہو ۔
وہ خوشی سے چہکی ۔”اس شرط پر کہ کل آپ پہلا نوالہ اپنے ہاتھوں سے کھلائیں گے ۔“
”ہٹ دھرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔“اس نے مصنوعی غصہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ۔ ”کبھی تو سنجیدہ ہو جایا کرو۔“
”ہاں یا ناں میں جواب دیں ۔“اس کا خوشی سے بھرپور لہجہ ظاہر کر رہا تھا کہ وہ کال کی نوعیت کو جان چکی تھی ۔
”ٹھیک ہے مس مصیبت کھالینا ۔“اس نے گویا بادل نخواستہ حامی بھری ۔
اس کا”اب کر لیتی ہوں ۔“سن کر کبیردادا نے رابطہ منقطع کر دیا ۔
٭٭٭
گاڑیوں کے گیٹ سے نکلتے ہی اس نے عظیم کو اپنی طرف آتے دیکھا ۔اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ اسے کوئی بات کرنا چاہتا ہے ۔کمرے کی طرف جانے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے وہ اس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگی ۔
”بیگم صاحبہ........“اس نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ اس کے کانوں میں گھنٹی کی آواز گونجی ۔نہ جانے کیوں اسے لگا کہ کبیردادا کی کال ہے ۔
”ایک منٹ بھائی ۔“قطع کلامی کرتے ہوئے وہ کمرے کی طرف بھاگی ۔اس کے اندازے کے مطابق کبیردادا ہی تھا ۔بات کے اختتام پر وہ خوشی سے جھوم اٹھی تھی ۔بغیر کسی شک و شبہ کے اسے معلوم ہو گیا تھا کہ کبیردادا کی کال کا مقصد کیا تھا ۔
رابطہ منقطع ہوتے ہی وہ ڈرائینگ روم کی طرف بڑھ گئی ۔عظیم کا بیگم صاحبہ کہنا اسے بہت اچھا لگا تھا ۔
”جی بھائی آپ کچھ کہہ رہے تھے ۔“ عظیم ڈرائینگ روم میں اس کا منتظر تھا ۔
”جی بیگم صاحبہ ،کبیردادا آ پ داخلے کے بارے کچھ بتا رہے تھے ۔“
”بیٹھو ۔“نشست سنبھالتے ہوئے اس نے عظیم کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
”شکریہ ۔“اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے عظیم نے نوٹ بک نکال لی ۔
وہ اسے اپنا رول نمبر ، کلاس ،کالج کا پتا وغیرہ بتا کراپنا مطمح نظر بتانے لگی ۔
”ٹھیک ہے بیگم صاحبہ !....آپ اپنا موبائل فون نمبر بھی نوٹ کرا دیں اگر کوئی معلومات لینا ہوئی تو میں کال کر کے پوچھ لوں گا ۔“
اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس نے اپنا موبائل فون نمبر نوٹ کرایا اور خواب گاہ کی طرف بڑھ گئی ۔کبیردادا کے کہنے کے جانے کیوں اسے بھوک محسوس ہونے لگی تھی ۔ورنہ تو اس نے ناشتا نہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا ۔
٭٭٭
تھانے کے سامنے گاڑیاں رکتے ہی کبیردادا اندر کی جانب بڑھ گیا ۔محافظوں کو اس نے وہیں ٹھہرنے کا اشارہ کر دیا تھا ۔
اسے ایس ایچ او کے دفتر کی جانب بڑھتے دیکھ کر ایک سپاہی نے آواز دے کر روکنے کی کوشش کی مگر وہ سنی ان سنی کرتا ہوا دفتر میں گھس گیا ۔
راﺅ اجمل رحیم اسے اچھی طرح جانتا تھا ۔اسے دیکھتے ہی وہ بے اختیار اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔
”کبیردادا آج کیسے بھول پڑے ۔“اس نے لہجے میں خوشگواری سمونے کی کوشش کی جو بالکل ناکام ہوئی تھی ۔اسی وقت ایک سپاہی فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اندر داخل ہوا۔”سر !یہ ........“
”دو چاے لے آﺅ ۔“ایس ایچ او نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی تھی۔
”وہ جی سر ۔“کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا ۔
ایس ایچ او کی دعوت کا انتظار کیے بغیر کرسی سنبھالتے ہوئے اس نے کسی تمہید میں پڑنے کے بجائے براہ راست مطلب کی بات شروع کر دی ۔”یقینا آپ میری آمد کا مقصد جانتے ہوں گے ۔“
”جب آپ تشریف لے ہی آئے ہیں تو بتا دیں ۔“اس نے بیٹھتے ہوئے معنی خیز لہجے میں پوچھا ۔
”تنویر پلازہ اور عباسیہ مارکیٹ کے دکاندار و ں کی شکایت موصول ہوئی تھی ۔“
”کوئی بڑی بات کریں کبیردادا!....یہ چھوٹی موٹی شکایتیں تو آئے روز کا معمول ہیں ۔“
”آپ کا حصہ پہنچ گیا تھا ؟“کبیردادا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے پوچھا ۔
”ہاں ،مگر مجھے لگتا ہے اس کی مقدار کچھ بڑھا دینا چاہیے ۔“
”اس وجہ سے کہ نادیہ اب دسویں کلاس میں پہنچ گئی ہے ۔“کبیردادا کا معنی خیز لہجہ کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا ۔
”سنا تھا کبیردادا ،دشمن کی بہو بیٹیوں پر نظر نہیں ڈالتا ۔“راﺅ اجمل چہرے پر کھلنے والی مسکراہٹ گھمبیر سنجیدگی میں ڈھل گئی تھی ۔
کبیردادا اطمینان بھرے لہجے میں بولا ۔”بالکل ،نادیہ بھی میری بھانجی ، بھتیجی کی طرح ہے اسی لیے میں نہیں چاہتا کہ اس کے سر سے باپ کا سایا اٹھ جائے ۔“
”کبیردادا !آپ زیادتی کر رہے ہیں ۔“ اجمل رحیم کو غصے پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔
”میں لکھ کر دے رہا ہوں کہ ایس پی ضمیر حسین اوڈھو آپ کے جنازے میں شرکت سے زیادہ کچھ نہیں کر پائے گا ۔“
”شاید پولیس سے دشمنی آپ کو مہنگی پڑے ۔“
”سپنوں کی دنیا سے باہر نکلو راﺅ صاحب !....ایس پی ضمیر حسین کی زیر کمان دوسرے تھانیدار ایسی حرکت کیوں نہیں کر رہے ۔یقین مانوضمیر حسین تمھارے کندھے پر بندوق رکھ کر فائر کررہا ہے ۔“یہ کہہ کر وہ اٹھتے ہوئے بولا ۔”میرا کام تھا سمجھانا ،اب بس کل تک انتظار کروں گا ۔“وہ مڑ کر باہر جانے لگا ۔
”بات سنیں ۔“اس کے پکارنے پر کبیردادا رک کر اس کی جانب متوجہ ہوا ۔
”دس ہزار ماہانہ بڑھانے سے آپ کو کوئی فرق تو نہیں پڑے گا ،البتہ میری لاج رہ جائے گی ۔“
کبیردادا کے ہونٹوں پر دھیمی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔”اس شرط پر کہ یہ دس ہزار میری بھتیجی نادیہ کے جیب خرچ کا حصہ بنیں گے ۔“
”منظور ۔“راﺅ اجمل کے چہرے پر پہلی بار اطمینان چھلکا۔”اب چاے تو پی لیں ۔“
”ادھار رہی ۔“کہتے ہوئے وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا تھانے سے باہر آگیا ۔
٭٭٭
”جی پاشادادا!“اسے امتیاز کی آواز سنائی دی ۔
پاشا نے پوچھا ۔”سناﺅ بھائی ،کبیردادا اٹھا ہے کہ نہیں ۔“
”ہم یہاں تھانے پہنچے ہوئے ہیں ۔“
”اتنی جلدی ۔“پاشا کے لہجے میں حیرانی تھی ۔
”رات کو کبیر دادا آپ لوگوں کے جاتے ہی ہمیں کام پر بھیج کر خود گھر چلے گئے تھے ۔ آج سویرے ہی جاگ گئے ۔“
پاشا نے اندازہ لگایا۔”شاید اس چھوکری سے جان چھڑانے کی خوشی میں سویرے جاگے ہوں گے ۔“
امتیاز نے حیرانی سے کہا ۔”کس چھوکری سے ،وہ نمازن تو ابھی تک گھر میں ہے ۔“
”مگر رات کبیردادا کہہ رہے تھے کہ صبح سویرے اسے گھر بھیج دے گا ۔“
”اس بارے تو میں کچھ نہیں جانتا ، صبح آتے وقت حسبِ معمول وہ کبیردادا کو چھوڑنے دروازے تک آئی تھی اور گاڑیوں کے گھر سے نکلنے تک دونوں لیلیٰ مجنوں کی طرح ایک دوسرے کو گھورتے رہے ۔“
”نہ کر یا ر!“پاشا کے لہجے میں تشویش تھی ۔”رات کو کبیردادا نے اسے واپس بھیجنے کا وعدہ کیا تھا ۔“
امتیاز نے خیال ظاہر کیا ۔”ویسے عظیم کو دادا گھر میں چھوڑ آیا ہے شاید اسے بتایا ہو کہ ہمارے نکلنے کے بعد نمازن کو گھر تک چھوڑ آئے ۔“
”میں پتا کر لیتا ہوں ۔“رابطہ منقطع کر کے وہ عظیم کا نمبر ملانے لگا ۔
”جی دادا !....“عظیم نے فوراََ کال وصول کی تھی ۔کبیردادا کے گینگ کے افراد پاشا کا اتنا ہی احترام کرتے تھے جتنا کبیردادا کا ۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ کبیردادا کا کتنا چہیتا تھا ۔
پاشا نے بے صبری سے پوچھا ۔”یار کہاں ہو ؟“
”بیگم صاحبہ کے کام کے سلسلے میں کالج آیا تھا ۔“
”کون بیگم صاحبہ؟“
عظیم اطمینان سے بولا ۔”کبیردادا کی بیوی ۔“
”کبیردادا تمھیں گھر کیوں چھوڑ گئے تھے ۔“
”انھوں نے کہا کہ بیگم صاحبہ کے داخلے وغیرہ کا کوئی مسئلہ ہے میں اسی سے پوچھ کر وہ کام کر دوں۔“
”اچھا ٹھیک ہے ۔“رابطہ منقطع کرکے وہ سوچ میں پڑ گیا ۔چند لمحوں بعد وہ کبیردادا کا نمبر ملا رہا تھا ۔
”ہاں پاشا خیریت تو ہے ۔“کبیردادا نے کال وصول کرتے ہی پوچھا ۔
”خیریت ہے دادا ،بس ایک بات پوچھنا تھی۔“
”تناوش کے علاوہ کچھ ہے تو پوچھو ۔“
”مگر رات کو آپ نے حامی بھری تھی ۔“
”ہاں ،مگر بعد میں سوچا تو مناسب نہ لگا ۔“
”جینا مشکل دکھائی دے رہا ہے ۔“پاشا نے بغیر لگی لپٹی رکھے پوچھا ۔
”جب آدمی تھپڑ کی حدود سے باہرہو تو اسی قسم کی بکواس کرتا ہے ۔“
”دادا، میں تھپڑ سے نہیں ڈرتا مگر آپ کی تازہ روش سے ڈر گیا ہوں ۔“
”بکواس نہ کرو یار!....اس لڑکی کو ایک غنڈے سے پناہ دے کر میں خبیثوں کے ٹولے کے سامنے کس طرح پھینک دوں ۔جانتے ہو نوشاد آفریدی ،اخلاق حسین وغیرہ کسی گدھ کی طرح اس پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں ۔جس دن وہ گھر چلی گئی اس سے بہت برا برتاﺅ کریں گے ، صرف مجھے نیچا دکھانے کے لیے ۔اور اس وقت میں اس کی کوئی مدد بھی نہیں کر پاﺅں گا کیونکہ میں اس سے رشتا ختم کر چکا ہوں گا اور ایک انجان لڑکی کے لیے کسی گینگ کے سربراہ کو میں کچھ نہیں کہہ سکوں گا ۔“
پاشا اس کی باتوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بولا ۔”اس متعلق ہم پہلے بات کر چکے ہیں ۔آپ نے عوام کا ٹھیکا نہیں لے رکھا ۔“
”کبیردادا سے تعلق کے بعد وہ عام نہیں رہی ۔“
”کبیردادا جیسے شخص کو اپنا دیوانہ بنانے والی عام کیسے ہو سکتی ہے ۔“
کبیردادا زچ ہوتے ہوئے بولا ۔”یار! ایسی کوئی بات نہیں ،تم بس بات کا بتنگڑ بنا رہے ہو ۔“
”میں شام کو کوٹھی پر آرہا ہوں ،دیکھوں تو ہے کیسی ؟“
”آج شام کو اخلاق حسین کے ہاں دعوت ہے ،وہیں ملاقات ہو گی ۔“
”اوہ مجھے تو بھول ہی گیا تھا ۔“
”ہاں تمھیں بس استاد پر بکواس کرنا یاد رہتا ہے ۔“کبیردادا نے منھ بناتے ہوئے رابطہ منقطع کردیا ۔
٭٭٭
تھانے سے نکلتے ہی کبیردادا نے ڈرائیور کو برکت کے اڈے پر جانے کا بتا دیا ۔برکت ہی تنویر پلازہ اور عباسیہ مارکیٹ کے دکانداروں سے بھتہ وصول کیا کرتا تھا ۔رستے ہی میں اسے پاشا کی کال موصول ہوئی ۔اس سے بات ختم کرنے تک وہ برکت کے اڈے پر پہنچ چکے تھے ۔
کبیردادا کی گاڑی دیکھتے ہی وہ بھاگتا ہوا قریب پہنچا تھا ۔مرسڈیز کا دروازہ کھول کر اس نے کبیردادا کو باہر آنے کی دعوت دی ۔
”کیا چل رہاہے ۔“کبیردادانے گاڑی سے نکلنے کی ضرورت نہیں سمجھی تھی ۔
”چھوٹا سا مسئلہ چل رہا تھا ،اس بارے عظیم کو بتا دیا تھا ۔“
کبیردادا نے کہا ۔”وہ مسئلہ حل ہو گیا ہے ۔ابھی تھانیدار ہی سے مل کر آرہا ہوں ۔اس کے علاوہ کچھ ہے تو بتاﺅ ۔“
”باقی تو سب ٹھیک چل رہا دادا ۔“
”تھانیدار راﺅ اجمل کے ماہانہ خرچ میں دس ہزار کا اضافہ کردو اور اس کے بعد اگر اس کے تھانے کا کوئی سپاہی گڑبڑ کی کوشش کرے تو پھر کوئی دوسرا علاج ڈھونڈیں گے ۔“
”جی دادا!....“برکت نے اثبات میں سرہلا دیا ۔
”دفتر چلو ۔“ڈرائیور کو مخاطب ہوتے ہوئے اس نے بات ختم کرنے کااشارہ دیا ۔ برکت کار کے دروازے سے پیچھے ہٹا اور ڈرائیور نے کار آگے بڑھا دی ۔اس کا رخ کمپنی آفس کی طرف تھا ۔کنسٹریکشن کمپنی اس کا کالا دھن چھپانے کی آڑ تھی ،وہ ہفتے دس دنوں میں ہی چند منٹوں کے لیے دفتر کا چکر لگاتا تھا۔ورنہ کمپنی کا سارا کام منیجنگ ڈائریکٹر کے ذمہ تھا ۔آفس میں بیٹھ کر اس نے چاے پینے کے دوران ایم ڈی سے چند منٹ کی گپ شپ کی ،کام کے بارے سرسری سا پوچھا اور دفتر سے باہر نکل آیا۔ایم ڈی کبیردادا کی اصل شخصیت سے اچھی طرح واقف تھا اس وجہ سے اسے کبھی ہیراپھیری کرنے کی جرّات نہیں ہوئی تھی ۔یوں بھی کبیردادا کے لیے کنسٹریکشن کمپنی کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔
کار میں بیٹھتے ہوئے اس نے ڈرائیور کو ہوٹل جانے کا کہا ۔ہوٹل کے تہہ خانے میں بہت بڑا جوااڈہ تھا جو کبیرداداہی کی سرپرستی میں چل رہا تھا ۔ہوٹل کی پارکنگ میں کار روکتے ہوئے ڈرائیور نے جھجکتے ہوئے پوچھا ۔”دادا !....اگر چند منٹ یہاں گزارنے ہیں تو میں سامنے شاپنگ پلازہ سے تھوڑی خریداری کر لوں ۔“شاپنگ پلازہ ہوٹل سے مخالف جانب بنا تھا۔ درمیان میں صرف سڑک گزرتی تھی ۔
”چلے جاﺅ ۔“مختصراََ کہتے ہوئے وہ کار سے اتر کر ہوٹل کی اندرونی عمارت کی طرف بڑھ گیا ۔چاروں محا فظ اس کے پیچھے چل پڑے تھے ۔ہوٹل کے ہال میں رش نہ ہونے کے برابر تھا ۔البتہ سڑھیوں سے اترتے ہوئے وہ نیچے پہنچے۔دروازے پر کھڑے محافظ نے اسے دیکھتے ہی موّدبانہ لہجے میں سلام کرتے ہوئے دروازہ کھول دیا ۔ تہہ خانے میں کافی رش تھا ۔ مختلف میزوں پر جواری ہاتھوں میں تاش کے پتے تھامے اپنی قسمت آزمائی کر رہے تھے ۔کچھ جوامشینوں پر مقدر میں لکھا پیسہ ڈھونڈ رہے تھے ۔کبیردادا دائیں بائیں سرسری نظر دوڑاتا ہوا ایک کونے میں بنے ہوئے کالے شیشے کے کیبن کی طرف بڑھ گیا ۔اس کے چاروں محافظ جوا ہال ہی میں خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے ۔بیرے نے فوراََ ان کے سامنے شراب کی بوتل اور گلاس لا کر رکھ دیے تھے ۔
شیشے کے کیبن کے سامنے بھی ایک ہتھیار بردار کھڑا تھا ۔کبیردادا کو دیکھتے ہی اس نے سلام کرتے ہوئے دروازہ کھول دیا ۔
دروازہ کھلنے کی آواز پرگھومنے والی کرسی پر بیٹھے بھدے نقوش والا شخص دروازے کی طرف متوجہ ہوا ۔کبیردادا کو دیکھتے ہی وہ ہڑ بڑا کر کھڑا ہو ا اور اس کے ساتھ ہی اپنی کرسی چھوڑ کر ایک طرف ہو تے ہوئے بولا ۔”سلام دادا۔“
سر کی ہلکی سی جنبش سے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کبیردادا گھومنے والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔
”بیٹھو ارشد۔“اسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے کبیردادا دیوار میں لگی بڑی سکرینوں کی طرف متوجہ ہو گیا جہاں مختلف میزوں اور جوا مشینوں کا منظر نظر آرہا تھا ۔
”کیسا چل رہا ہے ۔“لمحہ بھر کی خاموشی کے بعد وہ مستفسر ہوا ۔
”بہت اچھا دادا ۔“بوتل سے شراب کا گلاس بھر کر کبیردادا کے سامنے رکھتے ہوئے ارشدنے مودّبانہ لہجے میں جواب دیا ۔
کبیردادا نے گلاس سے گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا ۔”کوئی مسئلہ ۔“
”کوئی نہیں ۔“اس نے نفی میں سر ہلادیا ۔
”پولیس کی طرف سے تو کوئی پریشانی نہیں ہورہی ۔“
”نہیں دادا ۔“ارشد کا جواب ایک بار پھر نفی میں تھا ۔
”ہونہہ!“گلاس میں بچی بقیہ شراب ایک سانس میں حلق میں انڈیلتے ہوئے وہ کھڑا ہو گیا ۔
”کھانے کا وقت ہے ۔“ارشد نے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا ۔
”شکریہ ۔“کبیردادا نے دروازے کی جانب قدم بڑھا دیے ۔ارشد نے بھاگ کر دروازہ کھولا اور اس کے باہر نکلتے ہی اس کے پیچھے چلنے لگا ۔چاروں محافظ بھی اسے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے تھے ۔تہہ خانے کے دروازے تک ارشد اس کے ساتھ گیا تھا ۔
پارکنگ میں جاتے ہی اس کی نظر سڑک پار کرتے ڈرائیور پر پڑی اس نے ہاتھ میں شاپر پکڑا ہوا تھا ۔ایک دم اس کے ذہن میں شام کی دعوت کا خیال آیا اور اس نے ڈیش بورڈ کھول کر بڑی مالیت کے نوٹوں کی آدھی گڈی اٹھا کر جیب میں ڈالی اور شاپنگ پلازے کی طرف چل پڑا ۔محافظوں کو اس نے وہیں ٹھہرنے کا اشارہ کر دیا تھا ۔
سڑک عبور کر کے وہ ایک دکان میں داخل جس کے سامنے عورتوں کے مجسموں پر فیشن ایبل سوٹ چڑھا کر شوپیس کے طور پر کھڑے کیے گئے تھے ۔دکان میں داخل ہوتے ہی اسے خیال آیا کہ تناوش کا ناپ وغیرہ تو اسے معلوم ہی نہیں تھا ۔اور جس قسم کی وہ لڑکی تھی یقینا اس نے کبھی ریڈی میڈ کپڑے خریدے بھی نہیں ہوں گے ۔وہ مایوس ہو کر واپس مڑنے ہی لگا تھا کہ اس نظر شوکیس کے سامنے کھڑی ایک لڑکی پر پڑی ۔جسمانی خال و خد کے لحاظ سے وہ تناوش کے بالکل مشابہ تھی ۔سیلز مین سے کسی چیز کی قیمت دریافت کر کے اس نے اپنا پرس کھول کر اندر نظر دوڑائی اور مایوسی سے سر ہلا کر دروازے کی طرف بڑھی ۔کالی قمیص کے نیچے اس نے نیلے رنگ کی جینز پہنی ہوئی تھی ۔
”بہن بات سنو ۔“کبیردادا نے اسے جھجکتے ہوئے مخاطب کیا ۔
وہ کبیردادا سے چند قدم کے فاصلے سے گزر رہی تھی ۔اس کی آواز سنتے ہی اس نے حیرانی سے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کسی کو موجود نہ پا کر دوبارہ کبیردادا کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنی جانب انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے استفہامیہ اشارہ کیا ۔
”ہاں آپ سے مخاطب ہوں ۔“کبیر دادا نے اثبات میں سر ہلایا۔
”جی بھائی ۔“اس کے قریب رکتے ہوئے وہ مستفسر ہوئی ۔
”اگر خفا نہ ہوں تو ایک چھوٹی سی مدد درکار تھی ۔“
”جی بھائی بولیں ۔“اس کے لہجے میں شکوک کی پرچھائیاں لرزاں تھیں ۔
”میں نے اپنی بیوی کو تحفہ دینے کے لیے ایک سوٹ لینا تھا لیکن اس کے ناپ کا مجھے معلوم نہیں ہے اور اتفاق سے آپ کا قد وغیرہ بالکل اس سے مشابہ ہے ،کیا آپ اس سلسلے میں میری کوئی مدد کر سکتی ہیں ۔“
”کال کر لو ۔“اس نے مشورہ دینے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔
وہ ہنسا ۔”پھر تحفہ لے جانے کا مزہ باقی نہیں رہے گا ۔“
”چلیں آپ سوٹ پسند کریں میں سیلز مین کو ناپ بتا دیتی ہوں ۔“اس نے مزید تکرار سے گریز کیا تھا ۔
”اگر اتنی مہربانی کر رہی ہیں تو اپنی پسند ہی کا ایک سوٹ دکھا دیں ۔“
کبیردادا کو گہری نظروں سے گھورتے ہوئے وہ پیچھے مڑی اورسیلز مین کے قریب پہنچتے ہوئے کہنے لگی ۔”وہ سوٹ دینا ۔“اس نے انگلی سے اشارے سے ہینگر میں لٹکتے ایک سوٹ کی طرف اشارہ کیا ۔شاید تھوڑی دیر پہلے بھی وہ اسی سوٹ کا پوچھ رہی تھی ۔کالی جینز اور ہلکے گلابی رنگ کی پھولدار قمیص۔
”مجھے تو یہ پسند ہے اور یہ میرے ناپ کے مطابق ہے ۔“وہ پاس کھڑے کبیر دادا کو کہہ کر وہ جانے کے ارادے سے مڑی ۔
”ٹھہرو بہن ۔“کبیردادا اسے روکتے ہوئے سیلز مین کو مخاطب ہوا ۔”اسی ناپ اور رنگ میں دو سوٹ علاحدہ علاحدہ پیک کر دیں ۔
”جی بھائی ۔“کبیردادا کے کچھ نہ کہنے پر وہ پوچھنے لگی ۔
”ایک منٹ ۔“کبیردادا اسے بتائے بغیر سیلز مین کی طرف متوجہ رہا ۔دونوں سوٹوں کے پیک ہوتے ہی اس نے ایک پیکٹ اس لڑکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔”یہ آپ کے لیے۔“
”مگر یونھی سر !....میں یہ کیسے لے سکتی ہوں ۔“لڑکی نے انکار میں سرہلایا۔
وہ ہنسا ۔”بھائی سمجھ کر مدد کی ہے ،بہن سمجھ کر دے رہا ہوں ۔“
”مگر بھائی یہ بہت قیمتی ہے ۔“اس کے انکار میں دراڑ پڑتی دیکھ کر کبیردادا نے کہا ۔
”ہاں ....آپ خود اعتراف کر چکی ہیں کہ آپ کی قوت خرید سے باہر ہے ،اسی لیے تو دے رہا ہوں ۔“
اس لڑکی نے جھجکتے ہوئے اس کے ہاتھ سے پیکٹ لیا اور ”شکریہ بھائی جان !“کہتے ہوئے چل دی ۔کبیرداداان سوٹوں کی ادائی کے لیے کیش کاﺅنٹر کی طرف بڑھ گیا ۔بل ادا کر کے وہ باہر نکلا ،وہ لڑکی سڑک کے کنارے کھڑی اسی دکان کی طرف متوجہ تھی ۔شاید اسے ابھی تک کبیردادا کی مہربانی کی سمجھ نہیں آرہی تھی ۔کبیردادا کو دکان سے نکلتے دیکھ کر وہ بہ ظاہر سامنے دیکھنے لگی مگر کبیردادا جانتا تھا کہ وہ کن اکھیوں سے اسی کی طرف متوجہ ہے ۔
اپنی بے وقوفی پر وہ دائیں بائیں سرمارتا ہوا سڑک عبور کرنے لگا ۔ تناوش کو گھر لانے کے بعد اس سے مسلسل اوٹ پٹانگ حرکتیں سرزد ہو رہی تھیں ۔اسے قریب آتا دیکھ کر ڈرائیور نے کار کا دروازہ کھول دیا ۔اندر بیٹھتے ہوئے اس نے سڑک کے پار نگاہ دوڑائی وہ لڑکی ابھی تک سڑک کے کنارے کھڑی اس کی طرف متوجہ تھی ۔
”گھر چلو ۔“وہ ڈرائیور کو مخاطب ہوا ۔اور اس نے ۔”جی دادا !“کہتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی ۔
”میں قسم کھا سکتا ہوں کہ دادا نے اس نمازن کے لیے خریداری کی ہے ۔“امتیاز دوسروں محافظوں کو مخاطب تھا ۔
بخش ہنسا ۔”یار! تم تو پکے ہی اس بے چاری کے پیچھے پڑے ہو ۔“
امتیاز نے کہا ۔”اس نے بھی تو ہمارے باس کو ہر کام سے نکال دیا ہے ۔“
”اس غریب کا کیا قصور ۔“باقر کا ووٹ بھی بخش کی طرف تھا ۔
”قصور تو ہے نا ،نہ وہ اتنی خوب صورت اور معصوم ہوتی ،نہ کبیردادا اس بری طرح سے فریفتہ ہوتے ۔“
”پتر !جس دن کبیردادا نے یہ ہرزہ سرائی سن لی ، تمھارا دنیا میں آخر ی دن ہو گا۔“
”پاشا دادا سے بات ہوئی تھی ،اس کا ووٹ بھی میرے حق میں ہے ۔“امتیاز نے چھاتی پھیلائی ۔
بخش اسے تنبیہ کرتے ہوئے بولا ۔”اس سے اپنا موازنہ نہ کرو،وہ کبیردادا کا لاڈلا ہے ۔“
”یار میں نے کبیردادا کے خلاف تو کوئی بات نہیں کی نا ۔“امتیاز نے فوراََ صفائی پیش کی ۔
باقر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ۔”اگر تمھارے بہ قول وہ نمازن کبیردادا کو اتنی ہی پیاری ہے تو سوچ لو اس کے خلاف کوئی بات سن کر کبیردادا تمھارا کیا حشر کرے گا ۔“
”میری توبہ یار آپ لوگ تو پیچھے ہی پڑ گئے ہو ۔“امتیاز کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اپنے موقف سے ہٹ گیا ۔
ان کی گپ شپ کے دوران وہ گھر کے قریب پہنچ چکے تھے ۔کبیردادا کی کار کو گیٹ کی طرف مڑتے دیکھ کر امتیاز سے رہا نہیں گیا۔”خود دیکھ لوایک بجے واپس پہنچ گئے ہیں ۔کل بھی قریباََ اسی وقت پہنچے تھے ۔اور اس سے قبل پانچ بجے سے پہلے کبھی کوٹھی کا گیٹ نہیں دیکھا تھا ۔“
”آم کھاﺅ جگر ،پیڑ نہ گنو ۔اگر اس کی وجہ سے جلدی گھر آجاتے ہو تو اسے دعائیں دو۔“
”اس نمازن کو ہم جیسے گناہ گاروں کی دعا کی کیا حاجت ۔“اس مرتبہ امتیاز کے لہجے میں ہلکا سا دکھ ہلکورے لے رہا تھا ۔
*جاری ہے*

No comments: