Ads Top


جنت کے پتے
از

 نمرہ احمد




ناول؛ جنت کے پتے
قسط 42
حاقان نے البتہ چپ چاپ اپنا خون صاف نہیں کیا۔ اس کا ثبوت یہ تھا کہ فریحہ تن فن کرتی ان کے گھر آتی، بلند آواز اور رعونت سے اس کو بہت سی باتیں سنا کر گئی۔ (اس کا شوہر کاروباری آدمی تھا، اور مالی حالات کرامت بے سے اچھے تھے ُاسے اسی پیسے کا غرور تھا) یہی نہیں، اس نے جا کر میونسپلٹی والوں سے بات بھی کی کہ ان سیاسی پناہ گزینوں کو کہیں اور رہائش اختیار کرنے کو کہا جاۓ ورنہ وہ ماحول خراب کریں گے۔
ممی کو اس بات کا علم نہ ہو سکا، وہ گھر پہ نہیں تھیں۔ ابا ان دنوں بیمار رہنے لگے تھے، سو کمرے میں تھے۔ اس نے اکیلے فریحہ کی باتیں سنیں، مگر چپ رہا۔ میونسپلٹی والی بات اسے علی نے بتائی۔ اس کا دل جیسے ٹوٹ سا گیا۔ ابا کی وجہ سے، بلکہ اس کے اپنے جھگڑے کی وجہ سے ان کو یہ گھر چھوڑنا پڑے گا۔ اتنی مشکل سے ممی خرچے کی گاڑی کھینچ رہی تھیں، اب ان کو مزید تکلیف سہنی پڑے گی۔ وہ بہت پریشان ہو گیا۔
تم ان باتوں سے پریشان مت ہو بچے! کوئی نہ کوئی راستہ نکل آۓ گا۔ راستہ ہمیشہ ہوتا ہے، بس ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ علی کی بات سن کر اس کی ممی نے کہا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر ان کو دیکھا۔
وہ اس وقت کچن سلیب کے سامنے کھڑی تھیں۔ وہ باہر کام سے آئی تھیں اور ابھی ابھی انہوں نے اسکارف سے کیا گیا نقاب اتارا تھا۔ اب وہ ٹشو سے چہرے پہ آیا پسینہ تھپتھپا رہی تھیں۔ ان کا رنگ سیاہ تھا، وہ مصری تھیں، مصری سیاہ فام مگر پھر بھی ان کے چہرے پہ ایسی روشنی، ایسا نور تھا کہ وہ نگاہ نہیں ہٹا سکتا تھا۔ اسے وہ بہت خوب صورت لگتی تھیں۔ اس دن ان کی بات سن کر وہ خاموشی سے اٹھ گیا، مگر بعد میں مارکیٹ جا کر اس نے کارڈ خریدا اور اس پہ انگریزی میں لکھا۔
"You Are My Marrah Jameelah"
ساتھ میں ان کا نام اور فقط میں اپنا نام لکھ کر اس نے کارڈ کو خط کے لفافے میں ڈالا اور گوند سے لفافہ بند کر دیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ صبح جا کر چپکے سے یہ ان کو دے آۓ گا۔ ٹھیک ہے کہ ممی نے کہا تھا کہ اسے کوئی دوسری لڑکی خوب صورت نہیں لگنی چاہئیے۔ مگر وہ لڑکی تو نہ تھیں۔ وہ تو ایک درمیانی عمر کی خاتون تھیں، اپنی جیٹھانی فریحہ سے بالکل مختلف۔
جس پل وہ کارڈ اپنے بیگ میں رکھ رہا تھا، اسے کھڑکی کے باہر کچھ دکھائی دیا۔ اس نے جلدی سے بتی گل کی اور کھڑکی کے شیشے کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
باہر رات پھیلی تھی۔ فریحہ کا گھر (جہاں کرامت بے اور ایکان دونوں کے خاندان اکٹھے رہتے تھے) اور کرامت بے کی ورکشاپ سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ ورکشاپ کے دروازے کے پاس دو ہیولے سے کھڑے تھے۔ ایک لاک کھول رہا تھا جبکہ دوسرا ساتھ میں چپکا کھڑا تھا۔
لاک کھول کر وہ اندر چلے گۓ جب دروازہ بند کرنے کے لئے وہ سایہ پلٹا تو اسٹریٹ پول کی روشنی ان دونوں پہ پڑی۔ لاک کھولنے والے شخص کا چہرا واضح ہوا جو کرامت بے کا تھا جب کہ اس کے پیچھے موجود لڑکی اسی وقت پلٹی تھی۔ روشنی نے اس کے اخروٹی بالوں کو چمکایا اور پھر دروازہ بند ہو گیا۔
فریحہ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ بھی کرامت بے کے ساتھ اس وقت؟
استنبول میں رہنے والے ایک تیرہ سالہ لڑکے کے لیے یہ سب سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا، یقین کرنا اور اس دھوکے کو جذب کرنا، یہ بہت مشکل تھا۔ وہ کتنی ہی دیر تو تحیر کے عالم میں وہیں بیٹھا رہا تھا۔ پھر ہر رات اس نے ان پہ نظر رکھنا شروع کر دی۔ وہ ہر رات نہیں آتے تھے۔ دو، دو، تین، تین دن بعد آیا کرتے۔
قریباٍ ایک مہینے بعد اس نے فریحہ کو سرِراہ اس وقت روکا، جب وہ صبح واک پہ تیز تیز چلتی جا رہی تھی۔
لیڈی ا یکان۔۔۔۔۔۔ کیا آپ مجھے ایک منٹ دے سکتی ہیں؟
فریحہ نے گردن موڑ کر کچھ اچنبھے، کچھ نخوست سے اسے دیکھا۔
بولو! 
***
ثانیہ کی باتیں تب بھی اس کے ذہن میں گھوم رہی تھیں۔ جب وہ اپنے اپارٹمنٹ بلڈنگ کی لفٹ سے نکلا۔ پرانی یادیں، کسی ٹوٹے کانچ کی صورت ماس میں کھب گئی۔ ان کو کھینچ کر نکالنے کا تصور ہی جان لیوا تھا۔
اس نے سست روی سے فلیٹ کے دروازے میں چابی گھمائی تو اوپر کہیں سے پانی سے بھری ڈبی آ گری۔ وہ عین ڈور میٹ پر گری تھی اور کارپیٹ گیلا ہو گیا تھا۔ اس نے توجہ دیے بغیر دروازہ بند کیا۔ وہ اکثر ایسی چیزیں گھر میں چھوڑ جاتا۔ اگر ڈبی ابھی گری تھی تو اس کا مطلب تھا کہ اس کے بعد فلیٹ میں کوئی داخل نہیں ہوا تھا۔ ڈبی دوبارہ بھر کر رکھی جا سکتی تھی مگر کارپٹ پر نشانات ضرور ملتے۔ 
اس کے باوجود عادت سے مجبور اس نے کچن کی کھڑکی کی کنڈی چیک کی، پھر باتھ روم کے روشن دان کو دیکھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا۔
اس نے ٹی وی آن کیا اور لیپ ٹاپ گود میں رکھ کر پاؤں لمبے کر کے میز پر رکھے، صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ ان تمام ڈاکو منٹس کو دیکھنا چاہتا تھا جو ثانیہ نے اسے سی ڈی کی شکل میں دیے تھے۔ 
ثانیہ نے فائل پر سہ حرفی پاس ورڈ لگا دیا تھا اور وہ اسے بتا چکی تھی کہ پاس ورڈ کیا تھا اگر وہ اس سے کچھ بھی لیتا تو وہ اس کو اس فائل پہ یہی پاس ورڈ لگانے کو کہا کرتا تھا۔ ARP۔
لمحے بھر کو اس کا دھیان بھٹک کر ادالار میں اپنے ہوٹل گرینڈ کے آس کے باہر لگی تختی کی طرف چلا گیا۔ وہاں بھی اس نے یہی لکھوا رکھا تھا۔ اس سے عمومی تاثر یہی پڑتا تھا کہ اے ار پی کا مطلب عبدالرحمن پاشا ہے جب کہ ایسا نہیں تھا۔ وہ جب بھی خود کو اے ر پی لکھتا،وہ اس سے مراد کبھی بھی عبدالرحمن پاشا نہیں لیا کرتا تھا۔ اے آر پی کا مطلب اس کے نزدیک کچھ اور تھا۔
فائلز کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی وہ ذہنی طور پہ الجھا ہوا تھا۔ ممی نے صبح اسے جتنی تاکید سے کہا تھا کہ وہ ماموں سے مل لے، اب اگر وہ نہیں جائے گا تو وہ ہرٹ ہو گی اور یہی وہ چیز تھی جو وہ نہیں چاہتا تھا۔ اسے جانا ہی پڑے گا۔ وہ جتنا اس رشتے اور ان رشتہ داروں سے احتراز برتنے کی کوشش کر رہا تھا، اب اتنے ہی وہ اس کے سامنے آ چکے تھے۔
بہت بے دلی سے اس نے لیپ ٹاپ بند کیا اور پھر کلائی پہ بندی گھڑی دیکھی۔ رات کے نو بج رہے تھے۔ ماموں کا گھر یہاں سے دس منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ کیا وہ ابھی ہی چلا جائے؟ گاڑی آج اس کے پاس نہیں تھی۔ سروس کے لیے دی ہوئی تھی، اسے کل ملنا تھا۔ اگر ہوتی تب بھی وہ ٹیکسی پر ہی جاتا، کیونکہ وہ ان کو یہی تاثر دے گا کہ وہ ترکی سے آج آیا ہے، دو ہفتے قبل نہیں۔ البتہ وہ ان کے گھر رکے گا نہیں۔ واپس آ ائے گا، کہہ دے گا کہ وہ ہوٹل میں رہائش پزیر ہے وغیرہ وغیرہ۔ کور اسٹوری تو اس کے پاس ہمیشہ تیار ہوتی تھی۔
وہ اٹھا، اپنی جیکٹ پہنی، جوگر کے تسمے باندھے اور والٹ اٹھا کر جانے لگا، پھر خیال آیا کہ وہ خط کے لفافے اٹھا لے جن کو اسے پرانی تاریخوں میں اسٹیمپ کروا کر میڈم سیکنڈ سیکرٹری کو بھیجنا تھا۔ یہ کام ماموں کے گھر جانے سے زیادہ ضروری تھا، پہلے اسے یہی کرنا چاہیے۔ 
پانی کی ڈبی دروازے کی اوپری جگہ پر احتیاط سے رکھ کر، اس کی ڈور پھنسا کر وہ باہر نکل آیا۔ ٹیکسی نے اسے ماموں کے سیکٹر کے مرکز پہ اتارا۔ یہاں سے ان کا گھر سو قدم کے فاصلے پہ تھا۔ جس دن وہ اسلام آباد پہنچا تھا، اس نے یونہی سرسری سا وہ راستہ سمجھ لیا تھا۔ شاید اس کے لاشعور میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ اس دفعہ اسے جانا ہی پڑے گا۔ 
مرکز پہ ایک کوریئر سروس کی شاپ سامنے ہی تھی۔ اس کے سامنے پھول والا بیٹھا تھا۔ مختلف رنگوں اور قسموں کے پھول سجائے، وہ ان پہ پانی چھڑک رہا تھا۔ پھول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے چاہیے کہ وہ ان کے گھر کچھ لے کر جائے، پھولوں سے بہتر کوئی تحفہ نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ ہی ایک بہت قیمتی اور خوب صورت تحفہ ہوتے ہیں۔ اس نے سوچا وہ لڑکے کو گلدستہ بنانے کا کہہ دے اور تب تک وہ اندر کوریئر سروس سے لفافے اسٹیمپ کروا لے۔
بات سنو! اس نے پھول بیچنے والے لڑک کو پکارا۔ وہ پانی کا چھڑکاؤ کر رہا تھا، فورا پلٹا۔
جی صاحب! اپنے سامنے موجود آدمی کو دیکھ کر، جو سیاہ جیکٹ میں ملبوس، پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا، وہ جلدی سے پانی کا برتن رکھ کر مؤدب سا ہوا، اس کے پاس آیا۔
گلاب کے پھول ہیں تمہارے پاس؟ 
کون سا رنگ چاہیے صاحب؟
سرخ! اس نے بنا سوچے کہہ دیا۔ لڑکے نے ذرا تاسف سے سر ہلایا۔
صاحب! سرخ پھول ختم ہو گیا ہے۔ تھوڑے سے سفید گلاب پڑے ہیں۔ وہ کردوں؟
نہیں، نہیں۔ اس نے قدرے برہمی سے نفی میں سر ہلایا۔ سفید گلاب، دشمنی کی علامت۔ ممی کو پتا چلے، وہ پہلے ہی دن ماموں کے گھر سفید گلاب لے گیا ہے تو وہ از حد خفا ہوں گی۔
مجھے سرخ ہی چاہئیں۔ کہاں سے ملیں گے۔
صاحب! میرے پاس سرخ اسپرے ہے، ان سفید پھولوں کو اسپرے کر دوں؟ قسم سے صاحب اتنی مہارت سے کروں گا، بالکل پتا نہیں چلے گا۔
ہاں یہ ٹھیک ہے، یہ ہی کر دو۔ اس نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔ نقلی سرخ رنگ کے گلاب، سفید گلاب سے پھر بھی بہتر تھے۔
********
پھولوں والا لڑکا جلدی جلدی باسکٹ سے سفید پھول نکالنے لگا-
تم گلدستہ بناؤ، میں آتا ہوں۔ اس کی رفتار دیکھ کر وہ جان گیا کہ ابھی اسے کافی وقت لگے گا، اس لیے وہ اندر کوریئر شاپ کی طرف بڑھ گیا۔ اسے اگر کسی شے سے از حد چڑ تھی تو وہ وقت ضائع کرنے سے تھی۔
کوریئر شاپ میں دو افراد کھڑے اپنے اپنے لفافے جمع کروا رہے تھے۔ ڈیسک کے پیچھے بیٹھا، پی کیپ پہنے لڑکا کمپیوٹر پہ مصروف نظر آ رہا تھا۔ وہ خاموشی سے جا کر ایک کونے میں کھڑا ہو گیا۔ دفعتا ملازم لڑکے نے ٹائپ کرتے ہوئے سر اٹھا کر دیکھا۔ جہان پہ نظر پڑتے ہی اس کے چہرے پہ شناسائی کی رمق ابھری۔ وہ جلدی جلدی کام نپٹانے لگا۔
دونوں افراد کو فارغ کر کے وہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔
جی احمد بھائی! کوئی خدمت؟
ہاں، چوٹا سا کام ہے۔ وہ جیکٹ کی جیب سے چند صاف لفافے نکالتے ہوئے کاؤنٹر پر آیا۔
ان کو کچھ بیک ڈیٹس میں اسٹیمپ کرنا ہے اور کچھ کو آگے کی ڈیٹس میں۔ یہ دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسے کام سمجھانے لگا۔ غضنفر اس کو جانتا تھا، اس سے پہلے وہ جہان کو اس سے ہٹ کر بھی اضافی کام کر چکا تھا، نہ بھی کر چکا ہوتا، تب بھی اس کے کارڈ کے باعث کر ہی دیتا۔
انٹری نہیں کرنی بھائی؟ جب وہ لفافے میں واپس جیکٹ میں رکھنے لگا تو غضنفر حیرت سے بولا۔
اوں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ لمبا کام ہو جائے گا اور گھر میں سب ٹھیک ہیں؟
جی بھائی! غضنفر اب اسے گھر کی باتیں بتانے لگا۔ اس کا وہ بھائی جسے جیل سے نکلوانے میں جہان نے مدد کی تھی، اب وہ کام پہ لگ گیا تھا اور وہ اس بات سے کافی آسودہ لگ رہا تھا۔
میں چلتا ہوں، تمہارا بھی آف کرنے کا ٹائم ہو رہا ہے۔ اس کی بات تحمل سے سن کر اور تبصرہ کر کے اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ ماموں کے گھر پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ غضنفر سے مصافحہ کر کے وہ باہر آیا۔
سست رو لڑکا ابھی بوکے پلاسٹک کور کے گرد ربن باندھ رہا تھا۔
اسپرے نہیں کیا؟ اس نے سفید گلاب کے پھولوں کو دیکھ کر اچنبھے سے آبرو اٹھائی۔
میں نے ابھی دیکھا صاب!صاب اسپرے ختم ہو گیا ہے۔ آپ ایسے ہی لے جائیں۔ دیکھیں! یہ سبز پتے ساتھ میں لگائے ہیں، کتنے اچھے لگ رہے ہیں۔
اچھا، زیادہ لیکچر مت دو۔ کتنے پیسے ہوئے، ناگواری سے ٹوکتے ہوئے اس نے بٹوہ نکالا۔ اندر سے چند نوٹ نکالتے ہوئے اس کی نگاہ اپنے سروس کارڈ پر پڑی۔ کیا ماموں کو یہ دکھانا تھا؟ نہیں، ابھی بہت جلدی ہو گا۔ پہلے ان کا اعتماد جیتنا ہو گا اور وہ ان کی نازک اندام، مغرور سی بیٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سب لوگوں کی زندگی کا حصہ بننا مشکل لگ رہا تھا۔
بوکے چھوٹا سا تھا۔ اس کو پہلو میں لٹکے ہاتھ میں لاپروائی سے پکڑے وہ سڑک کنارے چلنے لگا۔ ماموں کا گھر یہاں سے قریب تھا۔ مگر وہ کچھ دیر مرکز کی سڑکوں کے کناروے چلنا چاہتا تھا۔ ابھی وہ صرف اپنی سوچوں کو مجتمع کرنا چاہتا تھا۔
وہ کیا چاہتا تھا۔ وہ خود بھی پر یقین نہیں تھا۔ یا پھر جو وہ چاہتا تھا، اسے کہنے سے ڈرتا تھا۔ ماں سے کہنے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر خود سے تو کہہ ہی سکتا تھا اور اصل بات وہی تھی، جو ثانیہ نے آج دوپہر میں کہی تھی وہ اپنے ماموؤں سے ڈرتا تھا- وہ ان کے طعنوں سے ڈرتا تھا۔ اتنے سالوں بعد بھی وہ ان کے سامنے سر اٹھانے سے ڈرتا تھا۔ مگر ممی کہتی تھیں، وقت بدل گیا ہے- فرقان ماموں اور سلیمان ماموں نرم ہو گئے ہیں۔ البتہ پیچھلے برس ہونے والی سلیمان ماموں سے ملاقات کے بعد اسے کوئی خوش فہمی نہیں رہی تھی کہ ان کے مزاج کی سختی اور غرور ختم ہو گیا ہے۔ وہ ویسے ہی تھے۔ فرق یہ تھا کہ اب سلیمان ماموں کو اپنی بیٹی کی فکر تھی، اب وہ بیٹی والے تھے۔ ان کا ہاتھ نیچے تھا اور اس کا اوپر۔ پہلے کی بات اور تھی۔ تب ان کی بیٹی چھوٹی تھی۔ انہیں مستقبل کی فکر نہیں تھی لیکن اب اس کی شادی کی عمر تھی۔ رشتے بھی آتے ہوں گے۔ اب وہ اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہوں گے اور ان کی پہلی ترجیح ان کا بھانجا ہی تھا۔ کوئی بھی اپنی خوشی سے بچپن کا نکاح نہیں توڑتا۔ سلیمان ماموں سے بھی اسے یہ امید تھی کہ وہ اس رشتے کو ختم کرنا چاہتے ہوں گے نہ وہ خود چاہتا تھا۔ لیکن نبھانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہیں آ کر وہ رک جاتا۔ یہ رشتہ نبھانا بہت مشکل تھا۔ 
وہ ایسی چھوٹی سوچ کا حامل آدمی تو تھا نہیں کہ پرانے انتقام لینے کے لیے ان کی بیٹی کو لٹکائے رکھتا۔ یہ بھی ٹھیک تھا کہ وہ ان سے مل لے تا کہ دونوں فریقین دیکھ لیں کہ یہ رشتہ چل سکتا ہے یا نہیں۔ اگر اسے محسوس ہوا کہ وہ نبھا سکتا ہے تو وہ ممی کو آگاہ کر دے گا اور اگر اسے لگا کہ وہ کہ نہیں نبھا پائے گا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پھر اسی مقام پر آ کر رک گیا۔ ممی ہرٹ ہوں گی۔ یہ وہ آخری چیز تھی جو وہ نہیں چاہتا تھا۔ اتنے سال اگر اس نے جان بوجھ کر ماموں کی فیمیلی سے لاتعلقی اختیار کیے رکھی تو اس لیے کہ دور اندر وہ یہ رشتہ نہیں چاہتا تھا۔ 
سڑک کنارے سر جھکا کر چلتے ہوئے اس نے خود سے سچ بولنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ وہ خود ہی یہ رشتہ نہیں چاہتا تھا۔ اس کی یہ ساری بے رخی، لاتعلقی اور اعراض برتنا، سب لاشعوری طور پر اسی لیے تھا کہ وہ لوگ تنگ آ کر خود ہی یہ رشتہ ختم کر دیں اور وہ ماں کو دکھ دینے کے بوجھ سے آزاد ہو جائے۔ یہ الگ بات تھی کہ یہ خود کو دھوکہ دینے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ جو بھی یہ رشتہ ختم کرے، ذمہ دار تو وہی ہوتا۔ اس کے خشک رویے کے باعث ہی یہ رشتہ ٹوٹے گا۔ 
لیکن وہ لوگ اس سے اور کیا توقع رکھتے ہیں؟ کس نے کہا تھا انہیں کہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا رشتہ طے کر دیں؟ اسے کبھی کبھی ان سب ذمہ واران پہ ازحد غصہ چڑھتا تھا۔ ممی پہ البتہ نہیں چڑھتا۔ کبھی بھی نہیں۔ وہ صرف اپنے بھائیوں کے ساتھ تعلق قائم رکھنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا، بس رشتے بچانے کے لیے ہی کیا۔ وہ جان بوجھ کر ماں کو شک کا فائدہ دے دیا کرتا تھا مگر ماموں کو نہیں۔ بے انصافی ہے تو بے انصافی ہی سہی۔
بہت دیر وہ سڑکوں پہ بے مقصد چلتا سوچوں میں غلطاں رہا۔ وہ ابھی ان کے گھر نہیں جانا چاہتا تھا مگر ماں کے سامنے اس کے "میں ابھی ذہنی طور پر تیار نہیں“ اور ”یہ بہت جلدی ہے، مجھے سوچنے کا وقت دیں" جیسے بہانے نہیں چلتے تھے۔ اسے ایک دفعہ جانا ہی پڑے گا۔ 
گھڑی کی سوئیاں دس سے اوپر آ چکی تھیں۔ جب اس نے خود کو سلیمان ماموں کے گھر کے بیرونی گیٹ کے سامنے کھڑے پایا۔ گیٹ بند تھا۔ اندر گھر کی بتیاں جل رہی تھیں۔ اس کی نگاہیں ساتھ والے گیٹ پر پھیلیں۔ یہ فرقان ماموں کا گھر تھا۔ وہ پہلے ایک دن آ کر یہ گھر دیکھ گیا تھا اور پھر فیس بک پہ روحیل نے ان دونوں گھروں کے اندر باہر کی اتنی تصاویر لگا رکھی تھیں کہ اسے اندرونی نقشہ بھی حفظ تھا۔ 
وہ ان دونوں وسیع و عریض اور خوب صورت بنگلوں کے سامنے سڑک پہ گویا کسی دوراہے پہ کھڑا تھا۔ اندر جائے، یا یہیں سے پلٹ جائے؟ اسے صرف ایک بہانہ درکار تھا، اس گھر اور اس کے مکینوں سے دور بھاگنے کا۔ صرف ایک وجہ وہ ڈھونڈ لے اور واپس پلٹ جائے لیکن کوئی وجہ تھی ہی نہیں۔ اسے اندر جانا ہی تھا۔ 
دفعتاً فرقان ماموں کے گیٹ کے پیچھے کھڑکا ہوا اور پھر بولنے کی آوازیں، پاس آتے قدم۔ وہ غیر اختیاری طور پہ تیزی سے ایک طرف ہوا۔ کالونی میں نیم اندھیرا سا تھا۔ گھروں کی بیرونی بتیاں بھی اس جگہ کو روشن کرنے میں ناکام تھیں۔ وہ فرقان ماموں کے گیٹ کے داہنی طرف ایک گھاس سے بھرے جنگلے کے اوٹ میں ہو گیا۔ 
گیٹ سے فرقان ماموں چند افراد سمیت باہر نکل رہے تھے۔ شلوار قمیض میں ملبوس وہ خوش اخلاقی سے اپنے مہمانوں کو چھوڑنے باہر آئے تھے ۔ مہمان تین مرد حضرات تھے، جن کی کار سڑک کے پار ایک خالی پلاٹ کے سامنے کھڑی تھی۔ یہاں سے ذرا دور، نا جانے کیوں ماموں اب ان افراد کے ساتھ باتوں میں مگن اسی طرف جا رہے تھے، پیچھے گیٹ کھلا رہ گیا تھا۔ گارڈ، چوکیدار، فی الوقت کوئی بھی نہ تھا۔ شادی قریب تھی۔ سو مصروفیت نے ملازموں کو بھی گھیر رکھا ہو گا۔
وہ اندھیری جگہ پر دم سادھے کھڑا فرقان ماموں کو دیکھتا رہا۔ دل میں ایک عجیب سی ہوک اٹھی تھی۔ پرانی باتیں پھر سے یاد آنے لگی تھیں۔ اس نے بے اختیار سر جھٹکا اور جیسے امڈتی یادوں کر رفع کرنا چاہا۔ 
ماموں اب اپنے مہمانوں کی گاڑی کے ساتھ کھڑے ان سے کچھ کہہ رہے تھے۔ اسے یوں وقت ضائع ہونے پہ الجھن ہو رہی تھی۔ چند منٹ تو وہ کھڑا رہا، مگر جب اسے لگا کہ ماموں اور ان کے مہمانوں کی گفتگوں لمبی ہوتی جا رہی ہے تو وہ جنگلے کے عقب سے نکل آیا۔ وہ لوگ بہت دور تو نہیں تھے۔ البتہ ایسے رخ سے کھڑے تھے کہ کسی کا بھی چہرہ گیٹ کی جانب نہیں تھا۔ 
وہ فرقان ماموں کا سامنا کیے بغیر اندر جانا چاہتا تھا۔ کیا حرج تھا اگر وہ یوں ہی اندر داخل ہو جاۓ۔ فرقان ماموں کو متوجہ کرنا اور ان کے سوالات کا جواب دینا؟ نہیں، ابھی نہیں۔
بہت آرام اور آہستہ سے وہ کھلے گیٹ کے اندر چلا آیا۔ سردی بڑھ گئی تھی۔ لان خالی تھا۔ سب اندر تھے۔ اس نے گردن ادھر ادھر گمھا کر درمیانی دروازہ تلاش کیا۔ وہ سامنے ہی تھا۔ اس پہ گھنٹی لگی تھی لیکن پہلے اس نے دروازہ دھکیلا تو وہ کھل گیا۔ اسے جانا تو سلیمان ماموں کی طرف تھا، سو ادھر رکنا بے سود تھا۔ وہ دروازے سے گزر کر سلیمان ماموں کے لان میں داخل ہو گیا۔
اتنے برسوں سے بنا اجازت دوسروں کے گھروں، لاکرز، موبائلز اور ای میلز میں خاموشی سے داخل ہو نے اور نکلنے کی عادت کے باوجود وہ آفیشل کام کے بغیر ٹریس پاسنگ نہیں کیا کرتا تھا۔ اب بھی یہ کرتے وقت اس کے ذہن میں یہی بات تھی کہ وہ اس کے ماموں کا نہیں، بلکہ سسر کا بھی گھر ہے۔ اندر جا کر وہ بتا دے گا کہ وہ کس طرح داخل ہوا۔ بات ختم!
سلیمان ماموں کا ہرا بھرا لان بھی سنسان اور سرد پڑا تھا۔ اسے پچھتاوا ہوا کہ اس نے پھول اٹھانے کا تکلف کیوں کیا۔ خوامخواہ ایک بوجھ اٹھاۓ پھر رہا ہے۔ اس نے گلدستہ لان کی میز پہ رکھ دیا اور خود گھر کے داخلی دروازے کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
گھنٹی باہر گیٹ پہ تھی اندر داخلی دروازے پہ نہیں۔ اب کیا صرف دروازہ کھٹکٹانے پہ کوئی باہر نکلے گا؟ بہت تذبذب سے اس نے داخلی دروازے پہ دستک دی۔ البتہ وہ خود بھی جانتا تھا کہ اندر کمروں میں موجود افراد اس وقت یہ دستک نہیں سن پائیں گے۔ وہ جان بوجھ کر اس طرح کر رہا تھا، تا کہ اسے ان سے ملنا نہ پڑے اور وہ کہہ سکے ”ممی میں گیا تھا، مگر آپ کے بھائیوں نے دروازہ ہی نہیں کھولا، میں کیا کرتا، سو واپس آ گیا“۔
حسب توقع دروازہ کسی نے نہیں کھولا۔ وہ سرد پڑتے ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں ڈالے گھر کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے یوں ہی جائزہ لینے لگا اس گھر میں کون کون ہے۔ مہمان بھی آۓ ہوں گے شادی کے۔ کوئی جاگ رہا ہے یا نہیں ایسی ہی باتوں کا سرسری سا معلوم کرنے وہ گھر کو گھوم پھر کر دیکھنے لگا۔ تمام کھڑکیاں بند تھیں۔ البتہ لان کے داہنی رخ پہ کھلتی ایک کھڑکی کے دو شیشے کے پٹ کھلے تھے۔ اتنی سردی میں کون کھڑکی کھول کر بیٹھا ہے؟
اچنبھے سے بھنویں سکیڑے اس طرف آیا۔
شیشے کھلے تھے، البتہ جالی بند تھی۔ اس کے پیچھے پردے بھی گرے تھے۔ دو پردوں کے درمیان ایک درز سی تھی، جس سے کمرے کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں وہ عادت سے مجبور تھا۔ نچلا لب دانت سے دباۓ، اس نے احتیاط سے گردن ذرا اونچی کر کے اندر دیکھا۔ کمرے میں مدھم روشنی پھیلی تھی۔ صرف ایک ہی بلب جل رہا تھا۔ روشنی کا دوسرا منبع بیڈ کے تکیہ پہ رکھا لیپ ٹاپ تھا۔ جس کے سامنے وہ کہنیوں کے بل اوندھی لیٹی تھی۔ اسکرین کی روشنی اس کے چہرے کو چمکا رہی تھی۔ وہ ٹھوڑی تلے ہتھیلی رکھے، دوسرے ہاتھ کی انگلی لیپ ٹاپ کے ٹچ پیڈ پہ پھیر رہی تھی۔
یہ وہی تھی جس کو اس نے دوپہر میں دیکھا تھا۔ اس نے وہی سیاہ لباس پہن رکھا تھا۔ سلکی بال ملائی سے بنی جلد۔
اس کی کزن، اس کی بیوی، کیسا عجیب رشتہ تھا کہ دل میں کوئی احساس نہیں جاگتا تھا۔ نہ ہی اس سے ملنے کی کوئی خواہش تھی۔ نہ جانے کیوں، وہ مایوس ہوا تھا۔ جس طرح لوگ مڑمڑ کر اسے ہوٹل کی لابی میں دیکھ رہے تھے، اسے وہ سب کچھ ناگوار لگا تھا۔ گو کہ اس کا لباس ایسا نہ تھا، آستین پوری تھیں، قمیص لمبی تھی، نیچے کھلا ٹراؤزر تھا۔ مگر اس کے کپڑوں کی فال ہی کچھ ایسی تھی اور کچھ اس کا انداز کہ وہ توجہ کھینچتے تھے۔ اسے ایسی لڑکیاں کبھی بھی اچھی نہیں لگتی تھیں۔ اسے یہ لڑکی بھی قطعا اچھی نہیں لگی تھی۔
رات کی مقدس خاموشی میں بٹنوں کی آواز نے ارتعاش پیدا کیا تو وہ چونکا۔ وہ اب اٹھ کر بیھٹتے ہوۓ بے چینی سے موبائل پہ کال ملا رہی تھی۔
ہیلو زارا؟ شاید رابطہ مل گیا تھا۔ تب ہی وہ دبے دبے جوش سے چہکی۔ کیسی ہو؟ سو تو نہیں گئی تھیں؟ حیا بول رہی ہوں۔
جہان نے سوچا، وہ کیوں سردی میں کھڑا کسی کے کمرے میں جھانک رہا ہے۔ اس کو ممی نے ماموں وغیرہ کے سارے نمبرز رکھے تھے، پھر وہ انہیں کال کر کے بتا کیوں نہیں رہا کہ وہ ان کے گھر آیا آ چکا ہے۔ اگر اس کی نیت اندر جانے کی ہوتی تو وہ لاک توڑ کر بھی اندر داخل ہو جاتا۔ بات ساری نیت کی تھی۔
ساری باتیں چھوڑو زارا اور میرے پاس جو بڑی خبر ہے وہ سنو اور تم یقین نہیں کرو گی، میں جانتی ہوں۔
وہ اندر موجود لڑکی کی باتیں بے توجہی سے سن رہا تھا۔ موبائل جیب سے نکالتے ہوئے وہ سلیمان ماموں کو فون کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس نے نمبر ملایا، پھر بند کر دیا۔ پھر ملایا، پھر بند کر دیا۔
کین یو بلیو اٹ زارا کہ مجھے یورپین یونین نے اسکالرشپ کے لیے سلیکٹ کر لیا ہے؟
موبائل کی اسکرین پہ انگلی سے نمبر لکھتا وہ جیسے چونکا تھا۔ یورپین یونین کا اسکالر شپ ارسمس منڈس کا ایکسچینج پروگرام؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ اپنی دوست سے جو گفتگو کر رہی تھی، اس میں یہی نام اس نے لیا تھا۔ کیا وہ اسکالرشپ کے لیے کہیں جا رہی تھی؟ اس نے موبائل واپس جیب میں ڈالا۔ اس کی ساری حسیات اندر ہوتی گفتگو پہ لگ گئیں۔
نہیں، اسپین کی Duesto نہیں، بلکہ ترکی کی سبانجی یونیورسٹی نے ہمیں سلیکٹ کیا ہے اور اب ہم ایک سمسٹر پڑھنے پانچ ماہ کے لیے استنبول جا رہے ہیں۔
باہر سردی اور تاریکی میں کھڑکی کے ساتھ کھڑے جہان کو محسوس ہوا، کسی نے اس کا سانس روک دیا ہو۔ ترکی؟ استنبول؟ پانچ ماہ؟ اس نے بے یقینی سے پردوں کی درز سے جھلکتے منظر کو دیکھا۔ اس کا دماغ جیسے سن ہو گیا تھا۔
وہ اب اپنی دوست کو سبانجی میں ہیڈ اسکارف پہ پابندی کے بارے میں بتا رہی تھی۔ اس کی توجہ پھر بھٹک گئی۔ اسے لگا اسے پشانی پہ پسینہ آ گیا ہے، جیکٹ کی آستین سے ماتھا صاف کرتے ہوئے وہ ذرا پیچھے کو ہوا تو ساتھ میں لگے گملوں سے ہاتھ ٹکرایا۔ بے خیالی میں ہونے والے اس عمل سے گملا لڑھک گیا۔ نیچے گھاس تھی، اس لیے وہ ٹوٹا نہیں، مگر پتوں کی ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ بھی اندر سنائی دی تھی، تب ہی اس نے اس لڑکی کو چونک کر کھڑکی کی طرف دیکھتے دیکھا۔
وہ بہت احتیاط سے ایک طرف ہو گیا۔ وہ اتنی بیوقوف یا لاپروا نہیں تھی، اس کی حسیات کافی تیز تھیں۔ اسے اب یہاں سے چلے جانا چاہیے، اس سے قبل کہ وہ پکڑا جاۓ۔
ابا نے مجھے کبھی اسکارف لینے یا سر ڈھکنے پہ نہیں مجبور کیا، تھینک گاڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کھڑکی کی طرف نہیں آئی، بلکہ سلسلہ کلام وہی سے جوڑے کہنے لگی۔ وہ دوسری دفعہ چونکا تھا۔ تھینک گاڈ؟ اس بات پہ تھینک گاڈ کہ اس کے باپ نے کبھی اسے سر ڈھکنے کا نہیں کہا؟ عجیب لڑکی تھی یہ۔
چند لمحوں میں اس نے فیصلہ کر کیا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اسے اندر نہیں جانا۔ اسے ان لوگوں سے ابھی نہیں ملنا، اسے پہلے اپنی ”بیوی“ سے بات کرنی ہو گی۔ اسے ان سے ملنے اور ان کو اپنی طرف سےکوئی بھی امید دلانے سے قبل اس لڑکی کو جاننا اور اعتماد میں لینا ہو گا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ کسی نہ کسی طرح اسے ترکی کا اسکالرشپ حاصل کرنے سے روکنا ہے۔ اللہ، اللہ، اگر وہ ترکی آ گئی تو وہ بری طرح سے پھنس جاۓ گا۔ کیسے سنبھالے گا وہ سب کچھ؟
اس نے گردن موڑ کر لان کی میز پہ رکھے گلدستے کو دیکھا پھر کچھ سوچ کر جیب سے لفافوں کا بنڈل نکالا۔ وہ لفافہ جس پر ایک روز قبل کی مہر درج تھی، اس نے وہ علیحدہ کیا، پھر اندرونی جیب سے پین نکالا۔

جاری ھے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.