Ads Top

ﻧﺎﻭﻝ رکھیل از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر 12

ﻧﺎﻭﻝ  رکھیل  از  ریاض_عاقب_کوہلر




#رکھیل
قسط نمبر12
#ریاض_عاقب_کوہلر
”اب دادا ان رنگ برنگی محفلوں سے بھی بھاگنے لگا ہے ۔“کبیردادا کے نشست چھوڑتے ہی پاشا کاشف راجپوت کو مخاطب ہوا ۔
”یار کیوں اپنے استاد کے پیچھے پڑے ہو ،بری طرح پٹو گے ۔“کاشف نے دھیمے لہجے میں سرزنش کی ۔
”یقین مانو دادا !....اس خوب صورت چڑیل نے کبیردادا کو ضائع کر دینا ہے ۔“ پاشا کے لہجے میں تناوش کے لیے نفرت ابل رہی تھی ۔
کاشف ہنسا۔”اتنی پیاری لڑکی کو چڑیل کہہ کر تم اپنی بد بختی پر مہر ثبت کر رہے ہو ۔“
پاشا نے منھ بنایا۔”بات شکل و صورت کی نہیں کردار کی ہوتی ہے ۔“
”یہ بھی خوب کہی، بھلا کیا ہے براہے اس کے کردار میں ،لباس کو دیکھو ،سر پر اوڑھا دوپٹا دیکھو ،حیا آلود آنکھیں دیکھو ،اس سے بڑھ کر کیا کردار ہو گا،پوری محفل میں اس جیسی ایک بھی نظر آئی ہو تو بتاﺅ۔“
”دادا،آپ بھی کمال کرتے ہیں ۔اگرطوائف کے گھر تہجد گزار پیدا ہو جائے تو اس کا کاروبار تو ٹھپ ہوجا ناہے نا ۔“
”گویاتم کبیردادا کو طوائف کہہ رہے ہو ۔“
”ہم سب اسی زمرے میں آتے ہیں ،پیار محبت اور عشق معشوقی کی گنجائش اپنے کاروبار میں نہیں ہے ۔“
کاشف نے اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔”وہ شادی کرنے والا اکیلا نہیں ہے ،اب تو ہم دو تین ہی کنوارے رہ گئے ہیں ۔“
”بات شادی کی نہیں کبیردادا کے رویے کی ہے ابھی یہاں بیٹھے ہوئے وہ اس مصیبت کے ساتھ میسج پر بات کر رہا تھا ۔ایک میسج پڑھنے میں میں کامیاب رہا ہوں ،وہ اسے گھر چلنے کا کہہ رہی تھی ،کچھ انعام وغیرہ کے وعدے بھی کر رہی تھی ،ایسے چونچلے صرف محبوب ہی سے کیے جاتے ہیں ۔میں تو تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ چھوکری کبیردادا کو یوں انگلیوں پر نچانے لگ جائے گی ۔“
”کچھ نہیں ہوتا یار۔“کاشف راجپوت اسے تسلی دیتا ہوا بولا ۔”چند دن کی بات ہے غریب کو ایک خوب صورت اور پرکشش لڑکی سے لطف اندوز ہونے دو ،ختم ہو جائے گی یہ محبت وغیرہ ۔کبیردادا زیادہ دن کسی چھوکری سے نہیں بہلنے والا۔“
پاشا تیقن سے بولا۔”غلط فہمی ہے آپ کی ،یہ پہلی خوب صورت اور کنواری لڑکی نہیں ہے جو کبیردادا کی زندگی میں آئی ہو ۔پہلے بھی کئی آچکی ہیں مگر میں نے کبھی بھی کبیردادا کو یوں پاگل ہوتے نہیں دیکھا ۔دادا!.... سچ کہوں تو مجھے دال میں ذرا بھی سفیدی نظر نہیں آرہی ۔“
”تم بس یونھی پریشان ہو رہے ہو ،کبیردادا کسی لڑکی کے لیے اپنا مقام اور عزت گنوانے پر تیار نہیں ہو سکتا ۔عورت ذات کی اہمیت اس کے لیے ٹشو پیپر سے بڑھ کر نہیں ہے اورٹشوپیپر استعمال ہونے کے بعد اپنی اہمیت کھو دیا کرتا ہے ۔“کاشف اس کی بات کو اتنی زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
”کاش ایسا ہی ہو ۔“پاشا حسرت بھرے لہجے میں بولا کہ وہ کبیردادا سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا ۔وہ اس کا آئیڈیل تھا اور اپنے آئیڈیل کو وہ کسی صورت برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا ۔
٭٭٭
”یار ،یہ تو میرے اندازے سے کہیں زیادہ پرکشش اور جاذب نظر ہے ۔“نوشاد آفریدی ،اخلاق حسین کو مخاطب تھا ۔
اخلاق حسین نے کہا ۔”وہ خبیث ایسے تو پاگل نہیں ہو رہا ۔“
”اب تو اس کے قتل کی ایک اور وجہ بھی مل گئی ہے ۔“نوشاد آفریدی زہریلے لہجے میں بولا ۔
”کیا تمھیں لگتا ہے کہ ہم اسے آسانی سے ختم کر پائیں گے ،ہمارے ساتھ صرف ایس پی ضمیر حسین ہی اس کی موت کے حق میں ہے ،شہاب قصوری اب بھی اس کی بغل میں گھسا بیٹھا ہے ،پاشا کے بارے کچھ کہنا ہی فضول ہے اور کاشف راجپوت اس کا قریبی دوست ہے ۔“
”پانچ سربراہ اوربھی موجود ہیں ،ہم انھیں اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں ،کم از کم کبیر دادا کی سربراہی کے حق میں تو وہ بھی نہیں ہیں،اب بس انھیں اس بات پر قائل کرنا ہے کہ وہ کبیردادا کے خاتمے پر راضی ہو جائیں ۔“نوشاد آفریدی نے اپنا منصوبہ سامنے رکھا ۔
”یوں بھی بات کچھ جچتی نہیں ہے ،ایک جانب اگر ہم آٹھ بھی ہوجائیں ہمارے مخالف چار تو موجود ہوں گے اور اس طرح ہم انھیں ختم کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تب بھی وہ ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہوں گے ۔“اخلاق حسین اس کے منصوبے کے ساتھ متفق نہیں تھا ۔
”یار، ہم نے صرف اس خبیث کا خاتمہ کرنا ہے اس کے بعدجھگڑا ختم کر دیں گے ۔“ نوشاد کے دماغ پر کبیردادا کی موت سوار تھی ۔
اخلاق حسین اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ۔”اگر وہ پہلے حملے میں بچ گیا تو اس کے ہاتھ ہمارے خلاف کارروائی کرنے کا جواز آجائے گااب تو وہ شمشیر دادا کی وجہ سے جھجک رہا ہے۔اور اتنا تو تم جانتے ہو کہ وہ گینڈے کی طرح طاقت ور اور لومڑ کی طرح پھرتیلا ہے ۔ اس کے ساتھ کاشف راجپوت اور پاشا بھی بہت خطرناک ہیں ،ہمارے گینگ میں ایسا کوئی نہیں جو ان میں سے کسی کے مقابل آسکے ،ایک فصیح الدین لڑائی بھڑائی جانتا ہے مگر اتنا اچھا لڑکا وہ بھی نہیں کہ کیر دادا کے سامنے ٹھہر سکے ۔“
نوشاد آفریدی پھیکی مسکراہٹ سے بولا ۔”اس کا مطلب وہی شمشیر دادا کو بلانے والا فیصلہ ہی درست ہے ۔“
”اس کے علاوہ چارہ بھی کوئی نہیں ۔“اخلاق حسین نے اثبات میں سر ہلایا۔اسی وقت انھیں کبیردادا اپنی جانب آتا دکھائی دیا ۔نوشاد آفریدی نے کہنی سے ٹہوکا دیتے ہو اسے کبیر داداکی طرف متوجہ کیا ۔اخلاق حسین نے سنبھلتے ہوئے چہرے پر منافقانہ مسکراہٹ سجا لی تھی ۔
قریب آتے ہی کبیر دادا نے کہا ۔”شاہ جی !....بہت شکریہ اب اجازت چاہوں گا اتنا اچھا کھانا کھانے کے بعد نیند آنے لگی ہے ۔“
”نیند آرہی ہے یا ہماری بھابی کی یاد ستا رہی ہے ۔“اس کے کان سے منھ لگاتے ہوئے اخلاق حسین نے مزاحیہ انداز اپنایا۔
”دونوں سمجھ لو ۔“کبیردادا اسی کے انداز میں بولا تھا ۔
اخلاق حسین نے زبردستی کا قہقہہ ہونٹوں پر سجاتے ہوئے رسمی لہجے میں کہا ۔ ”تشریف آوری کا شکریہ ،آپ کی وجہ سے ہماری روکھی پھیکی تقریب میں جان پڑ گئی ہے ۔“
کبیردادا اس سے مصافحہ کر کے واپس مڑ گیا ۔نوشاد کے ساتھ مخاطب ہونے کی کوشش اس نے نہیں کی تھی ۔
اخلاق حسین ،کبیر دادا کے پیچھے جاتی ہوئی تناوش کو ہوس ناک نظروں سے گھورتے ہوئے بولا ۔”ایسی لڑکی کسی کو کہاں محفل موسیقی سے لطف اندوز ہونے دے سکتی ہے ۔“
نوشاد ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہوا بولا۔”کیا معلوم چند دنوں تک اس خبیث کا دل بھر جائے اور اسے واپس بھیج دے ۔“
اخلاق حسین نے ارادہ ظاہر کیا ۔”چند دن کیا میں چند ماہ بھی صبر کر سکتا ہوں مگر ایسا لگتا نہیں ہے کہ یہ دیو اس پری کو چھوڑنے پر آمادہ ہو جائے گا ۔“
”تو پھر شمشیر دادا والی تجویز پر عمل کرتے ہیں ،اس خبیث کی دو تین غلطیاں تو ہم نے ڈھونڈ رکھی ہیں جس کے ہمارے پاس گواہ بھی موجود ہیں اس سے ایک دو غلطیاں اور کروا کر شمشیر دادا کی منت کر لیتے ہیں امید ہے چند دنوں کے لیے وہ یہاں آنے کی زحمت گوارا کر لے گا۔“
اخلاق بولا ۔”یاد رہے ،یہ خبیث اس کا چہیتا شاگرد رہ چکا ہے ۔“
”اس کی رکھیل کو دیکھتے ہی شمشیر دادا استادی شاگردی بھول جائے گا اور جہاں تک میرا اندازہ ہے کبیراس لڑکی کو شمشیردادا کی جھولی میں ڈالنے پر آمادہ نہیں ہوگا ۔“
اخلاق افسوس بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے بولا ۔”بات تو پھر وہیں پہنچی ،کیا کہتے ہیں آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا ،اگر یہ بلبل شمشیردادا کے ہتھے چڑھ گئی تو ہمیں کیا ملے گا ۔“
”اس نے کون سا ہمیشہ پاس رکھنا ہے ایک دو دن میں چھوڑ دے گا پھر ہماری باری ۔“ نوشادنے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔”اور یہ بھی تو سوچو نا، ہمارا مقصد تو اس لڑکی اور کبیرسے بدلہ لینا ہے نا ۔اگر شمشیر دادا نے اس کی جان بخشی کر بھی دی تب بھی کبیردادا دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے گا ۔“
”بدلہ لینے والی بات اس لڑکی کو دیکھنے سے پہلے تک تھی ،اب تو کم بخت پر دل آگیا ہے۔“اخلاق حسین د ل پر ہاتھ رکھتے ہوئے عاشقانہ انداز میں بولا ۔نوشاد قہقہہ لگا کر ہنس پڑا تھا۔
٭٭٭
راستے بھر وہ خاموش بیٹھی رہی ،کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ کبیردادا دوسرے آدمیوں کے سامنے ایسی باتیں کرنا پسند نہیں کرتا تھا ۔البتہ یہ اور بات کہ وہ اس کے ساتھ بالکل جڑ کر بیٹھی رہی ۔کبیردادا نے ایک دو بار اسے کہنی سے ٹہوکا دے کر دور ہٹنے کا اشارہ بھی کیا مگر ایسے اشاروں کووہ خاطر میں لانے والی نہیں تھی ۔
گاڑی کے مخصوص جگہ پر رکتے ہی عظیم نے نیچے اتر کر کبیردادا کے لیے دروازہ کھولا اس دوران وہ خود نیچے اتر کر اندر کی جانب بڑھ گئی ۔کبیردادا اس سے ایک قدم آگے تھا ۔خواب گاہ میں گھستے ہی وہ صوفے پر پھیل کر بیٹھ گیا تھا ۔
”کچھ کھانے پینے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے تو بتائیں ۔“اس کے قریب بیٹھتے ہوئے تناوش نے چاہت بھرے لہجے میں پوچھا ۔
”ویسے ،تمھیں میرے مزاج اور موڈ کی سمجھ کیوں نہیں آتی ۔“وہ یقیناگاڑی میں اس کے ساتھ جڑے بیٹھنے پر خفگی کا اظہار کر رہا تھا ۔
”کیوں نہیں آتی،آپ کے دل میں پیدا ہونے والی ذرا سی بات بھی سمجھ لیتی ہوں۔“تناوش کے ہونٹوں پر تبسم رقصاں ہوا ۔”البتہ اس پر عمل کرنے نہ کرنے کے بارے خود طے کرتی ہوں ۔“
” گاڑی میں تھوڑا ہٹ کر بیٹھ جانے سے کیا قیامت آجاتی ۔“
وہ ترکی بہ ترکی بولی ۔”گاڑی میں آپ کے ساتھ جڑ کر بیٹھنے سے کون سی قیامت آگئی۔“
”ایک دفعہ منع جو کیا ہے کہ میرے آدمیوں کے سامنے ایسی حرکتیں نہ کیا کرو۔“
وہ باغی لہجے میں بولی ۔”واہ جی واہ چوبیس گھنٹے میں چند لمحے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملتا ہے وہ بھی فاصلہ رکھ کر بیٹھوں ،کیوں جی ۔“
”دماغ تو ٹھیک ہے ،پوری رات تمھارے ساتھ ہی تو ہوتا ہوں ۔“اس کے لہجے میں حیرانی بھرا غصہ شامل تھا ۔
”نہیں جی ،پوری رات آپ سوتے ہیں ۔“اس نے منھ بسورا۔
”جانتی ہو تمھاری ان حرکتوں کا مجھے ایک ہی حل نظر آرہا ہے کہ تمھیں جلد از جلد چلتا کروں ۔“
کبیر دادا کی ہر بات کا خاطر خواہ جواب دینے والی اس کے چھوڑ دینے کی بات پر لاجواب ہو جاتی تھی ۔وہ خاموشی سے اٹھ کر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی ۔کبیردادا اپنا کوٹ اتار کر ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرنے لگا ۔بوٹ اس نے جان بوجھ کر نہیں کھولے تھے وہ جانتا تھا کہ اس کے ایسا کرنے پر تناوش نے خفگی کا اظہار کرنا تھا۔جانے کون سی ایسی طاقت تھی جو اسے تناوش کو خفا کرنے کی اجازت نہیں دے پا رہی تھی ۔
چند منٹوں بعد وہ ڈریسنگ روم سے برآمد ہوئی اسے دیکھ کرکبیردادا حیران رہ گیا تھا ۔ اس نے کبیردادا کے دن کو لائے ہوئے کپڑے پہن لیے تھے ۔جینز کی تنگ پتلون اور اس پر گلابی رنگ کی پھول دار قمیص میں وہ خو ب جچ رہی تھی ۔
”کیسی لگ رہی ہوں ۔“کبیردادا کے سامنے قالین پر بیٹھتے ہوئے اس نے اپنی ٹھوڑی کبیردادا کے گھٹنوں پر سجا لی ۔
اس کی طرف ہونّقوں کی طرح دیکھتے ہوئے کبیر دادا نے بہ مشکل اس کے چہرے سے نگاہیں ہٹائیں ۔”پہلے تو یہ لباس اچھا نہیں لگ رہا تھا ،اب کیوں پہنا ہے ۔“نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے لہجے میں شکوہ جھلک رہا تھا ۔
”یہ میں نے کب کہا کہ آپ کا لایاہوالباس اچھا نہیں ہے ،میں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں ایسا لباس نہیں پہنتی ۔“
”تو ا ب کیوں پہنا ؟“
وہ معصومیت بھرے لہجے میں بولی ۔”آپ کے لیے ۔“
”مجھ پر احسان کرنا تھا تو آج کی تقریب میں پہنا ہوتا ۔“اس نے طنز کیا۔
”کہانا آپ کے لیے پہنا ہے ،لوگوں کے لیے نہیں ۔“
”اور اگر میں کہوں آئندہ تقریبات میں اسی قسم کا لباس پہنو گی پھر ۔“
وہ وارفتگی سے بولی ۔”میں صرف آپ کے لیے سجنا سنورنا چاہتی ہوں ،آپ کے لیے ہنسا مسکرانا چاہتی ہوں ،آپ پر اپنی خدمتیں نچھاور کرنا چاہتی ہوں اور اگر آپ کی خوشی اس میں ہے کہ ایسے بے حجابانہ کپڑے پہن کر سب کے سامنے گھومتی پھروں تو دل نہ چاہتے ہوئے بھی میں ایسا کروں گی۔“
علامہ اقبالؒ نے جانے کس کیفیت کے زیر اثر فرمایا تھا ....
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں ،طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
اس وقت تناوش کے دل سے نکلے ہوئے خلوص بھرے الفاظ نے کبیردادا کو عجیب قسم کی خوشی سے سرشار کر دیا تھا ۔وہ دل کی بدلتی حالت کی توجیہ سے قاصر تھا ۔اس کم عمر لڑکی میں نہ جانے ایسی کون سی بات تھی کہ ہرگزرتی گھڑی وہ اسے اپنے لیے ناگزیر ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ کبیردادا کا ناگواری ظاہر کرنا ،بیزاری کا اظہار ،غصے کا برتاﺅ کسی بھی ایسی ترکیب کو وہ خاطر میں نہیں لا رہی تھی جس سے کبیردادا خود کو سنبھال سکتا ۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سے کیسے جان چھڑائے ۔تین دن پہلے ہی وہ اس کی زندگی میں زبردستی شامل ہوئی اور اب اس کے ساتھ گزارے دن صدیوں پر محیط نظر آنے لگے تھے ۔وہ کبیردادا سے پندرہ سولہ سال چھوٹی تھی لیکن کسی بڑی اماں کی طرح اسے انگلیوں پر نچا رہی تھی ۔وہ پختہ ارادہ کرتا کہ اب اس کی کوئی بات نہیں مانے گا ،مگر وہ منوالیتی ،وہ سوچتا کہ اسے طلاق دے کر گھر بھیج دے اور اخلاق حسین پارٹی سے بچانے کے لیے اسے کسی اور جگہ پر روپوش کرا دے گا،مگر اسے گھر بھیجنے کی جرّات اپنے اندر مفقود پاتا ۔خود پر جبر کر کے اسے جھڑکتا مگر ہر آن اس کی شرارتوں اور شوخیوں کا متمنی رہتا ۔ اس کی خدمت گزاری کبیردادا کواپنی اہمیت کا احساس دلا تی ۔اس کا حکم ماننے والے ،اس کا کام کرنے درجنوں موجود تھے مگر جس طرح خوشی سے وہ اس کی خدمتیں بجا لاتی ایسا تو اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔ اس کی خوب صورتی اور جسمانی کشش کی وجہ سے وہ اس کی بات ماننے پر راضی ہوا تھا ۔یہ سوچتے ہوئے کہ دو دن کی عیاشی کے بعد ،کچھ دے دلا کر اسے رخصت کر دے گا ،مگر شایدوہ جانے کے لیے نہیں ،ساتھ لے جانے کے لیے آئی تھی ۔گھر سے باہر جاتے ہی وہ واپس آنے کی گھڑیاں گننا شروع کر دیتا ۔پاشا اس کا چہیتا اور مخلص شاگرد تھا ۔ آج تک اس نے پاشا کی کوئی بات نہیں ٹالی تھی ،مگر تناوش کے معاملے میں وہ اس کے مشورے پر بھی عمل نہیں کر پایا تھا ۔
”کپڑے تبدیل کر لوں ۔“اس کے اظہار محبت پر کوشش کے با وجود وہ کوئی طنزیہ فقرہ یا بیزاری کا اظہار نہیں کر سکا تھا ۔
”ٹھیک ہے ۔“وہ خوش دلی سے اس کے جوتے کھولنے لگی ۔جوتوں کو ریک میں رکھ کر اس نے ہوائی چپل اٹھا کر اس کے پاﺅں کے قریب رکھ دیے ۔اور پھر کبیردادا سے پہلے ڈریسنگ روم میں گھس کر اس کے لیے شب باشی کا لباس نکالنے لگی ۔
لباس تبدیل کر کے وہ بستر کے قریب آیا وہ بھی اس کے اتارے ہوئے کپڑے سمیٹ کر اس کے پاس آگئی تھی۔
”میری بوتل تو لے آﺅ۔“اسے بیٹھتے دیکھ کر کبیردادا نے یادہانی کرائی ۔
”کون سی بوتل ؟“اس نے شرارت بھری حیرانی سے پوچھا ۔
”اب تھپڑ نہ کھا لینا ، دو ،تین بوتلوں سے ایک بوتل پر آگیا ہوں اور تمھیں معلوم نہیں کون سی بوتل ۔“اسے سچ مچ غصہ آگیا تھا ۔
وہ حتمی لہجے میں بولی ۔”میں نے ناپے ہیں ،ایک بوتل میں چھے گلاس گندہ مشروب ہوتا ہے اور آج تقریب میں آپ نے سات گلاس پیے تھے ،اس لحاظ سے کل جو بوتل ملے گی اس میں سے بھی ایک گلاس مشروب کم ہو گا ۔“
وہ جھلاتے ہوئے بولا ۔”لاتوں کے بھوت ،باتوں سے نہیں مانا کرتے ۔“
”مجھے مارو گے ،ترس نہیں آئے گا ۔“معصومیت بھرے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے کبیردادا کے شانے پر سر ٹکا دیا ۔
”تمھاری حرکتیں ترس کھانے دیتی ہیں ۔“
”کوئی اچھا مشروب تو ہے نہیں کہ دھڑا دھڑ معدے میں انڈیلتے جاﺅ۔“
”تمھیں کس نے میرا مصلح بنایا ہے ،جاﺅ جو کہا ہے کرو ۔“
”نکاح کے دوران قبول ہے کہنے کا مطلب ہوتا ہے دوسرے کی ذمہ داریوں کو قبول کرنا اور ذمہ داریوں میں پہلا درجہ ہی اپنے شریک حیات کی صحت اور ضروریات کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔“
کبیردادا دھاڑا ۔”بکواس بند کرو ،اور جو کہا ہے کرو ۔“
وہ منھ بسورتے ہوئے بولی ۔”ہمیشہ دعا مانگا کرتی تھی کہ یا اللہ مجھے جو بھی شوہر ملے وہ مجھے خوب ڈانٹے لیکن اس کے ساتھ میری ہر بات بھی مانے ۔لگتا ہے اللہ میاں نے آدھی دعا ہی قبول فرمائی ہے ۔“
کبیردادا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس ہٹ دھرم کا کیا کرے ۔”تم نے بوتل لانا ہے یا میں الماری ہی توڑ دوں ۔“چند لمحے سوچنے کے بعد وہ دھمکی پر اتر آیا تھا ۔
”اچھا لاتی ہوں دو منٹ گپ شپ تو کرو ۔“وہ جیسے بادل نخواستہ اس کی بات مان گئی تھی ۔
”گپ شپ بھی ہوتی رہے گی ۔“اس کی ہاں پر کبیردادا کے تنے ہو ئے اعصاب ڈھیلے پڑنے لگے تھے ،مگر یہ اس کی بھول تھی کہ تناوش اس کے لیے شراب کی بوتل لائے گی ۔
”اچھا آپ لیٹیں تو سہی ،میں اپنا ایک وعدہ ہی پورا کر دوں ؟“
”کون سا وعدہ ۔“اس نے حیرانی ظاہر کی ،مگر اس کا لیٹنے کا ارادہ نہیں تھا ۔
”بتاتی ہوں نا ۔“اس کے مضبوط شانوں کو اپنے ملائم ہاتھوں سے دھکیل کر وہ اسے تکیے پر لٹانے کی کوشش کرنے لگی ۔اس کا زبردستی کبیردادا کو تکیے پر سلا دینا اتنا ہی ناممکن تھا جتنا چیونٹی کا ہاتھی کو پچھاڑنا ،مگر ان ملائم ہاتھوں اور معصومیت بھری نگاہوں کو اللہ پاک نے ایک ان دیکھی قوت بھی عطا کر رکھی ہے کہ طاقت ور سے طاقت ور مرد بھی مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا ۔ وہ بھی پہلے لیٹنے پر آمادہ نہ ہوا مگر جب اس نے روہانسا ہو کر۔
”لیٹ بھی جائیں نا ،لیٹیں تو سہی نا ۔“ کہا تو وہ مصنوعی بیزاری ظاہر کرتا ہوالیٹ گیا ۔ تکیہ موڑ کر اس نے کہنی کے نیچے رکھااور اس کے بالوں میں ملائم انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے آہستہ آہستہ گنگنانے لگی ۔کبیردادا کو الفاظ کی سمجھ نہیں آرہی تھی مگر اس گنگناہٹ میں ایسی نغمگی شامل تھی جو تفکرات اور پریشانیوں کو دور کر دے ۔اسے شراب کی بوتل بھول گئی ، اپنی حیثیت ،رتبہ مقام یاد نہ رہا ، یہ بھی بھول گیا کہ اس نے تناوش کی کسی بھی بات پر عمل نہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔یاد رہا تو بس اتنا کہ ایک خوب صورت اور دلکش آواز سماعتوں کے رستے اس کے دل تک رسائی پا کر دل کے تاروں کو چھیڑ رہی ہے ۔تھوڑی ہی دیر میں اس کے سانس بھاری ہوئے اور وہ اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھا ، البتہ میٹھا اور سریلا نغمہ اسے سپنوں کی دنیا میں بھی سنائی دیتا رہا۔پھر اسے سفید لباس میں سر پر تاج سجائے تناوش نظر آئی وہ اسے سامنے بٹھا کر کوئی عمل کر رہی تھی شاید اسے ہپنا ٹائز کر رہی تھی یا کوئی اور قسم کا جادو کر رہی تھی ۔پوری طرح ٹرانس میں لینے کے بعد اس کی مدھر آواز نے کبیر دادا کی سماعتوں کو رونق بخشی ....
”مجھے چھوڑیں گے تو نہیں نا۔“
وہ منمنایا۔”نہیں ۔“
”مجھے طلاق تو نہیں دیں گے نا ۔“کبیردادا نے نفی میں سر ہلایا ۔”نہیں ۔“
کبھی خود سے دور تو نہیں کریں گے نا۔“
”کبھی نہیں ۔“
میری ہر بات مانیں گے نا۔“
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔”ہاں دل و جان سے ۔“
”مجھے شہزادیوں کی طرح رکھیں گے نا۔“
وہ اسے یقین دلا تاہوا بولا ۔”شہزادیوں کو شہزادیوں ہی کی طرح رکھا جاتا ہے ۔“
”میرے علاوہ آپ کی زندگی میں کوئی دوسری تو نہیں آئے گی نا۔“
”ناممکن۔“
اس نے تصدیق چاہی ”وعدہ کریں ۔“
کبیردادا کے لبوں سے بے ساختہ پھسلا ۔”وعدہ کرتا ہوں ۔“
”اللہ پا ک کی قسم کھائیں۔“
”اللہ پاک کی قسم کھاتا ہوں ۔“وہ بے چوں و چراں ہر بات کو حکم جان کر تسلیم کرتا گیا۔
تناوش کے لبوں پر خو ب صورت مسکراہٹ ابھری ۔”جانتے ہیں بدلے میں کیا ملے گا۔“
وہ مستفسر ہوا۔”تم بتا دو ۔“
وہ وارفتگی سے بولی ۔”میں ،میری محبت ،میری وفائیں ،میری خدمتیں ۔کیا سودا منظور ہے ۔“
”دل و جان سے ۔“
”مکر نہ جانا ۔“
”تم بھی ۔“
”نہیں مکروں گی ،کبھی نہیں ،کبھی بھی نہیں ،وعدہ کرتی ہوں ،سوہنڑیں رب کی قسم کھاتی ہوں ،ہمیشہ ساتھ رہوں گی ....ساتھ رہوں گی ....ساتھ رہوں گی ....“منظر دھندلایااور تناوش دھیمے قدموں سے پیچھے ہٹنے لگی ۔
”کہاں جا رہی ہو ،مت جاﺅ، میرے قریب آﺅ ....“اس نے تناوش کو روکنا چاہا ،مگر وہ مسکراتے ہوئے پیچھے ہٹتی رہی ۔اس نے جھپٹ کر اسے پکڑنا چاہااور ایک دم اس کی آنکھ کھل گئی۔ خواب گاہ میں روشنی اسی طرح جل رہی تھی وہ تکیے پر کہنی ٹیکے میٹھے سروں میں گنگنا رہی تھی اور اس کی ملائم انگلیاں کبیردادا کے بالوں میں سرسرا رہی تھیں ۔وہ وعدے کے مطابق اس کے ساتھ ہی تھی ۔کبیردادا ابھی تک خواب کے زیر اثر تھا اس نے تناوش کی طرف سر گھمایا وہ خواب جتنی ہی پیاری اور من موہنی لگ رہی تھی ۔بس سفید لباس اور سر پر رکھے تاج کی کمی تھی ۔اس کا جی چاہ رہا تھا وہ خواب ہی طرح اس سے عہد و پیمان باندھے ۔اسی طرح دھونس جماکر وعدے قسمیں لے ۔مگر وہ اس کے احساسات سے بے خبر چاہت بھری مسکان ہونٹوں پر سجائے ہولے ہولے گنگنا رہی تھی ۔شاید یہ سارے وعدے اور قسمیں وہ بغیر کہے پورا کرنے کا ارادہ رکھتی تھی ۔
کبیردادا زیادہ دیر اس کے ملیح چہرے کا دیدار نہیں کر سکا تھا ۔ایک دم اس نے ہاتھ بڑھایا اور اسے بالکل قریب گھسیٹ لیا ،اس کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ نے بیڈ سائیڈ پر لگا تیز روشنی کا بٹن بند کرتے ہوئے ہلکے نیلی رنگ کی روشنی جلا دی تھی ۔
٭٭٭
صبح ناشتے کے وقت اسے کبیردادا کا گزشتا کل والاوعدہ نہیں بھولا تھا ۔کبیردادا نے ناشتے کا پہلا نوالہ اپنے ہاتھ سے کرانے کا وعدہ کیا تھا ۔اور پھر ایک نوالے کا وعدہ کرنے والے نے بہ ظاہرناک بھوں چڑھاتے ہوئے تناوش کو پورا ناشتا اپنے ہاتھ سے کرا دیا تھا ۔اس کے رخصت ہوتے وقت تناوش نے حسب عادت منھ ہی منھ میں کچھ بڑابڑکر اس پر پھونکا اس کے ساتھ ہی اس کی ٹائی کی گرہ درست کرتے ہوئے وہ دھیرے سے بولی ۔”کس وقت لوٹیں گے۔“
کبیردادا نے اپنے دل میں جھانکا جو کہہ رہا تھا کہیں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے لیکن اس کے لبوں سے بالکل متضاد بات نکلی تھی ۔
”آج شاید کچھ دیر ہو جائے ،کافی کام نبٹانے ہیں ۔“
”پانچ چھے بجے تک آ جائیں گے نا۔“
”شاید اس سے بھی لیٹ ہو جاﺅں ۔“
”اگر اجازت دیں تو میں امی جان سے مل آﺅں آپ کی آمد سے پہلے لوٹ آﺅں گی۔“
”ٹھیک ہے چلی جانا ۔“کبیردادا نے ایک لمحہ سوچتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا ۔
”آپ کس وقت لوٹیں گے تاکہ میں اس کے مطابق وہاں وقت گزار سکوں ۔“
”کیوں میری آمد کے وقت تمھارا گھر میں ہونا ضروری ہے ۔“اس نے ناگوار ی ظاہر کی ۔
”ہاں ،تھکا ہوا شوہر گھر آئے تو بیوی کو استقبال اور اس کی خدمت کے لیے گھر میں موجود ہونا چاہیے ۔“
بے ساختہ کبیردادا کے لبوں سے پھسلا ۔”کیا ساری بیویاں ایسی ہی ہوتی ہیں ۔“
”پتا نہیں ۔“تناوش نے نفی میں سر ہلایا ۔”مگر محبت کرنے والی ایسی ہی ہوتی ہیں ۔“
”اب جاﺅں ۔“کبیردادا سے اور کچھ نہیں کہہ پایا تھا ۔
وہ اداسی بھرے لہجے میں بولی ۔”اس بات کا جواب میں کبھی اثبات میں نہیں دے سکتی ۔“
”بے وقوف ۔“سرجھٹکتے ہوئے وہ دروازے کی طرف مڑا مگر دروازے کے قریب رکتے ہوئے پیچھے مڑا جیسے کوئی بات یاد آگئی ہو۔”کسی وقت عظیم کو ساتھ لے جا کر اپنے لیے شاپنگ کر لینا ،کوئی ڈھنگ کا موبائل بھی خرید لینا ،کل کچھ لڑکیاں تمھارا مذاق اڑانے کی کوشش کر رہی تھیں ،مجھ تک بھی تمھارے لباس اور موبائل فون وغیرہ کی بات پہنچائی گئی ۔“
وہ شوخی سے بولی ۔”جس دن آپ ساتھ لے جا کر شاپنگ کرائیں گے چلی جاﺅں گی۔“
”صاف کہو شاپنگ نہیں کرنا چاہتی ہو ۔“کبیردادا نے منھ بناتے ہوئے کہا۔”میں نے کبھی اپنے لیے شاپنگ نہیں کی ۔“
”تو میں نے کب کہا کہ شاپنگ پر جانے کے لیے مری جا رہی ہوں ۔“
”تو نہ جاﺅ ۔“کندھے اچکاتے ہوئے وہ باہر نکل گیا ۔گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اس نے پختہ ارادہ کیا تھا کہ ڈرائینگ روم کے دروازے کی طرف نہیں دیکھے گا مگر داخلی دروازے کے قریب پہنچتے ہوئے بے اختیار اس کی گردن پیچھے گھوم گئی ۔وہ دروازے کی چوکھٹ سے ٹیک لگائے اس کی طرف متوجہ تھی ۔اور پھر گاڑی کے باہر نکلنے تک وہ اسی کی طرف متوجہ رہا ۔وہ اپنے افعال اور ارادوں پر اختیار کھوتا جا رہا تھا ۔تناوش کے خلاف اس کی کوئی منصوبہ بندی کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی ۔
کچھ جو کرتا ہوں مگر اور ہی کچھ ہوتا ہے
کیا یہ سچ ہے کہ محبت میں یہی ہوتا ہے
٭٭٭
کبیردادا کے جاتے ہی وہ راحت خالہ کو آوازیں دینے لگی ۔
”جی بیٹی !“وہ گھر کی صفائی کو جڑی تھی ،ایک کونے سے نمودار ہوتے ہوئے مستفسر ہوئی ۔
”خالہ ڈرائیور کو کہیں گاڑی تو لگا دے گھر تک جانا ہے ۔“
”ٹھیک ہے بیٹی !“خوش دلی سے کہتے ہوئے وہ باہر کی طرف بڑھ گئی ۔
تھوڑی دیر بعد وہ گھر کے سامنے اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپسی کا وقت بتا رہی تھی ۔
”ٹھیک ہے بیگم صاحبہ ۔“کہتے ہوئے ادھیڑ عمر الٰہی بخش نے کار واپس موڑ لی ۔
ماں اسے گھر کے صحن میں جھاڑو دیتے نظر آئی تھی ۔
”ارے میری شہزادی آئی ہے ۔“وہ جھاڑو پھینک کر اس کی طرف لپکی ۔
”کیسی ہیں امی جان ۔“وہ اس کی شفقت بھری آغوش میں سماتے ہوئے آسودگی سے بولی ۔
”میری شہزادی کیسی ہے ۔“ ماتھا چومتے ہوئے وہ اسے ساتھ لیے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
وہ چہکی۔”آپ کو کیسی لگ رہی ہوں ۔“
”اللہ کرے میری شہزادی یونھی خوش رہے ۔“بشریٰ کے دل سے دعا نکلی ۔
وہ ۔”آمین ۔“کرتے ہوئے حیا آلود لہجے میں بولی ۔”امی جان !....وہ میرا بہت خیال رکھنے لگے ہیں ۔“
بشریٰ شرارتی لہجے میں بولی ۔”مطلب تمھارا رشتا ڈھونڈنا بند کرنا پڑے گا ۔“
وہ چڑتے ہوئے بولی ۔”ماں جی ،کوئی شادی شدہ بیٹیوں کا بھی رشتا ڈھونڈا کرتا ہے بھلا ۔“
”مطلب ڈٹی ہوئی ہو ۔“
وہ عزم سے بولی ۔”ہمیشہ ڈٹی رہوں گی۔ابھی تک بھی وہ انجان ہیں کہ میں انھیں کتنی پیاری ہوں ۔تھوڑا وقت اور بیتنے دیں ،پھر دیکھنا ۔“
”پگلی ،شروع شروع میں ہر لڑکی مرد کو انوکھی لگتی ہے مگر چند دنوں کے تعلق کے بعد وہ کسی نئی کھوج میں آگے بڑھ جاتا ہے ۔“
”یہ کلیہ کسی خاص مرد پر تو لاگو ہو سکتا ہے ،تمام کو آپ ایک ہی چھڑی سے تو نہ ہانکیں ماں جی ،ابو جان بھی تو ایک مرد ہی تھے ۔
وہ بیٹی کی تصحیح کرتے ہوئے بولیں ۔”ہم نے پسند کی شادی کی تھی ۔“
تناوش جھٹ بولی ۔”مجھے بھی وہ پسند ہیں ۔“
بشریٰ نے منھ بنایا۔”بات تمھاری نہیں اس کی ہے ۔“
وہ یقین بھرے لہجے میں بولی ۔”انھیں بھی آہستہ آہستہ پسند آہی جاﺅں گی ۔“
”دیکھ لو کہیں اس سے پہلے تم ہی گھر نہ لوٹ آﺅ۔“
”ماں جی میں خفا ہو جاﺅں گی ۔“تناوش نے منھ بسورا۔
”ارے مذاق کر رہی تھی میری شہزادی ۔“بشریٰ نے اسے ہنستے ہوئے ساتھ لپٹا لیا ۔
”آج وہ کہہ رہے تھے کہ میں ان کے سیکرٹری کو ساتھ لے جا کر اپنے لیے شاپنگ کر لوں ،مگر میں نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ خود ساتھ جائیں تو پھر جاﺅں گی ورنہ نہیں ۔“
بشریٰ نے منھ بنایا۔”بھاڑ میں جائے ایسی محبت ،ایک شاپنگ کے لیے ساتھ لے جا نہیںسکتا اور خاک خیال رکھے گا ۔“
”میں آپ سے بات ہی نہیں کرتی ماں جی ۔“تناوش روٹھنے کے انداز میں ماں سے دور ہو گئی اور بشریٰ ہنستے ہوئے بیٹی کو منانے لگی ۔کیا کرتی کہ تناوش اس کی بیٹی کے علاوہ قریبی سہیلی ،راز دار ،غم گساراور سب کچھ تھی ۔
٭٭٭
گھر سے نکلتے ہی کبیردادا نے سب سے پہلے ساحل سمندر والے اڈے کا رخ کیا وہاں سے فارغ ہو کر وہ دوسرے ضروری کام نمٹانے لگا ۔آج یوں بھی اسے معلوم تھا کہ تناوش اپنے گھر گئی ہوئی ہے ۔اب اس کا دل گھر لوٹنے کو نہیں کر رہا تھا ۔تناوش کے سامنے اعتراف نہ کرنے کے باوجود اس کی دلی تمنا یہی تھی کہ وہ اس وقت گھر لوٹے جب وہ موجود ہو ،کار کی آواز سنتے ہی وہ بھاگ کر باہر نکلے اور ڈرائینگ روم کے دروازے کی چوکھٹ سے لگ کر ے بے تابی سے اس کے قریب آنے کا انتظار کرے۔اور قریب پہنچتے ہی شکوہ کناں ہو کہ اتنی دیر کیوں لگا دی۔ جب وہ صوفے پر بیٹھ جائے تو قالین پر بیٹھ کر اس کے گھٹنوں پر ٹھوڑی ٹکا کر اس کی آنکھوں میں جھانکتی رہے ۔
اچانک اسے خیال آیا کہ وہ کیا الٹا سیدھا سوچے جا رہا ہے ۔فوراََ ہی سر جھٹک کر اس نے ان سوچوں کو دو ر کرنے کی کوشش کی مگر وہ ایک ناکا م کوشش تھی ۔
اس کے بالکل عقب میں آنے والی جیپ میں امتیازاپنے ساتھیوں کو مخاطب تھا ۔ ”لگتا یہی ہے کہ آج مقناطیس گھر میں موجودنہیں ہے ورنہ اب تک اس نے لوہے کو اپنی کشش سے گھسیٹ لیا ہوتا۔“
بخش نے نہ سمجھنے کے انداز میں کہا ۔”کیا اول فول بک رہا ہے ۔“
”یہی کہ آج نمازن گھر میں نہیں ہے ورنہ بے نمازی کب کا گھر پہنچ چکا ہوتا ۔“
بخش نے کہا ۔”سوال یہ ہے کہ تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو ۔“
امتیاز ہنسا۔”جواب یہ ہے کہ گھڑی پر نگاہ دوڑاﺅ،سوئیاں تین کا ہندسہ عبور کر چکی ہیں اور کبیردادا کے کام ہی ختم ہونے میں نہیں آرہے ۔“
ڈرائیور نے لقمہ دیا ۔”ایسا کوئی پہلی بار تو نہیں ہوا ،کبیردادا کی روز مرہ یہی ہے۔“
امتیاز اطمینان بھرے انداز میں بولا۔”ہے نہیں تھی ،اب دادا نے شادی کر لی ہے ۔“
”میں نہیں مانتا۔“بخش نے نفی میں سرہلایا۔
”شرط لگا لو ۔“امتیاز نے اسے للکارا۔
”شام کے کھانے میں دو کلو مٹن کڑاہی ۔“بخش نے اس کی دعوت قبول کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔
”ٹھیک ہے ۔“امتیاز بھی پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں تھا ۔
بخش نے کہا ۔”اب پتا کیسے کریں گے ۔“
”ابھی ہو جاتا ہے ۔“امتیاز موبائل فون نکال کر کسی کا نمبر ڈھونڈنے لگا ۔منٹ بھر بعدہی مطلوبہ نمبر ڈھونڈ کر وہ رابطہ کر رہا تھا ۔
”الٰہی بخش میاں کیا حال ہے ۔“یہ کہتے ہی اس نے موبائل فون کا سپیکر آن کردیا تھا۔
”ٹھیک ٹھاک ہوں امتیاز بھائی ۔“ڈرائیور الٰہی بخش کی آواز وہ خوب پہچانتے تھے ۔
”کیا ہورہا ہے ۔“امتیاز نے تمہید کو طول دیا ۔
”کچھ نہیں لیٹا ہوں اپنی چارپائی پر ۔
اس نے محتاط لہجے میں پوچھا ۔”بیگم صاحبہ نے کہیں جانا تھا ،کیا ابھی تک گھر میں ہیں۔“
الٰہی بخش جلدی سے بولا ۔”نہیں وہ تو آپ لوگوں کے نکلتے ہی میکے چلی گئی تھیں ، انھیں پانچ بجے واپس لینے جانا ہے۔“
امتیاز کے ہونٹوں پر بھرپور ہنسی نمودار ہوئی مگر بہ ظاہر وہ مایوسی بھرے لہجے میں بولا ۔ ”اچھا پھر تو ہمارا کام نہیں ہو سکتا ۔“
الٰہی بخش نے پوچھا ۔”ایسا بھی کیا کام آن پڑا ہے امتیاز باﺅ۔“
امتیاز فوراََ بولا۔”رات کے کھانے کے لیے شالیمار ہوٹل سے دو کلو مٹن کڑاہی بنو اکر لانا تھی ۔“
الٰہی بخش اسے اطمینان دلاتا ہوا بولا ۔”کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ،بیگم صاحبہ کو گھر چھوڑ کر لے آﺅں گا ۔“
”بہت شکریہ الٰہی بخش۔“امتیاز نے الوداعی کلمات کہتے ہوئے رابطہ منقطع کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی اس کے منھ سے بلند وبانگ قہقہہ برآمد ہوا ۔
بخش خفیف ہوتا ہوا بولا ۔”تمھیں پہلے سے معلوم ہو گا بے غیرت آدمی ۔“
امتیاز نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا ۔”صبح سے تمھارے ساتھ ہی ہوں ۔“
”چلو کھا لو کڑاہی ،مگر کبھی تو پھنسو گے پتر ۔“بخش نے دانت پیسے ۔
امتیاز نے دوبارہ قہقہہ بلند کرتے ہوئے پھرموبائل فون نکالا اور عقبی جیپ میں آنے والے باقر اور رخسار کو رات کے کھانے کی دعوت دینے لگا ۔اس کے ساتھ وہ بخش کے ہارنے کی بات بھی مرچ مصالہ لگا کر بیان کر رہا تھا
********
”دادا !....آپ سے بات کرنا ہے ۔“کال وصول کرنے کا بٹن دباتے ہی کبیردادا کے کانوں میں پاشا کی لجاجت بھری آواز پڑی ۔
کبیر دادا نے پوچھا ۔”کہاں پر ہو ۔“
”اپنے جواءخانے والے دفتر میں بیٹھا ہوں ۔“
”آدھے گھنٹے تک آ رہا ہوں ۔“یہ کہتے ہی وہ ڈرائیور کو پاشا کے ہوٹل کی طرف جانے کا کہنے لگا ۔ٹھیک آدھے گھنٹے بعد وہ پاشا کے دفتر میں داخل ہو رہا تھا ۔اسے دیکھتے ہی پاشا نے کھڑے ہو کر استقبال کیا اور اپنی کرسی چھوڑ دی ۔کبیردادا کی موجودی میں وہ کبھی بھی اس کرسی پر نہیں بیٹھا تھا ۔
کبیردادا گھومنے والی کرسی پر بیٹھتے ہی مستفسر ہوا ۔”جی فرمائیں ۔“وہاں وہ دونوں اکیلے ہی تھے ،کبیردادا کے محافظ اور عظیم وغیرہ باہر ہی رک گئے تھے ۔
”کھانے پینے کو کیا منگواﺅں ۔“پاشا نے خاصا سنجیدہ نظر آرہا تھا ۔
”کافی کا بتا دو اور میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔“یہ کہتے ہی کبیردادا نے گھڑی پر نگاہ دوڑائی ۔
انٹرکام اٹھا کرپاشا نے دو پیالی کافی کے بتائے اور کبیردادا کی طرف متوجہ ہوتا ہوا بولا۔”میرا خیال ہے اب آپ کو گھر جانے کی کچھ زیادہ ہی جلدی ہوتی ہے ۔“
”بکواس نہ کرو ،مطلب کی بات پرآﺅ ۔“کبیردادا نے اسے جھڑکا ۔
وہ اطمینان سے بولا ۔”اسی بکواس کے لیے آپ کو زحمت دی ہے ۔“
کبیردادا نے اسے ڈرایا۔”شاید کافی دنوں سے تمھیں تھپڑ نہیں پڑا ۔“
پاشا خوفزدہ ہوئے بغیر بولا ۔”سچ کہا ،آج ایک نہیں کافی تھپڑ کھانے کا ارادہ کیے بیٹھاہوں ۔“
کبیردادا بگڑ کر بولا ۔”اگر سچ میں وہی بکواس کرنا ہے تو میں جا رہا ہوں ۔“
”میں بہت پریشان ہوں دادا۔“پاشا بالکل سنجیدہ تھا ۔
”اچھا بکو ،کیا پریشانی ہے ۔“کبیردادا نے گویا ہتھیار ڈال دیے تھے ۔
”وہ خوب صورت ڈائن آپ کو ضائع کر دے گی ،کبیردادا ایک دہشت ،خوف، اور ڈر کی علامت ہے ۔کبیرداداآہنی ارادے ،چٹانی حوصلے اور فولادی عزم کا نام ہے ۔کبیردادا کی شخصیت ،کرداراور صلاحیتوں کی ایک دنیا معترف ہے آپ ایک چھوکری کے پیچھے اسے بدنام نہ کریں۔یقین مانیں اپنے دکھی ہیں اور پرائے ہنس رہے ہیں دفع کریں اسے ٹھوکر لگا کر اپنی زندگی سے دور پھینکیں ۔“
کبیردادا کے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔”بکواس اچھی کر لیتے ہو مگر بے مقصد ۔“
”جب آنکھوں پر کسی دلربا کے نو خیز حسن کی پٹی بندھی ہو تو ہمدردوں کی نصیحتیں بکواس ہی لگتی ہیں ۔“
”میرا خیال ہے شادی کرنے والا میں پہلا گینگسٹر نہیں ہوں ۔“
”بالکل صحیح اور میرا اعتراض آپ کے شادی کرنے پر بالکل بھی نہیں ہے ۔شادی بھی دوسرے گینگسٹرز نے کی ہے اور تھوڑی بہت روایتی محبت بھی ان میں موجود ہو گی ۔مگر ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے پاﺅں کی جوتی کو سر کا تاج بنا لیا ہو ۔“
”الزام پر الزام دھرے جا رہے ہو بے غیرت آدمی ۔“کبیردادا نے اسے ڈانٹ کر خاموش کرنا چاہا ۔
اسی وقت ایک ملازم اجازت مانگ کر اندر داخل ہوا اور ان کے سامنے کافی کے بھرے مگ رکھ کر سرجھکائے باہر نکل گیا ۔
پاشا کافی کا ہلکا سا گھونٹ لیتا ہوا بولا ۔”یہ سچ ہے کبیردادا۔کل رات تقریب میں میری نظر آپ دونوں ہی پر تھی ۔اس دوغلی ڈائن نے آپ کو اپنی بناوٹی محبت کا یقین دلانے کے لیے ایک لمحے کے لیے بھی آپ پر سے نظریں نہیں ہٹائیں ۔یقینا اسے کسی نے خوب پڑھا لکھا کر آپ کے پاس بھیجا ہے اور آپ بھی گاہے گاہے نظریں چرا کر اس کی دید سے آنکھیں ٹھنڈی کر رہے تھے ۔اور پھر محفل موسیقی میں جو محبت بھرے میسج لکھے جا رہے تھے ایسا تو ہائی اسکول کے طلبہ ہی کر سکتے ہیں ۔اور معاف کرنا اس چڑیل کے ساتھ تو چلیں یہ جچتا بھی ہے کہ میرے خیال میں وہ فرسٹ ائیر یاسیکنڈ ایئر کی طالبہ ہے ۔ آپ خود کو دیکھیں کیا اتنے اونچے مقام سے نیچے اترنا آپ کو روا تھا ۔“
کبیردادا صاف گوئی سے بولا ۔”کوئی محبت بھری گفتگو نہیں تھی یار،اس نے مجھے گھر چلنے کا لکھا اور میں نے اسے ڈانٹ دیا ۔“
”ایک چھوکری کی اتنی ہمت کہ وہ کبیرداداکو محفل چھوڑ کر گھر چلنے کا کہے اور ایک بار بھی نہیں بار بار میسج کرے ۔درجن بھرمیسج ٹون تو میں نے گنی تھیں ،یقینا آپ کی طرف سے ڈھیل تھی ورنہ وہ ایسی حرکت نہ کرتی ۔اور ایک دو میسج پڑھنے کا تو مجھے بھی اتفاق ہوا تھا وہ کوئی ناچنے گانے کی بکواس کر رہی تھی اورآپ اپنی مسکراہٹ نہیں روک پا رہے تھے ۔“
کبیردادا چڑ کر بولا ۔”بے وقوف آدمی، وہ کم عمر لڑکی ہے نادانی میں ایسی حرکتیں کر گزرتی ہے اب کیا اس کی پٹائی شروع کر دوں ۔“
”ہونہہ!....کم عمر نادان لڑکی نہیں ،پوری چار سو بیس ہے ۔اگر آپ کو تگنی کا ناچ نہ نچا یا تو مجھے پاشا نہیں کھوتا کہنا ۔“
”پیٹھ پیچھے تو اب بھی یہی کہتا ہوں یار۔“کبیردادا نے قہقہہ لگایا ۔
”پھر سامنے بھی کہنا ،بلکہ میں اپنا نام ہی یہی رکھ لوں گا ۔“
”بہرام میری جان ،بے وقوفوں کی سی بات نہ کرو ،یہ پریشانیاں اور الجھنیں اپنے دل و دماغ سے نکال دو ،مجھے نہ تو اس لڑکی سے محبت ہے اور نہ میں اپنے مقام اور جگہ ہی سے ناواقف ہوں ۔“کبیردادا نے اسے اصلی نام سے پکارا ۔
”مجھے ثبوت درکار ہے ۔“پاشا کو تسلی نہیں ہوئی تھی ۔
”کیا ثبوت چاہیے ۔“کبیرداداکے لہجے میں حیرانی تھی ۔
”شہاب قصوری ،اخلاق حسین ،نوشاد آفریدی اوروہ سالا ایس پی وغیرہ تمام ہر دوسرے دن نت نئی لڑکیوں کے ساتھ رات گزرتے ہیں اور ان کی یہ بے غیرتیاں ان بیویوں سے بالکل بھی چھپی ہوئی نہیں ہیں ....“پاشا سانس لینے کے لیے رکا ،مگرکبیردادا سے صبر نہیں ہوا تھابے ساختہ اس کے ہونٹوں سے پھسلا ۔
”تو ........؟“
پاشا اطمینان سے بولا ۔”تو یہ کہہ آپ اپنی روز مرہ پر آجائیں ہر دوسرے دن آپ کی خواب گاہ میں نئی لڑکی ہونی چاہیے ،بالکل اس طرح جیسے شادی سے پہلے کیا کرتے تھے ۔“
کبیردادا نے منھ بنایا ۔”میری شادی کو عرصہ ہی کتنا ہوا ہے ۔“
”تین راتیں اس ڈائن کے ساتھ گزار لی ہیں اتنا کافی ہے ۔“
کبیردادا نے افسوس بھرے انداز میں دائیں بائیں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔”کسی اور لڑکی کے ساتھ رات گزارنے سے کیا ہو گا ۔“
پاشا جھٹ بولا۔”مجھے یقین آ جائے گا کہ آپ اس فراڈن کو اتنی اہمیت نہیں دے رہے اور میرے اندیشے غلط ہیں ۔“
”ٹھیک ہے ۔“کبیردادا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جان چھڑائی ۔”جیسے ہی میرے معیار کی کوئی لڑکی نظر آئی تمھاری یہ تمنا بھی پوری کر دوں گا ۔“
”وعدہ ۔“پاشا کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔
”ایک بار کہہ تو دیا ہے ۔“کبیردادا جھلاتے ہوئے بولا ۔”اگر تمھاری نصیحتیں اختتام پذیر ہو گئی ہوں تو میں واپس چلا جاﺅں ۔“
”ایک منٹ ۔“وہ جیب سے موبائل فون نکالتے ہوئے کسی کو گھنٹی کرنے لگا ۔پہلی ہی گھنٹی پر کال وصول کر لی گئی تھی شاید جسے کال کی گئی تھی وہ اسی کال ہی کا منتظر تھا ۔ پاشانے مختصراََ ”آجاﺅ۔“کہتے ہوئے رابطہ منقطع کر دیا ۔
”کون ہے ۔“کبیردادا نے حیرانی سے پوچھا ۔مگر پاشا کے جواب دینے سے پہلے دروازے کو دھکیلتے ہوئے کوئی اندرداخل ہوا ۔آنے والی شخصیت کو دیکھتے ہی کبیردادا گہرا سانس لینے پر مجبور ہو گیا تھا ۔
اس کااصل نام تو کبیردادا کو معلوم نہیں تھا اور نہ اس نے کبھی جاننے کی کوشش ہی کی تھی، البتہ وہ نِگی کے نام سے مشہور تھی ۔شاید اس کا اصل نام نگینہ ،نگین ،نگہت یا نغمہ وغیرہ تھا ۔چند دن کبیردادا کی منظور ِ نظربھی رہ چکی تھی ۔کبیردادا ہی کی وساطت سے اسے ماڈلنگ کے شعبے میں کافی آگے تک جانے کا موقع ملا تھا اورآج کل وہ چوٹی کی ماڈل تھی ۔کبیردادا کے بارے اس کے دل میں پسندیدگی کے گہرے جذبات پوشیدہ تھے جنھیں جاننے والوں کے گوش گزار کرنے میں اس نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا تھا ۔لیکن اس کے ساتھ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کبیرداداکے لیے کسی ایک لڑکی کا ہو کر رہنا ناممکن تھا ۔مگر اب پاشا کی زبانی اسے جو خبر ملی تھی ،پاشا پر یقین ہوتے ہوئے بھی اس خبر کے بارے وہ شک میں پڑی تھی ۔
”نگی تم ۔“کبیردادا نے گفتگو کی ابتداءکی ۔
”شکر ہے آپ کو میرا نام تو یاد ہے ۔“پاشا سے مصافحہ کرتے ہوئے وہ کبیردادا کے قریب پہنچی اور اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر بے باکی سے اسے چومنے لگی ۔
اسے نرمی سے دور کرتے ہوئے کبیردادا نے پوچھا ”کیسی ہو ۔“جانے کیوںاسے نگی کی قربت اچھی نہیں لگی تھی ۔ایک دم تناوش کا خوشبو دار اور ملائم وجود اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا،اسے یوں لگا جیسے وہ اسے دیکھ رہی ہو ۔
نگی اچک کر میز کے کونے پر بیٹھتے ہوئے بولی ۔”بالکل ٹھیک ۔“
”میرا خیال ہے نگی کی آمد کی وضاحت کرنا ضروری نہیں ہے ۔“پاشا نے زبان کھولی۔
”پاشا ،میرے پاس ان چونچلوں کے لیے وقت نہیں ہے ۔“کبیردادا ایک دم بیزار ہو گیا تھا ۔
”دادا،یہ وہی نگی ہے جسے چھونے کی پاداش میں تین تھپڑمیرے چہرے پر اور ایک بھرپور لات میری تشریف پر لگی تھی ۔قسم سے اس دن کے بعد آج تک اسے مصافحے کے علاوہ نہیں چھو پایا۔“
”سچ کہہ رہا ہے یہ جھوٹا ۔“نگی نے بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے پاشا کی تائید کی تھی ۔
”پاشا تھوڑی دیر پہلے میں نے کیا کہا تھا ۔“
”یہی کہ ”جیسے ہی آپ کے معیار کی کوئی لڑکی نظر آئی آپ میری یہ تمنا بھی پوری کر دیں گے ۔“
”تو بس ٹھیک ہے ۔“کبیردادانے کندھے اچکائے ۔
”آئے ہائے ،اب ہم آپ کے معیار سے بھی گر چکے ہیں ۔“نگی بے باکی سے اسے گھورتے ہوئے بازاری لہجے میں بولی ۔
”دادا،ہاں یا ناں میں جواب دیں ۔نگی کو سستی لڑکی نہیں ہے ۔بڑے بڑے نامی گرامی لوگ اس کے لیے ترستے ہیں ۔یہ تو بس آپ کی محبت میں دوڑی چلی آئی ۔“
”آج کل یہ جھوٹا سچ بولنے پر تلا ہوا ہے ۔“نگی ایک دم سنجیدہ ہو گئی تھی ۔
کبیردادا بے بسی سے بولا ۔”تویوں تمھیں چین آجائے گا ۔“
”ہاں ۔“پاشا نے بھرپور انداز میں سر ہلایا۔
کبیردادانے بیزاری بھرے لہجے میں کہا ۔”تو اس قسم کے اور کتنے ثبوت دینا پڑیں گے ۔“
پاشا نے عزم ظاہر کیا ۔”ہر دوسرے تیسرے دن ایک جل پری آپ کی خواب گاہ کی زینت بناﺅں گا یہاں تک کہ وہ ڈائن خود ہی کہیں دفع دفعان ہو جائے ۔“
”کھوتے وہ تیرے استاد کی بیوی ہے ۔“
”میں نہیں مانتا ۔“پاشا نے نفی میں سر ہلایا۔
”ہائیں آپ کی بیوی ۔“نگی نے چیختے ہوئے پریشانی کا اظہار کیا ۔
کبیردادانے اس کی بات پر توجہ نہیں دی تھی ۔”کیا نہیں مانتے، مجھے استاد یا اسے میری بیوی ۔“
”کیا میری زندگی میں یہ ممکن ہے کہ میں آپ کو استاد نہ ماننے کے بارے سوچ بھی سکوں ۔“
کبیردادا سنجیدگی سے بولا ۔”دوبارہ اسے غلط نام سے نہ پکارنا ،وہ جیسی بھی ہے ،مگر عزت دار خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور باکردار لڑکی ہے ۔“
”ٹھیک ہے بھابی کہہ دیا کروں گا ۔“پاشا نے منھ بنایا۔
”رات نو بجے میری کوٹھی پر آجانا۔“نگی کو کہتے ہی کبیردادانے بات چیت ختم ہونے کا اعلان کیا اور اٹھ کر باہرکی طرف چل پڑا ۔نگی اور پاشا کے چہرے خوشی سے کھل گئے تھے ۔نگی کو وہیں بیٹھنے کا اشارہ کر کے پاشا کبیردادا کو رخصت کرنے باہر نکل گیا ۔
٭٭٭
”یار ، میں نے تو سوچا تمھاری جھوٹ کی عادت اب تک نہیں گئی ،مگر یہاں تو سچ مچ انقلاب آگیا ہے ۔اس ضدی ،ہٹ دھرم اور اکھڑ نے شادی کر لی ہے ، وہ بھی کسی لڑکی سے ۔“ پاشا کے واپس آتے ہی نگی شروع ہو گئی تھی ۔وہ اس سے کافی بے تکلف تھی ۔البتہ پاشا کی یہ بات بالکل ٹھیک تھی کہ وہ کبھی ہاتھ ملانے سے زیادہ نگی کے قریب نہیں گیا تھا ۔
پاشا جھلاتے ہوئے بولا۔”تو لڑکیوں ہی سے شادی کی جاتی ہے احمق لڑکی ۔“
”نہیں میرا مطلب ہے ،میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ کبیرداداکی اس حرکت کے بعد کیا کہوں ،کیا کروںاورکہاں جاﺅں ۔“وہ بد حواس سی لگ رہی تھی ۔
”کہیں جانے اورکچھ کہنے کا تو پتا نہیں ہے البتہ تمھارے پاس خود کشی کرنے کا اچھا موقع ہے۔اس طرح کم از کم دادا کو یہ یقین تو آجائے گا کہ اس خوب صورت ڈائن بھابی کے علاوہ بھی اسے کوئی چاہتا ہے ۔ “پاشا نے خلوص بھرے انداز میں مشورہ دیا ۔
”کیسی ہے وہ ،میرا مطلب شکل و صورت کے لحاظ سے ۔“نگی کی حیرانی اب تک برقرار تھی ۔اس نے خود کشی والے مشورے پر جوابی وار سے احترازبرتا تھا ۔
”پوری کی پوری ڈائن ....اوہ سوری ۔“ایک دم اسے کبیردادا کا حکم یاد آیا اور اس نے زبان دانتوں میں دبا لی ۔”میرا مطلب بھابی کو دیکھتے ہی آپ کے دل سے یہ پھانس نکل جائے گی کہ کبیردادا نے کیوں شادی کی ہے ۔“
”مجھ سے بھی خوب صورت ہے ۔“نگی کے لہجے میںچھلکتا اپنی خوب صورتی کا زعم واضح تھا۔
پاشا صاف گوئی سے بولا ۔”اگر تمھیں کوئی لڑکی خود سے زیادہ خوب صورت لگتی ہے تو وہ اس سے بھی خوب صورت ہو گی۔“
”میں تو الیگزنڈراڈڈاریو،شائلن وڈلے ،کترینہ کیف ،کرینہ کپور،ماہرہ خان اورکبریٰ خانم کی شکلوں کو بھی خود سے بہتر تو کیا اپنے جیسا نہیں سمجھتی۔“اس نے تینوں فلم انڈسٹریز کی خوب صورت لڑکیوں کو بے جھجک مسترد کر دیا تھا۔
”فکر نہ کرو میری ڈائن بھابی کو دیکھ کر تمھاری خود سے خوب صورت لڑکی کو دیکھنے کی حسرت تو کم از کم ضرور پوری ہو جائے گی ۔“
”تو پھر میری دال وہاں کیا گلے گی ۔“نگی روہانسی ہونے لگی ۔
پاشا نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔”تمھیں دال گلانے بھیج کون رہا ہے بے وقوف ،کسی اور کی پکی ہوئی ہنڈیا الٹانی ہے۔“
وہ خفت بھرے لہجے میں بولی ۔”میں نے سوچا شاید تم مجھے کبیردادا کو پھانسنے کا موقع دے رہے ہو ۔“
”یہ کام اس وقت کرنا تھا جب کبیردادا تم پر فریفتہ ہوا تھا ۔“
”خاک فریفتہ ہوا تھا اکھڑ ،بد مزاج ۔بس اپنی عیاشیو ں کے چکر میں تھا اور مجھے یقین ہے اب بھی وہی سلسلہ ہے ۔تمھارے اندیشے بے جا ہیں ۔“
”کاش ایسا ہی ہو ،مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے اور یقین مانو کہ مجھے تمھاری کامیابی میں شبہ محسوس ہو رہا ہے۔“
”ا ب اتنی بھی گئی گزری نہیں ہوں ۔“نگی کی نسوانی انا جاگ گئی تھی ۔یوں بھی اس کی خوب صورتی کسی تعریف کی محتاج نہیں تھی ۔لیکن پاشا کے دماغ میں پلنے والے اندیشوں سے وہ نا واقف تھی ۔
”خیر آج تم نے کبیرداداکو پوری رات مصروف رکھنا ہے ۔ اور اس ....میرا مطلب ہے بھابی کو کمرے کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دینا ۔کل پرسوں بھی اگر تم کبیردادا کو سنبھالنے میں کامیاب رہیں تو خوش آمدید ورنہ مجھے کسی اور جل پری کا بندوبست کرنا پڑے گا ۔“
”ویسے مزاج کی کیسی ہے ؟“
پاشا صاف گوئی سے بولا ۔”بالکل گھریلو ،سادہ ،معصوم اور بھولی بھالی ۔“
”کیا....“نگی چیخ پڑی تھی ۔”تھوڑی دیر پہلے تو ڈائن ،چڑیل اور جانے کیا کیا کہہ رہے تھے ۔“
”فکر نہ کروہمارے ہاں ڈائن،بلا اور چڑیل بدکردار نہیں باکردار،ایمان دار اور خاندانی لڑکیوں کو کہتے ہیں ۔“
”ٹھیک ہے ،اب کچھ طے کر لیتے ہیں ۔سیٹھ مسکین کی طرف میرے بیس لاکھ بقایا ہیں ،صبح تک سونے نہیں دیا تھا خبیث نے اور اب میری کال ہی وصول نہیں کر رہا ۔“
پاشا ہنسا ۔”کب کی بات ہے ؟“
”دو ہفتے سے اوپر ہو گیا ہے ۔“
”اور کچھ ؟“پاشا مستفسر ہوا ۔
”فیروز ملک نے وعدہ کیا تھا کہ نئی ڈرمہ سیریل میں مرکزی کردار مجھے ملے گا ، معاوضا وصول کر لیا مگر اب ایک نئی ہیروئن کو آگے لا رہا ہے اور مجھے اگلی سیرل پر ٹرخانا چاہتا ہے۔“
پاشا سنجیدگی سے بولا ۔”ان دونوں کے موبائل فون نمبر مجھے دو ۔“
نگی نے فوراََ اپنے موبائل فون سے ان کے نمبر نکال کر پاشا کو نوٹ کر ا دیے ۔
فیروز ملک کا پتا بھی نوٹ کر کے پاشا کسی کا نمبر ملانے لگا ۔دوسری طرف سے کال وصول ہوتے ہی وہ بغیر کسی تمہید کے فیروز ملک کا پتا دہراتے ہوئے بولا ۔”اسے اگلے ایک گھنٹے میں خصوصی کوٹھی میں ہونا چاہیے ۔“اور پھر دوسری طرف کی بات سنے بغیر اس نے رابطہ منقطع کیا اور سیٹھ مسکین کا نمبر ملانے لگا ۔سیٹھ مسکین کو وہ ذاتی طور پر بھی جانتا تھا ۔شہر کی بڑی بڑی مچھلیوں سے ان کی یوں بھی واقفیت ناگزیر تھی ۔
”ہیلو ۔“دو تین گھنٹیوں کے بعد ہی اس نے پاشا کی کال وصول کی تھی ۔یقینا پاشا کا نمبر اس کے پاس نہیں تھا ورنہ یوں بے پروائی سے ہیلو نہ کرتا ۔
”سیٹھ مسکین،پاشا بات کر رہا ہوں ۔“
”پپ پاشا ....پاشا دادا۔“اس نے گویا تصدیق چاہی تھی ۔
”یاداشت تو کافی اچھی ہے سیٹھ ورنہ پچھلے دو تین ماہ سے کسی تقریب وغیرہ میں ملاقات نہیں ہو پائی ہے ۔“
وہ جلدی سے بولا ۔”جی جی ....ویسے کیسے یاد فرمایاخادم کو ۔“
”کچھ نہیں ،بس یونھی آج نگی سے ملاقات ہوئی تمھیں یاد کر رہی تھی میں نے سوچا ہیلو ہائے ہی کر لیں ۔“
”سیٹھ مسکین کی ہکلاتی ہوئی آواز آئی ۔”نن....نگی ۔ہاں ....ویسے بہت اچھی لڑکی ہے ۔آج ہی میں اپنے سیکرٹری کو کہہ رہا تھا کہ اس کے اکاﺅنٹ میں بیس لاکھ جمع کرادے اس سے ادھار لیے تھے ۔ بے وقوف کو بھول ہی گیا ہے۔وہ غریب انتظار کرتی رہی ہو گی ۔خیر اسے بتا دینا کہ کل ضرور اسے اپنے پیسے مل جائیں گے ۔“
پاشا ہنسا ۔”چلو آپ کا پیغام پہنچا دیتا ہوں کہ اگر کل صبح دس گیارہ بجے اس کے اکاﺅنٹ میں مطلوبہ رقم جمع نہ ہوئی تو پرسوں سیٹھ مسکین دگنی رقم جمع کرا دے گا اور اسی طرح ہر گزرتے دن کے ساتھ رقم دگنی کرتا جائے گا ۔سیٹھ مسکین ہے ہی اتنا اچھا آدمی ۔“
”جج....جی ....جی ....جی ۔“سیٹھ مسکین نے ہکلاتے ہوئے جی جی کی گردان شروع کر دی اور پاشا مزید کچھ کہے بنا رابطہ منقطع کرتے ہوئے سامنے بیٹھی نگی کو مخاطب ہوا ۔
”سن تو لیا ہو گا ۔“
”ہاں نگی نے اطمینان بھرے انداز میں سر ہلایا۔
”دوسرے کام سے بھی بے فکر ہو جاﺅتمھیں رات کبیردادا کے پاس جانے سے پہلے خوش خبری مل جائے گی ۔لیکن مجھے خوش کرنا اب تمھاری ذمہ داری ہے ۔“
”کبیردادا کو پھنسانا ضرور مشکل تھا ،کسی دوسری لڑکی کا پتا کاٹنا اتنا مشکل نہیں ہوتا ،فکر ہی نہ کرو کبیردادا سے ایسے دور بھاگے گی جیسے تم ایمان داروں سے بھاگتے ہو ۔“
اور پاشا اطمینا بھرے انداز میں گردن ہلانے لگا ۔
٭٭٭
”گھر چلو ۔“پاشا سے رخصت لے کر گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ عظیم کو مخاطب ہوا ۔اس کے ساتھ ہی وہ موبائل فون نکال کر تناوش کا نمبر ملانے لگا۔
”اسلام علیکم !“گھنٹی وصول کرتے ہی اس کی چہکتی کھنکتی سریلی آواز نے کبیردادا کے کانوں میں رس گھولا ۔
”ایسا کرو آج امی کے گھر ہی رہ جاﺅ میں کہیں مصروف ہوں ۔“کبیر دادا کو رات کی صورت حال سے نمٹنے کا اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں سوجھا تھا ۔
وہ اس کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بولی ۔”میں ابھی آپ کی جرابیں دھو رہی تھی۔آپ کی کال وصول کرنے کے لیے مجھے کام درمیان میں چھوڑنا پڑا ۔“
”یہ ملازمہ کے کرنے کے کام ہیں ۔“
” آپ کی یاداشت کمزور ہے یا بار بار میرے منھ سے سن کر اچھا لگتا ہے کہ میں آپ کا کوئی کام کسی دوسرے کو کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی ۔“
کبیردادا نے منھ بنایا۔”تم ہو نا تان سین کی پوتی کہ تمھاری آواز بار بار سننا چاہوں گا۔“
”ہا....ہا....ہا۔“تناوش کے نقرئی قہقہے نے اس کے فقرے کی پھسپھساہٹ کو واضح کیا ۔
”اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے ۔“وہ چڑ گیا تھا ۔
”جنا ب جی آپ رات میری دس پندرہ منٹ کی گنگناہٹ سن کر نیند کی میٹھی وادیوں میں ڈوب گئے تھے ۔“
”تھکا ہوا تھا ۔“کبیردادا نے صفائی پیش کی ۔
وہ شرارتی لہجے میں بولی ۔”ہائے اللہ جی کتنا چھپاتا ہے یہ لڑکا اپنی محبت کو ۔“
”ہر وقت بکواس نہ کیا کرو ۔“لڑکے کا لقب سن کر اسے غصہ آگیا تھا ۔
”بکواس تو خیر نہیں ہے ۔“
اس کی گنگناتی آواز کبیردادا کو مزید تپا گئی تھی ۔ڈرائیور اور عظیم کی موجودی فراموش کرتے ہوئے وہ دھاڑا ۔”تمھاری محبت والی غلط فہمی تو آج ضروردور کر دوں گا ۔“
”کیااپنے ہاتھ سے کھانا نہیں کھلاﺅ گے ۔“تناوش اس کے غصے کو خاطر میں لائے بغیر شوخی پر آمادہ رہی ۔
”احمق عورت ۔“اس نے رابطہ منقطع کر دیا تھا ۔
”پلیز گھر آ جائیں نا ،کتنی دیر سے آپ کا چہرہ نہیں دیکھا ۔“فوراََ پیغام آگیا تھا ۔
جواب لکھے بغیر وہ خاموشی سے باہر دیکھنے لگا ۔
موبائل فون کی مسیج ٹون دوبارہ بجی ۔”آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہیں ،شاید بارش بھی ہو جائے آجاﺅ نامیں پکوڑے اور چٹنی بنا تی ہوں کھڑکی سے بارش کا نظارہ کرتے ہوئے اکٹھے بیٹھ کر کھائیں گے ۔“
میسج پڑھتے ہی کبیر دادا نے کار کی کھڑکی سے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی واقعی بادل اکٹھے ہو گئے تھے اورکسی بھی لمحے برس سکتے تھے ۔اگر وہ اسے متوجہ نہ کرتی تو شاید بارش شروع ہونے کے بعد ہی اس کی توجہ اس طرف جاتی ۔یوں بھی بارش کا ہونا نہ ہونا اس کے نزدیک برابر تھا۔ زندگی میں پہلی بار اس پر انکشاف ہو رہا تھا بارش کے موسم کی کوئی اہمیت بھی ہوتی ہے ۔
ایک اور میسج کی ٹون بجی ۔”کبیر !....آجائیں نا ،میرا بڑا دل کررہا ہے آپ کے ساتھ بارش میں بھیگنے کو ۔چھت پر چڑھ جائیں گے کسی ملازم کو نظر بھی نہیں آئے گا ۔“
اپنا نام پہلی بار بغیر کسی سابقے لاحقے کے پڑھ کر اسے عجیب مگر بہت اچھا لگا تھا ۔اس کے ساتھ ہی اس پر بارش کی مزید اہمیت اجاگر ہوئی ۔اس نے چشم تصور سے دیکھا کہ وہ چھت پر تناوش کے ساتھ موجود ہے تیزبارش ہو رہی ہے وہ آنکھیں بند کیے اپنے بازو دائیں بائیں پھیلائے کسی بچی کی طرح گھوم رہی ہے اور وہ اسے بھیگتا ہوا دیکھ رہا ہے ۔لباس اس کے جسم سے چپک کر اس کی دلکشی کو چار چاند لگائے ہوئے ہے ۔کبیردادا کے جسم میں انجانے جذبے بیدار ہوئے ۔اس کے دل میں شدت سے اس منظر کو آنکھوں کے سامنے دیکھنے کی خواہش بیدار ہوئی ۔ اگلی میسج ٹون نے اسے پھر موبائل فون کی طرف متوجہ کیا ۔
”اچھا آپ نہ بھیگنا ،سیڑھیوں کے شیڈ میں کھڑے ہو کر پکوڑے کھانا اور مجھے دیکھنا ، اب خوش ،اب تو آجاﺅ نا ۔“
ایک دم کبیردادا کے دل میں انجانا سا خوف نمودار ہوا،اسے تناوش سے ڈر لگنے لگا تھا ۔ وہ شاید جادوگرنی تھی جو میسج پر چند الفاظ لکھ کر اس کے دل و دماغ کو اپنی مٹھی میں جکڑ رہی تھی ۔ وہ کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر چٹنی پکوڑے کھانے کا ذکر کرتی اور اس کے منھ میں خستہ خستہ لذیذ پکوڑوں کا ذائقہ پھیل جاتا ۔وہ چھت پر بھیگنے کا ذکر کرتی اور کبیردادا تصور کی آنکھ سے اسے برستی بارش گھومتا ہوا دیکھنے لگتا ....اس کے دماغ میں پاشا کی آواز گونجنے لگی ....
”وہ خوب صورت ڈائن آپ کو ضائع کر دے گی ....اس کی اتنی ہمت کہ کبیردادا کو گھر جانے کا مشورہ دے .... ....آپ ایک چھوکری کے پیچھے خود کو بدنام نہ کریں....یقین مانیں اپنے دکھی ہیں اور پرائے ہنس رہے ہیں....وہ آپ کو انگلیوں پر نچائے گی ....کم عمر نادان لڑکی نہیں ،پوری چار سو بیس ہے.... دفع کریں اسے ٹھوکر لگا کر اپنی زندگی سے دور پھینکیں ....“
”کیا واقعی پاشا ٹھیک کہہ رہا ہے ،کیا مجھے اس سے جان چھڑانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ “بادل زورسے گرجا اور بارش شروع ہو گئی وہ اپنی کوٹھی کے قریب پہنچ گئے تھے ۔
”گھر نہیں جانا ،آگے گزرتے جاﺅ ۔“ڈرائیور کو کار آہستہ کرتی دیکھ کر بے اختیار اس کے ہونٹوں سے پھسلا ۔
”کہاں جانا ہے دادا ؟“عظیم کے لہجے میں حیرانی تھی ۔
اس نے الجھتے ہوئے کہا ۔”کہیں بھی ....“
”کیا ؟“عظیم کی سمجھ میں اس کی بات نہیں آئی تھی ۔
وہ سنبھل کر بولا ۔”ایس پی ضمیر حسین کی طرف چلو ۔“
”جی دادا۔“عظیم نے اوپر نیچے سر ہلایا ۔
کبیر دادا نے سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں ۔بارش کی رفتار تیز ہو گئی تھی ۔بار بار بجنے والی پیغامات کی گھنٹیوں کو اس نے نظر انداز کر دیا تھا ۔
اچانک کال آنے لگی ۔اس نے آنکھیں کھولتے ہوئے موبائل فون کی سکرین کو دیکھا وہ تناوش کی کال تھی ۔رابطہ کاٹنے والا بٹن دبا کر وہ کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا ۔بارش کے قطرے ایک تسلسل سے گر رہے تھے ۔موتیوں کے مشابہ قطرے نہ جانے کیوں اتنے بھلے لگ رہے تھے۔ اس سے پہلے اسے بارش کبھی اتنی اچھی نہیں لگی تھی ۔سڑک کے دائیں بائیں مکانات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا کچھ گھروں کی چھت پر اسے رنگ برنگے آنچل لہراتے نظر آرہے تھے ۔ تصور کی آنکھ سے وہ تناوش کے پاس پہنچ گیا ۔وہ اپنا سرخ دوپٹا گیلے بدن پر لپیٹ کر گیلے کپڑوں کی شرارت کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی ،مگر دوپٹے کا گیلا پن اس کا ساتھ دینے کے بجائے گیلے کپڑوں کے ساتھ مل گیا تھا ۔اس کے گداز اور نوخیز بدن کے خوب صورت زاویے اور قوسیں ”صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں ۔“کی جیتی جاگتی تصویر بن گئے تھے ۔
اس کا دل شدت سے تناوش کے پاس جانے کے لیے مچلا اس کا جی چاہا کہ ڈرائیور کو گھر کی جانب مڑنے کا کہے ۔آنکھیں بند کر کے سر سیٹ کے ساتھ ٹیکتے ہوئے اس نے بڑی مشکل سے اس تمنا کو دل ہی میں دبا دیا ۔
کار ایک سپیڈ بریکر پر آہستہ ہوئی سڑک کے بائیں جانب ایک چھپر ہوٹل بنا تھا اس کی نظر کڑاہی میں تلتے گرم پکوڑوں پر پڑی ۔
”شہزاد کار ایک جانب کر کے روک لو ۔“وہ شاید زندگی میں پہلی بار براہ راست ڈرائیور کو مخاطب ہوا تھا ۔
”جی دادا !“ڈرائیور کے لہجے میں حیرانی بھری ہوئی تھی ۔اس کے ساتھ ہی اس نے انڈیکیٹر دے کار ایک جانب کر کے روک لی ۔
”عظیم ،پکوڑے اور چٹنی لے آﺅ ۔“کبیردادا کا اگلا حکم ڈرائیور اور عظٰم کو مزید حیران کرنے والا تھا ،مگر ان دونوں میں اتنی جرّات مفقود تھی کہ کھل کر حیرانی کا اظہار کر سکتے ۔عظیم سر ہلا کر نیچے اترا اور چھپر ہوٹل کی طرف بڑھ گیا ۔محافظوں والی دونوں جیپیں بھی رک گئی تھیں ۔امتیاز اور بخش نیچے اتر کرعظیم کی طرف بڑھے ۔
امتیاز نے پوچھا ۔”عظیم بھائی ،خیر تو ہے کیوں رک گئے ہو ؟“
عظیم مسکرایا ۔”دادا نے پکوڑے لانے کو کہا ہے ۔“
”کیا۔“وہ دونوں حیرانی انداز میں چیخ پڑے تھے ۔مگرعظیم ان کی کیا کا جواب دینے کے بجائے چھپر ہوٹل کے مالک کی طرف بڑھ گیا جو باورچی ،منیجر اور بیرے کی ذمہ داریاں بھی خود ہی نبھا رہا تھا ۔
امتیاز نے دھیمے لہجے میں خیال ظاہر کیا ۔”نمازن کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں ،یقینا اس نے کال کر کے کبیردادا کوپکوڑے لانے کا حکم دیا ہوگا،اسی وجہ سے دادا گھر کے پاس جا کر آگے بڑھ گیا تھا ۔“
”کبیردادا کو حکم کون دے سکتا ہے ۔“بخش نے بھی اسی کے انداز میں سرگوشی کی تھی ۔



عظیم وثوق سے بولا ۔”نمازن کی آمد سے پہلے میرا بھی اسی بات پر یقین تھا ۔“
”میں نہیں مانتا۔بخش نے نفی میں سر ہلایا۔اس وقت باقر اور رخسار بھی ان کے قریب پہنچ گئے تھے ۔
امتیاز نے کہا ۔”چلو عظیم سے پوچھ لیتے ہیں کہ کبیردادا نے اس طرف مڑنے سے پہلے نمازن سے بات کی ہے یا نہیں ۔“
”کیا بحث شروع ہے ۔“باقر نے اشتیاق سے پوچھا ۔
بخش اسے دبے لفظوں میں ساری بات بتانے لگا ۔اسی وقت انھیں عظیم واپس مڑتا ہوا نظر آیا اس نے ایک ہاتھ میں گرم بھاپ اڑاتے پکوڑوں کی پلیٹ اور دوسرے ہاتھ میں چٹنی کی پلیٹ پکڑی ہوئی تھی ۔پکوڑوں کو بھیگنے سے بچانے کے لیے اس نے ایک الٹی پلیٹ ان پر رکھ دی تھی ۔
بخش چہکا۔”دیکھ لو ،دادا پکوڑے گھر نہیں لے جا رہا یہیں بیٹھ کرکھانا چاہتا ہے ۔“
اس کی بات پر توجہ دیے بغیر امتیاز نے عظیم کو روکتے ہوئے پوچھا ۔”کیا گھر کی طرف جاتے ہوئے دادا کو بیگم صاحبہ کی کوئی کال ملی تھی ؟“
”ہاں ،مگر یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے ۔“عظیم اسے ہلکے سے جھڑکتا ہوا کار کی طرف بڑھ گیا ۔
”سن لیا ۔“امتیاز نے فاتحانہ نظروں سے بخش کو گھورا ۔
بخش نے دلیل پیش کی ۔”وہ کوئی بھی بات کر سکتی ہے ،شاید اس نے رات ماں کے گھرگزارنے کی اجازت مانگی ہو ۔اگر تمھاری بات سچ مانی جائے تو کبیردادا کو پکوڑے گھر لے جانے چاہئیں تھے نہ کہ یہاں کھانے ۔“
”نہیں ۔“امتیاز اس کی دلیل سے متفق نہیں ہوا تھا ۔
”ایسا ہی ہے ۔“بخش مصر ہوا ۔وہ دونوں تکرار کرتے ہوئے جیپ کی طرف مڑ گئے تھے ۔باقر اور رخسار بھی اپنی جیپ کی طرف بڑھ گئے ۔اتنی دیر بھی آڑ کے بغیر گزار کر وہ اچھے خاصے بھیگ گئے تھے
کبیرداداگرم پکوڑوں اور چٹنی سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔زندگی میں پہلی بار اسے پکوڑے اتنے بھلے لگ رہے تھے ۔ بارش اور پکوڑوں کے تعلق کا راز اس پر پہلی بار منکشف ہوا تھا۔نہ جانے تناوش کا ساتھ اس پر اور کون کون سے سربستہ راز آشکارا کرنے والا تھا ۔
پکوڑوں میں مرچیں ذرا تیز تھیں ۔اچانک چشم تصور میں اسے تناوش پکوڑے کھاتی نظر آئی ۔مرچوں کی زیادتی کی وجہ سے اس نے آنکھیں بند کر کے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے ۔ اس عالم میں وہ اور بھی معصوم لگنے لگی تھی ۔مگر وہ پکوڑے چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھی ۔
جھرجھری لے کر اس نے سحر بھرے منظر کو دور جھٹکا اور کار کے باہر دیکھنے لگا ۔ ایک دفعہ پھر اس کا موبائل فون بجنے لگا تھا ۔تناوش ہی کی کال تھی ۔کبیردادا کا دل اس کی آواز سننے کو مچلنے لگا ۔نہ جانے وہ کیا کہنا چاہتی تھی ۔یقینا اس نے پکوڑے تیار کر لیے تھے اور اب اس کی منتظر تھی ۔چاہتے ہوئے بھی وہ گھنٹی وصول نہ کر سکا ۔رابطہ منقطع کرنے کا بٹن دبا کر اس نے تناوش کے ساتھ اپنے دل کو بھی مایوس کرنے کی ہمت کر ڈالی تھی ۔شاید وہ خود سے ڈرنے لگا تھا کہ تناوش کی منتوں بھرے حکم کے سامنے وہ ہتھیار ڈال دے گا ۔
”یہ واپس کر آﺅ ۔“اس نے پکوڑوں کی اد ھ بھری پلیٹ عظیم کی طرف بڑھائی ۔اور اس کے پلیٹ تھامتے ہی وہ تناوش کے پیغام دیکھنے لگا ۔درجن بھر پیغام آئے ہوئے تھے ۔
”اچھا میں پکوڑے بنانے جا رہی ہوں ،کوئی معذرت اور دھمکی دھونس نہیں چلے گی ، بس آپ آجائیں ۔“
”آجاﺅ نا اب تو بارش شروع ہو چکی ہے ۔“
”باورچی خانے کی کھڑکی سے نظر آنے والے قطرے آپ کی کمی کو مزید اجاگر کر رہے ہیں ۔“
”کبیر، آجاﺅ ناپکوڑے بن گئے ہیں اور اگر آپ نہ آئے تو میں ایک پکوڑا بھی منھ میں نہیں ڈالوں گی ۔“
”قسم سے اتنا دل کر رہا ہے پکوڑے کھانے کو ،مگر میری ضد برقرار ہے ۔“
”افف، کتنا نخریلا ہے یہ لڑکا بھی ۔“
”گھنٹی تو اٹھاﺅ نا ....پلیز پلیز ایک بار بات تو کر لو ....“
”اچھا میں آپ کے لائے ہوئے کپڑے پہن رہی ہوں ،آپ کو ان کپڑوں میں زیادہ خوب صورت لگتی ہوں نا ۔“
”یہ دیکھو ،پہن لیے ہیں کپڑے ۔میک اپ کا سامان نہیں ہے ورنہ میک اپ بھی کر لیتی ۔“
”پلیز آجاﺅ نا ،ورنہ میں رو پڑوں گی ....آپ نے پانچ ،چھے بجے تک لوٹنے کا کہا تھا اور اب ساڑھے چھے ہو گئے ہیں ۔“
”کبیر ،میں رو رہی ہوں ،سچ میں رو رہی ہوں ۔آپ مجھے یاد آرہے ہیں۔میں نے پکوڑے کھانے کی کوشش کی ہے ،مگر مجھ سے آدھا پکوڑا بھی نہیں نگلا گیا ۔“یہ آخری میسج تھا ۔
کار آگے بڑھ چکی تھی ۔وہ موبائل فون ایک جانب رکھتے ہوئے دوبارہ سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔میسج آنا بند ہو گئے تھے ۔شاید وہ خفا ہو گئی تھی ۔
وہ خودکو مخاطب ہوا ۔”ہوتی رہے خفا ....بھاڑ میں جائے جادوگرنی ....میں اس کے لیے اپنے مقام سے نیچے نہیں آسکتا ....میرے نزدیک اس کی اہمیت ایک رکھیل سے بڑھ کر نہیں ہے ....میں اسے اتنی بے تکلفی کی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ مجھے نام سے بلانا شروع کر دے۔“ ایک مخالف سوچ پہلے والے خیالات کے مقابل آگئی ۔
”اس نے تم سے پوچھا کب ہے ۔اور بے تکلف تو وہ ہو گئی ہے ....تم اس کا سامنا کرنے کی ہمت تو چھوڑو اس کی کال سننے کی جرات نہیں کر سکتے ....وہ رکھیل نہیں رانی ہے .... اس کا رونا تمھیں دکھ دے رہا ہے ۔“
اس نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیں ”نہیں دے رہا ہے اس کا رونا دکھ ....مجھے اس کی پروا نہیں ....اگر پروا ہوتی تو میں گھر چلا گیا ہوتا ۔“
”صاف کہو نا ،اس کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے ۔“کوئی اس کے اندر ہنسا ۔
”غلط ہے یہ ۔“وہ با آواز بلند بڑبڑایا ۔
”جی دادا!“ایک دم عظیم نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ڈرائیور نے بھی کار کی رفتار مدہم کر دی تھی۔
”کچھ نہیں چلتے رہو ۔“بائیں ہاتھ کی انگلیاں سر کے بالوں میں گھساتے ہوئے وہ اسے خیالوں سے دور جھٹکنے لگا ۔
یقینا پاشا کا تجزیہ صحیح تھا ۔شکر تھا کہ اس نے بروقت کبیردادا کو اس طرف متوجہ کر کے اس کے علاج کی طرف رہنمائی بھی کر دی تھی ۔
”ایس پی صاحب دفتر سے تو اٹھ چکے ہوں گے ۔“عظیم کی آواز نے اسے خیالوں کے چنگل سے چھٹکارا دلایا ۔
”کال کر کے معلوم کر لو ۔“
اور عظیم اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ایس پی کے قریبی آدمی سے رابطہ کرنے لگا ۔ معلومات لے کر وہ کبیردادا کی طرف مڑا ۔”وہ اپنے خفیہ اڈے میں ہے اور گھر جانے کے لیے اٹھنے والا ہے ۔“
”وہیں جائیں گے ۔کال کر کے میری آمد کا بتا دو ۔“
”جی دادا۔“عظیم دوبارہ رابطہ کرنے لگا ۔
*جاری ہے*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.