Ads Top


جنت کے پتے
از

 نمرہ احمد




ناول جنت کے پتے
قسط  24


اور دوسرے میں ، میں اللہ تعالٰی کو اچھی لگتی ھوں میری پسند کا پلڑا کبھی نہیں جھکتا ۔ اللہ کی پسند کا پلڑا کبھی نہیں اٹھتا ۔ تم نے پوچھا تھا کہ میں اسکارف کیوں لیتی ھوں ؟ سو میں یہ اس لیے کرتی ھوں کیونکہ میں اللہ کو ایسے اچھی لگتی ھوں . وہ اب چھرے کی نوک سے لکڑی کے کنارے خم ڈال رہی تھی ۔ لڑکیاں سمندر کی ریت کی مانند ھوتی ہیں حیا ! عیاں پڑی ریت اگر ساحل پہ ھو تو قدموں میں روندی جاتی ھے ۔ اور اگر سمندر کی تہہ میں ھو تو کیچڑ بن جاتی ھے لیکن اسی ریت کا وہ ذرہ جو خود کو ایک مضبوط سیپ میں ڈھک لے ، وہ موتی بن جاتا ھے جوہری اس ایک موتی کے لیے کتنے ہی سیپ چنتا ھے اور پھر اس موتی کو مخملیں ڈبے میں بند کر کے محفوظ تجوریوں میں رکھ دیتا ھے دکان کا کوئی جوہری اپنی دکان کے شوکیس میں اصلی جیولری نہیں رکھتا مگر ریت کے ذرے کے لیے موتی بننا آسان نہیں ھوتا وہ ڈوبے بغیر سیپ کو کبھی پا نہیں سکتا ۔
حیا اب اسے نہیں دیکھ رہی تھی وہ سر جھکائے ریگ مال لکڑی کے ٹکڑے پہ رگڑ رہی تھی لکڑی کی گھنگھریالی پتریاں اتر اتر کر نیچے گر رہی تھیں اس کے اندر بھی کچھ ایسا ہی چٹک رہا تھا ۔ کیا ؟ وہ سمجھ نہیں پاتی تھی اور کبھی کبھی اسے لگتا وہ کبھی سمجھ بھی نہیں سکے گی ۔
کبرٰی بہلول کے گھر دھان کے کھیت میں کام کرتے ادا چائے کے پتے چنتےان کی مرغابیوں کو دانہ ڈالتے وہ اب ان سے چھوٹے چھوٹے بے ضرر سوال کثرت سے پوچھنے لگی تھی وہ عائشے کے بتائے گئے دو کو کبریٰ بہلول کے دو سے جمع کر کے دیکھتی تو جواب چار کی بجائے چا سو نکلتا اب اسے پھر سے عبدالرحمان پاشا کے فون کا انتظار تھا کب وہ فون کرے اور وہ اپنے پتے پھینکے کھیل پاشا نے شروع کیا تھا اسے ختم اب وہ کرے گی ۔
چند ہی روز میں اسے یہ موقع مل گیا فون کی گھنٹی بجی تو اس نے کارڈ لیس اٹھایا اور اوپر اسٹڈی میں آ گئی 
ہیلو ، اس نے بظاہر سادگی سے کہا 
دوسری جانب چند لمحوں کی خاموشی چھائی رہی ،
پھر اس کی بھاری کھردری آواز سنائی دی 
حیا بی بی ۔۔۔۔ کیسی ہیں آپ ؟؟؟
میں ٹھیک ھوں آپ سنائیے 
جی الحمد اللہ ۔۔۔ آپ ۔۔ کیا کر رہی تھیں ؟؟ وہ محتاط لہجے میں پوچھ رہا تھا جیسے اس کا فون اٹھانے کا مقصد نہ سمجھ ھو ۔
میں ایک کہانی لکھ رہی تھی ، کہیں تو سناؤں ؟؟
اب کی بار دوسری جانب متذبذب خاموشی چھائی رہی ، پھر وہ گہری سانس لے کر بولا ۔ جی سنا دیجیے 
تین سال پہلے کی بات ھے ، انڈیا کا اک عام سا اسمگلر اپنی ماں اور بھائی کے پاس بیوک ادا آتا ھے اس کا بھائی ادا میں ایک بہت کامیاب ہوٹل چلا رہا ھوتا ھے نووارد بھائی اس کے ساتھ ھوٹل کے کاموں میں دلچسپی لینا شروع کر دیتا ھے ۔ بظاہر اسے اپنے بھائی کا بہت خیال ھے مگر آہستہ آہستہ وہ ھوٹل پر قبضہ کرنے لگتا ھے وہ اپنے بھائی کے تعلقات استعمال کر کے اپنے تعلقات وسیع کرتا ھے مافیا کے ساتھ روابط بڑھاتا ھے اور تو اور اس کی ایک عالمی دہشت گرد تنظیم سے بھی روابط ہیں پھر آج سے ٹھیک دو سال پہلے وہ اپنے بھائی کو یوں ہراساں کرتا ھے کہ کہ ایک روز بیچارہ بھائی چپ چاپ ھوٹل چھوڑ کر چلا جاتا ھے لوگوں کو یہ کہا جاتا ھے کہ وہ یونان میں ھے لیکن وہ درحقیقت کہاں ھے یہ اس بڑے بھائی سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور اس سے باز پرس کرنے والا کوئی ھے بھی نہیں سوائے ایک بوڑھی عورت اور دق معصوم لڑکیوں کے یوں وہ عام سا اسمگلر استنبول کے بارسوخ ترین افراد میں شامل ھو جاتا ھے ۔ اب بتایے کیسی لگی کہانی ؟ کہتے ہیں تو پبلیشگ کے لیے دے دوں ؟ 
اس نے بہت معصومیت سے پوچھا تھا ۔
میں اس ساری بکواس سے کیا مطلب لوں ؟ 
یہی کہ میرے بارے میں ذرا احتیاط سے کام لیجیے گا ورنہ پیر کے نیچے دباؤ تو چیونٹی بھی کاٹ لیتی ھے 
بہت احسان فراموش لڑکی ھو تمہیں بھول گیا ھے کہ اس رات تمہیں اس بحری جہاز سے نیم مردہ حالت میں تمہیں کون ادھر لایا تھا؟
لمحے بھر کو وہ بلکل چپ رہ گئی 
میں پرسوں بیوک ادا واپس آرہا ھوں تم نے جب تک ادھر رہنا ھے تم رھو میں ادھر نہیں آؤں گا ۔ اور نہ ہی تمہارے راستے میں آؤں گا ، سو تم بھی میرے راستے میں آنے کی کوشش مت کرنا ، دھمکی آمیز لہجہ اس بات کا غماز تھا کہ اس نے وہیں ہاتھ رکھا تھا ، جہاں سب اے ذیادہ درد ھوتا ھے ۔
میں نے کیا کرنا ھے اور کیا نہیں اس کا فیصلہ ابھی نہیں کیا میں نے ،، اس نے محظوظ سے انداز میں کہہ کر فون رکھ دیا ۔
اس نے میجر احمد کا شکریہ ادا کیا جس نے اسے دوسری نہج پر سوچنا سکھایا تھا ۔
اور کیا قربان کر سکتی ھو تم اپنا فاصلہ گھٹانے کے لیے ؟؟
رات سونے س قبل یہ آخری بات تھی جو عائشے نے اس سے پوچھی تھی اس نے نیند میں ڈوبی آنکھیں کھول کر سوالیہ نگاھوں سے عائشے کو دیکھا بولی کچھ نہیں ۔۔
میں بتاؤں ؟ تم اپنی نیند قربان کرنا سیکھ لو وہ کہہ کر لیٹ گئ تو حیا نے بوجھل ھوتی آنکھیں بند کر لیں 
صبح فجر کی ازان کے ساتھ ہی بہارے اس کا کندھا جھنجوڑ جھنجوڑ کر اسے اٹھا رہی تھی 
اٹھ جاؤ عائشے نے کہا ھے آج سے تم بھی ہمارے ساتھ قرآن پڑھنے جاؤ گی 
میں ؟؟؟ اس نے کسلمندی سے آنکھیں ذرا کھولیں مجھے نیند آرہی ھے 
نہیں نہیں اب تو تمہیں بھی جانا پڑے گا 
یہ ٹارچر تم تم بھی سہو ناں ۔
میں اکیلے کیوں برداشت کروں ؟ اب اٹھ جاؤ 
دم کٹی لومڑی دوسرے کی دم پھندے میں پھنستے دیکھ کے بہت خوشی سے اچھلتی کودتی تیاد ھو رہی تھی ۔ حیا بدقت تمام کمبل اتار کر اٹھی اسے اور ڈی جے کو صبح خیزی کی عادت تو تھی مگر ان کی صبح فجر قضا ھونے کے بعد ھوتی تھی اور پھر بھاگم بھاگ کیمپس کی تیاری اس نے اپنا لیموں کے رنگ کا زرد فراک پہنا جو ایک دفعہ جہان کے گھر پہن کہ گئی تھی اور گیلے بال کھلے چھوڑ کر سنگھار میز کے سامنے آ کھڑی ھوئی ابھی اس نے پرفیوم کی شیشی اٹھائی ہی تھی بہارے عقب میں زور سے چیخی 
یہ کیا کر رہی ھو ؟؟
کیا ؟؟ وہ اس کے اچانک چلانے پہ ڈر کر پلٹی ۔ تم باہر جانے سے پہلے پرفیوم لگا رہی ھو ؟ بہارے نے بے یقینی سے پوری آنکھیں کھول کہ اسے دیکھا ۔ 
آ ہاں کیا ھوا ؟ عائشے گل کہتی ھے اچھی لڑکیاں باہر جانے سے پہلے اتنا تیز پرفیوم نہیں لگاتیں ۔ تم یہ باڈی اسپرے لگا لو مگر پرفیوم نہیں ۔ اللہ تعالٰی ناراض ھوتا ھے وہ بہت خفگی سے ڈانتی ھوئی حیا کے ساتھ آ کھڑی ھوئی اور پھر ایڑیاں اونچی اٹھا کر خود کو آئینے میں دیکھتی اسکارف لپیٹنے لگی ۔ حیا نے ایک ہاتھ میں پکڑے پرفیوم کو دیکھا اور پھر زرا سا خفت سے اسے 
رکھ کہ باڈی مسٹ اٹھا لیا 
حلیمہ آنٹی کے لان میں چاندنی بچھی تھی وہ مرکزی جگہ پر بیٹھی تھیں ۔ اور سارے چھوٹے بڑے بچے ان کے گرد نیم دائرے کی صورت بیٹھے تھے ۔ وہ تینوں جس وقت داخل ھوئیں ایک جگہ سے بچوں نے فورًا جگہ چھوڑ کر دائرہ بڑا کر دیا ۔ حلیمہ آنٹی نے ایک نرم مسکراہٹ ان کی طرف اچھال کر سر کو جنبش دی وہ تینوں ساتھ ساتھ بیٹھ گئیں
میں پناہ مانگتا ھوں اللہ کے دھتکارے ھوئے شیطان سے ۔ اللہ کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان اور باربار رحم کرنے والا ھے ۔ قرآت کرنے والا بچہ سنہرے بالوں والا ترک تھا 
جس نے سر پر جالی دار ٹوپی لے رکھی تھی ۔ باقی بچے خاموش تھے وہ اپنی باریک مدھر آواز میں پڑھ رہا تھا ۔ آپ ایمان لانے والی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھیں ۔ اور اپنے قابلِ ستر اعضا کی حفاظت کیا کریں ۔ وہ جو جماہی روک رہی تھی ایک دم گڑبڑا کر سیدھی ھو بیٹھی ۔ 
اور وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ھو جائے ۔ 
کمسن بچے کی آواز نے سارے ماحول کو اپی لپیٹ میں لے رکھا تھا ہر سو ایک سحر سا طاری ھو رہا تھا ۔ حیا نے بے اختیار سر پہ اوڑھے دوپٹے سے اپنے کان ڈھکے جن میں اس نے موتی والی بالیاں پہن رکھی تھیں ۔ وہی موتی جو جہان کے سیپ سے نکلے تھے بہارے نے اسے ایک ایک موتی دونوں بالیوں میں پرو دیا تھا ۔ تیسرا موتی حیا نے سنبھال رکھا تھا اور انہیں چاہیے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پہ ڈالے رکھا کریں ۔ کسی معمول کی سی کیفیت سے اس نے گردن جھکا کر دیکھا ۔ اس کا شیفون کا دوپٹہ اس کے سر پر تو تھا لیکن اس کی گردن پہ اس نے مفلر کی طرح لپیٹ رکھا تھا قدرے خفت سے اس نے دوپٹہ کھول کر شانوں پر ٹھیک سے پھیلا کر لپیٹا اس وقت سوائے حکم ماننے کے اسے کوئی چارہ نظر نہیں آیا تھا ۔ یہ حکم بہت اوپر آسمانوں سے آیا تھا وہاں سے جہاں انکار نہیں سنا جاتا تھا جہاں صرف سر جھکایا جاتا تھا 
ترک بچہ اپنا سبق ختم کر چکا تھا حلیمہ آنٹی نے بہارے کو اشارہ کیا تھا ۔ وہ اپنا قرآن سامنے کیے تعوذ پڑھ کے اپنا سبق سنانے لگی 
اللہ نور ھے آسمان کا اور زمین کا ۔
اس کے نور کی مثال ایک طاق کی طرح ھے جس میں چراغ ہیں ۔ 
چراغ فانوس میں ھے 
فانوس گویا ایک چمکتا ھوا تارہ ھے 
وہ ایک بابرکت درخت زیتون سے روشن کیا جاتا ھے ۔
نہ مشرقی ھے اور نہ مغربی ۔
قریب ھے کہ اس کا تیل روشن ھو جائے 
اور اگرچہ اسے آگ بھی نہ چھوئی ھو 
نور ھے اوپر نور کہ 
اللہ اپنے نور کی طرف راستہ دکھاتا ھے جسے وہ چاہتا ھے 
لان میں ایک دم بہت سی روشنی اتر آئی تھی ۔
جسیے چمکتا چاند پورے افق پہ چھا گیا ھو جیسے سونے کے پتنگے ہر سو آہستہ آہستہ نیچے گر رھے ھوں 
، جیسے نیلا آسمان سنہری قندیلوں سے جگمگا اٹھا ھو ۔ وہ اس طلسم میں گھری سحر زدہ سی ھوئی سنے جا رہی تھی 
بہارے پڑھ رہی تھی 
اور وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا 
ان کے اعمال ایک چٹیل میدان میں سراب کی مانند ہیں 
پیاسا اس کو پانی سمجھتا ھے 
حتٰی کہ جب وہ اس کے قریب جاتا ھے تو اس کو کچھ نہیں پاتا 
اور وہ وہاں اللہ کو پاتا ھے 
پھر اللہ اس کو اس کا پورا پورا حساب دیتا ھے اور
اللہ جلد حساب لینے والا ھے 
نیلا آسمان ان دیکھی مشعلوں سے روشن تھا 
چاندی کی مشعلیں وہاں روشن نہیں تھیں 
مگر وہاں روشنی تھی نور تھا اوپر نور کے۔۔۔ یا ان کی مثال سمندر کے گہرے اندھیروں کی مانند ھے 
پھر اسے ایک لہر ڈھانپ لیتی ھے اس کے اوپر ایک اور لہر اس کے اوپر بادل 
ان میں سے بعض کے اوپر بعض اندھیرے ہیں اتنا اندھیرا کہ جب وہ شخص اپنا ہاتھ نکالتا ھے تو اسے بھی نہیں دیکھ پاتا
تو نہیں ھے اس کے لیے کوئی نور 
بہارے اپنا سبق ختم کر چکی تھی دور مرمرا کی لہریں کناروں پر سر پٹخ پٹخ کر پلٹ رہی تھیں واپس اپنے اندھیروں میں ۔ کلاس کا وقت ختم ھوا تو سحر ٹوٹا ۔ قندیلیں غائب ھو گئیں ۔ صبح کی روشنی میں آسمان کے چراغ چھپ گئے بچے اٹھ اٹھ کر جانے لگے حلیمہ آنٹی اب ان کی طرف ہی آ رہی تھیں مگر وہ اپنی جگہ سن سی بیٹھی کہیں بہت اندر گم تھی اپنی ذات کے اندھیروں میں ۔ اندھیری لہر کے اوپر ایک اور لہر اور اس کے اوپر غم کے بادل ۔ اتنا اندھیرا کے مشکلوں کا سرا سمجھائی نہ دیتا تھا اور جس کا نہیں بنایا اللہ نے کوئی نہیں تو نہیں ھے اس کے لیے کوئی نور 
وہ بالکل چپ سی اپنی جگہ پر اسی طرح بیٹھی تھی 
ھوٹل گرینڈ بیوک ادا کے ایک نسبتاً ویران ساحل کے قریب واقع تھا جزیرے کے بازار کے رش اور سیاحوں کے شور و ہنگامے سے دور وہ ایک بہت پر سکون سی جگہ تھی ہوٹل کی بلند و بالا عمارت کی کھڑکیوں سے سمندر بالکل سامنے دکھائی دے رھا تھا وہ ادا کا سب سے بڑا اور سب سے مہنگا ھوٹل تھا 
دیمت فردوس پچھلے ساڑھے تین سال سے ھوٹل کے مالک کی پرسنل سیکریٹری تھی اس کا عہدہ ساڑھے تین برس میں وہی رھا تھا ۔ البتہ اس کا باس ایک دفعہ ضرور بدلا تھا ۔ جب وہ تازہ تازہ ازمیر ( ترکی کا شہر ) چھوڑ کے استنبول آئی تھی اور کئی جگہ نوکری کے لیے دھکے کھانے کے بعد اسے استنبول اے دور اس جزیرے پہ یہ جاب ملی تھی۔ تب دیمت کا باس عبدالرحمان پاشا نہیں تھا ۔ اس وقت وہ اس کے چھوٹے بھائی کی سیکریٹری تھی مگر ان پچھلے تین برسوں میں بہت کچھ بدلا تھا ۔ اس نرم سی صبح میں اپنے ڈیسک کی کرسی سنبھالتے پرس اتار کر میز پر رکھتے ھوئے بھی وہ یہ ہی سوچ رہی تھی کہ ھوٹل گرینڈ اب بہت بدل گیا تھا اس کا پچھلا باس بہت خوش خلق اور سادہ لوح سا آدمی تھا ایسا آدمی جس میں کوئی بناوٹ نہیں ھوتی ۔ وہ ہوٹل کا مالک ہونے کے باوجود اکثر نیچے ریسٹورنٹ کے کچن میں کام کرتا پایا جاتا تھا ۔ اس کے عام سے حلیے کو دیکھ کے کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ شخص بیوک ادا کے رئیسوں میں سے ھے ۔ پھر وقت بدلتا گیا دیمت عبدالرحمان پاشا کو پہلے کبھی کبھار اور پھر اکثر ہوٹل میں اپنے بھائی کے ساتھ آتے دیکھتی رہی ۔یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ہوٹل کا کنٹرول اور وہ آفس عبدالرحمان کی دسترس میں چلا گیا عبدالرحمان نے کیسے سب کچھ اپنے قابو میں کیا کہ کوئی چوں بھی نہ کر سکا اور اس کا بھائی کہاں چلا گیا وہ کبھی نہیں جان سکی وہ اس کی سیکریٹری ہونے کر بھی اپنے اور اس کے درمیان موجود فاصلے کو کبھی نہیں پاٹ سکی تھی ۔ اسے عبدالرحمان کے سوائے چھوٹے موٹے دفتری کاموں کے علاوہ کچھ بھی کرنے کو نہیں دیا جاتا تھا ۔ کبھی کبھی دیمت کو شک گزرتا کہ اے آر پی نے اپنی کوئی اور سیکریٹری رکھی ہوئی ھو گی جو اس کے معمولات سے باخبر ھو گی ورنہ اس کے پاور آفس میں کیا ھوتا ھے وہ اس سے قطعاً بے خبر تھی ۔ یہ الگ بات ھے کہ پچھلے چند ماہ میں اس نے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہوٹل گرینڈ میں کچھ اور بھی ہو رہا ھے کچھ ایسا جو غلط تھا کچھ ایسا جو ایک ذمے دار شہری ہونے کے ناطے اسے کبھی ہونے نہیں دینا چاہیے تھا ۔ مگر کیا۔۔۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھی اور کھوج لگانے کی ہمت اس میں نہیں تھی ۔ اپنی دراز سے ایک فائل نکالتے ہوئے اس نے یونہی ایک سرسری سی نگاہ سامنے۔۔۔۔۔ اس بند دروازے پر ڈالی جس پر اے آر پی کی تختی لگی تھی ۔ وہ ٹھٹھک کر رک گئ
دروازے کی نچلی درز سے روشنی جھانک رہی تھی کیا اے آر پی واپس آ گیا ھے ؟؟ اسے پتا ہی نہیں چلا وہ خوشگوار حیرت میں گری جلدی جلدی اپنی چیزوں کو ترتیب دینے لگی دنیا چاہے جو بھی کہے وہ عبدالرحمان پاشا کی سب سے بڑی پرستار تھی اس نے زندگی میں کبھی اتنا سحر انگیز اور شان دار آدمی نہیں دیکھا تھا بات ہینڈسم ہونے یا نہ ہونے کی نہیں تھی بات اس وقار اور مقناطیسیت کی تھی ۔ جو اس آدمی کی شخصیت کا خاصا تھی ۔
اسی لمحے انٹر کام کی گھنٹی بجی ۔ اس نے جلدی سے فون اٹھایا ۔
یس سر ؟؟ 
دیمت ! برنگ میں اے کافی ! اپنے بھاری اور بارعب انداز میں کہہ کر اس نے فون رکھ دیا تھا ۔ وہ اپنا سارا کام چھوڑ کر نہایت مستعدی سے کافی تیار کرنے لگی اس کا باس تین ماہ بعد انڈیا سے لوٹا تھا ۔ وہ بہت خوش تھی کافی کی ٹرے اٹھائے اس نے دروازہ زرا سا بجا کر کھولا عبدالرحمان پاشا کا آفس نہایت شاندار اور پر تعیش انداز میں آراستہ کیا گیا تھا اپنی شیشے کی چمکتی سطح والی میز کے پیچھے ریوالونگ چئیر پہ ٹیک لگا کر بیٹھا ۔ وہ کھڑکی سے باہر پرسوچ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سگریٹ لبوں میں دبائے ہوئے تھا ہلکی ہلکی بڑھی شیو میں وہ پہلے سے زیادہ باوقار لگ رہا تھا دنیا کو وہ اچھا لگے یا برا دیمت کو اس جیسا کوئی نہیں لگتا تھا ۔ 
اس نے کافی میز پر رکھی ۔ السلام علیکم سر اینڈ ویلکم بیک ۔ وہ مسکرا کر اپنے باس کا خوش آمدید کہہ رہی تھی ۔
ہوں تھینکس ! عبدالرحمان نے ایک سرسری نگاہ اس پر ڈالی اور پھر آگے ہوتے ہوئے سگریٹ انگلیوں میں پکڑ کر ایش ٹرے میں جھٹکا ۔ وہاں راکھ کے بہت سے ٹکڑوں پر ایک اور ٹکڑا آن گرا ۔ پاشا کے متعلق ایک بات وہ جانتی تھی وہ اتنی بے تحاشا اسموکنگ شدید پریشانی اور تفکر کے عالم میں کرتا تھا ۔ 
سر آپ کچھ اور لیں گے ؟ وہ مؤدب کھڑی پوچھ رہی تھی ۔ 
میرے کوٹ پہ داغ لگ گیا ھے اسے صاف کر لاؤ ۔ اس نے میز کے دوسری جانب رکھی کرسی کے کندھوں پہ ڈالے کوٹ کی جانب اشارہ کیا ۔ خود وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کیے شرٹ کے کف کھولے بیٹھا تھا اس کا لباس بھی اس کی شخصیت کی طرح ہوتا تھا نفیس اور شاندار 
جی سر ! دیمت نے احتیاط سے کوٹ اٹھایا اور باہر نکل گئی تقریباً پندرہ منٹ کے بعد جب وہ سیاہی کا دھبہ صاف کر کے لائی تو پاشا کا آفس سگریٹوں کے دھوئیں اے بھرا تھا ۔ اس کی کافی جوں کی توں رکھی تھی البتہ ایش ٹرے میں راکھ کے ٹکڑے بڑھ چکے تھے ۔ 
سر! سب ٹھیک تو ہے ناں ؟؟ کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتی ھوں ؟ اس نے صرف پیشہ ورانہ تکلف میں نہیں بلکہ دلی تفکر کے باعث پوچھا اسے معلوم تھا کہ جواباً وہ اسے نو تھینکس کہہ کر واپس جانے کو کہے گا ۔ وہ اپنے معاملات کسی سے شئیر نہیں کرتا تھا ۔
ہوں ۔۔ بیٹھو ! اس نے کرسی کی طرف اشارہ کیا اس کے ہاتھ میں دو سونے کی قیمتی انگوٹھیاں تھیں جو وہ ہمیشہ پہنے رکھتا تھا ۔ دیمت حیرت چھپاتی بیٹھ گئی ۔ 
دیمت ! وہ سگریٹ کے کش لیتے کھڑکی کے باہر ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو دیکھتے ہوئے بولا تو اس کا لہجہ بے لچک اور سرد تھا ، کسی غیر ملکی کو ترکی سے واپس بھیجنا ھو تو کیا کیا جائے ( اتنی سی بات ؟؟ ) 
سر! کوئی غیر ملکی اگر ترکی میں رہ رہا ھو تو یقیناً کسی وجہ سے رہ رہا ھوتا ھے اسے جس چیز کی کشش ترکی میں نظر آ رہی ھو اس چیز کو ختم کر دینا چاہیے ۔ 
اور اگر وہ کشش کسی انسان کی ھو ؟؟ 
مثلاً ہسبینڈ کی تو ؟؟ تب اس کشش کو ختم کرنا چاہیے....
**********
اور وہ کیسے عبدالرحمن نے ذرا مسکرا کر اسے محفوظ انداز میں دیکھا۔
سر کوئی عورت اپنے شوہر کو صرف تب ہی چھوڑتی ہے۔جب اسے یہ لگتا کے اس کے شوہر نے اسے دھوکا دیا ہے۔ شدید بدگمان ہوئے بغیر عورت اپنے شوہر کو بھی نہیں چھوڑتی ۔
تمہارا مطلب ہے کہ کوئی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بہکائے انہوں نے ناگواریسے سر ذرا سا جھٹکا ۔ وہ کیوں کسی کی بات پہ یقین کرے گی۔
جی سر وہ کسی دوسرے کی بات پہ یقین نہیں کرے گی وہ صرف اپنے شوہر کی بات پہ یقین کرے گی ۔
اور کوئی شوہر اپنے دھوکے یا اپنی عمالیوں کی داستا اپنے منہ سے اپنی بیوی کو کیوں سنائے گا۔
میں نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ یہ سب اپنی بیوی کو کہے۔ آپ کے دایمت ذرا معنی خیزانداز میں مسکرائی تھی ۔ وہ یہ سب کسی اور سے کہے گا اور اگر ٹائمنگ صحیح رکھی جائے تو اس کی بیوی اس کے علم میں لاے بغیر اس کی باتیں سن لے گی۔ ایک معصوم سا اتفاق ۔ بات ختم کر کے دیمت نے ذرا سے شانے اچکائے۔
عبدالرحمن کی آنکھوں میں ایک چمک در آئی ۔ اس نے سگریٹ کا ٹکڑا الیش ٹرے میں پھینکا اور ذرا آ گے ہو کر بیٹھا ۔ مگر دیمت کوئی آدمی کسی دوسرے کہ بھی سامنے اپنے کسی ب
ممدعمل کا ذکر کیوں کرئے گا۔
میں نے کہاناسر ٹائمنگ صحیح رکھی جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ آدمی اپنے بدعمل کی داستان نہیں سنائے گا۔ وہ عمل کوئی بھی ہو سکتا ہے ۔ بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو کسی کو ہیرو بنا دیتے ہیں لیکن اگر سیاق و سباق بغیر پیش کیے جائیں تو وہ ہیرو کو ولن بنا دیتے ہیں ۔
عبدالرحمن پاشا کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی۔ اس کے چہرے پہ چھائی فکر غائب ہو رہی تھی ۔ دیمت جو کام میں پچھلے پانچ مہینوں میں نہیں کر سکا وہ تم نے پانچ منٹ میں کر کے دکھایا ہے۔ تھینک یو سو مچ ۔ وہ واقعہ اس کا بہت ممنون تھا۔ 
دیمت کا دل خوشی سے بھر گیا۔ وہ بہت مسرت ہے اٹھی تھی ۔ گوکہ اندر سے وہ جانتی تھی کے عبدالرحمن کسی بیوی کو اس کے شوہر سے بدظن کرنے کی کوشش کرہا ہے اور وہ یہ بھی جانتی تھی کے یہ غلط کام تھا مگر عبدالرحمن کا تشکر ہر شے پہ چھانے لگا ۔
تمہارا شوہر کیسا ہے جو ابھی تک وینٹ پہ ہے۔
جی سر کرسی سے اٹھتے ہوئے اس نے مغموم انداز میں بتایا۔ ایک حادثے کے بعد 
س کا شوہر کچھ عرصے سے وینٹی لیٹرپہ تھا اور یہ پورا ہوٹل گرینڈ جانتا تھا ۔
ایڈوانس سیلری چاہیے ہو تو بتا دینا۔
تھینک یو سر وہ پورے دل سے مسکرائی ۔ عبدالرحمن اسے لالچ دے رہا تھا۔ یہ اس کے مشورے کا انعام تھا۔ وہ بہت فرحت سے واپس جانے کے لیے مڑی تھی۔
تمہارا ہیئرا سٹا ئل اچھا ہے دیمت۔
عبدالرحمن نے اس کے عقب میں پکارا تھا۔ اس کے قدم ذنجیر ہو گئے۔ وہ بہت الجھن سے واپس آئی۔ عبدالرحمن اب ایک فائل اٹھا کر اس کے ورق گردانی کر رہا تھا ۔ وہ بظاہر اس کی طرف متوجہ نہ تھا مگر اس نے یہ بات کیوں کی پچھلے تین برسوں میں تو اسے کبھی دیمت کے بالوں کا خیال نہیں آیا تھا نہ ہی وہ عورتوں سے شغف رکھنے والا بندا تھا۔ پر اس نے یہ کیوں کہا۔
تھینک۔ تھینک یو سر وہ ذرا ئتبزب بولی۔
ویسے تمہارا پچھلے ہییئرا سٹائل بھی پیارا تھا۔ 
پچھلا اس نے بہت الجھ کر اپنے باس کو دیکھا۔ یہ کیا کہہ رہا تھا ۔ دیمت نے تو پچھلے تین برسوں میں سوائے کٹنگ کے دوسری کوئی کٹنگ نہیں کرائ
تھی۔ ہاں انتالیہ کے ساحل پہ تھا ۔ تم پہ گنگھریالے سرخ بال اچھے لگتے ہیں وہ فائل کی طرف متوجہ بہت سرسری انداز میں کہہ رہا تھا 
دیمت کے قدموں کے نیچے سے زمین سرک گئ۔ وہ پتھر کا بت بنی رہ گئی ۔ایک دم کمرے میں گٹھن بہت بڑھ گئ اسے سانس نہیں آ رہا تھا وہ بد قت تمام باہر نکلی اور اپنی کرسی پہ ڈھےسی گی۔ 
انتالیہ کا ساحل سرخ گنگھریالے سرخ بال چھ سال پہلے اس نے ایک ایکس ریٹ میگزین کے لیے ماڈلنگ کی تھی۔ وہ بدنام ذمانہ میگزین صرف انتالیہ میں چھپتا تھا اور وہاں سے باہر نہیں جایا کرتا تھا مگر تب اسے پیسے چاہیے تھے اور وہ نشے میں تھی ۔ بعد میں وہ شرمندہ تھی ۔ اس نے وہ شہر وہ جگہ سب کچھ چھوڑ دیا تھا اس کے خاندان اس کے دوستوں کبھی کسی کو اس میگزین کی ان چند کاپیز کا علم تک نہیں ہوا تھا ۔ وہ میگزین تو شاید اب ردی کا ڈھیر بن کر اس دنیا سے ہی غائب ہو گیا ہو۔تو پھر عبدالرحمن کو پاشا کو کیسے پتہ چلا ۔ 
سر دونوں ہاتھوں میں گرائے بیٹھی تھی ۔ اس کی بے لچک آواز کی دھمکی وہ سمجھتی تھی۔ اگر اس نے یہ گفتگو کسی کے سامنے دوہرائی تو وہ میگزین منظر عام پہ اجائے گااور اس کا گھر بچے زندگی سب تباہ ہو جائے گا۔ اس نے چہرے اٹھا کر بے بس متنفر نگاہوں سے اے آرپی کے آفس کے بند دروازے کو دیکھا ۔
بلیک میلر اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آمد آے تھے اسے آج علم ہوا تھا کہ عبدالرحمن پاشا نے کیسے ہر شے اپنے قابو میں کیا تھا۔
بند دروازے کہ اس پار وہ کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا جس میں وہ کوئی نمبر ڈھونڈ رہا تھا ایک نمبر پہ آکر اس کا ہاتھ تھم گیا وہ نمبر اس نے انگریزی میں محفوظ کر رکھا تھا ۔
اب اس نمبر پر ربط کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ اگر ہر ایک چیز ویسے ہوتی جائے جیسے وہ سوچ رہا تھا تو اس نے مسکرا کر اس نمبر کو دیکھا اور پھر اس کے نام پیغام لکھنے لگا۔
میں انڈیا سے واپس بیوک ادا آچکا ہوں ۔ کیا ہم مل سکتے ہیں ۔
پیغام جانے کے پورے ڈیڑھ منٹ بعد اس نمبر سے جواب آیا تھا ۔
جہنم میں جاو تم میں تمہاری شکل بھی نہیں دکھنا چاہتا ۔ 
وہ پیغام پڑھتے ہوے محفوظ سے انداز میں ہنس پرا پھر مسکرا کر سر جھٹکتے ہوئے جوابی پیغام لکھنے لگا۔ 
میں جہنم میں بعد میں جاو ں گا پہلے تم سے تو مل لوں ۔ تم ہوٹل گرینڈ اوگےیا استقلال اسٹریٹ میں برگر کنگ پہ آجاؤں ۔Maheen Rajpoot
سینڈ کا بٹن دباتے وقت وہ جانتا تھا کہ اس کے بر دار ڈیرست کا جواب ان دونوں جگہوں میں سے ہی کویئ ہو گا ۔ وہ شکار نہیں کرے گا۔ اس نے آج تک عبدالرحمن نہ نہیں کی تھی۔ وہ اسے نہ کبھی نہیں کر سکتا تھا۔
حیا اس صبح جب حلیمہ آنٹی کے گھرسے واپس آرہی تھی تو اس کے موبائل پہ جہان کا پیغام آیا تھا ۔
بگھی سے اترتے ہوے اس نے پیغام کھول کر پڑھا ۔
سنو میں ابھی ذرا کام سے بیوک ادا آرہا ہوں ۔ دوپہر میں ملتے ہے۔ لنچ ساتھ کریں گے ٹھیک ۔
حیا نے حیرت سے ٹائم دیکھا۔ صبح کے سات بجے تھے۔ اگر وہ ابھی چلا ہو تو آٹھ ساڈھے آٹھ تک پہنچ جائے گا دوپہر تک بیوک ادا میں کیا کرے گا ۔
وہ الجھتی اندر آئی تھی۔
بیگ بیڈ پہ رکھتے ہوئے اس نے موبائل پہ جہان کا نمبر ملایا۔نمبر بزی جا رہا تھا۔اس نے فون رکھا اور چوکھٹ میں آ کھڑی ہوئی۔سامنے عاشئے اور بہارے اپنی چیزیں اکٹھی کرتی نظر آ رہی تھیں ۔انہوں نے اب جنگل جانا تھا۔
آج میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکوں گی عاشئے جہان آ رہا ہے۔
وہ ذرا الجھی الجھی سی بتا رہی تھی۔
شیور عاشئے نے سمجھ کر سرہلا دیا اور تھیلا لیے باہر چلی گئی۔
پھر آٹھ بجے کے قریب وہ سنگھار میز کے سامنے کھڑی ہوئی۔جہان آ رہا تھا اسے ڈھنگ سے تیار ہو جانا چاہیے۔اس نے ہلکے ہلکے نم بالوں میں برش پھرا پھرایک دراز سے وہ تھیلی نکالی جس میں اس کا تیسرا موتی رکھا ہوا تھا۔
بہارے کی سلور چین میں اس نے وہ موتی ویسے ہی پرو دیا جسے وہ دونوں بہنیں پروتی تھیں اور چین گردن سے لگا کر دونوں ہاتھ پیچھے لے جا کر ہک بند کیا۔تنگ زنجیر گردن سے چپک گئی تھی اور درمیان میں اٹکا موتی مزید چمکنے لگا تھا۔
اب اس نے پھر سے جہان کا نمبر ملایا گھنٹی جا رہی تھی۔
ہیلو جہان بولا تو پیچھے بازار کا شور تھا۔
جہان تم پہنچ گئے۔
ہاں میں تم سے دوپہر میں ملتا ہوں ۔
تو تم دوپہر تک کیا کرو گے ادھر ۔
میں وہ ۔۔۔وہ ذرارکا۔میں ایک دوست سے ملنے آ یا تھا ابھی اس کے پاس جا رہا ہوں 
کون سا دوست اجنبھے سے پوچھتے ہوےاسے احساس ہوا کہ جہان کے سواے اور اس کی ماں کے کبھی اپنے دوستوں کا زکر نہیں کیا تھا۔ کیا اس کا کوئی دوست نہیں تھا یا وہ اپنے دوستوں کا زکر مستور رکھتا تھا۔
ہے کوئی تم نہیں جانتے۔اچھا۔ میں فارغ ہو کر کل کرتا ہوں وہ عجلت میں لگ رہا تھا ۔
اوکے اس نے فون کل سے بتایا پھر سوچا کہ لنچ پر ہی پوچھ لے گی کیوں کےجہان کو اس سفید محل میں نہیں بلانا چاہتی تھی۔ سو جلدی سے فون کان سے لگا کر ہیلو جہان کہا کے مباد اس نے فون بند نہ کر دیا ہو۔
جہان بھی فون بند کرنے کی بجائے کان سے ہٹا کر دوسری طرف کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا اس نے یقینا حیا کا ہیلو نہیں سنا تھا ۔ وہ ترکی میں کچھ کہہ رہا تھا ۔
اوتل گریند یعنی ہوٹل گرینڈ جہان نے ہوٹل گرینڈ کا ذکر کیا تھا یعنی وہ ہوٹل گرینڈ جارہا تھا وہ حیران ہونے کہ ساتھ ساتھ پریشان بھی ہو گی ۔ کیا جہان کو علم نہیں کہ وہ عبدالرحمن پاشا کا ہوٹل ہے اور پاشا تو اب بیوک ادا واپس آگیا ہے ۔ لوگ عموما رسٹورانٹ میں ہی ملتے ہے اچھا چھوڑو سب دوپہر میں اس ملنہ تو پوچھ لینا۔
سارے خیالات ذہین سے جھٹکتی وہ پرل باکس لے کر اٹھی اور اسٹڈی میں آ بیٹھی ۔کچھ دیر وہ باکس کو الٹ پلٹ کر دیکھتی رہی پھر ایک دم ایک نہج پر پہنچ کر باکس میز پہ رکھ کر اٹھی اور تیزی سے سیڑھیاں پھلا نگتی نیچے پہنچی۔
زرد لمبے فراک پہ اس نے بھورا اسٹول شانوں کے گرد سختی سے لپیٹ لیا بال یونہی کھلے رہنیے دیے اور پرس میں کالی مرچ کا اسپرے رکھ کر وہ باہر نکل گی۔
اسے معلوم تھا۔کہ وہ اب جب تک جہان کو اور ہوٹل گرینڈ کو دیکھ نہیں لے گیی اسے بے چینی رہے گی۔
اب چاہیے اس کے لے اس کو تنہا کیوں نہ سفر کرنا پڑے ۔ویسے بھی جزیرہ چھوٹا سا تھا۔
ہوٹل گرینڈ اور اس کی عقبی پھولوں کی مارکیٹ اس محل سے قریبا پندرہ منٹ کی ہارس رائید پہ تهی۔
کیا تم مجھے دس منٹ میں پھولوں کی مارکیٹ پہنچا سکتے ہو۔اس نے پانچ لیرا کے دو کڑ کڑاتے نوٹ بگھی بان کے سامنے کر کے سنجیدگی سے پوچھا ۔بگھی بان نے ایک نظر نوٹوں کو دیکھا اور دوسری نظر اس پہ ڈالی۔
شیور اگلے ہی لمحے اس کی بگھی کے دونوں گھوڑے پتھریلی سڑک پہ دوڑ رہے تھے۔
وہ ایک لمبی سیدھی سڑک تھی اس کے آخری سرے پہ ہوٹل گرینڈ کی بلند وبالا عمارت کھڑی تھی۔عمارت کے پیچھے ساحل تھا کووہ یہاں سے نظر نہیں آتا تھا۔عمارت پوری کالونی میں ممتاز رکھتی کیونکہ آس پاس چھوٹے موٹے کیفے تھے۔یا پھر پھولوں کی دوکانیں۔پھولوں کی مارکیٹ یہاں سے شروع ہو کر ہوٹل کے عقب میں پھیلی تھی۔
وہ پھولوں کے ایک اسٹال پہ جا کھڑی ہوئی اور یونہی بے توجہی سے پھول اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگی۔بے چین نگاہیں بار بار اٹھ کر ہوٹل کے دروازے کا طواف کرنیں ۔پتا نہیں جہان نے آنا بھی تھا یا اس نے یونہی اس ہوٹل کا تذکرہ کیا تھا۔
تب ہی گلی کے سرے پہ ایک بگھی رکتی دکھائی دی۔اس میں سے نیچے اترنے والا جہان ہی تھا۔
اس نے سر پہ سرخ کیپ لے رکھی تھی۔اور اب وہ والٹ سے پیسے نکال کے بگھی بان کو دے رہا تھا۔
حیا جلدی سے ایک اونچے شلیف کے پیچھے جا کر کھڑی ہوئی۔جس پہ گملے رکھے تھے۔گملوں اور پھولوں کی جھکی ٹہنوں کی درمیانی دروزں سے اسے وہ منظر نظر آ رہا تھا۔ پسیے دے کر وہ آ گے بڑھ گیا ۔ وہ اب ہوٹل کی مخالف سمت میں سر جھکائے جیبوں میں ہاتھ ڈالے چلتا جا رہا تھا ۔ اس کا رخ ہوٹل کی عقبی گلی کی جانب تھا۔
بے چارا ایا ہو گا کوئی دوست سے ملنے وہ کیوں اس کے پچھے پرگئی ہے۔ وہ کیوں اس کا تعاقب کر رہی ہے اس نے جھنجھلا کر خود کو کوسا۔ جہان کے آس پاس سرک پہ بہت سے لوگ دوسری سمت میں جا رہے تھے وہ بھی اس ریلے کے پچھے چل دی۔ اب جہان کو پکارنا بے و قوفی کے سوا کچھ نہ تھا۔ بس وہ کسی کیفے میں چلا جائے تو وہ واپس چلے جائے گی۔
گلی کے دورا ہےپہ پھولوں کا ایک بڑا سا اسٹال لگا تھا وہ اس کے سامنے آکھری ہوئی اور ایک فلورل میگزین اٹھا کر اپنے چہرے کے سامنے کر لیا۔
میگزین کے اطواف سے اسے گلی کا عقبی حصہ نظر آ رہا تھا۔جہاں دور آخری سرے پہ ہوٹل گرینڈ کی پشت تھی۔وہاں ایک چھوٹا سا پرائیویٹ پارکنگ لاٹ بنا تھا اور مستعد گارڈز پہرہ دے رہے تھے۔ یقینا وہاں پر کوئی پرائیویٹ لفٹ بھی ہو گی جو ہوٹل کے اعلی عہدیدار ان کو ڈائریکٹ اپنے فلور تک پہنچا دیتی ہو گی۔
اس نے میگزین کے کور کا کنارہ ذرا سا موڑ کر دیکھا۔جہان اس طرح سر جھکائے چلتا ہوا سامنے جا رہا تھا۔ہوٹل گرینڈ کی عقبی طرف۔
سیلزمین اب اس سے کیا چاہیے؟پوچھ رہا تھا ۔ٹیولپس۔۔۔۔۔سبز رنگ کا ٹیولپ مل سکتا ہے ۔اس نے اردگرد کے ٹیولپ کے پھولوں کو دیکھتے ہوئے وہ رنگ پوچھا جو استنبول پہ کیا کرہ ارض پہ شاید ہی ملتا ہے۔اس کے خیال میں!
سبز رنگ کا ٹیولپ ؟؟ دکاندار ذرا حیران ہوا پھر بولا مل جائے گا۔
اتنے زیادہ کیوں ہوتے ہیں ٹیولپس استنبول میں ؟ جہاں دیکھو ٹیولپس ہی نظر آتے ہیں ۔اس نے جلدی سے دوسرا سوال جھاڑا۔کن اکھیوں سے جہان اب اسے پارکنگ لاٹ تک پہنچتا نظر آ رہا تھا ۔وہاں رک کر اس نے والٹ نکال کر اس نے گارڈ کو کچھ دیکھایا شاید اپنا آئی ڈی کارڈ ۔نفی میں سر ہلا کر جوابا کچھ کہہ رہا تھا ۔
ٹیولپس تو استنبول کا سمبل ہیں ۔کیا آپ نے ٹیولپ فسٹیول کے بارے میں ۔۔۔۔۔۔

جاری هے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.