Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 2

میرے_ہم_نفس_میـرے_ہـمنوا
فریحہ_چــــودھـــری ✍



#میـرے_ہـم_نفس_میـرے_ہـمنوا
#فریحہ_چــــودھـــری ✍
#قسط_2
وہ شاید گلاس ٹوٹنے کی آواز پر آئیں تھیں
"ارے بی جان آپ.. اس وقت "وہ بوکھلا گیا
"ہاں میں تہجد کے لیے اٹھی تھی تمہارے کمرے سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی تو ادھر چلی آئی... لیکن یہ کیا ہے سب " وہ ازحد پریشان ہو چکی تھیں
"کچھ نہیں بی جان بس نیند نہیں آرہی تھی " وہ خود پر قابو پاتے انکے ہاتھ تھام کر نرمی سے بولا 
" اور یہ گلاس بس ہاتھ لگنے سے ٹوٹ گیا غلطی سے " اصل بات وہ گول مول کر گیا
"اچھا چلو کوئی بات نہیں میں تو پریشان ہو گئی تھی "وہ مطمئن ہو گئیں
"چلو تم بھی اب نماز پڑھ لو دل کو سکون ملے گا ہوں.... "
"جی پڑھ لیتا ہوں "جہانگیر نے تابعداری سی سر ہلایا
"جیتے رہو خوش رہو "بی اماں نے اس کی پیشانی چوم کر دعا دی
"تمہیں دیکھ کر دل کو سکون مل جاتا ہے اور ایک یہ جازم ہے ہر وقت مستی میں رہتا ہے ذرا جو عقل کر لے یہ لڑکا کسی کام میں سنجیدہ نہیں کیا بنے گا اس کا 
اللہ اسکو ہدایت دے " وہ منہ ہی منہ بڑبڑاتی باہر جا رہی تھیں وہ دھیرے سے مسکرایا
★★★★★★★
صبح حویلی میں کافی رونق تھی سب اپنے اپنے کام پر جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے آٹھ بجے سب ناشتے کی میز پر اکھٹے ہوئے تھے یہ برسوں سے حویلی کا اصول تھا گوہر جب تیار ہو کر نیچے آیا تو سب ٹیبل پر پہلے سے موجود تھے اس نے سب پر طائرانہ نظر ڈالی اور سلام کرتا کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا
تبھی بڑے بابا کی گرجدار آواز گونجی اس کا جوس کی طرف جاتا ہاتھ رک گیا وہ بہت کم بولتے تھے مگر جب بھی بولتے تھے سب کی بولتی بند کر دیتے تھے
"مغیث کہاں ہے ؟؟" تائی اماں نے بے بسی سے انہیں دیکھا آنکھوں میں التجا تھی
"ہم نے بہت رعایت دے دی اسے اب اور نہیں نیچے بلاؤ اسے یہاں " انہوں نے حکم صادر کیا سمعیہ بیگم (تائی اماں )نے سکینہ کو آواز دی
"جاؤ مغیث کو کہو بابا بلا رہے ہیں "انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کچھ سمجھایا وہ پلٹ کر چلی گئی کچھ ہی دیر میں مغیث سیڑھیاں اترتا دکھائی دیا اس کے نقوش تنے ہوئے تھے بال ماتھے پر لاپرواہی سے پڑے تھے چہرہ زرد تھا سلوٹ زدہ سوٹ اس بات کا گواہ تھا کہ وہ سیدھا اٹھ کر نیچے ہی آیا ہے خود سے بھی لاپرواہ وہ اسے کہیں سے بھی ڈیشنگ اینڈ چارمنگ مغیث نہ لگا گوہر کا دل تاسف سے بھر گیا وہ آکر خاموشی سے بڑے بابا کے سامنے کھڑا ہو گیا
"تمہیں اب سلام کرنے کی بھی تمیز نہیں رہی "وہ پھر سے برہم ہوئے مغیث نے ایک خاموش نگاہ ان پر ڈالی
"کیا چاہتے کیا ہو تم؟؟؟ سیدھی طرح بتاتے کیوں نہیں ہو تم تماشہ بنایا ہوا ہے تم نے چھوٹے سے بچے نہیں ہو تم 25 سال کے باشعور انسان ہو ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتیں تمہیں "وہ غصے سے کھڑے ہو گۓ وہ لب بھینچےکھڑا تھا اس کی آنکھوں کی سرخی بڑھنے لگی
"آرام سے ابھی تو آیا ہے وہ اسے ناشتہ تو کرنے دیں " سمعیہ بیگم نے شوہر کو ٹھنڈا کرنا چاہا اتنے دنوں بعد اسے کمرے سے باہر دیکھ کر ان کا دل خوش فہم ہو رہا تھا
"نہیں کرنا مجھے ناشتہ " وہ درشتی سے بولا بڑے بابا نے ٹھٹھک کر اس کا گستاخانہ رویہ دیکھا ایسا تو وہ ہرگز نہ تھا 
"یہ کس لہجے میں بات کر رہے ہو تم ؟؟ یہ ہی سکھایا ہے ہم نے تمہیں ؟؟یہ تربیت کی ہے ہم نے تمہاری؟؟ بڑوں سے بات کرنے تمیز بھولتے جا رہے ہو تم ...تم جانتے بھی ہو ہمارے خاندان میں بڑوں سے بات کرنے کی کیا حدود ہیں اک آوارہ بد چلن لڑکی کے عشق نے تمہیں ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے "
وہ گرج رہے تھے سب خاموش تماشائی بنے ان باپ بیٹا کو دیھ رہے تھے سمعیہ بیگم نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا مگر وہ بھی انکا ہی بیٹا تھا تمیز و ادب سب بالاۓ طاق رکھ کر جواباً ان سے بھی زیادہ اونچی آواز میں بولا
"کون سی تمیز کون سی روایات کون سی حدود کی بات کر رپے ہیں آپ بابا جان؟؟ یہ حدودیں آپ کو آج تو یاد آگئی تب کیوں بھول جاتی ہے جب چھوٹی چچی پھوپھو کے ساتھ ذیادتی کرتی ہیں " وہ چاۓ لاتی صبوحی کو دیکھ کر بولا ان کے ہاتھ سے ٹرے لڑکھڑا گئی 
"تب کہاں جاتی ہیں آپکی روایتیں جب ادینہ اور ثمرینہ اپنے سے دوگنی عمر کی عورت سے نوکرانیوں والا سلوک کرتی ہیں تب آپ اپنی آنکھیں کیوں بند کر لیتے ہیں جب اس گھر کی بیٹی کو دو وقت کی روٹی کے لیے ترس ترس کر جینا پڑتا ہے تب آپ کیوں خاموش تماشائی بن جاتے ہیں جب کسی بے بس کی سسکیاں اس درودیوار میں گونج رہی ہوتی ہیں "
آج وہ سب حساب بے باق کرنے کے موڈ میں تھا وہ انہیں آئینہ دیکھا رہاتھا جو شاید کوئی بھی دیکھنا نہیں چاہتا تھا صبوحی حیرت زدہ تھی سانس انکے گلے میں اٹکنے لگا
"بکواس بند کرو تم اپنی "ان کے اشتعال میں مزید اضافہ ہوا چھوٹی چچی نے بھی ناگواری سے اسے دیکھا انہیں اس سے اتنے کھلے طنز کی توقع ہی کہاں تھی 
"کیوں کیوں بند کروں... سچ سنیں بابا جان ....سامنا کریں سچ کا "
اس کے لہجے میں چٹانوں کی سی سختی تھی وہ سمجھ نہ پاۓ وہ کس کا مقدمہ لڑنے آیا تھا اپنا یا صبوحی کا 
صورت حال بگڑتی دیکھ کر صولت آگے بڑھا اور بازو سے پکڑ کراسکا رخ اپنی جانب کیا
"کیا کر رہے ہو مغیث بابا ہیں وہ " انہوں نے سختی سے ٹوکامگر وہ بغیر کان دھرے اپنا بازو چھڑاتا پھر سے بابا کی طرف گھوما
"اس جائیداد میں صبوحی پھوپھو اور انکی بیٹی کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا ندرت پھوپھو کا اس گھر پر ان کا حق اتنا ہی ہے جتنا ہمارا .....آپ حق تلفی کر رہے ہیں بابا جان... نا انصافی کر رہے ہیں.... کتنے افسوس کی بات ہے نواب حیات درانی اس قبیلے کا سردار ...پنچائیت کا سر پنج.... لوگوں کے سچ جھوٹ کا فیصلہ کرنے والا... انکو حق دلانے والا.... اپنے ہی گھر میں ہونے والی زیادتی کا ہاتھ نہ روک سکا "
"چٹاخ "" بڑے بابا کا ہاتھ اٹھا اور اسکے گال پر نشان ثبت کر گیا مغیث کی چلتی زبان کو ایکدم بریک لگا وہ منہ پر ہاتھ رکھے انہیں دیکھنے لگا
"خاموش ہو جاؤ خاموش " بڑے بابا کا انداز ہارا ہوا تھا انہوں نے مزید کچھ کہنا چاہا مگر زبان نے ساتھ نہ دیا وہ خاموشی سے کمرے کی طرف بڑھ گۓ
مغیث نے ایک تلخ نگاہ ساکت کھڑی صبوحی پر ڈالی اور وہاں سے نکلتا چلا گیا گوہر اس کے پیچھے لپکا مگر وہ گاڑی نکال کر جا چکا تھا صبوحی بیگم کی آنکھیں برسنے لگیں کیا کچھ یاد نہ آیا تھا آج پھر سے ماضی انکے سامنے آکھڑا ہوا تھا وہی لب و لہجہ وہی انداز وہ شکست خوردہ قدموں سے واپس پلٹ گئیں
مجـــھ کــو شکســتِ دل کا مزہ یــاد آگیـــا 
تــم کیــــوں اداس ہـــو کیـــا یـــاد آگیـــا 
کہـــنے کو زنــدگی تھـــی بــہت مختصـــر مگر 
کچـــھ یـــوں بســر ہوئــی کہ خــدا یاد آگیـــا 
برسےــ بغیــر ہــی جــو گھٹـــا گھــر کے کھل گئی
اک بـــے وفــــا کا عہــدِ وفـــا یــاد آگیـــا
★★★★★★★
صبح وہ ایک نارمل انسان کی طرح تیار ہو رہا تھا رات کی ،تخریب کاری کا کوئی شائبانہ تک نہ تھا پولیس یونیفارم میں نک سک سے تیار ہونے کے بعد آئینہ میں اس نے خود کو دیکھا تو ایک تلخ مسکراہٹ ہونٹوں پر آٹھہری گھنے سیاہ بال سلیقے سے سر پر جمے تھے چھ فٹ سے نکلتا قد مضبوط جسم چوڑا سینہ گہری شہد رنگ آنکھیں جن میں مقناطیسیت تھی ایک حزن تھا اداسی تھی پر اسراریت تھی اس کے چہرے کا ہر نقش مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا کھڑی مغرور ناک بھرے بھرے ہونٹ سفید کلین شیوڈ متناسب چہرہ وہ شخص مردانہ حسن اور وجاہت کا مجسمہ تھا دائیں گال پر پڑنے والا ڈمپل دیکھنے والوں کو ٹھٹکنے پر مجبور کر دیتا تھا اسے دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ وہ اندر سے دیمک زدہ انسان ہے سوچوں کو جھٹکٹے ہوئے وہ شیشہ کے سامنے سے ہٹا اس نےاپنا بلیک لیدر بریف کیس لیا والٹ اٹھا کر جیب میں رکھا تبھی موبائل کی بیل نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا سکرین پر گوہر کا نام جگمگا رہا تھا اس نے عجلت میں کال ریسیو کی 
"ہاں بس نکل رہا ہوں دس منٹ تک پہنچ جاؤں گا اوکے " تیزی سے کہہ کر اس نے کال کاٹی اور گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر کی جانب چل دیا ناشتہ کی میز پر بی جان کے ساتھ نور بھی موجود تھی وہ دوسرے وجود کو یکسرنظرانداز کرتا بی جان کے سامنے جھکا
"اچھا اماں اجازت دیں آج جلدی میں ہوں رات کا کھانا آپ کے ساتھ کھاؤں گا 
"ارے ایسے کیسے بیٹھو یہاں کم اازکم جوس تو پیو نا "
انہوں نے بازو سے پکڑ کر اسے کرسی پر بٹھایا 
"بی اماں آپ تو جانتی ہیں میں اس وقت جوس نہیں پیوں گا ناشتہ میں آفس سے کر لوں گا ابھی لیٹ ہو رہا ہو "اس نے ٹالنا چاہا نور بغور اسے دیکھ رہی تھی اسکی نظروں سے وہ ڈسٹرب ہونے لگا
"اچھا ٹھیک ہے مگر یاد سے کر لینا اور مجھے کال کر کے بتا دینا بلکہ میں خود ہی پوچھ لوں گی "وہ خلافِ توقع جلدی مان گئیں وہ ان کے جلدی ماننے پر دل ہی دل میں شکر ادا کرتا اٹھ کھڑا ہوا 
وہ بی جان سے پیار لے کر جانے کے لیے مڑا پھر کچھ سوچ کر پلٹا 
"یہ جازم کہاں ہے؟
"ابھی سو رہاہے لیٹ آیا تھا "جواب نور کی طرف سے آیا اس کے ماتھے پر بل پڑ گۓ
"ابھی تک سورہا ہے؟ یہ کون سا طریقہ ہے اسے کہیے گا شام میں گھر ہی رہے بات کرنی ہے اس سے "اس کا لہجہ سخت تھا بی جان نے سر ہلا دیا
"ٹھیک ہے کہہ دوں گی تم آرام سے جاؤ صبح صبح غصہ نہیں کرتے "بی جان نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا وہ خدا حافظ کہتا باہر نکل گیا نور کی پر سوچ نگاہوں نے دروازے تک 
اس کا پیچھا کیا تھا
پتھــر تھـــا مگر برفکے گالوں کی طــــرح تھــــا 
اک شخــــص اندھیـــروں میں اجالوں کی طرح تھــــا
خــوابوں کی طـــرح تھـــا نہ خیالوں کی طـــرح تھـــا 
وہ علـــم ریاضـــی کے سوالــوں کــــی طــرح تھــــا
الجــھا ہـــوا ایســا کــہ کبھــی حــل نہ ہــــو ســـکا 
سلجــــھا ہــوا ایســـا کہ مثالـــوں کی طـــرح تھــــا
وہ مــــل تو گـــیا تھـــا مگـــر اپنا ہـــی مقــــدر 
شطــرنج کی الجھـــی ہوئـــی چــالوں کی طــرح تھا 
وہ روح میــــں خوشبــو کی طرح ہو گــیا تحلـــیل 
جو دور بہـــت چانـــد کے ہــالوں کــی طــرح تھـــا 
★★★★★★★
وہ بے مقصد گاڑی سڑکو ں پر دوڑا رہا تھا اس کا ذہن بے حد الجھا ہوا تھا ہفتے بھر کی ذہنی چپقلش نے اسے مکمل طورپر تھکا ڈالا تھا لیکن اپنی ضد سے پیچھے ہٹنے کو وہ قطعی تیار نہ تھا اسے ہر صورت نورجہاں اور عون مغیث کو حویلی لے کر جانا تھا نور جہاں کا خیال آتے ہی اس کے ہونٹوں پر دلکش سی مسکراہٹ پھیل گئی اس کی خوبصورت شبیہہ آنکھوں کے سامنے لہرائی تو دل اس پری پیکر کو دیکھنے کے لیے مچلنے لگا اس نے گاڑی کا رخ فلیٹ کی جانب کر لیا 15 منٹ میں وہ فلیٹ کے باہر کھڑا تھا اس نے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا وہ حیران ہوتا اندر چلا آیا اندر سے کسی کے ہسنے کی آوازیں آرہی تھیں بیڈ روم کے سامنے پہنچ کر اسکے قدموں کو بریک لگا اد ھ کھلے دروازے سے اندر کا منظر اس کے ہوش اڑانے کو کافی تھا دلاور خان بیڈ پر آڑھے ترچھے لیٹا تھا اور اس کی محبوب بیوی نور جہاں اسکے بے حد قریب بیٹھی تھی انہیں اس حال میں دیکھ کر اس کے دماغ کی رگیں تن گئیں
"ہاہاہا بے فکر رہیے خاں صاحب میرے نواب صاحب ابھی نہیں آئیں گے وہ اپنے باپ کو منا کر ہی آئیں گے ہم جانتے ہیں وہ وعدے کے بہت پکے ہیں " وہ ہنستی ہوئی کہتی مغیث کے تن بدن میں آگ لگا گئی
"تو کیا تم چلی جاو گی ؟؟" خان کے لہجے میں مایوسی تھی
"ارے نہیں کچھ دن کے لیے جائیں گے اسکی اولاد پیدا کی ہے کچھ حق تو بنتا ہے " اس نے مسکرا کر تسلی دی 
"ویسے کتنا بٹور چکی ہو اب تک اس نواب زادے سے ؟" خان نے خباثت سے آنکھ مار کر پوچھا جواباً نور جہاں کھلھلا کر ہنسی
"آپ کی سوچ سے بھی زیادہ ویسے ماننا پڑے گا نواب صاحب ہیں بڑے کھلے دل کے
"ارے ہم تو آپ پر اپنا آپ وارنے کو تیار ہیں ذرا خدمت کا موقع تو دیں " خان نے اسے مزید قدیب کیا نور بڑے ناز سے ہنسی وہی ہنسی جس کا وہ دیوانہ تھا 
"ایسی عورتیں گھر نہیں بساتیں اسے بس پیسے سے غرض ہے تمہارے پیسے سے "باپ کی آواز اس کے آس پاس گونجی "جس لڑکی سے چاہو شادی کر لو مگر اس بدکردار سے ہرگز نہیں " ایک اور جملہ اس کے کانوں میں پڑا 
وہ طیش کے عالم میں آگے بڑھا اور خان کی بانہوں میں جھولتی نور جہاں کو بالوں سے پکڑ کر کھینچا دونوں چونک کر متوجہ ہوۓ سامنے کھڑے وجود کو دیکھ کر نور جہاں کی ہوائیاں اڑنے لگیں 
"آـ ـ آپ "
"بے غیرت عورت یہ تھی تیری اوقات " مغیث نے اسکے منہ پر تھپڑ مارا وہ الٹ کر نیچے جا گری 
"ٹھیک کہتے تھے بابا تم ـ ـ "اس کے منہ سے مغظات نکلنے لگے وہ دونوں ہاتھوں سے اسے پیٹ رہا تھا اس کا جنونی روپ دیکھ کر خان کا سارا نشہ ہرن ہو گیا وہ گھبرا کر بھاگ کھڑا ہو نور جہاں کی چیخوں کی آواز سن کر لوگ آکٹھے ہونے لگے چند لوگوں نے آگے بڑھ کر اسے پکڑنے کی کوشش کی اور اسے کھینچ کر باہر لے جانے لگے وہ انکے ہاتھ جھٹکتا ہوا پلٹا اس نے بےبی کارٹ سے روتے ہوۓ عون کو اٹھایا اور ایک نفرت بھری نگاہ نیم بے ہوش وجود پر ڈالتا باہر نکل گیا 
★★★★★★
وہ جو بڑے پرسکون انداز میں میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہا تھا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اس نے آنکھیں کھول کر کچھ سمجھنے کی کوشش کی پورے کمرے میں نگاہ دوڑائی مگر کچھ سمجھ نہ آئی آواز کہاں سے آئی تھی
"لگتا ہے کمرے میں بھوت ہیں "وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا 
"ابے کیا یار سوۓ ہوئے بندے کو اسطرح اٹھاتے ہیں "وہ بلند آواز چلایا اور جواب کا انتظار کرنے لگا کمرے میں چند منٹ خاموشی رہی پھر وہی دل دہلا دینی والی آواز آئی وہ اچھل کر بیڈ سے کھڑا ہو گیا 
"واقع یار بھوت ہی ہیں وہ بھی بھیا جیسے "اب کی بار وہ خوفزدہ ہونے لگا اس نے آرام سے کمرے سے کھسکنے کا سوچا 
"اے بھائی بھوت دیکھ تو جو کوئی بھی ہے تو یہاں رہ لے میں جا رہا ہوں،.... ہاں " وہ ہاتھ اٹھا کر چاروں طرف گھوم کر بولا آہستہ آہستہ پیچھے کو کھسکتے وہ جوتے تک پہنچا ابھی اس نے ایک ہی جوتا پہنا تھا کہ آواز پھر سے گونجی اس نے پھرتی سے دوسرا جوتا ہاتھ میں اٹھایا اچانک اسے محسوس ہوا آواز اس کے پیچھے سے آرہی ہے اس نے ڈرتے ڈڑتے گردن گھمائی سامنے پڑی چیز کو دیکھ کر جوتا اس کے ہاتھ سے گر گیا 
"اف حد ہے یار "اس نے ناگواری سے ٹیبل پر پڑے موبائل کو دیکھا جو وائیبریٹ کر رہا تھا
"میں اتنی دیر سے اس مصیبت سے ڈر رہا تھا " اس کا جی چاہا اپنا سر پیٹ لے خود کو مزید کوسنے کا ارادہ ترک کر تے اسنے موبائل اٹھایا "فاریہ کالنگ
"اس منحوس کو بھی صبح ہی صبح کال کرنا تھی 
"بڑبڑاتے ہوئے اس نے کا پک کی 
"ہاں بولو "اس کا موڈ بگڑ ا ہوا تھاـ
"ارے ارے اتنا غصہ خیریت "فاریہ کی چہکتی ہوئی آواز آئی اس نے دانت کچکچاۓ
"نہیں کچھ نہیں تم بتاؤ صبح صبح کیسے فون کیا "اب کے لہجے کو نارمل رکھنے کی کوشش کی گئی
"صبح صبح نہیں جناب جازم علی شاہ دیکھیں ذرا گیارہ بج رہے ہیں اور آپ شاید بھول رہے ہیں آج جامعہ کے تقریری مقابلہ میں آپ نے شرکت کرنا تھی "فاریہ نے اسے یاددہانی کرائی 
"اوفوہ یار میں کیا کروں گا مجھے ایسے مقابلے زرا بھی نہیں پسند کچھ سمجھ آتا ہی نہیں پلیز تم کسی اور کے ساتھ چلی جاو "اس نے جان چھڑانی بچاہ
"بالکل نہیں میں ویٹ کر رہی ہوں تمہارا جلدی پہنچو ورنہ میں تم سے بالکل بات نہیں کروں گی " اس نے دھمکی دے کر فون بند کر دیا 
" کیا مصیبت ہے یار " جازم نے غصے سے فون بیڈ پر اچھالا "ایک تو یہ گرل فرینڈ کو سنبھالنا عذاب ہے " وہ بڑبڑاتا ہوا واش روم میں گھس گیا۔
*#جاری_ہے*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.