
میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 1
میرے_ہم_نفس_میـرے_ہـمنوا
فریحہ_چــــودھـــری ✍
#میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا
#از_فریحہ_چـودھـــری
#قسط_1
جب رات شہـــر جان پر قہر لپکتا ہــــے
دل کی زمیں پر اشک مسلسل ٹپکتا ہــــے
اک گونج چیختی ہـــے ہیں میرے گھر سے دور
اک زخمی دل سینے کے اندر پھڑکتا ہــے
اک یاد سانس بن کر کہیں چلتی رہتی ہـــے
اک ہجر دل کے ساتھ مسلسل دھڑکتا ہــے
یوں ہجر بے پناہ میں آتی ہــــے اسکی یاد
جنگل میں جس طرح کوئی جگنو دمکتا ہـــے
یہ بھی ایک خوفناک رات تھی وحشت سے بھرپور ـ درد بھری رات
کسی کی بے بسی کا تماشہ بنا کر دور کھڑی مسکراتی ہوﺉ ظالم فرعون کی مانند بے رحم رات تھی جو اپنی رفتار پر ہولے ہولے سرکتی رہتی ہے بغیر کچھ محسوس کیے بغیر کچھ جانے ـ یہ بھی ایسی ہی رات تھی نیند لوگوں کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ان کے چہروں پر قیامت سا ڈر تھا وہ سب اپنے بچوں کو چھپاۓ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے جانتے تھے یہ قیامت کی گھڑی ان پر کبھی بھی آسکتی ہے اوروہ کچھ بھی نہ کر پائیں گے سواۓ دعا کہ جو وہ اب بھی کر رہے تھے مگر شاید ان کی قسمت میں کچھ اور آزمائشیں لکھیں تھیں گاڑیوں کا شور سن کر لوگوں کی سانسیں ان کے سینے میں اٹک گئیں انکے جسم تھر تھر کانپنے لگے بچے خوف سے چیخنے لگے ـ کچھ لوگ بلیک پینٹ اور بلیک شرٹ اور بلیک ہی ماسک میں دروازے توڑ کر اندر داخل ہونا شروع ہوئے لوگ بھاگ بھاگ کر چھپنے کی کوشش کرنے لگے مگر کہاں تک ؟؟؟
ان لوگوں نے دو تین گھروں کے مرد اور عورتیں اٹھا کر گاڑی میں ڈالے اور تیزی سے نکل گۓ پیچھے لوگ چیختے چلاتے رہے آخر کہاں تک ؟؟؟؟
پھر تھک ہار کر چپ ہو جاتے جیسے پہلےہو گئے تھے وہ جانتے تھے پولیس کی لاکھ کوششوں کے باوجود اب انکاکوئی سراغ نہ ملنا تھا سواۓ چند گوشت کے ٹکڑوں کے ★★★★★★★
Now the heart beat has gone up and down and everyone seems eager and excited for our last participent ........(silence)...
I call upon the stage Mr jazim to sing a beautiful song by his emotive voice ....... So plz welcome him with big hands One and only Mr Jazim ali shah
"حیزی ـ ـ جیزی ـ ـ ـ جیزی "حاظرین کا جوش و خروش قابلِ دید تھا بے تحاشا تالیوں کے شور میں اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب لوگ اس کی نیلی آنکھوں کے سحر میں ڈوبے سینکڑوں دیوانوں میں ایک ایسا وجود بھی تھا جو بے زار بیٹھا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا وہ اپنی دوست کے کہنے پر اس سٹوڈنٹس فنکشن میں آ تو گئی تھی مگر اب پچھتا رہی تھی
اسی لمحے ایک تیز رفتار بائیک سٹیج کے سامنے آ کر رکی ـ بائیک پر سوار نو جوان ہزاروں دلوں کی دھڑکن خوبصورتی و وجاہت میں اپنی مثال آپ، پانچ فٹ نو انچ قد کسرتی بدن تیکھے نقوش کا حامل چہرہ سرخ و سفید رنگت بے تحاشا چمک لیے نیلی شفاف سحر انگیز آنکھیں بلیک جینز رائل بلو شرٹ میں ملبوس ہر دل عزیز شاید نہیں یقیناً وہ جازم عرف جیزی ہی تھا بائیک سے اتر کر شان سے چلتا ہوا سٹیج کی جانب بڑھا
دونوں ہاتھ اٹھا کر دل کو موہ لینے والی مسکراہٹ سے سر کو خم دے کر شائقین کی تالیوں کا جواب دیا اور اپنے مخصوص انداز میں مائیک تھا مے آنکھوں کو گھما کر ہولے سے گانا شروع کیا
کیا چیز زندگی ہـــے محسوس کیاہـــــوتا
ٹکڑوں میں اگر بٹ کہ میں یوں نہ جیا ہــــــوتا
اے میرے خُدا تُو نے اتنا تو کیا ہــــــوتا
یــــا دل نہ دیا ہوتا یــــا غم نہ دیا ہـــــــوتا
یــــا دل نہ دیا ہوتا یـــــا غم نہ دیا ہـــــــوتا
دل کو سنبھــــالوں میں یا خود کو سنبھــــالوں
تو ہی بتا دے تنہا میں کس کس کو سنبھـــــالوں
کیا میرا اب کہیں کوئی بھی نہ رہــــا
زندگی ترس گئی سننے کو اک صدا
مجھ کو بھی سنبھالے جو کوئی تو دیا ہــــــوتا
یا دل نہ دیا ہـــــــوتا یا غم نہ دیا ہـــــــوتـا
زخموں سے نہیں شکوہ پر مرحم تـــــو لگاتا
میرے لیے بھی راحت کا اک لمحہ تــــو بناتا
کس خطــــــــا کی دی سزا مجھے وہ بتـــــا
تجھ پہ کیا اتنا بھی حق نہیں تھا میــــــرا
ا کے یہ دامن میرا تھورا تو سیا ہـــــــوتا
یا دل نہ دیا ہــــــوتا یا غم نہ دیا ہـــــــوتا
کیا چیز زندگی ہے محسوس کیا ہــــــــوتا
ٹکڑوں میں اگر بٹ کر میں یوں نہ جیا ہـــــــوتا
اے میرے خدا تو نے اتنا تو کیا ہـــــ ـوتا
یا دل نہ دیا ہــــــــوتا یا غم نہ دیا ہــــــوتا
جونہی گانا ختم ہوا سامعین نے جوش و خروش سے تالیاں بجا کر اپنی محبت کا اظہار کیا اُس نے سابقہ مخصوص انداز میں ہاتھ اٹھا کر داد وصول کی اور بغیر ادھر ادھر دیکھے سٹیج سے اتر کر بائیک کی جانب بڑھا جب اسکے کان بائیک سے ذرا فاصلے پر موجود لڑکی کی بات سے فیض یاب ہوئے
"ہونہہ ایسا بھی کیا ہے اس میں جو تم لوگ اتنے دیوانے ہو ستاناس کر دیا اس نے راحت فتح علی خان کے اتنے خوبصورت گانے کا "
لڑکی نے ناگواری سے سر جھٹک کر تبصرہ کیا جب آنکھیں گھماتے غیر متوقع طور پر اس کی نظر اپنی طرف متوجہ جازم پر پڑی وہ مزید گل فشائی کا ارادہ ترک کر کے زبان اپنے دانتوں تلے دبا گئی جازم پوری آنکھیں کھولے اس بدتمیز کو گھورتا رہا پھرایکدم سے مسکرایا آبرو کو ہولے سے جنبش دے کر سیٹی بجائی ۔ ۔ آنکھ ماری ۔ ۔ ۔ پلٹ کر بائیک پر بیٹھا اور زن سے بھگا لے گیا وہ منہ کھولے اسکی پشت دیکھتی رہ گئی
"ایڈیٹ " اور پھر وہ دیر تک جلتی بھونتی رہی
★★★★★★★
نہ گنـــــــواؤ ناوکِ نیــــــــم کش
دل ریـــــزہ ریـــــزہ گنوا دیــــــا
جو بچے ہیں سنـــــگ سمیٹ لـــو
تـــــــــــن داغ داغ لٹــــــــا دیـــــــا
مـــیـــرے چارہ گر کو نویـــــد دو ،
صـــــفِ دشمنــــــاں کو خبــــــر کرو
وہ جــو قرض رکھتــــے تھـــے جان پر
وہ حســــــاب آج چـــــــکا دیــــــا
کرو کـــــج جبیــــــــن پہ سر کفــــــــن
میـــــرے قاتــلوں کو گمــــــاں نہ ہــو
کہ غــــــــرور عشــــــــق کا بانکپــــــن
پســـں مــــرگ ہـــــم نے بھلا دیـــــــا
ادھــــــر اک حـــــــرف کے کشتنــــــی
یہاں لاکـــھ گـــــــزار تھــا گفتنــــــی
جــــو کہــــا تـــو ســــن کے اڑا دیــــــا
جــــو لکھـــا تـــو پڑھ کہ مٹـــــا دیــــا
جــــو رکے تــــو کـــوہ گراں تھے ہــــم
جــــو چلـــے تــــو جـاں سے گــــزر گۓ
رہ یـــــار ہــــــم نــــے قـــــدم قــــــدم
، تجھـــے یـــــــادگار بنــــــا دیــے★★★★★★★
"میں کہتا ہوں نکل جاؤ یہاں سے "وہ دھاڑا آواز اتنی ضرور تھی کہ نیچے لاوٴنج میں بیٹھے نفوس تک بآسانی پہنچ سکتی سمیعہ بیگم نے دہل کر اپنے شوہر کو دیکھا جو لب بھینچے بیٹھے تھے وہ سرعت سے اٹھ کر اس کے کمرے کی طرف بڑھیں
"بڑے صاحب کا حکم ہے کہ آپ کو کھانا کھلا کر آؤں "ملازم نے ہمت کرکے دھیمی آواز میں کہا مگر وہ آج پھر بپھرا ہوا تھا برتن اٹھا کر نیچے پٹخنے شروع کر دئیے "بتا دینا اپنے صاحب کو نہیں مانوں گا ان کی بات نہیں کھاؤں گا میں کھانا جاؤ بتاؤ ان کو "اس نے آخری پلیٹ بھی زمین پر پٹخی
تبھی سمعیہ بیگم دروازہ کھول کر اندر آئیں ملازم سر جھکاۓ کھڑا تھا
"یہ کیا کر رہے ہو بیٹا "انہوں نے کانچ کو دیکھتے ہوئے کہا وہ کوئی جواب دئیےبغیر رخ پھیر گیا سمعیہ بیگم پریشانی سے اس کی طرف بڑھیں
"بیٹا کیوں کر رہے ہو ایسا ماں ہوں میں تمہاری "وہ اس کے سامنے آ گئیں اور دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھام لیا
"ادھر دیکھو مغی بیٹا اپنی ماں کو دیکھو ترس نہیں آتا کیا تمہیں "ان کے لہجے میں آنسو کی آمیزش تھی مغیث خاموشی سے انہیں دیکھے گیا انکے بہتے آنسوؤ ں نے نہ جانے اس پر کیا اثر کیا وہ تڑپ کر ان کے گلے لگ گیا
"ماما کیا کروں میں مجھ سے جیا نہیں جاتا میں جینا نہیں چاہتا مما"وہ سر ان کے کندھے پر رکھ کر بچوں کی طرح بلک رہا تھا اور وہ بے بسی کی تصویر بنیں اپنے کڑیل جوان بیٹے کو ٹوٹتا دیکھ رہی تھیں
نہیـــــں ہــم کــو شکــــایت اب کســـی سے
بس اپنـــے آپ ســـے روٹھـــے ہـــوئے ہیــــں
بظـــــاہر خــــوش ہیــــں لیکـــن ســچ بتائــیں
ہــــــم انــــدر ســـے بہت ٹوٹــے ہوئـــے ہیـــــں
★ ★★★★★
میــــرے ہــــم نــفس میـــرے ہمنـــوا
مجھــــے دوست بــن کر دغــــا نہ دے
وہ جیسے ہی کمرے سے نکلی سامنے والے کمرے سے آتی دھیمے سروں میں دل چھو لینے والے خوبصورت الفاظ پر مشتمل آواز پر اسکے قدم بے اختیار ٹھٹکے تھے ادھر اُدھر دیکھا راہداری میں کوئی بھی نہ تھ
مــــیرے داغِ دل ســـے ہـــے روشنــــی
اســــی روشنــــی ســے ہــے زنـــــدگی
مجــــھے ڈد ہـے اے میــرے چــارہ گــر
یــہ چـــراغ تــو ہــی بـــجھــــا نـــہ دے
مجـھے اے چھوڑ دے میـــرے حال پـــر
تـــــیرا کیــــا بھـــروسہ ہــے چــارہ گــــر
یــــہ تیــــری نــــوازشِ مختصــــــــر
مـــــیــــــرا درد اور بـــــڑھا نـــــہ دے
مــــیرے ہــــم نــــفس میــــرے ہمنــــــوا
مجـــــھے دوســــت بــن کردغـــا نـــہ دے
"یہ کمرہ تو جہانگیر کا ہے اس جلاد کو بھی موسیقی سے لگاؤ ہے حیرت ہے " وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی اسکے کمرے کی طرف بڑھنے لگی
مــــــیرا عـــــزم اتنـــا بلنـــد ہــــے
کہ پــــراۓ شعـــلوں کا ڈر نہیــــں
مجھے خـــوف آتشِ گل ســے ہـــــے
یـــــہ کہیـــں چـــمن کو جلا نہ دیــں
وہ اٹھـــے ہیـــں لے کے ہـــوم و صُبــــو
ارے او شکیــــــــل کہـــــاں ہـــے تـــــو
تـــــیرا جـــــام لینـــــے کو بـــزم میــــں
کــــوئی اور ہــــاتـــھ بـــــڑھا نـــــہ دے
میـــــرے ہــــــم نفس میـــرے ہمنـــــوا
مجـــھے دوست بـــن کر دغـــا نــــہ دے
جب تک وہ دروازے تک پہنچی ریکارڈ بجنا بند ہو چکا تھا کمرے میں اب مکمل خاموشی تھی اس نے دھیرے سے دروازے کو ناک کیا
"یس "گھمبیر آواز کمرے میں گونجی وہ جھجکتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی وہ سامنے ہی صوفے پر بیٹھا دکھائی دے گیا
اسے آتے دیکھ کر وہ سیدھا ہو بیٹھا "خیریت ہے "حیرانی سے استفسار کیاگیا
"ہاں بالکل خیریت ہے کیا میں تمہارے کمرے میں بغیر کسی وجہ کہ نہیں آسکتی "اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا اور بے تکلفی سے بیڈ پر بیٹھ گئی اسکی حرکت پر جہانگیر کے ماتھے ہر بل پڑ گۓ بامشکل ضبط کرتے ہوئے اس نے ٹیبل پر سےاخبار اٹھا کر اپنے سامنے کر لیا وہ اسے نظر انداز کر رہا تھا یوں جیسے وہ وہاں اکیلا ہو
نور کا مارے غصے کے برا حال ہو گیا وہ طیش سے آگے بڑھی اور اسکے ہاتھ سے اخبار چھین کر زمین پر پٹخ دیا
"تم نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے اخبار اٹھا کر منہ کر لیا کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟؟؟" وہ پھنکاری
" یہی نا کہ تمہیں میری موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا نہیں ایسا نہیں ہے تم خود سے بھاگ رہے ہو تم چھپتے پھر رہے ہو مجھ سے بھی اور خود سے بھی تم ڈرتے ہو کہ کہیں میرے حسن کے سامنے کمزور نہ پڑ جاو معلوم ہے مجھے تم جیسوں کی کمزوری ہے حسن
اس کی پر جہانگیر کو اپنی کنپٹیاں سلگتی محسوس ہوئیں وہ سرعت سے کھڑا ہوا اور اسے بازو سے دبوچ کر اپنے قریب کیا
"بند کرو اپنی بکواس "اس کی شہد رنگ آنکھیں قہر برسا رہی تھیں
"تم جیسی لڑکیاں آگے پیچھے پھرتی ہیں میرے اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم اس گھٹیا لباس ـ (اس نے تنفر سے اسکے سلیولیس سوٹ کی طرف دیکھا ) اور اپنی واہیات اداؤں سے مجھے اسیر کر لو گی تو تمہاری بھول ہے تمہیں میں صرف بی اماں کی وجہ سے برداشت کر رہا ہوں ورنہ تم جیسی لڑکیوں پر میں ایک کے بعد دوسری نظر ڈالنا گوارا نہیں کرتا "اسکے اتنے سخت الفاظ پر وہ ساکت رہ گئی اس نے جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑا اور دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے مخصوص دھیمے مگر رعب دار لہجے میں بولا
"گیٹ لاسٹ فرام ہیئر "اتنی تذلیل پر نور کی آنکھیں بھر آئیں وہ بھاگتی ہوئی اسکے کمرے سے نکتی چلی گئی ★★★★★★★
حویلی میں شام کا کھانا جلدی کھایا جاتا تھا اب بھی شام کے کھانے کی تیاری ہو رہی تھی صبوحی تیزی سے ہاتھ چلا رہی تھیں کھانا تیار ہوچکا تھا وہ کھانا ٹیبل پر لگانے لگیں وہ پلیٹیں رکھنے جا رہی تھیں جب اچانک قدم لڑکھڑاۓ سنبھلنے کے چکر میں پلیٹیں نیچے گر کر کرچی کرچی ہو گئیں ٹوٹنے کی آواز پر ماہی بیگم دوڑی ہوئی آئیں ٹوٹی پلیٹیں دیکھ کر ان کی آنکھیں صدمے سے پوری کھل گئیں یہ ان کے جہیز کی پلیٹیں تھیں
"وہ باجی س سچ م میں غلطی سے "ابھی صبوحی کی بات منہ میں ہی تھی کہ ماہی بیگم نے انہیں چوٹی سے پکڑ کر زمین پر پٹخا اور اندھا دھند مکے تھپر برسانے لگیں ساتھ ساتھ طعنے و کوسنے بھی جاری تھے
"ہاۓاللہ اتنا نقصان کر دیا ہاتھوں میں جان نہیں ہے کیا منحوس عورت پیسے درختوں پر نہیں لگتے "شور کی آواز سن کر سمعیہ بیگم بھی وہاں آ گئیں سامنے کا منظر ان کے لیے نیا نہیں تھا صبوحی خاموشی سے مار کھا رہی تھیں
"چھوڑو ماہی کیا کر رہی ہو " وہ اسے چھڑوانے لگیں
"بھابھی آپ کو نہیں پتہ میرے جہیز کے برتن توڑ دئیے اس نے... جلتی ہے یہ مجھ سے " وہ ہاتھ چھڑوا کر پھر صبوحی کی طرف بڑھیں
"کوئی بات نہیں جانے دو چھوڑو اسے جاؤ صبوحی تم کمرے میں جاؤ "انہوں نے زمین پر گری صبوحی کو منظر سے ہٹایا وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھیں اور ملازمہ کا سہارا لے کر کمرے کی طرف چل دیں ماہی بیگم ابھی بھی اسے کوس رہی تھیں وہ کمرے میں آکر کتنی دیر ساکت بیٹھی رہی
پہــــلے عشــــقا عشــــقا کر دی ســــی
ہـــن کــــِن مـــن کـــِن مــن رونـــدا اے
کــــوئی وکھـــرا عاشــق نہیــــں جمدا
اینــــج کریۓ تــــے انـــج ہـــــونـــدا اے
★★★★★★★
"ہیلو جیزی" وہ جو مگن سے انداز میں فیس بک یوز کر رہا تھا نسوانی آواز پر چونک کر ادھر ادھر دیکھا مگر یہ کیا یہاں تو کوئی بھی نہیں تھا
"اف خدایا مجھے تو ہر وقت چڑیلوں کی آوازیں ہی سنائی دیتی ہیں "وہ سر جھٹک کر پھر سے موبائل پر بزی ہو گیا تبھی اسے اپنے کندھے پر ہاتھ کا لمس محسوس ہوا اس نے سر اٹھا کر ہاتھ کہ تعاقب میں دیکھا سامنے اس کی سویٹی (روما)کھڑی تھی بے حد حسین اور طرحدار ریڈ ٹاپ اور بلیک جینز میں وہ غضب ڈھا رہی تھی اسے دیکھ کر جازم دلکشی سے مسکرایا
"ارے سویٹی تم آؤ آؤ بیٹھو "وہ اسکا ہاتھ تھام کر بولا وہ اس وقت ٹی پنک شرٹ اور بلیو جینز میں ملبوس تھا روما کی آنکھوں میں ستائش اتری
"کہاں تھے تم اتنے دن سے کالز کر رہی ہوں تم پک کیوں نہیں کرتے "وہ خفگی سے کہنے لگی
"اور یہ کیا کر رہے ہو یہاں "اس نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوۓ پوچھا
"ارے میری سویٹی جان تمہیں اتنا مس کیا میں نے پر وہ میرے بھیا نے میرا موبائل لے لیا تھا میں تم سے رابطہ نہیں کر سکا "وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھاتے ہوۓ محبت سے بولا " اب بھی تمہیں ہی یاد کر رہا تھا "اس نے مزید مسکا لگایا
ـ"تو یہ موبائل ہے تو تمہارے پاس "وہ اس کے ہاتھ میں موجود موبائل کو دیکھتے ہوئے کہنےلگی
"دکھاؤ زرا "اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا اس نے موبائل کھینچ کر اپنے آگے کر لیا سکرین دیکھتے ہی اس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی وہ کسی لڑکی سے chat کر رہا تھا ایک میسج پر تو اس کی نظریں ٹھہر کر رہ گئیں
"ارے میری جان تمہارے علاوہ مجھے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا اتنی لڑکیاں مڑتی ہیں مجھ پر اور مجھے دیکھو رات دن تمہاری یاد میں آہیں بھرتا ہوں"
اگلا میسج " بتاؤ کب آؤ گی ملنے اپنے اس دیوانے سے "
وہ ابھی اتنا ہی پڑھ پائی تھی جب جیزی نے اسکے ہاتھ سے موبائل جھپٹتے ہوئے جیب میں ڈال لیا
"ارے یہ کیا لے کر بیٹھ گئی ہو چھوڑو اسے اتنے دنوں بعد ملیں ہیں کہیں لنچ کرتے ہیں "وہ اسکے گال سہلاتے ہوۓ بولا
"نہیں نہیں... کیا ہے یہ سب؟؟؟ اور یہ میسج یعنی تم چیٹ کر رہے ہو مجھے "وہ تپ گئی
"ارے نہیں یار "وہ جھنجھلایا
"کیا نہیں تم نے مجھے چیٹ کیا تم تم... "وہ غصے سے کھڑی ہو گئی
"اچھا اچھا سنو تو میری بات یہاں بیٹھو میں تمہیں پوری بات بتاتا ہوں "وہ ہاتھ اٹھا کر صلح جو انداز میں بولا وہ تن کر کھڑی اسے گھورتی رہی
"دیکھو وہ جو لڑکی ہے نا وہ میرے پیچھے خود پڑی تھی جان ہی نہیں چھوڑ رہی تھی گھر تک چلی گئی تھی
وہ رونی صورت بنا کر بتانے لگا
"جب بھیا کو پتہ چلا انہوں نے مجھے دھو ڈالا یہ دیکھو "اس نے اشارے سے ناک کے پاس کوئی پرانا نیل دیکھایا وہ پریشان سی ہو کر اس کے پاس بیٹھ گئی
"پھر ؟؟"
"پھر کیا میں اسے بلا کر بدلا لینا چاہتا ہوں ارے وہ دیکھو آگئی "وہ سامنے سے آتی سومر کو دیکھ کر خوشی سے چہکا جو بلیک سلیولیس میکسی میں سیدھا اس کے دل کے اندر گھسی جارہی تھی روما نے اسے گھورا وہ گڑ بڑا گیا
"میں تو بس ایسے ہی " وہ منمنا کر رہ گیا سومر چلتے ہوئے ان کے پاس آ گئی
"ہیلو جیزی ڈئیر ہاؤ آر یو ؟"وہ خوش دلی سے مسکرائی جیزی اٹھ کر کھڑا ہو گیا وہ بے تکلفی سے اس کے گلے لگ گئی جیزی کا منہ کھل گیا (گلے لگنے پر نہیں سویٹی کی موجودگی میں گلے لگنے پر )سویٹی کی غصے بھری نظریں اس کی پشت پر تھیں
"یہ دیکھو تمہارے لیے بریانی لائی ہوں تم نے کہا تھا نا تمہیں پسند ہے "وہ اس سے الگ ہو کر ٹفن اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی جیزی نے خوشی خوشی ٹفن تھام لیا اور وہیں بنچ پر بیٹھ کر کھولنے لگا
"یہ کون ہے ؟؟"سومر نے روما کو دیکھ کر تیوری چڑھا کر پوچھا جیزی اطمینان سے ٹفن کھولنے میں مصروف تھا اس نے کوئی جواب نہ دیا تو سویٹی خود ہی اٹھ کر اس کے سامنے آ گئی
"میں جیزی کی منگتیر ہوں "اس نے دھماکہ کیا
"وہاٹ" سومر کی پوری آنکھیں نکل پڑیں
"یس" روما نے اترا کر کہا
"جسٹ شٹ اپ انگیجمنٹ رنگ جیزی نے مجھے دی ہے انڈر سٹینڈ کیوں جیزی بتاؤ نا "وہ جیزی کی طرف گھومی مگر وہ متوجہ ہوتا تو جواب دیتا موصوف بریانی کھانے میں بُری طرح غرق تھے
"بکواس بند کرو تمہاری وجہ سے اس کے بھائی نے اسے مارا تم بلیک میل کرتی ہو اسے "جواباً روما چیخ کر بولی لوگ ان کی طرف متوجہ ہونے لگے
"ارے جاؤ جاؤ کبھی شکل دیکھی ہے تم نے اپنی سفید چوہیا "سومر نے بھی حساب برابر کیا روما کے تو تلوں پر لگی سر پر بجھی وہ غصے سے اسکی طرف بڑھی اور اس کے خوبصورت سلکی بال اپنی مٹھیوں میں جکڑ کر غرائی
"تم جیسی لڑکیاں ہوتی ہیں جو کبھی کسی کا گھر نہیں بسنے دیتیں پھپھے کٹنی "
"وہاٹ تم نے میرے بال ....میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی یو بچ "اس نے پرس پھینک کر دونوں ہاتھوں سے اس کے بال پکڑ لیے اب وہ دونوں گتھم گتھا ہو چکی تھیں جیزی نے بریانی ختم کر کے جونہی سر اٹھایا آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں
"او مائی گاڈ واؤ ویری نائس "اس نے ہونٹ سیٹی کے اندازمیں سکیڑے ٹفن سائیڈ پر رکھ کر موبائل نکالا اور جلدی سے ایک تصویر کھینچ لی جس میں روما نے سومر کے بال اور سومر نے اسکی گردن دبوچی ہوئی تھی لوگوں کا اچھا خاصہ ہجوم اکٹھا ہو چکا تھا اس نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت حانی اور بغیر ادھر ادھر دیکھے نکلتا چلا گیا
★★★★★★★★
مقـــــدر آزمانے میــــں زمانے بیت جاتـــــے ہیـــــں
مرادیـــں دل کی پانے میں زمانے بیت جاتـے ہیـــں
رکھتــــا کــــوئی ہمـــــت اگـــر اظہــــار الفــــت کی
زبــــاں پر بات لانے میــــں زمانے بیت جاتـــے ہیـــں
محبــــت زنــ دگی میں جو بڑی مشکل سے ملتی ہـــے
مگــــر اس کو نبھــانے میں زمانے بیــــت جاتـــے ہیـــں
اگـــر اک بـــار آنکــــھوں میــــں اچانک آبســـے کـــوئی
اســــے دل ســـے بھــــلانے میــــں زمانے بیت جاتے ہیـــں
رات کا نجانے کون سا پہر تھا وہ کسی گہری سوچ میں گم راکنگ چیئر پر جھول رہا تھا سگریٹ اسکے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں دبا ہوا تھا نجانے وہ اور کتنی دیر سوچوں کے بھنور میں ڈوبا رہتا اگر ٹیبل پرپڑا اس کا موبائل نہ بجنے لگتا وہ سر جھٹک کر موبائل کی طرف متوجہ ہو گیا
"ہاں کہو کیا خبر ہے "اسکا لہجہ کرخت تھا جانے دوسری طرف سے کیا کہا گیا
"کتنے بندے ہیں "
"تین "یک لفظی جواب آیا
"وہی کرو جو پہلے کرتے ہو میں ابھی نہیں آسکوں گا "
اوکے کہہ کر دوسری طرف سے لائن کاٹ دی گئی وہ اٹھ کر بیڈ پر آ بیٹھا آج پھر اس کا زہن ماضی کی لمبی اڑانیں بھر رہا تھا اسکے کانوں میں کسی کی کھلکھلاہٹیں گونج رہی تھیں اور سامنے کا منظر دھندلا رہا تھا
"ارے ارے مہرو چوٹ لگ جائے گی مت بھاگو "وہ اسے پکڑنے کے لیے اس کے پیچھی بھاگ رہا تھا اور وہ ہنستی ہوئی تتلی کے پیچھے بھاگ رہی تھی بے دھیانی میں بھاگتے ہوے ٹھوکر لگنے سے وہ زمین پر گر پڑی اسکے پاؤں پر چوٹ آئی تھی وہ بری طرح رونے لگی
"مجھے تتلی پکڑنی ہے جوجو"وہ روتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی وہ گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا
"میں تمہیں پکڑ دوں گا تم رو مت "وہ اپنی چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اس کے آنسو پونجھنے لگا
"دیکھا لگ گئی نا چوٹ چلو اٹھو چاچی ڈانٹیں گی "وہ اسکے ننھے پاوں پر لگی چوٹ کو دیکھ کر پریشانی ہو گیا تھا وہ سر نفی میں ہلا کر وہیں بیٹھی رہی
"مجھ سے نہیں چلا جا رہا جوجو میں کیا کروں "موٹے موٹے آنسو پھر سے بہنے لگے
"آم م م "وہ ماتھے پر انگلی رکھے کچھ سوچنے لگا پھر چٹکی بجا کر بولا
"ایسا کرو تم میری کمر پر سوار ہو جاؤ میں تمہیں لے جاتا ہوں "
"تم گر جاؤ گے " وہ ڈری
"ارے نہیں گرتا دیکھو کتنا صحت مند ہوں میں "اسنے بازو دکھا کر کہا اور زمین پر بیٹھ گیا وہ اس کی کمر پر سوار ہو گئی ایک دس سالہ بچہ چھ سال کی مہرو کو کمر پر سواری کروا رہا تھا اس کی کھلکھلاہٹوں کی آواز آج بھی اس کی یاداشت میں تازہ تھی اور جب یہ یاد اس پر حاوی ہونے لگتی وہ اذیتوں کی حدوں کو چھو جاتا تھا اب بھی ایسا ہی ہونا تھا وہ سگریٹ پر سگریٹ سلگا رہا تھا
سلــــگتی تلــــخ یــــادوں ســــــے
بــــڑے بــے درد ہــــاتھوں ســـــے
محـــــبت ہــــار دی تـــــم نــــــــے
محــــبت مــــار دی تــــم نـــــــے
اس نے وحشت کے عالم میں سائیڈ ٹیبل پر پڑا گلاس اٹھا کر سامنے دیوار میں دے مارا گلاس ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا
"یونہی ٹوٹا ہوں یونہی توڑا ہے تم لوگوں نے مجھے میں بھی توڑ دوں گا تم لوگوں کو ....توڑ دوں گا "وہ اپنے بال مٹھیوں میں جکڑے خود کلامی کر رہاتھا کھٹکے کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا بی اماں کمرے میں داخل ہو رہیں تھیں اسکی حاکت دیکھ کر دنگ رہ گئیں
"یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے "وہ پریشانی سے اسکی
طرف بڑھیں
*#جاری_ہے*
No comments: