Ads Top

ﻧﺎﻭﻝ رکھیل از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر 13

ﻧﺎﻭﻝ  رکھیل

  از 

 ریاض_عاقب_کوہلر




#رکھیل
قسط نمبر13
#ریاض_عاقب_کوہلر
پندرہ بیس منٹ بعد وہ ایس پی ضمیر حسین اوڈھوکے سامنے تھا ۔ضمیر حسین اوڈھونے منافقانہ مسکراہٹ سے اس کا استقبال کیا ۔رسمی کلمات کی ادائی کے بعد وہ آنے سامنے بیٹھ گئے تھے ۔ملازم شراب کی سربہ مہر بوتل ،شیشے کے نفیس گلاس اور ٹرے میں برف کے ٹکرے ان کے سامنے رکھ کر سر جھکائے باہر نکل گیا ۔اب وہ اکیلے تھے ۔
”گلاسوں میں برف ڈال کر ایس پی نے بوتل کا کاک اتار کر دونوں گلاس بھرے اور ایک گلاس اس کی جانب کھسکاتے ہوئے اس نے کبیردادا کے چہرے پر سوالیہ نگاہیں دوڑائیں ۔
شرا ب کے بھرے گلاس کو دیکھتے ہی اس کے کانوں میں تناوش کی آواز گونجی ۔
”ایک بوتل میں چھے گلاس گندہ مشروب ہوتا ہے اور آج تقریب میں آپ نے سات گلاس پیے تھے ،اس لحاظ سے کل جو بوتل ملے گی اس میں سے بھی ایک گلاس مشروب کم ہو گا۔“
”جی ،کیسے تشریف آوری ہوئی ۔“اسے خاموش پاکر ایس پی نے لب کھولے ۔
تناوش کی بات یاد کرتے ہوئے اس کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہونے لگی تھی ،ایس پی کی آواز سنتے ہی وہ مسکراہٹ کو ہونٹوں میں دباتا ہوا اس کی طرف متوجہ ہوا ۔
”کل راﺅاجمل رحیم سے ملاقات ہوئی تھی ۔“
”تو ....“ایس پی گلاس کو ہونٹوں سے لگاتے ہوئے بے پروائی سے بولا ،البتہ اس کی آنکھوں میں اضطراب کی لہریں اٹھنے لگی تھیں ۔
کبیردادا کے ہونٹوں پر طنزیہ ہنسی نمودار ہوئی ۔”کیا واقعی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی حرکتوں سے مجھے کوئی فرق پڑے گا ۔“
”الزام لگانے کے لیے یقینا کسی ثبوت کی ضرورت پڑا کرتی ہے ۔“
”کسی تھانیدار کی یہ ہمت کہ وہ کبیردادا کو چھیڑنے کی جرّات کرے۔“
ایس پی معنی خیز لہجے میں بولا ۔”پولیس کا تھانیدار اتنا بھی گیا گزرا نہیں ہوتا کبیر دادا۔“
”ہونہہ تھانیدار ،میں پولیس ایس پی کو بھی جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں کجا تھانیدار۔“
”پھر شکایت لیے ایک ایس پی کے پاس کیوں بھاگے چلے آئے ۔“ایس پی کے استہزائیہ لہجے نے اس کے چہرے پر سرخی بکھیر دی تھی ۔
”کسی واقف کار کو عبرت ناک موت سے بچانے کی کوشش کرنے اور شکایت لے کر آنے میں بڑا فرق ہے ۔“کبیردادا کے زہریلے لہجے نے ایس پی ضمیر حسین کے دل کی دھڑکن تیز کر دی تھی ۔مگر جب وہ بولا تو دل میں اٹھنے والا خوف اس کے لہجے میں شامل نہیں تھا ۔
”خیال رہے میں ایک گینگ کا سربراہ ہونے کے ساتھ ایس پی بھی ہوں ۔“
”ہاں مگر مجھے ڈر ایمان دار پولیس والوں سے لگتا ہے ۔“
”کیا میں بے ایمان ہوں ؟“ضمیر حسین تپ گیا تھا ۔
”میرے نہیں کہنے سے فرق پڑتا تو میں جھوٹ بولنے کی کوشش ضرور کرتا ۔“وہ گلاس خالی کر کے دوبارہ بھرنے لگا ۔
”کبیردادا ،آپ میری توہین کر رہے ہیں ۔“ایس پی کے لہجے میں غصہ بڑھنے لگا تھا۔
”اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اخلاق حسین ،نوشاد آفریدی اور آپ کے گٹھ جوڑ سے میں ناواقف ہوں تو آپ کی بھول ہے ۔آپ بس مجھے اس کام پر مجبور کر رہے ہیں جس سے روکنا آپ لوگوں کے بس سے باہر ہو جائے گا ۔“
ایس پی بغیر لگی لپٹی بولا ۔”اکیلے تمام کا مقابلہ کر لو گے ۔“
”آزما لو ۔“کبیردادا کے لہجے میں شامل اطمینان نے ایس پی کے دل میں موجود اندیشوں کو بڑھا دیا تھا ۔
”گویا آپ یہی دھمکی دینے آئے تھے ۔“اس نے ادھ بھرا گلاس شیشے کی میز پر رکھ کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگا لی تھی ۔
”دھمکی وہ دیتے ہیں جنھیں خود پر اعتماد نہ ہومیں تو موقع دینے آیا تھا ۔“دوسرا گلاس بھی خالی کر کے اس نے میز پر دھرا اور جانے کے ارادے سے اٹھ کھڑا ہوگیا ۔”چلتا ہوں ۔“ اس نے الوداعی مصافحہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی ۔ایس پی بھی کینہ توز نظروں سے اسے گھورتا ہوا بیٹھا رہا ۔
٭٭٭
کوٹھی کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظریں بے اختیار اندرونی دروازے کی طرف اٹھ گئیں ،وہ گاڑیوں کی آواز سنتے ہی بھاگ کر وہاں آجایا کرتی تھی ۔مگر اسے مایوسی ہوئی وہ شاید خفا ہو گئی تھی ۔اس کے دل کو کچھ ہونے لگا ۔اس کا جی چاہا کہ وہیں گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو تیز تیز ہارن بجانے کاکہے جب تک کہ وہ باہر نہیں آجاتی ۔مگر وہ ایسا نہ کر سکا ۔کار سے نکلتے ہی اس کے کانوں میں شام کی آذان گونجنے لگی ۔وہ خود تو جانے کتنے عرصے سے نماز کی لذت سے محروم تھا لیکن تناوش کے نماز پڑھنے کے بارے اسے اچھی طرح معلوم تھا ۔راحت ماسی کی زبانی اس نے تناوش کے پکا نمازی ہونے کا ذکر سنا تھا ۔
”شاید وضو کر رہی ہو گی یا مصلے پر چڑھی ہو گی ۔“جانے وہ کیوں خود کو تسلیاں دے رہا تھا ۔عجیب متضاد کیفیات میں گھر گیا تھا ۔ایک طرف اس سے جان چھڑانے اور دور جانے کی تگ و دو میں تھا اور دوسری جانب اس کی خفگی اور ناراضی سے پریشان۔
ڈرائینگ روم عبور کر کے وہ خواب گاہ کے دروازے پر رکا اور پھر دروازہ دھکیلتا ہوا اندر داخل ہو گیا ۔مشکل سے مشکل صورت حال میں موت کے منھ میں ہاتھ ڈال کر بھی کبھی اس کے دل کی دھڑکن تیز نہیں ہوئی تھی ۔لیکن اس وقت جانے کیوں اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا ۔یہ کیسا میٹھا خوف تھا ،یہ کیسی لذت بھری کسک تھی ،یہ کیسا انوکھا احساس تھا ۔اس کی عقل و شعور سے بالاتر ،اس کی سمجھ بوجھ سے پرے ،اس کے خیالات سے دور ۔
خواب گاہ میں داخل ہوتے ہی اس کی متلاشی نظروں کو وہ نرم و ملائم اور نازک وجود بیڈ پر پڑا نظر آیا ۔کبیردادا کے تکیے پر سر دھرے وہ اوندھے منھ لیٹی بے خبر سو رہی تھی ۔ایک رخسار تکیے پر ٹیکے دوسرا سرخ گلابی کی کلی سے مشابہ رخسار چھت میں جُڑے انرجی سیورز کی روشنی میں دمک رہا تھا ۔وہ یقینا روتے ہوئے لیٹی تھی تبھی تو آنکھ سے ہلکی سیاہی مائل لکیرناک کی جڑ تک پھیلی نظر آرہی تھی ۔جینز کی تنگ پتلون اور پھولدار گلابی قمیص اس کے جاذ ب ِنظر خدو خال کواور زیادہ اجاگر کر رہی تھیں ۔سیاہ زلفیں پشت پر یوں بکھری تھیں جیسے آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوں ۔
بڑی مشکل سے اس کے سراپے سے نگاہیں چرا کر اس نے خواب گاہ میں نظریں دوڑائیں ۔کھڑکی کے پردے اب تک ہٹے ہوئے تھے صوفے کے سامنے پڑی شیشے کی میز پر پکوڑوں کی بھری پلیٹ اور ساتھ چٹنی کی کٹوری رکھی تھی ۔پلیٹ میں ایک ادھ کھایا پکوڑا بھی موجود تھا ۔ کبیردادا نے بے اختیار وہ ادھ کھایا پکوڑا اٹھا کر منھ میں ڈال لیا ۔وہ ٹھنڈا ٹھار پکوڑا بھی اسے دکان کے گرم پکوڑوں سے بہت زیادہ لذیز اور مزیدار لگا تھا ۔
وہ کھڑکی کے پردے برابر کرنے لگا ،بارش رک گئی تھی مگر آسمان ابھی تک بادلوں سے ڈھکا نظر آرہا تھا ۔
پردے برابر کر کے وہ صوفے پر آکر بیٹھ گیا ۔نا معلوم وہ کس وقت جاگتی ۔ اچانک ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح اس کے دماغ میں ابھرا ۔اسے نماز کے لیے بھی تو جگایا جا سکتا ہے ۔وہ جلدی سے اس کی طرف بڑھ گیا ۔اس کا ہاتھ ریشمی زلفوں کی طرف بڑھا مگر اتصال سے پہلے ہی اس نے ہاتھ کا رخ تبدیل کر کے اس کی کہنی کوپکڑ کر ہلایا۔
وہ فوراََ جاگ گئی تھی ۔
”آپ آگئے ۔“اٹھتے ہوئے اس نے توبہ شکن انگڑائی لی ۔اس کی آواز میں خفگی یا ناراضی کا کوئی اثر موجود نہیں تھا ۔
”شام کی آذان ہو گئی ہے ۔“اسے آذان کے بارے مطلع کر کے وہ صوفے پر جا بیٹھا۔
”اچھا ۔“اس کی سستی بھری حرکت ایک دم سرعت میں تبدیل ہوئی اور وہ غسل خانے کی طرف بڑھ گئی ۔تھوڑی دیر بعد وہ لباس تبدیل کرکے غسل خانے سے باہر نکل رہی تھی ۔کالج کے لباس کی آستینیں نیچے کھسکاتے ہوئے وہ گوری کہنیوں کو ڈھکتے ہوئے خواب گاہ کے دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔کبیردادا نہ چاہتے ہوئے بھی اسے گھورتا رہا گیا تھا ۔وہ بھی دروازے سے نکلنے تک کبیردادا کو شوخی بھری مسکراہٹ سے نوازتی رہی ۔
اس کی واپسی تک وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا ۔اس کے دماغ میں نگی کی آمد کے بعد تناوش کے ردعمل کی سوچیں سرگرداں تھیں ۔وہ اندازہ نہیں لگا پا رہا تھا کہ تناوش کا رویہ کیا ہونا تھا ۔
”کیا وہ گھر چلی جائے گی ؟“بہ ظاہر اس کا اور پاشا کا مطمح نظر پورا کرنے والی اس سوچ نے جانے کیوں اس کے دل کو اضطراب سے بھر دیا تھا ۔
وہ خود کلامی کے انداز میں بڑبڑایا۔”بہتر ہو گا کہ چلی جائے ،میں پاشا کو کہہ دوں گا کہ اسے حفاظت سے کسی خفیہ مقام پر منتقل کر دے ۔“پاکستان کے کسی بھی دوسرے شہر میں ایک اچھا گھر اسے اخلاق حسین اور نوشاد آفریدی جیسے کمینوں سے محفوظ رکھ سکتا تھا ۔وہاں پر وہ کسی بھی شریف اور محبت کرنے والے مرد سے شادی کر کے اپنی بقیہ زندگی پر سکون انداز میں گزار سکتی تھی۔
”پتا نہیں محبت کی دعوے دار کبھی مجھے یاد بھی کرے گی یا” جان چھٹی سو لاکھوں پائے“جیسی کہاوت کے مصداق شکرانے کے نوافل ہی ادا کرتی رہے گی ۔“اس تلخ سوچ نے اس کے منھ میں کڑواہٹ گھول دی تھی ۔
”نہیں وہ ایسی نہیں ہے ۔“دل کے کسی کونے سے ایک نحیف آواز برآمد ہوئی ۔”ا بھی تھوڑی دیر پہلے میرے نہ آسکنے پر وہ بچوں کی روتے روتے سو گئی تھی توہمیشہ کے لیے دور جا کر کیوں نہیں یاد کرے گی ۔“
”کچھ بھی ہے ،اس کا دور جانا میرے لیے بھی فائدہ مند ہے اور اس کے لیے بھی بہتر۔ یقینا میری زندگی میں اس کی گنجائش نہیں نکلتی ۔“اس نے حتمی فیصلہ کیا ۔
اسی وقت دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی ۔نماز کے انداز میں چہرے اور سر کو ڈھانپنے والے دوپٹے سے بس چاند سا مکھڑا دمکتا ہوا نظر آرہا تھا ۔گہرے سیاہ بال اور صحرائی دار گرد ن چھپ گئے تھے ۔
”یہ پکوڑے اور چٹنی بھی آپ کو بد دعا دے رہے ہوں گے ۔“خفگی اور ناراضی بھرے الفاظ شوخی و شرارت بھرے لہجے میں ادا کر کے وہ اس کے ساتھ ہی جڑکربیٹھ گئی تھی ۔
”بد دعا دینے کے علاوہ تم کر ہی کیا سکتی ہو ۔“کبیردادا نے منھ بنایا۔
”اللہ نہ کرے ۔“وہ اتنی سرعت سے بولی تھی کہ کبیردادا حیران رہ گیا تھا ۔”میں آپ کو بد دعا دوں گی ۔ایسا سوچنے سے پہلے مر نہ جاﺅں ۔“اس کے لہجے میں شامل خلوص کوتعارف کی چنداں ضرورت نہیں تھی ۔یہ کہتے ہوئے اس نے کبیردادا کے شانے پر سر ٹیک دیا تھا ۔
”تم ذرا کھڑے ہو کر میری بات سنو ۔“کبیردادا نے نگی کی آمد کے لیے میدان ہموار کرنا چاہا ۔اس کے لہجے میں کوئی ایسی بات ضرور تھی کہ وہ متوحش ہو کر اس سے دور ہٹی اور اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی ۔
”کک....کیا بات ہے ۔“وہ ہکلائی ۔
”کھڑی ہو جاﺅتاکہ تمھیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے ۔“کبیر دادا کا بیگانا اور سرد لہجہ برقرار تھا ۔
”جی ۔“وہ سعادت مندی سے سر جھکا کر کسی چھوٹی بچی کی طرح اس کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔کالج کے کپڑوں میں وہ یوں بھی اپنی عمر سے چند سال چھوٹی دکھائی دے رہی تھی ۔
” بار بار سمجھانے کے باوجود تمھیں میری بات کی سمجھ کیوں نہیں آ رہی۔ آخر کیا مسئلہ ہے تمھارے ساتھ ۔میرے نرم رویے اور نظر انداز کرنے کی عادت کا تم غلط مطلب لے رہی ہو ۔ تمھیں میرے مقام ، شخصیت اور کردار کا بھی کوئی احساس ہے یا مجھے اسکول کا لڑکا سمجھ رکھا ہے ۔ رومانس بھرے پیغامات ،بار بار گھنٹیاں کرنا ،پکوڑے ،بارش اور دوسری بکواسات ۔ یہ سب کیا ہے ؟....اور میرا نام تم کس خوشی میں لے رہی تھیں ،دنیا مجھے کبیردادااور کبیر علی خان صاحب کہہ کر مخاطب کرتی ہے تم یوں کبیرکہہ رہی تھیں جیسے میں تمھارا ملازم ہوں ۔ کیا لگتا ہے کہ تم دنیا میں اکیلی خوب صورت ہو اور تم جیسی میری زندگی میں اس سے پہلے کوئی نہیں آئی ۔تم جنت کی حور یا کوہ قاف کی اپسرا ہو ۔یہ واہیات اور بھونڈے چونچلے مجھے کوفت میں مبتلا کر دیتے ہیں ،خبردار جو آئندہ مجھے اس قسم کا کوئی پیغام بھیجا یا رومانس وغیرہ کا بھوت خود پر سوار کیا ۔اگر یہاں رہنا ہے تو اسی طرح رہنا ہو گا جس کا وعدہ کر کے تم یہاں آئی تھیں۔ یاد ہے تم نے بڑے عزم سے کہا تھا کہ ایک رکھیل کی طرح رہو گی بس نکاح پڑھا لوں۔ اب نکاح پڑھا لیا ہے تو پرپرزے نکالنے شروع کر دیے ہیں ۔طلاق کا لفظ منھ سے نکالنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے اور نہ میں کوئی مولوی یا تبلیغی جماعت کا نمائندہ ہوں کہ گناہ ثواب کے ڈر کو خود پر مسلط رکھوں ۔ آخری بار تنبیہ کر رہا ہوں دوبارہ شکایت کا موقع نہ دینا ۔میں کیا کر رہاہوں کیا کھا پی رہا ہوں کس سے واسطہ رکھ رہا ہوں اس سے تمھیں کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے ۔جس دن یہاں تنگ آجاﺅ بتا دینا واپس گھر بھیج دوں گا ۔“ کبیردادا کے منھ میں جو آیا وہ کہتا چلا گیا ۔تلخ الفاظ اورسخت جملے سن کر بھی اسے توہین کا احساس نہیں ہوا تھا ۔کبیردادا کا تلخ لہجہ اسے سراسر مصنوعی لگ رہا تھا ۔یوں جیسے وہ بے بس ہو گیا ہو ۔یا شاید یہ اس کی خوش فہمی تھی ۔
کبیر دادا کی بات ختم ہوتے ہی اس نے جھکا ہوا سر اٹھایا اس کی روشن آنکھوں میں شرارت اور شوخی جھلکی اور وہ پوچھنے لگی ۔
”جواب دینے کے لیے بیٹھنے کی اجازت ہے یا یہ حالت برقرار رکھوں ۔“ محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اسے کبیردادا کی تلخ باتیں ذرا بھی بری لگی ہیں۔
گہرا سانس لیتے ہوئے کبیردادااس نے بے ساختہ آنے والی ہنسی کو قابو کیا ۔اور کہا ۔ ”بیٹھ جاﺅ۔“
اپنے مخصوص انداز میں اس کے ساتھ جڑ کر بیٹھتے ہوئے وہ اطمینان بھرے لہجے میں بولی ۔”کھانا لاﺅں ۔“
”تم میری باتوں کا جواب دینے والی تھیں ۔“
”جواب تو ہے میرے پاس ،مگر پھر آپ کہیں گے بد تمیزی کر رہی ہوں ۔“
” تمیز داری کے ناٹک کو چھوڑومجھے جواب چاہیے ۔“
”نکاح پڑھانے کے بعد مجھے بیوی کے حقوق حاصل ہو گئے ہیں اور جہاں تک کچھ مانگنے کا تعلق ہے تو ،بتائیں کیا مانگا ہے ۔پہلی ملاقات پر کہا تھا آپ کی بے لوث خدمت کروں گی میری سوچیں آپ سے شروع ہو کر آپ ہی پر ختم ہوں گی ،وفادار بن کررہوں گی،مخلص اور ہمیشہ خیال کرنے والی ۔اور یہی میں کر رہی ہوں ۔باقی پیغامات یہ سوچ کر بھیجے تھے کہ صبح سے تھکے ماندے جانے کہاں کہاں پھر رہے ہوں گے چلو گھر آکر اس خوب صورت موسم سے تھوڑا سا لطف اندوز ہو جائیں گے ،بارش میں پکوڑے اچھے لگتے ہیں وہ کھا لیں گے ،مگر نیکی کا تو کوئی زمانہ ہی نہیں ۔اور نام اس لیے لیا تھا کہ اچھا لگتا ہے آپ کا نام لینا ۔میرے دل کی دھڑکنیں ہر وقت کبیر کبیر الاپتی رہتی ہیں اگر دو تین بار پیغام میں لکھ دیا تو کون سی قیامت آگئی، نہیں لکھوں گی آئندہ۔“ اس کی باتوں سے ذرا سا بھی نہیں لگتا تھا کہ کبیر دادا کے لیکچر نے اس پر کوئی اثر ڈالا ہے۔یا وہ اس ان باتوں پر عمل کا کوئی ارادہ رکھتی ہے ۔
”پھر وہی بکواس ۔“کبیردادا کو سچ مچ تپ چڑھنے لگا ۔
”کوئی بکواس نہیں کر رہی آپ یونھی الزام دھر رہے ہیں مجھ غریب پر ۔“ناز بھرے لہجے میں کہتے ہوئے وہ قالین پر بیٹھ کر اس کے جوتے کھولنے لگی ۔جوتے اتار کر ایک جانب رکھتے ہوئے وہ حسب عادت اس کے گھٹنوں پر ٹھوڑی ٹیک کر بیٹھ گئی ۔
”الزام نہیں دھر رہا لو خود پڑھ لو اپنے پیغام کیا کیا بکواس لکھتی رہی ہو ۔“کبیردادا نے موبائل فون اس کی طرف بڑھایا۔
”ہائے اللہ جی !....اتنے پیارے لگے ہیں میرے پیغامات کہ بار بار پڑھنے کی خاطر انھیں مٹایا ہی نہیں ۔“موبائل فون پکڑے بغیر اس کا نقرئی قہقہہ بلند ہوا ۔
کبیردادا کو لگا وہ سچ کہہ رہی ہے ،وہ حقیقت میں تین چار دفعہ سے زیادہ ان پیغامات کو پڑھ چکا تھا اور ہر بار وہ پہلے سے زیادہ اچھے لگے تھے ۔ جادو بھرے قہقہے اور آنکھوں سے پھوٹتی شرارت نے کبیردادا کو لاجواب کر دیا تھا ۔اس کی قوت گویائی گویا سلب ہو چکی تھی ۔کوئی بھی منظر اتنا خوشنما اور پیارا نہیں ہوسکتا جیسا اس وقت تناوش کا اپنی نظروں کے سامنے بیٹھا ہونا محسوس ہو رہا تھا ۔اور پھر اس مشکل گھڑی سے اسے انٹر کام کی گھنٹی نے نکالا۔
رسیور اٹھا تے ہی اس نے کہا ۔”بولو۔“
چوکیدار نے کہا ”دادا، مس نگی آپ سے ملنے آئی ہیں ۔“
اس نے دیوار پر ٹنگی گھڑی پر نگاہ دوڑائی ۔وہ اپنے وقت سے گھنٹا بھر پہلے ہی آگئی تھی۔ مگر کبیر دادا کو اس کی آمد سے تقویت ملی تھی ۔وہ تناوش کے لیے کبیردادا کی طرف سے ایک جیتا جاگتا اور مدلل جواب ہی تو تھا۔
”آنے دو ۔“مختصراََ کہتے ہوئے اس نے رسیور رکھ دیا ۔
”کون ہے ؟“تناوش اسی ہیئت میں بیٹھی پوچھ رہی تھی ۔
”مہمان ہے اور یہیں آرہی ہے ۔“
”آرہی ہے “کے الفاظ نے تناوش کی آنکھوں میں اضطراب کی لہریں دوڑادی تھیں۔ وہ اٹھ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی ۔”اس سے ڈرائینگ روم میں بھی تو ملاقات کی جا سکتی ہے ۔“
مگر کبیردادا نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا تھا ۔
”کس لیے آرہی ہے ۔“تناوش کی کرید جاری رہی ۔
اس سے نظریں چراتے ہوئے کبیر دادا بے گانے لہجے میں بولا ۔”کون ہے ،کیوں آرہی ہے ،کتنی دیر کے لیے آرہی ہے ۔ان سب باتوں کا جواب تمھیں چند لمحوں تک مل جائے گا۔“
تناوش خاموشی سے ہونٹ کاٹنے لگی ۔نہ جانے کیوں اسے کسی بڑی گڑ بڑ کے آثار نظر آنے لگ گئے تھے ۔
خواب گاہ کے دروازے پر دستک ہوئی اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر دروازہ دھکیل کر نگی اندر داخل ہوتے ہوئے چہکی....
”یقینا میں نے انتظار کی کوفت سے آپ کو بچا لیا ہے ۔“بغیر بازوﺅں والی کھلے گلے کی کالے رنگ کی مختصر سی قمیص ، گہرے سرخ رنگ کی تنگ شلوار،گلے میں جھولتا مفلر نما دوپٹا،پاﺅں میں جدید فیشن کے سینڈل ،کندھوں تک آتی ریشمی زلفیں جنھیں کھلا چھوڑدیا گیا تھا ۔ گلے میں سفید موتیوں کا خوبصورت ہار،کانوں میں ہیرو ںجڑے ٹاپس ،داہنی کلائی میں خوبصورت نگینوں سے جڑا کنگن ،بائیں بازو میں سنہری چین والی گھڑی ،کندھے سے لٹکتا سنہری رنگ کا قیمتی پرس گہرا میک اپ سرتاپا خوشو میں ڈوبی وہ کاک کی ہوئی رائفل کی مانند لگ رہی تھی جس نے نشانہ نظر آتے ہی چل پڑنا ہو ۔
اسے دیکھتے ہی تناوش کا دل ناخوشگوار انداز میں دھڑکنے لگا تھا ۔
”صحیح کہا ،آﺅ بیٹھو ۔“ایک گہری نظر اس پر ڈالتے ہوئے کبیردادا نے بیٹھے بیٹھے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھادیا ۔
اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے وہ بے باکی سے کبیردادا اور تناوش کے درمیان بیٹھ گئی ۔
”آپ کون ؟“اس نے بیٹھتے ساتھ تناوش کی طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
جوابی مصافحہ کرتے ہوئے وہ کچھ کہہ نہیں پائی تھی ۔اس کا دل عجیب خوف سے بھر گیا تھا ۔دل کی دھڑکن اتنی تیز ہو گئی تھی گویا دل سینے سے باہر نکل آئے گا ۔
”اسے بھی اپنے جیسا ہی سمجھ لو ۔“کبیردادا کی آواز نے اس کی سماعتوں میں زہر انڈیلا ۔ایک دم اس کی آنکھوں میں نمی امڈ آئی تھی ۔
”اوہ، اچھا ۔“نگی معنی خیز انداز میں مسکرائی تھی ۔
اس کے احساسات سے بے پروا بنتے ہوئے کبیردادا نے ایک اورکاری وار کیا ۔ ”اچھا تناوش آج رات تم دوسرے کمرے میں سو جانا کیوں کہ نگی یہیں رات گزارے گی ۔“
”جی ۔“بہ مشکل اس کے ہونٹوں سے نکلاتھا ۔
کبیردادا نے اس کی طرف نگاہ اٹھائی۔ آنکھوں کے کٹورے پانی سے لبریز ہو گئے تھے ۔ اس کے ہونٹ تتلی کے نازک پروں کی طرح پھڑپھڑا رہے تھے جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو ۔ کبیردادا کی منت کرنا چاہتی ،اس کا گریبان پکڑ کر چیخ چیخ کے پوچھنا چاہتی ہو کیا یہ پر کٹی کبوتری مجھ سے خوب صورت ہے ،کیا یہ فیشن زدہ فاحشہ مجھ سے زیادہ آپ کو پیار کرے گی ۔آخر مجھ میں ، میرے پیار میں ایسی کون سی کمی در آئی تھی کہ آپ نے اس کو بلا لیا ۔مگر پھر وہ ساری ان کہی باتیں اپنے دل میں دباتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھی اور نظریں جھکائے خواب گاہ کے دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔آنکھوں میں بھرا پانی کسی بھی وقت چھلک سکتا تھا ۔گلابی ہونٹ ابھی تک لرز رہے تھے ۔دروازے کے قریب جا کر رکتے ہوئے اس نے لمبا گہرا سانس لیا ایک درد بھری سسکی اس کے ہونٹوں سے پھسلی تھی ۔کبیردادا پرشکایت بھری نگاہ ڈال کر وہ باہر نکل آئی ۔ایک دم اس کا جسم لرزنا شروع ہو گیا تھا ۔ ٹانگوں نے جسم کا بوجھ اٹھانے سے جواب دے دیا تھا ۔دیوار کے ساتھ پیٹھ لگا کر وہ نیچے کھسکتے ہوئے قالین پر بیٹھ گئی ۔کافی دیر سے رکے ہوئے اشک کسی برساتی چشمے کی طرح ابلنے لگے ۔
اسے پہلے دن سے کبیردادا سمیت ہر آدمی نے بتا دیا تھا کہ کبیردادا کا کردار کیسا ہے ، مگر اس کے باوجودبے قابو ہوتی حالت اس کی سمجھ سے باہر تھی ۔کبیر دادا نے تو کبھی بھی یہ اقرار نہیں کیا تھا وہ اس کی زندگی میں آنے والی آخری لڑکی ہے یا یہ کہ وہ اسے پیاری ہے اور کبیردادا کو اس کے جذبات کا احساس ہے۔اس کے برعکس وہ ہر آن ہر لمحہ اسے یہی احساس دلاتا رہا تھا کہ اس کی وہاں موجودی عارضی ہے اور اس کی اہمیت کبیردادا کے نزدیک ایک رکھیل سے بڑھ کر بالکل بھی نہیں ہے ۔اس نے نکاح بھی اس کی ضد یا خواہش کو مدنظر رکھ کر پڑھایا تھا۔ پھر اتنی کھلی ڈلی وضاحت اور اعتراف کے بعد یوں غیر ہوتی حالت کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا ، مگر وہ بے بس ہو گئی تھی ۔اس وقت اسے معلوم ہوا کہ کبیردادا اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر چکا ہے۔ بھائی کی موت کابدلہ چاہنے والی کو اب معلوم ہو رہا تھا کہ وہ ایک عذاب میں جکڑی جا چکی ہے ۔ اسے ایک گینگ کے سربراہ ،ایک غنڈے ،درجنوں آدمیوں کے قاتل ،شرابی ،بدکردار شخص سے محبت ہو گئی ہے ۔اس کے ساتھ اکیلے کمرے میں ایک لڑکی کی موجودی اس کے دل کی دنیا کو زیر و زبر کر گئی تھی ۔وہ تو لاشعوری طور پر کبیردادا کو فقط اپنا ہی سمجھ بیٹھی تھی ،اس نے تو سوچ لیا تھا کہ وہ بس مصنوعی بیزاری اور کوفت ظاہر کرتا رہے گا مگر نہ تو اسے گھر بھیجے گا اور نہ کسی دوسری لڑکی کی جانب متوجہ ہو گا ۔اپنی خوب صورتی اور کشش پر اسے پورا بھروسا تھا ۔وہ یہ بھول گئی تھی کہ کبیردادا کے نزدیک اس کی حیثیت ایک لذیز پکوان جتنی تھی جو پیٹ بھرنے کے بعد اچھا نہیں لگا کرتا ، ایک صاف و شفاف ٹشو جتنی تھی جس سے ہاتھ صاف کر کے ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے ، ایک کھلونے جتنی تھی جس سے جی بھر کر کھیلنے کے بعد توڑ دیا جاتا ہے یا کسی کو بخش دیا جاتا ہے ،ایک لباس جتنی تھی جو پسندیدہ ہونے کے باوجود مسلسل نہیں پہنا جا سکتا ۔
اچانک راحت خالہ کسی کام سے ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی ،اسے یوں دیوار سے پیٹھ لگائے روتا دیکھ کر وہ تیر کی طرح اس کی طرف بڑھی ۔
”کیا ہوا بیٹی !“اسے کندھوں سے تھامتے ہوئے راحت خالہ نے تشویش بھری آواز میں پوچھا ۔
وہ جواب دیے بغیرایک دم اس کے گلے لگتے ہوئے ہچکیاں لے لے کر رونے لگی ۔
”کیا صاحب جی نے ڈانٹا ہے ۔“راحت خالہ نے اندازہ لگایا ۔مگر وہ خاموشی سے ٹسوے بہاتی رہی ۔
”کچھ تو بتاﺅ خالہ کی جان ہوا کیا ہے ۔کیوں اتنا رو رہی ہو ۔“راحت خالہ گلو گیر ہونے لگی تھی ۔
”خالہ آپ ٹھیک کہتی تھیں ،میں وقت گزاری کے لیے لایا جانے والا ایک کھلونا ہی تو تھی ۔ان کی عیاشی کا وقتی سامان اور بس ۔“
”اچھا اٹھو یہاں سے کسی ملازم نے دیکھ لیاتو جانے کیا سوچے گا۔“وہ اسے سہارا دے کر ساتھ والے کمرے میں لے گئی ۔بیڈ پر بٹھاتے ہوئے اس نے فکر مندی سے پوچھا ۔ ”اب اصل بات بتاﺅ ۔“
”وہ اپنے کمرے ایک دوسری لڑکی کے ساتھ موجود ہیں اور مجھے یہ کہہ کر انھوں نے باہر بھیج دیا کہ آج کی رات وہ اس کے ساتھ گزاریں گے، میں دوسرے کمرے میں سو جاﺅں ۔“
راحت خالہ نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔”آپ کو گھر سے نکل جانے کا تو نہیں کہا نا ۔“
”نہیں ۔“
”کیا صاحب جی آپ کو بہت پیارے ہیں ،محبت کرنے لگی ہو ان سے ۔“راحت خالہ نے اگلا سوال پوچھا ۔
”پتا نہیں ۔“ایک سسکی اس کے ہونٹوں سے برآمد ہوئی ۔”لیکن ان کے نزدیک ایک دوسری لڑکی برداشت نہیں ہو رہی ۔“
”اچھا روتے نہیں ہیں ۔یقیناان کی نظروں میں آپ کی اتنی اہمیت تو ہے نا کہ آپ کو گھر نہیں بھیج رہے ۔باقی ایسی فاحشائیں کئی آئیں گی اور چلی جائیں گی آپ تو بس صاحب جی کی بے لوث خدمت کرتی رہیں ایک دن آئے گا کہ وہ ان لڑکیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیں گے ۔“
”جان بوجھ کر تو نہیں رو رہی ۔“اس نے زوردار انداز میں ناک سے سانس اندر کھینچا۔
”اچھا میں آپ کے لیے کھانا بناتی ہوں ،پھر نیند کی گولی کھا کر لیٹ جانا ۔“
”بھوک نہیں ہے ۔“اس نے منھ بسورا۔
”پھر بھی دو تین نوالے لے لو ۔“وہ اس کے ماتھے پر بوسا دے کرباہر نکل گئی ۔ایک دفعہ پھر اس کی آنکھیں بہنے لگی تھیں ۔
٭٭٭
تناوش کے غائب ہوتے ہی کبیردادا کو لگا جیسے اس کا دل کسی نے مٹھی میں بھینچ لیا ہو ۔ نگی کا وجود اسے ایک دم فراموش ہو گیا تھا ،اگر کچھ نظر آرہا تھا تو تناوش کے لرزتے کانپتے ہونٹ ، اشکوں بھری سیاہ آنکھیں اور دکھی چہرہ تھا۔اس کا جی کر رہا تھا بھاگ کر جائے اور اس کے نازک وجود کو اپنی مضبوط بانہوں میں بھر لے ،اس کی سیاہ آنکھوں میں بھرے نمکین پانی کو اپنے ہونٹوں سے خشک کر دے ،اس کے پھڑپھڑاتے ہونٹوں پرشوخی بھرا تبسم بکھیر دے ۔
”تو کیسے دن گزرے ہیں جناب کے ۔“نگی کی آواز نے اسے خیالات کی دنیا سے باہر کھینچا ۔
”ہوں ....کیا ....؟“وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”وہ چلی گئی ہے جناب اور میں یہاں موجود ہوں ۔“نگی ایک نازیبا حرکت کرتے ہوئے کھل کھلائی ۔یوں بھی وہ کچھ عرصہ اس کے ساتھ بہت بے تکلف ہو کرگزار چکی تھی ۔اس کی دوشیزگی کے پہلے خریداروں میں کبیردادا بھی شامل تھا ۔اور پھر کبیردادا ہی کی مرہون منت وہ ماڈلنگ میں اتنا آگے تک جا سکی تھی ۔
”میں کپڑے تبدیل کر لوں ۔“کبیردادا کے لہجے میں تو نہیں انداز میں ضرور بیزاری بھری تھی ۔
”کچھ پینے پلانے کو نہیں ہے ۔“وہ اس کی بیزاری کو خاطر میں نہیں لائی تھی ۔یوں بھی کرائے کی عورتوں کو اگلے کے موڈ کی پروا نہیں ہوتی ۔
کبیردادا کی نگاہیں شراب کی تالا لگی شراب کی الماری کی جانب اٹھیں اور اس کے دماغ میں تناوش کی معصومیت بھری آوازگونجی ۔”میں نے ناپے ہیں ،اس گندے مشروب کی بوتل میں چھے گلاس ہوتے ہیں ۔“
”مسکرانے کیوں لگے ۔“نگی کی آواز نے اسے احساس دلایا کہ تناوش کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے وہ بے ساختہ مسکرا پڑا تھا۔
”کچھ نہیں ۔“سر جھٹک کر اس نے انٹرکام کا رسیور اٹھایا۔”عظیم دو بوتل وہسکی اور.... تم کیا لو گی ؟“عظیم سے بات کرتے کرتے وہ نگی سے پوچھنے لگا ۔
وہ جلدی سے بولی ۔”اسکاچ۔“
”اور ایک بوتل اسکاچ کی راحت خالہ کے ہاتھ بھیج دو ۔“
”جی دادا۔“عظیم مودّبانہ لہجے میں بولا ۔
رسیور رکھ کر وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا ۔تناوش کے آنے کے بعد سے اسے کپڑوں کی الماری کھولنے کا موقع نہیں ملا تھا ۔اس سے پہلے بھی کام کرنے کے لیے ملازم موجود رہتے تھے ،مگر تناوش کی خدمت گزاری تو محبت ،خلوص اور عقیدت میں ڈوبی ہوئی تھی ۔اس کا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی وہ اپنے ہاتھوں سے کرنا پسند کرتی ۔ملازم کبھی یہ غور نہیں کرتے تھے کہ اس کی جرابیں یا انڈر ویئر کتنا میلا ہو گیا ہے ۔نہ خود وہ اتنا صفائی پسند تھا ۔کبھی کبھی تو وہ ایک ہی جرابوں کے جوڑے میں ہفتہ ہفتہ گزار دیتا تھا ۔مگر اب روزانہ دھلی ہوئی جرابیں بوٹوں میں ملتیں ،صاف انڈر ویئر پہننے والے سوٹ کے ساتھ لٹکا ہوا ملتا ۔الماری کھولتے ہی اسے تمام سوٹ ایک ترتیب سے لٹکے نظر آئے ۔میلے سوٹ یقینا اس نے ڈرائی کلین کے لیے بھجوا دیے تھے ۔اس نے دوسری الماری کھولی شلوار سوٹ لٹکے ہوئے تھے ۔الماری کی دراز کھولنے پر اسے صاف ستھری تہہ کی ہوئی جرابیں نظر آئیں۔ دراز سے اٹھتی خوشبو نے اس پر واضح کیا کہ وہ جرابوں پر خوشبو چھڑک کر رکھتی ہے ۔تیسری الماری میں اسے تناوش کے چار پانچ سوٹ لٹکے نظر آئے دو کالج کی یونیفارم تھیں ،ایک سرخ رنگ کا جوڑا جو اس نے پہلی رات پہنا تھا ۔کبیردادا کا لایا ہوا سوٹ بھی وہیں لٹکا تھا۔اس نے گہرا سانس اندر کھینچا تناوش کے وجود کی خوشبو اس کی رگ و پے میں اترتی چلی گئی ۔
”بے وقوف لڑکی تم نہیں جانتیں میں کیوں تمھیں دور کر رہا ہوں ،میں تمھاری دنیا کا آدمی نہیں ہوں ،تم صاف شفاف شبنم کے قطروں سے دھلا ہوا گلاب کا پھول ہو اور میں ببول کا درخت ۔یہاں تمھاری کوئی جگہ نہیں ہے ۔آج رو رہی ہو مگر کل ضرور مسکراﺅ گی ۔آخر میں تمھیں دے ہی کیا سکتا ہوں ۔جرم کی دنیا میں تم زیادہ دن خوش نہیں رہ پاﺅ گی اور میں تو اس دلدل سے چاہ کر بھی نہیں نکل سکتا ۔اس دنیا میں آمد کا رستا بے شک کھلا ہے واپسی کا کوئی رستا نہیں ۔“
اس کاشب خوابی کا لباس تناوش کے کپڑوں کے ساتھ ہی لٹکا ہوا تھا ۔کپڑے تبدیل کر کے وہ باہر نکلا ۔نگی بڑے انداز سے صوفے پر بیٹھی تھی ۔کوئی بھی مرد اسے اس حالت میں دیکھ کر اپنی بے قابو ہوتی دھڑکنوں پر قابو نہ پا سکتا ،مگر عجیب بات تھی کبیر دادا پر اس کی ادائیں کوئی اثر نہیں کر رہی تھیں ۔اس کے لطیف جذبات جانے کہاں جا چھپے تھے ۔اس کی نظروں میں تو بس تناوش کے پھڑپھڑاتے لب اور ڈبڈبائی آنکھوں کا منظر ٹھہر چکا تھا ۔وہ اسے اپنی سوچ سے جھٹک نہیں پا رہا تھا۔بہ قول شاعر....
نظر سے دور رہ کر بھی کسی کی سوچ میں رہنا
کسی کے پاس رہنے کا طریقہ ہو تو تم جیسا
وہ صوفے کے دوسرے کونے میں جا کر بیٹھ گیا ۔
”بڑے خاموش خاموش سے ہو ۔“وہ کھسک کر اس کے قریب ہوئی ۔
”کچھ نہیں یار ۔“کبیردادا کا انداز ٹالنے والا تھا ۔
”کیا اچھی نہیں لگ رہی ۔“اس کا ہاتھ کبیردادا کی چھاتی پر رینگنے لگا ۔اسے مردوں کو لبھانے اور اپنے بس میں کرنے کا طریقہ اچھی طرح معلوم تھا ۔
اس کا ملائم ہاتھ کبیردادا کو لجلجے سانپ کی مانند محسوس ہوا ۔وہ خوشبو میں نہائی ہوئی تھی ، اتنی تیز خوشبو بھی تناوش کے بدن کی قدرتی خوشبو کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو رہی تھی ۔اس کی خوب صورت بھوری آنکھیں ،میک اپ زدہ چہرہ ریشمی بال ،گداز بدن کچھ بھی تو کبیردادا کو متاثر نہیں کر پا رہا تھا ۔اس کے دل کو تو بس تناوش کی آخری نگاہ مسلے جا رہی تھی ۔
دروازے پر دستک ہوئی اور کبیردادا نے نگی کو نرمی سے دور کرتے ہوئے کہا ۔
”آجاﺅ۔“
راحت خالہ ٹرے میں تین بوتلیں سجائے دروازے پر نمودار ہوئی ۔اس نے نظر بھر کر نگی کو دیکھا اور شیشے کی میز پر ٹرے رکھ کر واپس مڑ گئی ۔اس کی آنکھیں نگی کو دیکھتے ہوئے قہر برساتی ہوئی لگ رہی تھیں ۔
نگی نے کہا ۔”کچھ کھانے کو بھی منگوا لو ۔یابھوکا رکھنے کا ارادہ ہے ۔“
”راحت خالہ بات سنو ۔“کبیردادا راحت خالہ کو آواز دے کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”کیا کھاﺅ گی ؟“
وہ دلربائی سے بولی ۔”کچھ اچھا سا منگوا لو ۔“
”ڈرائیور کو بھیج کر تین ،چار قسم کے اچھے کھانے منگوا لو ۔“اس نے چناﺅ کی ذمہ داری راحت خالہ پر چھوڑ دی تھی ۔
”جی صاحب جی ۔“
”اور ہاں ....تناوش سے پوچھ کر اس کے کھانے کے لیے بھی کچھ منگوا لینا ۔“
راحت خالہ کے چہرے پر خوشی نمودار ہوئی ۔”جی صاحب ۔“کہہ کر وہ دوبارہ مڑ گئی ۔ یقینا کبیردادا کو تناوش کا خیال تھا ورنہ یوں کیوں کہتا ۔
”کتنا خیال رکھتے ہوئے اپنی دلھن کا ۔“وہ برف لینے کے لیے مٹکتے ہوئے فرج کی طرف بڑھ گئی ۔
کبیردادا نے اس کے نظر بہکاتے وجود سے بے نیاز ہو کرصوفے کی پشت سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کر لیں ۔”تناوش کا اداس چہرہ ایک دم اس کی آنکھوں کے سامنے نمودار ہو گیا ۔ ڈبڈبائی آنکھیں اور لرزتے ہونٹ اسے بے کل کر رہے تھے ۔جانے کیوں اسے یقین تھا کہ وہ رو رہی ہو گی ۔
جاری ہے

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.