Ads Top


جنت کے پتے
از

 نمرہ احمد




ناول؛ جنت کے پتے
قسط 40
وہ ابھی تک پلکیں نہیں جھپک پا رہی تھی۔
وہ ماہ دسمبر کے اسلام آباد کی خوبصورت، ٹھنڈی سی سہ پہر تھی۔ بادل ہر سو چھائے تھے۔ سبز درخت، سیاہ بادل، سرمئی سڑک، ایک پرسکون ٹھنڈا سا امتزاج۔ 
وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، سر جھکائے سڑک کے کنارے چل رہا تھا۔ جس ہوٹل میں اسے جانا تھا وہ وہاں سے چند گز کے فاصلے پہ تھا۔ وہ عادتا ٹیکسی سے مطلوبہ مقام سے ذرا دور اترا تھا۔ اب اسے پیدل چل کر ہوٹل تک جانا تھا۔
وہ وہی کر رہا تھا، مگر سر کے پچھلے حصے میں اٹھتا درد شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ وہ میگرین نہیں تھا، مگر شدت ویسی ہی تھی۔ وہ ظاہر نہیں کرتا تھا، لیکن تکلیف کبھی کبھی نا قابل برداشت ہو جاتی تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ ابھی اس کی ذہنی اذیت کا بڑا سبب ممی کی باتیں بنی ہوئی تھیں، جو صبح سے اس کے دماغ میں گھوم رہی تھیں۔ جب ممی غصے سے اسے ”جہان سکندر“ کہہ کر مخاطب کرتیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اب اگر وہ بات نہیں مانے گا تو وہ ہرٹ ہوں گی۔ ایسے مواقع کم ہی آتے تھے، مگر جب آتے تو اسے دکھی کر جاتے۔ تب اس کے پاس بات ماننے کے علاوہ کوئی چارا نہ ہوتا تھا۔ آج بھی نہیں تھا۔ آج تو ممی نے کال کے اختتام پر طعنہ بھی دے دیا تھا۔
جہان سکندر! تم مجھ سے زیادہ اپنے باس کی مانتے ہو، مجھے اب یہی لگا ہے۔
ہوٹل کا بیرونی گیٹ سامنے تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اندر داخل ہوا۔ اسے کسی نے نہیں روکا، البتہ آج معمول سے زیادہ سیکیورٹی نظر آ رہی تھی۔ انٹرنس کینوپی کی طرف جاتے ہوۓ وہ محتاط نظروں سے اطراف کا جائزہ لے رہا تھا۔ یقینا ہوٹل میں کوئی خاص تقریب ہونی تھی، جس کی وجہ سے سیکیورٹی عام دنوں سے کہیں زیادہ تعینات کی گئی تھی۔
ابھی وہ انٹرنس سے زرا دور تھا۔ جب اس کا موبائل بجا۔ وہ رکا اور سیاہ جیکٹ کی جیب سے موبائل نکالا۔ اس کا سلور اسمارٹ فون جو کچھ عرصہ قبل اسے دیا گیا تھا، جس میں لگے بے حد بیش قیمت سرویلینس (نگرانی کرنے والے آلات) اس کی قیمت کو اسی ماڈل کے کسی بھی فون سے کئی گنا زیادہ بنا چکے تھے اور وہ جانتا تھا کہ موجودہ کام ختم ہوتے ہی اسے یہ سب واپس کرنا ہو گا، سیکرٹ فنڈ کی ایک ایک پائی کا حساب اور جسٹی فیکیشن انہیں ہی دینی پڑنی تھی۔
مسز پارٹنر! اسکرین پہ یہ نام جل بجھ رہا تھا۔ وہ عادتا کبھی بھی لوگوں کے نمبرز اصل ناموں سے محفوظ نہیں کرتا تھا۔ حماد پارٹنر کے نام سے اور اس کی منگیتر ثانیہ جو ان کے ساتھ ہی کام کرتی تھی، مسز پارٹنر کے نام سے اس کے فون میں موجود تھی۔ ہیلو! اس نے کان سے فون لگایا۔ پہلے کسی کو بولنے کا موقع دینا بھی اس کی عادت بن چکی تھی۔ بہت سی عادات جو ان بارہ سالوں نے اسے دی تھیں۔
تم کہاں ہو؟ میں لابی میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں؟
بس آ رہا ہوں۔ اس نے موبائل بند کر کے جیکٹ کی جیب میں رکھا اور داخلی دروازے کی طرف آیا۔ گارڈ نے کافی رکھائی سے اس سے شناخت طلب کی۔ آج واقعی حد سے زیادہ سختی تھی۔ ایسے مواقع پہ جو کم ہی آتے تھے۔ وہ اپنی اصل شناخت ہی دکھایا کرتا تھا۔
اس نے اندرونی جیب سے والٹ نکالا، اسے کھولا اور اندر والٹ کے ایک خانے میں پلاسٹک کور میں مقید کارڈ کچھ اس طرح سے سامنے کیا کہ اس کا انگوٹھا اس کے نام کو چھپا گیا، مگر تصویر، ایجنسی کا سہ حرفی مخفف اور وه مشھور زمانه پھول بوٹوں سے مزید چار چوکھٹوں کا نشان واضح تھا- گارڈ کی تنی ابرو سیدھی ہوئیں، ایڑھیاں خود بخود مل گئیں اور "سر" کہتے ھوۓ اس نے ذرا پیچھے ہٹ کر راسته دیا-
وه سپاٹ چہرے کے ساتھ والٹ واپس رکھتا اندر کی جانب بڑھ گیا- 
کبھی کبھی جب وه پاکستان میں ہوتا تو اسے یہ عیش بہت اچھے لگتے-
لابی میں داخل ہوتے ہی اس نے بنا گردن گھماۓ بس نگاھوں سے چھت، فانوس اور دیواروں کے کونوں میں لگے سیکیورٹی کیمروں کا جائزه لیا- کتنے کیمرے تھے، ان کا رخ کیا تھا۔ ڈیوٹی پہ کتنے گارڈز موجود تھے، اگر آگ لگ جاۓ یا کوئی ایمر جنسی ھو تو فائر ایگزٹ کس طرف تھی اور اس جیسی بہت سی باریکیوں کو جانچ کر وه لابی میں موجود صوفوں کی جانب بڑھ گیا۔ جدھر ثانیہ ایک صوفے پہ بیٹھی تھی- 
اس نے سیاه سفید دھاریوں والی شلوار قمیض پہ سیاه سوئٹر پہن رکھا تھا، گلے میں ڈوپٹا، گہرے بھورے بالوں کی اونچی پونی اور اپنے مخصوص انداز میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھی ثانیہ اسے اپنی جانب متوجہہ پاکر شناسائی سے مسکرائی تھی- وه اس کی ایک بہت اچھی دوست تھی، ان سے جونیئر تھی مگر حماد کی فیملی سے گہرے تعلقات کے باعث وه ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے- 
وه بھی جوابا ہلکے سے مسکرا کر اس کی طرف آیا۔ وه دو صوفے آمنے سامنے لگے تھے۔ درمیان میں ایک چھوٹی میز تھی۔ جس پہ ثانیہ کا سیاه پاؤچ رکھا تھا۔ ایک قدرے بڑا پرس بھی ساتھ ہی پڑا تھا۔ وه قریب آیا تو ثانیہ اٹھ کھڑا ہوئی۔
السلام علیکم! کیسے ہو اور کب سے ہو ادھر؟
وعلیکم السلام۔ فائن تھینکس۔ زیادہ دن نہیں ہوئے۔ کام سے آیا تھا۔م قابل صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے بتایا۔ وہ کتنے دنوں سے اسلام آباد میں تھا، تعداد اس نے نہیں بتائی۔ دوسرے آپ کے بارے میں جتنا کم جانیں، اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔
وہ تو مجھے اندازہ تھا۔ تمہارا کام! اس نے بیٹھتے ہوئے ابرو سے سیاہ پاؤچ کی طرف اشارہ کیا۔ جہان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
جتنا کر سکی، کر دیا۔ تمھاری معلومات ٹھیک تھیں۔ وہ سفارت خانے کی کار استعمال نہیں کرتی۔
اب اس کے سامنے بیٹھی وہ اسے دھیمی آواز میں امریکی سفارت خانے کی سیکنڈ سیکریٹری کے متعلق بتا رہی تھی، جو ویزا سیکشن کی ہیڈ تھی اور بھارتی نژاد امریکی شہری تھی۔ اسے سفارت خانے کی سیکنڈ سیکریٹری کے متعلق چند معلومات درکار تھیں، اور وہ بھی بہت جلد۔ اس لئے اس نے صبح ثانیہ کو فون کیا تھا۔ ثاتیہ تمام ضروری چیزیں لے آئی تھی اور اب زبانی بریفنگ دے رہی تھی۔
یو نو واٹ! وہ امریکی سفارت خانے کی ان گاڑیوں میں سے کوئی استعمال نہیں کرتی حو ہر وقت اسلام آباد میں گردش کرتی رہتی ہیں۔ ویسے ان گاڑیوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ سو ہے۔ 
ایک سو چالیس! اس نے مسکراہٹ کے ساتھ تصحیح کی۔ ثانیہ سر ہلا کر رہ گئی۔ وہ ہمیشہ اس سے زیادہ باخبر رہتا تھا۔ 
بہرحال، وہ ان میں سے کسی گاڑی پر سفر نہیں کرتی کیونکہ اس کو ایک جگہ کہتے سنا گیا تھا کہ ان ڈیڑھ سو..... ایک سو چالیس گاڑیوں میں سے کسی ایک کا دروازہ بھی کھلے تو ایمبیسی کو خبر ہو جاتی ہے، اس لئے اسے ایمبیسی کی گاڑیوں سے چڑ ہے اور یہ بھی کہ ان کی اتنی سیکیورٹی ڈی سی میں نہیں ہوتی جتنی اسلام آباد میں ہوتی ہے۔
اس کے باوجود امریکی سفارت کار خود کہہ کہہ کر اپنی پوسٹنگ اسلام آباد کرواتے ہیں۔ کراچی سے بھاگتے ہیں مگر اسلا آباد تو ان کے لئے جنت ہے۔
چند منٹ وہ دونوں سفارتخانے کی باتیں کرتے رہے۔ نام لئے بغیر، بے ضرر سی باتیں، پھر لمحے بھر کو جب دونوں خاموش ہو گئے تو ثانیہ نے موضوع بدلا۔
کوئی اور کام بھی ہے اسلام آباد میں؟ اس نے سرسری سا پوچھا مگر وہ جانتا تھا وہ کس طرف اشارہ کر رہی ہے۔
ہاں! دو دن بعد میرے کزن کی مہندی ہے اور ممی چاہتی ہیں کہ میں وہ اٹینڈ کروں۔
اور تم کیا چاہتے ہو؟ وہ پتلیاں سکیڑے بغور اسے دیکھ رہی تھی۔ وہی تیکھا انداز جو ان کے ہم پیشہ افراد میں کثرت سے پایا جاتا تھا۔
مجھے معلوم نہیں۔ بس میں ان لوگوں سے نہیں ملنا چاہتا۔ 
ملو گے نہیں تو بات آگے کیسے بڑھے گی؟ تمہارا نکاح ہو چکا ہے تمھارے ماموں کے گھر۔ اس طرح اس بے چاری لڑکی کی زندگی تو مت لٹکاؤ یا نبھاؤ یا چھوڑ دو۔ بات کے اختتام پر اس نے ذرا سے کندھے اچکائے۔
جہان نے زخمی نگاہوں سے اسے دیکھا۔ ثانیہ کے لئے یہ تبصرہ کرنا کتنا آسان تھا۔
چھوڑ ہی تو نہیں سکتا۔ ممی بہت ہرٹ ہوں گی۔ ایک ہی تو صورت ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ پھر سے ایک ہو جائیں۔ یہ راستہ میں کیسے بند کر دوں؟
تو پھر نبھاؤ۔ کتنے عرصے سے تم اس بات کو لٹکا رہے ہو۔ جا کر مل لو نا اپنے ماموؤں سے۔ 
میں ان کے گھر جاؤں، ان سے ملوں، ان کے ساتھ تعلقات پھر سے استوار کروں، ۔میرا دل نہیں چاھتا یہ سب کرنے کو۔ اس نے بے بسی سے سر حھٹک کر کہا تھا۔ اپنے ملک میں اپنے دوستوں کے ساتھ، بس یہی وہ مقام تھا، جہاں وہ اپنے دل کی بات کہہ دیا کرتا تھا۔
دیکھو جہان! انسان اپنا کیا بہت جلد بھول جاتا ہے، وہ بھی بھول چکے ہوں گے۔ تم جاؤ اور ان کو ایک مثبت اشارہ دو۔ اس سے وہ یہ جان لیں گے کہ تم اور تمھاری ممی ان کے ساتھ رشتہ رکھنا چاہتے ہو۔ وہ تمہیں بہت اچھا ویلکم دیں گے۔ وہ کرسی پہ ذرا آگے ہو کر بیٹھی، گویا سمجھا رہی تھی مگر وہ سمجھنا نہیں چاہتا تھا۔
میں رشتہ نہیں نبھا پاؤں گا، میں کیوں ان کو دھوکا دوں؟ کیوں ان کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کروں؟ دیکھو! میں جھوٹ بول کر شادی نہیں کروں گا اور سچ جاننے کہ بعد وہ اپنی بیٹی سے میری شادی نہیں کریں گے۔ بات پھر وہیں آجائے گی کہ ممی ہرٹ ہوں گی۔ وہ شدید قسم کے مخمصے میں تھا یا شاید وہ مسئله حل ہی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
ضروری نہیں ہے کہ چیزیں ویسی ہی ہوں جیسے تم سوچ رہے ہو۔ تم انہیں بتانا کہ تم کیا جاب کرتے ہو۔ اس کی کیا پیچیدگیاں ہیں۔ کیا مجبوریاں ہیں اور یہ کہ تم یہ جاب نہیں چھوڑ سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ انڈر اسٹینڈ کریں گے۔ جہان نے نفی میں سر ہلایا۔ لابی میں پس منظر میں دھیما سا بجتا میوزک جیسے ایک دم سے بہت تلخ ہو گیا تھا۔
تم میرے ماموؤں کو نہیں جانتی۔ وه ذرا ذرا سی بات پہ ایشو بنانے والے لوگ ہیں۔ وه اس بات کو ایشو بنا لیں گے کہ ہم نے پہلے انہیں بے خبر کیوں رکھا۔ اتنے سال میں کبھی ان سے ملنے نہیں آیا، وغیره وغیره۔ اپنے تمام رویے، سب تلخ باتیں، سب بھلا کر وه پھر سے ممی پہ چڑھ دوڑیں گے اور نتیجتأ ممى ہ‍رٹ ہوں گی۔ میں ان کو مزید دکھی ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ اب میں کیا کروں میری سمجھ میں نہیں آرہا۔ ثانیه چند لمحے خاموشی سے ٱسے دیکھتی رہی پھر آہستگی سے بولی۔
جہان اگر ہر چیز بالکل ویسے ہو جیسے تم کہہ رہے ہو اور وه واقعی تمہاری ممی کو پھر سے ہرٹ کریں، تب بھی وه اتنی مضبوط تو ہیں که بہادری سے مقابله کر سکیں اور یہ بات تم اچھی طرح سے جانتے ہو۔ تم صرف اپنے رویوں کی صفائیاں دے رہے ہو۔ اصل وجه یہ نہیں ہے۔
تم بتاؤ کیا ہے اصل وجه؟ اس نے سنجیدگی سے دیکھتے ہوۓ ثانیه سے پوچھا۔ وه جانتا تھا که وه ٹھیک کہہ رہی ہے پھر بھی وه اس کے منه سے سننا چاہتا تھا۔
اصل وجه یہ نہیں ہے جو تم بتا رہے ہو کیونکه میں تمہیں جانتی ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ تم جب انہیں بتاؤ گے کہ تم صرف ایک آرمی آفیسر نہیں بلکه ایک جاسوس بھی ہو۔ اور وه اس پہ ردعمل ظاھر کریں، تب بھی تم آدھے گھنٹے میں انہیں مطمئن اور قائل کر لو گے۔
"نہیں، میں انہیں قائل نہیں کر سکتا۔ وه جانتے بوجھتے کبھی بھی اپنی بیٹی کی شادی کسی ایسے جاسوس سے نہیں کریں گے جس کی زندگی کا کوئی بھروسه نہیں ہو۔ جو ان کی بیٹی کے ساتھ نه رہے بلکه کسی دوسرے ملک میں کسی دوسرے نام کے ساتھ زندگی گزارے، جو وہاں مر بھی جاۓ تو مہینوں ان کی بیٹی کو پتا نه چلے کہ اس کی قبر کہاں ہے۔
اذیت سے کہتے ہوۓ وه کرسی پہ ذرا پیچھے کو ہوا۔ آنکھوں کے سامنے روح کو زخمی کر دینے والا منظر پھر سے لہرایا تھا۔
انطاکیہ کے قدیم شہر میں اس بڑے سے دالان کے فوارے کے ساتھ کھڑا گھوڑا اور اس کی کمر پہ اوندھے منہ لادا گیا وہ وجود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے سر جھٹکا۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ اصل وجہ نہیں ہے۔ تمہیں پته ہے تمہارا مسئله کیا ہے؟ قدرے خفگی سے کہتی وه باہم ملی مٹھیاں میز پہ ٹکاتے ہوۓ آگے ہوئی۔ تم اپنے ماموؤں سے ڈرتے ہو۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بے زاری سے ہاتھ جھلا کر وه دوسری طرف دیکھنے لگا۔
ایسی ہی بات ہے، تم ابھی تک اپنے احساس کمتری سے چھٹکارا نہیں پا سکے که وه تمہیں تمہارے ابا کا طعنه دیں گے اور تم ان کے سامنے سر نہیں اٹھا سکو گے۔ کم آن جہان! اب اس چیز سے باہر نکل آؤ۔جہان نے جواب نہیں دیا۔ وه ذرا سی گردن موڑے دائیں جانب دیکھتا رہا۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کبھی کبھی تم پہ۔ اتنا قابل آفیسر، اتنا شاندار ٹریک ریکارڈ، ایجنسی کے بہترین ایجنٹس میں سے ایک۔ پھر بھی تم اپنے اندر کے احساس کمتری سے نہیں لڑ سکے۔ تم اپنے ابا کے کسی جرم میں شریک نہیں رہے ہو جہان!
جہان اس کی بات نہیں سن رہا تھا، وہ اس کی طرف متوجه نہیں تھا، وه کہیں اور دیکھ رہا تھا۔ ثانیه نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا۔
لابی کے دوسرے کونے میں صوفے پہ دو لڑکیاں بیٹھ رہی تھیں۔ ایک نیلے لباس میں تھی اور دوسری سیاه میں۔ سیاه لباس والی دراز قد لڑکی جس نے سیاه لمبے بال دائیں کندھے کی طرف آگے کو ڈالے ہوۓ تھے، کافی خوبصورت تھی۔ صوفے پہ بیٹھتے ہوۓ اس نے دوسری لڑکی کے ہاتھ سے کینڈی لے کر منه میں رکھی۔ دوسری لڑکی ساتھ ہی کچھ کہے جارہی تھی
******
دوسری لڑکی ساتھ ہی کچھ کہے جا رہی تھی۔
جہان! ثانیه نے اسے پکارا۔ وہ ذرا چونک کر اس کی طرف متوجه ہوا۔ کیوں دیکھ رہے ہو ایسے؟ یہ پاکستان ہے۔ وه خجل ہوا، نه شرمنده، بلکه دوباره ان دو لڑکیوں کو دیکھا۔ 
ثانیہ! یہ بلیک کپڑوں والی میری بیوی ہے۔
اوه اچھا! ثانیه تجربے اور ذہنی پختگی کے اس درجے پہ تھی کہ بنا چونکے اثبات میں سر ہلایا۔
ہوں! اچھی ہے۔ تم نے بلایا ہے اسے؟
نہیں! میں تو خود اسے دیکھ کر حیران ہو رہا ہوں۔ اس نے لاعلمی سے شانے اچکاۓ۔
آر یو شیور یہ وہی ہے۔ 
ہاں! میں نے اس کی پکچرز دیکھ رکھی ہیں۔ ثانیہ نے اب کے ذرا احتیاط سے گردن پھیر کر اسے دیکھا۔ سیاہ لباس والی کو جیسے مرچیں لگی تھیں۔ کینڈی غالبا مرچوں والی تھی۔ اس کی آنکھوں میں پانی آ گیا تھا اور ناک سرخ پڑ گئی تھی۔ وہ جیسے خفگی سے ساتھ والی کو ڈانٹنے لگی جو ہنس رہی تھی۔
کیا وہ تمہیں پہچان لے لگی۔ 
معلوم نہیں۔ میں تصویروں کے معاملے میں احتیاط برتتا ہوں، سو شاید نہیں! وہ بہت غور سے دور بیٹھی لڑکی کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
اتنی نزاکت؟ اسے مایوسی ہوئی تھی۔
یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟ وہ جیسے خود سے بولا۔
پتا کروں؟ ثانیہ کی بات پہ اس نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔ وہ اٹھ گئی۔ اسی وقت سیاہ لباس والی لڑکی کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھتی اٹھی تھی۔ انہیں شاید کہیں پہنچنا تھا۔
یہ کہاں پڑھتی ہے؟ ثانیہ نے جاتے ہوۓ پوچھا۔
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، شریعہ اینڈ لاء، ساتواں سمسٹر! ممی کی دی ہوئی معلومات اس نے جوں کی توں دہرا دی۔ اور اس کا نام حیا سلمان ہے۔
ثانیہ سر ہلا کر آگے بڑھ گئی۔ وہ دونوں لڑکیاں اب لابی پار کر رہی تھیں۔ ثانیہ سیدھی ان کے پاس نہیں گئی، بلکہ پہلے اس نے قریب بنے کیفے کی طرف جاتے راستے پہ تیز تیز چلتے ایک ویٹر کو روکا اور اس سے ٹرے لی جس میں کافی کے چار کپ رکھے تھے۔ وہ یقینا عملے سے واقف تھی، سو ویٹر سر ہلا کر آگے چلا گیا۔ ثانیہ ٹرے اٹھاۓ ان دو لڑکیوں کی طرف بڑھ گئی، جو اب لابی کے آخری سرے تک پہنچ چکی تھیں۔
اس نے کچھ کہہ کر انہیں روکا۔ وہ دونوں پلٹی تھیں۔ اتنی دور سے وہ ان کی گفتگو نہیں سن سکتا تھا مگر ان کے تاثرات بخوبی دیکھ رہا تھا۔ ثانیہ نے ٹرے اسی لیے پکڑ رکھی تھی تا کہ وہ یہ تاثر دے سکے کہ وہ لابی کے قریب ہی کیفے (جس میں سیلف سروس موجود تھی) سے اٹھ کر آئی ہے، (اس کیفے کی انٹرنس پہ اگر آپ موجود ہوں تو لابی وہاں سے صاف نظر آتی ہے)، اور ان سے بات کر کے وہ فورا سیدھی جہان کی طرف آنے کی بجاۓ اندر کیفے میں چلی گئی تاکہ وہ لڑکیاں اس طرف نہ دیکھ پائیں جہاں وہ بیٹھا تھا.
سیاہ لباس والی لڑکی اچنبھے سے نفی میں سر ہلاتی کچھ کہہ رہی تھی۔ ان سے کافی فاصلے پہ بیٹھا وہ انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔ دفتعا اسے احساس ہوا کہ وہ اکیلا نہیں ہے بلکہ دوسرے بہت سے لوگ بھی جو آس پاس سے گزر رہے تھے، گردن موڑ کر ایک دفعہ اس پہ نگاہ ضرور ڈالتے تھے۔ اس نے قدرے بے چینی سے پہلو بدلا۔
اسے کیا برا لگا تھا، وہ فیصلہ نہ کر سکا۔
چیریٹی لنچ ہے کوئی، اسی لیے آئی ہے۔ ثانیہ ان کو بھیجنے کے بعد کیفے چلی گئی تھی اور اب جبکہ وہ لڑکیاں اندر جا چکی تھیں، وہ واپس آئی اور صوفے پہ بیٹھتے ہوۓ بتانے لگی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
غیر معمولی سیکیورٹی کی وجہ اس کی سمجھ میں آ گئی تھی۔
کیا بات ہوئی؟ وہ سرسری سے انداز میں پوچھنے لگا۔
بس وہی پرانا حربہ کہ آپ کو میں نے اصول الدین ڈپارٹمنٹ میں دیکھا تھا اور متوقع طور پہ اس نے مجھے نہیں پہچانا، پھر میں نے پوچھ لیا کہ ادھر کس لیے آئی ہیں وہ، سو اس نے بتا دیا۔ وہ خاموشی سے بیٹھا رہا۔ کچھ اسے بہت برا لگا تھا۔
پھر جاؤ گے آج اس کے گھر؟
ہاں! جاؤں گا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا مگر وہ اچھا نہیں محسوس کر رہا تھا۔ اس عجیب سے اتفاق نے ایک دم بہت کچھ بدل دیا تھا۔ خالی ہاتھ مت جانا۔ کچھ لے کر جانا۔
میں ترکی سے ان کے لیے کچھ نہیں لایا۔ خالی ہاتھ ہی جاؤں گا۔
اچھا! پھر کچھ خرید کر لے جانا، اچھا امپریشن پڑے گا۔ چلو! چل کر کچھ کھاتے ہیں۔ وہ جیسے جان گئی تھی کہ اس کا موڈ اچھا نہیں ہے، سو اٹھتے ہوۓ بولی۔ وہ خاموشی سے اٹھ کھڑا ہوا اور میز پہ رکھا سیاہ پاؤچ اٹھا کر جیکٹ کی جیب میں ڈال لیا۔
تم اپ سیٹ لگ رہے ہو۔ نہیں، بالکل نہیں۔ وہ زبردستی مسکرایا۔ تم سناؤ کب تک تمہارا منگیتر دوبارہ مجھ جتنا ہینڈسم ہو جائے گا؟۔
چند سیشن مزید لگیں گے، برن کافی زیادہ تھا۔ بات کا رخ بدلنے پہ ثانیہ اسے حماد کے بارے میں بتانے لگی۔ کچھ عرصہ قبل ایک حادثے میں اس کا چہرا قدرے مسخ ہو گیا تھا، البتہ سرجری سے وہ بہتر ہو رہا تھا۔ وہ بے توجہی سے سنتا گیا۔ اس کا ذہن وہیں پیچھے تھا۔
پھر جب ثانیہ چلی گئی تو وہ باہر آ گیا۔ اسلام باد کی ٹھنڈی سرمئی سڑک کے کنارے چلتے ہوئے اس کے دل و دماغ میں ثانیہ کی باتیں مسلسل گونج رہی تھیں۔
اس چیز سے باہر نکل آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اپنے ابا کے کسی جرم میں شریک نہیں رہے ہو جہان! اس چیز سے باہر نکل آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اذیت کی ایک شدید لہر اس کے اندر اٹھی۔ آنکھوں کے سامنے ہ زخمی کر دینے والا منظر پھر سے لہرایا۔ ثانیہ غلط تھی۔ ایک جرم میں وہ اپنے باپ کے ساتھ کسی حد تک شریک رہا تھا۔
***
بچپن کی یادیں اس کے ذہن میں بہت ٹوٹی پھوٹی، بکھری، مدہم مدہم سی تھیں۔ باسفورس کا نیلا سمندر، سمندری بگلے، جہانگیر میں واقع ان کا گھر اور دادا۔ یہ وہ سب تھے جو بچپن میں اس کے ساتھ تھے۔ دادا ابا کا ساتھ ان میں سب سے زیادہ اثر انگیز تھا۔
وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتی اولاد تھا۔ شادی کے ساتویں برس ملنے والی پہلی اور آخری اولاد۔ احمد شاہ کا اکلوتا پوتا۔
دادا کاروبار کے سلسلے میں ترکی آیا کرتے تھے۔ وہ فوج سے میجر ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ وقت سے قبل ان کی ریٹائرمنٹ کی وجہ ان کی خرابئ صحت تھی۔ فوج سے باعزت طور پہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو گئے اور تب ہی وہ ترکی آئے اور پھر آتے جاتے رہے۔ ترکی میں ان کا علاج، جو پاکستان میں ممکن نہ تھا، قدرے سستا ہوتا رہا۔
جب ابا کا تبادلہ ترکی ہوا تو ممی بھی ساتھ آئیں۔ دادا نے تب ہی چند پیسے جوڑ کر جہانگیر (Cihangir) کے علاقے میں زمین خریدی۔ وہ خوش قسمتی کا دور تھا۔ ابا نے بعد میں اس جگہ گھر بنوانا شروع کیا۔ وہ تب ہی پیدا ہوا تھا۔ دادا کی گویا آدھی بیماری ہی دور ہو گئی۔ وہ تب بہت خوش رہا کرتے تھے۔ باقی بچی آدھی بیماری کے بہترین علاج کی سہولتوں کے باعث استنبول نہ چھوڑ سکے۔ اس وقت سلطنت ترکیہ اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی۔ ابھی پاپا کی حکومت آنے میں کافی دہائیاں پڑی تھیں۔ پاپا یعنی(طیب اردگان) مگر ترکی تب بھی بہت خوبصورت تھا۔
ابا واپس چلے گئے تھے مگر ممی، دادا اور وہ ادھر ہی رہے۔ دادا بگڑتی صحت کے باعث کاروبار میں بہت زیادہ فائدہ حاصل نہ کر سکے، سو گھر کے حالات قدرے خراب ہوتے گئے۔ کچھ عرصہ قبل کی خوشحالی روٹھ گئی۔ ابا کی تنخواہ پر گزارا کرنا تو ناممکن سی بات لگتی تھی۔ تب ہی اس نے ممی کو کام تلاش کرتے اور پھر نوکری کرتے دیکھا۔ تب وہ بہت چھوٹا تھا، وہ عمر جس میں محنت اور مشقت کے معنی سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں۔
ممی ایک فیکٹری میں معمولی ملازمت کرنے لگی تھیں۔ پتہ نہیں وہ کیا کام کرتی تھیں مگر ملک کے برے حالات کے باعث وہ نوکری ان کی تعلیمی قابلیت سے کم ہی تھی۔ گھر سے جیسے قسمت ہی روٹھ گئی تھی۔
دادا ابا کو کاروبار میں شدید گھاٹا ہوا اور ناسازی صحت کے باعث ان کا کام کرنا نہ کرنا برابر ہو گیا، مگر وہ کام پھر بھی کرتے تھے۔ وہ محنت کرنے والے، مضبوط ہاتھوں والے اور مشقت کرنے والے آدمی تھے۔ بظاہر رعب دار لگتے، مگر بات کرنے پر اتنے ہی مہربان اور شفیق۔ جہان کو وہ کبھی بیمار نہیں لگتے تھے۔ روز صبح وہ اسے ساتھ لے کر واک پر جایا کرتے تھے۔ وہ تھک جاتا، دادا نہیں تھکتے تھے۔ وہ بہت مضبوط، بہت بہادر انسان تھے۔ وہ اس کے آئیڈیل تھے۔ اس کے ہیرو۔
برا وقت کم نہیں ہوا، بڑھتا گیا تو ایک روز اس نے دادا کو افسردہ دیکھا۔ جہانگیر والا گھر جو انہوں نے بہت چاہ سے بنوایا تھا، انہیں بیچنا پڑا رہا تھا۔
دادا! ہم وہ گھر کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ جب وہ واک کے لیے باہر نکلے، تو ان کا ہاتھ پکڑ کر چلتے ہوئے اس نے گردن اٹھا کر ان کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ انہوں نے بہت ملال سے اسے دیکھا مگر بولے تو آواز مضبوط تھی۔

یہ گھر بہت بڑا ہے، ہماری ضرورت سے بھی زیادہ۔ اس کو بیچ کر ہم کوئی چھوٹا گھر لے لیں گے۔
کیا ہم نیا گھر خریدیں گے؟
نہیں بیٹا! ہم ابھی اس کے متحمل نہیں ہیں مگر تم یہ بات اپنی ماں سے مت کرنا۔ تم تو جانتے ہو، یہ جان کر وہ غمگین ہو گی۔ کیا تم کو راز رکھنے آتے ہیں میرے بیٹے؟ اس نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔
جی دادا! مجھے راز رکھنے آتے ہیں۔
پھر انہوں نے جہانگیر چھوڑ دیا اور سمندر کنارے ایک درے خستہ حال جگہ پر آ بسے۔ یہاں ان کا گھر چھوٹا اور پہلے سے کمتر تھا۔ کرائے کا گھر۔ تب اس کے قریب پھیلا ساحل سمندر آج کی طرح خوبصورت پختہ فٹ پاتھ سے مزین نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہاں پتھروں کا کچا پکا سا ساحل تھا۔ بگلے ہر وقت وہاں پھڑپھڑاتے ہوئے اڑا کرتے۔ دادا کہتے تھے۔
استنبول مسجدوں کا شہر ہے، لیکن جہان کو وہ ہمیشہ بگلوں کا شہر لگتا تھا۔ اپنے گھر کی بالکونی سے وہ ان بگلوں کو اکثر دیکھا کرتا تھا۔ شام میں وہاں بیٹھ کر وہ ان کو یوں شمار کرتا جیسے لوگ تارے شمار کرتے تھے۔ وہ تھک جاتا، مگر بگلے ختم نہ ہوتے۔
وہ اب بھی صبح دادا کے ساتھ باسفورس کنارے واک پہ جایا کرتا تھا۔ وہ اپنی بیماری کے باوجود بہت تیز تیز چلا کرتے، جہان بگلوں کے لیے روٹی کا ٹکڑا پکڑے ان کی رفتا سے ملنے کی کوشش میں لگا رہتا مگر وہ ہمیشہ آگے نکل جاتے، پھر رک جاتے اور تب تک نہ چلتے جب تک وہ ان کے ساتھ نہ آ ملتا۔
آپ رکتے کیوں ہے؟ وہ تنک کر پوچھتا۔ 
میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا مجھ سے آگے نکلے، پیچھے نہ رہے۔ وہ اسے ہمیشہ ”میرا بیٹا“ کہتے تھے۔

جاری ھے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.