ﻧﺎﻭﻝ سنائپر از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر9
اگلا ہفتہ بغیر کسی خاص واقعے کے گزر گیا ۔اس دوران ایک دفعہ لی زونا سے تفصیل سے بات ہوئی اسے فارم ہاو ¿س والی بات بتائے بغیر میں نے اس کے ان خدشات کے بارے استفسار کیا جو اس نے سردار کی زبانی مجھ تک پہنچائے تھے ۔جواباََ اس نے بتایا کہ اس نے جینیفر کی کسی سے ہونے والی مبہم سی گفتگو سنی تھی ۔اور اس وقت جینیفر مجھے راضی کرنے کی حامی بھر رہی تھی ۔وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ لی زونا واش روم میں ہے ۔اور کمرے کے اندر اس نے یہ بات بتانے سے اس لیے منع کیا تھا ،کہ ہمارے کمروں میں خفیہ کیمروں کی موجودی کے شک کو نظر انداز نہیںکیا جا سکتا تھا ۔
جینیفربھی مجھے باقاعدگی سے مل رہی تھی ۔ اس کے رویے میں کوئی فرق نہیں آیا تھا ۔شری کانت پارٹی کو اس کا مجھ سے یوں گھلنا ملنا سخت ناگوار گزرتا تھا ،مگر ان بے چاروں کے بس میں کوئی بات نہیں تھی ۔
اور پھر ہمارا کورس اختتام پذیرہونے میں تین دن رہ گئے ۔آخری تین دن ہمیں ایک مخصوص علاقے میں سنائپر مخالف کارروائی کرنا تھی ۔اس کے لیے ہر آدمی کے حوالے پینٹ ایمونیشن کیا گیا ۔اور ایسی سنائپر رائفلیں ہمارے حوالے کی گئیں جو اصل سنائپرز رائفلوں کی ہو بہ ہو نقل تھیں ۔بس اصل اور نقل میں اتنا فرق تھا کہ نقل سے صرف پینٹ ایمونشن فائر ہو سکتا تھا ۔
پینٹ رائفلز سے بھی چھے سات سو میٹر کے فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنایا جا سکتا تھا ۔تین دنوں کا راشن پانی ہمارے پاس ہوناتھا ۔تمام سنائپرزکوجوڑی جوڑی کی شکل میں جنگل میں جانا تھا ۔ہر سنائپر کو ایسی گھڑی پہننے کو دی گئی تھی جس میں کیمرہ نصب تھا ۔اس طرح سارے سنائپرز کو سکرین پر دیکھا جا سکتا تھا ۔ جو جو سنائپردوسرے سنائپر کی گولی کا شکار ہوتا جاتا وہ اس کارروائی سے نکلتا جاتا۔اس طرح صرف ایک جوڑی نے باقی بچنا تھا اور بچ جانے والے کو جیتا ہوا تصور کیا جاتا ۔اگر تین دن کے بعد بھی ایک سے زیاہ جوڑیوں نے بچ جاتیںتو اس صورت میں وہ جوڑی یا اکیلا بچ جانے والا سنائپر جیت کا حق دار ٹھہرتا جس نے زیادہ سنائپرز کو نشانہ بنایا ہوتا۔یہ ساری تفصیل ہمیں اس مشق کے آغاز سے ایک دن پہلے میجر جیمس نے بتا دی تھی ۔
اسی رات جینیفر ڈنر کے بعد میرے پاس پہنچ گئی ....اس وقت سردار لی زونا کے پاس تھا۔
”پتا ہے ؟....میں تمھارے لیے کیا تحفہ لائی ہوں ؟“اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔
”جادو مجھے آتا نہیں ؟الہام مجھے ہوتا نہیں ؟علم الغیب جاننے والی ذات صرف اللہ پاک کی ہے ؟........“
”ذی !تم بھی نا ؟“اس نے ہنستے ہوئے قطع کلامی کی ۔”اچھا یہ دیکھو ؟“اس نے خوبصورت پیکنگ میں ایک چھوٹا سا ڈبا میری جانب بڑھایا ۔
”یہ کیا ہے ؟“میں نے ڈبے کو الٹ پلٹ کر حیرنی سے دیکھا۔
”کھول کر دیکھو ؟“وہ میرے ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔چونکہ میں جانتا تھا کہ اگر میں وہاں سے اٹھ کر کہیں بھی بیٹھتا اس نے میرے ساتھ لگ کر ہی بیٹھنا تھا ۔اس لیے اسے نظر انداز کر کے میں پیکنگ کھولنے لگا ۔ڈبے میں کالے رنگ کا ایک چھوٹا سا موبائل فون بند تھا ۔
”یہ تو موبائل فون ہے ؟“
”اچھا ہے نا؟“اس نے اشتیاق سے پوچھا ۔
”ہاں مگر میرے کس کام کا ؟“
”پتا ہے ؟....یہ تحفہ وغیرہ نہیں ہے ؟....“خلاف توقع وہ میرے قریب سے اٹھ کر سردار کے بیڈ پر بڑے انداز سے تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔یقینا وہ کوئی خاص بات کرنے کے موڈ میں تھی ۔اور چاہتی تھی کہ میں پر سکون انداز میں اس کی بات سنوں اسی لیے وہ مجھ سے تھوڑا دور ہٹی تھی ۔
میں نے متبسم ہو کر پوچھا ۔”تو پھر کیا ہے ؟“
”کل کی مشق کے بارے علم ہے نا ؟“
”ہاں ۔“میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
”تو بات یہ ہے کہ میں تمھارے ہاتھوں مشق سے آو ¿ٹ نہیں ہونا چاہتی ۔تم سب سے خطرناک نشانے باز ہو۔اور میں چاہتی ہوں کم از کم میں تمھاری گولی کا نشانہ نہ بنوں ؟“
”تو اس میں موبائل فون کا کیا کردار ؟....کیا یہ بہ طور رشوت کے ہے ؟“
”تمھیں پتا ہے نا ؟سب کے پاس نقشہ اور جی پی ایس موجود ہو گا ؟“
”ہاں تو ؟“
”بس مجھے اپنی جگہ سے آگاہ رکھنا ،اسی طرح میںتمھیں اپنی جگہ سے با خبر رکھوں گی۔ پس ہم دونوں ایک دوسرے سے دور رہیں گے ؟“
”تم جانتی ہو ہر آدمی کیمرے کی آنکھ کی زد میں ہوگا؟....پھر میں کیسے بتا پاو ¿ں گا ؟“
”کال کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟....موبائل فون پر میسج بھی بھیجا جا سکتا ہے ؟“وہ موبائل فون آن کر کے مجھے میسج بھیجنے کا طریقہ سمجھانے لگی ۔”کیمرہ گھڑی میں لگا ہے ؟جب بھی میسج کرنا چاہو؟موبائل فون کو اسی گھڑی والے ہاتھ کے نیچے کر کے میسج بھیج دینا۔،نہ کسی کوموبائل فون دکھائی دے گا ؟اور نہ کسی کے کانوں میں تمھاری آواز پڑے گی ؟“
مجھے بہ ظاہر جینیفر کی بات میں کوئی قباحت نظر نہیں آ رہی تھی ۔اس کی تجویز بھی ہر سقم اور کجی سے پاک تھی ۔اس کے محبت بھرے رویے کے جواب میں میں اتنا تو اس کے لیے کر ہی سکتا تھا ۔
”تم کسی اور کے ہاتھوں بھی تو نشانہ بن سکتی ہو؟“
”ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے؟“اس نے منطقی لہجے میں کہا۔”لیکن انسان ڈرتا تو اسی سے ہے جو اسے نقصان پہنچا سکے ؟....اور اس لحاظ تمام سنائپرز کے لیے سب سے بڑا خطرہ تم ہو ؟تمام اسی کوشش میں رہیں گے کہ تم سے دور دور رہیں ؟“
میں نے مزاحیہ انداز میں کہا۔”آج تمھارے ہاتھ میں کچھ زیادہ لمبا بانس نہیں ہے ؟“
وہ تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے تھی ۔سیدھی ہو کر بیٹھتے ہوئے بولی ۔”میں تمھیں یقین دلا سکتی ہوں؟“
”مجھے یقین آ گیا ہے۔“میں نے فوراََ دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے شکست کا اعلان کیا ۔اور وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑی ۔
تھوڑی دیر مزید مجھے بریف کرنے کے بعد اس نے جانے کی اجازت چاہی ۔جاتے جاتے وہ مجھے موبائل فون چارج کر لینے کی تاکید کرنا نہیں بھولی تھی ۔
٭٭٭
جانے سے پہلے ہم تمام تیار کھڑے تھے ۔
”تمام لوگ جس جس جگہ پر کھڑے ہیں ؟اپنا پیک اور ہتھیار وہیں چھوڑ کر میرے پاس آ جائیں ۔“ہمارے انسٹرکٹرکیپٹن ٹونی گریفن نے میگا فون کے ذریعے اپنی بات ہمارے کانوں تک پہنچائی کیونکہ ہم تمام کافی دور دور تک بکھرے ہوئے تھے ۔
اپنا سامان اپنی جگہ پر چھوڑ کر ہم اس کے قریب اکٹھے ہو گئے ۔
”سارے اس ہال میں چلے جائیں ۔“اس نے ایک بڑے ہال کی جانب اشارہ کیا۔
ہم نے حکم کی تعمیل کی ۔وہ سینما کے جیسا ہال تھا ۔تمام فرش میں گڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔
کیپٹن ٹونی گریفن نے سامنے آ کر کہا ۔”ہم تمھیںجنگل میں داخل کرنے سے پہلے ضروری سمجھتے ہیں کہ اس جنگل کی اندرونی تفصیلات بہ ذریعہ فلم دکھادیں ۔گو نقشے اور جی پی ایس وغیرہ تمھارے پاس موجود ہیں؟ کسی بھی علاقے میں کارروائی کرنے سے پہلے سنائپر اس علاقے کی قراولی (ریکی)کرتا ہے ۔ اور ہم تمھیں قراولی کا موقع فراہم نہیں کر سکے اس لیے جنگل کے متعلق یہ تفصیلی فلم دکھا کر قراولی نہ کرنے سے ہونے والی کمی کو پورا کر رہے ہیں ۔“
گھنٹے بھر کی فلم میں اس جنگل کے متعلق تمام تفصیلات موجود تھیں ۔فلم دکھانے کے بعد کیپٹن ٹونی گریفن نے ہمیں کچھ اہم باتوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ جنگل میں داخل ہونے کے بعدہمارے پاس فقط ایک گھنٹے کا وقت ہو گا اس کے بعد تمام جوڑیوں کو اجازت ہو گی کہ وہ ایک دوسرے پر اپنا نشانہ آزما سکیں ۔ اپنی آنکھوں کی حفاظت کے لیے ہمیں شفاف آئینوں والے خصوصی چشمے دیے گئے تھے تاکہ پینٹ ایمونیش براہ راست آنکھ پر لگ کر کوئی نقصان نہ پہنچا سکے ۔
اپنے سامان کی طرف واپس جاتے ہوئے ایک چھوٹی سی بدمزگی یہ پیدا ہو گئی کہ سردار لی زونا سے کوئی بات کہنے کے لیے اس کے قریب لمحا بھر کے لیے رکااور وہاں سے گزرنے والے شری کانت نے طنزیہ انداز میں کہہ دیا کہ وہ سب سے پہلے سردار کی اس ننھی بلبل کو نشانہ بنائیں گے ۔
جواباََ سردار نے بھی اسے ٹھیک ٹھاک جواب دیا۔بات شاید بڑھ جاتی مگر جینیفر نے آ کر معاملہ سنبھال لیا اور دونوں اپنے سامان کی طرف بڑھ گئے ۔
”اگر جینیفر نہ آ جاتی تو اس بنیے کو تو میں نے جنگل میں گھسنے سے پہلے فارغ کر دینا تھا ؟“ سردار نے اپنا پیک اٹھاتے ہوئے غصیلے لہجے میں کہا ۔
”ہاں ،ٹھنڈے دماغ سے کسی بات پر غور کر نا خانو ںکے مسلک میں کہاں ؟“
”مجھے ہی ٹوکتے رہنا ....؟ان بنیوں کو سبق سکھانے کی نہ سوچنا ؟“
”انھیں سبق سکھا تو دیا تھا ؟....بھول گئے لیوپولڈ ٹیلی سکوپ کے سائیٹ کے فائر میں کتنے شرم سار اور بے عزت ہوئے تھے ؟“
”اس بات کو کئی ہفتے گزر گئے ہیں ؟“سردار نے منہ بنایا۔
”ہفتے نہیں کئی سال گزر جائیں ،مگر وہ یہ ذلت فراموش نہیں کر سکتے ؟“
”اچھا ٹھیک ہے بقرط صاحب !....اب چلو ؟....یہ نہ ہو اگلے ہماری شروعات کا یہیں اختتام کر دیں ؟“
”بہت باتیں کرنا آ گیا ہے ....؟یقینا یہ لی زونا کی صحبت کا اثر ہوگا؟“
”ہاں لی زونا کے ذکر سے یاد آیا ؟....وہ کہہ رہی تھی ذیشان بھائی کو کہہ دینا کہ کم از کم پہلے دن اگر وہ ہمارے نشانے کی زد میں آ جائیں تو انھیں کچھ نہ کہیں ؟“
”ہونہہ!....ہم میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں ؟....ہم خود لوگوں سے چھپتے پھر رہے ہوں گے ؟“
”یار !....میں کچھ نہیں جانتا ؟اگر لی زونا آج نظر آ گئی تو میں تمھیں گولی نہیں چلانے دوں گا؟“سردار حتمی لہجے میں بولا ۔
”اچھا اب فالتو کی باتوں کو چھوڑو ؟....پہلے مرحلے میں چھپنے کی کوشش کرنا ہو گی ۔باتیں بالکل ختم ، دائیں بائیں کا اچھی طرح جائزہ لو ؟یہ دیکھو دشمن کہاں کہاں چھپ سکتا ہے ؟“
”اوکے باس !“سردار نے مزاحیہ انداز میں کہا اور ہم دائیں بائیں کا جائزہ لیتے آگے بڑھ گئے ۔آدھے گھنٹے بعد ہی مجھے ایک مناسب جگہ دکھائی دے گئی تھی ،مگر میں سردار کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ اس جگہ سے سو میٹر دورجاکرمیں سردار کے ساتھ ایک جھاڑی میں چھپ گیا ۔خوب اچھی طرح دائیں بائیں کا جائزہ لے کر میں نے سردار کو بتایا کہ ہمیں پیچھے مڑنا ہے ۔
”پہلے وہیں رک جاتے ؟“اس نے سرگوشی کی ۔
”ہو سکتا ہے کوئی ہماری نگرانی کر رہا ہو؟....یہاں سے کرال کر کے جائیں گے ؟....“
”ہاں یہ ٹھیک ہے ۔“سردار نے میری تائید کی ۔
چند لمحے دائیں بائیں کا جائزہ لینے کے بعد ہم دونوں اونچی گھاس اور جھاڑیوں میں رینگتے ہوئے پیچھے ہٹنے لگے ۔تھوڑی دیر بعد ہم مطلوبہ جگہ پر پہنچ گئے تھے ۔گھنی جھاڑیوں کے بیچ گھنّی شاخوں والا وہ درخت ایک سنائپر کے لیے بہت مناسب مچان بن سکتا تھا ۔گو ایسی آئیڈیل جگہ دوسروں کی نگاہ میں بھی بہت جلدی آ جاتی ہے مگر وہاں درخت اتنی کثرت سے تھے کہ اس درخت کا نمایاں ہونا آسان نہیں تھا۔
”میں نگرانی کر رہاہوں تم مچان بناو ¿؟“ایک مضبوط شاخ پر بیٹھ کر میں نے سردار کو کہا ۔
اس نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے اپنا پیک اتار کر سائیڈ پر رکھا ۔رائفل دوسری شاخ سے لٹکائی اور مچان بنانے لگا ۔جبکہ میں چوکنا ہوکر دائیں بائیں کا جائزہ لینے لگا۔
مچان کی تکمیل کے ساتھ ہم دونوں اس میں لیٹ گئے ۔
سردار نے پوچھا ۔”اب کیا تین د ن یہیں گزاریں گے ؟“
میں نے جواب دیا ۔”نہیں ،بس آج کا دن ....اس دوران اگر کوئی اس رستے سے گزر گیا تو انجام کو پہنچے گا ؟دوسری صورت میںکل جنگل میں گھوم کر شکار ڈھونڈیں گے ؟“
اسی وقت موبائل پر میسج رسیو ہوا۔میں سردار کو موبائل کے بارے تفصیل سے بتا چکا تھا اس لیے اس نے ٹون کی آواز سن کر کوئی سوال پوچھنے سے گریز کیا تھا ۔میں نے کیمرے کی آنکھ سے بچ کر میسج پڑھا۔ جینیفر نے اپنی جگہ کا چھے ہندسی حوالہ بھیجا تھا ۔(چھے ہندسہ حوالہ معلوم ہونے کے بعد ہم کسی بھی آدمی کی جگہ کے بارے جان سکتے ہیں ۔کہ وہ نقشے کے مطابق کس جگہ پر بیٹھا ہوا ہے ۔آرمی سے متعلق قارئین اس بارے مکمل آگاہ ہوں گے ۔دوسروں کو سمجھانے کے لیے یہ مجمل بات ہی کافی ہے ۔ورنہ تفصیل بتانے کی صورت میں تو شاید اصل کہانی درمیان ہی میں رہ جائے اور ہم نقشہ بینی سیکھنے میں لگ جائیں ۔)
میں نے جی پی ایس پر اپنی جگہ کا چھے ہندسی حوالہ دیکھ کر اسے بھیجا اور پھر نقشہ نکال کر جینیفر کی جگہ دیکھنے لگا ۔وہ ہم سے قریباََسات سو میٹر دائیں طرف موجود تھی۔
اچانک سردار نے سرگوشی بھرے لہجے میں کہا ۔”ذیشان !....ایک پارٹی اسی طرف آ رہی ہے؟“
میں نے اس کی بتائی ہوئی سمت میں نگاہ دوڑائی ۔درختوں کی آڑ لے کر دو آدمی ہماری جانب ہی بڑھتے آ رہے تھے ۔
”کیا خیال ہے ؟“
”بسم اللہ پڑھیں ۔“سر دار نے مجھے دعوت دی ۔
”فاصلہ معلوم کر و؟“میں ٹیلی سکوپ سائیٹ کے حفاظتی کور تار کر شست باندھنے لگا ۔
لیزر رینج فائینڈر سے فاصلہ معلوم کرکے سردار نے جواب دیا ۔”چار سو میٹر ۔“
”ایلی ویشن ناب گھما کر میں نے چار سو کی رینج لگائی اور ان دونوں کے تھوڑا آگے پہنچنے کا انتظار کرنے لگا ۔کیونکہ آگے تھوڑی سی جگہ ایسی تھی کہ انھیں جھاڑیوں یا درختوں کی آڑ میسر نہیں آ سکتی تھی ۔
وہ دونوں آ گے پیچھے چلتے ہوئے جونھی خالی جگہ پر آئے میں نے پیچھے والے کا نشانہ لے کر گولی داغ دی ۔
”ہِٹ ۔“آنکھو ں سے دوربین لگائے سردار نے فوراََ اعلان کیا ۔
یقینا پیچھے والے کے منہ سے خود کو کوسنے کا کوئی فقرہ ادا ہوا ہوگا؟ کہ آگے والا رک کر اس کی طرف متوجہ ہوا ۔اورجب تک آگے والے کی سمجھ میں کچھ آتامیں نے رائفل دوبارہ کاک کر کے فائر کر چکا تھا ۔دونوں کی چھاتیوں پر سرخ نشان ثبت ہو گیا تھا ۔احکامات کے مطابق انھوں نے اپنے پیک سے سفید رنگ کی قمیصیں نکال کر پہن لیں ۔اب انھیں کوئی نشانہ نہیں بنا سکتا تھا ۔
”اگلی دفعہ میری باری ہے ؟“سردار نے کہا ۔اور میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
اس وقت میری سماعت میں ہلکے ہلکے دھماکوں کی آواز آئی ۔یقینا کوئی اور جوڑی مقابلے سے باہر ہو گئی تھی ۔
سہ پہر کے قریب ہمیں بائیں جانب سے ایک جوڑی گزرتی دکھائی دی ۔میں نے سردار کو متوجہ کیا ۔اس نے جلدی سے لیٹ کر شست باندھی اور میں ان کا فاصلہ ناپنے لگا مگر اس کے فائر کرنے سے پہلے فائر کی آواز ہمارے کانوں میں پہنچی ۔وہ دونوں کسی اور کی گولی کا نشانہ بن گئے تھے ۔
”دھت !....“سردار نے منہ بنایا۔
”تمھاری قسمت محترم !.... ؟“میں نے کہا ۔
اس کے بعد شام کے قریب ایک اور جوڑی دکھائی دی ۔دونوں سنائپر کہیں مچان بنانے کے فکر میں تھے ۔اس بار بھی سردار نے انھیں نشانہ بنانے کی کوشش کی مگر سردار سے پہلے ہی وہ کسی دوسرے کا نشانہ بن گئے تھے ۔
سردار زچ ہو کر بولا۔”کیا مصیبت ہے یار !“
”اب تمھاری باری ختم ۔“میں نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔
”ٹھیک ہے ؟تم اپناشوق پورا کرلو ؟“سردار نے اپنی رائفل ایک طرف پھینک دی تھی ۔مگر اس کے بعد کوئی نہ آیا اور اندھیرا چھا گیا ۔
میں نے کہا ۔”ایک آدمی کو جاگنا پڑے گا ؟“
”ٹھیک ہے تم سو جاو ¿۔“سردار اطمینان سے بولا۔اور میں رائفل کو چھاتی سے لگا کر لیٹ گیا ۔
ایک بجے کے قریب سردار نے مجھے ہلایا۔
”ٹھیک ہے خان صاحب !....سو جاو ¿۔“میںآنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا ۔تھوڑی دیر بعد میں سردار کی بھاری سانسوں کی آواز سن رہا تھا ۔
گھنٹا ڈیڑھ بعد میں فطری تقاضا پورا کرنے کے لیے نیچے اترا ۔مچان سے تھوڑی دور ہوتے ہی مجھے پانچ چھے گز دور ہلکی ہلکی روشنی کی جھلک نظر آئی ۔کوئی آگ جلا کر کچھ پکانے کی تگ و دو میں تھا ۔ میں نیچے اترنے کے مقصد کو موخّر کرتے ہوئے جلدی جلدی درخت پر چڑھا ،اپنے پیک سے نائیٹ ویژن گاگل نکال کر آنکھوں پر لگائی اور رائفل اٹھا کر نیچے اتر آیا ۔سردار کو اٹھانے کی ضرورت میں نے محسوس نہیں کی تھی ۔اندھیرے کے باوجود میں نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور درختوں کی آڑ لیتا ہوا اس جانب روانہ ہو گیا ۔آخری سو میٹر کا فاصلہ میں نے کرالنگ کرتے ہوئے طے کیا تھا ۔بیس پچیس گز دور رک کر میں ان کی باتوں کی طرف دھیان دیا ۔وہ شاید قہوہ یا چاے وغیرہ بنا چکے تھے ۔پشتو سے ملتے جلتے فارسی لب لہجے سے میں نے فوراََ پہچان لیا کہ وہ ایرانی سنائپر تھے ۔ دونوں کا رخ دوسری جانب تھا ۔اتنے فاصلے سے مجھے شست لینے کی بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی ۔نائیٹ ویژن سائیٹ اتارے بغیر میں نے پہلی گولی فائر کی ۔دھماکے کی آواز سن کر وہ اچھل پڑے تھے ۔مگر ان کی کسی حفاظتی تدبیر سے پہلے میں نے دوسری گولی بھی فائر کر دی تھی ۔
”گڈ یار !....اب ہو کون سامنے ہی آ جاو ¿۔“گولی کی چوٹ کھاتے ہی ان میں سے ایک مزاحیہ انداز میں بولا۔مگر میں اس کی بات کا جواب دئےے بغیر پیچھے مڑا اور تیز قدموں وہاں سے رخصت ہو گیا ۔میں ان کے ساتھ بات چیت کر کے کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا ۔کیونکہ گولی چلنے کے بعد اگر وہاں قریب کوئی دوسری پارٹی موجود ہوتی تو وہ مجھے نشانہ بنا سکتی تھی ۔وہ مجھے انگریزی میں مخاطب ہوا تھا اس لیے مجھے سمجھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا ۔
”ٹھیک ہے نہ بتاو ¿؟“اسی آدمی نے دوبارہ آواز دی ۔”ویسے شکریہ ۔اب ہم جا کر آرام کر سکیں گے ؟“
واپسی پر سردار مجھے سوتا ہوا ملا ۔اور اس کی وجہ یقینا یہ تھی کہ ایک تو اسے معلوم تھا کہ اس کا ساتھی جاگ رہا ہے ۔اور دوسرا یہ کوئی اصلی جنگ نہیں تھی۔ورنہ ایک سنائپر اتنی بے فکری سے نہیں سو سکتا۔
صبح کے قریب میں ایک بار پھر نیچے اترا ،اور نقشہ کھول کر ٹارچ کی روشنی میں جنگل میں موجود پانی کا مقام تلاش کرنے لگا ۔ٹارچ کی روشنی کو چھپانے کے لیے میں نے ایک چادر اوڑھ لی تھی ۔ درمیانی سی جھیل اس جگہ سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر تھی ۔ڈگری ،فاصلہ وغیرہ نوٹ کرنے کے بعد میں نے نقشہ لپیٹ کر پیک میں ڈالا ۔اور مچان پر چڑھ کر سردار کو جگانے لگا
”خان صاحب !....اٹھ جاو ¿۔“
”اٹھ گیا یار !....سردی سونے ہی کدھر دے رہی ہے ؟“سردار جمائی لیتے ہوئے بیٹھ گیا۔واقعی سردی کافی زیادہ تھی ۔اس کے باوجود کہ ہم نے گلی سوٹوں کے نیچے گرم لباس پہنے ہوئے تھے پھر بھی سردی کی شدت میں کوئی خاص کمی محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔
میں نے کہا۔”حرکت کرنے کے لیے سب سے بہترین وقت یہی ہے ؟“
”بس مجھے دس منٹ درکار ہیں تیاری کے لیے؟“سردار نے کہا اور میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
تھوڑی دیر بعد ہم محتاط انداز میں جھیل کی جانب روانہ تھے ۔ایسی حالت میں بات چیت کرنا بالکل مناسب نہیں ہوتا ۔اس وجہ سے ہم دونوں کی زبان پر بھی تالے لگے تھے ۔
ہم بہ دقت تمام تین کلومیٹر چلے تھے کہ اچانک میرے کانو ںمیں ہلکی ہلکی باتوں کی آواز پڑی۔اپنے قدم روکتے ہوئے میں نے تصدیق کرنا چاہی ۔سردار نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا مگر پھر باتوں کی آواز اس کے کانوں تک بھی پہنچ گئی تھی ۔
ہم دونوں ایک دم لیٹ گئے ۔
”یہیں رکو ۔“اسے کہہ کر میں رینگتا ہوا ایک درخت کے تنے کی آڑ لے کر اٹھ کر بیٹھ گیا ۔
ابھی تک سورج طلوع نہیں ہوا تھا مگر روشنی پھیل چکی تھی ۔وہ دونوں ہم سے پچاس میٹر دور ہوں گے ۔دونوں اپنا سامان پیک کر رہے تھے ۔یقینا انھوں نے رات وہیں گزاری تھی ۔میں بغیر وقت ضائع کیے دو گولیاں فائر کر دیں ۔دونوں بڑی آسانی سے نشانہ بن گئے تھے ۔میںجھک کر بھاگتا ہوا سردار کے نزدیک پہنچا اور ہم آگے روانہ ہو گئے ۔
جھیل کے کنارے ایک مناسب درخت پر میں نے مچان بنائی اور وہیں بیٹھ گئے ۔ڈیوٹی کا نمبر سردار کا تھا ۔ہم بہ مشکل اوپر پہنچے ہی تھے کہ جینیفر کا پیغام آ گیا ۔وہ میری جگہ کے بارے پوچھ رہی تھی ۔
میں نے جی پی ایس پر دیکھ کر اپنی جگہ کا چھے ہندسہ حوالہ دے دیا ۔
جھٹ اس کا اگلا پیغام ملا۔”ہم بھی اسی جانب آرہے ہیں ؟....پہنچ کر اپنی جگہ کے بارے بتاتی ہوں ۔“
”اوکے ۔“لکھ کر میں نے آنکھیں بند کر لیں ۔یوں بھی سردار نگرانی کر رہا تھا ۔اور پھر مجھے اونگھ آرہی تھی کہ موبائل فون پر پیغام کی ہلکی سی گھنٹی بجی ۔”شاید وہ اپنی جگہ کے بارے بتا رہی ہے ؟“ایک بار تو میں میرے جی میں پیغام کو نظر انداز کرنے کا خیال آیا۔کیونکہ میں اٹھ کر بھی وہ پیغام پڑھ سکتا تھا ،مگر پھر نہ چاہتے ہوئے بھی میں پیغام کھول کر پڑھ لیا۔
پیغام پڑھتے ہی میری غنودگی غائب ہو گئی تھی ۔جینیفر نے لکھا تھا کہ اس نے شری کانت اور راج پال کو ہمارے طرف جاتے دیکھا ہے ۔“
میں فوراََ لکھا۔”تو نشانہ کیوں نہیں بنایا؟“
اس کا شوخی بھرا پیغام موصول ہوا ۔”میں ایسی حالت میں نہیں تھی کہ انھیں نشانہ بنا سکتی ....میرا مطلب ہے جب تک میں پتلون پہنتی وہ درختوں کے جھنڈ میں غائب ہو گئے تھے ۔یوں بھی میں اپنا ہتھیار اپنے ساتھی کے پاس چھوڑ آئی تھی اور وہ مجھے سے پچاس ساٹھ میٹر دور تھا۔“
”کس جانب سے آرہے ہیں ؟“
اس نے مختصراََ لکھا۔”شمال ۔“
”ٹھیک ہے ،شکریہ ۔“لکھ کر میں سردار کو مخاطب ہوا ۔
”خان صاحب!....ذرا ہوشیار رہنا ؟“
”کیا ہوا ؟“اس نے بے تابی سے پوچھا ۔
”شاید ہمارے پڑوسی اسی جانب آ رہے ہیں ؟“میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی ۔ اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے وہ چاروں طرف دیکھنے لگا جبکہ میں دائیں جانب متوجہ رہا ۔کہ وہی سمت شمال بھی تھی ۔
وہ مجھے جلد ہی دکھائی دے گئے تھے ۔اگر اگر جینیفر اطلاع نہ دیتی تو شاید وہ چھپ کر ہماری پوزیشن تک پہنچ جاتے ۔مگر سوال یہ تھا کہ انھیں ہماری جگہ کے بارے معلوم تھا یا وہ یونھی احتیاط سے حرکت کر رہے تھے ۔موخّر الذکر سوچ مجھے صحیح لگی کیونکہ ہمارے چھپنے کی جگہ کے بارے صرف جینیفر جانتی تھی ۔ اور جینیفر سے یہ بعید تھا کہ وہ ایسا کچھ کرتی ۔بلکہ اس نے تو مجھے ان کے آنے کی اطلاع دی تھی ۔
”سردار !....وہ دیکھو ؟“میں نے سردار کو ان کی جانب متوجہ کیا ۔وہ دونوں قریباََ تین سو میٹر دور تھے ۔
”اب میری باری ۔“سردار نے شست باندھتے ہوئے کہا ۔جبکہ میں ان کا درست فاصلہ اور ہلکی ہلکی چلنے والی ہوا کی رفتا ناپ کر سردار کو مدد دینے لگا ۔سنائپرز کاجوڑیوں کی شکل میں حرکت کرنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ دونوں میں سے ایک آدمی فائر کرتا ہے جبکہ دوسرا ہوا کی رفتا ر، درست فاصلہ وغیرہ ناپتا ہے ۔
”چارسو بیس میٹر۔“میں نے اسے فاصلے سے آگاہ کر کے ونڈ میٹر دیکھنے لگا۔”دو کلومیٹر فی گھنٹا۔“میں نے اسے ہوا کی رفتا ر بھی بتا دی ۔
”ٹھیک ہے ۔“کہہ کر وہ شست باندھنے لگا ۔میں نے دوربین آنکھوں سے لگا لی تھی ۔چند لمحوں کے بعد اس نے ٹریگر دبادیا۔ایک زور دار دھماکے کے ساتھ جھک کر حرکت کرنے والا الٹ کر پیچھے جا گر ا تھا ۔
فائر کی آواز اور ہدف کے گرنے کے اندازکو دیکھتے ہی میرا دل کسی انجانے خطرے کے زیر ِ اثر دھڑکنے لگا ۔
”رائفل ادھر دو ؟“وہ دوبارہ شست باندھ رہا تھا کہ میں نے اس سے رائفل جھپٹ لی ۔
”کیا ہوا ؟“اس نے حیرانی سے پوچھا ۔
اسے جواب دیئے بغیر نے میگزین کیچ دباکر میگزین کو رائفل سے علاحدہ کیا اور میرے بدترین اندیشے درست ثابت ہوئے ۔
میں نے سرسراتے ہوئے لہجے میں کہا ۔”سردار !....یہ ایمونیشن تو اصلی ہے ؟“
”کک کیا ....؟“سردار کا رنگ اڑ گیا تھا۔”م....مم ....مگر میں نے تو ....پینٹ ایمونیشن ڈالا تھا ؟“
”یہ رائفل بھی اصلی ہے ؟....تم کل سے لیے پھر رہے ہو ؟....کیا اتنا اندازہ نہیں ہو سکا تمھیں ؟“ناگواری سے رائفل نیچے رکھتے ہوئے میں نے دوربین آنکھوں سے لگا لی ۔اس کا ساتھی گھٹنوں کے بل اس کے ساتھ بیٹھا ہوا شاید اس کے زخم سے خون روکنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
اسی وقت ہمارے پاس موجود واکی ٹاکی پر ایک پیغام دہرایا گیا۔
”مشق اختتام پذیر ہوئی ؟....کوئی سنائپر اب گولی نہیں چلائے گا ۔میں دہرا رہا ہوں کوئی سنائپر اب گولی نہیں چلائے گا ۔ایک سنائپر شدید زخمی ہو گیا ہے ۔تمام واپس کیمپ میں آ جائیں ....“یہ پیغام بار بار دہرایا جانے لگا ۔
اچانک موبائل پر جینیفر کی کال آنے لگی ۔تمام احتیاط بالائے طاق رکھ کر میں نے کال رسیو کر لی ۔
”ذی !....کیا ہوا ؟“اس کے لہجے میں پریشانی تھی ۔
”پپ....پتا نہیں ؟“میں گڑبڑا گیا تھا ۔
”ذی !....شاید تمھاری گولی سے انڈین سنائپر زخمی ہو گیا ہے ؟....یوں کرو واپس کیمپ لوٹ جاو ¿۔زخمی سنائپر کے قریب نہ جانا ۔تمھیں دیکھ کر وہ جھگڑا نہ شروع کر دیں ۔اور کسی کو بھی اصل بات کی ہوا نہ لگنے دینا ۔میں واپس آکر تم سے بات کرتی ہوں ؟“
”ٹھیک ہے ۔“رابطہ منقطع کر کے میں ہکا بکا بیٹھے سردار کو نیچے اترنے کا اشارہ کیا ۔نیچے اترتے ہی میں نے رائفل سے زندہ گولیاں نکال کر نیچے پھینکیں اور میگزین میں پینٹ ایمونیشن بھر دیا ۔ سردار کے حوالے اس کی رائفل کر کے ہم کیمپ کی جانب بڑھ گئے ۔
”خود پر قابو پاو ¿؟“سردار کے چہرے پر ثبت پریشانی کے اثرات دیکھ کر میں نے اسے تسلی دی۔
”مجھے اچھی طرح یاد ہے ذیشان بھائی کہ میں نے میگزین میں پینٹ ایمونیشن لوڈ کیا تھا ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میرے پاس ڈمی رائفل تھی ۔نہ جانے کب رائفل اور ایمونیشن بدلی ہوا ؟“
”اچھا فی الحال خاموش رہو ۔اور اس بارے کسی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ۔“
اسے چپ کر ا کے میں اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑانے لگا ۔مجھے سردار کی بے گناہی پر کوئی شبہ نہیں تھا۔مگر صرف میرے کہنے سے تو کوئی اسے بے گناہ نہ مانتا۔سب سے بڑھ کر ایک انڈین سنائپر اس کی گولی سے گھایل ہواتھا ۔ہمیں چلتے ہوئے دس پندرہ منٹ ہوئے تھے کہ ایک ہیلی کاپٹر گڑگڑاتا ہوا ہمارے سروں پر سے گزر گیا ۔یقینا وہ زخمی کو اٹھانے جا رہا تھا ۔پھر ایک چکر فضا میں کاٹ کر ہیلی نیچے بیٹھنے لگا۔ہمارے کیمپ تک پہنچنے سے پہلے ہیلی واپس روانہ ہو گیا تھا ۔
گھنٹے ڈیڑھ میں ہم اس جگہ پہنچ گئے تھے جہاں سے مشق کی شروعات ہوئی تھی ۔مشق سے باہر ہونے والے سنائپرز واپس کیمپ پہنچ چکے تھے ۔ہم فلم ہال میں بیٹھ کر باقی سنائپرز کا انتظار کرنے لگے ۔ہم سے پہلے بھی چند سنائپرز موجود تھے ۔وہ بھی مشق کے ایک دم ختم ہونے پر حیرانی کا اظہار کر رہے تھے ۔زخمی ہونے والے سنائپر کے متعلق بھی وہ قیافہ شناسی کر رہے تھے ۔لی زونا بھی وہاں موجود تھی ۔
میںنے سردار کو آہستہ سے کہا ۔”لی زونا کو کچھ نہ بتانا ؟“
لی زونا ہمیں دیکھتے ہی جلدی سے ہماری طرف بڑھی ۔
”شکر ہے تم لوگ ٹھیک ہو ؟“ہم سے مصافحہ کرتے ہوئے وہ آہستہ سے بولی ۔”ویسے پتا چلا کون زخمی ہوا ہے ؟“
”فکر نہ کرو ،تھوڑی دیر تک پتا چل جائے گا ؟“میں نے جھوٹ بولنے کے بجائے بات کو گول مول کرنا مناسب سمجھا ۔
اگلے دس پندرہ منٹ میں تمام پہنچ گئے تھے ۔
انڈین سنائپرز کے ہمراہ مجموعی طور پر بارہ جوڑیا ںبقایا تھیں ۔ان کے علاوہ سارے سنائپرز مشق سے باہر ہو کر واپس کیمپ پہنچ گئے تھے ۔
جینیفر نے آ کر تمام کو بتایا کہ انڈین سنائپرشری کانت شدید زخمی ہو کر ہاسپیٹل پہنچ گیا ہے ۔شری کانت کے زخمی ہونے کی وجہ سے اس نے لا علمی کا اظہار کیا تھا۔
تمام کے اکٹھا ہوتے ہی ہم لگژری بس میں بیٹھے اور واپس روانہ ہوئے ۔
سردار کے چہرے پر ہویدا پریشانی بھرے تاثرات کسی کو بھی حقیقت سے روشناس کرا سکتے تھے۔ میں دبے لفظوں میں اسے اپنی حالت پر قابو رکھنے کا مشورہ دینے لگا ۔
کیمپ میں پہنچ کر ہم نے گلی سوٹ سے چھٹکارا حاصل کیا ۔اور نہا کر سول کپڑے پہن لیے۔
”چاے کے بارے کیا خیال ہے ؟“سردار کے غسل خانے سے نکلتے ہی میں نے پوچھا ۔
”میں بنا دیتا ہوں ؟“وہ الیکٹرک کیتلی کی طرف بڑھ گیا ۔
میں نے پوچھا۔”ویسے تمھارا کیا خیال ہے ؟کہ یہ رائفل کون بدلی کر سکتا ہے ؟“
”کیا یہاں یہ گفتگو کرنا مناسب ہو گا ؟“
”ہاں ....“میں اطمینان سے بولا۔”کیونکہ ،انتظامیہ اس بات سے بے خبر نہیں ہے کہ شری کانت کس کی گولی کا نشانہ بنا ہے ؟“
”میرے خیال میں یہ اسی کاکام ہے جو خود گولی کا نشانہ بنا ہے ؟....“سردار نے کمرے میں پڑے چھوٹے فرج سے ملک پیک کا ڈبہ نکال کر الیکٹرک میں دودھ ڈالنے لگا ۔
میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔”اگر ایسا ہوتا تو وہ کبھی بھی ہمارا پیچھا کرنے کی کوشش نہ کرتے ؟“
”وہ ہمارا پیچھا کب کر رہے تھے ؟“ملک پیک کا خالی ڈبی کوڑا کرکٹ کی ٹوکری میں اچھا ل کر وہ کیتلی میں چاے کی پتی ڈالنے لگا ۔
اس کی بات میرے دل کو لگی ۔”کہہ تو صحیح رہے ہو؟....انھیں کیا خبر کہ ہم کہاں چھپے ہیں ؟“
سردار کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔
”جی آجائیں ؟“میں نے آواز دی اور دروازہ کھول کر ایک انجان آدمی اندر داخل ہوا ۔
”ذیشان !....کون ہے ؟“وہ مستفسر ہوا ۔
”جی !“میں نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا ۔
”تمھیں کرنل یادکر رہے ہیں ؟“
”مجھے ؟....کہاں ہیں وہ ؟“میں حیرانی سے کہتے ہوئے کھڑا ہو گیا ۔
اس نے جواب دیا ۔”آئیں میں تمھیںلے چلتا ہوں ۔“
سردار نے مجھے جانے پر آمادہ دیکھ کر کہا۔”چاے تو پی لیتے ؟“
”واپسی پر پی لوں گا ؟“کہہ کر میں نوواردکے ساتھ چل پڑا ۔تھوڑی دیر بعد میں کرنل کے سامنے تھا۔اسے دیکھ کر حیرانی کے ساتھ میرے دل کی دھڑکن بھی بڑھ گئی تھی ۔کرنل سکاٹ ڈیوڈ کا چہرہ میرے لیے نیا نہیں تھا ۔میں نے اٹن شن ہو کر اسے تعظیم دی اور اس کے اشارے پر اس کے سامنے رکھی نشست سنبھالی۔
وہ چند لمحے مجھے گھورتا رہا ۔میں نے بھی اس سے نظریں نہیں چرائی تھیں ۔
”تو کیا خیال ہے ؟“اس نے بغیر کسی تمہید کے گفتگو شروع کردی۔
”میں نے بتا دیا تھا ؟“
”جانتے ہو قتل کی سزا کیا ہے ؟....تم دونوں کے ہاتھوں ایک انڈین فوجی قتل ہوا ہے ؟ اور ایساغلطی سے نہیں ہوا ....؟“
میں نے بے ساختہ پوچھا۔”کیا وہ مر گیا؟“
”نہیں ....فی الحال تو زندہ ہے ؟مگر مرنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے ؟“
”یہ سراسر الزام ہے ؟....ہمیں پھانسنے کی کوشش کی جا رہی ہے ؟“
”ہاں ۔“ا س نے اثبات میں سرہلایا۔”مگر اس بات کا تو صرف تمھیں یا مجھے پتا ہے نا ؟ ورنہ بہ ظاہر تو یہ قتل عمد ہے اور کیپٹن جینیفر بھی تم لوگوں کے ساتھ شامل ہے ۔اب یہ نہ پوچھنے بیٹھ جانا کہ کیپٹن جینیفر کا مجھے کیسے پتا ؟“
میں نے تلخی سے کہا۔”ظاہر بات ہے ؟....وہ بھی اس سازش کا حصہ ہے ؟“
”نہیں ۔“اس نے نفی میں سر ہلایا۔”اس کے علم میں اصل بات نہیں ہے ۔ہم نے تو بس اسے کورس میں اچھی پوزیشن حاصل کرنے کا طریقہ بتایا تھا ۔اور وہ بے خبری میں استعمال ہو گئی ؟....اس کے بھیجے ہوئے آخری پیغام محفوظ ہیں جس میں اس نے تمھیں انڈین سنائپرز کے آنے کی اطلاع دی ۔اور تمھارے ساتھی نے اصل سنائپر رائفل کا استعمال کیا ۔ورنہ اس سے پہلے بھی تم نے کافی سناپرز کو نشانہ بنایا تھا ۔تو پھران میں سے کسی پر اصل سنائپر رائفل کی گولی کیوں نہیںچلائی گئی ؟“
”پہلے بھی سردار نے ........؟“
”صفائی دینے کی ضرورت نہیں ؟....اس بات کا یقین کیسے دلاو ¿ گے ؟....کیا عدالت میں یہ بات ثابت کر سکو گے ؟جبکہ کیمرے سے بننے والی فلمیں ہمارے پاس ہیں؟“
میں نے گہرا سانس لے کر آنکھیں بند کر لیں ۔درحقیقت ہمیں بڑی چابک دستی اور ہوشیاری سے پھانسا گیا تھا ۔ساری کارروائی بالکل بے داغ تھی ۔
مجھے خاموش پا کر وہ وبارہ بولا۔”گولی چلانے والا الیکٹرک چیئر پر بیٹھے گا ؟اس کا ساتھ دینے والاکم از کم دس سال قید با مشقت پائے گا اور قاتلوں کو معلومات دینے والی کیپٹن کاکورٹ مارشل ہو گا ؟ یہ میں نے کم سے کم سزا تجویز کی ہے ۔“
”کیا چاہتے ہو ؟“
”یہ ہوئی نا مردوں والی بات ؟“کرنل سکاٹ مسکرایا۔”یقین مانو اگر یہ کام تمھارے علاوہ کوئی اور کر سکتا تو ہم کبھی بھی تمھیں تکلیف نہ دیتے ؟“
میں نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔”پھر تو، مجھے فخر کرنا چاہیے کہ میں بھی کچھ ایسا کر سکتا ہوںجو کوئی بھی امریکی نہیں کر سکتا ؟“
”یہ حقیقت ہے ۔انیس سو میٹر کے فاصلے سے آج تک کسی نے بھی ہدف کو نشانہ نہیں بنایا؟“
میں نے منہ بنایا۔”اس میں نشانہ بازی کہاں سے آ گئی ؟“
”کیونکہ تمھیں اٹھارہ سو میٹر کے فاصلے سے ایک آدمی کو نشانہ بنانا ہے ؟“
جاری ہے

No comments: