Ads Top

میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے ساتویں قسط



میرا نام ہے محبت از فرحت نشاط مصطفے 
ساتویں قسط 
 پیپرز کا ہنگامہ شروع ہوتے ہی گویا یونیورسٹی میں جیسے بھونچال آگیا تھا سب پڑھائی میں غوطہ زن تھے کبھی نہ پڑھنے والے جنہوں نے کبھی کتاب کھول کے نہیں دیکھی تھی اب نوٹس کے چکروں میں گھوم رہے تھے دانی کو بھی کتابوں میں سر دینا یاد آگیا تھا سبوخ تو ہمیشہ لائق اسٹوڈنٹ رہا تھا مگر اس بار وہ صحیح معنوں میں اپنی جان لگا رہا تھا آخر کو اس کی ناک کا معاملہ تھا ....مقابلہ تھا گل مہر کے ساتھ ٹکر والا محبت اپنی جگہ اتنے عرصے میں سبوخ کو یہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ وہ پڑھائی میں اسے کافی ٹف ٹائم دینے والی ہے سو اب وہ ساری شرارتیں بھلائے صرف پڑھائی کررہا تھا اور گل مہر اس کی تیاری مکمل تھی پوری یونیورسٹی میں شاید وہ واحد تھی جو اتنے پرسکون طریقے سے پیپر دے رہی تھی اسکا یہ سکون کومل اور سونیا کو ہضم نہیں ہورہا تھا 
"کومل.....گل مہر اتنے سکون میں کیوں ہے اسے پیپر کی کوئی ٹینشن کیوں نہیں ہے?" 
 "پیپر کا مطلب یہ تو نہیں بندہ اپنا بی پی بڑھا لے ویسے بھی میری تیاری مکمل ہے اسی دن کیلئے کہتی تھی پڑھ لو اب عین ٹائم پہ بوتھیاں سجائیں ہوئیں ہیں سب نے" مہر نے لتاڑتے ہوئے کہا 
 "ہاں بھئی جینئس ون ....کچھ بھی کہہ سکتی ہو ...ویسے سبوخ آفریدی بھی بڑا مگن ہے پڑھائی میں اب پتہ چلے گا" کومل نے جیسے کوئی بہت بڑی اطلاع دی 
 " اچھی بات ہے یہ تو کسی بہانے سہی یہ لڑکے پڑھیں گے تو سہی ورنہ مستیوں میں ہی لگے رہتے ہیں" گل مہر نے یوں کہا جیسے رتی برابر پرواہ نہ ہو مگر درحقیقت اس کے کان کھڑے ہوچکے تھے 
یعنی اسکی پوزیشن خطرے میں تھی ....تھوڑا ایکسٹرا ورک کرنا پڑے گا 
 "اوہو....بڑا خیال ہے پڑھائی کا لوگوں کی اف کہیں یہ سپنا تو نہیں" سونیا آنکھیں بند کرتے ہوئے مزے سے بولی 
 "الو ہو تم....ہر بات کا الٹا مطلب نکالتی ہو میرا کونسا اسکے ساتھ چھتیس کا آنکڑا ہے کلاس فیلو ہے وہ ہمارا اور میں نے یہ سب لڑکوں کے بارے میں کہا تھا " گل مہر برا مناتے ہوئے بولی تھی 
کیا آفت لڑکی تھی سونیا 
 "چلو کسی بہانے سہی تم نے سائیڈ تو لی بے چاروں کی ورنہ تو ہر وقت بے چاروں کی محبت کا ان کاؤنٹر کرتی رہتیں تھیں" کومل نے شکر ادا کرتے ہوئے کہا 
پپرز کے باعث گل مہر کی سرگرمیاں معطل تھیں 
 "یہاں پڑھائی کیلئے آتے ہیں تو صرف پڑھائی ہی ہونی چاہئیے دوسری کوئی چیز نہیں" گل مہر کے اپنے ہی اصول تھے 
" کیوں بھئی یہ یونیورسٹی آپ کی جاگیر ہے جہاں آپکے اصول چلیں" دانی کی زبان پھسل گئی تھی 
جوابا گل مہر نے اسے قہر بھری نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا تھا 
 "اگر میری جاگیر نہیں تو آپ کی بھی نہیں ہے یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں تو اسکا تقدس برقرار رکھنا بھی ہمارا فرض ہے نالائقوں ضروری نہیں کہ کسی کے نام پہ لگے گی تو ہی یہ ہوگا" 
دانی سر پہ ہاتھ پھیر کے رہ گیا تھا بڑے غلط موقعے پہ اس کی زبان پھسلی تھی 
وہ تو سونیا سے نوٹس مانگنے آیا تھا 
" تجھے کس نے کہا تھا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کو ایویں ٹھنڈ پڑگئی" مامون نے جھاڑا 
 " بس یار....ویسے یہ سبوخ آفریدی کا ستارہ گردش میں آیا ہے جو اس نے اس پتھر دل کو دل دیا ہے" دانی نے کہا 
 "بیٹا تو وہ کونسا کم ہے پانچ سال سے ہم ساتھ ہیں اور پہلی بار سبوخ آفریدی کے دل کے تار بج اٹھے ہیں تو اسکا مطلب کہ لگن سچی ہے" مامون نے بتایا 
" اللّه کرے" دانی نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا 
اسے تو کوئی آثار نہیں لگ رہے تھے سبوخ کی کامیابی کے 
_____________________________________
 ادھر پیپرز ختم ہوئے اور ادھر سب کٹی ہوئی پتنگ کی طرح بکھر گئے گل مہر نے گھر میں رہنے کی ہی ٹھانی تو سونیا اور کومل جو آپس میں کزنز بھی تھیں اسلام آباد شادی میں پہنچ گئیں تھیں دانی اور مامون گاؤں پہنچ گئے تھے تو سبوخ کو بھی وادی کی یاد آگئی تھی 
 کافی عرصہ ہوگیا تھا اسے وادی گئے ہوئے اور اب تو شمریز خان بھی اپنا ایم بی بی ایس مکمل کر کے وادی لوٹ چکا تھا اور ان دنوں اسپتال بنانے کی تیاریوں میں لگا ہوا تھا وادی کو ایک مکمل سہولیات سے مزین اسپتال کی اشد ضرورت تھی 
 "یہ اسپتال بن جانے سے سب کو بہت سہولت ہوجائے گی شمریز .....اور پھر سیاسی لحاظ سے بھی ہمیں بہت فائدہ ہوگا ہماری ووٹنگ ڈیویلپ ہوگی" سبوخ ایک ماہر سیاستدان کی طرح جمع تفریق کررہا تھا 
 " سب کو نہیں سبوخ صرف اس حصے کے لوگوں کو ....اس پار والے آنا بھی چاہیں تو نہیں آسکتے" شمریز خان نے سنجیدگی سے کہا 
 وادی کے بیچ میں ایک جھیل بہتی تھی جو وادی کو دو حصوں میں تقسیم کرتی تھی شمریز خان کا اشارہ اس حصے کی طرف تھا جہاں پرویز خان کا سکہ چلتا تھا اور ازلی دشمنی کے چکر میں وادی دو حصوں میں تقسیم تھی 
 " مگر کیوں بھئی .....جب وادی ایک ہے تو پھر یہ تفریق کیوں اسطرح سے تو وہ لوگ ہمیشہ محروم رہیں گے ....ہمیں بات کرنی چاہئیے وہاں والوں سے " سبوخ نے کہا نظریں جھیل کے اس پار جا رہیں تھیں کتنا فرق تھا دونوں حصوں میں 
 " سبوخ تم ہمیشہ یہاں سے دور رہے ہو تمہیں نہیں معلوم یہ لوگ بہت ضدی ہیں صرف اپنے فائدے کو پیش نظر رکھنے والے سالوں سے انکی بنیاد کوئی نہیں ہلاسکا ہمارے اور انکے درمیان صرف گولیوں کی زبان میں بات ہوتی ہے بس" شمریز افسوس سے بول رہا تھا 
 "آپس کی دشمنی میں پوری وادی کا نقصان ہورہا ہے اگر مل کے کام کیا جائے تو مثل جنت یہ وادی واقعی جنت لگے" سبوخ نے بھی کہا 
"چل زیادہ غم نہیں کرتے سبوخ ایک دن تو یہ سرد برف پگھلے گی ہی " شمریز خان نے کہا 
ہواؤں نے رک کے اسکی بات کو سنا پھر کچھ سرگوشی کی 
" ہاں ایک دن یہ برف پگھلے گی مگر کسی کی خون کی گرمی سے " 
اور اپنے راستے پہ چل دی تھی 
_____________________________________
"مہر...." رخ نے پکارا 
"ہاں کیا ہوا رخ" گل مہر سلائیوں میں الجھی ہوئی تھی 
آجکل نٹنگ کا بھوت سوار تھا 
" وہ امداد خان آیا ہے وادی سے پوچھ رہا ہے آپکا" گل رخ نے بتایا 
" میرا....مگر کیوں" مہر حیرانی سے بولی 
" پتہ نہیں" رخ نے شانے اچکائے 
" اچھا دیکھتی ہوں" مہر دوپٹہ درست کرتے ہوئے اٹھی تھی 
"سلام خانم" امداد خان مودب سا بولا 
" والسلام .....خیریت بھئی " مہر نے سوالیہ لہجے میں کہا 
"وہ آپ کو ایک امانت دینی تھی خانم" 
" کیسی امانت?" کچھ حیرانگی سے سوال پوچھا 
"یہ خط ہے آپ کیلئے" امداد نے اسکی طرف لفافہ بڑھایا 
"خط....کس کا " مہر نے لفافہ پکڑتے ہوئے سوچا 
 گل شفا ہی تو تھی ایک اور اسکے مرنے کے بعد بھلا کون لکھتا اسے خط .....مگر لفافہ کھولتے ہی یہ عقدہ کھل گیا تھا 
 "اسلام علیکم.....آپ کو خانم لکھوں یا آپکو نام سے پکاروں کچھ سمجھ ہی نہیں آتا مگر پھر سوچتی ہوں ویسے ہی پکاروں جیسے گل شفا کو پکارتی تھی ....آپ بھی تو اسکی طرح ہیں میرے لئے...گل شفا جو مرگئی اور گل نین کو اکیلا چھوڑ گئی ...اپنی چھوٹی بہن کو...چھوڑ کے تو اس نے ویسے بھی چلے جانا تھا ہمیں مگر ڈولی میں بیٹھ کے اپنے دولہے کے ساتھ ....مگر ایک بات بتاؤں ہماری لڑکیوں کے نصیب میں نہ بارات کی ڈولی میں نہیں بلکہ جنازے کی ڈولی میں بیٹھ کے رخصت ہونا لکھا ہے ..اکثر کو تو وہ بھی نصیب نہیں ہوتی کوئی کھائی ہی انکا مقدر بنتی ہے خانم...یہ بڑا ہونا بھی کیسا عذاب ہے کیسی سزا ہے? وادی کی لڑکیوں کیلئے....یہ وادی میں رہنے کا خراج ہم سے کیوں وصول کیا جاتا ہے مہر...پتہ ہے لوگ کیا کہتے ہیں جب کسی بھی جوان لڑکی کی لاش دریا,جنگل یا کھائی سے ملتی ہے کہ اسے یقینا کسی روح نےمارا ہے بلی چڑھائی ہے اسکی ...ایک طرح سے سچ ہی کہتے ہیں... مگر اس خبیث جیتی جاگتی روح کو کوئی نہیں تلاشتا کہ وہ ایسا کیوں کرتی ہے اسکے منہ کو زائقہ لگ چکا ہے رنگ برنگی کلیوں کے رس کا کوئی جا کے ان ہاتھوں کو نہیں توڑتا جو ہمارے سر کی چادروں تک پہنچ جاتے ہیں.....وادی میں لڑکی کا بڑا ہونا گناہ ہے خانم اذیت ہے ...گل شفا بھی مرگئی اس اذیت کو اٹھاتے ہوئے میں بھی سمجھتی تھی کہ اسے کسی بھوت نے مارا ہے مگر خود پہ جب جوبن آیا ہے جوانی کا تو پتہ چلا ہے حقیقت کا ...گل شفا کو بربادچکردیا مہروز خان نے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ...مہروز ایسا ہے مگر شمروز ایسا نہیں ہے خانم وہ تو آنکھ بھی نہیں اٹھاتا جب وادی آتا ہے مگر گلباز وہ تو پورا مہروز خان بننے جا رہا ہے ....کوئی دن جاتا ہے جب میری لاش بھی شاید کسی کھائی سے ملے...نا نا افسوس نہ کرو خانم یہ وادی کی لڑکیوں کا نصیب ہے تم تو خوش نصیب نکلیں کہ تمہارا باپ تمہیں یہاں سے بہت دور شہر لے آئے تم بچ گئیں تمہاری بہنیں بھی ....مگر خانم ایک بات سن لو تم حکمران ہو تم سے روز محشر سوال کیا جائے گا عوام کی عزت کی پاسبانی کا ....تم منہ چھپا کے شہر بیٹھ گئے ہو مگر دیکھنا ایک دن کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے گھر کو اس آگ میں بھی جلنا پڑے جس میں ہر روز وادی کی کوئی نہ کوئی بیٹی جلتی ہے...میں بددعا نہیں دے رہی خانم دے ہی نہیں سکتی بھلا کوئی اپنی بہن کو بھی یوں بولتا ہے مگر جب آگ لگتی ہے تو سب خاک ہوتا ہے ....گل شفا کو تم سے بہت امیدیں تھیں مہر وہ تو مر گئی اس سے پہلے کہ کوئی اور بھی مرجائے تم لوٹ آؤ مہر ایک تم ہی میرا آسرا ہو
والسلام ....گل نین" 
گل مہر کے آنسوؤں سے پورا خط بھیگ چکا تھا کرب کی سرخی نیلے سمندروں میں پھیل رہی تھی 
سوچ کا عزم ذہن کے دریچے میں مزید پختہ ہوچکا تھا 
_____________________________________
 یونی دوبارہ شروع ہوچکی تھی سب واپس لوٹ آئے تھے نہیں لوٹی تھی تو ایک گل مہر نہیں لوٹی تھی اس سمسٹر کی ٹاپر .....اسکی فرسٹ پوزیشن آئی تھی جبکہ سبوخ دوسری پہ تھا ....دانی اور مامون نے صحیح ریکارڈ لگایا تھا اسکا 
مگر سبوخ کو مہر کا انتظار تھا جو آ کے ہی نہیں دے رہی تھی 
دو ہفتے ہونے والے تھے سبوخ نے پھر پوچھ ہی لیا تھا 
" ایکسکیوزمی...مس سونیا" سبوخ نے پکارا
" جی..." 
"یہ مس گل مہر نہیں آرہیں کافی دنوں سے....ایوری تھنگ از آل رائٹ" سبوخ نے پوچھا 
"ایکچوئلی وہ اسپتال میں ہے" سونیا کی اطلاع تھی 
یا دھماکہ سبوخ سناٹے میں ہی رہ گیا تھا 
_____________________________________
 جاری ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.