ﻧﺎﻭﻝ رکھیل از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر 8
کبیردادا کو دیکھتے ہی عظیم نے جلدی سے دروازہ کھول دیا تھا ۔اس کا چہرہ غصے سے لال بھبکا ہورہا تھا ۔عظیم کو اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ کوئی بہت بڑا مسئلہ ہو گیا ہے ۔نامعلوم اسے کیوں اس سب کے پیچھے کبیردادا کی نئی دلھن ہی دکھائی دے رہی تھی ۔
نشست سنبھالتے ہی کبیر دادا نے کہا ۔”گھر چلو ۔“اور ڈرائیور نے سر ہلاتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی ۔چوکیدار نے کار کو حرکت کرتے دیکھ کر دروازہ کھول دیا تھا ۔
دو تین منٹ کی خاموش کے بعد اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا ....”آپ کا نو بجے والا حکم کارکنوں تک پہنچا دوں ؟“
”فی الحال نہیں ،اگر ایسا کرنا ہوا تو بتا دوں گا ۔“
اس کے بعد گھر آنے تک خاموشی چھا ئی رہی ۔کار کے رکتے ہی عظیم عقبی نشست کا دروازہ کھولنے کے لیے جلدی سے باہر نکلا، مگر کبیردادا نے اس کا انتظار نہیں کیا تھا ۔
”دادا!....آرام کریں گے یا کہیں جانا ہو گا ۔“
”آرام کرو ۔“کہہ کر اس نے اندر کی جانب قدم بڑھا دیے ۔نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی متلاشی نگاہیں تناوش کو ڈھونڈنے لگیں ۔شایدوہ سو رہی تھی ورنہ گاڑیوں کے اندر آنے پر وہ لازماََ باہر نکلتی ۔
اسے کمرے میں بھی موجود نہ پا کر کبیردادا کا پارہ ایک دم بلند ہو گیا تھا ۔
گھنٹی بجا کر اس نے کام والی کو بلایا۔
”جی صاحب جی !“راحت خالہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا ۔
”تناوش کہاں ہے ؟“
راحت خالہ نے حیرانی سے جوا ب دیا ۔”گھر تک گئی ہے صاحب جی ۔“اس کی حیرانی بجا بھی تھی کہ اس سے پہلے کبیردادا نے کبھی کسی لڑکی کے متعلق استفسار نہیں کیا تھا ،چاہے وہ ایک رات گزار کر جانے والیاں ہوں ،چاہے دو تین دن وہاں گزارنے والیاں ہوں ۔
اسے ہاتھ سے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ صوفے پر بیٹھااور موبائل فون جیب سے نکال کر تناوش کا نمبر ملانے لگا ۔مگر پھر کسی سوچ کے تحت اس نے گھنٹی جانے سے پہلے رابطہ منقطع کرکے دوبارہ کام والی کو بلا نے کے لیے گھنٹی بجا دی ۔
راحت خالہ دوبارہ اندر آئی۔”جی صاحب جی !“
”وہ گھر تک کیسے گئی ہے ؟“
”الٰہی بخش چھوڑ نے گیا تھا صاحب!“
”ٹھیک ہے جاﺅ ۔“اسے جانے کا کہہ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھامادو تین منٹ سوچنے کے بعد وہ کسی کا نمبرملانے لگا ۔
”آداب کبیردادا!“دوسری گھنٹی ہی پر کال وصول کر لی گئی تھی ۔
”یار پاشا!....شام کو نو بجے میرے پاس آ سکتے ہو ؟“
”کبیردادا شرمندہ نہ کیا کریں ۔آپ کے حکم سے سرتابی کا میں سوچ بھی کیسے سکتا ہوں ۔“
وہ مزید بولا۔”کاشف راجپوت،اسد خان،شیر خان اور فصیح الدین کو بھی ساتھ لے آنا ۔“
پاشا ہنسا ۔”کوئی میٹنگ وغیرہ ہے یا دعوت کر رہے ہیں۔“
وہ صاف گوئی سے بولا ”کوئی ضروری بات ہے ۔“
”ویسے اڑتی اڑتی خبریں تو مجھ تک بھی پہنچ گئی ہیں ،سنا ہے شادی وادی کے چکروں میں پڑ گئے ہو ۔“
”باقی کی تفصیل ملنے پر ہو گی ۔“
”ٹھیک ہے دادا !....جلد ہی ملیں گے ۔“پاشا نے رابطہ منقطع کر دیا ۔
اس نے موبائل فون ایک طرف پھینکا اور صوفے کی پشت پر سرٹیکتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔
اسی وقت دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ اس طرف متوجہ ہوا ۔تناوش ہاتھ میں سامان پکڑے اندر داخل ہوئی تھی ۔
”کہاں گئی تھیں تم ۔“ایک جھٹکے سے سیدھا ہوتے ہوئے وہ دھاڑا ۔اسے غصے میں پا کے تناوش ہکا بکا رہ گئی تھی ۔
”میں گھر تک گئی تھی ۔“اس کا غصہ تناوش کی سوچ سے ماورا تھا ۔
”کس سے پوچھ کر اور ایک دن میں تمھیں ماں کی یاد ستانے لگی ۔“
”مجھے پوچھنے کا خیال نہیں رہا ،سوچا تھا آپ کی آمد سے پہلے واپس لوٹ آﺅں گی ، مگر آپ کچھ جلدی لوٹ آئے ہیں ۔“
”تمھیں میری روز مرہ کا کیا پتا ؟“وہ ابھی تک غصے میں تھا ۔
”تو کیا ہوگیا ہے ،گھر تک ہی گئی تھی ۔“بے پروائی سے کہتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑا سامان کرسی پر رکھا اور اس کے قریب آگئی ۔
”یہ بکواس اس لیے کر رہی ہو کہ تمھیں صورت حال کا علم نہیںاور یہ پتا نہیں ہے کہ میرے کتنے دشمن ہیں جو تمھیں نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔“
”افف اللہ جی اتنی فکر مندی ۔“شوخی بھرے لہجے میں کہتے ہوئے وہ قالین پر بیٹھ کر اس کے بوٹ کھولنے لگی ۔
ایک دم کبیردادا کو لگا کہ اس کا غصہ کرنا اور تشویش کا اظہار واقعی یہ ظاہر کر رہا تھا کہ اسے تناوش کی فکر تھی ۔لیکن اس بات اقرار کرنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا ۔وہ فوراَغصے کا اظہار کرتے ہوئے بولا ۔
”فکر کرتی ہے میری جوتی ....اور تمھیں کس نے کہا کہ میرے بوٹ اتارو ۔“
وہ اطمینان سے بولی ۔”کیونکہ آپ اس وقت آرام کرتے ہیں ،سات بجے تک لیٹے ہیں ،آٹھ بجے ڈنر کر کے گھر سے نکل جاتے ہیں ،واپسی رات کے ایک دو بجے تک ہوتی ہے ،کبھی کبھی پوری رات نہیں آتے ۔آپ کا کیا خیال ہے آپ مجھے اپنی روزہ مرہ نہیں بتائیں گے تو میں کسی اور سے بھی نہیں پوچھوں گی ۔“یہ کہتے ہی وہ مسکرائی ۔”آج پتا نہیں کیوں جلدی لوٹ آئے ہیں ،شاید نئی نویلی دلھن کی یاد ستانے لگ گئی تھی ،اسی وجہ سے غصہ بھی کر رہے ہیں کہ میں کہاں گئی تھی ہے نا ۔“
اس نے بیزاری بھرے لہجے میں کہا ۔”دماغ خراب نہ کیا کرو ۔“
”اچھا نہیں کرتی دماغ خراب ،اب غصہ تھوکیں اور آرام کریں ۔آج کے بعد پوچھے بغیر خواب گاہ سے بھی قدم باہر نہیں نکالوں گی ۔“جوتے اتار کر وہ اس کی ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرنے لگی ۔
”مجھے تمھارے مشورے کی ضرورت نہیں ہے ۔“اسے ایک طرف ہٹا کر وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا ۔مگر وہ اس کی بیزاری کو خاطر میں لائے بغیر اس کے ساتھ ہی چل پڑی ۔
”میرا خیال ہے میں بچہ نہیں ہوں ،اپنے لباس تبدیل کر لوں گا ۔“اسے اپنے ساتھ ڈریسنگ روم میں گھستے دیکھ کر وہ جھلا گیا تھا ۔
وہ شوخی سے بولی ۔”ہاں بچے تو نہیں ہیں ،مگر اتنے بڑے بھی نہیں ہوئے کہ میں آپ پر دھیان دینا چھوڑ دوں ۔“
”دوں گا ایک ۔“کبیردادا نے اسے ڈرانے کے لیے تھپڑ تولا ۔
”سچ میں ۔“الماری سے سلپنگ سوٹ نکال کر اسے تھماتے ہوئے اس نے شوخی سے آنکھیں مٹکائیں ۔
کبیردادا اسے گھور کر رہ گیا تھا ۔
”گھورنا بند کریں اور بنیان بھی اتار لینا ،اس دن آپ کو ملنے آئی تھی اسی بنیان میں جناب آرام فرما رہے تھے ۔“بڑی ماں کی طرح ایک اور نصیحت جھاڑتے ہوئے وہ باہر نکل گئی ۔ کبیر دادا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے اس کی ہر بات برداشت کر رہا ہے ۔
ڈریسنگ روم سے نکل کر اس نے اپنا سامان اٹھایا اور دوبارہ اندر گھس آئی ۔الماری میں لٹکے خالی ہینگرز کے ساتھ وہ اپنے کپڑے لٹکانے لگی ۔کبیر دادا لباس تبدیل کر کے بیڈ کی طرف بڑھ گیا تھا ۔
وہ بھی اپنے کپڑے اور جوتے وغیرہ سنبھال کر بیڈ کی طرف بڑھ گئی ۔اس کے ساتھ پڑے تکیے پر کہنی سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی ۔
”آج جلدی کیوں آئے ۔“تناوش کا لہجہ بالکل کسی خیال رکھنے والی بیوی کا سا تھا ۔
”تمھیں اس سے کیا کہ میں کس وقت لوٹتا ہوں ۔بتایا ہے نا جو چند دن یہاں گزارنے ہیں اپنے کام سے کام رکھا کرو۔“یہ کہتے ہی اس نے تناوش کاہاتھ سر سے دور دھکیلا ۔ ”سونے دو مجھے ۔“
”سلا ہی رہی ہوں نا ۔“منھ بناتے ہوئے وہ دوبارہ اس کے سر میں انگلیاں پھیرنے لگی ۔
وہ جھلاتے ہوئے بولا ۔”لیکن میں اس کا عادی نہیں ہوں ۔مجھے اس طرح نیند نہیں آئے گی ۔“
وہ اطمینان بھرے لہجے میں بولی۔”تو جب تک میں یہاں ہوں ،عادت ڈال لیں ۔“
وہ بپھرتے ہوے بولا ۔”میرا خیال ہے تمھیں آج ہی واپس بھیجنا پڑے گا ۔“
اس نے شوخی بھرے لہجے میں پوچھا ۔”کیا تنگ نہیں کروں گی تو واپس نہیں بھیجیں گے ۔“اپنا ہاتھ اس نے پیچھے نہیں ہٹایا تھا ۔
وہ لہجے میں تلخی سموتے ہوئے بولا ۔”کم از کم آج تو نہیں بھیجوں گا ۔“
”دھمکیاں نہ دیں ۔یہ لیں ،نہیں کرتی تنگ ۔“منھ بسورتے ہوئے وہ پیچھے ہو کر گھٹنوں میں سر دے کے بیٹھ گئی ۔
کبیردادانے آنکھیں کھول کر اس کی طرف سر گھمایا ۔وہ چھوٹی سی بچی کی طرح گھنٹوں پر سر ٹیکے منھ بنائے بیٹھی تھی ۔کبیردادا کے ہونٹوں پر ہنسی نمودار ہوئی ۔وہ اس کی حالت دیکھ کر محظوظ ہوتا ہوا بولا۔
” تمھارے روٹھنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔“
گہری سیاہ آنکھوں میں اداسی بھرے وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔”کسی کی بے بسی کا مذاق نہیں اڑاتے۔“
کبیردادا کے دل کو کچھ ہونے لگا تھا ۔”اچھا جو کرنا ہے کرو ....ٹسوے بہانے کی ضرورت نہیں ۔باقی آج نہیں تو کل تمھیں جانا تو پڑے گا ۔“
”کل کی کل دیکھی جائے گی ۔“خوشی سے چہکتے ہوئے اس نے دوبارہ تکیے پر کہنی ٹیکی اور اس کی ملائم انگلیاں کبیردادا کے بالوں میں سرسرانے لگیں ۔
کس وقت جگاﺅں ۔“
اس مرتبہ ناک بھوں چڑھائے بغیر کبیردادا نے جواب دیا ۔”ساڑھے سات تک جاگ جاتا ہوں ۔“
”ٹھیک ہے ۔“کہہ کر وہ اپنے کام میں لگی رہی ۔تھوڑی دیر بعد ہی کبیر دادا کے سانس بھاری ہوئے اور وہ نیند میں ڈوب گیا ۔عصر کی آذان سن کر وہ وضو کرنے غسل خانے میں گھس گئی۔ وضو کر کے اس نے ایک خالی کمرے میں جائے نماز بچھائی جہاں کوئی تصویر وغیرہ ٹنگی ہوئی نہیں تھی ۔ورنہ تو ہر جگہ جنگل کے بادشاہ کی تصاویر لگی تھیں ۔جائے نماز وہ گھر سے اٹھا لائی تھی ۔
نماز پڑھ کر باورچی خانے میں گھستے ہوئے وہ راحت خالہ کا ہاتھ بٹانے لگی ۔ ساتھ ساتھ وہ کبیردادا کی پسند ونا پسند وغیرہ کے بارے بھی راحت خالہ کو کریدتی رہی ۔
باتوں ہی باتوں میں راحت خالہ کہنے لگی ۔”بی بی جی، سچ کہوں تو آپ کے ساتھ صاحب جی کا رویہ عجیب سا ہے ۔اس سے پہلے اس نے کبھی کسی خاتون کے بارے مجھ سے کچھ دریافت نہیں کیا ۔آج تو حقیقت میں اتنا غصے میں تھے کہ میں ڈر ہی گئی تھی ۔“
”کیا پوچھ رہے تھے ؟“تناوش کو راحت خالہ کی بات سن کر خوشی محسوس ہوئی تھی ۔
”یہی کہ کہاں اور کس کے ساتھ گئی ہے ۔پریشان سے نظر آرہے تھے ۔“
”خالہ آپ جانتی تو ہیں انھیں اپنے دشمنوں کی وجہ سے پریشانی رہتی ہے ۔“
راحت خالہ معنی خیز لہجے میں بولی ۔”دشمن انھیں کیا کہہ سکتے ہیں۔وہ تو بس آپ کی وجہ سے پریشان تھے ۔“
وہ خوشی سے چہکی ۔”تو بیوی کے لیے شوہر کو پریشان ہونا پڑتا ہے نا خالہ !“
”بی بی جی خفا نہ ہوں تو ایک بات بولوں ۔“
”کہو خالہ ۔“وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔
”صاحب جی !....عورتوں کے معاملے میں مستقل مزاج نہیں ہیں ۔“
”خالہ !....جانتی ہیں آج تک آپ کے صاحب کو بیوی ملی ہی نہیں ہے ۔بازاری عورتیں کسی مرد کی جسمانی خواہشات کو تو وقتی طور پر پورا کر دیتی ہیں مگر وہ بیوی کی جگہ نہیں سنبھال سکتیں ۔ ایک مرد کو صرف بستر کے ساتھی ضرورت نہیں ہوتی اس کی اور کئی ضروریات بھی ہوتی ہیں جنھیں ایک محبت کرنے والی بیوی ہی پورا کر سکتی ہے ۔ بازاری اور ہر مرد کے بستر کی زینت بننے والی عورتوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ مرد کے ناز نخرے برداشت کر سکیں ۔“
”گویا آپ کو لگتا ہے کہ آپ صاحب کو اپنے ہاتھ میں کر لیں گی ۔“راحت خالہ کے لہجے میں بے یقینی تھی ۔
”میں انھیں بیوی اور کرائے کی عورت کے فرق سے آگاہ کروں گی ،باقی یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں ۔“تناوش کے لہجے میں اداسی در آئی تھی ۔
”اللہ پاک آپ کو کامیاب کرے بی بی جی ۔“
وہ ممنونیت سے بولی ۔”ایسی دعائیں تو کسی اپنے کے لیے کی جاتی ہیں خالہ ۔“
”آپ میرے لیے اپنوں کی طرح ہی ہیں بی بی جی ۔“راحت خالہ نے خلوص بھرے لہجے میں کہا ۔
”اگر اپنا سمجھتیں توبی بی جی نہ کہتیں ،بیٹی کہہ کر بلاتیں ۔“
”اپنی حیثیت جانتی ہوں نا ۔“
تناوش نے اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے کہا ۔”حیثیت کا تعین پیشے سے نہیں کردار سے ہوتا ہے خالہ جان ۔“
”اللہ پاک آپ کو خوش رکھے بیٹی ۔“راحت خالہ جذباتی ہو گئی تھی ۔
”شکریہ خالہ جان ۔اور معذرت خواہ ہوں کہ آج صبح میں نے آپ کو خواہ مخواہ ڈانٹ دیا ۔بس یونھی غصہ آگیا تھا ۔“
”نہیں بیٹی !....آپ کی بات بالکل ٹھیک تھی ۔مجھے برتن دھو کر رکھنے چاہیے تھے ، مگر جب کوئی نگران نہیں ہوتا تو ملازم کام چور ہو جاتے ہیں ۔“
”اچھا اب فکر نہ کریں ،میں آگئی ہوں نا آپ کا ہاتھ بٹا دیا کروں گی ،بلکہ کل سے باورچی خانے کی طرف سے آپ بالکل آزاد ہیں ۔“
”نہیں بیٹی آپ تنگ پڑ جائیں گی ۔“راحت خالہ محجوب سی ہو گئی تھی ۔
وہ شرماتے ہوئے بولی ۔”ان کے کاموں کی وجہ سے میں تنگ نہیں پڑتی خالہ جان ۔“
”اللہ پاک آپ کے رشتے کو خوشیوں بھری طوالت دے ۔“راحت خالہ نے خلوص دل سے دعا کی ۔
”آمین۔“تناوش کے ہونٹوں سے بے ساختہ پھسلا ۔راحت خالہ معنی خیز اندازمیں مسکرا دی تھی ۔تناوش بھی خفیف انداز میں ہنس دی ۔
شام کی آذان سن کر وہ نماز پڑھنے چل دی ۔نماز پڑھ کر وہ خواب گاہ میں داخل ہوئی ۔ کبیردادا اب تک بے خبر پڑا تھا ۔غسل خانے میں گھس اس نے غسل کیا اور نئے کپڑے پہن کرسنگھار میز کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔میک کا سامان تو وہاں موجود نہیں تھا کہ وہ سجتی سنورتی ۔ بس بالوں کو کنگھی کر کے اس نے خوشبو لگائی اور کبیردادا کو اٹھانے بیڈ کی طرف بڑھ گئی ۔اس کے ساتھ نیم دراز ہوتے ہوئے وہ اس کے بالوںمیں انگلیاں پھیر نے لگی ۔آنکھیں کھلتے ہی کبیردادا کی نظریں دیوار سے ٹنگی گھڑی کی طرف اٹھیں ۔وقت دیکھتے ہی اس نے منھ بناتے ہوئے بیزاری بھرے لہجے میں کہا ۔
”ساڑھے سات بجنے میں بیس منٹ رہتے ہیں ۔“
وہ ہنسی ۔”تو کس نے کہا آپ اٹھ جائیں ،لیٹے رہیں ۔“
”اور یہ جو میرے سر میں ہل چلا رہی ہو اس کا کیا ؟“
” آپ کو جگانے کے لیے ایسا کر رہی ہوں ،اٹھانے کے لیے نہیں۔چند منٹ میرا بھی تو حق بنتا ہے کہ آپ کے ساتھ لیٹ کر کچھ باتیں کر لوں ۔“
”تمھارے ناز اور لاڈ اٹھانے کے لیے نہیں لایا ہوں محترمہ ۔“
وہ فلسفیانہ لہجے میں بولی ۔”تو کس نے کہا ہے میرے ناز اٹھائیں ،میں ناز اٹھانے آئی ہوں اٹھوانے نہیں ۔“
کبیردادا جھلاتے ہوئے بولا ۔”پھر وہی رومانس ۔“
وہ کہاں باز آنے والی تھی ۔شرارتی لہجے میں بولی ۔”جو پیارا لگتا ہے نا ،اس سے رومانس جھاڑا جاتا ہے جناب ۔“
”تو میں تمھیں پیارا لگتا ہوں ۔“کبیردادا نے سنجیدگی سے اس کی آنکھوں میں گھورا۔
”آپ کو کیا لگتا ہے ۔“اس نے اپنی گہری سیاہ آنکھیں کبیردادا کی جانب اٹھائیں جن میں چاہت کا سمندر موجزن تھا ۔
”دماغ کام نہیں کر رہا تمھارا۔“اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کبیردادا کو کچھ ہونے لگا تھا ۔وہ نظریں چراتے ہوئے اٹھ بیٹھا ۔
مگر اس کے بیڈ چھوڑنے سے پہلے تناوش نے اسے کندھے سے پکڑ کر پیچھے کھینچتے ہوئے دوبارہ تکیے پر لٹا دیا ۔”ابھی تک ساڑھے سات نہیں بجے ،آپ بستر کو نہیں چھوڑ سکتے ۔“
”یہ چونچلے مجھے بالکل پسند نہیں سمجھیں ۔“کبیردادا نے اسے دور دھکیلنے کی کوشش کی مگر وہ بری طرح اس سے چمٹ گئی تھی ۔
”کیوں ا تنا بھی حق نہیں بنتا کہ آپ دو منٹ مجھ سے باتیں کر لیں ۔“
وہ دق ہوتے ہوئے بولا ۔”تو باتیں کرنے کے لیے اور وقت نہیں ملے گا ۔“
”کس وقت ملے گا ،کھانا کھا کر آپ گھر سے نکل جائیں گے اور پھر معلوم نہیں بارہ بجے لوٹیں گے یا اس سے بھی دیر کر دیں ۔البتہ وعدہ کریں کہ دس گیارہ تک لوٹ آئیں گے تو جانے دیتی ہوں ۔“
”دماغ درست ہے تمھارا،کچھ زیادہ ہی پر پرزے نکالنا شروع کر دیے ہیں ۔“ کبیر دادا کو سچ مچ تپ چڑھ گئی تھی ۔”دور ہٹو ۔“اس نے سختی سے اسے دور جھٹکا ۔
”بس پانچ منٹ اور ،ساڑھے سات بجے چلے جانا ۔“وہ ڈھیٹ پن سے اس سے چمٹی رہی ۔
”افف....“اٹھنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے کبیردادا نے سر پکڑ لیا تھا ۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھاکہ ایک ہی دن میں وہ اتنی بے تکلف ہو جائے گی جیسے برسوں کی آشنا ہو ۔ کبھی کبھی تو اسے یونھی محسوس ہونے لگتا جیسے وہ واقعی میں اس کی محبوبہ ہو ۔
”اتنے ہی تنگ پڑ رہے ہیں تو یہ لیں جائیں ۔“وہ روٹھتے ہوئے اس سے دو ر ہو گئی۔
”شکریہ ۔“وہ اٹھتے ہوئے بولا ۔”اب براہ مہربانی چند دن ناراض ہی رہنا ۔“
مگر اس کے غسل خانے میں گھستے ہی وہ مسکراتے ہوئے اٹھی اور ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی ۔اس کے لیے استری شدہ سوٹ نکال کر اس نے باہر لٹکایا اور خود کھانا لینے چل دی۔راحت خالہ اسے باورچی خانے ہی میں نظر آئی تھی ۔
”خالہ جان !آپ جائیں آرام کریں ۔بتایا تھا نا جب تک میں یہاں ہوں آپ باورچی خانے کی طرف سے بے فکر ہو جائیں ۔“
”مگر بیٹی ....“اس نے فکر مندی سے کچھ کہنا چاہا ۔
تناوش قطع کلامی کرتے ہوئے بولی ۔”بحث کو چھوڑیں خالہ جان !....میں یہ سب اپنی خوشی سے کر رہی ہوں ۔“
”خوش رہو بیٹی ۔“وہ دعا دیتے ہوئے باہر نکل گئی ۔تناوش چولھے پر توا رکھ کر جلدی جلدی روٹیاں ڈالنے لگی ۔روٹیاں پکا کر اس نے کھانے کے برتن ٹرے میں سجائے اور خواب گاہ کی طرف بڑھ گئی ۔راحت خالہ نے اسے بتایا تھا کہ کبیردادا کھانا وغیرہ کمرے ہی میں کھاتا تھا ۔ ڈائینگ ہال کا وسیع کمرہ صرف مہمانوں کی آمد پر استعمال ہو تا تھا ۔
اس کے کھانا لگانے تک کبیردادا بھی تیار ہو کر آگیا تھا ۔اسی وقت تپائی پر رکھے انٹرکام کی گھنٹی بجی ۔کبیردادا نے رسیو اٹھایا ۔
چوکیدار نے مودّبانہ لہجے میں کہا ۔”سر!....اخلاق حسین شاہ صاحب تشریف لائے ہیں ۔ڈرائینگ روم میں بھیج دیا ہے ۔“
”ٹھیک ہے ۔“مختصراََ کہتے ہوئے اس نے رسیور واپس رکھ دیا۔
”میرا مہمان آگیا ہے تم کھانا کھا لو میں بعد میں کھالوں گا ۔“تناوش کا جواب سنے بغیر وہ ڈرائینگ روم کی طرف بڑھ گیا ۔وہ بس خفا نظروں سے اسے گھورتی رہ گئی تھی ۔
خواب گاہ سے نکلتے ہی اسے دروازے سے اندر داخل ہوتا ہوا اخلاق حسین نظر آیا ۔ اس کے ہونٹوں پر ندامت بھری مسکراہٹ تھی ۔کبیردادا نے آگے بڑھ کر اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ۔
”بیٹھیں شاہ جی !“
”شکریہ ۔“کہتے ہوئے اس نے صوفے پر نشست سنبھالی ۔”بھابی نظر نہیں آ رہیں۔“
”ہاں وہ کمرے میں ہے ۔“یہ کہتے ہی اس نے تناوش کو پکارا ۔
وہ دروازے کی درز سے آنے والے کو جھانک رہی تھی ۔کبیردادا کی آواز سنتے ہی اس نے پیچھے ہو کر سر پر دوپٹا درست کیا اور دروازہ کھول کر باہر نکل آئی ۔
”اسلام علیکم بھائی جان !“قریب پہنچ کر اس نے دھیمے لہجے میں اخلاق حسین کو سلام کہا ۔
”وعلیکم اسلام !“اخلاق حسین نے اٹھ کراس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔”ویسے آپ میری بیٹی کی ہم عمر ہو،مگر کبیر بھائی کی وجہ سے آپ کو بھابی ہی کہنا پڑے گا ۔“
”جی بھائی جان !“وہ مسکرا دی تھی ۔
”آپ کی شادی پر تو آ نہیں سکا کہ آپ نے جھٹ پٹ میں سب کچھ کر لیا ۔بہ ہر حال میری طرف سے یہ حقیر سا تحفہ قبول فرمالیں ۔“اخلاق حسین نے خوب صورت پیکنگ میں لپٹا ہوا ایک چھوٹا سا پیکٹ اس کی طرف بڑھایا ۔
”اس کی کوئی خاص ضرورت تو نہیں تھی بھائی جان ۔“یہ کہتے ہوئے اس نے سوالیہ نظروں سے کبیردادا کی طرف دیکھا ۔اور اس کے اثبات میں سر ہلانے پر اس نے وہ پیکٹ پکڑ لیا۔ ”شکریہ بھائی جان ۔“
”جیتی رہو ۔“اخلاق حسین نے بہ ظاہر اخلاص بھرے لہجے میں کہا ،مگرنہ معلوم کیوں تناوش کو اس کے لہجے میں خلوص کی سخت کمی محسوس ہو رہی تھی ۔
”ٹھیک ہے جاﺅ ۔“کبیردادا نے اسے واپس جانے کا اشارہ کیا اور وہ سرجھکائے خواب گاہ کی طرف بڑھ گئی ۔اس کے خواب گاہ میں غائب ہونے تک اخلاق حسین کی آنکھیں اسے گھورتی رہیں ۔
کبیر دادا کے گلا کھنکارنے پر اخلاق حسین نے گڑبڑا کر اس کی طرف دیکھا اور خفیف ہوتے ہوئے بولا ۔”ویسے بھابی کچھ زیادہ کم عمر نہیں ہے ۔“
”غور نہیں کیا ۔“کبیر دادا بے پروائی سے بولا تھا ۔
”اچھا میں دو کاموں کے لیے حاضر ہوا تھا ،ایک تو کل رات میرے ہاں چھوٹی سی تقریب ہے آپ کو اپنی بیگم کے ساتھ حاضری دینا ہو گی اور دوسرا کام آپ کو معلوم ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ واضح انداز میں بھابی سے معذرت کروں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔“
”ایسی کوئی بات نہیں ہے شاہ جی !اگر آپ مجھے اسی وقت روک کر اپنے الفاظ واپس لے لیتے تو مجھے ضد پر جری نہ پاتے ۔“
”شکریہ ۔“اخلاق حسین اٹھتے ہوئے مسکرایا ۔”ویسے ایسی لڑکی کے لیے اتنا غصہ کرنا تو بنتا ہے ۔“
”کھانے کا وقت ہے ۔“کبیردادانے بھی اپنی جگہ چھوڑ دی تھی ۔
”کھانا کل رات اکٹھا کھائیں گے ،اس وقت میں کسی دعوت میں جا رہا ہوں آپ کی دعوت ادھار رہی ۔“کبیردادا سے الوداعی مصافحہ کر کے وہ تیزی سے چلتا ہوا باہر نکل آیا ۔ڈرائیور نے اسے دیکھتے ہی کار کا عقبی دروازہ کھول دیا تھا ۔کار میں بیٹھتے ہی وہ نوشاد آفریدی کا نمبر ڈائل کرنے لگا ۔
”سنائیں شاہ جی !“وہ شاید اس کی کال ہی کا منتظر تھا کہ پہلی ہی گھنٹی پر کال وصول کر لی گئی تھی ۔
”اپنا نمبر بُھگتا آیا ہوں اب کبیردادا کی باری ہے ۔“
”تفصیل سناﺅ یار !“نوشاد کے لہجے میں کچھ جاننے کی تڑپ تھی ۔
”بس اسے شادی کی مبارک دی ، اس فاحشہ کو چھوٹا سا تحفہ دیا اور واپس آگیا ۔“
”کیسی ہے ۔“اس مرتبہ نوشاد گل نے صاف طور پر منھ سے اگل دیا تھا کہ اسے کیا جاننے کی خواہش تھی ۔
”سچ کہوں تو وہ کمینہ فضول میں پاگل نہیں ہوا جا رہا ۔اگر اس سے جھگڑا نہ ہوا ہوتا تب بھی اس لڑکی کو دیکھنے کے بعد میں اس کے حصول کی کوشش ضرور کرتا ۔“اخلاق حسین نے اپنے دماغ میں چھپی غلاظت اگلی ۔
”ہاہاہا۔“نوشاد گل نے بلند بانگ قہقہہ لگایا ۔”اب تو اس رکھیل کو دیکھنے کی خواہش اور بڑھ گئی ہے ۔“
”امید ہے کل رات کی تقریب میں تمھاری یہ حسرت باقی نہیں رہے گی ۔“
نوشاد نے مسکراتے ہوئے کہا ۔”شاہ جی انھی باتوں نے تو ہمیں آپ کا مرید بنایا ہوا ہے ۔“
اخلاق حسین بھی کھل کھلا کے ہنس پڑا تھا ۔
٭٭٭
”تم نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا ۔“خواب گاہ میں داخل ہوتے ہی کبیردادا کی نظر جوں کے توں پڑے ہوئے کھانے کے برتنوں پر پڑی ۔
”آپ کی منتظر تھی ۔“
کبیردادا کو معلوم تھا کہ اس سے بحث بے کار ہے وہ خاموشی سے کھانا کھانے بیٹھ گیا۔ ایک ہی دن تناوش کے ساتھ گزارنے کے بعد اسے لگنے لگا تھا، جیسے وہ اسے برسوں سے جانتا ہو ۔اس کا ہر عمل کبیردادا کو پہلے سے پتا چل جاتا تھا ۔اس کے منھ سے نکلنے والے الفاظ کا مفہوم وہ ادائی سے پہلے جان جاتا تھا ۔
اس نے سالن نکالنے کے لیے جونھی ڈونگے کو ہاتھ لگایا ۔اس کے ہاتھ سے ڈونگا جھپٹتے ہوئے وہ تیز لہجے میں بولی ۔
”میں ڈال رہی ہوں نا ۔“
”میرے پاس ہاتھ نہیں ہیں کیا ۔“
وہ کہاں ہار ماننے والی تھی برجستہ بولی ۔”ہاتھ پاﺅں تو بیوی کے پاس بھی موجود ہوتے ہیں پھر وہ کیوں شوہر کی کمائی کھاتی ہے ۔“
”غلط ،آج کل کئی عورتیں نوکری پیشہ ہیں ۔“وہ بحث پر اتر آیا تھا ۔
”ان میں اکثریت مجبور خواتین کی ہے اور جو شوقیہ نوکری کرتی ہیں انھیں شوہر کی پروا ہی نہیں ہوتی ۔“
کبیردادا اس پر چوٹ کرتا ہوا بولا ۔”تو بس تم بھی اپنا شوق پورا کرنے کے لیے نوکری ڈھونڈ لو ۔کم از کم اس بہانے میری جان تو اس خدمت گزاری سے چھوٹ جائے گی ۔“
”ہر کسی کا اپنا اپنا شوق ہوتا ہے اور میرا شوق آپ کی خدمت کرنا ،آپ کا خیال کرنا اور آپ کے ناز نخرے برداشت کرنا ہے۔“شوخی بھرے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے پہلا نوالہ کبیردادا کے منھ کی طرف بڑھایا ۔
”یہ کیا ہے؟“منھ کھولے بغیر اس نے ناک بھوں چڑھائی ۔”جب بتایا ہے اس طرح کے چونچلے مجھے بالکل پسند نہیں ہیں پھر تمھاری سمجھ میں کیوں نہیں آرہا ہے ۔“یہ کہتے ہوئے وہ خود نوالہ توڑنے لگا ۔تناوش نے اپنا ہاتھ پیچھے نہیں ہٹایا تھا ۔جونھی اس نے نوالہ منھ کی طرف لے جانا چاہا تناوش نے بائیں ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔
چہرے پر غصہ طاری کرتے ہوئے کبیردادا نے اس کی طرف دیکھا ۔وہ گھبرائے بغیر بولی ۔”ہر بات پر ضد کرنا اچھی عادت نہیں ہے ۔“
”ضد نہیں کر رہا تمھاری بچکانہ حرکتوں پر غصہ آجاتا ہے ۔“یہ کہتے ہوئے اس نے تناوش کے ہاتھ میں پکڑا نوالا منھ میں لے لیا تھا۔
تناوش نے اپنے دونوں ہاتھوں سے کبیردادا کا دایاں ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے منھ کی طرف لے جانے لگی ۔
”یہ کیا بے ہودگی ہے ۔“کبیردادا نے اسے روکنے کی واجبی سے کوشش کی مگر وہ تناوش ہی کیا جو مان جائے ۔اپنا سر جھکا کر اس نے کبیردادا کے ہاتھ میں موجود نوالہ اپنے منھ میں لیا اور اس کے ساتھ اس کی انگلیاں بھی منہ میں ڈال لی تھیں ۔
نوالہ چباتے ہوئے وہ شوخی سے بولی ۔”جو بچے پیار کی زبان نہیں سمجھتے ان سے زبردستی کام لینا پڑتا ہے ۔“
کبیردادا اسے غصیلی نظروں سے گھورتا رہ گیا تھا ۔
وہ شرارتی لہجے میں بولی ۔”اب خود کھانا شروع کریں مجھ سے دوسرے نوالے کی امید نہ رکھنا ۔“
نہ چاہتے ہوئے بھی کبیردادا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔”اور اگر میں کہوں کہ سارا کھانا ہی تمھارے ہاتھوں سے کھانا ہے پھر ؟“
”سچ ۔“وہ جیسے خوشی سے کھل اٹھی تھی ۔اس کے ساتھ لگتے ہوئے وہ وارفتگی سے بولی۔”میں حاضر ہوں ۔“یہ کہتے ہی اس نے دوسرا نوالہ کبیردادا کے ہونٹوں کی طرف بڑھایا۔
اس کی بے ساختہ خوشی نے کبیردادا کو حیران کر دیا تھا ۔ خلوص کسی تعارف کا محتاج نہیں ہواکرتا ۔محبت کو اظہار کی حاجت نہیں رہتی ۔چاہت الفاظ کا سہارا نہیں لیتی ۔عشق خوشبو کی طرح نظر آئے بغیر اپنی موجودی کا یقین دلا دیا کرتا ہے ،پیار پھول کی طرح گونگا ہو کر بھی اپنی کشش میں جکڑ لیتا ہے ۔کبیردادا نے بھی اس کے شرارتی لہجے کو دیکھتے ہوئے مذاق کیا تھا ،مگر تناوش کے چہرے پر امڈ پڑنے والی بے پایاں خوشی نے اسے مسحور کر دیا تھا ۔وہ اس سحر سے تب باہر آیا جب تناوش اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا چکی تھی ۔
”اچھا اب بس کرو اور خود بھی دو نوالے لو۔“پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے اس نے سیر ہوجانے کا اعلان کیا ۔
وہ خوشی سے چہکی ۔”مجھے تو لگ رہا ہے یہ سارا کھانا میرے ہی پیٹ میں گیا ہے ۔“
کبیردادا نے منھ بنایا ۔”احمقوں کے سینگ تو نہیں ہوتے ۔“
وہ شوخی سے گنگنائی ....
ایک ہمی کو احمق کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
”کیا تمھیں حقیقت میں ایسا ہی لگتا کہ میں تمھیں محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر لے آیا ہوں ۔“کبیردادا ایک دم سنجیدہ ہو گیا تھا ۔
وہ پھیکی مسکراہٹ سے بولی ....
ع کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
”اگر جانتی ہو تو پھر ہر وقت رومانس کا بھوت خود پر سوار نہ رکھا کرو ۔“اس مرتبہ کبیردادا کی بات کا جواب دیے بغیر وہ کھا نا کھاتی رہی ۔کبیردادا میٹھا کھانے لگا ۔دو تین چمچ لے کر وہ گلے میں مفلر کی طرح لٹکی ہوئی ٹائی باندھنے لگا تھا ۔
تناوش نے کھانے سے ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا ۔”مجھے بھی ٹائی باندھنا سکھادو ۔“
”کیوں ....کیا سوٹ پہننے کا شوق ہے ؟“
”نہیں ،آپ کی ٹائی میں خود باندھا کروں گی ۔“
”میں باندھ سکتا ہوں ۔“وہ جانے کے ارادے سے اٹھ کھڑا ہوا ۔
”بار بار یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آپ کیا کیا کرسکتے ہیں ۔میں محتاج یا معذور سمجھ کرآپ کے کام نہیں کرتی ۔“
اس کا لہجہ طنزیہ نہیں تھا مگر کبیردادا کو غصہ آگیا تھا ۔”جب مجھے ضرورت نہیں ہے تمھاری خدمت کی تو کیوں اپنی توانائیاں ضائع کرتی ہو ۔“
اس کے سامنے کھڑے ہو کر تناوش نے سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔”اور جب معلوم ہے کہ میں یہ سب کرنے سے باز نہیں آﺅں گی تو آپ کیوں نہیں اپنی ضد چھوڑ دیتے۔“
وہ جھلاتے ہوئے بولا ۔”ضد چھوڑوں گا یا نہیں تمھیں ضرور چھوڑ دوں گا ۔“
”شاید مجھے ڈراکر خوشی ملتی ہے ۔“دکھی لہجے میں کہتے ہوئے وہ اس کے قریب ہوئی اور منھ ہی منھ کچھ بڑبڑا کر اس نے کبیردادا کے چہرے اور چھاتی پر پھونکا ۔
کبیردادا نے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔”اب جاﺅں یا کوئی اور وظیفہ رہ گیا ہے ۔“
وہ لجاجت سے بولی ۔”پلیز ،جلدی آنے کی کوشش کرنا،مجھے نیند نہیں آئے گی ۔“
”تو ٹی وی دیکھ لینا ،ڈی وی ڈی پر فلم دیکھ لینا نہیں تو نیند کی گولیاں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں ۔“یہ کہتے ہوئے وہ دروازے کی طرف مڑگیا ۔
تناوش نے بھی اس کے پیچھے قدم بڑھا تے ہوئے کہا۔”اتنا ہی کہہ دیتے کہ کوشش کروں گا تو کوئی خوش ہو جاتا۔“
دروازے کے قریب رکتے ہوئے اس نے تیکھے لہجے میں کہا ۔”کسی کو خوش کرنا میری عادت نہیں ہے ۔“
وہ شوخی سے بولی ۔”اچھی عادت ،ڈال لینی چاہیے ۔“
وہ ترکی بہ ترکی بولا۔”اچھی عادتیں ،اچھوں کے ساتھ جچتی ہیں ۔“
وہ سرعت سے بولی ۔”اپنی اچھائی کا مجھ سے پوچھیں ۔“
”رہنے دو ۔“منھ بناتے ہوئے وہ باہر نکل گیا ۔
محافظوں کو اس کی روزمرہ معلوم تھی ۔گاڑیاں تیاری حالت میںکھڑی تھیں ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اس کی نظریں ڈرائینگ روم کے دروازے کی جانب اٹھیں ۔وہ وہیں کھڑی اسے دیکھ رہی تھی ۔گاڑی کے آگے بڑھنے تک وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی طرف متوجہ رہا ۔
جاری ہے۔۔۔

No comments: