Ads Top



جنت کے پتے
از

 نمرہ احمد



ناول؛ جنت کے پتے
قسط 36
ﺍﻭﮦ ﺳﻮﺭﯼ! ﺍﯾﻒ ﭨﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﺎﻟﯿﻦ ﺍﻭﻭﻥ ﭘﮧ ﺁ ﺟﺎﺅ۔
ﮐﺎﺭ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﭼﻼ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﭘﭽﮭﻠﯽ ﻧﺸﺴﺖ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺳﯿﻞ ﻓﻮﻥ ﭘﮧ ﻧﻤﺒﺮ ﻣﻼ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺑﺎ ﮐﯽ،ﻧﺼﯿﺤﺖ ﭘﮧ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻮﭼﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﺎﻝ ﻣﻼ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﻮﻥ ﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ،۔ ﺻﺪ ﺷﮑﺮ ﮐﮧ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺎﻝ ﺭﯾﺴﯿﻮ ﮐﺮ ﻟﯽ۔
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﺫﯾﺸﺎﻥ ﺍﻧﮑﻞ! ﻣﯿﮟ ﺣﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ۔
ﮐﺎﺭ ﭨﺮﯾﻔﮏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮩﺘﯽ ﭼﻠﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﻨﮯ، ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺍﻋﺼﺎﺏ ﮈﮬﯿﻠﮯ ﭘﮍﺗﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﺧﺘﻢ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺁﻓﺲ ﺳﮯ ﻓﻮﻥ ﺁ ﮔﯿﺎ۔ ﻭﯾﻨﮉﺭ ﻣﺎﻝ ﮐﯽ ﺳﭙﻼﺋﯽ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﭘﮧ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﮧ ﺗﻮ ﮨﺮﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺳﺮﺍﺳﺮ ﺑﻠﯿﮏ ﻣﯿﻠﻨﮓ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻠﯿﮏ ﻣﯿﻠﺮﺯ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺗﮭﯽ۔
ﮐﻞ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﯿﭩﻨﮓ ﺍﺭﯾﻨﺞ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯾﮟ ﻭﯾﻨﮉﺭ ﺳﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﮔﯽ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﮐﺎﺭ ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﻧﭧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻭﮦ ﺍﻃﺎﻟﻮﯼ ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﻧﭧ ﮐﯽ ﺑﺎﻻﺋﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﯽ ﺳﯿﮍﮬﯿﺎﮞ ﭼﮍﮬﺘﯽ ﺍﻭﭘﺮ ﺁﺋﯽ۔ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺗﮭﺎ۔ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﯿﺰﯾﮟ ﺧﺎﻟﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﮨﺎﻝ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﯽ ﺑﻨﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﺲ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮈﺑﻞ ﺭﻭﮈ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺭ ﮔﺮﯾﻦ ﺑﯿﻠﭧ ﮐﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﻭ ﺳﺒﺰﮦ ﻧﻈﺮ ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻣﯿﺰ ﭘﮧ ﻭﮦ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﮯ ﺁﺗﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ۔
ﻭﮦ ﺑﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﺩﻗﺖ ﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻟﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ﭘﮩﻠﯽ ﺩﻓﻌﮧ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻧﻘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ، ﻓﺮﯾﮉﻡ ﻓﻠﻮﭨﯿﻼ ﮐﮯ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﮐﮯ ﺩﻥ، ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﯿﺮﺍﻧﯽ ﻇﺎﮨﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻢ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﭘﮩﻠﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﻟﻮ ﻟﻨﭻ ﮐﺲ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮨﮯ؟ ﮐﺮﺳﯽ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﭘﺮﺱ ﺭﮐﮭﺎ۔
ﺁﻑ ﮐﻮﺭﺱ! ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮨﮯ۔ ﺍﺻﻐﺮ ﺍﯾﻨﮉ ﺳﻨﺰ ﮐﯽ ﻗﺎﺋﻢ ﻣﻘﺎﻡ ﺍﯾﻢ ﮈﯼ ﻣﺠﮫ ﻏﺮﯾﺐ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﻮ ﻟﻨﭻ ﺗﻮ ﮐﺮﻭﺍ ﮨﯽ ﺳﮑﺘﯽ ہے۔
ﺷﯿﻮﺭ! ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺸﺎﺷﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﻮبائل ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﺮﺱ ﮐﮭﻮﻻ۔ مخمل ﮐﺎ ﭨﮑﮍﺍ ﺍﻧﺪﺭﻭﻧﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﮯ ﻧﻮﭦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﮨﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﻧﻮﭦ؟ ﻭﮦ ﺯﭖ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭼﻮﻧﮑﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﻧﺎﻣﺤﺴﻮﺱ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺱ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﻭﭘﻮﮞ ﻭﺍﻻ ﭘﺎﺅﭺ ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺏ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﻻﻭﺍﺭﺙ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻧﯿﻠﮯ ﻧﻮﭦ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻟﻠﮧ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭﯼ ﺍﻟﺠﮭﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺅﭺ ﺍﭨﮭﺎﻧﺎ ﯾﺎﺩ ہی ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ۔ ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﮮ؟
ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ؟ ﺍﯾﻢ ﮈﯼ ﺻﺎﺣﺒﮧ! ﭘﯿﺴﮯ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﻮﻝ ﺁﺋﯿﮟ؟ ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﻋﻘﺎﺑﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻨﺒﮭﻞ ﮐﺮ ﭘﺮﺱ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﺎ۔
ﺗﻢ ﺍﯾﻢ ﮈﯼ ﺻﺎﺣﺒﮧ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﻏﯿﺮ ﺫﻣﮯ ﺩﺍﺭﺍﻧﮧ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽ ﺗﻮﻗﻊ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ؟ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ۔
ﻧﮩﯿﮟ! ﺧﯿﺮ ﺁﺭﮈﺭ ﮐﺮﻭ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺷﮩﺮ ﮨﮯ۔ ﺗﻤﮩﯿﮟ زﯾﺎﺩﮦ ﭘﺘﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﻭﮦ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ۔
ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﺷﯿﻮﺭ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﻨﯿﻮ ﮐﺎﺭﮈ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻟﻨﭻ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﮯ ﻧﻮﭦ ﺳﮯ۔ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﺅﭺ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺮﮐﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﺲ ﺳﮯ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﻮ ﭘﺘﺎ ﭼﻠﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭘﯿﺴﮯ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺑﮭﻮﻝ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ، ﻭﺭﻧﮧ ﺍﺩﺍئیگی ﮐﺮ ﺩﮮ ﮔﺎ۔ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﻧﺎ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﮏ ﮨﺰ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺍﻃﺎﻟﻮﯼ ﻟﻨﭻ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺮوﺍﺅﮞ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺪﺭﮮ ﺍﺿﻄﺮﺍﺏ ﺳﮯ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﺩﯾﮑﮭﯽ۔
ﺳﻨﻮ! ﺻﺮﻑ ﻣﯿﻦ ﮐﻮﺭﺱ ﻣﻨﮕﻮﺍﻧﺎ، ﺳﻼﺩ، ﺍﺳﭩﺎﭨﺮ ﺍﻭﺭ ﮈﺭﻧﮑﺲ ﮐﮯ ﻓﺎﻟﺘﻮ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﮐﺮﺳﯽ ﮐﯽ ﭘﺸﺖ ﺳﮯ ﭨﯿﮏ ﻟﮕﺎﺋﮯ، ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺩﺑﺎﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﻐﻮﺭ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﻭﮐﮯ! ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺹ ﺑﮭﻮﮎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺩﻝ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ۔ ﺁﺭﮈﺭ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺎﺭﮈ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔ ﺟﮩﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺩﺑﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺳﺮ ﮨﻼ ﺩﯾﺎ۔ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﻧﺬﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﻭﮦ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺍﺱ ﺷﯿﺸﮯ ﺳﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﭨﮑﺮﺍﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ صرف ﭘﮩﻠﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﭨﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﮞ۔ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﺪﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﮞ۔ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﮨﯽ ﺑﺪﻟﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ، ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﮐﮭﮍﯼ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔
ﮐﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ؟

ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﻣﻮﮌ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔
ﺍﺏ ﺗﮏ ﺗﻢ ﻧﮯ ﭘﺘﺎ ﺗﻮ ﮐﺮ ﮨﯽ ﻟﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ! ﺗﺎﯾﺎ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺮﺩﮮ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﮯ ﻋﺰﺕ ﮐﯿﺎ، ﺗﻤﺎﺷﺎ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺧﺎﺹ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺟﮩﺎﻥ ﻧﮯ ﻗﺪﺭﮮ ﺗﺎﺳﻒ ﺳﮯ ﻧﻔﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼدﯾﺎ۔
ﭘﺮﺍﻧﯽ ﻋﺎﺩﺗﯿﮟ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺫﻟﯿﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ وہ ﻋﺎﺩﯼ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﺘﻨﺎ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻧﺎ ﮐﮯ پیچھے ﺭﺷﺘﮯ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ۔
ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﺍﺑﺎ ﮐﯽ ﮐﺮﺳﯽ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ۔ ﯾﮧ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺏ ﺍﺱ ﻗﺼﮯ ﮐﻮ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺗﻢ ﺑﺘﺎﺅ! ﺗﻢ ﻧﮯ ﺗﺮﮐﯽ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﺎ ﮨﮯ؟
ﺳﺐ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﮨﮯ۔ ﻟﮕﺘﺎ ہے ﺳﺐ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺗﻨﮓ ﺁ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺩﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﮧ ”ﻣﺎﮦ ﺳﻦ“ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺒﻮﺗﺮ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮐﺴﯽ ﻏﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭗ ﺟﺎﺅﮞ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻏﺎﻟﺒﺎً ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺮﮎ ﻣﺤﺎﻭﺭﮦ ﺑﻮﻻ ﺗﮭﺎ۔
ﺧﯿﺮ! ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺍﺩﮬﺮ ﮨﻮﮞ۔ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ؟
ﺟﻮﻻﺋﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺟﻮﻻﺋﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﻠﺌﯿﺮﻧﺲ ﮐﺮﻭﺍﻧﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺑﺎ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ذﺭﺍ ﺳﻨﺒﮭﻞ ﺟﺎﺋﮯ، ﭘﮭﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﯽ۔
ﻟﻨﭻ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﺳﮯ ﺑﺎ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﭼﮭﺮﯼ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﮐﺴﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔
ﺟﮩﺎﻥ! ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﻘﺎﺏ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ یوں ﻧﻘﺎﺏ ﻟﯿﻨﺎ؟
ﻭﮦ ذﺭﺍ ﭼﻮﻧﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺁ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﮨﺎﮞ! ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ذﺭﺍ ﺍﻟﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺷﺎﻧﮯ ﺍﭼﮑﺎﺋﮯ۔ ﻭﮦ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ، ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺑﻞ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﺳﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﻮ ﺍﺗﺎﺭﯼ۔ ﻧﻮ ﺳﻮ ﭘﭽﺎﺱ ﺻﺮﻑ ﺩﻭ ﻣﯿﻦ ﮐﻮﺭﺱ ﻣﻨﮕﻮﺍﮰ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ۔ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﭘﯿﺴﮯ ﮐﻢ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﻮ ﮐﻮﻟﮉﮈﺭﻧﮑﺲ، ﺳﻼﺩ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﭩﺎﭨﺮ ﺟﯿﺴﮯ ﻟﻮﺍﺯﻣﺎﺕ ﺳﮯ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔
ﯾﮑﺎﯾﮏ ﮐﺴﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮑﯽ۔
ﻓﺎﻟﺘﻮ ﻟﻮﺍﺯﻣﺎﺕ؟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺫﮨﻦ ﺁﻓﺲ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﭩﮏ ﮔﯿﺎ۔ ﺟﮩﺎﻥ ﻧﮯ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﻞ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﭘﮯ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ۔
ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮑﯽ۔ نہیں ﯾﮧ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﻣﺬﺍﻕ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﻨﭻ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﻨﺎ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﺳﻨﮯ ﻓﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺴﮯ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺫﮨﻦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻃﺮﻑ ﺍﻟﺠﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔
فالتو لوازمات؟
***
ادھیڑ عمر صاحب نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور پھر ایک طرف ہٹ گئے۔ وہ پراعتماد اور سبک قدموں سے چلتی اندر آئی۔ دروازے سے نجمی صاحب (وینڈر) کی کرسی میز کا فاصلہ کافی زیادہ تھا۔ وہ سیدھ میں چلتی میز تک آئی اور بیٹھنے کے لیے کرسی کھینچی۔
نجمی صاحب نے انگلیوں میں پکڑی سگریٹ لبوں میں دبا کر سانس اندر کو کھینچی اور سر سے پاؤں تک سیاہ عبایا میں ملبوس دراز قد لڑکی کا جائزہ لیا جو بہت اطمینان سے کری کھینچ کر بیٹھ رہی تھی۔ انہوں نے سگریٹ ہٹائی، دھوئیں کا مرغولہ اڑ کر فضا میں تحلیل ہوا۔
میں حیا سلیمان ہوں، اصغر اینڈ سنز کی مینجنگ ڈائریکٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر، ٹانگ پہ ٹانگ رکھے، کہنیاں ہاتھ پہ جما کر ہتھیلیاں ملائے بیٹھی وہ بہت سنجیدگی سے بولی۔
نجمی صاحب نے کندھوں کو ذرا سی جنبش دی، یعنی وہ جانتے ہیں، اب آگے بات کرے۔ ادھیڑ عمر صاحب اس لڑکی کے پیچھے ہاتھ باندھے مؤدب سے آ کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے لیے دوسری کرسی موجود نہیں تھی۔ نجمی صاحب نے کرسی منگوانے کی ضرورت بھی نہ سمجھی۔
ہماری سائٹ پہ سپلائی آپ نے روک دی ہے جس سے ہمارا پروجیکٹ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔
دیکھیں بی بی! میں نے اپنی ڈیماڈ آپ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی نجمی صاحب! اس نے ہاتھ اٹھا کر ایک دم بہت سخت لہجے میں انہیں روکا۔ اس کی آوز میں کچھ تھا کہ وہ رک گئے۔

چند باتیں ہیں جو میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں۔ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بنا کی تمہید کے وہ کہہ رہی تھی۔
آپ کے پیچھے جو کھڑکی ہے، اس سے جھانک کر دیکھیں تو دائیں جانب، دور کہیں ایک زیر تعمیر منصوبہ دکھائی دے رہا ہے۔ کس چیز کا منصوبہ ہے وہ باقر صاحب؟ لڑکی نے رک کر پیچھے کھڑے آمی کو مخاطب کیا، مگر دیکھ وہ ابھی بھی نجمی صاحب کو ہی رہی تھی۔
اوور ہیڈ ہے میم! انہوں نے فورا بتایا۔
بالکل! اوور ہیڈ تعمیر ہو رہا ہے وہاں اور کیا آپ جانتے ہیں کہ اس میں سینڈ (sand) اور سلٹ (silt) استعمال ہو رہا ہے، اور وہ بھی کس کی جگہ؟ (Crusher) میٹیریل کی جگہ!
نفیس سے نقاب سے جھلکتی اس کی بڑی بڑی، سیاہ آنکھیں مسکرائی تھیں۔ نجمی صاحب نے سگریٹ والا ہاتھ نیچے کر دیا ان کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑ چکے تھے اور وہ پوری طرح سے اس کی طرف متوجہ تھے۔
آپ اس اوور ہیڈ سے دو کلو میٹر دائیں چلے جائیں۔ تو ایک سکس اسٹار ہوٹل زیر تعمیر نظر آئے گا، اس کی تعمیل آخری مراحل میں ہے، مگر اس کے مالکان کو یہ علم نہیں ہے کہ اس کی روفنگ (roofing) اور واٹر پروفنگ میں سب اسٹینڈرڈ میٹیریل استعمال کیا گیا ہے۔ بے حد سستا اور گھٹیا میٹیریل۔ اس کی مسکراتی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔
نجمی صاحب نےکچھ کہنے کے لیے لب کھولے، مگر اس نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ 
وہ لب بھینچ کر رہ گئے۔ پیشانی پہ بلوں کا اضافہ ہونے لگا۔
ایک روڈ بھی حال ہی میں مکمل ہوئی ہے اور اس کا بھی ان دونوں پروجیکٹس سے تعلق ہے۔ نگاہیں ان پہ جمائے وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ار جو تعلق ہے، وہ آپ بہتر جانتے ہیں، میں تو بس اتنا جانتی ہوں کہ اس سڑک کے اطراف کو سیمینٹڈ (Cemented) نہیں کیا گیا اور اندر ہولز چھوڑ دیے گئے ہیں۔ وہ کون سا مسئلہ ہو گا جو سب سے پہلے چند دن میں منظر عام پر آئے گا باقر صاحب؟
نجمی صاحب کو اپنے سابقہ انداز میں دیکھتے ہوئے اس نے اپنے ساتھی کو مخاطب کیا۔ وہ اسی تابع داری سے بولے۔
ڈرین ایج کا مسئلہ میم!
بالکل! ڈرین ایج کا مسئلہ۔ مگر سب سے بڑا مسئلہ کون سا ہو گا؟ انسپکشن کا مسئلہ۔ چار انسپکشن ٹیمیں ان تینوں پروجیکٹس کو چند روپے لے کر اپروو کر چکی ہیں، لیکن وہ کیا ہے نجمی صاحب! کہ جو ہمارا میڈیا ہے نا، وہ ذرا سی ریٹنگ کے لیے ایسی خبروں کو خوب اچھالتا ہے اور یوں اس وینڈر کی ساکھ تباہ ہو کر رہ جاتی ہے، بالخصوص تب جب ان کے ہاتھ ڈاکومینٹڈ پروف بھی لگ جائے۔ باقر صاحب!
اس نے انگلی سے اشارہ کیا تو باقر صاحب نے چند کاغذات میز پہ رکھے نجمی صاحب ان کو اٹھانے کے لیے آگے نہیں بڑھے۔ وہ بمشکل ضبط کیے ہوئے بولے۔
مجھ پہ ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں ہے۔
ارے! اس کی سیاہ آنکھوں میں حیرت ابھری۔ آپکی بات کس نے کی؟ پھر وہ ذرا سا مسکرائی۔ میں تو اپنی سپلائی کی بات کر رہی تھی۔ کل ہفتہ ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ سوموار کی صبح مجھے اپنی کنسٹرکشن سائٹ پہ سپلائی کی بحالی کی خبر مل جائے گی۔ اپنا پرس اٹھاتے ہوئے وہ کھڑی ہوئی۔
اوہ وہ بھی پرنی قیمت پہ۔ چلیں باقر صاحب!
وہ مزید کچھ کہے بنا پلٹی، ادھیڑ عمر صاحب نے ہاتھ آگے بڑھا کر دروازہ کھولا۔ وہ ان ہی سبک قدموں سے چلتی باہر نکل گئی۔
سگریٹ نے نجمی صاحب کی انگلی کو جلایا تو وہ چونکے، پھر غصے سے ایش ٹرے میں پھینکا اور میز پر رکھے کاغذات اٹھائے۔
جیسے جیسے وہ انہیں پڑھتے جا رہے تھے، ان کی پیشانی پہ پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے تھے۔
*******

مجھے آپ کو ایک اچھی خبر دینی تھیں جنٹلمین! میٹنگ کے آغاز پہ اس نے مسرور و مطمئن انداز میں انہیں مخاطب کیا جو اپنے سابقہ رویے کو برقرار رکھے اس کی طرف متوجہ تھے۔
ابھی ابھی پتا چلا ہے کہ وینڈر عارف نجمی نے سپلائی بحال کر دی ہے اور وہ بھی پرانی قیمت پہ۔
واقعی؟ فرقان تایا حیران ہوۓ تو زاہد چچا سیدھے ہو بیٹھے۔
مگر اس نے تو اس روز فنانس ڈپارٹمنٹ کے رٶف سے خاصی بدتمیزی کی تھی اور وہ سراسر بلیک میلنگ پہ اترا ہوا تھا۔ میں نے خود اسے فون کیا تھا مگر وہ تو سیدھے منہ بات کرنے کا روادار بھی نہیں تھا۔
پھر آپ کو بلیک میلرز سے نپٹنے کا فن سیکھ لینا چاہیے سر! کیونکہ میں نے اس سے بات کی ہے اور وہ غیر مشروط طور پہ سپلائی بحال کرنے پہ راضی ہو گیا ہے۔
زاہد چچا خاموش ہو گئے۔ ان کے لیے یہ سب خاصا غیر متوقع تھا۔ اگر سلیمان صاحب ان کو آ کر بتاتے کہ انہوں نے وینڈر کو راضی کر لیا ہے تو انہیں حیرانی نہ ہوتی کیونکہ وہ اس قابل تھے تب ہی تو اپنے بڑے بھائی سے زیادہ مضبوط شیئر ہولڈر اور ایم ڈی تھے، مگر حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ یہ بات نگلنا بھی دشوار تھا۔
آپ کو گرین ہاٶس اسکیم کے لیے بجٹ کم پڑ رہا تھا، اس لیے میں نے بجٹ کو ری شیپ کیا ہے۔ وہ اپنے کاغذات آگے پلٹ کر بتانے لگی۔ ہمیں جتنی رقم چاہئے، وہ ہمارے بجٹ کے اندر ہی پوری ہو سکتی ہے، اگر ہم فالتو لوازمات کو نکال دیں۔
مطلب؟ تایا فرقان نے ابرو اٹھاۓ۔
ہم ہر سال تمام شیئر ہولڈرز کو سالانہ پروفٹ کا ایک منقسم حصہ دیتے ہیں، جبکہ بہت سی کمپنیاں شیئر ہولڈرز کو سالانہ پروفٹ dividend دینے کے بجاۓ اس کو ری انویسٹ کرتی ہیں۔ ہم بھی اس دفعہ شئیر ہولڈرز کو وہ حصہ دینے کی بجاۓ اسے اس پروجیکٹ میں لگا دیں گے۔
مگر اس طرح تو مطلوبہ رقم پوری نہیں ہو گی۔
ولید! آپ ان کی بات مکمل ہونے دیں۔ سیٹھی صاحب نے پہلی وفعہ ولید کو ٹوکا۔ پہلی دفعہ بورڈ میٹنگ میں اس کی سائیڈ لی گئی تھی۔ سب خاموش ہوۓ تو اس نے کہنا شروع کیا۔
ہم اپنے بجٹ کا پندرہ سے بیس فیصد حصہ مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزمنٹ پر خرچ کرتے ہیں۔ ہم فی الحال بھی یہی کر رہے ہیں۔ ہم مارکیٹنگ کر رہے ہیں تا کہ مستقبل میں ہمیں پروجیکٹس ملیں۔ وہ لمحے بھر کو رکی۔ لمبی میز کے گرد موجود تمام ایگزیٹوز اب واقعتاً بغور اسے سن رہے تھے۔
مستقبل کے پروجیکٹس جو ابھی ملے نہیں اور جن پہ کام کرنے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں، ان کے لیے ہم اپنے حالیہ پروجیکٹ کو قربان نہیں کر سکتے۔ میں نے مارکیٹنگ بجٹ کو گھٹا کر پانچ فیصد کر دیا ہے۔ یوں ہم بہ آسانی وہ رقم آہستہ آہستہ اس پروجیکٹ میں منتقل کر سکتے ہیں۔ کیا کسی کو کائی اعتراض ہے؟“
پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوۓ اس نے ذرا مسکرا کر خاموش پڑے کانفرنس روم پہ نگاہ دوڑائی۔ وہ جانتی تھی کہ اب کوئی اس پہ اعتراض نہیں کر سکتا تھا۔وہ آہستہ آہستہ اپنا انتخاب درست ثابت کر رہی تھی۔ 
***
آج تایا فرقان کے گھر حیا کے دادا کی برسی کی قرآن خوانی تھی۔ خیرات کی دیگیں الگ تھیں۔ سب مدعو تھے، سواۓ اس کے۔ اس کو جانے کی خواہش بھی نہیں تھی۔
وہ مغرب پڑھ کر لاٶنج میں آئی تو فاطمہ، جہان سے کچھ کہہ رہی تھیں۔ اسے آتے دیکھ کر خا موش ہو گئیں۔
اچھا! میں جا رہی ہوں۔ سرسری سا مطلع کر کے باہر نکل گئیں۔ پھپھو پہلے ہی جا چکی تھیں۔ ابا کمرے میں سو رہے تھے۔ ان کے پاس نرس تھی۔
وہ خاموشی سے صوفے پہ آ بیٹھی اور ٹی وی کا ریموٹ اٹھایا۔ کنکھیوں سے اس نے لاٶنج کی بڑی کھڑکی کے پار اماں کو لان عبور کرتے دیکھا۔ وہ اس سے ناراض نہیں تھیں، بات بھی ٹھیک سے کرتیں، مگر ایسے جیسے کہ انہیں بہت دکھ پہنچایا گیا ہو۔
باہر بجلی زور کی چمکی۔ پل بھر کو کھڑکیوں کے باہر سارا لان روشن ہو گیا۔ پھر اندھیرا چھا گیا۔
وہ کچھ سوچتے ہوۓ اس کے سامنے آ بیٹھا۔ حیا نے ٹی وی نہیں چلایا۔ وہ ریموٹ پکڑے بیٹھی بس اس کو دیکھ رہی تھی۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا شاید۔
اماں کیا کہہ رہی تھیں؟ اس نے بظاہر سرسری سے انداز میں پوچھتے ہوۓ بات کا آغاز کیا۔ جہان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ نیلی جینز پہ سیاہ ٹی شرٹ پہنے، گیلے بالوں کو پیچھے کیے، وہ جیسے کہیں جانے کے لیے تیار لگ رہا تھا۔
وہ چاہتی ہیں کہ میں تمہیں سمجھاٶں کہ تم یہ برقع وغیرہ چھوڑ دو۔ وہ سنجیدگی سے کہنے لگا۔ اس کی پشت پہ لاٶنج کی دیوار گیر کھڑکی پہ ٹپ ٹپ قطرے گرنے لگے تھے۔ تاریک پڑا آسمان پہلے ہی بادلوں سے ڈھک چکا تھا۔
تو تم نے کیا کہا؟ وہ اسی طرح مطمئن سے انداز میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھی تھی، جیسے وہ اپنے آفس میں بیٹھا کرتی تھی۔
بات تو ٹھیک ہے ان کی۔ تم ایک برقعے کے لیے اپنے اتنے رشتے نہیں کھو سکتیں۔
باہر بادل زور سے گرجے تھے۔ کھڑکی کے شیشوں پہ تڑاتڑ گرتے قطروں کی اب آوازیں آنے لگی تھیں۔
دوسروں کو چھوڑو، تم اپنی بات کرو جہان۔ کیا تم بھی میرے حجاب سے خوش نہیں ہو؟ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولی تو اس کی آواز بہت دھیمی تھی۔
اگر میں کہوں کہ میں نہیں ہوں، تب؟ اگر میں کہوں کہ تم میرے لیے اسے چھوڑ دو، تب؟
دور کہیں زور دار آواز آئی تھی۔ جیسے بجلی گرنے کی ہوتی ہے۔ جیسے صدمہ پہنچنے کی ہوتی ہے۔
کیا تم مجھے چوائس دے رہے ہو؟ یکایک اس کی آواز میں سردمہری در آئی۔
اگر میں کہوں، ہاں تب؟
وہ اٹھی اور چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتی دیوار گیر کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ اس نے سیاہ لمبی قمیض اور چوڑی دار پہن رکھا تھا۔ بال بھی سیدھے کمر پہ گر رہے تھے۔ قمیض اور بالوں کے رنگ کا فرق غیر واضح سا تھا۔ سیاہی جس کا نہ آغاز تھا نہ اختتام۔
”مجھے کبھی کسی نے کہا تھا کہ خندق کی کوئی جنگ بنو قریظہ کے بغیر وجود میں نہیں آئی اور تب میں نے سوچا تھا کہ میرے سارے قرابت دار تو میرے ساتھ ہی ہوں گے۔ وہ بھیگتے شیشے کے پار تاریک لان کو دیکھتی کہہ رہی تھی۔
تایا ابا، حجاب کے سب سے بڑے علم بردار، اماں جن کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میں اللٰہ کے قریب ہو جاٶں اور میرا شوہر جو روز صبح فجر پڑھنے مسجد جاتا ہے، لیکن آج مجھے پتا چلا کہ عائشے ٹھیک کہتی تھی۔ خندق کی جنگ بنو قریظہ کے بغیر وجود میں آ ہی نہیں سکتی۔
بارش کے ٹپ ٹپ گرتے قطرے شیشے سے لڑھک کر زمین پہ گر رہے تھے جب بجلی چمکتی تو پل بھر کو ان میں قوس ِقزح کے ساتوں رنگ جھلکتے اور پھر اندھیرا چھا جاتا۔ وہ صوفے سے نہیں اٹھا تھا۔ بس گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
اگر میں لوگوں کے لیے حجاب لیتی ہوتی تو لوگوں
کے کہنے پہ چھوڑ بھی دیتی، لیکن میں اب نہیں چھوڑ سکتی۔ آنسو اس کی آنکھ سے ٹوٹ کر گال پہ پھسلتا گیا۔
کیوں؟ میں یہی نہیں سمجھ پا رہا کہ آخر کیوں؟ وہ اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا تھا۔ بادل ابھی تک گرج رہے تھے۔
حیا نے جواب نہیں دیا۔ اس نے ایک نظر جہان کو دیکھا اور پھر آگے بڑھ کر کونے میں رکھی منی پلانٹ کی سبز بوتل اٹھائی۔ پودے کی بیل جھٹک کر نکال پھینکی اور بوتل کو ہاتھ سے پکڑے ہوۓ دیوار پہ دے مارا۔ کانچ ٹوٹا۔ ٹکڑے گرتے گئے اور ایک نوک دار بڑا ٹکڑا اس کے ہاتھ میں رہ گیا۔
یہ پکڑو۔ اس نے بوتل کی گردن کا وہ ٹکڑا جہان کی طرف بڑھایا۔ اور جا کر اپنی ماں کی گردن میں اتار دو۔
حیا! اس نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ حیا نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا اور آخری ٹکڑا باقی ماندہ کرچیوں پہ پھینک دیا۔
نہیں کر سکتے نا؟ کانپ اٹھتا ہے نا دل؟ لگتا ہے نا جیسے آسمان پھٹ پڑے گا اگر تم نے ایسا سوچا بھی؟ اس نے گردن موڑ کر بھیگی آنکھوں سے باہر برستی موسلا دھار بارش کو دیکھا۔
مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ وہ بولی تو اس کی آواز آنسوٶں سے بھاری تھی۔ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے جہان! اللٰہ نے امانت کو آسمان و زمین پہ پیش کیا تھا، مگر دونوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا اور اسے انسان نے اٹھا لیا تھا۔ تمہاری ماں، ایک انسانی جان تم پہ امانت ہے۔ ایسے ہی مجھ پہ میرا وعدہ امانت ہے۔ میں نے زندگی میں بس، ایک دفعہ کوئی وعدہ کیا اللٰہ تعالیٰ سے۔ کوئی مجھے اسے نبھانے کیوں نہیں دیتا؟
بجلی نے اپنی چاندنی پھر سے ہر سو بکھیر دی۔ بس لمحے بھر کی چاندنی اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندھیری رات چھا گئی۔
مجھے کسی نے کہا تھا کہ دل مارے بغیر نور نہیں ملتا اور میں سوچتی تھی کہ نور کیا ہوتا ہے؟ جانتے ہو نور کیا ہوتا ہے؟ آنسوٶں نےگلے میں پھندا ڈال دیا تھا، دم گھوٹنے والا پھندا۔
نور قرآن ہوتا ہے۔ اللٰہ کا حکم جن کو پورے کا پورا لیا جاتا ہے۔ ایک حصہ لے کر دوسرے سے انکار نہیں کیا جاتا جہان! میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ اللٰہ کیوں کہتا ہے کہ اگر قرآن کو پہاڑ پہ نازل کرتا تو وہ ٹوٹ جاتا۔ مجھے کبھی اس بات کی سمجھ نہیں آئی تھی۔ مگر آج آ گئی ہے۔
گرم، ابلتے آنسو اس کی ٹھوڑی سے پھسلتے ہوۓ، گردن تک لڑھک رہے تھے۔ وہ کھڑکی کے باہر دیکھ رہی تھی اور وہ اسے۔
جانتے ہو پہاڑ کیوں ٹوٹتا؟ کیونکہ وہ قرآن کو پورے کا پورا لیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص قرآن کو پورے کا پورا اپنے دل پہ اتارتا ہے نا، اسے ایک بار ٹوٹنا پڑتا ہے۔ اس نے جلتی آنکھیں بند کیں۔ اب ہر طرف اندھیرا تھا۔ پل بھر کو بجلی چمکتی بھی تو اسے پروا نہیں تھی۔
لوگوں نے مجھے اس لیے چھوڑا، کیونکہ میں نے اللہ کو نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو مجھے واقعی ایسے لوگوں کا ساتھ نہیں چاہیے۔
اس نے آنکھیں کھولیں۔ وہ واپس پلٹ رہا تھا۔ اس نے دھندلی بصارت سے گردن موڑ کر اس شخص کو سیڑھیاں چڑھتے دیکھا، جس سے اس کی زندگی کا ایک حصہ محبت کرنے میں گزرا تھا۔ وہ اوپر چلا گیا، مگر حیا اسی طرح سیڑھیوں کو دیکھتی رہی۔
چند منٹ بعد وہ اترتا دکھائی دیا۔ اس کا دستی بیگ اس کے ہاتھ میں تھا۔ وہ بنا اس کی طرف دیکھے، بنا کچھ کہے، باہر نکل گیا۔ اس نے اسے نہیں روکا، آواز تک نہ دی۔ دے ہی نہیں سکی۔ آنسوؤں نے ہر راستہ روک یا۔ وہ جا رہا تھا۔ وہ جانے کے لیے ہی تو آیا تھا۔

جاری ھے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.