Ads Top

ﻧﺎﻭﻝ رکھیل از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر 9

ﻧﺎﻭﻝ  رکھیل  از  ریاض_عاقب_کوہلر




#رکھیل
قسط نمبر9
#ریاض_عاقب_کوہلر
تمام اسے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے تھے ۔
”بیٹھو یار !“کبیردادا نے پاشا کے پہلو میں نشست سنبھالتے ہوئے تمام کو بیٹھنے کا کہا۔
”تو کیا نئی تازی ہے ۔“کاشف راجپوت نے ہاتھ میں پکڑے جام سے گھونٹ بھرا۔
”نئی تازی تو کافی ہیں ۔“بوتل اٹھا کر وہ اپنے لیے گلاس بھرنے لگا ۔
اسد خان نے قہقہہ لگایا ۔”ہم تک تو بس آپ کی شادی کی خبر پہنچی ہے ۔“
کبیردادا نے پوچھا ۔”آج دن کو شہاب قصوری نے آپ لوگوں میں سے کسی کو میٹنگ کے لیے بلایا تھا ۔“
پاشا نے کہا ۔”نہیں ۔“باقی کے سر بھی نفی کے اظہار میں ہل گئے تھے ۔
کبیردادا نے پر خیال انداز میں سرہلاتے ہوئے کہا ۔”اس کا مطلب ہے اخلاق حسین شاہ نے بس اپنے ہمدردوں ہی کو اکٹھا کیا ہوا تھا ۔“
اسد خان نے کہا۔”کبیردادا !....بجھارتوں کے بجائے تفصیل سے بات کریں۔“
اس مرتبہ کبیردادا نے اپنی شادی کے بعد ہونے والی ساری گفتگو دہرا دی ۔
”تو اس میں سراسر اخلاق حسین غلطی پر ہے ۔“پاشا نے فوراََ اس کی طرف داری کی ۔
”خیر فی الحال تو اخلاق حسین نے معذرت کر لی ہے ،مگر مجھے اس کے تیور اچھے نہیں لگ رہے تھے ۔مجھے شک ہے اخلاق حسین ،ایس پی ضمیر ،نقیب اور نوشاد آفریدی اندر ہی اندر کوئی کھیل کھیل رہے ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ آج کی میٹنگ میں بھی آپ میں سے کسی کو نہیں بلایا گیا تھا ۔“
”ایس پی ضمیر اوڈھو آج میرے پاس آیا تھا ،کہہ رہا تھا کہ کبیردادا بغاوت پر اتر آیا ہے ہمیں اس کے خلاف متحد ہونا پڑے گا ۔“فصیح الدین نے انکشاف کیا ۔
”میرے پاس نوشاد خان آفریدی آیا تھا اور ایسا ہی کچھ کہہ رہا تھا ۔“شیر خان ہونٹوں میں سگار دبا کر لائیٹر کے شعلے سے سلگانے لگا۔
اسد خان نے کہا ۔”نقیب اللہ جا ن کے ساتھ میرے کافی اچھے تعلقات ہیں اور اس نے مجھے یہ ساری باتیں اس انداز میں سنائی ہیں جس میں سراسر کبیردادا کی غلطی نظر آرہی تھی ۔“
کبیردادا نے کاشف راجپوت اور پاشا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ،مگر دونوں نے نفی میں سرہلا دیا ۔
کبیردادا معنی خیز لہجے میں بولا ۔”اگر میں غلطی پر تھا تو اخلاق حسین معذرت کرنے کیوں میرے گھر آیا تھا ۔“
شیر خان بولا ۔”نوشاد آفریدی کہہ رہا تھا ، چونکہ وہ لڑائی جھگڑ ا نہیں چاہتے اس لیے حق پر ہوتے ہوئے بھی اخلاق حسین شاہ کو آپ کے پاس جانا پڑے گا ۔“
کبیردادا صورت حال پرمفصل روشنی ڈالتے ہوئے بولا ۔”پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ میں سے کسی کو میٹنگ میں کیوں نہیں بلا یا گیا ؟اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ جن سے میرے اچھے تعلقات ہیں یا جو کسی کی بھی طرف داری نہیں کرتے انھیں ایسی میٹنگ سے دور رکھا جائے ۔ دوسرا اگر وہ لڑائی جھگڑا نہیں چاہتے تو میری بیوی کے بارے ایسی بکواس کیوں کی ؟تیسرا اپنے تعلق والے لوگوں سے مل کر میرے خلاف زہر اگلنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ،اگر میں غلطی پر تھا تو تمام کو بلا کر میری غلطی کو سامنے لایاجاتا ۔“
”اب آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں ؟“پاشا مستفسر ہوا ۔وہ کبیردادا کاشاگرداور اچھا دوست تھا ۔
کبیردادانے جواب دیا۔”مجھے بھی کسی کی طرف داری تو چاہیے ہو گی ۔یوں اکیلا میں تمام کا مقابلہ کر بھی لوں تو اپنا زیادہ نقصان کرا بیٹھوں گا ۔“
فصیح الدین بولا ۔”مگر دھمکی آپ نے دی ہے کبیردادا۔“
کبیر دادا نے تیکھے لہجے میں پوچھا ۔”اگر کوئی کرن بھابی کے متعلق ایسی بات کرے تو آپ کا جواب کیا ہوگا ؟“
فصٰح الدین صاف گوئی سے بولا ۔”مگر ان تمام کو لگتا ہے کہ وہ لڑکی آپ کی بیوی نہیں رکھیل ہے ۔اور ایسی لڑکی کے لیے کسی گینگ کے سربراہ پر ہاتھ اٹھانا غلط ہے ۔“
کبیردادا تیکھے لہجے میں بولا۔”آپ کو صرف ایس پی ہی ملا ہے وہ تمام کی نمائندگی کیسے کر سکتا ہے ۔“
فصیح الدین بغیر لگی لپٹی بولا ۔”اس کا کہنا ہے ، شہاب قصور ی کے سامنے آپ نے اعتراف کیا ہے کہ یہ لڑکی صرف چند دن کی مہمان ہے اور یہ کہ چونکہ آپ کی آغوش میں آنے کے لیے اس نے نکاح کی شرط پیش کی تبھی آپ نکاح پرراضی ہو ئے اور اس نکاح کا مقصد بس اس کا عارضی حصول ہے ۔“
کبیردادا نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا ۔”وہ ایک مذاق تھا ۔شہاب صاحب نے مجھے نکاح کی بابت چھیڑا اور میں نے کہہ دیا کہ اگر کوئی لڑکی نکاح کے بعد ہی میرے پاس آنا چاہتی ہے تب مجھے چند بول پڑھوانے میں کیا حرج ہو سکتا ہے ۔“
اسد خان مستفسر ہوا ۔” کیا واقعی آپ اس لڑکی کے لیے سنجیدہ ہیں ۔“
کبیردادا نے کہا ۔”اہمیت ،تعلق کی نوعیت کی ہوتی ہے نہ کہ طوالت کی،فی الحال وہ میری بیوی ہے اور میرے خیال میں اتنا کافی ہے ۔باقی آپ میں سے جس جس کی شادی ہو گئی ہے ان سے کسی نے یہ تصدیق نہیں چاہی ہو گی کہ وہ کب تک بیوی کو اپنے پاس رکھیں گے ۔میں بھی کسی کو یہ اجاز ت نہیں دے سکتا کہ وہ میری خانگی زندگی زیر بحث لائے ۔اور اس کے بعد وہ لڑکی جب تک میرے گھر میں ہے اگراس کے بارے کسی نے غلط لفظ منھ سے نکالا تو مجھ سے کوئی اچھی امید نہ رکھے ۔“
”شاید آپ دھمکی دے رہے ہیں ۔“فصیح الدین نے گھمبیر لہجے میں پوچھا ۔
کبیر دادا نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا ۔”بھلائی کی بات کی ہے اس لیے اسے نصیحت یا مشورہ سمجھیں گے تو غصہ نہیں آئے گا۔“
”انداز تو نصیحت والا نہیں ہے ۔“شیر خان کو بھی کبیردادا کی بات اچھی نہیں لگی تھی ۔
”شیر خان !....آپ نے ثمینہ بیگم کے لیے چار آدمیوں کی عدم آباد کی ٹکٹ کاٹی تھی ، حالانکہ وہ اس وقت تک آپ کی کچھ بھی نہیں لگتی تھی ۔ اور یہ نہ کہنا کہ مجھے اس پر اعتراض ہے ،میرا گلہ صرف یہ کہ میں جس لڑکی سے نکاح پڑھوا چکا ہوں اس کے لیے کیوں ایسا نہیں کرسکتا ۔“ کبیردادا نے افسوس ظاہر کیا ۔
”کبیردادا !....آپ اس لڑکی کے لیے چار افراد کو قتل کر چکے ہیں اور ہمیں اس پر اعتراض بھی نہیں ہے ۔ہمیں تو یہ شکوہ ہے کہ آپ نے ایک گینگ کے سربراہ کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اب وہ بدلہ لینے کے آپ کے خلاف کوئی کارروائی کرے گا تویقینا لڑائی چھڑ جائے گی اور ایسی لڑائی میں نقصان کس کا ہو گا ؟“فصیح الدین ایک لمحے کے لیے رکا اور پھرتمام پر سرسری نگاہ دوڑاتے ہوئے گویا ہوا ۔ ”ہم سب کا اور ہم آپ کویہی بات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔“
کبیردادا اس کی دلیل سے متفق نہیں تھا ۔”تو اس بارے اخلاق حسین کو بھی سوچنا چاہیے تھا ۔“
اسد خان بولا۔”اس نے غلط کیا ہے ،مگر آپ کو نقصان پہچانے کی کوشش نہیں کی ۔ آپ بھی اس کی کسی منظور نظر کو اٹھا لیتے ۔“
کبیردادا نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔”اس کی بیٹی بھی جوان ہے ۔“
”کبیر دادا !آپ اس کی عزت اچھا ل رہے ہیں ۔“فصیح الدین معترض ہوا ۔
”تو میری کوئی عزت نہیں ہے ۔“
”ایک ایم این اے اور گینگ کے سربراہ کی بیٹی اور ایک بازاری لڑکی کے درمیان فرق تو آپ جانتے ہوں گے ۔“
”فصیح الدین !تمھیں شاید معلوم نہیں کہ وہ بازاری نہیں خاندانی لڑکی ہے اور یقینا اخلاق حسین کی بیٹی سے کئی گنا عزت دار، شریف اور باکردار ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ میری منکوحہ بن کر ہی میری خوب گاہ میں داخل ہوئی ہے ۔تمھیں سمجھا اس لیے رہا ہوں کہ میرے مہمان بن کر بیٹھے ہو ۔اورتم اس لیے کہا کہ آپ کا لفظ تم جیسے کے ساتھ لگانا مناسب نہیں لگتا ۔“
فصیح الدین ہاتھ میں تھاما گلاس میز پر رکھتے ہوئے کھڑا ہو گیا ۔”شکریہ اور اب ایسی جگہ بات ہو گی جہاں تمھارے پاس یہ بہانہ نہ ہو کہ میں تمھارے گھر میں بیٹھا ہوں ۔“
”آپ لوگ تو لڑنے لگے ۔فصیح الدین صاحب پلیز بیٹھیں ۔“کاشف راجپوت نے بات سنبھالنے کی کوشش کی ۔
راجپوت صاحب !....اب ہم کسی کو شمشیر دادا بننے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ کل شہاب قصوری کے ہاں اس مسئلے پرتفصیلی بات چیت ہو گی ۔اور جو غلطی پر ہوا اسے معافی مانگنا پڑے گی یا نتیجہ بھگتنا پڑے گا ۔“یہ کہہ کر وہ لمبے قدم رکھتا ہوا باہر نکل گیا ۔
”شاید ہمیں بھی چلنا چاہیے ۔“اسد خان نے خیال ظاہرکیا ۔
”میرا بھی یہی خیال ہے ۔“شیر خان نے اس کی تائید کی تھی ۔
”کیا میں نے غلط بات کی ہے ۔“کبیردادا اسد خان اور شیر خان کی طرف متوجہ ہوا ۔
اسد خان نے کہا۔”اگر بات غلط نہیں بھی تھی تو انداز ضرور غلط تھا ۔“
”آنے کے لیے شکریہ۔”کبیردادا نے کھڑے ہو کر دونوں سے مصافحہ کیا ۔وہ دونوں بھی وہاں سے نکل گئے ۔البتہ کاشف راجپوت اور پاشا وہیں بیٹھے رہے ۔ان کے جاتے ہی پاشا نے کہا ۔
”اگر تھپڑ کی امان پاﺅں تو ایک بات کہوں کبیردادا ۔“وہ کبیر داداسے کافی بے تکلف تھا ۔ کبیردادا کی اجازت ہی سے اس نے علاحدہ گینگ بنایا تھا ۔
کبیردادا نے منھ بنایا۔”ایک تم ہی رہ گئے ہو ،کہہ لو ۔“
”کیا واقعی میں وہ آپ کو بہت پیاری ہے ۔“
”نہیں ،بالکل بھی نہیں ۔“کبیردادا نے نفی میں سرہلایا۔”اگر اخلاق حسین نے بے غیرتی نہ کی ہوتی تو شاید آنے والی صبح اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے واپس بھیج دیتا ۔اب میری انا کا مسئلہ آڑے آرہا ہے ۔مجھے اس لڑکی کی نہیں اپنی پروا ہے ۔کیونکہ ایک ایسی لڑکی جسے میں عارضی طور پر سہی لیکن بیوی کا درجہ دے چکا ہوں اس پر کوئی ہاتھ ڈالے یہ میری غیرت کو گوارا نہیں ۔اگر میں اسے نکاح پڑھا کر نہ لایا ہوتا تو یقینا اتنا سخت ردعمل ظاہر نہ کرتا ۔“
پاشا بغیر لگی لپٹی بولا۔”آپ خود کو دھوکادے رہے ہیں یا ہمیں ۔“
”کیا مطلب ؟“کبیردادا نے ناراضی بھرے لہجے میں پوچھا ۔
”کبیردادا میں نے علاحدہ گینگ ضرور بنا لیا ہے مگر کوشش کے باوجود آپ سے علاحدہ نہیں ہو پایا ہوں ۔میں ہر دوسرے دن آپ کے محافظوں سے تفصیلی بات چیت کرتا ہوں، آپ کے بارے مکمل معلومات لیتا ہوں اور آپ کے محافظ بھی جانتے ہیں کہ میں کیوں آپ سے باخبر رہنا چاہتا ہوں اس لیے وہ کوئی بات نہیں چھپاتے ۔اور آپ نے کل جس کیفیت کے تحت یہ ساری کارروائی کی ہے اس سے ان سطحی ذہنیت کے محافظوں نے بھی اندازہ لگا لیا تھا کہ آپ اپنے حواسوں میں نہیں تھے۔آپ کو اس حالت میں انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔ان کے نزدیک آپ لڑکی کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ اور یہ سچ ہے تو میں گزارش کروں گا کہ واپس لوٹ آئیں ۔آپ کا مقام اور شخصیت اس بات سے میل نہیں کھاتی کہ ایک لڑکی کے لیے بدنام ہو جائیں ۔“
”راجپوت !....آپ کو بھی یہی لگتا ہے ۔“کبیر دادا نے خاموش بیٹھے کاشف سے پوچھا ۔کبیردادا کی طرح وہ بھی شمشیر دادا کا شاگرد تھا ۔اور دونوں شروع دن سے دوست تھے ۔
”ہاں ۔“کاشف راجپوت نے بغیر ہچکچائے اعتراف کیا ۔”جو کچھ سنا ہے اس کے مطابق تو یہی لگتا ہے۔کبیردادا اگر کسی کی خاطر یوں بے چین ہو کر خود ہی بھاگ پڑے تو اس کا مطلب یہی کہ اس شخص کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے ۔ اور اب فصیح الدین کے ساتھ آپ کا سلوک اس بات کو مزید تقویت دے رہا ہے ۔“
”یار!.... آپ لوگوں کے نزدیک بھی میری زبان کی کوئی اہمیت نہیں ،کیا مجھے اس بات سے تکلیف نہیں ہونی چاہیے کہ ایک لڑکی کو میں بیوی بنا کر لایا ہوں اور مجھ سے کم حیثیت کا آدمی اسے اٹھا کر لے جائے یا اس کے بارے بکواس کرنا شروع کرے۔“
پاشا بولا۔”آپ کے گینگ میں درجنوں ایسے افراد موجود ہیں جو اس کام کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتے تھے ۔اور اس سے پہلے بھی آپ اپنے آدمیوں ہی سے کام لیتے ہیں۔ البتہ کوئی بہت ہی اہم کام ہو تو آپ خود تشریف لے جاتے ہیں ،گویا اس چھوکری کو لانا نہایت اہم تھا ۔“
”کیا آج تھپڑ کھانے کا ارادہ کر کے گھر سے چلے تھے ۔“
پاشا بے فکری سے بولا۔”مار لو کبیردادا!....ابھی تک میری عادات تبدیل نہیں ہوئیں ۔“
”آپ لوگ کیوں اسے میری محبوبہ بنانے پر تلے ہیں ؟“وہ جھلاتے ہوئے کھڑا ہو گیا ۔
پاشا نے اس کے ہاتھ سے پکڑ کر دوبارہ بٹھادیا ۔”کبیردادا !....اخلاق حسین نے معذرت کر کے اس لڑکی کو آپ کی بیوی تسلیم کرتے ہوئے گویا سرنڈر کردیا ہے ۔ اب وہ جھگڑا ختم ہو جانا چاہیے تھا۔اس کے بعد ہمیں بلا کے یہ سارا قصہ دہرانے کی کیا ضرورت تھی ۔اگر آپ کے نزدیک اس لڑکی کی اہمیت نہیں تھی اور آپ اس ٹنٹنے کو ختم کرنا چاہتے تھے تو اسی وقت اخلاق حسین کے سامنے ہی اسے طلاق دے کر کہتے بس آپ کی ضدپوری ہو گئی ، یقینا اخلاق حسین بھی خوش ہو کر کسی انتقامی کارروائی سے باز آجاتا ۔“
کبیردادا نے منھ بنایا۔”نہ میں کسی انتقامی کارروائی سے ڈرتا ہوں اور نہ مجھے کسی تھرڈ کلاس انسان کو خوش کرنے میں دلچسپی ہے ۔“
پاشا وثوق سے بولا۔”یقینا آپ کسی سے نہیں ڈرتے ،لیکن جھگڑا تو آپ بھی نہیں چاہتے اسی وجہ سے آپ نے ہمیں بلایا تاکہ دونوں طرف گروپوں کی تعدادبرابر رہے ،مگر فصیح الدین کے اس لڑکی کے خلاف ذرہ سا بات کرنے پر آپ بھڑک اٹھے اور امن برقرار رکھنے کی ساری کوششوں کو ٹھوکر مار دی ، کیونکہ وہ آپ کو بہت عزیز ہے ۔“
”بھاڑ میں جائے وہ ....فضول باتیں نہ کیاکرو ۔“کبیردادا آپے سے باہر ہو گیا تھا ۔
پاشا گھبرائے بغیر بولا ۔”اچھا ٹھیک ہے ،یوں ہے کہ آپ آج رات اس لڑکی کے ساتھ شغل کریں اور صبح سویرے کچھ دے دلا کراسے چلتا کردیں ۔نہ رہے گا بانس نہ بجے کی بانسری ۔“
کبیردادا پرخیال لہجے میں بولا۔”اخلاق حسین اسے تنگ کرے گا ۔“
تو کرتا رہے ۔“پاشا بے پروائی سے بولا ۔” آپ کی ذمہ داری دلاور شیخ تک محدود تھی، اسے پورے پاکستا ن کے مردوں سے بچانے کا ٹھیکا آپ نے نہیں لے رکھا ۔آپ اس کے باڈی گارڈ نہیں ایک گینگ کے سربراہ ہیں ۔خود کو اتنا ہلکا نہ کریں کہ ایک چھوکری کے لیے دوسروں کے ساتھ لڑائی جھگڑا مول لیتے رہیں ۔“
”وہ بہت مظلوم ہے یار !“کبیردادا کا تھکا ہوا لہجہ ظاہر کر رہا تھا کہ اس کے پاس دلائل ختم ہو چکے ہیں ۔
”یقینا وہ پاکستان میں اکیلی مظلوم نہیں ہے ،بلکہ کئی مظلوم تو آپ کے ظلم کا نشانہ بن چکے ہوں گے ۔آپ امام مسجد یا تبلیغی جماعت کے مبلغ نہیں ایک گینگسٹر ہیں ۔کبیر علی خان نہیں کبیردادا ہیں ۔اور دادا کا لفظ آپ کی عمر نہیں عہدے کو ظاہر کر رہا ہے ۔“
”ٹھیک ہے یار، دماغ خراب نہ کرو صبح اسے بھیج دوں گا ۔“وہ اپنے لیے دوسرا گلاس بھرنے لگا ۔
کاشف راجپوت اور پاشا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوگئی تھی ۔
کاشف نے کہا ۔”اب ہمیں بھی اجازت دیں چند ضروری کام نبٹانے ہیں ۔“
”ٹھیک ہے جائیں ، کل شہاب قصوری کے ہاں ملاقات ہو گی ۔“
پاشا خلوص سے بولا ۔”دادا !....میں جانتاہوں کہ آپ اکیلے بھی ان تمام کا مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود میں وعدہ کرتاہوں ہمیشہ ہمیں اپنے دائیں بائیں ہی پائیں گے ۔“
”جانتا ہوں ۔“کبیردادا نے اثبات میں سر ہلادیا۔
ان کے جانے کے دوتین منٹ بعد اس کا سیکرٹری عظیم اجازت مانگ کر اندر داخل ہوا۔
”دادا!.... ساحل والے اڈے پر جانا ہوگا دو دن سے نہیں جا سکے ہیں ۔“
کبیردادا نے دیوارپر ٹنگی گھڑی پر نگاہ دوڑائی سوئیاں ساڑھے دس بجنے کا اعلان کر رہی تھیں ۔ایک لمحہ سوچنے کے بعد وہ اپنے محافظوں کے نام لیتے ہوئے بولا ۔”امتیاز ،باقر وغیرہ کو ساتھ لے جاﺅ میں واپس جا رہا ہوں ۔“
”آپ اکیلے ....“عظیم نے کچھ کہنا چاہا ،مگر کبیردادا کی تیز نظریں دیکھتے ہی گڑبڑا کربات تبدل کردی ۔ ”میرا مطلب ہے کارکے بغیر ۔“
”سوزکی کھڑی ہے نا ،اسی میں چلا جاﺅں گا ۔“کبیردادا نے ہاتھ سے اسے جانے کا اشارہ کیا ۔اور عظیم سرہلاتا ہوا دروازے کی طرف مڑ گیا ۔صحن میں جاتے ہی اس نے امتیاز پارٹی کو تیار ہونے کا حکم دیا ۔
امتیاز نے کہا ۔”کبیردادا کو تو باہر نکلنے دو ۔“وہ چاروں صحن میں کرسیاں لگا کرتاش کھیلنے میں مصروف تھے ۔
”کبیردادا ساتھ نہیں جا رہے ۔وہ واپس گھر جا رہے ہیں ۔“یہ کہتے ہوئے عظیم کبیردادا کی کار کی طرف بڑھ گیا ۔
”اتنی جلدی واپس جا رہے ہیں اور وہ بھی اکیلے۔“باقر نے حیرانی سے کہتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے پتے میز پر پھینک دیے ۔
بخش نے کہا۔”تو کیا ....دادا اکیلا بھی دس پندرہ افرادپر تو بھاری ہے ۔“
”بھئی دادا تو گیا کام سے ۔دس بجتے ہی اسے بی بی حجن کی یاد ستانے لگی ۔“باقر کی تقلید میں امتیاز بھی ہاتھ جھاڑتا ہوا کھڑا ہو گیا ۔
”ویسے کیا کہتے ہویہ عشق کب تک قائم رہے گا ۔“ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے امتیاز ، بخش کی طرف متوجہ ہوا ۔
بخش وثوق سے بولا ۔”اتنی جلدی ختم ہوتا نظر نہیں آتا ۔کم بخت بلا کی خوب صورت اور معصوم ہے ۔آج صبح لان میں نماز پڑھ رہی تھی پھر وہیں ٹہلتی رہی ۔دوپٹا بھی سر سے نہیں سرکنے دیتی ۔پتا نہیں ایک گینگسٹر کے ہاتھ کیسے چڑھ گئی ۔“
رخسار نے خیال ظاہر کیا ۔”ایسی لڑکیاں حد درجہ کی شوہر پرست ہوتی ہیں ، خود سے تو اس نے کبھی طلاق نہیں مانگنا ۔“
امتیاز منھ بناتے ہوئے بولا ۔”بات اس کی نہیں کبیردادا کی مرضی کی ہے ۔“
”وہ اپنے حواسوں میں کب ہے ۔“باقر نے قہقہہ لگایا ۔”دیکھتے نہیں کس طرح دس بجتے ہی بھاگ پڑا ہے ۔جبکہ وہ نمازن صبح اور ابھی شام کو گھر سے نکلتے وقت باہر تک کبیردادا کو رخصت کرنے آئی تھی ۔کار کے داخلی دروازے سے نکلنے تک وہیں کھڑی کبیردادا کی طرف متوجہ رہی ۔دادا بھی بار بار مڑ کر یوں دیکھ رہے تھے جیسے مجنوں لیلیٰ کو دیکھا کرتا تھا ۔“
تمام باقر کی بات پر کھل کھلا کر ہنس پڑے تھے ۔
٭٭٭
کار کے ہارن کی آواز کان میں پڑتے ہی وہ اچھل کر کھڑی ہوئی اور بھاگتے ہوئے باہر نکل آئی ۔ڈرائینگ روم کے دروازے سے نکلتے ہی اس کی نظر سیمنٹ کی روش پر رکتی ہوئی سوزکی کار پر پڑی اور اس کی خوشی ایک دم ماند پڑ گئی تھی ۔وہ کبیردادا کی گاڑی نہیں تھی ۔یوں بھی وہ اکیلی کار میں سفر نہیں کیا کرتا تھا ۔وہ واپس مڑنے ہی لگی تھی کہ دروازہ کھول کر طویل قامت کبیردادا کار سے برآمد ہوا ۔
اس کے مایوسی بھرے چہرے پر تبسم نمودار ہوا اور وہ وہیں جم گئی ۔
کبیردادا نے بھی اسے دیکھ لیا تھا ۔کار سے باہر نکل کر وہ اس سے انجان بنتا ہوا چوکیدار کو مخاطب ہوا ۔
”کار گیراج میں کھڑی کروا دو ۔“
”جی دادا!“کہہ کر چوکیدارڈرائیور کو بلانے چل پڑا ۔
وہ دروازے کی طرف بڑھ گیا جہاں تناوش چہرے پر تبسم بکھیرے کھڑی تھی ۔
”آگئے آپ ۔“اس کے قریب پہنچتے ہی وہ کبیردادا کے بازو سے چمٹ گئی ۔
”کہا تھا نا کہ تمھارے رومانس جھاڑنے سے مجھے کوفت ہوتی ہے۔“
”ملازمین کے سامنے منع کیا تھا نا ۔“شوخی بھرے لہجے میں کہتے ہوئے وہ اس کے بازو سے چمٹی رہی ۔
”کالج کی یونیفارم کیوں پہنی ہوئی ہے ،اور کپڑے نہیں ہیں کیا ۔“کبیردادا جانتا تھا کہ وہ باز آنے والی نہیں ہے ۔اس لیے موضوع تبدیل کر دیا ۔
”کیوں نہیں ہیں ،لیکن میری سہیلیاں کہتی ہیں کہ یہ لباس مجھ پر بہت پھبتا ہے ۔اور ان کپڑوں میں میں زیادہ خوب صورت نظر آتی ہوں ۔پس اسی لیے پہن لیے ۔“
”سچ ہی کہتی ہیں ۔“کبیردادا کے اندر کہیں دور سے ایک آواز ابھری جسے اس کے ہونٹوں تک رسائی حاصل نہیں ہو پائی تھی ۔
اس نے منھ بنایا۔”تو خوب صورت لگنے سے کیا ہوگا۔“
وہ شرارتی لہجے میں بولی ۔”بیوی کا مقصد اپنے شوہر کو خوش کرنا ہوتا ہے ،سوچا شاید اس طرح آپ کو زیادہ پیاری لگوں ۔“
”دماغ خراب ہے تمھارا۔“
”وہ تو ہے ،اگر خراب نہ ہوتا تو آپ سے پیار کرتی ۔“
”منت کس نے کی ہے ۔“کبیردادا کو جانے کیوں اس کی بات سن کر غصہ آگیا تھا ۔ اپنا بازواس کی گرفت سے آزاد کراتے ہوئے وہ صوفے پر بیٹھ گیا ۔
تناوش کھل کھلاتے ہوئے قالین پر بیٹھ کراس کے بوٹوں کے تسمے کھولنے لگی ۔”غصے میں اور بھی پیارے لگنے لگتے ہو ۔“
”شٹ آپ ۔“اسے لگا تناوش اسے چڑا رہی ہے ۔
”ایسا بھی کیا غلط کہہ دیا ہے ۔“اس کے بوٹ اتار کر ایک جانب رکھتے ہوئے تناوش نے اس کے گھٹنوں پر ٹھوڑی رکھ کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی ۔
وہ بیزاری ظاہر کرتے ہوئے بولا ۔”اگر تمھارے رومانس میں تھوڑا وقفہ آجائے تو میں لباس تبدیل کر لوں ۔“
”کر لینا ،ایسی بھی کیا جلدی ہے ۔“اس کے ساتھ بیٹھ کر وہ ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرنے لگی ۔
”پڑھائی ہو رہی تھی ۔“میز پر بکھری کتابیں دیکھتے ہوئے وہ پوچھنے لگا ۔
”ہاں ،سوچا آپ سے اجازت مانگ کر امتحان میں بیٹھ جاﺅں گی ۔ تین چارہفتے بعد ہی امتحان شروع ہوں گے ۔“
”تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔“
”کلاسیں تو اب تک لگ رہی ہیں۔“
”صبح عظیم کو کالج کا نام پتا بتا دینا وہ تین چار دن کی چھٹی کرا دے گا، میرا مطلب تم نے یہاں دو چار دن ہی رہنا ہے اس کے بعد تومیری ذمہ داری ختم ہو جائے گی نا ۔“یہ کہتے ہوئے کبیردادا کو یاد آیا کہ وہ پاشا کو یہ کہہ کر آیا ہے کہ صبح اسے واپس بھیج دے گا ۔مگر تناوش کے سامنے آتے ہی اسے اپنا ارادہ کمزور پڑتا نظر آگیا تھا ۔
وہ کھل کھلاتے ہوئے پر اعتماد لہجے میں بولی ۔”آپ کی مرسڈیز میں بیٹھ کر امتحان دینے جایا کروں گی۔“
”بس شیخ چلی کی طرح منصوبے بناتی رہا کرو۔“
”خوا ب دیکھنے پر پابندی ہے کیا ۔“اس مرتبہ اپنا دکھ چھپا نہیں پائی تھی ۔اس کی بات کبیردادا کو برچھی کی طرح لگی تھی ۔اس کی جانب سر گھماتے ہوئے وہ تسلی دیتا ہوابولا۔
”ٹسوے بہانے کی ضرورت نہیں یہ مرسڈیز تمھاری ہوئی گھر جاتے ہوئے ساتھ لیتی جانا ۔“
”مجھے مرسڈیز نہیں مرسڈیز والا چاہیے ۔“وہ جیسے پھٹ پڑی تھی ۔
”ناممکن ہے ۔“
وہ بگڑ کر بولی ”میں یہیں رہوں گی کہیں نہیں جانے والی سمجھے آپ ۔“
”دماغ خراب نہ کیا کرو ۔“
”ٹھیک کب تھا ۔“
”زیادہ بکواس نہ کیا کرو مار کھاﺅ گی ۔“
”اچھا چھوڑیں نا جھگڑے کو ،یہ بتائیں آج جلدی کیوں لوٹ آئے ۔“
”میری پرچون کی دکان نہیں ہے کہ لگی بندھی روزمرہ ہو گی ۔کوئی ضروری کام نہیں تھا تو لوٹ آیا ہوں ،ممکن ہے ابھی کال آجائے اور جانا پڑے ۔“
”ابھی تو نہیں جانے دوں گی ۔“ قریب ہو کر اس نے سر کبیردادا کے کندھے پر رکھ دیا۔
”جانتی ہو تمھاری محبت جتانے اور چاہت کے اظہار پر مجھے اتنی کوفت ہوتی ہے کہ جی چاہتا ہے تمھیں بغیر لمحہ ضائع کیے گھر بھیج دوں ۔“ بیزاری ظاہر کرتے ہوئے بھی کبیر دادا نے اسے دور نہیں دھکیلا تھا ۔
وہ شرارتی لہجے میں بولی ۔”اگر وعدہ کرو کہ ایسا نہ کرنے پر مجھے گھر نہیں بھیجو گے تو کبھی ایسا نہیں کروں گی ۔“
”ابھی تک اس تحفے کو نہیں کھولا ۔“ اچانک کبیردادا کی نظر اخلاق حسین کے دیے ہوئے تحفے پر پڑی جو ویسے ہی پیک شدہ تپائی پر پڑاتھا ۔
”آپ کا دوست بہ ظاہر تو اخلاق کا مظاہرہ کر رہا تھا ،مگر مجھے یوں محسوس ہواجیسے اس نے دل سے یہ تحفہ نہیں دیا ۔“
کبیردادا کو اس چھوٹی سی لڑکی کے مشاہدے پر خاصی حیرانی ہوئی تھی ۔وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا ۔”صحیح سمجھا ،وہ دوست نہیں ہے ۔بس دوستی کا نقاب پہن کر آیا تھا۔حقیقت میں وہ میرا سب سے بڑا مخالف ہے ۔“
تناوش اس کا بازو چھوڑ کر تپائی کی طرف بڑھی اور تحفے کو اٹھا کر کوڑا کرکٹ کی ٹوکری میں پھینک دیا ۔
”یہ کیوں ؟“کبیردادا نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا ۔
وہ بے پروائی سے بولی ۔”دشمن سے میں زندگی کا تحفہ بھی قبول نہ کروں ۔“
”وہ میرا دشمن ہے ۔“کبیردادا نے اسے یاد دلایا۔
”کیا آپ کے دشمن کو میں خیرخواہ سمجھ سکتی ہوں ۔“
کبیردادا اس کی بات کا جواب دیے بغیر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا ۔تناوش اپنی کتابیں سمیٹ کر اس کے پیچھے بڑھ گئی تھی ۔لباس تبدیل کر کے وہ الماری کی طرف بڑھا۔ تناوش اس کے کپڑے ہینگر میں لٹکانے لگی ۔
”الماری کو تالہ کس نے کیا ہے ۔“
”میں نے ۔“بیڈ کی طرف بڑھتے ہوئے وہ اطمینان بھرے لہجے میں بولی ۔ ”بوتل نکال کر ریک پر رکھ دی ہے نا ۔“
ریک سے بوتل اٹھا کر وہ صوفے پر آ بیٹھا ۔”ایک اور بوتل بھی لے آﺅ۔“
”ایک کافی ہے ۔“تکیے پر نیم دراز ہوتے ہوئے تناوش نے موشگافی کی ۔
”میں سمجھا نہیں ۔“گلاس منھ سے لگاتے ہوئے وہ اس کی طرف متوجہ ہوا ۔
”میں نے کہا ایک بوتل پر گزارہ کریں ۔“
”دماغ جگہ پر ہے تمھارا یا کل والی بے عزتی بھول گئی ہے ۔“
تناوش خاموشی سے اسے گھورتی رہی جواب دینے کی ضرورت اس نے محسوس نہیں کی تھی ۔کبیردادا بھی مزید کچھ کہے پینے کی طرف متوجہ ہو گیا ۔بوتل خالی کر کے وہ اس کی طرف بڑھا۔
”چابی کہاں ہے ؟“اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔
تناوش نے اس کے بازو کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا ۔”بس کریں نا ، ایک بوتل کافی ہے ۔“
”دوں گا ایک ۔“ غصے بھرے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے تھپڑ تولا۔
”دھمکی نہ دیں ،مار لیں ۔“تناوش نے اپنا رخساراس کی جانب سیدھا کیا ۔
”بکواس بند کرو ....چابی ادھر دو ۔“ کبیردادا کا غصہ بڑھنے لگا ۔
”مجھے آدھا گھنٹا دو ،اگر سلا نہ دیا تو پی لینا ۔“کبیردادا کو زبردستی بٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے تناوش نے لگاوٹ ظاہر کی ۔
وہ زچ ہو تے ہوئے بولا۔”آخر تمھیں مسئلہ کیا ہے ۔“
”مسئلہ یہ ہے کہ جو دو دن یہاں ہوں مجھے بھی وقت چاہیے ۔“
وہ دھاڑا۔”نہیں ہو تم دو دن یہاں ،صبح دفع کر دوں گا تمھیں ۔“
”اتنا غصہ کرتے ہیں آپ ۔ملازم سنیں گے تو کیا کہیں گے کہ چھوٹی سی لڑکی کو ڈانٹ رہے ہیں آپ ۔“وہ اسے بچوں کی طرح پچکارنے لگی ۔
”چابی ادھر کرو ۔“
”کہہ دیا نا نہیں دوں گی ،روزانہ اک بوتل پر گزارا کرنا پڑے گا ۔“
کبیردادا جانتا تھا کہ ایک تھپڑ کھا کر اس نے بے ہوش ہو جانا تھا ۔اور زبانی کلامی وہ مان کے نہیں دے رہی تھی ۔وہ لہجے میں تھوڑی نرمی پیدا کرتا ہوا بولا ۔”دیکھو تناوش ،میرے کاموں میں مداخلت کرنا بند کردو ۔میں اپنا اچھا برا جانتا ہوں ۔“
”اگر اچھی چیز ہے تو میں بھی پیوں گی ۔“
وہ زچ ہوتے ہوئے بولا ۔”تو منع کس نے کیا ہے ۔“
وہ کھل کھلا کے ہنسی ۔”کتنے برے ہیں آپ ،چھوٹی سی بچی کو شراب پینے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔“
”چابی ادھر کرو ۔“کبیردادا نے اپنا مطالبہ دہرایا ۔
تناوش نے منت بھرے لہجے میں کہا ۔” اچھا ایک منٹ بیٹھ کر میری بات تو سنیں نا ۔“
”بولو ۔“بادل نخواستہ وہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے مستفسر ہوا ۔
تناوش نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر زبردستی دھکا دے کر تکیے پر لٹایا اور بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولی ۔”میں سلا دیتی ہوں نا ۔“گو کبیردادا اس کے دھکے سے نیچے نہیں گر سکتا تھا مگر جانے کیوں اس نے اپنا بدن اس نرم و نازک لڑکی کے حوالے کر دیا ۔تناوش کی ہٹ دھرمی پر اسے غصہ آرہا تھا ۔غصے کا اظہار بھی اس نے کیا مگر کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا سکا ۔ نہ تو اسے تھپڑ رسید کر سکا نہ زبردستی اس سے چابی چھین سکا اور آخر میں اس کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے وہ لیٹ گیا ، یہ سوچ کر کہ دو دن کے بعد یوں بھی چلی جائے گی ۔یا پھر یہ بھی اس کی غلط فہمی تھی ۔شاید وہ جانے کے لیے نہیں لے جانے کے لیے آئی تھی ۔بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے وہ دھیمی آواز میں گنگنانے لگی ،صورت کی طرح اس کی آواز بھی سریلی تھی ۔کبیردادا کی آنکھیں اس بچے کی طرح بند ہونے لگیں جسے لوری سنائی جا رہی ہو ۔
*جاری ہے۔۔۔۔*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.