Ads Top

ﻧﺎﻭﻝ رکھیل از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر 14

ﻧﺎﻭﻝ  رکھیل

  از 

 ریاض_عاقب_کوہلر



#رکھیل
قسط نمبر14
#ریاض_عاقب_کوہلر
برف لا کر نگی نے اپنے لیے اسکاچ اور اس کے لیے وہسکی کا جام تیار کیا ۔
”کیا سوچ رہے ہو وہ اپنا جام اٹھا کر اس کے قریب کھسک آئی ۔اسی وقت کبیردادا نے تناوش کے لرزتے ہونٹوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے ۔اس کے دماغ میں ایک ترکیب ابھری ۔”نہیں اسے یوں اذیت دینا ٹھیک نہیں ہو گا ،پہلے اسے پیار سے سمجھا دوں اپنے ساتھ رہنے کی قباحتیں اور نقصانات گنوادوں ، جب وہ یہ مان کر گھر جانے پر راضی ہو جائے گی پھر پاشا کو بھی اطمینان ہو جائے گا اور مجھے بھی ۔اب تو وہ رو رو کر خودکو بے حال کر دے گی ۔“ایک میٹھی کسک اس کی دل میں جاگی اور نگی کو دور دھکیلتے ہوئے وہ اطمینان بھرے لہجے میں بولا ۔
”تم دور بیٹھ کربھی تو بات کر سکتی ہو ۔“
اس نے بے باکی سے پوچھا ۔”کیا مطلب ،مجھے باتوں کے لیے بلایاہے ۔“
”تمھیں پاشا نے میرے پاس بھیجنے کا کیا معاوضا دیا ہے ۔یا پہلے کی طرح تمھارا اٹکا ہوا کوئی کام نکالا ہے ۔“اسے دور نہ ہوتا دیکھ کر وہ خود اٹھ کر فوم کی کرسی پرجا بیٹھاتھا ۔
نگی کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔”گویا پاشا کا اندازہ ٹھیک تھا ۔“
”اس مسئلے میں نہ پڑو تو بہتر ہو گا ۔جو پوچھا ہے اس کا جواب دو ۔“
اس نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا ۔”سیٹھ مسکین میرے پیسے دینے میں اڑی کر رہا تھا اور فیروز ملک بھی وعدہ خلافی پر آمادہ تھا ،دونوں کام ہو گئے ہیں ۔“
”مجھ سے کوئی توقع ؟“
وہ بے شرمی سے بولی ۔”ہاں ،مجھے ڈھیر سارا پیار کرو ۔“
وہ بیزاری سے بولا ۔”اس موضوع کو رہنے دو کچھ اور مانگو ۔“
”کیا دے سکتے ہو ۔“وہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے تھی ۔کبیردادا کا انداز اسے یہ باور کرانے کے لیے کافی تھا کہ یہاں اس کی دال گلنے والی نہیں ہے ۔اور پھر تناوش کی خوب صورتی اور کم عمری نے بھی اس پر واضح کر دیا تھا کہ اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔
”فیروز ملک نے کیا وعدہ خلافی کی ہے ۔“
”ایک ڈراما سیریل میں مرکزی کردار دینے کا وعدہ کیا ،دو راتوں کا منھ مانگا معاوضا وصول کیا اور اب ٹرخانے پر آمادہ ہو گیا تھا ۔“اس نے کچھ بھی چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔
”نادر حبیب خاکوانی کو جانتی ہو ۔“
”ہائے اللہ جی ،کس کٹھور کا نام لے دیا ۔ہم جیسو ںکو تو گھاس ہی نہیں ڈالتا ۔“
”موبائل فون ادھر کرو ۔“کبیردادا نے میز پر رکھا اپنا سیل فون مانگا ۔
”یہ لیں ۔“نگی نے موبائل فون اٹھا کر اس کی جا نب بڑھایا۔اور خود اس کی کرسی کے ساتھ ہی کھڑی ہو گئی ۔
کبیردادا ،نادر حبیب کا نمبر ڈھونڈ کر رابطہ کرنے لگا ۔گھنٹی جاتے ہی اس نے سپیکر آن کر کے میز پر رکھ دیا تھا ۔دوسری ہی گھنٹی پر کال وصول کر لی گئی ۔
”اسلام علیکم کبیر صاحب ۔“خوشی سے چہکتی ایک آواز رسیور سے برآمد ہوئی ۔جو ظاہر کر رہی تھی کہ اس کے پاس کبیر دادا کا موبائل فون نمبر محفوظ ہے۔
کبیردادا نے خوش گوار لہجے میں پوچھا ۔”خاکوانی صاحب کیسے مزاج ہیں ۔“
”آپ کی کال کی خوشی ہضم نہیں ہو پا رہی ۔“
”محبت ہے آپ کی لیکن میں نے ایک کام کے سلسلے میں زحمت دینا تھی ۔“
وہ پر خلوص لہجے میںبولا ۔”دعا ہی کر سکتا ہوں کہ آپ کو روزانہ مجھ سے کام درپیش آتا رہے ۔“
”لیکن میں نے تو سنا ہے آپ کسی کی سفارش وغیرہ قبول نہیں کرتے ۔“
”آپ شرمندہ کر رہے ہیں ۔“خاکوانی خفیف ہونے لگا ۔
”آج کل کس ڈراما سیریل پر کام ہو رہا ہے ۔“
”دو ڈراما سیریل اکٹھی چل رہی ہیں کبیر صاحب!اپنا تو کاروبار ہی یہی ہے آہستہ ، تیز لگے رہتے ہیں ۔“
”نگی کو جانتے ہو ۔“کبیردادا مطلب کی بات پر آگیا تھا ۔
”نگی ....“وہ پر سوچ لہجے میں بولا ۔”شاید نگینہ یاسمین نام ہے ۔“
کبیردادانے سوالیہ نظریں نگی کی جانب اٹھائیں ۔ اوپر نیچے سر ہلاکر اس نے خاکوانی کی تصدیق کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔
”ہاں وہی۔“اور پوچھا ۔”کیسی اداکارہ ہے ؟“
وہ جلدی سے بولا ۔”بہت اچھی ....بہترین ادکارہ ہے ۔“
کبیردادا ہنسا ۔”اتنی تعریف کس لیے ۔اگر اتنی اچھی ہوتی تو آپ پہلے کسی ڈرامے میں کاسٹ نہ کر لیتے ۔“
وہ ترکی بہ ترکی بولا ۔”پھر آپ کی سفارش کی خوشی کیسے ملتی ۔“
”اچھا مذاق کے علاوہ ،میری سفارش پر اسے کتنے ڈراموں میں مرکزی کردار مل سکتا ہے ۔“
”تین ڈراموں میں اسے مرکزی کردار مل جائے گا اور اگر کارکردگی بہتر پائی تو اس کے بعد بھی محروم نہیں رہے گی ۔“
”شکریہ خاکوانی صاحب۔وہ کل آپ کے پاس پہنچ جائے گی ۔“
”یہ شکریے کا تھپڑ مارنا ضروری تھا ۔“وہ شکوہ کناں ہوا ۔
”اب اس بات پر معذرت کر کے آپ کو مزید خفا نہیں کر سکتا ،اس لیے اجازت ۔“
خاکوانی نے ہنستے ہوئے ”خداحافظ۔“کہا اور کبیردادا نے رابطہ نے منقطع کر دیا ۔
”یو آر سو سوئیٹ ،آئی لو یو ....“نگی نے رابطہ منقطع ہوتے ہی اس سے لپٹنے کی کوشش کی ۔
کبیردادا اسے دور ہٹاتے ہوئے بولا ۔”تم چاہتی ہو کہ میں خاکوانی کو منع کر دوں ۔“
”سوری سوری سوری ۔“وہ پیچھے ہٹ کر صوفے پر جا بیٹھی ۔
”اب تم پھوٹنے کی کرو ،پاشا پوچھتا ہے تو بتا دینا ساری رات میرے ساتھ ہی تھیں۔“
دروازے پر دستک ہوئی اور کبیردادا کے ۔”آجاﺅ ۔“کہنے پر راحت خالہ بڑی سی ٹرے میں تین چار ڈونگے سجائے اندر داخل ہوئی۔
”کھانا تو کھا لوں نا ۔“اس نے راحت خالہ کو دیکھتے ہی پوچھا ۔
کبیردادا بے رخی سے بولا ۔”گھر کھالینا ۔“یہ کہتے ہی اس نے اٹھتے ہوئے الوداعی مصافحے کے لیے اس کی جانب ہاتھ بڑھایا ۔اس کے دل میں صبر ختم ہو گیا تھا ۔وہ جلد از جلد تناوش کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتا تھا ۔
”اتنا کٹھور بھی کوئی نہ ہو ۔“وہ منھ بناتے ہوئے کھڑی ہو گئی ۔لیکن اس کے چہرے پر چھائے تاثرات یہ بتانے کے لیے کافی تھے کہ وہ بے حد خوش تھی ۔اس کی بلا سے کبیردادا کا تناوش سے کیا دلی تعلق تھا اور پاشا کی کیا پریشانیاں تھیں ۔اسے ایک ہی دن میں اتنے فوائد حاصل ہو گئے تھے ۔اور یہ کافی سے بھی کچھ زیادہ تھا ۔وہ کبیردادا سے الوداعی مصافحہ کر کے چل دی ۔شیشے کی میز پر کھانے کے برتن سجاتی راحت خالہ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا تھا ۔نگی کے باہر نکلتے ہی کبیردادا نے راحت خالہ سے جھجکتے ہوئے پوچھا ۔
”راحت خالہ ،وہ رو تو نہیں رہی تھی۔“
وہ آہستہ سے بولی ۔”جی صاحب ۔“
”کیا جی صاحب ۔“کبیردادا کی سمجھ میں اس کا جی صاحب کرنا نہیں آیا تھا ۔
”روتے روتے آدھی ہو چکی ہے ،دروازے کے باہر ہی بیٹھی تھی بڑی مشکل اٹھا کر ساتھ والے کمرے لے جاکر بٹھایا ،کافی دیر سمجھاتی رہی ہوں لیکن آنسو نہیں تھم رہے پگلی کے۔“
کبیر دادا کا دل عجیب قسم کے دکھ اور سرشاری کی ملی جلی کیفیت سے بھر گیا تھا ۔جہاں اس کا رونا تکلیف دینے والا تھا وہیں یہ سوچ کہ کسی کے لیے آپ اتنے اہم بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ پیٹھ پیچھے آپ کے لیے رو رہا ہے خوش کرنے والی تھی ۔
”اچھا جاﺅ اس کو لے آﺅ کہ کھانا کھا لے اور ساتھ یہ بھی بتادینا کہ دوسری لڑکی اپنے کسی کام کی غرض سے آئی تھی اورکام ہوتے ہی چلی گئی ۔“راحت خالہ سے زندگی میں پہلی بار کبیر دادا نے اتنی لمبی اور تفصیلی بات کی تھی ورنہ اس کی گفتگو ہلکا سا سر ہلانے پر ہی مشتمل ہوتی تھی ،یا زیادہ سے زیادہ چند الفاظ۔اور وہ اس طرح کسی بات کی صفائی دے ،ایسا تو راحت خالہ نے خواب میں بھی نہیں سوچاتھا ۔
”جی صاحب !“وہ خوشی سے چہکتے ہوئے باہر نکل آئی ۔تناوش تک وہ قریباََ دوڑتے ہوئے پہنچی تھی ۔وہ گھٹنوں پر سر رکھے خاموش بیٹھی جانے کن سوچوں میں گم تھی ۔اس کے آنسو خشک ہو چکے تھے مگر چہرے پر اسی طرح بارہ بج رہے تھے ۔
”کتنے نصیبوں والی ہے میری بیٹی ۔“اندر جاتے ہی راحت خالہ اس سے لپٹ گئی ۔
”طنز کر رہی ہیں خالہ ۔“وہ مزید دکھی ہونے لگی ۔
”طنز کیوں کروں گی اور آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ نے سچ کہا تھا کہ آپ واپس جانے کے لیے نہیں آئیں ۔“
”خالہ میرا مذاق اڑانا ضروری ہے کیا ۔“
”مذاق نہیں اڑا رہی خالہ کی جان حقیقت بیان کر رہی ہوں ۔“
”کون سی حقیقت خالہ ،یہی کہ میرا شوہر ایک دوسری لڑکی کے ساتھ خواب گاہ میں بند ہے اور مجھے اس نے شادی کی پانچویں رات ہی ٹھوکر لگا کر خواب گاہ سے باہر نکال دیا ہے ۔“
”ہے نا پگلی ،وہ ڈائن کب کی جا چکی ہے ،اسے تو گھاس بھی نہیں ڈالی صاحب نے ۔ اپنا کوئی کام کروانے آئی تھی ،کام کرتے ہی صاحب نے کہا کہ وہ جا سکتی ہے ۔کہہ رہی تھی کہ کھانا کھا کر چلی جاﺅں گی ۔صاحب جی نے کہا پھوٹنے والی کرو یہ کھانا وہ اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھ کر کھائے گا ۔“
وہ بے یقینی سے بولی ۔”خالہ جی ،کتنے جھوٹ بولیں گی مجھے تسلی دینے کے لیے ۔“
”جھوٹ کیسا ،صاحب جی آپ کو بلا ر ہے ہیں اور جانتی ہو کیا پوچھ رہے تھے۔“
”کیا ؟“تناوش کے لہجے میں ابھی تک بے یقینی ہلکورے لے رہی تھی ۔
”پوچھ رہے تھے آپ رو تو نہیں رہیں ،میں نے بھی کہہ دیا رورو کر آدھی ہو گئی ہے میری بچی ۔“
”اگر یہ سچ ہے تو آپ کو میرے رونے کی بات تو نہیں بتانا چاہیے تھی ۔“
”کیوں نہ بتاتی ،انھیں بھی تو تھوڑی تکلیف پہنچے ۔“
وہ پوچھنے لگی ۔”تکلیف کیسی خالہ جی ۔“
”جس سے محبت ہوتی ہے نا بیٹی ،اس کو روتے دیکھنا جتنا تکلیف دیتا ہے اتنی تکلیف اور کسی چیز سے نہیں ملتی ۔“
”خالہ جان ،سچ کہیں وہ مجھے بلا رہے ہیں نا ،آپ مجھے بہلا تو نہیں رہیں ۔“ خوشی اور دکھ کے امتزاج سے اس کا چہرہ عجیب سا منظر پیش کرنے لگاتھا ۔
”اللہ پاک کی قسم بیٹی بالکل سچ کہہ رہی ہوں ۔“راحت خالہ نے اسے یقین دلانے کے لیے قسم کھائی ۔وہ خوشی سے لرزتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھی مگرپھر واپس مڑتے ہوئے بیٹھ گئی ۔
”میں نہیں جاتی ،کم از کم آج تو نہیں جاﺅں گی ان کے پاس ۔“
”پاگل تو نہیں ہوئی ہو ۔“راحت خالہ نے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھامتے ہوئے ماتھے پر بوسا دیا۔”خالہ کی جان ایسا نہیں کرتے ،نخرے کرنے کا ،لاڈ اٹھوانے کا اور اپنی ہر بات منوانے کا بہت وقت پڑا ہے ۔فی الحال صاحب جی پر اپنی گرفت مضبوط کرو اور دیکھنا ایک دن صاحب جی خواب گاہ میں لڑکی بلانا تو کجا کسی غیرلڑکی کونگاہ بھر کر دیکھنے سے پہلے آپ کی غیر موجودی کا یقین کرے گا ۔“
”جاﺅں ۔“یہ پوچھتے ہوئے وہ کھل پڑی تھی ۔کبیردادا کے متعلق اس کے اندازے غلط ثابت نہیں ہوئے تھے ۔
”جاﺅ نا پاگل ،وہ بے چینی سے آپ کا منتظر ہے ۔“
راحت خالہ کی طرف شوخ نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ ایک دم اٹھ کر بھاگ پڑی ، خواب گاہ کے دروازے پر لمحہ بھررک کر اس نے گہرا سانس لیا اور دروازے کو دھکیلتی ہوئی اندر داخل ہوگئی ۔وہ تکیے کو گود میں لیے بیڈ پر بیٹھا دروازے کی طرف متوجہ تھا ۔ایک دم اس کی جانب پیٹھ کرتے ہوئے وہ دروازے کی طرف متوجہ ہوئی ۔دروازہ بند کر کے بھی وہ دو تین لمحے اسی طرح کھڑی رہی ۔پھر اسے زور کا رونا آیا اور وہ اسی طرح کبیردادا سے رخ پھیرے نیچے بیٹھ کر رونے لگی ۔
اسے روتے دیکھ کر وہ بے اختیار تکیے کو ایک جانب پھینکتا ہوا اس کی طرف بڑھا ۔ ”رو کیوں رہی ہو ۔“قریب آتے ہی اس نے بے تابی سے پوچھا تھا ۔
ایک دم اس سے لپٹتے ہوئے وہ چیخ پڑ ی ۔”آپ آئندہ ایسا نہیں کریں گے .... آپ کسی لڑکی سے بات نہیں کریں ....آپ بے شک مجھے دھتکارتے رہنا ،میری کوئی بات نہ ماننا ، ہر بات پر میری بے عزتی کرنا مگر ....مگر کسی لڑکی کی طرف متوجہ نہ ہونا ورنہ مجھے کچھ ہو جائے گا .... میں مر جاﺅں گی .... میں ،میں بچ نہیں سکوں گی ....ہاں میں کہے دیتی ہوں میں زہر کھالوں گی ....سن رہے ہیں نا آپ ....آپ کو سمجھ آرہی ہیں میری باتیں ۔“اس کے منھ سے بے ربط باتیں نکل رہی تھیں ۔
کبیردادا کے ہونٹوں پر تبسم نمودار ہوا ۔”اچھا ٹھیک ہے ،چپ کر جاﺅ،کوئی بھی لڑکی نہیں آئے گی ،لیکن تم بھی وعدہ کرو کہ ہر وقت رومانس نہیں جھاڑو گی ۔“
”نہیں کرتی وعدہ ....پیغام بھی بھیجوں گی ، اپنے ہاتھ سے کھانا بھی کھلانا پڑے گا ، گندا مشرو ب بھی نہیں پینے دوں گی ،آپ کو جلدی گھر لوٹ کر بھی آنا پڑے گااور کبیر بھی کہوں گی ، کبیر.... کبیر.... کبیر ۔“وہ اس سے چمٹی سسکیاں بھرتے ہوئے کہتی رہی ۔
”اچھا جھگڑا ختم کرو ،چلیں کھانا کھاتے ہیں ۔“کبیردادا نے صلح کی پیش کش کی ۔
پیچھے ہٹتے ہوئے اس نے آنسو صاف کیے ،مسکراتی آنکھوں کے آنسوﺅں کی بھی اپنی کشش ہے ۔اشکوں سے دھلی کالی سیاہ آنکھوں نے کبیردادا کو مسحور کردیا تھا ۔تناوش کے لبوں پر ویسا ہی ملکوتی تبسم رقصاں تھا جیسا اس نے تصور کی آنکھ سے دیکھا تھا ۔
وہ میز کی طرف مڑی کھانے کے برتنوں کے ساتھ پڑی بوتلوں کو دیکھتے ہی وہ سرعت سے ان کی طرف بڑھی ۔اور تینوں بوتلوں کو اٹھا کر الماری کی طرف بڑھ گئی تھی ۔کبیردادا کے لیے نگی نے جو گلاس بھرا تھا وہ ابھی تک ویسے ہی رکھا تھا ۔وہ گلاس بھی تناوش نے اٹھا لیا تھا ۔اس کی تیزی دیکھتے ہوئے کبیردادا اپنی ہنسی نہیں روک پایا تھا ۔الماری کی چابی اس نے دھاگے میں پرو کر گلے میں ڈالی ہوئی تھی ۔تینوں بوتلوں کو تالا کر کے اس نے گلاس کا مشرو ب غسل خانے میں گرایا اورگلاس دھو کر اس کے پاس لوٹ آئی ۔
اس نے فوراََ پوچھا ۔”میری آج کی بوتل کہاں گئی ۔“
وہ معصومیت سے بولی ۔”پتا نہیں میری غیر موجودی میں کتنی بوتلیں پی لی ہوں گی ۔“
”غضب خدا کا ایک گلاس بھرا تھا اس سے بھی گھونٹ نہیں لے پایا تھا جو محترمہ نے گرا دیا۔“
”ایک بوتل آدھی خالی تھی ۔“
”وہ تو مہمان نے پی ہے ۔“
”اتنا زیادہ کھانا کیوں منگوایا ۔“یقینا وہ اس لڑکی کے بارے کوئی بات نہیں کرنا چاہ رہی تھی ۔
”میں نے سوچا بھوکا ہونے کی وجہ سے اتنا رور ہی تھیں تو چلو کھلا پلا کے دکھ دور کر دیتا ہوں ۔“
گہری نظروں سے اسے گھور کر وہ کھانے کی طرف متوجہ ہو گئی اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ کبیردادا کو ہاتھ سے کھلانے کا موقع جانے دیتی یوں بھی اس وقت کبیردادا اس کی دل جوئی میں لگا ہوا تھا ۔
کھانا کھا کر وہ برتن سمیٹنے لگی ۔
کبیردادا سنجیدگی سے بولا ۔” میں سچ کہہ رہا ہوں میں نے ایک گھونٹ بھی نہیں بھرا تھا اس لیے میری آج کی بوتل لے آﺅ ۔“
”اچھا میں یہ برتن دھو کر آتی ہوں ،پھر اپنے ہاتھوں سے پلاﺅں گی ۔“
”رہنے دو ،میں پی لوں گا ۔بس بوتل دیتی جاﺅ ۔“کبیردادا اس کی چالاکیوں سے اچھی طرح واقف تھا ۔اور جانتا تھا کہ وہ ہزار بہانوں سے اسے شراب پینے سے روکنے کی کوشش کرے گی ۔
”آرہی ہوں نا ،اتنے بے صبرے کیوں ہو جاتے ہیں آ پ۔خود کہہ رہے تھے کہ لڑکے نہیں رہے ،حرکتیں دیکھو بالکل بچوں والی ہیں۔“
”ٹھیک ہے جاﺅ ۔“غیر متوقع طور پر کبیردادانے ضد چھوڑ دی ۔اور وہ خوشی سے سر ہلاتی باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی ۔
اس کے خواب گاہ سے نکلتے ہی اس نے عظیم کا نمبر ملایا۔
”جی دادا!“اس نے فوراََ کال وصول کی تھی ۔
اس نے پوچھا ۔”تمھارے پاس وہسکی کی کوئی بوتل رکھی ہے ۔“
”جی دادا!....“
”فوراََ میرے پاس لے آﺅ ۔“کہہ کر اس نے رابطہ منقطع کر دیا ۔
دو منٹ بعد ہی عظٰم دروازے کو کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوا اس کے ہاتھ میں وہسکی کی سر بمہر بوتل تھی ۔بوتل اس کے سامنے میز پر رکھ کر وہ واپس مڑ گیا ۔
کبیردادانے فرج سے برف کے ٹکڑے نکالے اور اطمینان سے شغل میں لگ گیا ۔ تناوش کے لوٹنے تک وہ آدھی سے زیادہ بوتل خالی کر چکا تھا ۔
”یہ کہاں سے آئی ہے ۔“واپس آتے ہی اس نے تالہ کی ہوئی الماری کو مشکوک نظروں سے دیکھا۔
پتا نہیں ۔“اس نے چوتھا گلاس اٹھا کر ہونٹوں سے لگا لیا ۔
دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی وہ میز کے قریب آئی اور پھر ایک دم جھپٹ کر بوتل اٹھاتے ہوئے بولی ۔”پوری بوتل تو نہیں پینے دوں گی ۔“
”تناوش ،بوتل مجھے دو ۔“گلاس نیچے رکھتے ہوئے وہ جارحانہ انداز میں کھڑا ہو گیا ۔
”نہیں دوں گی ۔“وہ غسل خانے کی طرف بھاگی ۔کبیردادا بھی جست لگا کر اس کے پیچھے دوڑ پڑا ۔وہ غسل خانے میں داخل ہونے ہی والی تھی کہ کبیردادا نے اس کے بازو کو پکڑ لیا ۔
تناوش نے فوراََ ہاتھ میں پکڑی بوتل غسل خانے کے فرش پر اچھالی شیشے کی بوتل کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی ۔
”یہ کیا بے ہودگی ہے ۔“کبیردادا کو سچ مچ غصہ آگیا تھا۔اس کا تلخ لہجہ سنتے ہی وہ کانپ گئی تھی ۔
”بے ہودہ لڑکی ۔“اسے آہستہ سے دور جھٹکتا ہوا وہ بیڈ کی طرف مڑ گیا ۔تناوش وہیں کھڑی مسکین نظروں سے اسے دیکھتی رہی ۔
بیڈ پر لیٹ کر اس نے تناوش کی جانب پیٹھ موڑ لی تھی ۔
چند لمحے اسے گھورنے کے بعد وہ غسل خانے میں گھس گئی ۔شیشے کی کرچیاں اٹھا کر اس نے ٹوکری میں ڈالیں اور فرش کی صفائی کر کے باہر نکل آئی ۔کبیردادا اسی طرح کروٹ بدلے لیٹا تھا ۔اسے اپنا رویہ غلط محسوس ہوا ۔الماری کے پاس جا کر اس نے ایک کھلی ہوئی بوتل اٹھائی اور بیڈ کی طرف بڑھ گئی ۔تپائی پر بوتل اور گلاس رکھ کروہ کبیردادا کے ساتھ بیٹھ گئی ۔
وہ آنکھیں بند کیے خاموش لیٹا تھا ۔تناوش نے اپنا ہاتھ اس کے سر کی طرف بڑھایا،اس کی انگلیاں کبیردادا کے بالوں میں پوری گھسی نہیں تھیں کہ کبیردادا نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔وہ بھرپور ناراضی کا اظہار کر رہا تھا ۔
وہ منمنائی ۔”سوری ،غلطی ہو گئی ہے ۔“
وہ خاموش لیٹا رہا ۔
”اچھا خفا تو نہ ہوں نا ،آپ کے لیے نئی بوتل نکال کے لے آئی ہوں ۔مجھے تو بس اس لیے غصہ آگیا تھا کہ میں نے کہا تھا آج اپنے ہاتھوں سے آپ کو گلاس بھر بھر کے دوں گی ۔“
”بکواس بند کرو اور سونے دو ۔“
”پلیز ۔“اس نے دوبارہ کبیردادا کے بالوں میں انگلیاں گھسیڑنا چاہیں ۔پہلے کی طرح اس کے ہاتھ کو دور جھٹکتے ہوئے اس نے ہلکا سا دھکا دے کر اسے نیچے قالین پر پھینک دیا ۔
وہ فوراََ بیڈ پر چڑھ کراپنی جگہ پر لیٹتے ہوئے اس سے لپٹ گئی ۔”ناراض تو سونے نہیں دوں گی ۔“
”دماغ خراب مت کرو سمجھیں ۔“کبیردادا نے دھاڑتے ہوئے اسے پھر دور کردیا ۔
وہ روہانسی ہوتے ہوئے چلائی ۔”معافی مانگ تو رہی ہوں ،بوتل بھی لے آئی ہوں ۔ اب بس کریں نا کتنی سزا دیں گے ۔“
”مجھے ،تمھاری بکواس نہیں سننا۔دور رہو مجھ سے بے ہودہ لڑکی ۔“یہ کہتے ہی اس نے تپائی پر رکھی بوتل اٹھا کر غسل خانے کے دروازے کی طرف اچھا ل دی ،جو لکڑی کے دروازے سے ٹکرا کر نیچے گری مگر دبیز قالین کی وجہ سے ٹوٹنے سے بچ گئی تھی ۔
تناوش پھر آہستہ آہستہ اس کے قریب ہوئی مگر کبیر دادا نے دوبارہ دور دھکیلتے ہوئے کہا۔”اب اگر تم قریب آئیں تو میں کال کر کے دوبارہ نگی کو بلا لوں گا ۔“
”میں اس کی جان لے لوں گی ۔“وہ اس کی دھمکی کی پروا نہ کرتے ہوئے دوبارہ قریب ہو گئی اور پھر کبیردادا کے بار بار دور کرنے کے باوجود اس کی جان نہ چھوڑی ،یہاں تک کہ اس نے ہتھیار ڈال دیے ۔تھوڑی دیر بعد وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی ۔
”لگتا ہے آپ مجھ سے جان چھڑانے کی کوششوں میں ہیں ۔سچ کہتی ہوں اپنی جان دے دوں گی مگر ایسا نہیں ہونے دوں گی ۔“
”تم بس ایک پاگل ،احمق اور بے وقوف لڑکی ہو ۔“
وہ فوراََ بولی ۔”جب جانتے ہیں کہ پاگل اور احمق ہوں تو میری غلطیوں پر ڈانتے کیوں ہیں ،چپ کر کے میری مان کیوں نہیں لیتے ۔“
”مان کیوں نہیں لیتے ۔“کبیردادا نے منھ بگاڑ کر اس کا فقرہ دہرایا اور وہ کھل کھلا کر ہنس دی ۔سنجیدہ ،متین اور رعب داب والے کبیردادا کو اپنا رکھ رکھاﺅ اور طنطنہ بھول گیا تھا ۔ایک کم عمر لڑکی اس کے اعصاب پر پوری طرح حاوی ہو چکی تھی ۔کبیردادا آنکھیں بند کر کے کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگا جس سے تناوش کو خفا کیے بغیر واپس بھیجا جا سکتا ہو،کوئی ایسی تجویز جس سے وہ چھوٹی سی لڑکی اس کی سوچوں اور دماغ سے بھی نکل جاتی ،مگر یہ کام اسے بہت مشکل لگ رہا تھا ۔ دل ،دماغ کے خلاف مکمل طور پر میدان میں آگیا تھا اور دل تو ایسا ہٹ دھرم ،ضدی اور بااثر ہے کہ اپنی منوا کر ہی رہتا ہے ۔
تناوش کی میٹھی گنگناہٹ اسے سپنوں کی دنیا میں دھکیل لے گئی ۔ایک ایسے جہان میں جہاں دنیا کے سارے جھگڑوں ،فساد ،خساروں ،دکھوں ،الجھنوں اور خوف وغیرہ کا دور دور تک نشان نہیں تھا بس وہ اور تناوش تھے ،خوشیاں اور راحتیں تھیں ،سکون اور اطمینان تھا ۔
٭٭٭
”تو تم ناکام رہیں ۔“نگی کے کال وصول نہ کرنے پر پاشا اس کی کوٹھی ہی پر پہنچ گیا تھا۔ اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بغیر کسی تمہید کے اس نے پہلا فقرہ یہی کہا تھا ۔
”تمھیں کیسے پتا چلا ؟“دماغ میں جھوٹ کو ترتیب دیتی نگی نے حیرانی سے پوچھا ۔
”کیا کہہ رہا تھا دادا۔“اس نے نگی کے استفسار کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی ۔
”کچھ خاص نہیں ۔میرے مسائل پوچھے ،فائدہ پہنچایااور یہ کہہ کر رخصت کر دیا کہ پاشا کو کہہ دینا میں ساری رات اس کے ساتھ رہی ہوں ۔“
”بھابی سے بات ہوئی تھی ۔“
”بس مصافحہ کیا تھا،ورنہ تو مجھے دیکھتے ہی اس کی حالت ایسی ہو گئی تھی گویا اس نے موت دیکھ لی ہو ۔آنکھوں میں آنسو اور کپکپاتے ہونٹ یقین مانو مجھے تو ترس آرہا تھا اس کی حالت دیکھ کر ۔کسی کی محبت میں یوں پاگل ہوجانا بے وقوفی ہی تو ہے ۔چاہے مرد کبیردادا جیسا ہی کیوں نہ ہو۔“
”اداکاری کر رہی تھی کمینی ....میرا مطلب کمینی بھابی ۔“پاشا نے فوراََ فقرے کی تصحیح کی تھی ۔
”اگر اداکاری تھی تو آسکر ایوارڈ اس کا حق بنتا ہے ۔مجھ جیسی منجھی ہوئی اداکارہ بھی ایسی کارکردگی نہیں دکھا سکتی ۔“
پاشا نے منھ بنایا۔”تم بھی کبیردادا کی طرح اس کی معصومیت سے متاثر ہو گئیں ۔“
”وہ ہے ہی معصوم ،صاف گو اور سیدھی سادی ۔اپنے تاثرات چھپانا اسے آتا ہی نہیں ہے ورنہ ایک غیر لڑکی کے سامنے یوں نہ کرتی ۔“
”اسی کی حالت دیکھ کر کبیردادا نے کیا ردعمل ظاہرکیا ۔“
”کھویا کھویا ،گم سم لگ رہا تھا ۔اسے کمرے سے چلے جانے کا خود کہہ دیا تھا ۔اس کے جاتے ہی کبھی دروازے کو گھورنے لگتا اور کبھی چھت کو ۔مجھ جیسی لڑکی گویا اسے نظر ہی نہیں آرہی تھی۔حالانکہ پیسے والے مجھے ایک رات کے پندرہ سے بیس لاکھ ہنسی خوشی ادا کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں ۔شراب کے رسیا نے وہسکی کے بھرے ہوئے گلاس کو ہاتھ تک نہیں لگایا ۔اور پھر اس سے زیادہ دیر صبر نہ سکا ۔تمھارے سامنے غلط بیانی کرنے کے عوض تین ڈراموں میں مرکزی کردار حاصل کر کے دیا اور رخصت کر دیا ۔“
”گویا میرااندازہ غلط نہیں تھا ۔“
نگی صاف گوئی سے بولی ۔”سچ کہوں تو تم ابھی تک کبیردادا کی حالت کا اندازہ لگا ہی نہیں پائے ۔اس نے چند لمحے مجھے صرف تمھاری وجہ سے برداشت کیا ورنہ وہ کبھی بھی اس کی آنکھوں میں آنسو نہ آنے دیتا ۔“
”ہونہہ!“گہرا سانس لیتے ہوئے پاشا نے کہا ۔”جانتا ہوں ۔کبیردادا کے نزدیک میری حیثیت چھوٹے بھائی کی سی ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ میں انھیں برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا ۔ وہ معصوم کمینی بھابی انھیں برباد کر دے گی اور میں ایسا نہیں ہونے دوں گا ۔“
”بات بہت بڑھ گئی ہے پاشا!....اب اس مسئلے کا سادہ حل یہی ہے کہ کبیردادا کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔“نگی نے معقول مشورہ دیا ۔
”نہیں ایک اور حل بھی ہے ۔“پاشا نے ہاتھ میں تھامے گلاس سے باقی ماندہ شراب حلق میں انڈیلی اور جانے کے ارادے سے کھڑا ہو گیا ۔
وہ اس کی تقلید میں اٹھتے ہوئے بولی ۔”اگر یہ سوچ رہے ہو کہ کسی خوب صورت لڑکی کو بھیج کر کبیردادا کے دل سے اس کی محبت نکال دو گے تو غلطی پر ہو ۔“
پاشا نے دروازے کی طرف قدم بڑھا دیے ۔وہ بھی اسے رخصت کرنے ساتھ چل پڑی تھی۔ڈرائینگ روم کے دروازے کے ساتھ رکتے ہوئے پاشا پیچھے مڑا ۔”ویسے کیا خیال ہے، اگر وہ معصوم کمینی ڈائن بھابی نہ رہے تو کبیردادا کتنے دنوں میں سنبھل جائیں گے ۔“
”کک ....کیا مطلب ؟“نگی ہکلا گئی تھی ۔
پاشا ہنسا ۔”اب موت تو کسی کو کسی بھی وقت آسکتی ہے نا ۔“
”اگر کبیردادا کو معلوم ہو گیا کہ اس کا قاتل کون ہے تب ؟“یقینا نگی ،تناوش کی موت کے حق میں نہیں تھی ۔وہ معصوم ،گڑیا سی لڑکی اسے بھی بہت پیاری لگی تھی ۔
پاشا تیقن سے بولا ۔”زیادہ عرصے خفا نہیں رہ سکیں گے خاص کر اس صورت میں جب انھیں اچھی طرح معلوم ہو گا کہ یہ قدم ان کی بہتری کے لیے اٹھایا گیا ہے ۔“
”کوئی اور حل ؟“نگی واضح مخالفت نہیں کر سکتی تھی ۔
”میں فضول سوچوں میں دما غ نہیں تھکاتا ۔“کہتے ہوئے پاشا چل پڑا ۔
”اور ہاں ۔“کار کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ ایک بار پھر اس کی طرف متوجہ ہوا ۔ ”اگر کبیردادا کو یہ بات اس کمینی لڑکی کی موت سے پہلے معلوم ہو گئی ، تب بھی ایک لڑکی مرے گی ضرور اب یہ خود سوچ لینا کہ کس لڑکی کی جان تمھارے لیے قیمتی ہے ۔“اس کے جوا ب کا انتظار کیے بغیر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اس نے کار آگے بڑھا دی ۔وہاں وہ اپنے محافظوں اور ڈرائیور کے بغیر ہی آیا تھا ۔کیونکہ کبیردادا کے معاملے میں وہ اپنے آدمیوں پر بھروسا نہیں کر سکتا تھا ۔
نگی پریشان نظروں سے اسے گھورتی رہ گئی ۔تناوش کو بچانے کے لیے وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی ،کہ اس کے نزدیک اپنی جان تناوش سے کئی گنا اہم تھی ۔بلکہ اپنی جان کا کسی دوسرے کے ساتھ تقابل کرنا ایک مذاق ہی تو تھا ۔
٭٭٭
ایس پی ضمیر حسین ،نوشاد آفریدی اورا خلاق حسین کو گزشتا دن کبیردادا سے ہونے والی ملاقات کی تفصیل بتاتے ہوئے آخر میں کہہ رہا تھا ۔”جلد سے جلد اسے لگام ڈالنے کی کرو ورنہ وہ ہم سب کو برباد کر دے گا ۔“
”اتنا پھنے خان بھی نہیں ہے ۔“نوشاد آفریدی نے منھ بنایا۔
”آفریدی صاحب،بڑھکیں مارنے سے کام نہیں بنتا ۔اس دن اس نے ایک ہاتھ سے تمھیں زمین سے اٹھا کر دیوار سے لگا دیا تھا ۔بڑی مشکل سے شہاب قصوری اور بابر حیات نے تمھیں اس کی گرفت سے آزاد کرایا تھا ۔“
نوشاد آفریدی کھسیاتے ہوئے بولا ۔”میں تو بس یہ کہہ رہا تھا کہ اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔“
ایس پی بغیر لگی لپٹی بولا ۔”تو کس سے ڈریں ،شاہ صاحب کو اس کی رکھیل سے معافی مانگنے کا مشورہ تو تم نے بھی دیا تھا ۔ایک گینگ کا سربراہ اسکول کی لڑکی سے معذرت کرتا پھر رہا ہے کیا یہ کبیردادا کے ڈر کی وجہ سے نہیں تھا ۔“
نوشاد آفریدی نے دانت پیسے ۔”اس کا حسا ب کبیردادا کے ذمہ بقایا ہے ۔“
”تم لوگ بس زبانی جمع خرچ کرتے رہنا اور وہ من مانیاں کرتا رہے گا ۔شمشیر دادا ، شہاب قصوری کو بڑا بانٹ گیا تھا وہ خود کبیر دادا کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوتا ہے ۔“
”تو کیا کریں ۔“خاموش بیٹھے اخلاق حسین نے زبان کھولی ۔
”یہی سوال میرا ہے ۔“ایس پی نے سر پیٹا ۔”ایک اور شمشیر دادا کے استقبال کے لیے تیار رہو ۔تمھاری آمدن کا آدھا حصہ بغیر کسی محنت کے اس کی جیب میں جائے گا ،اس سے پوچھے بغیر کوئی نیا کام دھندہ شروع نہیں کرسکو گے اور یاد رکھنا یہ جو اسکول کی چھوکری ہے نا تمھاری بیگمات اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی دکھائی دیں گے ۔اور اس کی آمد پر ہمیں کرسی چھوڑ کر کھڑا ہونا پڑے گا ۔“
”وہ تو بس میرے بستر کی زینت بنے گی ۔“نوشاد آفریدی تپتے ہوئے بولا ۔
ایس پی استہزائیہ انداز میں بولا ۔”اتنی جرّات ہے کسی میں کہ اسے چھو سکے ۔“
نوشاد آفریدی شاکی ہوا ۔”یار ،تم مسلسل ہماری توہین میں لگے ہو ۔“
”ہاں ۔“ایس پی اثبات میں چیخا ۔”کیوں کہ میں تمھارا خیر خواہ ہوں ۔میں تمھاری اور اپنی آزادی چاہتا ہوں۔ایس پی ہونے کے باوجود تھانیدار مجھ سے زیادہ کبیردادا سے خوف کھاتے ہیں ۔مجھے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ جلد از جلد اس کا بندوبست نہ کیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔“
اخلاق حسین نے مشورہ دیا ۔”اگر کاشف راجپوت اور پاشا کو ساتھ ملالیں تو اس سے مقابلہ کر نا مشکل نہیں رہے گا ۔“
”خواب دیکھنا بند کر دو ۔کبیردادا کی طرف چلنے والی گولی کے سامنے پاشا اپنا سینہ تاننے سے بھی نہیں ہٹے گا ۔کاشف راجپوت کو بھی اس سے توڑنا مشکل ہے ۔وہ بہت پرانے دوست ہیں ۔اور کبیر دادا سے جو خطرات ہمیں محسوس ہورہے ہیں اس میں کاشف راجپوت اور بہرام پاشا کے فائدے پوشیدہ ہیں ۔وہ کبھی بھی اس خلاف نہیں ہوں گے ۔“
”اگر پاشا کو سربراہی کا لالچ دیا جائے تو ....؟“اخلاق حسین اپنی بات پر قائم تھا ۔ ”اقتدار کا لالچ تو بیٹے کے ہاتھوں باپ کا قتل کروا دیتا ہے ۔“
”اقتدار ہے کس کے پاس جو پاشا کو لالچ دیا جائے ۔کبیردادا صرف لڑائی بھڑائی کا ماہر نہیں ہے لومڑ کی طرح چالاک بھی ہے ۔اپنے گینگ میں موجود طاقت ور آدمی کو اس نے بغیر دیر لگائے علاحدہ گینگ بنا کر دے دیا ۔گو پاشا جسمانی لڑائی میں اس سے کم تر ہے ،مگر کبیردادا جانتا تھا کہ ایک دن وہ پاشا سے کمزور ہو جائے گا اور اس وقت شاید پاشا اقتدار کی ہوس میں اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے ۔اس لیے اس نے پہلے سے اس خطرے کا سد باب بھی کر دیا ۔ اور پاشا کو مزید زیر بار بھی کر دیا ۔“
”میرا مطلب ہے ہم پاشا کو کہہ سکتے ہیں کہ کبیردادا کے خاتمے کے بعد ہم تمام اسے شہاب قصور ی کی جگہ سربراہ بنا لیں گے ۔“اخلاق حسین نے اپنی بات کی وضاحت کی ۔
”ہونہہ!....اور وہ ہماری بات پر یقین کر لے گا ۔عقل کے دشمن ہم یہاں تین سربراہ بیٹھے ہیں ۔پاشا ہم تین پر تو یقین کر کے کبیردادا کے خلاف محاذ میں شامل نہیں ہو گانا ۔“
”تمھارا مطلب ہے ہمیں باقیوں کو ساتھ ملانا پڑے گا ۔“اخلاق حسین نے پر خیال انداز میں سر ہلایا۔
ایس پی نے اثبات میں سر ہلایا۔”ہاں ،مگر پاشا کسی صورت کبیردادا کے خلاف کام نہیں کرے گا ،الٹا ہمارا بھانڈا پھوڑ دے گا ۔“
”آخر تم لوگ شمشیر دادا کو بلانے کی کوشش یوں نہیں کرتے ۔“نوشاد آفریدی نے کئی بار دیا ہوا مشورہ دہرایا ۔
ایس پی نے منھ بنایا۔”کیا کہہ کر بلاﺅ گے کہ کبیردادا نے اخلاق حسین شاہ کی توہین کی ہے اور وہ یہاں آکر کبیر دادا کو قتل کر کے چلا جائے گا ۔“
”اس کے ساتھ یہ بھی کہ وہ شہاب قصوری کی جگہ لینا چاہتا ہے ۔جب تمام اس کے خلاف گواہی دیں گے تو یقینا شمشیر دادااسے سزا سنائے بغیر نہیں ٹلے گا ۔“نوشاد آفریدی نے اپنے مشورے کی تائید میں دلیل دی ۔
”کون سے تمام اس کے خلاف گواہی دیں گے ۔زیادہ سے زیادہ اگر سارے متفق ہو سکتے ہیں تو اس بات پر کہ کبیردادا نے شاہ جی کے ساتھ زیادتی کی ہے ۔ورنہ فصیح الدین عرف فاصی ہتھ چھٹ کے ساتھ کبیردادا کی اچھی خاصی توتو میں میں ہوئی ہے مگر وہ بھی کبیردادا کے خلاف اس حد تک جانے کو تیار نہیں کہ اسے قتل کر دیا جائے ۔تم لوگوں کے قائم کیے ہوئے مقدمے پر بہت ہوا تو شمشیر دادا اسے تنبیہ کر دے گا۔ ہمارا مسئلہ پھر بھی حل ہوتا نظر نہیں آتا ۔ خاص کر تم دونوں تو یونھی اس کی رکھیل پر رالیں ٹپکاتے رہ جاﺅ گے ۔“ایس پی نے حقائق کا پٹارہ کھولا ۔
”یار ،تمھاری باتیں دل کو لگ رہی ہیں اور ہماری عقل تو اس معاملے میں جواب دے گئی ہے ۔سمجھ میں نہیں آرہا کیا کیا جائے ۔“اخلاق حسین نے شکست تسلیم کرنے میں عافیت سمجھی تھی ۔نوشاد آفریدی کا بے بسی کے اثرات سے پر چہرہ بھی اس سے متفق نظر آرہا تھا ۔
”میں جانتا تھا آخر یہی سننے کو ملے گا ،لیکن میں تم دونوں کی طرح سویا ہوا نہیں ہوں ۔ مجھے فکر ہے اوراس کی رکھیل کی آمد سے پہلے ہی مجھے کبیردادا کھل رہا ہے ۔اور اب اس نے ایسے مواقع فراہم کر دیے ہیں کہ ہم اسے مزید الجھا سکیں ۔یاد رکھنا چالاک ،عیار اور طاقت مرد بھی اگر مار کھاتا ہے تو کسی نازک اندام عورت کے ہاتھوں ۔پیار، محبت اور عشق وغیرہ ایسی لا علاج بیماری ہے جو انسان کی صلاحیتوں کا بیڑا کر دیتی ہے ۔اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بس اسی شخصیت کے گرد گھومتی رہتی ہیں جس سے وہ پیار کرتا ہے ۔اور خوش ہو جاﺅ کہ کبیردادا کو یہ بیماری لگ گئی ہے ۔وہ چھوٹی سی چھوکری اس خبیث کے اعصاب پر سوار ہو گئی ہے۔اس معاملے میں اس کا چہیتا پاشا بھی بہت پریشان ہے ۔شاہ جی کے ہاں پارٹی کے موقع پر میرے آدمی نے پاشا اور کاشف راجپوت کی باتیں سنی ہیں ۔پاشا کا موقف اس بارے بالکل واضح ہے وہ کبیر دادا کو اس چھوکری سے دور کرنے کی کوشش میں ہے ۔گزشتا رات کبیردادا کی پرانی منظور نظر نگی بھی اس کی کوٹھی میں جاتی دیکھی گئی لیکن ایک گھنٹے بعد ہی وہ واپس جا رہی تھی۔چاہے اس کی آمد کا جو بھی مقصد ہو، مگر کبیردادا، نگی جیسی لڑکی کے ساتھ رات گزارے بغیر اسے نہ جانے دیتاپر اس نے ایسا کچھ نہ کیا،کیوں کہ وہ خبیث اس چھوکری پر بری طرح فریفتہ ہے اور اس کی اسی کمزوری کو ہم اپنے مقصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔“
”کیسے ؟“دونوں بیک زبان مستفسر ہوئے ۔
ایس پی فخریہ لہجے میں بولا۔”اس کیسے کی تلاش میں جانے کب سے اس خبیث کی نگرانی کروا رہا ہوں ۔یقینا اس پر ہاتھ ڈالنا نہایت مشکل تھا لیکن اب اس نے خود ہی یہ موقع فراہم کر دیا ہے ۔اگر یہ رکھیل اس کی زندگی میں نہ آتی تو شاید میں یہ منصوبہ نہ بنا پاتا ۔“
”اب پھوٹ بھی دو ۔“نوشاد نے بے صبری کا اظہار کیا ۔اخلاق حسین بھی اشتیاق آمیز نظروں سے ایس پی کو دیکھ رہا تھا ۔
”کیا تم دونوں جانتے ہو کہ فصیح الدین شمشیر دادا کا ماموں زاد بھائی ہے ۔“
اخلاق حسین بولا ۔”اتنا تو معلوم تھا کہ فصیح الدین ،شمشیر دادا کا رشتا دار ہے مگر رشتے کی نوعیت جاننے کی زحمت میں نے کبھی نہیں کی ۔“نوشاد نے بھی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اخلاق سے اتفاق کیا تھا ۔
”چلو میں نے بتا دیا ہے نا ،اب منصوبہ یہ ہے کہ اگر کبیردادا فصیح الدین کو اپنی رکھیل کی وجہ سے قتل کر دیتا ہے تو ہمیں شمشیر دادا کو بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی بس اس تک یہ اطلاع پہنچانے ہی سے مسئلہ حل ہو جائے گا ۔“
”بہت اچھی سوچ ہے ،مگر یہ ہو گا کیسے ۔یونھی خواہ مخواہ تو کبیردادا اتنا بڑا قدم نہیں اٹھانے والا۔“
ایس پی معنی خیز انداز میں بولا ۔”اگر فصیح الدین اس کی لاڈلی کو اغوا کر کے اس کے ساتھ رنگ رلیاں منارہا ہو اور کبیردادا عین موقع پر پہنچ جائے تو اندازہ لگاﺅ کیا ہوگا ؟“
نوشاد نے کہا ۔”سوال تھا کہ یہ ہو گا کیسے ؟“
”فصیح الدین عرف فاصی ہتھ چھٹ ہر شبِ اتواراپنی ایک مخصوص کوٹھی میں گزارتا ہے۔جو اس کا خفیہ عیاشی کا اڈہ ہے ۔ رات کے آٹھ بجے ہی وہ وہاں پہنچ جاتا ہے ۔اس کے خاص آدمی نے وہاں ایک خو ب صورت لڑکی پہنچائی ہوتی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں اس نے ایک اتوار کی شب بھی ناغہ نہیں کیا۔“
”تو ....“وہ دونوں ابھی تک بھی اس کی بات نہیں سمجھے تھے ۔
”اگر کبیردادا کی رکھیل کو فصیح الدین کی کوٹھی میں پہنچا دیا جائے اور پھر کبیردادا کو مطلع کر دیا جائے کہ اس کی چھمک چھلو اس وقت کہاں اور کس حال میں ہے ........“ایس پی نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا تھا ۔
اخلاق حسین جھلا کر بولا ۔”یار پولسیئے میں دیوار کو ٹکر ماردوں گا ....اتنا سسپنس پھیلانے کے بہ جائے اگر مکمل منصوبہ ایک ہی بار بیان کر دو تو شاید ہمارے دماغوں پر اتنا بوجھ نہ پڑے ۔“
ایس پی نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ۔”اچھا سنو ....کبیردادا کی لاڈلی ہر دوسرے تیسرے دن کبیردادا کے گھر سے نکلنے کے بعد ماں کو ملنے اپنے گھرجاتی ہے ۔اور اس کی آمد سے پہلے واپس آجاتی ہے ۔گھر جاتے ہوئے اس کے ہمراہ صرف ڈرائیورہی ہوتا ہے ۔ وہ بھی اسے گھر چھوڑ کر واپس آجاتا ہے ۔اس وقت اسے اغواءکر کے فصیح الدین کے عیاشی کے اڈے پر پہنچانا نہایت آسان ہو گا ....“
ضروری تو نہیں کہ وہ ہفتے کے دن ماں کو ملنے جائے۔“نوشاد آفریدی نے قطع کلامی کی ۔
”کیا میری بات مکمل ہو گئی ہے ۔“ایس پی خشمگیں نظروں سے اسے گھورا ۔
”معذرت ....“نوشاد نے فوراََ ہاتھ بلند کر کے غلطی تسلیم کر لی تھی ۔
”خیر میرا کہنے کا مطلب ہے وہ کبھی تو ہفتے کے دن جائے گی ہم اسی دن منصوبہ طے کر لیں گے ۔اور اگر تم دونوں سے صبر نہیں ہو سکتا تو اس ہفتے کو اس کی ماں سے کال کروا کر بھی اسے بلوایاجا سکتا ہے ۔اب اس کی ماں کو کیسے مجبور کیا جائے گا یقینا اس بارے تمھیں معلوم ہو گا ۔“ ایس پی نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔”یا یہ بھی بتا دوں ۔“
اخلاق حسین نے کہا ”سمجھ گئے ،آگے چلیں ۔“نوشاد نے بھی اثبات میں سرہلادیا تھا۔
”بس اس رکھیل کے موبائل فون سے کبیردادا کو میسج کر دیں گے کہ وہ رات کو ذرا دیر سے لوٹے گی ۔تاکہ کبیردادا وقت سے پہلے ہی نہ بھاگتا پھرے ۔اور جس وقت فاصی صاحب کوٹھی میں داخل ہوجائے گا تب کبیردادا کو کال کر کے بتا دیا جائے گا کہ اس کی لیلیٰ اغواءہو چکی ہے ۔ اغواءکر نے والے کا نام اور مقصد کیا ہے اور وہ کس جگہ موجود ہے ۔باقی کاکام وہ خبیث خود کرتا رہے گا۔“ایس پی نے مکمل منصوبہ ان کے سامنے رکھ دیا ۔
”ایک سوال ہے ۔“نوشاد نے اسکول کے بچوں کی طرح ہاتھ اٹھایا۔اور ایس پی اس کی طرف متوجہ ہو گیا ۔
”یقینا اس سے پہلے فصیح الدین کے پاس پہنچائی جانے والی لڑکیاں اپنی مرضی سے اور منھ مانگا معاوضا وصول کر کے وہاں آتی ہوں گی ۔کیا ایک بندھی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر وہ حیران نہیں ہو گا ۔اب یہ تو ناممکن ہے کہ کبیردادا کی رکھیل اسے دیکھتے ہی ہنستی مسکراتی اس کے گلے لگ جائے ۔اگر ایسا ممکن ہوتا تو میں ضرور اسے اغواءکرانے کی کوشش کرتا ۔ہم جتنا بھی اس کی کردار کشی کریں مگر حقیقت تویہ ہے کہ وہ ایک گھریلو سادہ اور معصوم سی لڑکی ہے ۔شاہ جی کے گھر ہونے والی تقریب اس کا بھرپور جائزہ لے چکا ہوں،پوری تقریب میں میں نے اسے کسی غیر مرد سے بات کرتے تو کجا صرف متوجہ ہوتے بھی نہیں دیکھا ۔اسی طرح فصیح الدین ،فاصی ہتھ چھٹ کے نام سے مشہور ہے اور اچھا خاصا لڑاکا ہے ،کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ کبیردادا ہی کو پچھاڑ دے۔“
”دنیا بہت ترقی کر گئی ہے آفریدی صاحب ،آج کل ایسے نشے کا حصول کوئی مشکل کام نہیں جو آدمی کو بہ ظاہرہوش میں رکھتے ہوئے بھی ماحول کا ادراک نہیں ہونے دیتا ۔اور شراب کی خالی بوتل اور گلاس میز پر رکھ کر فصیح الدین کو یہ تاثر دیا جا سکتا ہے کہ اس کی آمد سے پہلے لڑکی نے کافی شراب نوشی کی ہے اس لیے ہوش مندی کی باتیں نہیں کر رہی ۔باقی فصیح الدین نے اسے کاروبار کے مشوروں کے لیے تو طلب کیا نہیں کہ اس کی ہوش مندی سے کوئی غرض رکھے ۔اور جہاں تک فصیح الدین کے کبیردادا سے ٹکرانے کا مسئلہ ہے تو اس جیسے دس کے لیے بھی کبیرداداکافی ہے ۔ فاصی ہتھ چھٹ وہ چھوٹے موٹے غنڈوں کے لیے ہے ۔کبیردادا کے لیے وہ کم سن بچے جتنی اہمیت رکھتا ہے ۔سچ کہوں تو کبیر دادا کو اگر کوئی قابو کر سکتا ہے تووہ شمشیر دادا ہے اور کوئی نہیں۔“
نوشاد نے منھ بنایا ۔”بھاڑ میں جائے کبیردادا،تم یہ بتاﺅاگر فصیح الدین نے اس کی رکھیل کو پہچان لیا پھر بھی مشکل ہو جائے گی ۔ کیا وہ سوچے گا نہیں کبیردادا کی رکھیل کا وہاں کیا کام۔“
ایس پی اطمینان سے بولا ۔”میرا خیال ہے فصیح الدین نے اب تک اسے نہیں دیکھا۔ شاہ جی کے گھر تقریب میں بھی اس کی بیوی اکیلی آئی تھی ،اس نے کسی کام کی وجہ سے آنے سے معذرت کر لی تھی ۔ اور فرض کیا اس نے کبھی دیکھا بھی ہو تو سرسری نظر ڈالی ہوگی ۔یوں بھی اس رکھیل نے اپنا جسم یوں ڈھانپا ہوتا ہے جیسے ابھی نماز پڑھ کر آرہی ہو ۔اور ایسی لڑکی جب بے لباس بستر پر پڑی ہو گی تو فصیح الدین بے چارے کو کون سی مشابہت مشکوک کرے گی ۔“
”فصیح الدین کے لیے جو دلال لڑکیاں سپلائی کرتا ہے اس کا کیا ؟“نوشاد کے سوالات جاری رہے ۔
”وہ دلال نہیں دلالہ ہے اور لڑکی کو مطلوبہ کوٹھی تک پہنچانے کی ذمہ داری جس آدمی کو ملی ہوئی ہے اسے خریدنا ایک ایس پی کے لیے چنداں دشوار نہیں ۔“
”وہ بعد میں بھانڈا بھی تو پھوڑ سکتا ہے ۔“نوشاد چھوٹی جزئیات کو بھی نظر انداز نہیں کر رہا تھا کہ معاملہ کبیردادا جیسے موذی کا تھا ۔
”صحیح کہا ....ایسے آدمی کبھی کبھار مسائل کھڑے کر دیتے ہیں اگر زندہ رہیں تو۔“
آخرمیں نوشاد آفریدی کو تحسین آمیز لہجے میں کہنا پڑا ۔”کیا سارے ایس پی ایسے ہی ہوتے ہیں ۔“
ایس پی ضمیر حسین فخریہ لہجے میں بولا ۔”اگر سارے ایسے ہوتے تو انھوں نے بھی اپنے گینگ بنا رکھے ہوتے ۔“
اخلاق حسین نے مزاحیہ انداز میں پوچھا ۔”ویسے تم نے فصیح الدین اور کبیردادا کے متعلق اتنی معلومات جمع کر رکھی ہے کیا باقیوں کے بارے بھی اتنے ہی باخبر رہتے ہو ۔“
ایس پی نے قہقہہ لگایا۔”اگر باخبر نہ ہوتا تو یہ کیسے معلوم ہوتا کہ تم دونوں کبیردادا کی رکھیل پر بری طرح فریفتہ ہو ۔“
وہ دونوں اس کے ساتھ ہی ہنس پڑے تھے ۔
”مزید کوئی سوال ؟“ایس پی کاانداز انھیں تحریک دینے والا تھا ،مگر حقیقت یہی تھی کہ انھیں وہ منصوبہ مکمل طور پر قابلِ عمل لگ رہا تھا ۔دونوں کا سر نفی میں ہل گیا ۔
”تو اس سنیچر کو منصوبے پر عمل کیا جائے گا یا انتظار کرو گے کہ وہ چھمک چھلو کب ہفتے کے دن گھر جاتی ہے ۔“
اخلاق حسین نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ۔”انتظار نام کی چیز ہمارے پاس نہیں ہے ۔“ نوشاد آفریدی بھی اس سے متفق نظر آرہا تھا ۔جبکہ ایس پی یوں بھی کب سے کبیردادا کی جڑ کاٹنے کے منصوبوں میں جڑا تھا ۔
وہ منصوبہ ہر لحاظ سے مکمل تھا ۔ایس پی نے کوئی جزئیہ بھی فروگزاشات نہیں ہونے دیا تھا۔ وہ مل کرکارروائی کی ترتیب طے کر تے ہوئے منصوبے کو حتمی شکل دینے لگے ۔
جاری ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.