ﻧﺎﻭﻝ رکھیل از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر 7
کبیردادا کے رخصت ہوتے ہی تناوش گھر جانے کے لیے ڈرائیور کو دیکھنے لگی۔ گیراج میں اسے وہی سفید کار کھڑی نظر آرہی تھی جس میں دودن پہلے وہ گھر تک گئی تھی ۔الٰہی بخش نامی ڈرائیور اسے گھر تک چھوڑ کر آیا تھا ۔ڈرائینگ روم میں آکر اس نے ملازمہ کو آواز دی ۔
”راحت خالہ !....بات سنیں ۔“
”جی بی بی ۔“وہ باورچی خانے سے برآمد ہوئی ۔
”الٰہی بخش کو کہو گاڑی لگائے میں نے گھر تک جانا ہے ۔“
بیزاری بھرے انداز میں سرہلاتے ہوئے وہ باہر نکل گئی ۔
اس کا ارادہ گھر سے اپنے کپڑے وغیرہ لانے کا تھا ۔گو وہ کبیردادا کو بھی کہہ کر نئے کپڑے منگوا سکتی تھی اور اسے یقین تھا کہ اس بات پر وہ بیزاری کا اظہار بھی نہ کرتا مگر جانے کیوں وہ اسے اپنی کسی بھی ضرورت کے متعلق نہیں بتانا چاہتی تھی ۔
ملازمہ نے اسے گاڑی لگنے کی اطلاع دی اور وہ اٹھ کر باہر کی طرف چل دی ۔تیاری تو کوئی کرنا نہیں تھی کہ اس کے پاس ایک ہی کپڑوں کا جوڑا تھا ۔
اسے قریب آتا دیکھ کر ادھیڑ عمر ڈرائیور نے کار کا عقبی دروازہ کھول دیا ۔پچھلی مرتبہ کے بر خلاف اس دفعہ اس کے دل میں کار میں بیٹھتے ہوئے کوئی جھجک موجود نہیں تھی ۔گھر کے سامنے اترتے ہوئے اس نے ڈرائیور کو تین گھنٹے بعد آنے کا کہا اور گھر میں گھس گئی ۔ماں اسے گھر پر ہی ملی تھی ۔اسے دیکھتے ہی بشریٰ خاتون خوشی سے کھل اٹھی تھی ۔
”ارے میرے شہزادی آئی ہے ۔“ماں نے بھاگ کر اسے گلے سے لگا لیا تھا ۔اسے بھی یوں لگ رہا تھا جیسے وہ بڑے عرصے بعد ماں کو مل رہی ہو ۔
”کبیر بیٹا نہیں آیا۔“ماں اس کی پیشانی چوم کر اسے ساتھ لیے چارپائی پر بیٹھ گئی ۔
”اس کے پاس اتنا وقت کہاں ماں جی ۔“
”اچھا رات کو کیا ہوا تھا ۔جب تم ملازموں کے ساتھ چلی گئی تھیں تو خود یہا ں دلھن لینے پہنچ گیا ۔“
”ہاں ....ماں وہ اصل میں بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں ۔“تناوش جان بوجھ کر اصل بات گول کر گئی ۔
”بیٹی سچ سچ بتاﺅ خوش تو ہونا ۔“
”آپ سنائیں رات کیسی گزری ۔“اس نے ماں کی بات کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی ۔
”رات تو اچھی گزری ہے ،مگر میں نے کچھ پوچھا ہے ۔“
”امی جان !....شادیوں اور معاہدوں میں فرق ہوتا ہے ۔کبیر علی خان کا احسان ہے کہ انھوں نے نکاح پڑھوا کر میری عزت رکھ لی ۔“
بشریٰ فلسفیانہ لہجے میں بولی ۔”تو کیا ضرورت تھی آسمان سے گرتے وقت کھجور میں اٹکنے کی ۔“
تناوش تلخی سے بولی ۔”جب سینے میں نفرت کی آگ جل رہی ہو تو وہ کچھ بہتر سوچنے کا موقع نہیں دیتی ۔“
”پچھتا رہی ہو ؟“بشریٰ نے دکھی دل سے پوچھا ۔
”بالکل بھی نہیں ،بس ڈرتی اس بات سے ہوں کہیں وہ مجھے طلاق نہ دے دیں ۔“
”باﺅلی تو نہیں ہوئی ہو۔“ بشریٰ نے حیرانی بھرے لہجے میں پوچھا ۔”ایک غنڈے کے ساتھ ساری زندگی گزارنا چاہتی ہو ۔اس سے بہتر تھا اسی دلاور شیخ سے شادی کر لیتیں ۔تمھارا بھائی تو نہ جاتا ۔“
”ماں جی !....میں اس قابلِ نفرت شخص کے ساتھ ساری زندگی کیسے گزارتی ۔“
”اور یہ کیسا ہے ۔“
”بتایا تو ہے ،ہمیشہ اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں ۔“
”بے وقوف حرا م کی دولت کی چکا چوند بس عارضی خوشی فراہم کرتی ہے ۔“
تناوش نے منھ بنایا۔”اگر مجھے اس کی دولت سے کچھ لینا ہوتا تو گھر سے اپنے پرانے کپڑے سمیٹنے نہ پہنچ جاتی ۔“
”پھر کیا بات ہے ۔“
”ماں جی !....آپ نے ابوجان سے پسند کی شادی کی تھی نا ں؟“وہ ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی ۔
”ہاں بیٹی !....مگر وہ بے وفا ہمیشہ ساتھ رہنے کا عہد نہ نبھا سکا ۔“بشریٰ اپنے محبوب شوہر کی یاد میں کھو گئی تھی ۔
”ابو جان !....آپ کو کیوں اتنا پیارا تھا ماں جی !“
بشریٰ اس کے ماتھے پر لب رکھتے ہوئے شفقت سے بولی ۔”کسی کا پیارا لگنا اختیار میں تھوڑی ہوتا ہے پگلی ۔“
تناوش نے معنی خیز لہجے میں پوچھا ۔”مطلب آپ جانتی ہیں کہ کسی کو چاہنا بے اختیاری فعل ہے ۔“
”ہاں جانتی ہوں ،مگر برابری اور مسابقت بھی کوئی حیثیت رکھتی ہے چندا!.... کبیر علی خان بہت بڑی شخصیت ہے اور ہم نہایت حقیر ہم کبھی اس کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے ۔تم اس کے نزدیک ایک کھلونے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہو ۔اور جب کھلونے سے دل بھرجایا کرتا ہے تو اسے توڑ دیا جاتا ہے یا کسی کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔“
وہ عزم سے بولی ۔”فکر نہ کریں ماں جی !....اگر میں اس کے مقا م تک نہیں پہنچ سکتی تو اسے اپنی حیثیت تک لے آﺅں گی ۔“
”بہتر تو یہی ہو گا کہ طلاق لے کر دوبارہ اپنا گھر بسا لو ۔اگر لوگوں کی باتوں سے ڈرتی ہو تو ہم یہ گھر بیچ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔اب تو یوں بھی اس موذی دلاور شیخ سے جان چھوٹ گئی ہے ۔“
ماں جی !....شریف لڑکیاں طلاق کا مطالبہ نہیں کیا کرتیں ۔“
بشریٰ ہنسی ۔”ٹھیک ہے جی شریف لڑکی نہ کرے مطالبہ ۔بدمعاش لڑکا خود ہی طلاق دے دے گا ۔“
”بد دعائیں تو نہ دیں ماں جی !....“
”اچھا کچھ نہیں کہتی میری گڑیا !.... یہ بتاﺅ کھانا کھاﺅ گی کہ نہیں ۔میرا تو دل نہیں چاہ رہا تھا اس لیے کچھ بھی نہیں بنایا ۔اگر تمھارا دل کر رہا ہے تو کچھ اچھا بنا لیتی ہوں ۔“
”ہاں بالکل کھاﺅں گی ،کوئی اچھی سی سبزی بنا لیں اتنی دیر میں میں اپنا سامان سمیٹ لوں ۔“
٭٭٭
”ماں جی !....وہ پرانا موبائل فون کدھر ہے ۔“
”کیا کرنا ہے ؟“بشریٰ نے باورچی خانے سے آواز دی ۔
”ساتھ لے کر جاﺅں گی ۔“
”تو اپنے والا لے جاﺅ ۔“
”نہیں وہ آپ کے کام آئے گا ۔“
”میرا خیال ہے وہ میرے والے ٹرنک میں پڑا ہو گا۔“
اس کا پرانا موبائل فون کچھ زیادہ ہی پرانا تھا مگر ماں سے رابطہ کرنے کے لیے اس نے ساتھ لے جانا مناسب سمجھا تھا ۔کبیر دادا کو وہ اپنی کسی بھی ضرورت کے متعلق نہیں بتانا چاہتی تھی۔
ماں کے کھانا بنانے سے پہلے ہی وہ اپنا مختصر سا سامان لپیٹ چکی تھی ۔اس کا کتابوں والا بیگ اتنا بڑا نہیں تھا کہ وہ سامان اس میں سما سکتا مجبوراََ اسے شاپروں ہی میں تمام سامان ڈالنا پڑا ۔اپنی کتابیں بھی اس نے ساتھ رکھ لی تھیں ۔امتحانات قریب تھے داخلے جا چکے تھے ،کبیر دادا سے بات کر کے وہ بارہویں کا امتحان تو دے ہی سکتی تھی ۔
اپنے کام سے فارغ ہو کر وہ ماں کے پاس باورچی خانے میں گھس کر اس کا ہاتھ بٹانے لگی ۔
کھانا کھا کر وہ جانے کے لیے تیار تھی ۔ڈرائیور کو دیا ہوا وقت بھی پورا ہو گیا تھا ۔ٹھیک تین گھنٹے بعد گھر کے باہر ہارن کی آواز سنائی دی ۔ماں سے الوداعی پیار لے کر وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔ڈرائیور اسے گھر سے برا ٓمد ہوتے دیکھ کر کار سے نکلا اور جلدی سے عقبی دروازہ کھول دیا ۔
٭٭٭
خفیہ اڈے پر پہنچنے سے پہلے ہی اسے شہاب شاہ قصوری کی کال آگئی تھی ۔وہ اس سے ملاقات کرنا چاہتا تھا ۔کبیردادا نے اڈے میں گھسنے کے بجائے شہاب شاہ سے ملنا ضروری خیال کیا۔اس کے حکم پر ڈرائیور نے گاڑی شہاب شاہ کی کوٹھی کی طرف موڑ دی ۔وہاں وہ اکیلا نہیں تھا۔ اخلاق حسین شاہ ، سپرنٹنڈنٹ پولیس ضمیر حسین اوڈھو ، نوشاد خان آفریدی،بابر حیات اور نقیب اللہ جان وہاں موجود تھے ۔تمام جرم کی دنیا کے بڑے بڑے نام تھے ۔دیکھا جاتا تو کراچی کے اصل مالک یہی تھے ۔انھوں نے اپنے کام کرنے کے علاقے بانٹے ہوئے تھے ۔ہر ایک اپنے علاقے میں خود مختار تھا ۔بھتہ خوری ،منشیات فروشی ،اسلحے کی اسمگلنگ ،اغواءبرائے تاوان ، ٹارگٹ کلنگ ،شراب خانے ،جوئے کے اڈے ،جسم فروشی کے اڈے وغیرہ چلانا اور اس کے علاوہ بھی بے شمار جرائم کی دلدل میں وہ گردن تک دھنسے ہوئے تھے ۔ثواب و گنا ہ ان کی نظر میں فرضی اور خیالی باتیں تھیں ۔وہ اللہ پاک کی ذات پر ایمان رکھتے تھے یا نہیں اس بارے انھوں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچا تھا ۔
وہ تمام ڈرائینگ روم کے بجائے ملاقات کے کمرے میں ایک لمبی میز کے گرد بیٹھے تھے ۔صدارت کی کرسی پر شہاب شاہ قصوری بیٹھا تھا ۔اس کے دائیں جانب پہلی کرسی کبیر دادا کے لیے خالی پڑی تھی ۔کبیر دادا کی بغل میں ایس پی بیٹھا تھا جبکہ اس کے سامنے نوشاد خان آفریدی اور اس کی بغل میں اخلاق حسین شاہ براجمان تھا ۔کچھ کرسیاں خالی پڑی تھیں یقینا وہاں تمام لوگ حاضر نہیں تھے ۔
”شاید کوئی خاص مسئلہ ہے جو اتنے معززین جمع ہیں ۔“کبیر دادا نے اندر داخل ہوتے ہی مزاحیہ انداز میں کہا اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا ۔اس کی بات پر سوائے شہاب کے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں ابھری تھی ۔ان کے سامنے دھرے خالی گلاس اس بات کو ظاہر کر رہے تھے کہ وہ بیٹھک کافی دیر سے جاری تھی ۔ایک کونے میں لگی میز پر مختلف رنگوں کی بوتلیں موجود تھیں جن میں سنہری ،کالے ،ارغوانی اور سرخ رنگ کی بوتلیں دھری تھیں ۔جس کسی کو حاجت ہوتی وہ خود ہی اٹھ کر اپنا گلاس بھر لیتا ۔
”تو ....“تمام کو خاموشی پر رضامند پا کر وہ شہاب کی طرف متوجہ ہوا ۔
شہاب نے پوچھا ۔”آپ نہیں جانتے ؟“
کبیر دادا بیزاری سے بولا۔”بلایا ہے تو بات کرنا آپ کا بنتا ہے ۔“
” دو ٹکے کی چھوکری کے لیے ایک معزز شخص کی توہین کی گئی ہے ۔“اس کے سامنے بیٹھے نوشاد خان آفریدی نے غصہ چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔
ایک لمحے کے لیے غصے کی تیز لہر نے کبیردادا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ،مگر پھر اس نے خود پر قابو پا لیا ۔نوشاد آفریدی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے وہ تیکھے لہجے میں بولا ۔ ”سنا ہے تم نے دو دو ٹکے کی دو عورتوں کو گھر میں رکھا ہوا ہے ،اگر ان میں سے کسی ایک کو کوئی معزز پکڑ کر لے جائے تو یقینا خیر سگالی کے طور پر تم دوسری بھی اس کے پاس بھجوا دو گے ۔“
”کبیردادا منھ سنبھال کر بات کرو ۔“ نوشاد آفریدی غصہ کنٹرول نہیں کر سکا تھا ۔”وہ میری بیویاں ہیں ۔“
کبیر دادا نے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔”تو میں نے کھوتی پال رکھی ہے ۔“
”وہ ایک رکھیل ہے ،بازاری عورت .... دلاور شیخ پچھلے دو سال سے اسے استعمال کر رہا تھا اور سنا ہے گزشتا رات خاور شیخ بھی مرنے سے پہلے اس سے بہرہ مند ہو چکا تھا ۔“نوشاد کا لہجہ خاصا استہزائیہ تھا ۔
”نغمہ بیگم تین سال تک ماڈل رہی اس دوران درجنوں باہر سے آنے والے سرکاری مہمانوں کو پیش ہوتی رہی اور اب وہ تمھاری نیک پروین بیوی بن گئی ہے ۔“کبیردادا نے اس کی دوسری بیوی کے خفیہ زندگی کے راز آشکارا کیے ۔
”شہاب صاحب !....ہم یہاں بے عزت ہونے کے لیے نہیں آئے ۔“نوشاد آفریدی، شہاب کی طرف متوجہ ہوا ۔
”کبیر دادا!....پلیز ۔“شہاب خان کا لہجہ مفاہمت سے پر تھا ۔
”شہاب صاحب !....نوشاد کی زبان کو بھی لگام دو ....وہ میری منکوحہ ہے اور اس کے بارے اگر یہ بکواس کرے گا تو ایسا سننے کو ملے گا ۔“
”کبیردادا !....آپ خود شہاب شاہ صاحب کے سامنے اعتراف کر چکے ہیں کہ اس لڑکی کو آپ چند دن کے لیے ہی گھر لے کر آئے ہیں ۔جبکہ کسی دوسرے کی بیوی کے متعلق بات کرتے وقت یہ سوچ لیں کہ تمام نے مستقل بنیاد پر شادی کی ہوئی ہے ۔“اس مرتبہ ایس پی ضمیر حسین اسے مخاطب ہوا تھا۔
”ایس پی صاحب !....میں اسے ایک دن اپنے پاس رکھوں یا ہمیشہ ،یہ میرا ذاتی فعل ہے اور کسی سورما کو میں یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ میری عزت پر ہاتھ ڈالے ۔ اخلاق حسین کی خوش قسمتی ہے کہ اس نے خود اس لڑکی کو ہاتھ نہیں لگایا ورنہ یقینا آج شکایت کے لیے یہاں اس کا جانشین بیٹھا ہوتا ۔“
”کبیردادا ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہنیں ۔“اخلاق حسین شاہ بھڑک اٹھا تھا ۔
کبیردادا نے اطمینان بھرے انداز میں کہا ۔”نہیں پہنیں تو پہنا دوں گا اور پہناﺅں گا بھی دھات کی تاکہ توڑ کر ہاتھوں سے نکالی نہ جا سکیں ۔“
”کبیردادا !....آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپس کا معاہدہ توڑ دیں اور پھر جس کی جتنی طاقت ہے وہ اس کے ساتھ میدان میں آجائے ۔“نقیب اللہ جان نے بھی کبیردادا ہی کو قصوروار ٹھہرایا تھا ۔
”کبیرداداتھوڑا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں ،خواہ مخواہ بات بڑھانے سے کچھ نہیں ملے گا ۔“شہاب نے اسے نرم کرنا چاہا ۔
کبیردادا کو صاف نظر آرہا تھا کہ اس کی آمد سے پہلے اخلاق حسین اپنے لیے میدان ہموار کر چکا تھا ۔
”بابر صاحب !....آپ بھی کچھ بولیں تاکہ میں ایک ساتھ تمام کو جواب دے سکوں۔“کبیردادا نے خاموش بیٹھے بابر حیات کی رائے بھی جاننا چاہی ۔
بابر حیات کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے گویا ہوا ۔”جو کچھ سنا ہے اس کے مطابق تو آپ ہی غلطی نظر آرہے ہیں ،کیونکہ اس سے پہلے بھی ہم ایک دوسرے کی رکھیل اور منظور نظر پر ہاتھ ڈالتے رہے ہیں ،مگر اس کی وجہ سے کبھی کسی گینگ کے سربراہ پر ہاتھ نہیں اٹھایا گیا ۔البتہ کسی کارندے وغیرہ کو مار کر بدلہ لینا عام سی بات ہے ۔ہم تمام تو علاحدہ ہوتے ہوئے بھی ایک ہیں ، غصہ کرنا اور لڑنا جھگڑنا تو عام بات ہے مگر ایسی صورت میں بھی ہم ایک دوسرے پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔“
کبیردادا نے طائرانہ نگاہ تمام کے چہرے پر ڈالی اور کہنے لگا ۔”تمام حضرات اخلاق حسین کی یک طرفہ گفتگو سن کر مجھے غلط گردان ر ہے ہیں ،حالانکہ اس معاملے میں سراسر اخلاق حسین غلطی پرہے ۔کل میرا نکاح تھا اور میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اس لڑکی کو چھیڑنے والادلاور شیخ کس کا آدمی ہے ۔لیکن اس ضمن میں میں نے نہ تو اخلاق حسین کو کچھ کہا اور نہ شہاب صاحب کو کوئی شکایت کی ،البتہ دلاور شیخ سے حساب کتاب کرنا میری مجبوری تھی ۔رات ہی کو اخلاق حسین شکایت کرنے شہاب صاحب کے پاس پہنچ گیا اور اسی وقت میں نے اپنی صفائی پیش کر دی تھی۔ اسے یہ شکایت تھی کہ میں نے اس محلے میں اس کے آدمیوں کا داخلہ کیوں بند کر دیا ۔اب ان پندرہ بیس گھرانوں پر تو اس کی سیاست یا غنڈہ گردی کا انحصار نہیں ہے نا ۔اس کا کہنا تھا کہ کبیردادا نے جو لوگوں کے مجمع میں بیٹھ کر اعلان کیا ہے کہ اب اس محلے میں کوئی غنڈہ نہیں آئے گاتو وہ اعلان بس کہنے کی حد تک ہی رہے ۔جبکہ کبیردادا کبھی زبان دے کر نہیں پھرا یہ بات آپ تمام لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں ۔وہاں سے جناب خفا ہو کرچلے گئے اور مجھے بے عزت کرنے اور نیچا دکھانے کے لیے اپنے آدمی میری منکوحہ کے گھر بھیج دیے جو اسے دھوکے سے خاور شیخ کی کوٹھی پر لے گئے ۔مجھے جب اپنی بیوی کے غائب ہونے کا پتا چلا تو میں سیدھا اس کے پاس پہنچا اور اپنی منکوحہ کے بارے استفسار کیا ۔محترم الٹا مجھ پر طنز و تشینع کے تیر چلانے لگا ۔مجبورا میرا بھی ہاتھ اٹھ گیا ۔ اور اس کی خوش قسمتی کہ خاور شیخ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا ورنہ اس پر میرا قرض باقی تھا ۔اب وہ قرض اس سے کیسے وصول کرتا اس بارے کچھ کہنا فضول ہے کہ وہ بات گزر گئی ہے ۔باقی تمام کا یہ کہنا کہ وہ لڑکی میری رکھیل ہے اور اسے بیوی کے حقوق حاصل نہیں ہیں تو یہ نہایت غلط بات ہے کیونکہ جب میں نے نکاح پڑھا دیا ہے تو اس قسم کے تخمینے ثانوی رہ جاتے ہیں کہ اس نے میرے ساتھ ایک دن رہنا ہے یا ہمیشہ ۔آخر میں یہی کہوں گا کہ جو کچھ ہوا ہے وہ یہی ختم کر دیا جائے توبہتر رہے گا ۔“
”ویسے ساری غلطی کبیردادا کی بھی نہیں ہے اور اب اس بات کو ختم کیا جانا چاہیے ، کیا خیال ہے شاہ جی ۔“ بابر حیات نے اپنی طرف سے فیصلہ سنا دیا تھا ۔
”اس لڑکی کی وجہ سے میرے دو اہم آدمی قتل ہوئے ہیں وہ خود چل کر میرے پاس معافی مانگنے آئے گی اب میں اسے ایک رات میں معافی دیتا ہوں یا دو راتوں میں اس کا تعین میں اسے ملنے کے بعد ہی کروں گا۔ممکن ہے ایک رات کے لیے میں اسے نوشاد آفریدی کے پاس بھی بھیج دوں۔اگر کبیر دادا کو یہ منظور نہیں تو پھر تیار رہے وہ لڑکی جہاں بھی ہمارے ہتھے چڑھی ہم بدلہ لینے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔“سارے گروپوں کی ہمدردی پا کر اخلاق حسین کمینگی پر اتر آیا تھا ۔
اخلاق کی بات سن کر سوائے شہاب قصوری کے تمام کے چہروں پر مسکراہٹ رینگ گئی تھی ۔صاف نظر آرہا تھا کہ کبیر دادا کی مخالفت صرف حالیہ مسئلے کی وجہ سے نہیں تھی اور وہ کسی بھی طرح کبیردادا کو نیچا دکھانے کے خواہاں تھے ۔
کبیردادا اطمینان سے بولا ۔”ان اچھی شرائط کو نہ ماننے والا کوئی بے وقوف ہی ہو سکتا ہے ۔دوراتیں کوئی اتنی زیادہ قیمت بھی نہیں ہے کہ مجھے انکار کرنا پڑے اور یقینا پہلی رات جب وہ شاہ صاحب کے ساتھ ہو گی تو اس کی جگہ شاہ صاحب کی بڑی بیٹی فرحانہ میری تنہائی دور کرنے آئے گی اور دوسری رات جب وہ نوشاد آفریدی کے ساتھ ہو گی تو اس کی چھوٹی بیگم نغمہ میری بیوی کی جگہ سنبھالے گی ۔“
”بکواس بند کرو ۔“نوشاد آفریدی غضب ناک ہوتا ہوا اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا تھا ،مگر یہ کھڑا ہونا اسے مہنگا پڑا ....
کبیردادا اپنی نشست سے سپرنگ کی طرح اچھلا ایک پاﺅں درمیانی میز پر رکھتے ہوئے اس نے آگے کی طرف چھلانگ لگائی اور چوڑی میز کو عبور کرتا ہوا نوشاد آفریدی پر جا پڑا ۔ اسے گریبان سے تھامتے ہوئے اس نے ایک لات اخلاق حسین کو بھی رسید کر دی تھی وہ کرسی سمیت فرش پر لمبا ہو گیا تھا،اس کے ساتھ ہی کبیردادا نے ایک ہی ہاتھ سے نوشاد آفریدی کو سر سے بلند کر کے اس کی پیٹھ دیوار سے لگا دی تھی ۔
”اب بتاﺅ بکواس کون کر رہا ہے ۔“ کبیردادا کا سرد لہجہ نوشاد آفریدی کو دہلا گیا تھا ۔
باقی تمام ایک لمحے کے لیے سن ہو گئے تھے ۔ہوش میں آتے ہی وہ بے ساختہ نوشاد خان کو چھڑانے کے لیے کبیردادا کی طرف بڑھے ۔
”کبیردادا ....کبیردادا ....یہ کیا بے وقوفی ہے چھوڑو اسے ....“شہاب اور بابر حیات بیک زبان بولے تھے ۔کبیر دادا کے ہاتھ کے دباﺅ سے نوشاد آفریدی کے گلے رگیں پھول گئی تھیں ۔اسے سانس لینے میں دشواری پیش آرہی تھی ۔اس نے خود کو چھڑانے کے لیے حرکت کی کوشش کی مگر کبیردادا کی طاقتور گرفت سے آزاد نہ ہوسکا ۔
دونوں نے کبیر دادا کو دائیں بائیں سے پکڑ لیا تھا ۔کبیردادا نے جھٹکا دے کر نوشاد آفریدی کو قالین پر پھینکا اور دوبارہ اپنی نشست پر جا بیٹھا ۔موبائل جیب سے نکال کر وہ کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگا تھا ۔
بابر حیات اور شہاب قصوری نے نوشاد کو کرسی پر بٹھایا اخلاق حسین بھی کرسی کو سیدھا کر کے بیٹھ گیا تھا ، دونوں کے چہرے غصے وخجالت سے سرخ ہو گئے تھے ۔
”ایسا کرو اپنے تمام آدمیوں کو بتا دو کہ آج رات نو بجے کے بعد کوئی حدود بندی اور علاقہ نہیں رہے گا وہ جہاں چاہیں اپنا کاروبار کر سکتے ہیں اور اگر کوئی بھی رکاوٹ ڈالنے یا رخنہ اندازی کی کوشش کرے تو اڑا دینا ۔“ایک لمحہ خاموش رہ کر اس نے مخالف کی بات سنی اور پھر کہا ۔ ”ہاں آج رات نو بجے کے بعد اس سے پہلے نہیں ۔“اس کے رابطہ منقطع کرتے ہی شہاب قصوری تشویش ناک لہجے میں بولا ....
”یہ کیا مذاق ہے کبیر دادا !....“
”مذاق یہ ہے یا وہ جو دونوں خبیث کر رہے ہیں ....آٹھ بجے تک اگر اخلاق حسین نے گھر آکر میری بیوی سے معافی نہ مانگی تو پھر نتائج کے ذمہ دار آپ لوگ خود ہوں گے۔“ یہ کہتے ہی کبیردادا ان کی بات سنے بغیر کرسی سے اٹھ کر لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہاں سے باہر نکل گیا ۔
٭٭٭
”ہونہہ!تو بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے ۔“کبیر دادا کے باہر جاتے ہی ایس پی ضمیر نے ہنکارا بھرا ۔
بابر حیات نے کہا ۔”اس کا ذمہ دار اخلاق حسین شاہ ہے ۔“
”اس کی آمد سے پہلے یہی طے ہوا تھا کہ وہ لڑکی مجھ سے معافی مانگنے آئے گی ۔ اب مجھے مطعون کیوں ٹھہرا رہے ہو ۔“
بابر حیات نے تلخی سے کہا ۔”کیونکہ یہ بات شہاب صاحب نے اسے کہنا تھی ۔اور بات لڑکی کے معافی مانگنے کی تھی اس کے ساتھ رات گزارنے کی نہیں ۔“
”اچھا اب آپس میں نہیں لڑ پڑنا ۔“نقیب اللہ جان نے انھیں بحث سے روکا۔
”یہ اچھا نہیں ہوا ،ہمیں کبیردادا کو منانا پڑے گا ۔“شہاب قصوری نے زبان کھولی ۔
”ہم ڈرتے نہیں اس سے اوراکیلا اس کا گینگ تمام کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔“نوشاد آفریدی نے انکار میں سرہلایا ۔
بابر حیات نے صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ۔”بے وقوفوں کی سی بات نہ کرو۔ وہ اکیلا نہیں ہے ۔یہاں پرصرف چھے گینگز کے بڑے موجود ہیں ،پانچ نے آنے کی زحمت ہی نہیں کی ہے ،اگر ان پانچ کو کبیردادا اپنے ساتھ ملا لیتا ہے تو یقینا وہ بھاری پڑیں گے ۔خود کبیردادا کا گینگ بھی سب سے بڑا ہے ۔“
ایس پی نے منھ بناتے ہوئے کہا ۔”اسی لیے تو وہ انڈر گراﺅنڈ حلقوں پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے ۔“
”اور یہ موقع اسے ہم لوگ فراہم کر رہے ہیں ۔“بابر حیات کی گفتگو سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ کبیردادا کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے ۔
نوشاد آفریدی نے تلخی سے کہا ۔”بابر صاحب !آپ اسے کچھ زیادہ ہی اہمیت دے رہے ہیں ۔“
”بابر ٹھیک کہہ رہا ہے ۔“شہاب قصوری نے بابر کی طرف داری کرتے ہوئے کہا ۔ ”آپ لوگوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو کبیر دادا کا مقابلا کر سکے ،اس کا گینگ بھی سب سے بڑا ہے ۔اور میرا خیال ہے اس سے پہلے اس نے کبھی ایسا کام نہیں کیا جس کی وجہ سے ہم اس پر شک کر سکیں کہ وہ سب کا بڑا بننا چاہتا ہے ۔“
ایس پی نے شہاب قصوری کی بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا ۔”شمشیر دادا کے جانے کے بعد اس نے کچھ زیادہ ہی پر پرزے نکالنے شروع کر دیے ہیں ۔اور آپ اس کی طرف داری نہ کریں وہ آپ ہی کی جگہ لینا چاہتا ہے ۔“
شہاب قصوری صاف گوئی سے بولا ۔” میں شمشیردادا کی طرح کا بڑا نہیں ہوں ،میں تو بس آپ تمام کو ایک جگہ اکٹھا کرکے صلح صفائی کرا دیتا ہوں ۔اس سے بڑھ کر غالباََ میری کوئی حیثیت نہیں ہے ،باقی جہاں تک میری جگہ سنبھالنے کا تعلق ہے تو آج تک کبیر دادا نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی ،وہ شمشیر دادا کا شاگرد ہے اور شمشیر دادا ہی نے یہ سربراہی میرے حوالے کی تھی ۔“
”اگر شمشیر دادا کو چند روز کے لیے بلا لیں ۔“نوشاد افریدی نے مشورہ چاہا ۔
بابر حیات بولا ۔”اسے بمبئی کی ہوا راس آگئی ہے ۔یقینا وہ یہاں لوٹنا نہیں چاہے گا۔“
”تو پھر ان حالات سے کیسے نبٹا جائے ۔“خاموش بیٹھے نقیب اللہ جان نے زبان کھولی ۔
”میرا تو خیال ہے فی الحال اخلاق حسین کو مصالحت کی کوشش کرنا چاہیے ،خواہ مخواہ جھگڑا بڑھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔اگر ہم تمام نے مل کر کبیر دادا کے گینگ کا خاتمہ کر بھی دیا تب تک وہ بھی ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکا ہو گا ۔“بابر حیات نے مشورہ دیا ۔
”بابر صاحب صحیح کہہ رہا ہے ۔“نقیب اللہ جان نے بابر کی تائید میں سر ہلایا۔
”آپ کا کیا خیال ہے ۔“شہاب قصوری نے ایس پی سے مشورہ چاہا۔
ایس پی ضمیر اوڈھو گلا کھنکارتے ہوئے بولا ۔”ویسے فی الحال ہم کسی قسم کے جھگڑے کی حالت میں نہیں ہیں اور وہ بے غیرت اس چھوکری کے پیچھے باولا ہوا ہے ۔“
شہاب نے نوشاد آفریدی کی جانب دیکھا ۔
”فی الحال اس کا مطالبہ پورا کر دیتے ہیں ،لیکن میں کوشش کروں گا کہ شمشیر دادا کو چند روز کے لیے بلوا لوں ،جب تک میں کبیردادا مزا نہ چکھا لوں مجھے آرام نہیں آئے گا ۔خاص کر اس کی رکھیل کو تو میں نہیں چھوڑوں گا ۔“
”شاہ جی !....اب سب کچھ آپ پرمنحصر ہے ۔“شہاب قصوری ،اخلاق حسین کی طرف متوجہ ہوا ۔
اخلاق حسین نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔”گویا سب کا یہی فیصلہ ہے کہ میں اس دو ٹکے کی چھوکری سے معافی مانگوں ۔“
”فیصلہ نہیں مشورہ ۔“شہا ب قصوری نے تصحیح کی ۔
”ایک ہی بات ہے ۔“اخلاق حسین نے منھ بنایا ۔
”آپ اپنی بات کریں ۔اگر آپ کی نظر میں کوئی اور تجویز ہے تو بتائیں۔“ شہاب قصوری نے گیند اس کے کورٹ میں پھینکی ۔”اس کے علاوہ تو یہی حل رہ جاتا ہے کہ اپنے اپنے گینگ کو تیاری کا حکم دے دیں کل صبح تک فیصلہ ہو جائے گا کہ کس کا کتنا نقصان ہوا ہے ۔“
”میں اس چھوکری کو چھوڑوں گا تو نہیں ۔“اخلاق حسین نے دانت پیسے ۔
شہاب قصوری بولا ۔”وہ بعد کا مسئلہ ہے ، یوں بھی یہ تب ہی ممکن ہو گا جب آپ کبیردادا سے بڑا گینگ بنا لیں گے ۔البتہ وہ اس لڑکی کو خود سے علاحدہ کر دے تب دوسری بات ہے ۔ اور اس وقت میرا خیال ہے اس کا فائدہ کوئی نہیں ہو گا ۔“
”فائدہ نقصان تو میں نہیں جانتا لیکن میں نے اسے کوٹھے پر نہ بٹھا دیا تو اخلاق حسین نہ کہنا ۔“
بابر حیات نے پوچھا ۔”شاہ جی !.... مستقبل کے منصوبوں کو رہنے دیں فی الحال موجودہ مسئلے کا حل بتائیں ۔“
”میں معذرت کر لوں گا ۔“اخلاق حسین نے ایک لمحہ سوچنے کے بعد فیصلہ سنایا ۔
ایک دم تما م کے چہرے پر سکون ہو گئے تھے ۔
شہاب قصوری نے تحسین آمیز لہجے میں کہا ۔”شکریہ شاہ جی !....ہمیں آپ سے اسی دانش مندی اور ظرف کی توقع تھی ۔یہ پسپائی نہیں عارضی طور پر جنگ کو ٹالنے کی سعی ہے ۔“
نوشاد آفریدی دانت پیستے ہوئے بولا ۔” دیکھ لینا جلد ہی کبیر دادا کو اس کا مزا چکھنا پڑے گا ۔اس چھوکری کو اگر بھرے مجمع میں بے لباس نہ کیا توغنڈہ گردی چھوڑ دوں گا ۔“
باقی بھی اخلاق حسین کے فیصلے کو اپنے اپنے انداز میں سراہنے لگے ۔
جاری ہے۔۔۔۔

No comments: